Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111یعنی اس کی ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ جب تمہاری موت کا وقت آجائے تو وہ آکر روح قبض کرلے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٢] یہ کفار کے اعتراض کا مکمل جواب ہے یعنی کفار جو یہ کہتے ہیں کہ جب ہم مٹی میں مل جائیں گے تو یہ ہم کا تصور کہاں سے آیا ؟ واضح سی بات ہے کہ گوشت پوست کے مجموعہ پر لفظ ہم یا تم کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ اور مرنے کے بعد گوشت پوست تو واقعی مٹی میں مل جائے گا۔ مگر یہ ہم یا تم تو مٹی میں نہیں مل سکتا۔ یہی وہ چیز ہے جو تم میں ہم نے پھونکی تھی۔ جس کی وجہ سے تم لوگ اپنے آپ کو ہم یا تم کہتے ہو۔ اور یہی چیز یا روح ہماری طرف سے تمہاری موت پر مقرر کردہ فرشتہ اپنے قبضہ میں کرلیتا ہے۔ اب تمہاری روح پھر ہمارے پاس آگئی۔ زمین کے جن عناصر سے تم پہلے بنے تھے۔ انھیں عناصر سے تم پھر بھی بنائے جاسکتے ہو۔ بلکہ زیادہ آسانی سے بنائے جاسکتے ہو۔ اور تمہاری روح جو ہمارے قبضہ میں ہے۔ وہ پھر ہم تمہارے اجسام مٹی سے ہی بنا کر ان میں ڈال دیں گے اور اپنے پاس تمہیں لا حاضر کریں گے۔ اس وقت بھی وہی ہم تم میں موجود ہوگا۔ جو آج موجود ہے۔ اور اسی ہم سے تمہارے اعمال کی باز پرس ہوگی۔- واضح ہے کہ یہاں روح سے مراد روح حیوانی نہیں ہے جو ہر ذی حیات کو متحرک کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ بلکہ یہاں روح سے مراد روح انسانی ہے۔ جس کی بنا پر انسان دوسرے تمام حیوانات سے ممتاز ہوا۔ اسے عقل و شعور بخشا گیا اور ارادہ و اختیار دے کر خلافت ارضی کا حامل بنایا گیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ يَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُكِّلَ بِكُمْ : یعنی تم اپنے آپ کو محض بدن اور دھڑ سمجھتے ہو کہ خاک میں رل مل کر برابر ہوگئے۔ ایسا نہیں، بلکہ تم اصل میں ” جان “ (روح) ہو، جسے فرشتہ لے جاتا ہے، بالکل فنا نہیں ہوتے۔ (موضح) ” وُكِّلَ بِكُمْ “ کے لفظ سے معلوم ہوا کہ فرشتہ وہی جان نکالتا ہے جس کا اسے حکم ہو، خود اس کا اختیار کچھ نہیں۔- :” ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ “ پاِلٰى رَبِّكُمْ ہلے لانے کی وجہ سے ترجمہ کیا گیا ہے : ” پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ “- 3 ملک الموت کا نام عام طور پر عزرائیل مشہور ہے، مگر کتاب و سنت میں یہ بات کہیں مذکور نہیں، محض اسرائیلی روایت ہے۔ دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ لوگوں کو ایک فرشتہ نہیں بلکہ کئی فرشتے فوت کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ ) [ الأنعام : ٦١ ] ” یہاں تک کہ جب تمہارے کسی ایک کو موت آتی ہے اسے ہمارے بھیجے ہوئے قبض کرلیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔ “ مزید دیکھیے سورة نساء (٩٧) ، انعام (٩٣) اور سورة محمد (٢٧) اہل علم نے اس کی توجیہ یہ فرمائی ہے کہ روحیں قبض کرنے پر مقرر فرشتہ ایک ہی ہے جس کا یہاں ذکر ہے، لیکن اس کے ساتھ مدد کرنے والے فرشتے بھی ہیں جو مختلف طرح سے اس کی مدد کرتے ہیں، جیسا کہ براء بن عازب (رض) کی طویل حدیث میں مومن اور کافر کی جان نکلنے کا ذکر ہے کہ ملک الموت جب میت کی روح نکالتا ہے تو دوسرے فرشتے اس کے ہاتھ سے تیزی کے ساتھ لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ [ دیکھیے مسند أحمد : ٤؍٢٨٧، ح : ١٨٥٦١ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - (آیت) قل یتو فکم ملک الموت الذی وکل بکم، اس سے پہلی آیت میں منکرین قیامت کو تنبیہ اور ان کے اس استعجاب کا جواب تھا کہ مرنے اور مٹی ہوجانے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ ہوں گے، اس آیت میں اس کا بیان ہے کہ اپنی موت پر دھیان دو اور غور کرو تو وہ خود حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ایک بڑا مظہر ہے، تم اپنی غفلت و جہل سے سمجھتے ہو کہ انسان کی موت خود بخود آجاتی ہے، بات یہ نہیں بلکہ اللہ کے نزدیک تمہاری موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ اور اس کے لئے فرشتوں کا ایک خاص نظام ہے۔ جن میں بڑے عزرائیل (علیہ السلام) ہیں کہ ساری دنیا کی موت ان کے انتظام میں دی گئی ہے۔ جس شخص کی جس وقت، جس جگہ موت مقدر ہے ٹھیک اسی وقت وہ اس کی روح قبض کرتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں اسی کا بیان ہے اور اس میں ملک الموت بلفظ مفرد ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد عزرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ اور ایک دوسری آیت میں فرمایا ہے (آیت) الذین تتو فھم الملاکة۔ اس میں ملائکہ بلفظ جمع لایا گیا ہے، اس میں اشارہ ہے کہ عزرائیل (علیہ السلام) تنہا یہ کام انجام نہیں دیتے، ان کے ماتحت بہت سے فرشتے اس میں شریک ہوتے ہیں۔- قبض روح اور ملک الموت کے متعلق بعض تفصیلات :- امام تفسیر مجاہد نے فرمایا کہ ساری دنیا ملک الموت کے سامنے ایسی ہے جیسے کسی انسان کے سامنے ایک کھلے طشت میں دانے پڑے ہوں، وہ جس کو چاہے اٹھا لے۔ یہ مضمون ایک مرفوع حدیث میں بھی آیا ہے (ذکرہ القرطبی فی التذکرہ)- اور ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی کے سرہانے ملک الموت کو دیکھا تو فرمایا کہ میرے صحابی کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرو۔ ملک الموت نے جواب دیا کہ آپ مطمئن رہیں، میں ہر مومن کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرتا ہوں اور فرمایا کہ جتنے آدمی شہروں میں یا دیہات اور جنگلوں پہاڑوں میں یا دریا میں آباد ہیں) میں ان میں سے ہر ایک کو دن میں پانچ مرتبہ دیکھتا ہوں۔ اس لئے میں ان کے ہر چھوٹے بڑے سے بلاواسطہ واقف ہوں۔ پھر فرمایا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ جو کچھ ہے اللہ کے حکم سے ہے ورنہ میں اگر ایک مچھر کی روح بھی قبض کرنا چاہوں تو مجھے اس پر قدرت نہیں، جب تک اللہ تعالیٰ ہی کا امر اس کے لئے نہ آجائے۔- کیا جانوروں کی روح ملک الموت قبض کرتے ہیں :- مذکورہ روایت حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مچھر کی روح بھی باذن خداوندی ملک الموت ہی قبض کرتے ہیں۔ حضرت امام مالک نے ایک سوال کے جواب میں یہی فرمایا ہے، مگر بعض دوسری روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے کے ذریعہ قبض روح انسان کے لئے مخصوص ہے، اس کی شرافت و کرامت کے لئے باقی جانور باذن خداوندی بغیر واسطہ فرشتے کے مر جائیں گے (ذکرہ ابن عطیہ از قرطبی)- یہی مضمون ابوالشیخ، عقیلی، دیلمی وغیرہ نے حضرت انس کی روایت سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بہائم اور حشرات الارض سب کے سب اللہ کی تسبیح میں مشغول رہتے ہیں (یہی ان کی زندگی ہے) جب ان کی تسبیح ختم ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی روح قبض فرما لیتا ہے، جانوروں کی موت ملک الموت کے سپرد نہیں۔ اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت ابن عمر سے بھی روایت کی گئی ہے۔ (مظہری)- اور ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے عزرائیل (علیہ السلام) کے سپرد ساری دنیا کی موت کا معاملہ کیا تو انہوں نے عرض کیا اے میرے پروردگار آپ نے مجھے ایسی خدمت سپرد کی کہ ساری دنیا اور سب بنی آدم مجھے برا کہیں گے اور جب میرا ذکر آئے گا برائی سے کریں گے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تدارک اس طرح کردیا ہے کہ دنیا میں موت کے کچھ ظاہری اسباب اور امراض رکھ دیئے ہیں جن کے سبب سب لوگ موت کو ان اسباب وامراض کی طرف منسوب کریں گے آپ ان کی بدگوئی سے محفوظ رہیں گے۔ (قرطبی فی التفیر والتذکرہ)- اور امام بغوی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جتنے امراض اور درد اور زخم وغیرہ ہیں وہ سب موت کے قاصد ہیں، انسان کو اس کی موت یاد دلاتے ہیں، پھر جب موت کا وقت آجاتا ہے تو ملک الموت مرنے والے کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اے بندہ خدا میں نے اپنے آنے سے پہلے کتنی خبریں، کتنے قاصد یکے بعد دیگرے تجھے خبردار کرنے اور موت کی تیاری کرنے کے لئے بصورت امراض و حوادث بھیجے ہیں۔ اب میں آپہنچا۔ جس کے بعد کوئی اور خبر دینے والا یا کوئی قاصد نہیں آئے گا اب تم اپنے رب کے حکم کو لامحالہ مانو گے خواہ خوشی سے یا مجبوری سے۔ (مظہری) - مسئلہ :- ملک الموت کسی کی موت کا وقت پہلے سے نہیں جانتا، جب تک کہ اس کو حکم نہ دیا جائے کہ فلاں کی روح قبض کرلو۔ (اخرجہ احمد وابن ابی الدنیا عن معمر، مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ يَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ۝ ١١ۧ- وفی ( موت)- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] ، وقال : وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران 185] ، ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ- [ البقرة 281] ، إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر 10] ، مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود 15] ، وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال 60] ، فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور 39] ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ- [ الأنعام 60] ، قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة 11] ، اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل 70] ، الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 28] ، تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام 61] ، أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] ، وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران 193] ، وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف 126] ، تَوَفَّنِي مُسْلِماً [يوسف 101] ، يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ- [ آل عمران 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه - اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران 185] اور تم کو تہمارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر 10] جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود 15] جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں پورا پورا دے دتیے ہیں ۔ وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال 60] اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیاجائے گا : ۔ فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور 39] تو اس سے اس کا حساب پورا پورا چکا دے ۔ اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة 11] کہدو کہ موت کا فرشتہ تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل 70] اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا پھر وہی تم کو موت دیتا ہے ۔ الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 28] ( ان کا حال یہ ہے کہ جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں ۔ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام 61]( تو ) ہمارے فرشتے ان کی روحیں قبض کرلیتے ہیں ۔ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں ۔ وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران 193] اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا ۔ وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف 126] اور ہمیں ماریو تو مسلمان ہی ماریو ۔ مجھے اپنی اطاعت کی حالت میں اٹھائیو ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

آپ ان سے فرما دیجیے کہ تمہاری روحیں موت کا فرشتہ قبض کرتا ہے جو تمہاری جانیں قبض کرنے پر مقرر ہے اور پھر آخرت میں تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹا کر لائے جاؤ گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :21 یعنی تمہارا ہم مٹی میں رَل مِل نہ جائے گا ، بلکہ اس کی مہلت عمل ہوتے ہی خدا کا فرشتہ موت آئے گا اور اسے جسم سے نکال کر سَمُوچا اپنے قبضے میں لے لے گا ۔ اس کا کوئی ادنیٰ جز بھی جسم کے ساتھ مٹی میں نہ جا سکے گا ۔ اور وہ پورا کا پورا حراست ( ) میں لے لیا جائے گا اور اپنے رب کے حضور پیش کر دیا جائے گا ۔ اس مختصر سی آیت میں بہت سے حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے : ۱ ) ۔ اس میں تصریح ہے کہ موت کچھ یوں ہی نہیں آجاتی کہ ایک گھڑی چل رہی تھی ، کو ک ختم ہوئی اور وہ چلتے چلتے یکایک بند ہو گئی ۔ بلکہ دراصل اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرشتہ مقرر کر رکھا ہے جو آ کر باقاعدہ روح کو ٹھیک اسی طرح وصول کرتا ہے جس طرح ایک سرکاری امین ( ) کسی چیز کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر اس کی مزید تفصیلات جو بیان کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس افسر موت کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے جو موت وارد کرنے اور روح کو جسم سے نکالنے اور اس کو قبضے میں لینے کی بہت سی مختلف النوع خدمات انجام دیتا ہے ۔ نیز یہ کہ اس عملے کا برتاؤ مجرم روح کے ساتھ کچھ اور ہوتا ہے اور مومن صالح روح کے ساتھ کچھ اور ۔ ( ان تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نساء ، آیت ۹۷ ۔ الانعام ، ۹۳ ۔ النحل ، ۲۸ ۔ الواقعہ ، ۸۳ ۔ ۹٤ ۔ ۲ ) ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت سے انسان معدوم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی روح جسم سے نکل کر باقی رہتی ہے ۔ قرآن کے الفاظ موت کا فرشتہ تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لیگا ۔ اسی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ کوئی معدوم چیز قبضے میں لینے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ مقبوضہ چیز قابض کے پاس رہے ۔ ۳ ) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت جو چیز قبضے میں لی جاتی ہے وہ آدمی کی حیوانی زندگی ( ) نہیں بلکہ اس کی وہ خودی ‘ اس کی وہ اَنا ( ) ہے جو میں اور ہم اور تم کے الفاظ سے تعبیر کی جاتی ہے ۔ یہ انا دنیا میں کام کر کے جیسی کچھ شخصیت بھی بنتی ہے وہ پوری جوں کی توں ( ) نکال لی جاتی ہے بغیر اس کے کہ اس کے اوصاف میں کو ئی کمی بیشی ہو ۔ اور ہی چیز موت کے بعد اپنے رب کی طرف پلٹائی جاتی ہے ۔ اسی کو آخرت میں نیا جنم اور نیا جسم دیا جائے گا اسی پر مقدمہ قائم کیا جائے گا ‘ اسی سے حساب لیا جائے گا اور اسی کو جزا و سزا دیکھنی ہو گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani