سچ بدل نہیں سکتا لے پالک بیٹا نہیں بن سکتا مقصود کو بیان کرنے سے پہلے بطور مقدمے اور ثبوت کے مثلا ایک وہ بات بیان فرمائی جسے سب محسوس کرتے ہیں اور پھر اس کی طرف سے ذہن ہٹاکر اپنے مقصود کی طرف لے گئے ۔ بیان فرمایا کہ یہ تو ظاہر ہے کہ کسی انسان کے دل دو نہیں ہوتے ۔ اسی طرح تم سمجھ لو کہ اپنی جس بیوی کو تم ماں کہہ دو تو وہ واقعی ماں نہیں ہوجاتی ۔ ٹھیک اسی طرح دوسرے کی اولاد کو اپنا بیٹا بنالینے سے وہ سچ مچ بیٹا ہی نہیں ہوجاتا ۔ اپنی بیوی سے اگر کسی نے بحالت غضب وغصہ کہد دیا کہ تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ تو اس کہنے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتیں مائیں تو وہ ہیں جن کے بطن سے یہ پیدا ہوئے ہیں ۔ ان دونوں باتوں کے بیان کے بعد اصل مقصود کو بیان فرمایا کہ تمہارے لے پالک لڑکے بھی درحقیقت تمہارے لڑکے نہیں ۔ یہ آیت حضرت زید بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اتری ہے جو حضور کے آزاد کردہ تھے انہیں حضور نے نبوت سے پہلے اپنا متبنی بنارکھا تھا ۔ انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا ۔ اس آیت سے اس نسبت اور اس الحاق کا توڑ دینا منظور ہے ۔ جیسے کہ اسی سورت کے اثنا میں ہے آیت ( مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 40ۧ ) 33- الأحزاب:40 ) تم میں سے کسی مرد کے باپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے ۔ یہاں فرمایا یہ تو صرف تمہاری ایک زبانی بات ہے جو تم کسی کے لڑکے کو کسی کا لڑکا کہو اس سے حقیقت بدل نہیں سکتی ۔ واقعی میں اس کا باپ وہ ہے جس کی پیٹھ سے یہ نکلا ۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک لڑکے کے دو باپ ہوں جیسے یہ ناممکن ہے کہ ایک سینے میں دو دل ہوں ۔ اللہ تعالیٰ حق فرمانے والا اور سیدھی راہ دکھانے والا ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک قریشی کے بارے میں اتری ہے جس نے مشہور کررکھا تھا کہ اس کے دو دل ہیں اور دونوں عقل وفہم سے پر ہیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید کردی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے آپ کو کچھ خطرہ گذرا اس پر جو منافق نماز میں شامل تھے وہ کہنے لگے دیکھو اس کے دو دل ہیں ایک تمہارے ساتھ ایک ان کے ساتھ ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ۔ زہری فرماتے ہیں یہ تو صرف بطور مثال کے فرمایا گیا ہے یعنی جس طرح کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے اسی طرح کسی بیٹے کے دو باپ نہیں ہوسکتے ۔ اسی کے مطابق ہم نے بھی اس آیت کی تفسیر کی ہے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔ پہلے تو رخصت تھی کہ لے پالک لڑکے کو پالنے والے کی طرف نسبت کرکے اس کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے لیکن اب اسلام نے اس کو منسوخ کردیا ہے اور فرمادیا ہے کہ ان کے جو اپنے حقیقی باپ ہیں ان ہی کی طرف منسوب کرکے پکارو ۔ عدل نیکی انصاف اور سچائی یہی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس آیت کے اترنے سے پہلے ہم حضرت زید کو زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاکرتے تھے لیکن اس کے نازل ہونے کے بعد ہم نے یہ کہنا چھوڑ دیا ۔ بلکہ پہلے تو ایسے لے پالک کے وہ تمام حقوق ہوتے تھے جو سگی اور صلبی اولاد کے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس آیت کے اترنے کے بعد حضرت سہلہ بنت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہا حاضر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر عرض کرتی ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا اب قرآن نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا ۔ میں اس سے اب تک پردہ نہیں کرتی وہ آجاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ میرے خاوند حضرت حذیفہ ان کے اس طرح آنے سے کچھ بیزار ہیں ۔ آپ نے فرمایا پھر کیا ہے جاؤ سالم کو اپنا دودھ پلا اس پر حرام ہوجاؤگی ۔ الغرض یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے اب صاف لفظوں میں ایسے لڑکوں کی بیویوں کی بھی مداخلت انہیں لڑکا بنانے والے کے لئے بیان فرمادی ۔ اور جب حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی صاحبہ حضرت زینب بنت جحش کو طلاق دے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا نکاح ان سے کرلیا اور مسلمان اس ایک مشکل سے بھی چھوٹ گئے فالحمد للہ اسی کا لحاظ رکھتے ہوئے ۔ جہاں حرام عورتوں کو ذکر کیا وہاں فرمایا آیت ( وَحَلَاۗىِٕلُ اَبْنَاۗىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ 23ۙ ) 4- النسآء:23 ) یعنی تمہاری اپنی صلب سے جو لڑکے ہوں ان کی بیویاں تم پر حرام ہیں ۔ ہاں رضاعی لڑکا نسبی اور صلبی لڑکے کے حکم میں ہے ۔ جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوجاتے ہیں ۔ یہ بھی خیال رہے کہ پیار سے کسی کو بیٹا کہدینا یہ اور چیز ہے یہ ممنوع نہیں مسند احمد وغیرہ میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں ہم سب خاندان عبدالمطلب کے چھوٹے بچوں کو مزدلفہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو ہی جمرات کی طرف رخصت کردیا اور ہماری رانیں تھپکتے ہوئے حضور نے فرمایا بیٹو سورج نکلنے سے پہلے جمرات پر کنکریاں نہ مارنا ۔ یہ واقعہ سنہ ١٠ ہجری ماہ ذی الحجہ کاہے اور اس کی دلالت ظاہر ہے ۔ حضرت زید بن حارثہ جن کے بارے میں یہ حکم اترا یہ سنہ ٨ ہجری میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے ۔ صحیح مسلم شریف میں مروی ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بیٹا کہہ کر بلایا ۔ اسے بیان فرما کر کہ لے پالک لڑکوں کو ان کے باپ کی طرف منسوب کرکے پکارا کرو پالنے والوں کی طرف نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہیں انکے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور اسلامی دوست ہیں ۔ حضور جب عمرۃ القضا والے سال مکہ شریف سے واپس لوٹے تو حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی چچاچچا کہتی ہوئی آپ کے پیچھے دوڑیں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں لے کر حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دیا اور فرمایا یہ تمہاری چچازاد بہن ہیں انہیں اچھی طرح رکھو ۔ حضرت زید اور حضرت جعفر فرمانے لگے اس بچی کے حقدار ہم ہیں ہم انہیں پالیں گے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں نہیں یہ میرے ہاں رہیں گی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو یہ دلیل دی کہ میرے چچا کی لڑکی ہیں ۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بھائی کی لڑکی ہے ۔ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے میرے چچا کی لڑکی ہیں ۔ اور ان کی چچی میرے گھر میں ہیں یعنی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ صاحبزادی تو اپنی خالہ کے پاس رہیں کیونکہ خالہ ماں کے قائم مقام ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ سے فرمایا تو میرا ہے اور میں تیرا ہوں ۔ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو صورت سیرت میں میرے مشابہ ہے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو میرا بھائی ہے اور ہمارا مولیٰ ہے اس حدیث میں بہت سے احکام ہیں ۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ حضور نے حکم حق سنا کر اور دعویداروں کو بھی ناراض نہیں ہونے دیا ۔ اور آپ نے اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو ۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اسی آیت کے ماتحت میں تمہارا بھائی ہوں ۔ ابی فرماتے ہیں واللہ اگر یہ بھی معلوم ہوتا کہ ان کے والد کوئی ایسے ویسے ہی تھے تو بھی یہ ان کی طرف منسوب ہوتے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر اپنی نسبت اپنے باپ کی طرف سے دوسرے کی طرف کرے اس نے کفر کیا ۔ اس سے سخت وعید پائی جاتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ صحیح نسب سے اپنے آپ کو ہٹانا بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے جب تم نے اپنے طور پر جتنی طاقت تم میں ہے تحقیق کرکے کسی کو کسی کی طرف نسبت کیا اور فی الحقیقت وہ نسبت غلط ہے تو اس خطا پر تمہاری پکڑ نہیں ۔ چنانچہ خود پروردگار نے ہمیں ایسی دعا تعلیم دی کہ ہم اس کی جناب میں ہیں آیت ( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ٢٨٦ۧ ) 2- البقرة:286 ) اے اللہ ہماری بھول چوک اور غلطی پر ہمیں نہ پکڑ ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ دعا پڑھی جناب باری عز اسمہ نے فرمایا میں نے یہ دعاقبول فرمائی ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے جب حاکم اپنی کوشش میں کامیاب ہوجائے اپنے اجتہاد میں صحت کو پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور اگر خطا ہوجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو ان کی خطائیں بھول چوک اور جو کام ان سے زبردستی کرائے جائیں ان سے درگذر فرمالیا ہے ۔ یہاں بھی یہ فرما کر ارشاد فرمایا کہ ہاں جو کام تم قصد قلب سے عمدا کرو وہ بیشک قابل گرفت ہیں ۔ قسموں کے بارے میں بھی یہی حکم ہے اوپر جو حدیث بیان ہوئی کہ نسب بدلنے والا کفر کا مرتکب ہے وہاں بھی یہ لفظ ہیں کہ باوجود جاننے کے ۔ آیت قرآن جو اب تلاوتا منسوخ ہے اس میں تھا آیت ( فان کفرابکم ان ترغبوا عن ابائکم ) یعنی تمہارا اپنے باپ کی طرف نسبت ہٹانا کفر ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا آپ کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اس میں رجم کی بھی آیت تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی رجم کیا ( یعنی شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کیا ) اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا ۔ ہم نے قرآن میں یہ آیت بھی پڑھی ہے کہ اپنے باپوں سے اپنا سلسلہ نسب نہ ہٹاؤ یہ کفر ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے مجھے تم میری تعریفوں میں اس طرح بڑھا چڑھا نہ دینا جیسے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہوا ۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں تو تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول اللہ کہنا ۔ ایک روایت میں صرف ابن مریم ہے ۔ اور حدیث میں ہے تین خصلتیں لوگوں میں ہیں جو کفر ہیں ۔ نسب میں طعنہ زنی ، میت پر نوحہ ، ستاروں سے باراں طلبی ۔
4 1بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک منافق یہ دعوی کرتا تھا کہ اس کے دو دل ہیں۔ ایک دل مسلمانوں کے ساتھ ہے اور دوسرا دل کفر اور کافروں کے ساتھ ہے۔ یہ آیت اس کی تردید میں نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں سے ایک شخص جمیل بن معمر فہر تھا، جو بڑا ہوشیار مکار اور نہایت تیز طرار تھا، اس کا دعوی تھا کہ میرے تو دو دل ہیں جن سے میں سوچتا سمجھتا ہوں۔ جب کہ محمد کا ایک ہی دل ہے۔ یہ آیت اس کے رد میں نازل ہوئی۔ (ایسر التفاسیر) بعض مفسرین کہتے ہیں کہ آگے جو دو مسئلے بیان کیے جا رہے ہیں، یہ ان کی تمہید ہے یعنی جس طرح ایک شخص کے دو دل نہیں ہوسکتے اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کرلے یعنی یہ کہہ دے کہ تیری پشت میرے لیے ایسے ہی ہے جیسے میری ماں کی پشت تو اس طرح کہنے سے اس کی بیوی، اس کی ماں نہیں بن جائے گی۔ یوں اس کی دو مائیں نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح کوئی شخص کسی کو اپنا بیٹا لے پالک بیٹا بنا لے تو وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں بن جائے گا بلکہ وہ بیٹا اپنے باپ کا ہی رہے گا اس کے دو باپ نہیں ہوسکتے۔ 4 2یہ مسئلہ ظہار کہلاتا ہے ِ اس کی تفصیل سورة مجادلۃ میں آئے گی۔ 4 3اس کی تفصیل اسی سورت میں آگے آئے گی۔ 4 4یعنی کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی، نہ بیٹا کہنے سے بیٹا بن جائے گا، یعنی ان پر بنوت کے شرعی احکام جاری نہیں ہونگے۔ 4 5اس لئے اس کا اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو، خیال رہے کہ کسی کو پیار اور محبت میں بیٹا کہنا اور بات ہے اور لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کر کے بیٹا کہنا اور بات ہے۔ پہلی بات جائز ہے، یہاں مقصود دوسری بات کی ممانعت ہے۔
[٢] اللہ کا دو دل نہ بنانے کا مفہوم :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین حقائق بیان فرمائے ہیں۔ ایک یہ کہ سب انسانوں کا اللہ نے ایک ہی دل بنایا ہے دو نہیں بنائے۔ لہذا ایک دل ایک وقت میں ایک ہی حقیقت کو تسلیم کرسکتا ہے۔ دو متضاد حقیقتوں کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک ہی شخص بیک وقت مومن بھی ہو اور منافق بھی۔ یا وہ کافر بھی ہو اور مسلم بھی۔ ان میں سے ایک وقت میں ایک ہی حقیقت کی تسلیم کیا جاسکتا ہے کیونکہ دو متضاد باتوں میں سے حقیقت ایک ہی ہوسکتی ہے۔ اور اگر کوئی منافق دل میں نفاق چھپا کر ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ حقیقت بیان نہیں کرتا۔ بلکہ جھوٹ بولتا اور دھوکا دیتا ہے اور اس نکاح کے ردعمل سے مسلمانوں کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ ان میں مخلص مسلمان کتنے اور کون کون ہیں اور منافق کون ہیں جو اللہ کے حکم کے علی الرغم دوسرے دشمنوں کی دیکھا دیکھی زبان دراز کرتے ہیں۔- خ ظہار کا دستور بھی لغو ہے اور متبّنیٰ بنانے کا بھی کیونکہ ماں اور باپ ایک ہی ہوسکتے ہیں :۔ عرب میں طلاق کے علاوہ یہ بھی دستور تھا کہ جس عورت پر غصہ آتا اور اس سے ان بن ہوجاتی تو کہہ دیتے تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ اس کام کو وہ ظہار کہتے تھے۔ یہ کہنے پر وہ عورت خاوند پر حرام ہوجاتی تھی۔ یہ دستور بھی اصلاح طلب تھا۔ اس کی اصلاح کا طریقہ اور کفارہ تو سورة مجادلہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہاں صرف یہ بتایا جارہا ہے کہ تمہارے کہنے سے بیوی ماں نہیں بن جاتی۔ ماں تو وہ ہوتی ہے جس نے جنا ہو۔ تو جس طرح کسی آدمی کے اندر دو دل نہیں ہوسکتے اسی طرح کسی کی دو مائیں بھی نہیں ہوسکتیں۔ اب اگر تم بیوی کو ماں کہہ کر اسے فی الواقع ماں سمجھ بیٹھو تو یہ تو تمہارے منہ کی بات ہے جس کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں۔- خ متبنّیٰ اور وراثت کے دستور کی اصلاح :۔ اور تیسری حقیقت یہ ہے کہ متبنّیٰ حقیقی بیٹے کا مقام نہیں لے سکتا۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ کسی کے دو باپ ہوں۔ باپ وہی ہے جس کے نطفہ سے وہ پیدا ہوا ہے۔ دوسرا کوئی شخص نہ اس کا حقیقی باپ ہوسکتا ہے اور نہ وہ اس کا حقیقی بیٹا ہوسکتا ہے۔ متبّنی اپنے نقلی باپ کا وارث نہیں بن سکتا۔ نہ باپ متبنّیٰ کا وارث ہوسکتا ہے۔ ہر شخص اپنے متبنیٰ کی مطلقہ بیوہ سے نکاح کرسکتا ہے۔ اسی طرح متبنّیٰ بھی اپنے نقلی باپ کی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کرسکتا ہے۔ اور یہی غلط دستور معاشرہ میں رائج تھا۔ جس کی اصلاح اللہ تعالیٰ نبی کے سیدہ زینب کے ساتھ نکاح سے فرمانا چاہتا تھا۔- [٣] اس آیت میں اسی اصلاحی اقدام کی چند جزئیات بیان فرمائی جارہی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے حقیقی باپ کی نسبت سے پکارا جائے۔ چناچہ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ نے سیدنا زید کو اپنا متبنّیٰ بنا لیاتو ہم لوگ انھیں زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پھر زید بن حارثہ کہنا شروع کردیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور رسول اللہ خود بھی انھیں زید بن حارثہ ہی کہنے لگے۔ ضمناً اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ کا باپ نہیں تھا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم کبھی نہ فرماتے۔ سیدنا عیسیٰ ابن مریم کی معجزانہ پیدائش کے منکرین کے لئے یہ لمحہ فکریہ اس لحاظ سے ہے کہ قرآن نے اور کسی مرد یا عورت کا نام ابنیت سمیت ذکر نہیں کیا۔
مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِهٖ ۔۔ : ” أَدْعِیَاءُ “ ” دَعِیٌّ“ (فَعِیْلٌبمعنی مفعول) کی جمع ہے۔ اصل مقصود کو بیان کرنے سے پہلے تمہید کے طور پر یہ بات بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے کہ ایک میں ایمان ہو اور ایک میں کفر۔ سینے میں دل ایک ہی ہے، وہ یا مومن ہوگا یا منافق یا کافر۔ اسی طرح ہر شخص کی ماں ایک ہی ہے، جس کے پیٹ میں سے وہ پیدا ہوا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کے بعد کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ اس کی ماں بن جائے، نہ تمہارے اپنی بیویوں کو ماں کی طرح حرام کہنے سے وہ ماں بن جاتی ہیں، اور ہر شخص کا باپ بھی ایک ہی ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ پہلے تو اس کا باپ ایک تھا، پھر کسی نے اس کو بیٹا کہہ دیا تو وہ اس کا باپ بن گیا۔ یہ صرف تمہارے منہ کی باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی بات کو نہیں مانتا، وہ تو وہی بات کہتا ہے جو حقیقت اور سچ ہے اور وہ اصل سیدھے راستے ہی کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ظہار کا لفظ ” ظَہْرٌ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی پیٹھ ہے، یعنی اپنی بیوی کو یہ کہہ دینا کہ تم مجھ پر ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہو۔ اس کے تفصیلی احکام سورة مجادلہ میں آئیں گے۔ منہ بولے بیٹے کے متعلق تفصیل یہاں بیان ہو رہی ہے، اس کی مطلقہ سے نکاح کی تفصیل چند آیات کے بعد آئے گی۔ - 3 ان آیات میں کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے منع کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں اسے حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا، وہ بیٹا بنانے والے کی ولدیت کے ساتھ مشہور ہوتا اور اس کا وارث قرار پاتا تھا، البتہ محبت اور شفقت کے اظہار کے لیے کسی کو بیٹا کہہ کر پکارا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انس (رض) کو ” یَا بُنَيَّ “ کہہ کر پکارا۔ [ دیکھیے مسلم، الآداب، باب جواز قولہ لغیر ابنہ یا بنيّ ۔۔ : ٢١٥١ ] اور ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزدلفہ کی رات ہم بنی عبد المطلب کے چھوٹے لڑکوں کو گدھیوں پر سوار کرکے آگے بھیج دیا تھا، تو اس موقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری رانوں پر تھپکیاں دے کر فرمانے لگے : ( أُبَیْنِيَّ لاَ تَرْمُوا الْجَمْرَۃَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ) [ أبوداوٗد، المناسک، باب التعجیل من جمع : ١٩٤٠ ] ” میرے پیارے بیٹو جب تک سورج طلوع نہ ہو جمرات کو کنکر نہ مارو۔ “
خلاصہ تفسیر - اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے اور (اسی طرح) تمہاری ان بیبیوں کو جن سے تم ظہار کرلیتے ہو تمہاری ماں نہیں بنایا اور (اسی طرح سمجھ لو) کہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا (بھی) نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے (جو غلط ہے واقعہ کے مطابق نہیں) اور اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے (اور جب منہ بولے بیٹے واقعہ میں تمہارے بیٹے نہیں تو) تم ان کو (متنبیٰ بنانے والوں کا بیٹا مت کہو، بلکہ) ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف منسوب کیا کرو، یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور گر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو (ان کو اپنا بھائی یا اپنا دوست کہہ کر پکارو کیونکہ آخر) وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجائے تو اس سے تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا لیکن ہاں جو دل سے ارادہ کر کے کہو (تو اس سے گناہ ہوگا) اور ( اس سے بھی معافی مانگ لو تو معاف ہوجائے گا کیونکہ) اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔- معارف ومسائل - سابقہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار و منافقین کے مشوروں پر عمل نہ کرنے اور ان کی بات نہ ماننے کی ہدایت ہے۔ آیات مذکورہ میں کفار میں چلی ہوئی تین رسموں اور باطل خیالات کی تردید ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں عرب لوگ ایسے شخص کو جو زیادہ ذہین ہو یہ کہا کرتے تھے کہ اس کے سینے میں دو دل ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان میں اپنی ازواج کے متعلق ایک یہ رسم تھی کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو اپنی ماں کی پیٹھ یا اور کسی عضو سے تشبیہ دی اور کہہ دیا تو میرے لئے ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ، اس کو ان کے محاورہ میں ظہار کہا جاتا تھا، جو ظہر سے مشتق ہے، ظہر کے معنے ہیں پیٹھ۔ اور ان کا خیال یہ تھا کہ جس شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا وہ ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہوگئی۔- تیسرے یہ کہ ان میں ایک رسم یہ تھی کہ ایک آدمی کسی دوسرے کے بیٹے کو اپنا متبنی (منہ بولا بیٹا) بنا لیتا تھا اور جو اس طرح بیٹا بناتا یہ لڑکا اسی کا بیٹا مشہور ہوجاتا، اور اسی کا بیٹا کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ اور ان کے نزدیک یہ منہ بولا بیٹا تمام احکام میں اصلی بیٹے کی طرح مانا جاتا تھا۔ مثلاً میراث میں بھی اس کی اولاد کے مثل حقیقی اولاد کے شریک ہوتا تھا اور نسبی رشتہ سے جن عورتوں کے ساتھ نکاح حرام ہوتا ہے، یہ منہ بولے بیٹے کے رشتہ کو بھی ایسا ہی قرار دیتے۔ مثلاً جیسے اپنے حقیقی بیٹے کی بیوی سے اس کے طلاق دینے کے بعد بھی نکاح حرام رہتا ہے یہ منہ بولے بیٹے کی بیوی کو بھی طلاق کے بعد اس شخص کے لئے حرام سمجھتے تھے۔- زمانہ جاہلیت کے یہ تین باطل خیالات و رسوم تھے۔ جن سے پہلی بات اگرچہ مذہبی عقیدے یا عمل سے متعلق نہیں تھی۔ اس لئے شریعت اسلام کو اس کی تردید کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ محض فن تشریح و طب کا معاملہ تھا کہ انسان کے سینے میں ایک ہی دل ہوتا ہے یا دو بھی ہوتے ہیں، اس کا ظاہر البطلان ہونا سبھی کو معلوم تھا۔ اس لئے شاید اس کے بطلان کے ذکر کو بھی باقی دو مسئلوں کی تائید و تمہید کے طور پر بیان کردیا گیا کہ جس طرح اہل جاہلیت کا یہ کہنا باطل ہے کہ کسی ایک انسان کے سینہ میں دو دل ہو سکتے ہیں اور اس کے بطلان کو عام و خاص سبھی جانتے ہیں اسی طرح ظہار اور متبنیٰ کے مسائل میں بھی اس کے خیالات باطل ہیں۔- باقی دو مسئلے ایک ظہار دوسرے متبنیٰ بیٹے کے احکام یہ ان معاشرتی اور عائلی مسائل میں سے ہیں جن کی اسلام میں خاص اہمیت ہے۔ یہاں تک کہ ان کی جزئیات اور تفصیلات بھی حق تعالیٰ نے قرآن میں خود ہی بیان فرمائی ہیں۔ دوسرے معاملات کی طرح صرف اصول بیان کر کے تفصیلی بیان کو پیغمبر کے حوالہ نہیں فرمایا۔ ان دونوں مسئلوں میں اہل جاہلیت نے اپنی بےبنیاد خواہشات سے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے خود ساختہ قوانین بنا رکھے تھے۔ دین حق کا فرض تھا کہ وہ ان باطل رسوم و خیالات کا ابطال کر کے حق بات واضح کرے۔ اس لئے بیان فرمایا (آیت) وما جعل ازواجکم الی تظہرون منھن امہاتکم، یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ اگر کسی نے بیوی کو ماں کی برابر یا مثل کہہ دیا تو وہ حقیقی ماں کی طرح ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہوگئی، تمہارے کہنے سے بیوی حقیقتاً ماں نہیں ہوجاتی، تمہاری ماں تو وہی ہے جس سے تم پیدا ہوئے ہو۔ اس آیت نے اہل جاہلیت کے اس خیال کو تو باطل کردیا کہ ظہار کرنے سے حرمت موبدہ نہیں ہوتی۔ آگے یہ بات کہ ایسا کہنے پر کوئی شرعی اثر مرتب ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس کا حکم مستقلاً سورة مجادلہ میں بتایا گیا ہے کہ ایسا کہنا گناہ ہے، اس سے پرہیز واجب ہے، اور ایسا کہنے والا اگر کفارہ ظہار ادا کر دے تو بیوی اس کے لئے حلال ہوجاتی ہے۔ کفارہ ظہار کی تفصیل سورة مجادلہ میں آئے گی۔- دوسرا مسئلہ متبنیٰ بیٹے کا تھا۔ اس کے متعلق فرمایا (آیت) وماجعل ادعیاء کم ابناء کم، ادعیاء دعیً کی جمع ہے۔ دعی وہ لڑکا ہے جس کو منہ بولا بیٹا کہا جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک انسان کے پہلو میں دو دل نہیں ہوتے، اور جس طرح بیوی کو ماں کے مثل کہنے سے بیوی ماں نہیں بن جاتی، اسی طرح منہ بولا بیٹا تمہارا بیٹا نہیں بن جاتا۔ یعنی دوسرے بیٹوں کے ساتھ نہ وہ میراث میں شریک ہوگا اور نہ حرمت نکاح کے مسائل اس پر عائد ہوں گے کہ بیٹے کی مطلقہ بیوی باپ پر ہمیشہ کے لئے حرام ہے تو متبنیٰ کی بیوی بھی حرام ہو۔ - اور چونکہ اس آخری معاملے کا اثر بہت سے معاملات پر پڑتا ہے۔ اس لئے یہ حکم نافذ کردیا گیا کہ متبنیٰ بیٹے کو جب پکارو اس کا ذکر کرو تو اس کے اصلی باپ کی طرف منسوب کر کے ذکر کرو۔ جس نے بیٹا بنا لیا ہے اس کا بیٹا کہہ کر خطاب نہ کرو۔ کیونکہ اس سے بہت سے معاملات میں اشتباہ اور التباس پیدا ہوجانے کا خطرہ ہے۔- صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں حضرت ابن عمر کی حدیث ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمد کہا کرتے تھے (کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو متبنیٰ بنا لیا تھا، اس آیت کے نزول کے بعد ہم نے یہ عادت چھوڑ دی۔- مسئلہ :- اس سے معلوم ہوا کہ اکثر آدمی جو دوسروں کے بچوں کو بیٹا کہہ کر پکارتے ہیں جب کہ محض شفقت کی وجہ سے ہو متبنیٰ قرار دینے کی وجہ سے نہ ہو تو یہ اگرچہ جائز ہے مگر پھر بھی بہتر نہیں کہ صورتاً ممانعت میں داخل ہے (کذافی الروح عن الخفاجی علی البیضادی) - اور یہی وہ معاملہ ہے جس نے قریش عرب کو مغالطہ میں ڈال کر ایک بہت بڑے گناہ عظیم کا مرتکب بنادیا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام لگانے لگے کہ آپ نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرلیا۔ حالانکہ وہ آپ کے بیٹے نہ تھے بلکہ متبنیٰ تھے، جس کا ذکر اسی سورة میں آگے آنے والا ہے۔
مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِہٖ ٠ ۚ وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ اڿ تُظٰہِرُوْنَ مِنْہُنَّ اُمَّہٰتِكُمْ ٠ ۚ وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۗءَكُمْ اَبْنَاۗءَكُمْ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاہِكُمْ ٠ ۭ وَاللہُ يَـقُوْلُ الْحَـقَّ وَہُوَيَہْدِي السَّبِيْلَ ٤- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی:- فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] - ( ز و ج ) الزوج - جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔- ظِّهَارُ- : أن يقول الرّجل لامرأته : أنت عليّ كَظَهْرِ أمّي، يقال : ظَاهَرَ من امرأته . قال تعالی:- وَالَّذِينَ يُظاهِرُونَ مِنْ نِسائِهِمْ [ المجادلة 3] ، وقرئ : يظاهرون «2» أي : يَتَظَاهَرُونَ ، فأدغم،- الظھار کے معنی ہیں خاوند کا بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لئے ایسی ہے جیسے میری ماں کی پشت کہا جاتا ہے ظاھر من امرء تہ اس نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ يُظاهِرُونَ مِنْ نِسائِهِمْ [ المجادلة 3] اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرلیں ۔ ایک قرات میں یظاھرون ہے جو اصل میں یتظاھرون ہے اور تاء ظاء میں مدغم ہے اور ایک قرات یظھرون ہے - أمّ- الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته .- ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا «1» ، قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف 4] «2» أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) «3» ، وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة «4» . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک - «5» وقیل : أم الأضياف وأم المساکين «6» ، کقولهم : أبو الأضياف «7» ، ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم - «8» وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ- [ القارعة 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه «1» ، وکذا : هوت أمّه «2» والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة «3» . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان .- ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ يَا ابْنَ أُمَّ ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- فوه - أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5].- ( ف و ہ )- افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔
سورة الاحزاب - کسی مرد کے سینے میں دو دل نہیں، کا کیا مطلب ہے - قول باری ہے (ماجعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ۔ اللہ نے کسی مرد کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ہے کہ قبیلہ قریش میں ایک شخص تھا جو اپنے مکروفریب اور چستی وچالا کی کی بنا پر ” دودلوں والا “ کہلاتا تھا۔ مجاہد اور قتادہ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت کے مطابق منافقین کہا کرتے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو دلوں والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اس قول کی تکذیب کردی۔- حسن کہتے ہیں کہ ایک شخص تھا جو یہ کہا کرتا تھا کہ ” میری ایک جان تو مجھے حکم دیتی ہے اور دوسری جان روکتی ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی ۔ مجاہد سے مروی ہے کہ بنو فہر کا ایک شخص کہا کرتا تھا کہ میرے سینے میں دو دل ہیں۔ میں ان میں سے ہر ایک کے ذریعے محمد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ عقل اور سمجھ کا مالک ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی تکذیب فرمادی۔- ابو جعفر طحاوی نے ذکر کیا کہ زیر بحث آیت کی تفسیر میں درج بالا اقوال کے سوا اور کوئی بات منقول نہیں ہے۔ ابوجعفر نے مزید کہا ہے کہ امام شافعی نے بعض اہل تفسیر سے جس کا انہوں نے نام نہیں لیا یہ نقل کیا ہے کہ آیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں ایک شخص کے دو باپ نہیں بتائے۔ امام شافعی نے دو آدمیوں کے نطفے سے ایک بچے کی پیدائش کی نفی کے سلسلے میں اس آیت سے استدلال کیا ہے، ان کا یہ استدلال امام محمد کے قول کے خلاف ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لفظ کے اندر اس مفہوم کا احتمال نہیں ہے جو امام شافعی نے اس سے اخذ کیا ہے۔ اس لئے کہ قلب کے لفظ کے ساتھ باپ سے تعبیر نہیں ہوتی نہ تو حقیقتہً اور نہ ہی مجازاً نہ ہی شریعت میں بات کے لئے قلب کو اسم کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس لئے آیت کے یہ معنی لینا کئی وجوہ سے غلط ہے۔- حضرت ابوسعید خدری نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ کو ایک حاملہ لونڈی نظر آئی جس کے منہ سے تھوک نکل رہی تھی۔ آپ نے دریافت کیا کہ یہ لونڈی کس کی ہے ، عرض کیا گیا کہ فلاں شخص کی ہے، آپ نے پھر پوچھا۔ آیا یہ شخص اس کے ساتھ ہم بستری بھی کرتا ہے۔ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اس پر ایسی لعنت بھیجوں جو قبر تک اس کے ساتھ جائے، یہ شخص پیدا ہونے والے بچے کو کس طرح اپنا وارث قرار دے گا حالانکہ وہ بچہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگا یا اسے کسی طرح اپنا غلم بنائے گا جبکہ اس نے اسے آنکھوں دیکھے اور کانوں سے غذا بہم پہنچائی ہے۔ “ آپ کا ارشاد ” اسے آنکھوں دیکھے اور کانوں سے غذا بہم پہنچائی ہے “ اس پر دلالت کرتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ دو مردوں کے نطفوں سے بنا تھا۔- حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) سے بھی مروی ہے کہ ان دونوں حضرات نے دو مردوں سے بچے کا نسب کردیا تھا۔ ان دونوں کے سوا کسی صحابی سے اس کے قول کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہے۔- (یہاں اس مسئلے کا ذکر بےجانہ ہوگا کہ اگر کوئی شخص حاملہ لونڈی خریدے تو جب تک وضع حمل نہ ہوجائے اس وقت تک وہ اس کے ساتھ ہم بستری نہیں کرسکتا۔ درج بالا صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ناراضی کا اس بنا پر اظہار کیا کہ اس شخص نے وضع حمل سے پہلے ہی اس لونڈی کے ساتھ ہمبستری شروع کردی تھی۔ مترجم)- بیوی ماں کی طرح حرام نہیں ہوسکتی - قول باری ہے : (وما جعل ازواجکم اللائی تظاھرون منھن امھاتکم اور تمہاری بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری مائیں نہیں بنادیا ہے) ۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لوگ اپنی بیویوں سے ان الفاظ میں ظہار کرلیتے تھے کہ ” تو میرے لئے میری ماں کی پشت کی طرح ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ اس قول سے بیوی تحریم کے لحاظ سے ماں جیسی نہیں ہوسکتی نیز اس قول کو جھوٹ اور قابل نفرت قول قرار دیا۔- چنانچہ ارشاد ہوا (وانھم لیقولون منکرا من القول وزورا۔ یہ لوگ یقینا ایک نامعقول بات اور ھوٹ کہہ رہے ہیں) اس قول کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ایسی تحریم لازم کردی جو کفارہ ظہار کے ذریعے رفع ہوتی ہے اور ظہار کرنے والے کے اس قول کو باطل قرار دیا جس میں وہ اپنی بیوی کو اپنی ماں جیسی قرار دیتا ہے کیونکہ ماں کی تحریم تو ہمیشہ کے لئے تحریم کی صورت ہے۔- اسلام میں منہ بولا بیٹا بنانا ناجائز نہیں - قول باری ہے (وما جعل ادعیاء کم ابناء کم ۔ اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا بیٹا بنادیا) ایک قول کے مطابق یہ آیت حضرت زید بن حارثہ (رض) کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اپنا متبنیٰ بنا لیا تھا چناچہ انہیں زید بن محمد کے نام سے پکارا جاتا تھا۔- مجاہد ، قتادہ اور دوسرے حضرات سے اسی طرح کی روایت ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ چیز قرآن کے ذریعے سنت کے نسخ کی موجب ہے کیونکہ پہلا قرآن کی بجائے سنت سے ثابت تھا جسے قرآن نے منسوخ کردیا۔- قول باری ہے (ذلکم قولکم باھواھکم۔ یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے) یعنی اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے یہ ایک بےمعنی اور غیر حقیقت پسندانہ بات ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے یہ آیت ابو معمر جمیل بن اسد کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ قوی حافظے کی وجہ سے اس کو دو دلوں والا کہا جاتا تھا۔- اور اسی طرح تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم اظہار کرلیتے ہو حرمت ابدی میں تمہاری ماں نہیں بنا دیا یہ آیت اوس بن صامت اور ان کی بیوی خولہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- اور اسی طرح تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنا دیا۔ یہ تو صرف تمہارے کہنے کی باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ حق بات بتانا ہے اور وہی سیدھا رستہ دکھاتا ہے۔- شان نزول : مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ (الخ)- امام ترمذی نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ایک دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ کو کچھ وسوسہ آیا اس پر جو منافقین آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہنے لگے کہ دیکھتے نہیں ان کے دو دل ہیں ایک دل تمہارے ساتھ ہے اور ایک دل ان کے ساتھ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔- اور ابن ابی حاتم نے حضیف کے طریق سے سعید بن جبیر مجاہد اور عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ ایک کو دو دلوں والا کہا جاتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور ابن جریر نے بواسطہ قتادہ حسن سے اسی طرح روایت نقل کی ہے باقی اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہ شخص کہتا تھا کہ میرا ایک دل تو مجھے حکم کرتا ہے اور دوسرا دل منع کرتا ہے۔- اور نیز ابن ابی نجیح کے طریق سے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت بنی فہم کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ بدتمیز کہتا تھا کہ میرے پیٹ میں دو دل ہیں میں ہر ایک دل سے محمد کی عقل سے زیادہ سمجھتا ہوں۔ استغفر اللہ۔ اور ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت جمیل بن معمد قریشی کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو بنی جمع سے تعلق رکھتا تھا۔
آیت ٤ مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ ” اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے۔ “- جوف کے معنی خالی جگہ کے ہیں اور یہاں اس سے سینے کا اندرونی حصہ ( ) مراد ہے جس کے بائیں جانب دل ہوتا ہے۔ یعنی ہر انسان کے سینے میں اللہ نے ایک ہی دل رکھا ہے۔ اور اگر محاورۃً یوں کہا جائے کہ فلاں اور فلاں کے دل یکجا ہوگئے ہیں یا فلاں کا دل فلاں کے دل سے مل گیا ہے تو محض اس طرح کہہ دینے سے کسی کے سینے کے اندر حقیقت میں دو دل نہیں ہوجاتے۔ چناچہ جس طرح یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ‘ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی شخص کی دو مائیں نہیں ہوتیں۔ کسی شخص کی ماں صرف وہی ہے جس نے اسے جنم دیا اور کسی انسان کا باپ صرف وہی ہے جس کے صلب سے وہ پیدا ہوا ۔- وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَکُمُ الّٰیِْٔ تُظٰہِرُوْنَ مِنْہُنَّ اُمَّہٰتِکُمْ ” اور نہ اس نے تمہاری ان بیویوں کو تمہاری مائیں بنایا ہے جن سے تم ظہار کر بیٹھتے ہو۔ “- ” ظِھار “ عرب کے دور جاہلیت کی ایک اصطلاح ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ناراض ہو کر کبھی یوں کہہ دیتا کہ اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ (اب تو میرے اوپر اپنی ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہے) تو اب اسے طلاق مغلظ ّدر مغلظ شمار کیا جاتا اور اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی۔ یہاں اس خودساختہ تصور کی نفی کردی گئی کہ تم میں سے کسی کے اپنی بیوی کو ماں کہہ دینے یا ماں کے ساتھ تشبیہہ دے دینے سے وہ اس کی ماں نہیں بن جاتی۔ ” ظہار “ کے بارے میں واضح احکام سورة المجادلہ (پارہ ٢٨) کی ابتدائی آیات میں دیے گئے ہیں۔- وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآئَ کُمْ اَبْنَآئَ کُمْ ” اور نہ ہی اس نے تمہارے ُ منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے بنایا ہے۔ “- ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاہِکُمْ ” یہ سب تمہارے اپنے ُ منہ کی باتیں ہیں۔ “- اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری ان خود ساختہ باتوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ کسی کی ماں صرف وہی ہے جس نے اسے جنم دیا ہے اور کسی شخص کا بیٹا بھی صرف وہی ہے جو اس کے ُ صلب سے پیدا ہوا۔ فقط کسی کے کہہ دینے سے کوئی عورت کسی کی ماں نہیں بن جاتی اور کسی کے زبانی دعویٰ سے کوئی کسی کا بیٹا نہیں بن جاتا۔- وَاللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِی السَّبِیْلَ ” اور اللہ حق کہتا ہے اور وہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ “
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :5 یعنی ایک آدمی بیک وقت مومن اور منافق ، سچا اور جھوٹا ، بدکار اور نیکو کار نہیں ہو سکتا ۔ اس کے سینے میں دو دل نہیں ہیں کہ ایک دل میں اخلاص ہو اور دوسرے میں خدا سے بے خوفی ۔ لہٰذا ایک وقت میں آدمی کی ایک ہی حیثیت ہو سکتی ہے ۔ یا تو وہ مومن ہو گا یا منافق ۔ یا تو وہ کافر ہو گا یا مسلم ۔ اب اگر تم کسی مومن کو منافق کہہ دو یا منافق تو اس سے حقیقت نفس الامری نہ بدل جائے گی ۔ اس شخص کی اصل حیثیت لازماً ایک ہی رہے گی ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :6 ظِہار عرب کی ایک خاص اصطلاح ہے ۔ قدیم زمانے میں عرب کے لوگ بیوی سے لڑتے ہوئے کبھی یہ کہہ بیٹھتے تھے کہ تیری پیٹھ میری لئے میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے ۔ اور یہ بات جب کسی کے منہ سے نکل جاتی تھی تو یہ سمجھتا جاتا تھا کہ اب یہ عورت اس پر حرام ہو گئی ہے کیونکہ وہ اسے ماں سے تشبیہ دے چکا ہے ۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیوی کو ماں کہنے یا ماں کے ساتھ تشبیہ دے دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی ۔ ماں تو وہی ہے جس نے آدمی کو جنا ہے ۔ محض زبان سے ماں کہہ دینا حقیقت کو نہیں بدل دیتا کہ جو بیوی تھی وہ تمہارے کہنے سے ماں بن جائے ۔ ( یہاں ظہار کے متعلق شریعت کا قانون بیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ اس کا قانون سورہ مجادلہ ۔ آیات ۲ ۔ ٤ میں بیان کیا گیا ہے ) ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :7 یہ اصل مقصود کلام ہے ۔ اوپر کے دونوں فقرے اسی تیسری بات کو ذہن نشین کرنے کے لئے بطور دلیل ارشاد ہوئے تھے ۔
2: اس معجزانہ جملے کا تعلق پچھلی آیت سے بھی ہے، اور اگلی آیت سے بھی۔ پچھلی آیت سے اس کا تعلق یہ ہے کہ کافر اور منافق لوگ آپ کو یہ تجویز پیش کر رہے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کو بھی خوش رکھئے، اور ان کے مطالبات مان کر ان کو بھی خوش کردیجئے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے سینے میں ایک ہی دل پیدا فرمایا ہے، اور جب وہ اللہ تعالیٰ کا ہو رہے تو پھر اس کی مرضی کے خلاف کسی اور کو خوش رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان ایک دل اللہ تعالیٰ کو دیدے، اور دوسرا دل کسی اور کو۔ اور اگلی آیت سے اس کا تعلق یہ ہے کہ اہل عرب میں یہ رسم تھی کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو یہ کہہ دیتا تھا کہ : تم میرے لیے ایسی ہو جیسے میری ماں کی پشت اور یہ کہنے کے بعد وہ بیوی کو ماں کی طرح حرام سمجھتا تھا، اسی طرح جب کوئی کسی کو منہ بولا بیٹا بنا لیتا تو اسے اپنا سگا بیٹا ہی سمجھ لیتا تھا، اور اس پر میراث وغیرہ میں بھی ویسے ہی احکام جاری کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک انسان کے سینے میں دو دل نہیں ہوسکتے، اسی طرح انسان کی دو مائیں نہیں ہوسکتیں۔ اور نہ دو قسم کے بیٹے ہوسکتے ہیں کہ ایک انسان کی اپنی صلب سے پیدا ہو، اور دوسرا زبانی اعلان سے بیٹا بن جائے۔ 3: اس کو اصطلاح میں ’’ ظہار‘‘ کہتے ہیں، اور آگے سورۂ مجادلہ میں اس کی تفصیل آنے والی ہے۔