Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21یعنی قرآن کی اور احادیث کی بھی، اس لئے کہ احادیث کے الفاظ گو نبی کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے معانی و مفہوم من جانب اللہ ہی ہیں۔ اس لئے ان کو وحی خفی کہا یا وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَّاتَّبِعْ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ : یعنی منہ بولے بیٹوں کے متعلق، جاہلیت کی کسی رسم کے متعلق، یا دنیا و آخرت کی کسی بھی بات کے متعلق آپ کسی کافر یا منافق کی بات ماننے کے بجائے اس حکم کی پیروی کریں جو آپ کو آپ کے پروردگار کی طرف سے وحی کیا جاتا ہے۔- اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا : تم اللہ کی وحی یعنی قرآن و سنت کی پیروی کے بارے میں جو کچھ بھی کرتے ہو، وہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ تم اس کے احکام پر خوش دلی سے عمل کرو یا تنگ دلی سے، یا عمل نہ کرو، وہ تمہیں تمہارے عمل کے مطابق جزا دے گا۔- 3 یہاں جمع کے ساتھ خطاب ہے، اس سے معلوم ہوا کہ پہلے تمام خطاب بھی دراصل پوری امت کے لیے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) واتبع مایوحیٰ الیک من ربک ان اللہ کان بما تعملون خبیراً ، یہ پہلے ہی حکم کا تکملہ ہے کہ آپ کفار و منافقین کی باتوں میں نہ آئیں، ان کی بات نہ مانیں بلکہ جو کچھ اللہ کی طرف سے آپ کو بذریعہ وحی بتلایا گیا ہے بس آپ اور صحابہ اسی کا اتباع کریں۔ چونکہ اس خطاب میں صحابہ کرام اور عام مسلمان بھی شامل ہیں، اس لئے آخر میں بصیغہ جمع بما تعملون فرما کر تنبیہ کردی گئی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّاتَّبِعْ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝ ٢ ۙ- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور بذریعہ قرآن کریم جس چیز کا آپ کو حکم دیا جاتا ہے۔ اس پر عمل کیجیے۔- اللہ تعالیٰ کو وعدہ پورا کرنے اور نہ کرنے کی پوری خبر ہے۔- اور اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی مدد فرمانے کا آپ سے وعدہ فرمایا ہے یا یہ کہ ان دشمنوں سے آپ کی حفاظت کرنے پر پورا کارساز ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ وَّاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیروی کیجیے اس (ہدایت) کی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی کی جا رہی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی جانب سے۔ “- اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ” یقینا اللہ ان سب باتوں سے باخبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :3 اس فقرے میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہے اور مسلمانوں سے بھی اور مخالفین اسلام سے بھی ۔ مطلب یہ ہے کہ نبی اگر اللہ کے حکم پر عمل کر کے بدنامی کا خطرہ مول لے گا اور اپنی عزت پر دشمنوں کے حملے صبر کے ساتھ برداشت کرے گا تو اللہ سے اس کی یہ وفا دارانہ خدمت چھپی نہ رہے گی ۔ مسلمانوں میں سے جو لوگ نبی کی عقیدت میں ثابت قدم رہیں گے اور جو شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں گے ، دونوں ہی کا حال اللہ سے مخفی نہ رہے گا ۔ اور کفار و منافقین اس کو بدنام کرنے کے لیے جو دوڑ دھوپ کریں گے اس سے بھی اللہ بے خبر نہ رہے گا ۔ لہٰذا گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ ہر ایک اپنے عمل کے لحاظ سے جس جزا یا سزا کا مستحق ہو گا وہ اسے مل کر رہے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani