تکمیل ایمان کی ضروری شرط چونکہ رب العزت وحدہ لاشریک کو علم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر خود ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ مہربان ہیں ۔ اس لئے آپ کو ان کی اپنی جان سے بھی انکا زیادہ اختیاردیا ۔ یہ خود اپنے لئے کوئی تجویز نہ کریں بلکہ ہر حکم رسول کو بدل وجان قبول کرتے جائیں جیسے فرمایا آیت ( فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65 ) 4- النسآء:65 ) ، تیرے رب کی قسم یہ مومن نہ ہونگے جب تک کہ اپنے آپس کے تمام اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں اور تیرے تمام تر احکام اور فیصلوں کو بدل وجان بکشادہ پیشانی قبول نہ کرلیں ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی باایمان نہیں ہوسکتا ۔ جب تک کہ میں اسے اس کے نفس سے اس کے مال سے اسکی اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔ ایک اور صحیح حدیث میں ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یارسول اللہ آپ مجھے تمام جہان سے زیادہ محبوب ہیں لیکن ہاں خود میرے اپنے نفس سے ۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں عمر جب تک کہ میں تجھے خود تیرے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں ۔ یہ سن کر جناب فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے قسم اللہ کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے ہر چیز سے یہاں تک کہ میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں آپ نے فرمایا اب ٹھیک ہے ۔ بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمام مومنوں کا زیادہ حقدار دنیا اور آخرت میں خود ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ میں ہوں ۔ اگر تم چاہو تو پڑھ لو آیت ( اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا Č ) 33- الأحزاب:6 ) سنو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے اس کا مال تو اس کے وارثوں کا حصہ ہے ۔ اور اگر کوئی مرجائے اور اسکے ذمہ قرض ہو یا اس کے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہوں تو اس کے قرض کی ادائیگی کا میں ذمہ دار ہوں اور ان بچوں کی پرورش میرے ذمے ہے ۔ پھر فرماتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات حرمت اور احترام میں عزت اور اکرام میں بزرگی اور عظام میں تمام مسلمانوں میں ایسی ہیں جیسی خود کی اپنی مائیں ۔ ہاں ماں کے اور احکام مثلا خلوت یا ان کی لڑکیوں اور بہنوں سے نکاح کی حرمت یہاں ثابت نہیں گو بعض علماء نے ان کی بیٹیوں کو بھی مسلمانوں کی بہنیں لکھاہے جیسے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے مختصر میں نصاً فرمایا ہے لیکن یہ عبارت کا اطلاق ہے نہ حکم کا اثبات ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کو جو کسی نہ کسی ام المومنین کے بھائی تھے انہیں ماموں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تو کہا ہے کہہ سکتے ہیں ۔ رہی یہ بات کہ حضور صلي الله عليه وسلم کو ابو المومنین بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ خیال رہے کہ ابو المومنین کہنے میں مسلمان عورتیں بھی آجائیں گی جمع مذکر سالم میں باعتبار تغلیب کے مونث بھی شامل ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے کہ نہیں کہہ سکتے امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قولوں میں بھی زیادہ صحیح قول یہی ہے ۔ ابی بن کعب اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی قرأت میں امھاتھم کے بعد یہ لفظ ہیں وھو اب لھم یعنی آپ ان کے والد ہیں ۔ مذہب شافعی میں بھی ایک قول یہی ہے ۔ اور کچھ تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا میں تمہارے لے قائم مقام باپ کے ہوں میں تمہیں تعلیم دے رہا ہوں سنو تم میں سے جب کوئی پاخانے میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرکے نہ بیٹھے ۔ نہ اپنے داہنے ہاتھ سے ڈھیلے لے نہ داہنے ہاتھ سے استنجاکرے ۔ آپ تین ڈھیلے لینے کا حکم دیتے تھے اور گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے کی ممانعت فرماتے تھے ( نسائی وغیرہ ) میں دوسرا قول یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو باپ نہ کہا جائے کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت ( مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 40ۧ ) 33- الأحزاب:40 ) حضور تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ بہ نسبت عام مومنوں مہاجرین اور انصار کے ورثے کے زیادہ مستحق قرابتدار ہیں ۔ اس سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار میں جو بھائی چارہ کرایا تھا اسی کے اعتبار سے یہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے اور قسمیں کھا کر ایک دوسروں کے جو حلیف بنے ہوئے تھے وہ بھی آپس میں ورثہ بانٹ لیا کرتے تھے ۔ اس کو اس آیت نے منسوخ کردیا ۔ پہلے اگر انصاری مرگیا تو اس کے وارث اس کی قرابت کے لوگ نہیں ہوتے تھے بلکہ مہاجر ہوتے تھے جن کے درمیان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی چارہ کرادیا تھا ۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ یہ حکم خاص ہم انصاری ومہاجرین کے بارے میں اترا ہم جب مکہ چھوڑ کر مدینے آئے تو ہمارے پاس مال کچھ نہ تھا یہاں آکر ہم نے انصاریوں سے بھائی چارہ کیا یہ بہترین بھائی ثابت ہوئے یہاں تک کہ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کے مال کے وارث بھی ہوتے تھے ۔ حضرت ابو بکر کا بھائی چارہ حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فلاں کے ساتھ ۔ حضرت عثمان کا ایک زرقی شخص کے ساتھ ۔ خود میرا حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ۔ یہ زخمی ہوئے اور زخم بھی کاری تھے اگر اس وقت ان کا انتقال ہوجاتا تو میں بھی ان کا وارث بنتا ۔ پھر یہ آیت اتری اور میراث کا عام حکم ہمارے لئے بھی ہوگیا ۔ پھر فرماتا ہے ورثہ تو ان کا نہیں لیکن ویسے اگر تم اپنے مخلص احباب کے ساتھ سلوک کرنا چاہو تو تمہیں اخیتار ہے ۔ وصیت کے طور پر کچھ دے دلا سکتے ہو ۔ پھر فرماتا ہے اللہ کا یہ حکم پہلے ہی سے اس کتاب میں لکھا ہوا تھا جس میں کوئی ترمیم وتبدیلی نہیں ہوئی ۔ بیچ میں جو بھائی چارے پر ورثہ بٹتا تھا یہ صرف ایک خاص مصلحت کی بنا پر خاص وقت تک کے لئے تھا اب یہ ہٹا دیا گیا اور اصلی حکم دے دیا گیا واللہ اعلم ۔
6 1نبی اپنی امت کے لئے جتنے شفیق اور خیر خواہ تھے، محتاج وضاحت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس شفقت اور خیر خواہی کو دیکھتے ہوئے اس آیت میں آپکو مومنوں کے اپنے نفس سے بھی زیادہ حق دار، آپ کی محبت کو دیگر تمام محبتوں سے فائق تر اور آپ کے حکم کو اپنی تمام خواہشات سے اہم قرار دیا ہے۔ اس لئے مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ آپ ان کے جن مالوں کا مطالبہ اللہ کے لئے کریں، وہ آپ پر نچھاور کردیں چاہے انھیں خود کتنی ہی ضرورت ہو۔ آپ سے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ محبت کریں (جیسے حضرت عمر کا واقعہ ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو سب پر مقدم اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو سب سے اہم سمجھیں۔ جب تک یہ خود سپردگی نہیں ہوگی (فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤمِنُوْنَ ) (النساء۔ 6 5 کے مطابق آدمی مومن نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب تک آپ کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی وہ صحیح مومن نہ ہوگا۔ 6 2یعنی احترام و تکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں 6 3یعنی اب مہاجرت، اخوت کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہوگی۔ 6 4ہاں غیر رشتہ داروں کے لئے احسان اور بر و صلہ کا معاملہ کرسکتے ہو، نیز ان کے لئے ایک تہائی مال میں وصیت بھی کرسکتے ہو۔ 6 5یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے، گو عارضی طور پر مصلحتًا دوسروں کو بھی وارث قرار دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کردیا جائے گا۔ چناچہ اسے منسوخ کر کے پہلا حکم بحال کردیا ہے۔ اسی طرح جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی تو لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ۔ کی رو سے مومن نہیں، ٹھیک اسی طرح اطاعت رسول میں کوتاہی بھی لا یومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ کا مصداق بنا دے گی۔ 6 2یعنی احترام و تکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں۔ 6 3یعنی اب مہاجرت، اخوت اور موالات کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہی ہوگی۔ 6 4ہان تم غیر رشتے داروں کے لیے احسان اور بر و صلہ کا معاملہ کرسکتے ہو، نیز انکے لیے ایک تہائی مال میں سے وصیت بھی کرسکتے ہو۔ 6 5یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے گو عارضی طور پر مصلحتا دوسروں کو بھی وارث قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کردیا جائے گا۔ چناچہ اسے منسوخ کر کے پہلا حکم بحال کردیا گیا ہے۔
[٨] آپ مومنوں کے ان کی ذات سے بھی زیادہ خیر خواہ ہیں :۔ اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک مطلب یہ ہے کہ تم خود بھی اپنے اتنے خیر خواہ نہیں ہوسکتے جتنا کہ نبی تمہارا خیر خواہ ہے۔ پھر اس کے بھی دو پہلو ہیں ایک دینی دوسرا دنیوی۔ دینی لحاظ سے آپ کی تمام امت کو آپ ہی کی وساطت سے ہدایت کا راستہ ملا جس میں ہماری دنیوی اور اخروی فلاح ہے۔ آپ ہمارے معلم بھی ہیں اور مربی بھی، اس لحاظ سے آپ تمام امت کے روحانی باپ بھی ہوئے اور روحانی استاد بھی۔ اور دنیوی پہلو میں آپ کی سب سے زیادہ خیرخواہی درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے۔- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جتنے بھی مومن ہیں میں ان سب کا دنیا اور آخرت کے کاموں میں سب لوگوں سے زیادہ حقدار (اور خیر خواہ) ہوں۔ جو مومن مرتے وقت مال و دولت چھوڑ جائے اس کے وارث اس کے عزیز و اقارب ہوں گے جو بھی ہوں اور اگر وہ کچھ قرضہ یا چھوٹے چھوٹے بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں میں ان کا کام چلانے والا ہوں (بخاری۔ کتاب التفسیر)- خ تمام لوگوں سے بڑھ کر آپ سے محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا :۔ اور آپ کی اس حد درجہ کی خیرخواہی کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلمان بھی آپ کا دوسرے سب لوگوں سے بڑھ کر احترام کریں اور ان کی اطاعت کریں تاکہ آپ کی تعلیم و تربیت سے پوری طرح فیض یاب ہوسکیں اور اس پہلو پر درج ذیل احادیث روشنی ڈالتی ہیں :- ١۔ سیدنا انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو میری محبت، اولاد، والدین اور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو (مسلم، کتاب الایمان۔ باب وجوب محبۃ رسول اللہ )- ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہش نفس کو اس چیز کے تابع نہ کر دے جو میں لایا ہوں (شرح السنتہ۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ۔ فصل ثانی)- ٣۔ سیدنا عبداللہ بن ہشام فرماتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ تھے اور آپ سیدنا عمر کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدنا عمر (رض) کہنے لگے : یارسول اللہ آپ میرے نزدیک اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے محبوب ہیں۔ آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں، تم مومن نہیں ہوسکتے سیدنا عمر نے عرض کیا : اللہ کی قسم اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں آپ نے فرمایا : اب اے عمر (یعنی اب تم صحیح مسلم ہو) (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کان یمین النبی )- [٩] جب نبی روحانی باپ ہوا تو اس کی بیویاں روحانی مائیں ہوئیں۔ یا جب نبی کی بیویاں امت کی مائیں ہیں تو نبی ان کا باپ ہوا۔ لیکن ازواج النبی صرف احترام کے پہلو میں امت کی مائیں ہیں اور ان سے کوئی شخص رسول اللہ کی وفات کے بعد نکاح بھی نہیں کرسکتا اور باقی احکام بدستور رہیں گے۔ مثلاً وہ مومنوں سے باقاعدہ پردہ کریں گی اور وہ انھیں اجنبی ہی سمجھیں گی نہ ہی وہ کسی امتی کی وراثت میں دعویدار بن سکتی ہیں۔ وغیرہ۔- [١٠] مؤاخات اور وراثت :۔ جب رسول اللہ اور دوسرے مسلمان ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو ایک نہایت اہم مسئلہ مہاجرین کی آبادکاری اور ان کے ذریعہ معاش کا بھی تھا۔ جو اس نوزائیدہ مسلم ریاست کے لئے فوری طور پر حل طلب تھا۔ آپ نے اس نازک مسئلہ کے حل میں نہایت دانشمندی سے کام لیا۔ اور ایک مہاجر کو ایک انصاری کے ساتھ ملا کر اس کی آبادی اور اس کے معاش کی ذمہ داری اس پر ڈال دی۔ اس ذمہ داری کو انصار نے بڑی فراخدلی سے قبول کیا۔ اس سلسلہ کو مؤاخات کہتے ہیں۔ آپ نے سیدنا انس بن مالک (رض) کے گھر میں مختلف اوقات کی تین مجالس میں تقریباً تنتالیس مہاجرین کو اتنے ہی انصار کا بھائی بنادیا۔ اس طرح عارضی طور پر مہاجرین کی آباد کاری اور معاش کا مسئلہ حل ہوگیا۔ پھر یہ بھائی چارہ اس حد تک بڑھا کہ وہ ایک دوسرے کے وارث اور ولی قرار پاگئے۔ مہاجر کی وراثت اس کے انصاری بھائی کو ملتی تھی اور انصاری کی اس کے مہاجر بھائی کو۔ پھر جب مسلمانوں کی معاشی حالت نسبتاً بہتر ہوگئی تو اس عارضی قانون کو ختم کردیا گیا اور اصل وارث قریبی رشتہ دار ہی قرار پائے۔ ہاں ان بھائیوں سے حق وراثت کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بہتر سلوک کی اجازت دی گئی۔ مثلاً کوئی شخص ان کے حق میں وصیت کرسکتا ہے۔ اپنی زندگی میں مالی امداد اور ہبہ کرسکتا ہے۔ تحفے تحائف دے سکتا ہے۔- [١١] یعنی مؤاخات کے بھائیوں کو ایک دوسرے کا وارث بنادینا ایک عارضی قانون تھا۔ مستقل قانون شریعت یہی ہے کہ وراثت کے حقدار قرابتدار ہی ہوتے ہیں۔
اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ : پچھلی آیات میں منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام کے ساتھ پکارنے کا حکم دیا، جس میں زید (رض) کو زید بن محمد کے بجائے زید بن حارثہ کہنا بھی شامل تھا، تو ضروری تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسلمانوں سے تعلق واضح کیا جائے کہ باپ کی طرف نسبت کی تاکید کو دیکھ کر باپ کے تعلق کو نبی کے تعلق سے زیادہ اہم نہ سمجھ لینا، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تمہارا جو تعلق ہے وہ باپ ہی نہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ قرب کا ہے۔- اَلنَّبِيُّ ‘ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ” یہ نبی “ کیا گیا ہے۔- ” اَوْلٰى“ کا معنی ” أَقْرَبُ “ (زیادہ قریب) بھی ہے اور ” أَحَقُّ “ (زیادہ حق رکھنے والا) بھی۔ یہاں اگر معنی ” أَقْرَبُ “ کیا جائے تو مطلب یہ ہے کہ کسی قرابت دار کا قرب آدمی کے ساتھ اتنا نہیں جتنا قرب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایمان والوں کے ساتھ ہے۔ اس قرب سے مراد تعلق کا قرب ہے نہ کہ جسمانی قرب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر وقت ہر مومن کے ساتھ اس کی جان سے بھی زیادہ قریب رہتے ہوں۔ بلکہ جس طرح تمام قرابت دار جہاں بھی ہوں ان کا آپس میں نسبی قرب اور تعلق قائم رہتا ہے، اسی طرح مومن جہاں بھی ہو اس کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت تمام رشتہ داروں حتیٰ کہ اس کی اپنی جان کی قرابت سے بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ اس کے رشتہ دار، حتیٰ کہ اس کا نفس بھی بعض اوقات اسے نقصان پہنچا سکتا ہے، جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے لیے خیر ہی خیر کا باعث ہیں۔ مگر یہاں ” أَحَقُّ “ کا معنی زیادہ مناسب ہے، بلکہ ” أَقْرَبُ “ سے مراد بھی ” أَحَقُّ “ (زیادہ حق دار) ہی ہے، یعنی اس قرب کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ حق رکھنے والے ہیں، کیونکہ اس کے متصل بعد رشتہ داروں کے بارے میں یہی لفظ فرمایا : (وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ ) یعنی رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق اس کے تمام رشتہ داروں سے، حتیٰ کہ اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” نبی نائب ہے اللہ کا، اپنی جان مال میں اپنا تصرف (اتنا) نہیں چلتا جتنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا۔ اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنی روا نہیں اور نبی حکم کرے تو فرض ہے۔ “ (موضح) آگے اسی سورت میں فرمایا : (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا ) [ الأحزاب : ٣٦ ] ” اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا، واضح گمراہ ہونا۔ “- اپنی جان سے بھی زیادہ حق رکھنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اپنی ذات سے بھی بڑھ کر آپ کا حکم مانا جائے۔ ایک طرف دنیا جہاں کے کسی بھی شخص، حتیٰ کہ اپنی ذات کا تقاضا ہو، دوسری طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہو تو آپ کے فرمان کو ترجیح دی جائے، اور یہ بات بھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کی جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَ وَلَدِہِ وَ النَّاسِ أَجْمَعِیْنَ ) [ بخاري، الإیمان، باب حب الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الإیمان : ١٤، ١٥، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اس کے لیے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ “ ایک دفعہ عمر (رض) نے کہا : ” یا رسول اللہ آپ مجھے میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْکَ مِنْ نَفْسِکَ ) ” نہیں (اے عمر ) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تیرے لیے تیری جان سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ “ تو عمر (رض) نے کہا : ( فَإِنَّہُ الْآنَ ، وَاللّٰہِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِيْ ) ” اب اللہ کی قسم آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْآنَ یَا عُمَرُ ) ” اب، اے عمر “ [ بخاري، الأیمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ : ٦٦٣٢ ] امام بخاری (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث بیان فرمائی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلاَّ وَأَنَا أَوْلٰی بِہِ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ، اقْرَءُ وْا إِنْ شِءْتُمْ : (اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ) [ الأحزاب : ٦ ] فَأَیُّمَا مُؤْمِنٍ مَاتَ وَتَرَکَ مَالاً فَلْیَرِثْہُ عَصَبَتُہُ مَنْ کَانُوْا، وَمَنْ تَرَکَ دَیْنًا أَوْ ضَیَاعًا فَلْیَأْتِنِيْ فَأَنَا مَوْلاَہُ ) [ بخاري، الاستقراض، باب الصلاۃ علی من ترک دینا : ٢٣٩٩، عن أبي ہریرۃ (رض) ] ” جو بھی مومن ہے، میں دنیا اور آخرت میں اس پر زیادہ حق رکھنے والا، یا سب سے زیادہ اس سے قرب رکھنے والا ہوں، چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : (اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ) تو جو مومن کوئی مال چھوڑ جائے اس کے وارث اس کے عصبہ ہوں گے، جو بھی ہوں اور جو کوئی قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو (اس کا وارث) میرے پاس آئے، میں اس کا ولی ہوں۔ “- وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس خصوصیت کی بنا پر جو اوپر ذکر ہوئی، ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی مائیں نہیں، مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ مائیں ہونے سے مراد ان کی تعظیم و تکریم ہے اور یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ان سے نکاح جائز نہیں۔ دوسرے احکام مثلاً ، خلوت، پردہ، ان کی اولاد سے شادی وغیرہ میں وہ ان کی ماں کی طرح نہیں۔ - وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ ۔۔ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین کی آبادکاری اور معاشی ضرورتوں کے لیے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنادیا، اسے مؤاخات کہتے ہیں۔ یہ بھائی چارہ اتنا بڑھا کہ وہ ایک دوسرے کے وارث اور ولی قرار پا گئے۔ فوت ہونے پر مہاجر کی میراث رشتہ داروں کے بجائے اس کے انصاری بھائی کو ملتی اور انصاری کی میراث مہاجر کو ملتی۔ سورة احزاب کی اس آیت میں اس کے منسوخ ہونے کا حوالہ دیا گیا۔ دیکھیے سورة انفال (٧٢ تا ٧٤) یہاں ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے کہ منہ کے ساتھ کہنے سے نہ کوئی ماں بنتی ہے، نہ بیٹا، نہ ہی بھائی، اس لیے اب وراثت کے زیادہ حق دار رشتے کے بھائی ہیں، نہ کہ حلیف ہونے یا عقد مؤاخات کی وجہ سے بننے والے بھائی۔- اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا : یعنی اپنے مومن یا مہاجر بھائیوں کے ساتھ میراث کے سوا کوئی نیکی کرو تو درست ہے، مثلاً زندگی میں ان سے احسان والا سلوک کرو، انھیں ہدیہ وغیرہ دو ، مرنے کے بعد ان کے حق میں ثلث تک وصیت کر جاؤ، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔- كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا : یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے، گو لوگوں نے دوسروں کو وارث بنانے کا رواج بنا لیا تھا، مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ ہوگا، اس لیے اسے منسوخ کر کے اصل حکم بحال کردیا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم کتاب اللہ، یعنی قرآن مجید میں پہلے لکھا جا چکا ہے، کیونکہ یہ حکم سورة انفال (٧٢ تا ٧٤) میں نازل ہوا جو سورة احزاب سے پہلے نازل ہوئی۔ (ابن عاشور)
خلاصہ تفسیر - نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنین کے ساتھ تو ان کے نفس (اور ذات) سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں (کیونکہ انسان کا نفس تو کبھی اس کو نفع پہنچاتا ہے کبھی نقصان، کیونکہ اگر نفس اچھا ہے اچھے کاموں کی طرف چلتا ہے تو نفع ہے اور برے کاموں کی طرف چلنے لگے تو خود اپنا نفس ہی اپنے لئے مصیبت بن جاتا ہے، بخلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہ آپ کی تعلیم نفع ہی نفع اور خیر ہی خیر ہے۔ اور اپنا نفس اگر اچھا بھی ہو اور نیکی ہی کی طرف چلتا ہو پھر بھی اس کا نفع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نفع کے برابر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اپنے نفس کو تو خیر و شر اور مصلحت و مضرت میں مغالطہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کو مصالح و مضار کا پورا علم بھی نہیں، بخلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہ آپ کی تعلیمات میں کسی مغالطہ کا خطرہ نہیں۔ اور جب نفع رسانی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری جان اور ہمارے نفس سے بھی زیادہ ہیں تو ان کا حق ہم پر ہماری جان سے زیادہ ہے اور وہ حق یہی ہے کہ آپ کے ہر کام میں اطاعت کریں اور آپ کی تعظیم و تکریم تمام مخلوق سے زیادہ کریں) اور آپ کی بیبیاں ان (مومنین) کی مائیں ہیں (یعنی مذکورہ تقریر سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنین کے لئے روحانی باپ ہیں جو ان کی اپنی ذات سے بھی زیادہ ان پر شفیق و مہربان ہیں، اسی مناسبت سے آپ کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہوگئیں یعنی تعظیم و تکریم میں ان کا حق ماؤں کی طرح ہے۔- اس آیت نے ازواج مطہرات کو صراحتہ امت کی مائیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اشارةً امت کے روحانی باپ قرار دے دیا، تو اس سے بھی اس طرح کا ایک التباس اور اشتباہ ہوسکتا تھا جس طرح کا اشتباہ متبنیٰ کو اس کے غیر حقیقی باپ کی طرف منسوب کرنے میں ہوتا تھا، جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا تھا کہ امت کے مسلمان سب آپس میں حقیقی بہن بھائی ہوجائیں تو ان کے آپس میں نکاح کا تعلق حرام ہوجائے، اور میراث کے احکام میں بھی ہر مسلمان دوسرے کا وارث قرار دیا جائے۔ اس التباس کو دور کرنے کے لئے آخر آیت میں فرمادیا (آیت) ، واولوا الا رحام بعضہم اولیٰ ببعض فی کتب اللہ الایة یعنی) رشتہ دار کتاب اللہ (یعنی حکم شرعی) میں ایک دوسرے سے (میراث کا) زیادہ تعلق رکھتے ہیں، بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے مگر یہ کہ تم اپنے (ان) دوستوں سے (بطور وصیت کے) کچھ سلوک کرنا چاہو تو وہ جائز ہے، یہ بات لوح محفوظ میں لکھی جا چکی ہے، (کہ ابتداء ہجرت میں ایمانی اخوت کی بنا پر مہاجرین کو انصار کی میراث کا حق دار بنادیا گیا تھا مگر بالآخر تقسیم میراث رشتہ داری اور ارحام کی بنیاد پر رہے گی)- معارف مسائل - جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے سورة احزاب میں بیشتر مضامین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور آپ کی ایذا رسانی کے حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ شروع سورة میں مشرکین و منافقین کی ایذاؤں کا ذکر کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایات دی گئی تھیں۔ اس کے بعد جاہلیت کی تین رسموں کا ابطال کیا گیا جن میں آخری رسم کا تعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء سے تھا کیونکہ کفار نے حضرت زید کی مطلقہ بی بی زینب سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح کے وقت اسی اپنی جاہلانہ رستم متبنیٰ کی بنا پر آپ پر یہ الزام لگایا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرلیا۔ اس طرح شروع سورة سے یہاں تک ایذاء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق مضمون تھا، اس آیت مذکورہ میں آپ کی تعظیم و اطاعت تمام مخلوق سے زیادہ واجب ہونا بیان کیا گیا ہے۔- (آیت) النبی اولیٰ بالمومنین، اولیٰ بالمومنین کا جو مطلب خلاصہ تفسیر میں بیان کیا گیا ہے وہ ابن عطیہ وغیرہ کا قول ہے جس کو قرطبی اور اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ آپ کا حکم ہر مسلمان کے لئے اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ واجب التعمیل ہے۔ اگر ماں باپ آپ کے کسی حکم کے خلاف کہیں ان کا کہنا ماننا جائز نہیں، اسی طرح خود اپنے نفس کی تمام خواہشات پر بھی آپ کے حکم کی تعمیل مقدم ہے۔- صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” یعنی کوئی مومن ایسا نہیں جس کے لئے میں دنیا و آخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اولیٰ اور اقرب نہ ہوں، اگر تمہارا دل چاہے تو اس کی تصدیق کے لئے قرآن کی یہ آیت پڑھ لو، (آیت) النبی اولیٰ بالمومنین۔- جس کا حاصل یہ ہے کہ میں ہر مومن مسلمان پر ساری دنیا سے زیادہ شفیق و مہربان ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ اس کا لازمی اثر ہونا چاہئے کہ ہر مومن کو آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت سب سے زیادہ ہو۔ جیسا کہ حدیث میں یہ بھی ارشاد ہے :- ” یعنی تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے دل میں میری محبت اپنے باپ، بیٹے اور سب انسانوں سے زیادہ نہ ہوجائے۔ “- وازواجہ امہاتہم، ازواج مطہرات کو امت کی مائیں فرمانے سے مراد تعظیم و تکریم کے اعتبار سے مائیں ہونا ہے۔ ماں اور اولاد کے دوسرے احکام حرمت نکاح اور محرم ہونے کی وجہ سے باہم پردہ نہ ہونا اور میراث میں حصہ دار ہونا وغیرہ یہ احکام اس سے متعلق نہیں، جیسا کہ آخر آیت میں اس کو کھول دیا گیا ہے۔ اور ازواج مطہرات سے کسی امتی کا نکاح حرام ہونا وہ ایک مستقل آیت میں علیحدہ فرمایا گیا ہے۔ اس لئے یہ ضروری نہیں کہ یہ حرمت نکاح بھی مائیں ہونے کی وجہ سے ہو۔ - مسئلہ :- آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ ازواج مطہرات میں سے کسی کی شان میں کوئی ادنیٰ سی بےادبی اس لئے بھی حرام ہے کہ وہ امت کی مائیں ہیں، اور اس لئے بھی کہ ان کی ایذاء سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچے گی جو اشد درجہ کا حرام ہے۔- (آیت) واولوالارحام بعضہم اولیٰ ببعض، اولوالارحام کے لفظی معنی سب رشتہ داروں اور قرابت داروں کو شامل ہیں، خواہ وہ لوگ ہوں جن کو فقہاء عصبات کے نام سے تعبیر کرتے ہیں، یا وہ جن کو خاص اصطلاح کے اعتبار سے عصبات کے بالمقابل اولو الارحام کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ فقہی اصطلاح جو بعد میں اختیار کی گئی ہے مراد نہیں۔- مطلب یہ ہے کہ رسول اور ان کی ازواج کا تعلق مومنین امت سے اگرچہ اس درجہ ہے کہ ماں باپ سے بھی مقدم ہے، مگر میراث کے احکام میں اس کا کوئی دخل نہیں بلکہ میراث نسبی اور قرابتی رشتوں کی بنیاد پر ہی تقسیم کی جائے گی۔- میراث کی حصہ داری شروع اسلام میں ایمانی اور روحانی رشتہ کی بنیاد پر تھی، بعد میں اس کو منسوخ کر کے قرابتی رشتوں کی بنیاد پر کردی گئی۔ جس کی تفصیل قرآن کریم نے خود بتلا دی ہے۔ یہ پوری تفصیل ناسخ اور منسوخ آیتوں کی سورة انفال میں گزر چکی ہے۔ اور من المومنین کے بعد المہاجرین کا ذکر اس صورت میں ان کا اختصاص و امتیاز بتلانے کے لئے ہے۔- اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہاں مومنین سے مراد انصار اور مہاجرین سے مراد قریش ہیں۔ مہاجرین کے تقابل سے مومنین کا لفظ انصار کے لئے ہونا معلوم ہوگیا۔ اس صورت میں یہ آیت توارث بالہجرة کے لئے ناسخ ہوگی۔ کیونکہ ابتداء ہجرت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات کرا کر ان کے باہم وراثت جاری ہونے کا بھی حکم دیا تھا، اس آیت نے اس توارث بالہجرة کو بھی منسوخ کردیا۔ (قرطبی) - (آیت) الا ان تفعلوا الی اولیاء کم معروفاً ، یعنی وراثت تو صرف رشتہ داری کے تعلق سے ملے گی، غیر رشتہ دار وارث نہیں ہوگا۔ مگر ایمانی اخوت کی بنا پر جن لوگوں سے تعلق ہو ان کو کچھ دینا چاہو تو اس کا بہرحال اختیار ہے۔ اپنی زندگی میں بھی بطور ہدیہ تحفہ ان کو دے سکتے ہو اور موت کے بعد ان کے لئے وصیت بھی کرسکتے ہیں۔
اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ ٠ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللہِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُہٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ٠ ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا ٦- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- أَوْلَى- ويقال : فلان أَوْلَى بکذا . أي أحری، قال تعالی:- النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ [ الأحزاب 6] ، إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ [ آل عمران 68] ، فَاللَّهُ أَوْلى بِهِما [ النساء 135] ، وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ [ الأنفال 75] وقیل : أَوْلى لَكَ فَأَوْلى[ القیامة 34] من هذا، معناه : العقاب أَوْلَى لک وبك، وقیل : هذا فعل المتعدّي بمعنی القرب، وقیل : معناه انزجر . ويقال : وَلِيَ الشیءُ الشیءَ ، وأَوْلَيْتُ الشیءَ شيئا آخرَ أي : جعلته يَلِيهِ ، والوَلَاءُ في العتق : هو ما يورث به، و «نهي عن بيع الوَلَاءِ وعن هبته» »، والمُوَالاةُ بين الشيئين : المتابعة .- ۔ فلان اولیٰ بکذا فلاں اس کا زیادہ حق دار ہے قرآن میں ہے : ۔ النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ [ الأحزاب 6] پیغمبروں مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ [ آل عمران 68] ابراہیم (علیہ السلام) سے قرب رکھنے والے تو وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں ۔ فَاللَّهُ أَوْلى بِهِما [ النساء 135] تو خدا انکا خیر خواہی وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ [ الأنفال 75] اور رشتہ دار آپس میں زیادہ حق دار ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ آیت : ۔ أَوْلى لَكَ فَأَوْلى[ القیامة 34] افسوس تم پر پھر افسوس ہے ۔ میں بھی اولٰی اسی محاورہ سے ماخوذ ہے اور اولیٰ لک وبک دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ اور معنی یہ ہیں کہ عذاب تیرے لئے اولی ہے یعنی تو عذاب کا زیادہ سزا وار ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے فعل متعدی بمعنی قرب کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اولیٰ بمعنی انزجر سے یعنی اب بھی باز آجا ۔ ولی الشئیء دوسری چیز کا پہلی چیز کے بعد بلا فصل ہونا ۔ اولیت الشئیء الشئیء دوسری چیز کو پہلی چیز کے ساتھ ملا نا ۔ - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی:- فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] - ( ز و ج ) الزوج - جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - كتب) حكم)- قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] ، - ( ک ت ب ) الکتب ۔- اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے - اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔ - هجر - الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی:- وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله :- وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] ، وقوله تعالی:- وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي :- (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه .- وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد،- ( ھ ج ر ) الھجر - والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے ایک اور حدیث میں ہے - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] ، إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ، وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] ، أي : بالاقتصاد والإحسان، وقوله : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] ، وقوله : قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] ، أي : ردّ بالجمیل ودعاء خير من صدقة كذلك، والعُرْفُ : المَعْرُوفُ من الإحسان، وقال : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ- [ الأعراف 199] . وعُرْفُ الفرسِ والدّيك مَعْرُوفٌ ، وجاء القطا عُرْفاً. أي : متتابعة . قال تعالی: وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ہاں ( اس شخص کی مشاورت اچھی ہوسکتی ہے ) جو خیرات یا نیک بات ۔۔۔ کہے ۔ وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] اور مطلقہ کو بھی دستور کے مطابق نان ونفقہ دینا چاہیے ۔ یعنی اعتدال اور احسان کے ساتھ ۔ نیز فرمایا : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] تو یا تو ان کی اچھی طرح سے زوجیت میں رہنے دو اور اچھی طرح سے علیحدہ کردو ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] نرم بات اور درگذر کرنا صدقہ سے بہتر ہے ۔ یعنی نرم جواب دے کر لوٹا دینا اور فقیر کے لئے دعا کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس پر احسان جتلایا جائے ۔ العرف : وہ نیک بات جس کی اچھائی کو سب تسلیم کرتے ہوں قرآن پاک میں ہے : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف 199] اور نیک کام کرنے کا حکم دو ۔ عرف الفرس گھوڑے کی ایال عرف الدیک : مرغی کی کلغی جاء القطاعرفا : قطار جانور آگے پیچھے یکے بعد دیگرے آئے اسی سے قرآن پاک میں ہے : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] ہواؤں کی قسم جو متواتر چلتی ہیں ۔- سطر - السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر :- 233-- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطرا«6» وأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5]- ( س ط ر ) السطر - والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔
نبی کی ذات اہل ایمان کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے - قول باری ہے : (النبی اولی بالمومنین من انفسھم۔ نبی مومنین کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں) ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن، ابی الربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے عمر سے اور انہوں نے زہری سے اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں روایت کی کہ مجھے ابوسلمہ نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کا یہ ارشاد نقل کیا (انا اولیٰ بکل مومن من نفسہ فایمارجل مات وترک دینا فالی وان ترک مافھولورثتہ) میں ہر مومن کے ساتھ اس کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتا ہوں۔ اس لئے جس شخص کی وفات ہوجائے گی اور وہ قرض چھوڑ کر مرے گا تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہوگی اور اگر مال چھوڑ جائے گا تو اس کا مال اس کے ورثا کو مل جائے گا۔- اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس بات کی دوسروں کو دعوت دیتے ہیں ان کے مقابلہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی بات اختیار کرلینے کا زیادہ حق ہے۔- ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حق حاصل ہے کہ دوسروں پر ایسا حکم عائد کردیں جسے خود اپنی ذات پر عائد نہ کریں کیونکہ آپ کی اطاعت واجب ہے اور آپ کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے ساتھ پیوستہ ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سب سے پہلے جس روایت کا ذکر کیا ہے وہ بعد میں بیان ہونے والے معانی کی ضامن نہیں ہے اور نہ ہی اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آیت کے مفہوم کو صرف قرض کی ادائیگی کے دائرے تک محدود رکھا جائے۔ کیونکہ آیت میں گنجائش موجود ہے کہ ا س سے یہ مراد لی جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان کے ساتھ خودان کے نفس سے بھی اس لحاظ سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں کہ آپ انہیں جس بات کی دعوت دیں اسے وہ قبول کرلیں اور اس کے مقابلہ میں اس بات کو ترک کردیں جس کی دعوت یہ لوگ خود دیں۔- اسی طرح ان پر حکم عائد کرنے کا زیادہ حق حاصل ہے اور ان پر آپ کے حکم کی پیروی اور آپ کی اطاعت لازم ہے۔ اس ضمن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرنے والے ہر مقروض مومن کے قرض کی ذمہ داری اٹھانے کی بات بھی بتادی۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں مسلمانوں کی روحانی مائیں ہیں - قول باری ہے (وازواجہ امھاتھم۔ اور آپ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں) اس کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے اول یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات تعظیم وتکریم اور جلالت قدر کے وجوب میں مسلمانوں کی اپنی مائوں کی طرح ہیں۔ دوم یہ کہ نکاح کی تحریم میں یہ مائوں کی طرح ہیں۔- یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ ازواج مطہرات ہر لحاظ سے مائوں کی طرح ہیں کیونکہ اگر بات اس طرح ہوتی تو کسی مسلمان کے لئے ان کی بیٹیوں سے نکاح جائز نہ ہوتا کیونکہ اس صورت میں وہ اس کی حقیقی بہنیں ہوتیں جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے ساتھ اپنی بیٹیوں کا خود نکاح کرادیا تھا۔ اسی طرح اگر امہات المومنین حقیقی معنوں میں مائیں ہوتیں تو انہیں مسلمانوں کی وراثتوں میں حصہ بھی ضرور ملتا۔- حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی قرات میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں۔ ” وھو اب لھم “ (اور آپ مسلمانوں کے باپ ہیں) اگر یہ درست تسلیم کرلیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ شفقت وتعلق نیز یہی خواہی وہمدردی کے لحاظ سے مسلمانوں کے لئے آپ کی ذات اقدس ایک شفیق باپ کی طرح تھی۔- جس طرح یہ قول باری ہے (لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رئوف رحیم بیشک تمہارے پاس ایک پیغمبر آئے ہیں تمہاری ہی جنس میں سے جو چیز تمہیں مضرت پہنچاتی ہے وہ انہیں بہت گراں گزرتی ہے تمہاری بھلائی کے حریص ہیں، ایمان لانے والوں کے حق میں بڑے ہی شفیق ہیں، مہربان ہیں) ۔- جو مذہبی طور پر ولی نہ ہو وہ نسبی طور پر ولی ہوسکتا ہے - قول باری ہے (الا ان تفعلوا الی اولیاء کم معروفا۔ مگر ہاں تم اپنے دوستوں سے کچھ (سلوک) کرنا چاہو تو وہ جائز ہے) محمد بن الحنفیہ سے مروی ہے کہ آیت کا نزول یہودی اور نصرانی کے لئے مسلمان کی وصیت کے جواز کے سلسلے میں ہوا ہے۔ حسن بصری نے اس کی تفسیر میں کہا ہے ” الا یہ کہ تم صلہ رحمی کرو۔ “- عطاء کا قول ہے ۔ اس سے مراد ایسے مسلمان اور کافر ہیں جن کے مابین قرابت داری ہو مسلمان کے لئے جائز ہے کہ وہ کافر کو اپنی زندگی بھر کچھ نہ کچھ دیتا رہے اور مرتے وقت اس کے لئے وصیت کرجائے۔- ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے۔ انہیں معمر نے قتادہ سے اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں نقل کیا۔ الا یہ کہ تمہارا کوئی قرابت دار ہو جو تمہارا ہم مذہب نہ ہو اور تم اسے کے لئے کچھ وصیت کرجائو۔ وہ نسب کے لحاظ سے تمہارا دوست اور ولی ہوگا دین کے لحاظ سے تمہارا ولی نہیں ہوگا۔ “
مسلمانوں کے انتقال کرجانے کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی اولاد سے خود ان کی ذات سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں کیونکہ آپ کا فرمان ہے کہ مسلمان انتقال کرجائے اور عیال چھوڑے تو میں اس کا متولی ہوں اور اگر قرض چھوڑے تو میں اس کا ذمہ دار ہوں یا مال چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے وارث لے لیں۔- اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات حرمت اور وجوب تعظیم میں مسلمانوں کی ماؤں کی طرح ہیں۔- اور نسبی قرابت والے وراثت میں ایک دوسرے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے مگر یہ کہ تم نے جن سے قرض لیا ہے یا اپنے دوستوں کے لیے تہائی مال میں وصیت کرنا چاہو تو وہ جائز ہے اور رشتہ داروں کو وراثت اور دوستوں وغیرہ کو وصیت میں سے حصہ لینا یہ بات لوح محفوظ میں لکھی جاچکی ہے یا یہ کہ توریت میں یہ چیز موجود ہے جس پر بنی اسرائیل عمل کرتے ہیں۔
آیت ٦ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ ” یقینا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق مومنوں پر خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ ہے “- تمام اہل ِایمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانوں سے زیادہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کی فکر کریں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے ماں باپ ‘ اپنی اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر محبوب رکھیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان صحیحین میں ذرا سے لفظی فرق کے ساتھ نقل ہوا ہے :- (لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ) (١)- ” تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے باپ ‘ اس کی اولاد اور سب انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائوں۔ “- وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ ” اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ “- یہاں پر اس فقرے سے پہلے ” وَھُوَ اَبٌ لَّھُمْ “ کے الفاظ کو محذوف سمجھا جانا چاہیے ‘ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے لیے بمنزلہ باپ کے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بھی ہے کہ : (اِنَّمَا اَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ ) (٢) یعنی تم سب کے لیے میری حیثیت والد کی سی ہے۔ قرآن مجید کے ان الفاظ کی رو سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں مسلمانوں کے لیے اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں قابل احترام ہیں۔ چناچہ ازواجِ مطہرات (رض) کے ناموں کے ساتھ ” اُمّ المومنین (رض) “ کے الفاظ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً اُمّ المومنین حضرت خدیجہ (رض) ‘ اُمّ المومنین حضرت عائشہ (رض) ‘ اُمّ المومنین حضرت صفیہ (رض) ‘ اُمّ المومنین حضرت زینب بنت جحش (رض) - وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ ” اور رحمی رشتے رکھنے والے ‘ اللہ کی کتاب کے مطابق ‘ مومنین و مہاجرین کی نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں “- اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِِکُمْ مَّعْرُوْفًا ” سوائے اس کے کہ تم لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی ُ حسن ِسلوک کرنا چاہو۔ “- اس سے پہلے ” اُولُوا الْاَرْحَامِ “ کے بارے میں یہی الفاظ سورة الانفال کی آخری آیت میں بھی آچکے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کے قانون میں رحمی اور خونی رشتے دوسرے تمام رشتوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ یہاں پر مومنین و مہاجرین کا ذکر کر کے مدینہ کے مقامی معاشرے میں ایک مخصوص صورت حال کی بھی وضاحت کردی گئی کہ اگرچہ تمہارے مہاجرین اور انصار کے درمیان ” مواخات “ کے تحت بےمثال رشتے قائم ہوچکے ہیں اور تم لوگوں نے ان رشتوں کے حوالے سے ایثار کی نئی نئی مثالیں بھی قائم کر کے دکھائی ہیں ‘ لیکن اللہ کے قانونِ وراثت میں ایسے رشتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چناچہ قانونِ وراثت میں نہ تو انصار و مہاجرین جیسے کسی بھائی چارے کا لحاظ ہوگا اور نہ ہی ُ منہ بولے رشتوں کے لیے کوئی حصہ مخصوص کیا جائے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنے تعلقات کی بنا پر کسی دینی بھائی ‘ عزیز یا دوست کو کوئی چیز تحفۃً دینا چاہے یا کسی کے حق میں کوئی چیزہبہ کرنا چاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔- کَانَ ذٰلِکَ فِی الْْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا ” یہ سب باتیں (پہلے سے) کتاب میں لکھی ہوئی ہیں۔ “- کتاب میں لکھے ہوئے سے مراد لوح محفوظ یا اس موضوع پر تورات کے احکام بھی ہوسکتے ہیں اور خود قرآنی احکام بھی ‘ جو اس سے پہلے سورة النساء اور سورة الانفال میں نازل ہوچکے تھے۔
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :12 یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلقات سے ایک بالا تر نوعیت رکھتا ہے ۔ کوئی رشتہ اس رشتے سے اور کوئی تعلق اس تعلق سے جو نبی اور اہل ایمان کے درمیان ہے ، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں ۔ ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ، ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں ، ان کو گمراہ کر سکتے ہیں ، ان سے غلطیوں کا ارتکاب کرا سکتے ہیں ، ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں ، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیں جس میں ان کی حقیقی فلاح ہو ۔ وہ خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار سکتے ہیں ، حماقتیں کر کے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر سکتے ہیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقعی ان کے حق میں نافع ہو ۔ اور جب معاملہ یہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں ، دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے محبت رکھیں ، اپنی رائے پر آپ کی رائے کو اور اپنے فیصلے پر آپ کے فیصلے کو مقدم رکھیں ، اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیں ۔ اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے کہ لا یؤمن احدُکم حتیٰ اکونَ احبَّ الیہ من والدہ و ولدہ والنّاس اجمعین ۔ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو اس کے باپ اور اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :13 اسی خصوصیت کی بنا پر جو اوپر مذکور ہوئی ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی ماں نہیں ہیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اسی طرح ان کے لیے حرام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں حرام ہیں ۔ یہ مخصوص معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دنیا میں اور کسی انسان کے ساتھ نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف اس معنی میں اُمہاتِ مومنین ہیں کہ ان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح نہیں ہو سکتا تھا ۔ باقی دوسرے احکام میں وہ ماں کی طرح نہیں ہیں ۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتہ داروں کے سوا باقی سب مسلمان ان کے لیے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا ۔ ان کی صاحبزادیاں مسلمانوں کے لیے ماں جائی بہنیں نہ تھیں کہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہوتا ۔ ان کے بھائی بہن مسلمانوں کے لیے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے ۔ ان سے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رو سے یہ مرتبہ تمام ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جن میں لا محالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں ۔ لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما اور ان کی اولاد کو مرکز دین بنا کر سارا نظام دین انہی کے گرد گھما دیا ، اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی ہدف لعن و طعن بنایا ، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہو گئی جس کی رو سے ہر اس شخص کو انہیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو ۔ آخر کار اس شکل کو رفع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیت پر باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں ۔ ابو منصور احمد بن ابو طالب طَبْرَسِی نے کتاب الاحتجاج میں یہ بات لکھی ہے اور سلیمان بن عبد اللہ البحرانی نے اسے نقل کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : یا ابا الحَسَنَ انّ ھٰذا الشرف باقٍ ما دُمنا علیٰ طاعۃ اللہ تعالیٰ فایّتھن عصت اللہ تعالیٰ بعدی بالخروج علیک فطلّقھا من الازواج واسقطھا من شرف امّھات المؤمنین ، ( اے ابوالحسَن یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں ۔ لہٰذا میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تو طلاق دے دیجیو اور اس کو اُمّہات المؤمنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو ) ۔ اصول روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سراسر بے اصل ہے ہی لیکن اگر آدمی اسی سُورۂ احزاب کی آیات ۲۸ ۔ ۲۹ اور ۵۱ ۔ ۵۲ پر غور کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے ۔ کیونکہ آیت تخییر کے بعد جن ازواج مطہرات نے ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی رفاقت کو اپنے لیے پسند کیا تھا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی نہ رہا تھا ۔ اس مضمون کی تشریح آگے حاشیہ نمبر٤۲ و ۹۳ میں ہم نے کر دی ہے ۔ علاوہ بریں ایک غیر متعصب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس رویت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو ، اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے ۔ رسول کا مقام تو بہت بالاتر و برتر ہے ، ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے تو اسے طلاق دے دیجیو ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل البیت کی محبت کے مدعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزت و ناموس کا پاس کتنا کچھ ہے ، اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :14 اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے ، ان کے ساتھ تو مسلمانوں کے تعلق کی نوعیت سب سے الگ ہے ۔ لیکن عام مسلمانوں کے درمیان آپس کے تعلقات اس اصول پر قائم ہوں گے کہ رشتہ داروں کے حقوق ایک دوسرے پر عام لوگوں کی بہ نسبت مقدم ہیں ۔ کوئی خیرات اس صورت میں صحیح نہیں ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ ، بال بچوں ، اور بھائی بہنوں کی ضروریات تو پوری نہ کرے اور باہر خیرات کرتا پھرے ۔ زکوٰۃ سے بھی آدمی کو پہلے اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کرنی ہو گی ، پھر وہ دوسرے مستحقین کو دے گا ۔ میراث لازماً ان لوگوں کو پہنچے گی جو رشتے میں آدمی سے قریب تر ہوں ۔ دوسرے لوگوں کو اگر وہ چاہے تو ہبہ یا وقف یا وصیت کے ذریعہ سے اپنا مال دے سکتا ہے ، مگر اس طرح نہیں کہ وارث محروم رہ جائیں اور سب کچھ دوسروں کو دے ڈالا جائے ۔ اس حکم الٰہی سے وہ طریقہ بھی موقوف ہو گیا جو ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنے سے شروع ہوا تھا ، جس کی رو سے محض دینی برادری کے تعلق کی بنا پر مہاجرین اور انصار ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ وراثت تو رشتہ داری کی بنا پر ہی تقسیم ہو گی ، البتہ ایک شخص ہدیے ، تحفے یا وصیت کے ذریعہ سے اپنے کسی دینی بھائی کی کوئی مدد کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ۔
7: یہاں اﷲ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ اگرچہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں، اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ کو سب مسلمان اپنی ماں سمجھتے ہیں، لیکن اس وجہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ کو میراث کے معاملے میں کسی مسلمان کے اپنے رشتہ داروں پر فوقیت حاصل نہیں ہوئی، چنانچہ جب کسی کا اِنتقال ہوتا تو اُس کی میراث اُس کے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم ہوتی ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یا آپ کی ازواجِ مطہراتؓ کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جاتا، حالانکہ دینی اعتبار سے آپ اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ دوسرے رشتہ داروں سے زیادہ حق رکھتی ہیں۔ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ کو ان کے دینی رشتے کے باوجود میراث میں شریک نہیں کیا گیا تو منہ بولے بیٹے کو محض زبان سے بیٹا کہہ دینے کی بنا پر میراث میں کیسے شریک کیا جاسکتا ہے؟ البتہ اگر ان کے ساتھ نیکی کا ارادہ ہو تو ان کے لئے اپنے ترکے کے تہائی حصے کی حد تک کوئی وصیت کی جاسکتی ہے۔