Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31اپنے تمام معاملات اور احوال میں۔ 32ان لوگوں کے لئے جو اس پر بھروسہ رکھتے، اور اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١۔ الف ] یعنی تمہارے دشمن جیسی بھی باتیں بناتے ہیں اور جو الزام بھی آپ پر دھرتے ہیں دھرنے دو ۔ تمہارا کام فقط یہ ہے کہ وحی کا حکم بجا لاؤ اور اللہ پر پورا بھروسہ رکھو۔ ان دشمنوں سے نمٹنا یا ان کی سازشوں اور چالوں کو ناکام بنانا میرا کام ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۙوَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۔۔ : یعنی اللہ کے احکام پر عمل کرنے کے نتیجے میں کفار و منافقین کی طرف سے جو کچھ کہا جائے یا کیا جائے، اس کی پروا مت کریں، اپنا ہر کام اللہ کے سپرد کردیں، کیونکہ اس کے سپرد جو کام کر دیاجائے وہ اس کے لیے کافی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

و توکل علی اللہ وکفیٰ باللہ وکیلاً ، یہ بھی اسی حکم کی تکمیل ہے۔ اس میں ارشاد ہے کہ آپ ان لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھریں اور اپنے مقصد کی کامیابی میں صرف اللہ پر بھروسہ کریں کہ وہی کافی کارساز ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے آپ کو کسی کی رواداری کی ضرورت نہیں۔- مسئلہ :- آیات مذکورہ سے ثابت ہوا کہ امور دین میں کفار سے مشورہ لینا بھی جائز نہیں۔ دوسرے امور جن کا تعلق تجربہ وغیرہ سے ہو ان میں مشورہ لینے میں مضائقہ نہیں۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝ ٠ ۭ وَكَفٰي بِاللہِ وَكِيْلًا۝ ٣- وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ - كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ وَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِط وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا۔ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ پر توکل ّکیجیے۔ اور اللہ کافی ہے توکل کے لیے ۔ “- یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کی طرف سے منفی پراپیگنڈے کا جو اندیشہ ہے اسے نظر انداز کردیجیے اور اللہ پر توکل اور بھروسہ کیجیے جس کا سہارا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کافی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :4 اس فقرے کے مخاطب پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی جا رہی ہے کہ جو فرض تم پر عائد کیا گیا ہے اسے اللہ کے بھروسے پر انجام دو اور دنیا بھر بھی اگر مخالف ہو تو اس کی پروا نہ کرو ۔ جب آدمی کو یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو کہ فلاں حکم اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے تو پھر اسے بالکل مطمئن ہو جانا چاہیے کہ ساری خیر اور مصلحت اسی حکم کی تعمیل میں ہے ۔ اس کے بعد حکمت و مصلحت دیکھنا اس شخص کا اپنا کام نہیں ہے ، بلکہ اسے اللہ کے اعتماد پر صرف تعمیل ارشاد کرنی چاہیے ۔ اللہ اس کے لیے بالکل کافی ہے کہ بندہ اپنے معاملات اس کے سپرد کر دے ۔ وہ رہنمائی کے لیے کافی ہے اور مدد کے لیے بھی ، اور وہی اس امر کا ضامن بھی ہے کہ اس کی رہنمائی میں کام کرنے والا آدمی کبھی نتائج بد سے دو چار نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani