تنبیہ کی ایک موثر صورت یہ بھی ہے کہ بڑے کو کہا جائے تاکہ چھوٹا چوکنا ہوجائے ۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی بات تاکید سے کہے تو ظاہر ہے کہ اوروں پر وہ تاکید اور بھی زیادہ ہے ۔ تقویٰ اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ثواب کے طلب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے ۔ اور فرمان باری کے مطابق اس کے عذابوں سے بچنے کے لئے اس کی نافرمانیاں ترک کی جائیں ۔ کافروں اور منافقوں کی باتیں نہ ماننا نہ ان کے مشوروں پر کاربند ہونا نہ ان کی باتیں قبولیت کے ارادے سے سننا ۔ علم وحکمت کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے چونکہ وہ اپنے وسیع علم سے ہر کام کا نتیجہ جانتا ہے اور اپنی بےپایاں حکمت سے اس کی کوئی بات کوئی فعل غیر حکیمانہ نہیں ہوتا تو تو اسی کی اطاعت کرتا رہ تاکہ بد انجام سے اور بگاڑ سے بچارہے ۔ جو قرآن وسنت تیری طرف وحی ہو رہا ہے اس کی پیروی کر اللہ پر کسی کا کوئی فعل مخفی نہیں ۔ اپنے تمام امور واحوال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھ ۔ اس پر بھروسہ کرنے والوں کو وہ کافی ہے ۔ کیونکہ تمام کارسازی پر وہ قادر ہے اس کی طرف جھکنے والا کامیاب ہی کامیاب ہے ۔
2 1آیت میں تقویٰ پر مداومت اور تبلیغ و دعوت میں استقامت کا حکم ہے۔ طلق بن حبیب کہتے ہیں، تقویٰ کا مطلب ہے کہ اللہ کی اطاعت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق کرے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھے اور اللہ کی معصیت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق ترک کر دے، اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے (ابن کثیر) 2 2پس وہی اس بات کا حق دار ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اس لئے نتائج کو وہی جانتا ہے اور اپنے اقوال و افعال میں وہ حکیم ہے
[١] جنگ احد کے بعد مدینہ پر خوف وہراس کی فضا :۔ اگرچہ اس سورة کا اکثر حصہ جنگ (احزاب ٥ ھ) کے بعد نازل ہوا تاہم ابتدائی آیات جنگ احزاب سے بہت پہلے کی ہیں۔ مکہ میں تو آپ کے اور مسلمانوں کے دشمن صرف قریش مکہ تھے۔ مگر مدینہ جانے کے بعد مدینہ کے یہود، مشرکین اور منافقین سب آپ کے دشمن بن گئے تھے۔ جو اسلام اور پیغمبر اسلام کو بدنام کرنے اور صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر تلے بیٹھے تھے۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کو جو عارضی طور پر شکست ہوئی تھی اس نے دشمنوں کے حوصلے بہت بڑھا دیئے تھے۔ مشرک قبائل نے دو دفعہ رسول اللہ کو دھوکا دے کر تبلیغ کے لئے قاریوں کا مطالبہ کیا اور پھر انھیں قتل کردیا۔ مدینہ پر ہر وقت خوف و ہراس کی فضا طاری رہتی تھی۔ اور اعدائے اسلام نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کی مہم بڑی تیز کر رکھی تھی۔- خ معاشرتی اصلاحات اور غلامی کا مسئلہ :۔ اور یہی وہ دور تھا جس میں بذریعہ وحی مسلمانوں کی اخلاقی تربیت اور معاشرتی اصلاحات کا سلسلہ بھی جاری تھا اور معاشرتی اصلاحات کے سلسلہ میں ایک نہایت اہم مسئلہ غلامی کا تھا۔ عرب معاشرہ میں غلامی کا اتنا زیادہ رواج تھا کہ اگر یوں کہا جائے کہ اس دور میں عرب آبادی کا آدھے سے زیادہ حصہ غلاموں پر مشتمل تھا تو غلط نہ ہوگا۔ پھر ان غلاموں کو آزاد انسانوں سے بہت حقیر اور کم تر درجہ کی مخلوق سمجھا جاتا تھا اور اسلام اس سلسلہ میں کئی اصلاحات کرنا چاہتا تھا۔- خ غلام اور آزاد کی طبقاتی تقسیم :۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ تھی کہ زید بن حارثہ آپ کا غلام تھا۔ جسے آپ نے آزاد کرکے اپنا متبنیٰ بنا لیا تھا۔ چناچہ لوگ سیدنا زید کو زید بن محمد کہا کرتے تھے۔ یہ آزاد کردہ غلام بھی معاشرہ میں وہ مقام نہیں رکھتے تھے جو آزاد لوگوں کا ہوتا تھا۔ گویا یہ معاشرتی عزت و وقار کے لحاظ سے ایک درمیانہ قسم کا تیسرا طبقہ بن جاتا تھا جو غلاموں سے تو اوپر ہوتا تھا لیکن آزاد لوگ انھیں بھی اپنا ہم پلہ قرار نہیں دیتے تھے۔ اس سلسلہ میں اسلام نے کئی اقدامات کئے اور کئی اصلاحات کیں۔ مثلاً اسلام نے اگرچہ کلی طور پر غلامی کا استیصال نہیں کیا کیونکہ اس میں بھی کچھ مصلحتیں تھیں تاہم ایسی تدابیر اختیار کیں جن سے زیادہ سے زیادہ غلاموں کو آزادی کی نعمت میسر ہو اور یہ ایک جداگانہ موضوع ہے۔ جو خاصا تفصیل طلب ہے۔ - خ آپ کے آزاد کردہ غلام زید کا سیدہ زینب سے نکاح :۔ آزاد شدہ غلاموں کے سلسلہ میں اسلام کا منشا یہ تھا کہ کم از کم ایسے لوگوں کو ازاد لوگوں کے برابر درجہ دیا جائے۔ چناچہ اسی منشائے الٰہی کے مطابق آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام اور متبنیٰ زید کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینب سے رشتہ کا مطالبہ کردیا۔ سیدہ زینب کا خاندان آپ ہی کا خاندان تھا۔ جو آزاد معاشرہ میں بڑے اونچے درجہ کے لوگ شمار ہوتے تھے وہ بھلا کیسے اس رشتہ کو قبول کرسکتے تھے ؟ چناچہ انہوں نے اسی بنا پر رشتہ سے صاف انکار کردیا اور رشتہ کا یہ مطالبہ چونکہ رسول اللہ نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے کیا تھا۔ لہذا ان لوگوں کے انکار پر اسی سورة کی آیت نمبر ٣٦ نازل ہوئی۔ جس میں سیدہ زینب کے رشتہ داروں کو مطلع کردیا گیا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ کرلیں تو مومنوں کا کچھ اختیار باقی نہیں رہ جاتا چناچہ انہوں نے اللہ کے اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور سیدنا زید اور سیدہ زینب کی شادی ہوگئی۔ مگر شادی کے بعد بھی زوجین کے تعلقات میں خوشگواری نہ آسکی۔ اور اس کی وجہ وہی طبقاتی امتیاز تھا جو معاشرہ میں جڑ پکڑ چکا تھا۔- خ آپ کا زید کو سمجھانا اور طلاق کی نوبت :۔ سیدہ زینب نے اللہ کے حکم کے سامنے تو سر تسلیم خم کردیا مگر طبیعت کا یکدم بدل جانا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ اور وہ اپنے خاوند کا وہ احترام نہ کرسکیں جو ایک بیوی کو اپنے خاوند کا کرنا چاہئے۔ سیدنا زید چونکہ رسول اللہ کے چہیتے بھی تھے اور متبّنی بھی۔ لہذا انہوں نے کئی بار آپ سے اپنی اس تکلیف اور ذہنی کوفت کی شکایت کی۔ اور یہ بھی کہا کہ میں زینب کو طلاق دے دوں گا۔ مگر آپ سیدنا زید کو طلاق سے منع ہی فرماتے رہے۔- خ ہر مشکل کام کا آغاز نبی کی ذات سے : سیدہ زینب سے نکاح کا حکم :۔ عرب معاشرہ میں ایک اور بگاڑ بھی موجود تھا جو یہ تھا کہ یہ لوگ متبنیٰ کو ہر لحاظ سے اپنے حقیقی بیٹوں کی مانند قرار دیتے تھے اور اس مسئلہ میں بھی اسلام اصلاحی قدم اٹھانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ قدم چونکہ انتہائی مشکل قدم تھا۔ اور جو شخص بھی اس بند دروازے کو کھولنے کا ارادہ کرتا اسے سارے عرب معاشرہ کے طعن وتشنیع کا ہدف بننا پڑتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مشکل کام کے لئے نبی کی ذات کو منتخب کیا۔ جن دنوں سیدنا زید سیدہ زینب کو طلاق دینے کا سوچ رہے تھے۔ اسی دور میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ مل چکا تھا کہ اب سیدہ زینب کا آپ سے نکاح کیا جائے گا۔ اس اشارہ حکم الٰہی سے دو مصلحتیں مقصود تھیں ایک یہ کہ سیدہ زینب جس نے اپنی طبیعت کی ناگواری کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تھا آئندہ آپ سے نکاح کرکے اس کی دلجوئی کی جائے اور دوسری مصلحت یہ تھی کہ معاشرہ میں اس غلط نظریہ کا قلع قمع کیا جائے کہ متبنّیٰ بھی ہر لحاظ سے حقیقی بیٹے کی طرح ہوتا ہے۔- خ نکاح پر کافروں اور منافقوں کا طعن وتشنیع :۔ جب آپ کو وحی سے سیدہ زینب سے نکاح کا اشارہ ملا۔ تو آپ کے سامنے وہ سارے خطرات آنے لگے۔ جب سارے کے سارے دشمن آپ کو یہ طعنہ دیں گے کہ دیکھو اس نبی نے تو اپنی بہو سے نکاح کرلیا ہے حالانکہ یہ خود ہی بہو سے نکاح کرنا حرام بتاتا ہے۔ غالباً طعن وتشنیع کے انھیں خطرات کے پیش نظر آپ زید کو بار بار طلاق دینے سے روکتے رہے۔ اسی پس منظر میں اس سورة کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے نبی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں ان کافروں اور منافقوں سے نہ ڈرنے کی ضرورت ہے نہ ان کی باتوں پر کان دھرنے کی۔ ڈرنے کے لائق تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ تم صرف اسی سے ڈرو اور اسی کی وحی کی اطاعت کرو۔ اللہ اپنے احکام کی حکمت خوب جانتا ہے کہ وہ کیوں ایسا حکم دے رہا ہے اور جو لوگ اس نکاح کے رد عمل میں شور و غوغا بپا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی پوری طرح باخبر ہے۔
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ ۔۔ : سورت کا آغاز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ “ کے خطاب سے ہوتا ہے۔ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکریم و تشریف مقصود ہے، کیونکہ قرآن مجید میں دوسرے انبیاء کو ان کے ناموں کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے، جیسا کہ ” یَاٰدَم، ینوح، یابراھیم، یعیسیٰ “ وغیرہ، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ “ اور ” يٰٓاَيُّهَا الرسول “ کے ساتھ ہی مخاطب کیا گیا ہے۔- 3 اس سورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پانچ دفعہ ” يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ “ کے ساتھ مخاطب فرمایا ہے، ایک یہ آیت، دوسری آیت (٢٨) : (ۧيٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا ) ، تیسری آیت (٤٥) : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ) ، چوتھی آیت (٥٠) : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ ) اور پانچویں آیت (٥٩) : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ ) اس سے ظاہر ہے کہ اس سورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذاتی معاملات کا خاص طور پر ذکر ہے۔ اگرچہ مقصود امت کی تعلیم بھی ہے۔- اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ : یہ سورت سن پانچ ہجری کے آخر میں غزوۂ احزاب کے زمانے میں نازل ہوئی۔ یہ وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر نہایت مشکل اور آزمائش کا تھا، کیونکہ قریش، غطفان، ہذیل اور پورے عرب کے مشرکین مل کر اسلام کو مٹانے کی آخری کوشش کے لیے دس ہزار کا لشکر لے کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ ان کی مدد مدینہ کے یہود اور منافقین بھی کر رہے تھے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ اسی زمانے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زمانۂ جاہلیت کی کچھ ایسی رسوم کو توڑنے کا حکم ہوا جو اس وقت سب لوگوں کے ہاں مسلّمہ تھیں، مثلاً بیوی کو ماں کہہ دیا جائے تو اسے ماں ہی کی طرح حرام سمجھنا، منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کا مقام دے کر وارث بنانا، اس کی بیوی کے ساتھ بہو کی طرح نکاح حرام سمجھنا وغیرہ۔ متبنٰی (منہ بولا بیٹا) بنانے کی یہ رسم اتنی مستحکم تھی کہ جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود اپنے عمل سے اسے نہ توڑتے اس کا ختم ہونا مشکل تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت سے پہلے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا۔ جاہلیت کی رسوم میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ غلام آزاد بھی ہوجائے تو وہ اسے حقیر ہی سمجھتے اور آزاد لوگوں کا درجہ دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے اس رسم کو توڑا اور اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب بنت جحش (رض) کا نکاح، جو نہایت عالی خاندان سے تھیں، اپنے آزاد کردہ غلام زید (رض) کے ساتھ کردیا، مگر دونوں میں موافقت نہ ہوسکی، تو زید (رض) نے اسے طلاق دے دی۔ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش تھی کہ زینب (رض) سے نکاح کرلیں، کیونکہ اس نے زید سے نکاح کرکے بہت بڑی قربانی دی تھی اور اس کی دل جوئی بھی مقصود تھی۔ مگر ڈر یہ تھا کہ پورے عرب کے مشرکین اور منافقین اس پر طعن و تشنیع کا طوفان برپا کردیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہو سے نکاح کو حرام کہتے ہیں اور خود بہو سے نکاح کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ چار بیویوں سے نکاح جائز تھا، اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زینب سے نکاح کرتے تو یہ پانچویں بیوی ہوتی، کیونکہ اس سے پہلے سودہ، عائشہ، حفصہ اور ام سلمہ آپ کے نکاح میں تھیں۔ اس پر بھی کفار و منافقین کو طعن کا موقع ملتا، اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ ۔۔ “ کہہ کر زیادہ بیویاں رکھنے کی خصوصی اجازت عطا فرمائی۔ غرض اس قسم کی کئی باتوں کی اصلاح کرنا تھی، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار و منافقین کے طوفان اٹھانے کے خوف سے انقباض محسوس کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورت کا آغاز ہی اس بات سے کیا : ” اے نبی اللہ سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کا کہنا مت مان۔ “ یہ لمبی بات کو مختصر کرنے کی ایک خوب صورت مثال ہے، جو یہ تھی کہ اللہ سے ڈر، کفار و منافقین یا کسی اور سے مت ڈر اور اللہ کا حکم مان اور کفار و منافقین کا کہنا مت مان۔ - اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا :” اِنَّ “ عموماً تعلیل کے لیے ہوتا ہے، یعنی یہ کسی بات کی وجہ بیان کرتا ہے۔ ” بیشک اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہر چیز کا علم رکھنے والا، کمال حکمت والا ہے “ یعنی اس کے احکام، علم و حکمت پر مبنی ہیں، جب کہ کفار کے رسوم و رواج اور ضابطوں کی بنیاد وہم و گمان، جہل اور بےوقوفی پر ہے۔ آگے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ منہ سے کہہ دینے سے کوئی عورت ماں نہیں بن جاتی، نہ کوئی شخص منہ سے کہہ دینے سے بیٹا بن جاتا ہے۔ وہ تقدیس جو حقیقی ماں، بہن، بیٹی اور بہو کے رشتے میں ہوتی ہے، مصنوعی رشتے میں کبھی نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ رشتے عام میل ملاپ کی وجہ سے برائی پھیلنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس لیے کسی کافر یا منافق سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، ایک اللہ سے ڈریں اور اسی کا حکم مان کر جاہلیت کی ان تمام رسوم کا خاتمہ کردیں۔- 3 اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے امت کو تنبیہ کی مؤثر ترین صورت اختیار فرمائی گئی ہے کہ جب یہ حکم سب سے بڑے شخص کو ہے تو دوسروں کے لیے تو اس کی تاکید اس سے بھی زیادہ ہے۔
خلاصہ تفسیر - اے نبی اللہ سے ڈرتے رہئے (اور کسی سے نہ ڈریئے اور ان کی دھمکیوں کی ذرا پروا نہ کیجئے) اور کافروں کا (جو کھلم کھلا دین کے خلاف مشورے دیتے ہیں) اور منافقوں کا (جو درپردہ ان کے ساتھ متفق ہیں) کہنا نہ مانئے (بلکہ اللہ ہی کا کہنا کیجئے) بیشک اللہ تعالیٰ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے (اس کا ہر حکم فوائد اور مصالح پر مشتمل ہوتا ہے) اور (اللہ کا کہنا ماننا یہ ہے کہ) آپ کے پروردگار کی طرف سے جو حکم آپ پر وحی کیا جاتا ہے اس پر چلئے (اور اے لوگو) بیشک تم لوگوں کے سب اعمال کی اللہ تعالیٰ پوری خبر رکھتا ہے (تم میں سے جو ہمارے پیغمبر کی مخالفت اور مزاحمت کر رہے ہیں ہم سب کو سمجھیں گے) اور (اے نبی) آپ (ان لوگوں کی دھمکیوں کے معاملہ میں) اللہ پر بھروسہ رکھئے اور اللہ کافی کارساز ہے (اس کے مقابلہ میں ان لوگوں کی کوئی تدبیر نہیں چل سکتی، اس لئے کچھ فکر نہ کیجئے، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کسی ابتلاء کو مقتضی ہو اور اس کی وجہ سے کوئی عارضی تکلیف پہنچ جائے تو وہ ضرر نہیں بلکہ عین منفعت ہے۔ - معارف ومسائل - یہ مدنی سورة ہے اس کے بیشتر مضامین رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبوبیت اور خصوصیت عند اللہ پر مشتمل ہیں، جس میں آپ کی تعظیم کا واجب ہونا اور آپ کی ایذا رسانی کا حرام ہونا مختلف عنوانات سے بیان ہوا ہے اور باقی مضامین سورة بھی انہی کی تکمیل و اتمام سے مناسبت رکھتے ہیں۔- شان نزول :- اس سورة کے سبب نزول میں چند روایات منقول ہیں۔ ایک یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ میں تشریف فرما ہوئے، تو مدینہ کے آس پاس یہود کے قبائل بنو قریظہ، بنو نضیر، بنو قینقاع وغیرہ آباد تھے۔ رحمة العالمین کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ کسی طرح یہ لوگ مسلمان ہوجائیں۔ اتفاقاً ان یہودیوں میں سے چند آدمی آپ کی خدمت میں آنے لگے اور منافقانہ طور پر اپنے آپ کو مسلمان کہنے لگے، دلوں میں ایمان نہیں تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو غنیمت سمجھا، کہ کچھ لوگ مسلمان ہوجائیں تو دوسروں کو دعوت دینا آسان ہوجائے گا۔ اس لئے آپ ان لوگوں کے ساتھ خاص مدارات کا معاملہ فرماتے اور ان کے چھوٹے بڑے آنے والوں کا احترام کرتے تھے اور کوئی بری بات بھی ان سے صادر ہوتی تو دینی مصلحت سمجھ کر اس سے چشم پوشی فرماتے تھے۔ اس واقعہ پر سورة احزاب کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ (قرطبی)- ایک دوسرا واقعہ ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ میں سے ولید بن مغیرہ اور شیبہ ابن ربیعہ مدینہ طیبہ آئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ پیش کش کی کہ ہم سب قریش مکہ کے آدھے اموال آپ کو دے دیں گے اگر آپ اپنے دعوے کو چھوڑ دیں۔ اور مدینہ طیبہ کے منافقین اور یہود نے آپ کو یہ دھمکی دی کہ اگر آپ نے اپنا دعویٰ اور دعوت سے رجوع نہ کیا تو ہم آپ کو قتل کردیں گے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (روح)- تیسرا ایک واقعہ ثعلبی اور واحدی نے بغیر سند یہ نقل کیا ہے کہ ابو سفیان اور عکرمہ ابن ابی جہل اور ابو الاعو رسلمی اس زمانے میں جب واقعہ حدیبیہ میں کفار مکہ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مابین ترک جنگ پر معاہدہ ہوگیا تھا تو یہ لوگ مدینہ طیبہ آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ ہمارے معبودوں کا برائی سے ذکر کرنا چھوڑ دیں، صرف اتنا کہہ دیں کہ یہ بھی شفاعت کریں گے اور نفع پہنچائیں گے۔ آپ اتنا کرلیں تو ہم آپ کو اور آپ کے رب کو چھوڑ دیں گے، جھگڑا ختم ہوجائے گا۔- ان کی بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سب مسلمانوں کو سخت ناگوار ہوئی، مسلمانوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ان سے معاہدہ صلح کرچکا ہوں اس لئے ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں (روح) یہ روایات اگرچہ مختلف ہیں مگر درحقیقت ان میں کوئی تضاد نہیں، یہ واقعات بھی آیات مذکورہ کے نزول کا سبب ہو سکتے ہیں۔- ان آیتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو حکم دئے گئے : پہلا اتق اللہ یعنی اللہ سے ڈرو، دوسرا لاتطع الکفرین، یعنی کافروں کا کہنا نہ مانو۔ اللہ سے ڈرنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ ان لوگوں کو قتل کرنا عہد شکنی ہے جو حرام ہے۔ اور کفار کی بات نہ ماننے کا حکم اس لئے کہ ان تمام واقعات میں کفار کی جو فرمائشیں ہیں وہ ماننے کے قابل نہیں۔ اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔- (آیت) یایھا النبی اتق اللہ، یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاص اعزازو اکرام ہے کہ پورے قرآن میں کہیں آپ کو نام لے کر مخاطب نہیں کیا گیا، جیسا کہ دوسرے انبیاء کے خطابات میں یا آدم، یا لوح، یا ابراہیم، یا موسیٰ وغیرہ بار بار آیا ہے، بلکہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پورے قرآن میں جہاں خطاب کیا گیا وہ کسی لقب نبی یا رسول وغیرہ سے خطاب کیا گیا۔ صرف چار مواقع جن میں یہی بتلانا منظور تھا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، ان میں آپ کا نام ذکر کیا گیا ہے جو ضروری تھا۔- اس خطاب میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو حکم دیئے گئے۔ ایک خدا تعالیٰ سے ڈرنے کا، کہ مشرکین سے جو معاہدہ ہوچکا ہے اس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے، دوسرے مشرکین اور منافقین و یہود کی بات نہ ماننے کا۔ یہاں جو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ہر گناہ سے معصوم ہیں، عہد شکنی بھی گناہ کبیرہ ہے، اور کفار و مشرکین کی وہ باتیں جو شان نزول میں اوپر بیان کی گئیں، ان کا ماننا بھی گناہ عظیم ہے تو آپ خود ہی اس سے محفوظ تھے۔ پھر اس حکم کی ضرورت کیا پیش آئی ؟ روح المعانی میں ہے کہ مراد ان احکام سے آئندہ بھی ان پر قائم رہنے کی ہدایت ہے جیسا کہ اس واقعہ میں آپ ان پر قائم رہے اور اتق اللہ کے حکم کو اس لئے مقدم کیا کہ مسلمانوں نے ان مشرکین مکہ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا جن سے معاہدہ صلح ہوچکا تھا۔ اس لئے عہد شکنی سے بچنے کی ہدایت لفظ اتق اللہ کے ذریعہ مقدم کی گئی۔ بخلاف اطاعت کفار و مشرکین کے کہ اس کا کسی نے ارادہ بھی نہ کیا تھا اس لئے اس کو موخر کیا گیا۔- اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں اگرچہ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر مراد امت کو سنانا ہے۔ آپ تو معصوم تھے، احکام آلہیہ کی خلاف ورزی کا آپ سے کوئی احتمال نہ تھا۔ مگر قانون پوری امت کے لئے ہے، ان کو سنانے کا عنوان یہ اختیار کیا گیا کہ خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا جس سے حکم کی اہمیت بڑھ گئی، کہ جب اللہ کے رسول بھی اس کے مخاطب ہیں تو امت کا کوئی فرد اس سے کیسے مستثنیٰ ہوسکتا ہے۔- اور ابن کثیر نے فرمایا کہ اس آیت میں کفار و مشرکین کی اطاعت سے منع کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ آپ ان سے مشورے نہ کریں، ان کو زیادہ مجالست کا موقع نہ دیں۔ کیونکہ ایسے مشورے اور باہمی روابط بسا اوقات اس کا سبب بن جایا کرتے ہیں کہ ان کی بات مان لی جائے تو اگرچہ ان کی بات مان لینے کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی احتمال نہ تھا مگر ان کے ساتھ ایسے روابط رکھنے اور ان کو اپنے مشوروں میں شریک کرنے سے بھی آپ کو روک دیا گیا، اور اس کو اطاعت کے لفظ سے اس لئے تعبیر کردیا کہ ایسے مشورے اور باہمی روابط عادتاً ماننے کا سبب بن جایا کرتے ہیں۔ تو یہاں درحقیقت آپ کو اسباب اطاعت سے منع کیا گیا ہے، نفس اطاعت کا تو آپ سے احتمال ہی نہ تھا۔- رہا یہ سوال کہ آیت مذکورہ میں کافروں کی طرف سے خلاف شرع اور خلاف حق باتوں کا اظہار تو کوئی بعید نہیں، ان کی اطاعت سے منع کرنا بھی ظاہر ہے۔ مگر منافقین نے اگر اسلام کے خلاف کوئی بات آپ سے کہی تو پھر وہ منافقین نہ رہے، کھلے کافر ہوگئے، ان کو الگ ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہوتی ؟ جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ منافقین نے بالکل کھول کر تو کوئی بات خلاف اسلام نہ کہی ہو مگر دوسرے کفار کی تائید اور حمایت میں کوئی کلمہ کہا ہو۔ - اور منافقین کا جو واقعہ شان نزول میں اوپر بیان ہوا ہے، اگر اس کو سبب نزول قرار دیا جائے تو اس میں اشکال ہی نہیں۔ کیونکہ اس واقعہ کے اعتبار سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے روکا گیا ہے کہ ان اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے یہود سے آپ زیادہ مدارات کا معاملہ نہ کریں۔- اس آیت کے آخر میں (آیت) ان اللہ کان علیماً حکیماً ، فرما کر اس حکم کی حکمت بیان کردی گئی۔ جو اوپر دیا گیا ہے کہ اللہ سے ڈریں، اور کفار و منافقین کا کہنا نہ مانیں۔ کیونکہ عواقب امور اور نتائج کا جاننے والا اللہ تعالیٰ بڑا حکیم ہے، وہی مصالح عباد کو جانتا ہے، یہ اس لئے فرمایا کہ کفار یا منافقین کی بعض باتیں ایسی بھی تھیں جن سے شر و فساد کم ہونے اور باہمی رواداری کی فضا قائم ہونے وغیرہ کے فوائد حاصل ہو سکتے تھے۔ مگر حق تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا کہ ان لوگوں کے ساتھ یہ رواداری بھی مصلحت کے خلاف ہے، اس کا انجام اچھا نہیں۔
رکوع نمبر 17- سورة الاحزاب - بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللہَ وَلَا تُطِـــعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلِــيْمًا حَكِــيْمًا ١ۙ- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] ونَيْفَقُ السَّرَاوِيلِ معروفٌ- نا فقاء الیربوع ہے یعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دود ھا نے ہوں نافق الیر بوع ونفق جنگی چوہیا اپنے مل کے دہانے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گئی اور اسی سے نفاق ہے جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَالنَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نیفق السراویل پا جامے کا نیفہ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛- حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
اے نبی کریم وقت سے پہلے وعدہ خلافی میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیے اور مکہ والوں میں سے ابو سفیان بن حرب اور عکرمہ بن ابی جہل اور ابو الاعور اسلمی کا اور مدینہ کے منافقوں میں سے عبداللہ بن ابی بن سلول اور معتب بن قشیر اور جعر بن قیس کی ان باتوں میں جس کے کرنے کے لیے یہ آپ سے کہہ رہے ہیں اتباع نہ کیجیے۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكٰفِرِيْنَ (الخ)- جبیر نے بواسطہ ضحاک حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ مکہ والوں میں سے ولید بن مغیرہ اور شیبہ بن ربیعہ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس چیز پر زور دیا کہ اپنی بات سے رجوع کرلیں تو ہم آپ کو آدھے اموال دیں گے اور مدینہ منورہ میں منافقین اور یہودیوں نے آپ کو اپنے طریقہ سے رجوع نہ کرنے پر قتل کرنے کی دھمکی دی تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اے نبی اللہ سے ڈرتے رہیے اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانیے۔
آیت ١ یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اللہ کا تقویٰ اختیار کیجیے اور کافرین و منافقین کی باتیں نہ مانیے۔ “- جس طرح لفظ امر میں ” حکم “ کے ساتھ ساتھ ” مشورہ “ کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ‘ اسی طرح ” اطاعت “ کے معنی حکم ماننے کے بھی ہیں اور کسی کی بات پر توجہ اور دھیان دینے کے بھی۔ چناچہ یہاں وَلَا تُطِع کے الفاظ میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کی باتوں پر دھیان مت دیں۔- اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا ” یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا ‘ کمال حکمت والا ہے۔ “
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :1 جیسا کہ ہم اس سورہ کے دیباچے میں بیان کر چکے ہیں ، یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضرت زید رضی اللہ عنہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دے چکے تھے ۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی یہ محسوس فرماتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی تھا کہ منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کے رسوم و اوہام پر ضرب لگانے کا یہ ٹھیک موقع ہے ، اب آپ خود آگے بڑھ کر اپنے منہ بولے بیٹے ( زید رضی اللہ عنہ ) کی مطلقہ سے نکاح کر لینا چاہیے تاکہ یہ رسم قطعی طور پر ٹوٹ جائے ۔ لیکن جس وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں قدم اٹھاتے ہوئے جھجک رہے تھے وہ یہ خوف تھا کہ اس سے کفار و منافقین کو ، جو پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پے در پے کامیابیوں سے جلے بیٹھے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پروپیگینڈا کرنے کے لیے زبردست ہتھیار مل جائے گا ۔ یہ خوف کچھ اپنی بدنامی کے اندیشے سے نہ تھا کہ اس سے اسلام کو زک پہنچے گی ، دشمنوں کے پروپیگینڈے سے متاثر ہو کر بہت سے لوگ جو اسلام کی طرف میلان رکھتے ہیں بدگمان ہو جائیں گے ، بہت سے غیر جانبدار لوگ دشمنوں میں شامل ہو جائیں گے ، اور خود مسلمانوں میں سے کمزور عقل و ذہن کے لوگ شکوک و شبہات میں پڑجائیں گے ۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ خیال کرتے تھے کہ جاہلیت کی ایک رسم کو توڑنے کی خاطر ایسا قدم اٹھانا خلاف مصلحت ہے جس سے اسلام کے عظیم تر مقاصد کو نقصان پہنچ جائے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :2 تقریر کا آغاز کرتے ہوئے پہلے ہی فقرے میں اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اندیشوں کو رفع فرما دیا ۔ ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ہمارے دین کی مصلحت کس چیز میں ہے اور کس چیز میں نہیں ہے ، اس کو ہم زیادہ جانتے ہیں ۔ ہم کو معلوم ہے کہ کس وقت کیا کام کرنا چاہیے اور کونسا کام خلاف مصلحت ہے ۔ لہٰذا تم وہ طرز عمل اختیار نہ کرو جو کفار و منافقین کی مرضی کے مطابق ہو ۔ ڈرنے کے لائق ہم ہیں نہ کہ کفار و منافقین ۔
1: بعض اوقات کچھ کافر لوگ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف قسم کی تجویزیں پیش کرتے تھے کہ اگر آپ ہماری فلاں بات مان لیں تو ہم آپ کی بات مان لیں گے، بعض منافقین بھی ان کی تائید کرتے کہ یہ اچھی تجویز ہے، اور اس پر عمل کرنے سے بڑی تعداد میں لوگوں کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے، حالانکہ وہ تجویز ایمان کے تقاضوں کے خلاف ہوتی تھی، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلایا ہے کہ ایسی تجویزوں پر کان دھرنے کے بجائے اپنے کام میں لگے رہئے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھئے، وہ خود ہی سارے معاملات ٹھیک کردے گا۔