5 1اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کردی گئی جو زمانہ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرام بیان فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آزاد کر کے بیٹا بنا لیا تھا زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے، حتی کہ قرآن کریم کی آیت ادعوھم لآبائھم نازل ہوگئی اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو حذیفہ کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہوگیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو حذیفہ کی بیوی کو کہا کہ اسے دودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہوجاؤ گی چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ یعنی جن کے حقیقی باپوں کا علم ہے۔ اب دوسری نسبتیں ختم کر کے انھیں کی طرف انھیں منسوب کرو۔ البتہ جن کے باپوں کا علم نہ ہو سکے تو تم انھیں اپنا دینی بھائی اور دوست سمجھو، بیٹا مت سمجھو۔ 5 2اس لئے کہ خطا معاف ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی صراحت ہے۔ 5 3یعنی جو جان بوجھ کر انتساب کرے گا وہ سخت گناہگار ہوگا، حدیث میں آتا ہے، جس نے جانتے بوجھتے اپنے غیر باپ کی طرف منسوب کیا۔ اس نے کفر کا ارتکاب کیا (صحیح بخاری)
[٤] سلیمان فارسی اور صہیب رومی (رض) :۔ جیسے سیدنا سلمان فارسی کے باپ کا علم خود انھیں بھی نہیں تھا۔ بچپن میں ہی انھیں غلام بنا لیا گیا۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ مجھے دس سے زیادہ مرتبہ بیچا اور خریدا گیا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب اسلام سلمان الفارسی) اور جیسے سیدنا صہیب رومی (رض) جو اصل میں ایرانی تھے۔ مگر اہل روم نے جب فارس پر حملہ کیا تو انھیں بچپن ہی میں قیدی بنا کر روم لے گئے تھے اور دونوں صحابہ کرام (رض) ثکو اپنے اپنے والد کے نام تک معلوم نہ تھے۔- [٥] یعنی اگر کوئی کسی کو پیار سے بیٹا یا بیٹی کہہ دے یا کسی کا احترام ملحوظ رکھ کر کسی بزرگ کو باپ یا بزرگ عورت کو ماں کہہ دے یا محض اخلاقاً یہ الفاظ استعمال کئے جائیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ حرج اس وقت واقع ہوتا ہے کہ اگر کسی کو بیٹا یا بیٹی کہے تو حقیقی بیٹے یا بیٹی جیسے فرائض حقوق بھی اپنے اوپر لازم کرلے۔- [٦] اپنے آپ کو کسی دوسرے فرد یا قوم کی طرف منسوب کرنا کبیرہ گناہ ہے :۔ جس طرح عام مومنوں کو حکم ہے کہ وہ کسی شخص کو اس کے حقیقی باپ ہی کی طرف منسوب کریں کسی دوسرے کی طرف نہ کریں۔ اسی طرح یہ بھی حکم ہے کہ کوئی شخص خود بھی اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص یا کسی قوم کی طرف منسوب نہ کرے۔ چناچہ سیدنا ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جس نے دوسرے شخص کو جان بوجھ کر اپنا باپ بنایا وہ کافر ہوگیا اور جو شخص اپنے تئیں دوسری قوم کا بتائے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب نسبۃ الیمن الی اسمٰعیل) ہمارے ملک میں سید بننے کا یا کسی اونچی ذات سے نسبت قائم کرنے کا عام رواج ہے۔ ایسے حضرات اس حدیث کے آئینے میں اپنا انجام دیکھ سکتے ہیں۔- [٧] اس کا ایک مطلب تو ہے کہ اس سلسلہ میں تم سے جو پہلے لغزشیں اور غلطیاں ہوچکی ہیں اللہ انھیں معاف کرنے والا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر تم نادانستہ کوئی ایسی بات کہہ دو یا بھول چوک کہہ دو تو ایسی خطائیں بھی اللہ معاف کرنے والا ہے۔
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ : یعنی جو متبنٰی بنائے جا چکے ہیں اب انھیں ان کے باپوں ہی کی نسبت سے پکارو۔ ان آیات کے نزول کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اصل باپ کے سوا کسی دوسرے باپ کی طرف منسوب کرنے سے منع کردیا اور اس کی سخت وعید بیان فرمائی، چناچہ زید (رض) کو بھی زید بن محمد کے بجائے زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں : ( أَنَّ زَیْدَ بْنَ حَارِثَۃَ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مَا کُنَّا نَدْعُوْہُ إِلاَّ زَیْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَتّٰی نَزَلَ الْقُرْآنُ : (اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ) [ بخاري، التفسیر، باب : ( أدعوھم لآباءھم۔۔ ) : ٤٧٨٢ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) زید بن حارثہ کو ہم زید بن محمد ہی کہا کرتے تھے، یہاں تک کہ قرآن اترا : (اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ) ” انھیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف کی بات ہے۔ “ سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیْہِ وَھُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ غَیْرُ أَبِیْہِ فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ ) [ بخاري، الفرائض، باب من ادعٰی إلیٰ غیر أبیہ : ٦٧٦٦ ] ” جس شخص نے اپنے باپ کے غیر کی طرف اپنی نسبت کی اور وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا باپ نہیں، تو اس پر جنت حرام ہے۔ “ ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا تَرْغَبُوْا عَنْ آبَاءِ کُمْ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِیْہِ فَھُوَ کُفْرٌ ) [ بخاري، الفرائض، باب من ادعی إلی غیر أبیہ : ٦٧٦٨] ” اپنے باپوں سے بےرغبتی مت کرو، کیونکہ جس نے اپنے باپ سے بےرغبتی کی تو یہ کام کفر ہے۔ “ - واثلہ بن اسقع (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْفِرٰی أَنْ یَّدَّعِيَ الرَّجُلُ إِلٰی غَیْرِ أَبِیْہِ ، أَوْ یُرِيَ عَیْنَہُ مَا لَمْ تَرَ ، أَوْ یَقُوْلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مَا لَمْ یَقُلْ ) [ بخاري، المناقب، باب : ٣٥٠٩ ] ” سب سے بڑے بہتانوں میں سے یہ بات ہے کہ آدمی اپنی نسبت اپنے باپ کے غیر کی طرف کرے، یا اپنی آنکھوں کو وہ دکھائے جو انھوں نے نہیں دیکھا (خواب گھڑ کر سنائے) یا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق وہ بات کہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں فرمائی۔ “- هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ :” اَقْسَطُ “ اسم تفضیل کا صیغہ ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منہ بولا بیٹا بنانے والے کی طرف باپ ہونے کی نسبت کرنا بھی قسط (انصاف) ہے، ہاں، اصل باپ کی طرف نسبت زیادہ انصاف ہے۔ اس کا جواب شعراوی نے یہ دیا ہے کہ زید (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غلام ہوتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے باپ پر ترجیح دے کر آپ کے پاس رہنا پسند کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں بیٹے جیسی سعادت دیکھ کر اسے بیٹا بنا لیا، تو اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شرف کو ملحوظ رکھتے ہوئے ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا۔ ہاں، اصل باپ کی طرف نسبت کو ” اقسط “ کہہ کر دوسرے کی طرف نسبت سے منع فرما دیا، کیونکہ حق یہی ہے اور اللہ تعالیٰ حق بات ہی فرماتا ہے۔- فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ : ” مَوَالِیْ “ ” مَوْلٰی “ کی جمع ہے، یہاں اس سے مراد دوست ہیں۔ یعنی اگر ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں۔ کسی کی طرف نسبت کے بجائے انھیں ” یَا أَخِيْ ، یَا مَوْلَايَ “ (اے میرے بھائی، اے میرے دوست) کہہ کر پکارو۔- وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ ۔۔ : یعنی ممانعت سے پہلے تم منہ بولے بیٹوں کو ان کے پرورش کرنے والوں کا بیٹا کہتے رہے، یا کسی کو علم نہ ہونے کی وجہ سے کسی دوسرے کا بیٹا کہہ دیا، یا بلا ارادہ زبان سے کسی دوسرے کا بیٹا کہہ بیٹھے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ گناہ تو اس میں ہے کہ ممانعت کے بعد دیدہ و دانستہ کسی کو اس کے باپ کے سوا دوسرے کا بیٹا کہو۔ تمہاری خطا پر گناہ اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے بیحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ اس نے خطا اور نسیان کو معاف فرما دیا ہے۔ واضح رہے کہ بعض لوگ منہ بولے بیٹے بنانے کو ان آیات کے ساتھ منسوخ قرار دیتے ہیں، مگر یہ درست نہیں، کیونکہ منسوخ تو تب ہوتا جب وہ پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا۔ وہ تو اسلام سے پہلے کی ایک رسم تھی جسے اللہ تعالیٰ نے ختم فرمایا، اسے منسوخ نہیں کہا جاسکتا۔
اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَاۗىِٕہِمْ ہُوَاَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ ٠ ۚ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ ٠ ۭ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ ٠ ۙ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِـيْمًا ٥- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے - قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ «1» في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- خطأ - الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب :- أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله،- وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] .- والثاني : أن يريد ما يحسن فعله،- ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء 92] .- والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله - ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، - والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان،- لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا - لتولّد ذلک الفعل منه - ( خ ط ء ) الخطاء - والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں - اس کی مختلف صورتیں ہیں - ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔- یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے - ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔- کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے - ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔- اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔- الخطیتۃ - یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے - عمد - العَمْدُ : قصد الشیء والاستناد إليه، والعِمَادُ : ما يُعْتَمَدُ. قال تعالی: إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ- [ الفجر 7] ، أي : الذي کانوا يَعْتَمِدُونَهُ ، يقال : عَمَّدْتُ الشیء : إذا أسندته، وعَمَّدْتُ الحائِطَ مثلُهُ. والعَمُودُ : خشب تَعْتَمِدُ عليه الخیمة، وجمعه : عُمُدٌ وعَمَدٌ. قال : فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ [ الهمزة 9] وقرئ : فِي عَمَدٍ ، وقال :- بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] ، وکذلک ما يأخذه الإنسان بيده مُعْتَمِداً عليه من حدید أو خشب .- ( ع م د ) العمد - کے معنی کسی چیز کا قصد کرنے اور اس پر ٹیک لگانا کے ہیں اور العماد وہ چیز ہے جس پر ٹیک لگائی جائے یا بھروسہ کیا جائے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر 7] جو ارم ( کہلاتے تھے اتنے ) دراز قد ۔ میں العماد سے وہ چیزیں مراد ہیں جن پر انہیں بڑا بھروسہ تھا محاورہ ہے ۔ عمدت الشئی کسی چیز کو سہارا دے کر کھڑا کرنا عمدت الحائط دیوار کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور العمود اس لکڑی ( بلی ) کو کہتے ہیں جس کے سہارے خیمہ کو کھڑا کیا جاتا ہے اس کی جمع عمد آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ ، [ الهمزة 9] ( یعنی آگ کے ) لمبے لمبے ستونوں میں ۔ اور ایک قرات میں فی عمد ہے نیز فرمایا : ۔ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] ستونوں کے بغیر جیسا کہ تم دیکھتے ہو ۔ نیز العمود ہر اس لکڑی یا لوہے کو کہتے ہیں جس پر سہارا لگا کر انسان کھڑا ہوتا ہے - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
قول باری ہے (ادعولھم لا بائھم ھواقسط عندالہ فان لم تعلموا اباء ھم فاخوانکم فی الدین وموالیکم ۔ ) انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو کہ یہی اللہ نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو (آخر) وہ تمہارے دین کے تو بھائی ہی ہیں اور تمہارے دوست، اس میں نسب کے بغیر کسی شخص پر بھائی کے سام کے اطلاق کی اباحت اور باپ کے اسم کے اطلاق کی ممانعت ہے۔- اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کے متعلق یہ کہے کہ وہ میرا بھائی ہے تو غلام آزاد نہیں ہوگا بشرطیکہ وہ یہ کہے کہ میں نے نسبی بھائی مراد نہیں لیا ہے اس لئے کہ ایک شخص پر دینی لحاظ سے بھائی کے لفظ کا اطلاق ہوسکتا ہے ۔ لیکن اگر وہ اپنے غلام کے متعلق یہ کہے کہ یہ میرا بیٹا ہے تو وہ غلام آزاد ہوجائے گا کیونکہ نسب کے بغیر اس اسم کا اطلاق ممنوع ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (من ادعی الی غیر ابیہ وھو یعلم انہ غیرابیہ فالجنۃ علیہ حرام۔ جو شخص اپنے باپ کے سوا کسی اور شخص کی طرف باپ ہونے کی نسبت کرے گا جبکہ اسے معلوم ہو کہ وہ شخص اس کا باپ ہیں ہے ، اس پر جنت حرام ہوجائے گی۔ )- قول باری ہے (ولیس علیکم جناح فیما اخطاتم بہ۔ تمہارے اوپر اس کا کوئی گناہ نہیں جو تم سے بھول چوک ہوجائے) ابن ابی نجیع نے مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔ خطاء کی صورت یہ ہے اس تبنی کے مسئلے میں یا اس کے علاوہ دوسرے مسائل میں نہی کے وردہ سے پہلے جو کچھ ہوچکا (ولکن ما تعمدت قلوبکم) عمد کی صورت ہے کہ اس مسئلے میں یا اس کے علاوہ دوسرے مسائل میں نہی کے ورود کے بعد تم اس نہیں کے خلاف طریق کار کو ترجیح دو ۔- ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے قتادہ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی کہ اگر تم کسی شخص کو اس کے باپ کے سوا کسی اور کی طرف نسبت کرکے پکارو اور تمہیں معلوم ہو کہ وہ شخص اس کا باپ ہے تو اس کی وجہ سے تم پر کوئی گناہ لازم نہیں آئے گا۔- حضرت عمر (رض) نے ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا۔ ” اے اللہ میری خطائیں معاف کردے۔ “ آپ نے اس سے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے ان خطائوں کی معافی مانگو جو تم نے عمداً کی ہیں، باقی رہ گئیں تمہاری وہ خطائیں جو تم نے جان بوجھ کر نہیں کیں تو ان کی تمہیں ازخود معافی مل جائے گی۔- قتادہ نے مزید کہا کہ حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے۔” تم سے غلطی کی بنا پر سرزد ہونے والی خطائوں کا مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے، مجھے تو صرف ان خطائوں کی فکر ہے جو تم سے جان بوجھ کر سرزد ہوئی ہوں۔ “ کہ مجھے قتال کی بنا پر تمہارے بارے میں کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن مجھے مال ودولت کی کثرت کی بنا پر تمہارے بارے میں خطرہ ہے، مجھے یہ خطرہ نہیں ہے کہ تم اپنے اعمال کو حقیر سمجھو گے لیکن مجھے تمہارے بارے میں یہ خطرہ ضرور ہے کہ کہیں تم اپنے اعمال کو کثیر نہ سمجھنے لگ جائو۔ “
تم ان کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل اور سچائی کی بات ہے اور اگر تم ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کرنا نہ جانتے ہو تو پھر تم ان کو اپنے دینی بھائیوں کے نام کے ساتھ مثلا عبداللہ، عبدالرحمن، عبدالرحیم کہا کرو یا اپنے دوستوں کے ناموں کے ساتھ پکارو اور اگر تم سے اس چیز میں بھول چوک ہوجائے تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ جو دل سے ارادہ کر کے کرو کہ ان کے حقیقی باپوں کے علاوہ دوسروں کی طرف جان بوجھ کر منسوب کرو تو اس پر اللہ تعالیٰ تمہاری پکڑ کرے گا اور اللہ تعالیٰ سابقہ گناہوں کی مغفرت فرمانے والا اور آئندہ کے لیے رحیم ہے۔ یہ آیت حضرت زید بن حارثہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو متبنے ٰ بنا رکھا تھا تو دوسرے لوگ ان کو زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا اور سیدھا طریقہ بتا دیا۔- شان نزول : اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ (الخ)- امام بخاری نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہم حضرت زید بن حارثہ کو زید بن محمد کہا کرتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی یعنی تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک درست بات ہے۔
آیت ٥ اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ ” (لہٰذا) انہیں پکارا کرو ان کے باپوں کی نسبت سے ‘ یہ زیادہ مبنی بر انصاف ہے اللہ کے نزدیک۔ “- اس واضح حکم کے بعد کسی کی ولدیت تبدیل کرنا حرام مطلق ہے۔ چناچہ اس حکم کے بعد حضرت زید (رض) کو زید (رض) بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بجائے زید (رض) بن حارثہ کہا جانے لگا۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ کسی وجہ سے کسی کا بچہ لے کر پالتے ہیں تو اس کی ولدیت کی جگہ اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب بڑے ہو کر بچے کو پتا چلے گا کہ وہ اس کے والدین نہیں تو اسے ذہنی طور پر شدید دھچکا لگے گا جو اس کے لیے بہت سے نفسیاتی مسائل کا باعث بنے گا۔ لیکن ایسا کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ - فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآئَ ہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ ” اور اگر تمہیں ان کے باپوں کے بارے میں پتا نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں۔ “- کسی وجہ سے یوں بھی ہوسکتا ہے کہ کسی بچے کی ولدیت کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ جیسے پاک بھارت تقسیم کے دوران اس طرح کے واقعات ہوئے کہ مہاجرین کی ایک ٹرین میں سب لوگ مارے گئے اور کوئی بچہ زندہ بچ گیا۔ بعد میں کسی نے اس بچے کو پال لیا ‘ لیکن اس کے والدین کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ - وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہ ” اور اس معاملے میں تم سے جو خطا ہوئی ہے اس پر تم سے کوئی مواخذہ نہیں “- یعنی اس حکم سے پہلے اس سلسلے میں اگر تم سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اللہ کے ہاں اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔- وَلٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ ” لیکن تم لوگ جو کچھ اپنے دلوں کے ارادے سے کرو گے (اس کا ضرور احتساب ہوگا) ۔ “- وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ” اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :8 اس حکم کی تعمیل میں سب سے پہلے جو اصلاح نافذ کی گئی وہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زید کو زید بن محمد کہنے کے بجائے ان کے حقیقی باپ کی نسبت سے زید بن حارثہ کہنا شروع کر دیا گیا ۔ بخاری ‘ مسلم ‘ ترمذی ‘ اور نسائی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ روایات نقل کی ہے کہ زید بن حارثہ کو پہلے سب لوگ زید بن محمد کہتے تھے ۔ یہ آیت نازل ہونے کے بعد انہیں زید بن حارثہ کہنے لگے ۔ مزید برآں اس آیت کے نزول کے بعد یہ بات حرام قرار دے دی گئی کہ کو ئی شخص اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنا نسب منسوب کرے ۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من ادعیٰ الیٰ غیر ابیہ وھو یعلم انہ غیر ابیہ فالجنۃ علیہ حرام ۔ جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا کہا ‘ درآنحالیکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے ‘ اس پر جنت حرام ہے ۔ اسی مضمون کی دوسری روایات بھی احادیث میں ملتی ہیں ۔ جن میں اس فعل کو سخت گناہ قرار دیا گیا ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :9 یعنی اس صورت میں بھی یہ درست نہ ہو گا کہ کسی شخص سے خواہ مخواہ اس کا نسب ملایا جائے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :10 مطلب یہ ہے کہ کسی کو پیار سے بیٹا کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ اسی طرح ماں ، بیٹی ، بہن ، بھائی وغیرہ الفاظ میں بھی اگر کسی کے لیے محض اخلاقاً استعمال کر لیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں ۔ لیکن اس ارادے سے یہ بات کہنا کہ جسے بیٹا یا بیٹی وغیرہ کہا جائے اس کو واقعی وہی حیثیت دے دی جائے جو ان رشتوں کی ہے ، اور اس کے لیے وہی حقوق ہوں جو ان رشتہ داروں کے ہیں ، اور اس کے ساتھ ویسے ہی تعلقات ہوں جیسے ان رشتہ داروں کے ساتھ ہوتے ہیں ، یہ یقیناً قابل اعتراض ہے اور اس پر گرفت ہو گی ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :11 اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ پہلے اس سلسلے میں جو غلطیاں کی گئی ہیں ان کو اللہ نے معاف کیا ۔ ان پر اب کوئی باز پرس نہ ہو گی ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نادانستہ افعال پر گرفت کرنے والا نہیں ہے ۔ اگر بلا ارادہ کوئی ایسی بات کی جائے جس کی ظاہری صورت ایک ممنوع فعل کی سی ہو ، مگر اس میں درحقیقت اس ممنوع فعل کی نیت نہ ہو ، تو محض فعل کی ظاہری شکل پر اللہ تعالیٰ سزا نہ دے گا ۔
4: یعنی اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اپنے منہ بولے بیٹے کے ساتھ محبت اور حسن سلوک میں بیٹے جیسا معاملہ کرو ؛ لیکن اس کی ولدیت بتانے کی ضرورت پیش آئے تو اس کو اپنی طرف منسوب کرنے کے بجائے اس کی صحیح ولدیت بتاؤ۔ 5: مطلب یہ ہے کہ اگر منہ بولے بیٹے کی صحیح ولدیت معلوم نہ ہو تب بھی اسے اپنی طرف منسوب کرنے کے بجائے اسے اپنا بھائی یا اپنا ہم قبیلہ دوست کہو۔ 6: بھول چوک میں یا مجازی طور پر منہ بولے بیٹے کو بیٹا کہہ دینے کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرمایا ہے، البتہ جب سنجیدگی سے ولدیت بتائی جائے، اس وقت اسے اپنا بیٹا ظاہر کرنا درست نہیں۔