Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

میثاق انبیاء فرمان ہے کہ ان پانچوں اولوالعزم پیغمبروں سے اور عام نبیوں سے سب سے ہم نے عہد وعدہ لیا کہ وہ میرے دین کی تبلیغ کریں گے اس پر قائم رہیں گے ۔ آپس میں ایک دوسرے کی مدد امداد اور تائید کریں گے اور اتفاق واتحاد رکھیں گے ۔ اسی عہد کا ذکر اس آیت میں ہے ( وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ 81؀ ) 3-آل عمران:81 ) یعنی اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے قول قرار لیا کہ جو کچھ کتاب وحکمت دے کر میں تمیں بھیجوں پھر تمہارے ساتھ کی چیز کی تصدیق کرنے والا رسول آجائے تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور اس کی امداد کرنا ۔ بولو تمہیں اس کا اقرار ہے؟ اور میرے سامنے اس کا پختہ وعدہ کرتے ہیں؟ سب نے جواب دیا کہ ہاں ہمیں اقرار ہے ۔ جناب باری تعالی نے فرمایا بس اب گواہ رہنا اور میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ۔ یہاں عام نبیوں کا ذکر کرکے پھر خاص جلیل القدر پیغمبروں کا نام بھی لے دیا ۔ اسی طرح ان کے نام اس آیت میں بھی ہیں ( شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ 13؀ ) 42- الشورى:13 ) یہاں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے جو زمین پر اللہ کے پہلے پیغمبر تھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے جو سب سے آخری پیغمبر تھے ۔ اور ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ علیھم السلام کا ذکر ہے جو درمیانی پیغمبر تھے ۔ ایک لطافت اس میں یہ ہے کہ پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام کے بعد کے پیغمبر حضرت نوحعلیہ السلام کا ذکر کیا اور آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے پیغمبر حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر کیا اور درمیانی پیغمبروں میں سے حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کا ذکر کیا ۔ یہاں تو ترتیب یہ رکھی کہ فاتح اور خاتم کا ذکر کرکے بیچ کے نبیوں کا بیان کیا اور اس آیت میں سب سے پہلے خاتم الانیباء کا نام لیا اس لئے کہ سب سے اشرف وافضل آپ ہی ہیں ۔ پھر یکے بعد دیگرے جس طرح آئے ہیں اسی طرح ترتیب وار بیان کیا اللہ تعالیٰ اپنے تمام نبیوں پر اپنا درود وسلام نازل فرمائے ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ پیدائش کے اعتبار سے میں سب نبیوں سے پہلے ہوں اور دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آخر میں ہوں پس مجھ سے ابتدا کی ہے ۔ یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن اس کے ایک راوی سعید بن بشیر ضعیف ہیں ۔ اور سند سے یہ مرسل مروی ہے اور یہی زیادہ مشابہت رکھتی ہے اور بعض نے اسے موقوف روایت کی ہے واللہ اعلم ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ پانچ پیغمبر ہیں ۔ نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ، اور محمد صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین اور ان میں بھی سب سے بہترمحمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اس کا ایک راوی ضعیف ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں جس عہد ومیثاق کا ذکر ہے یہ وہ ہے جو روز ازل میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے تمام انسانوں کو نکال کرلیا تھا ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو بلند کیا گیا آپ نے اپنی اولاد کو دیکھا ان میں مالدار مفلس خوبصورت اور ہر طرح کے لوگ دیکھے تو کہا اللہ کیا اچھا ہوتا کہ تونے ان سب کو برابر ہی رکھا ہوتا اللہ تعالیٰ عزوجل جلالہ نے فرمایا کہ یہ اس لئے ہے کہ میرا شکر ادا کیا جائے ۔ ان میں جو انبیاء کرام علیھم السلام تھے انہیں بھی آپ نے دیکھا وہ روشنی کے مانند نمایاں تھے ان پر نور برس رہا تھا ان سے نبوت ورسالت کا ایک اور خاص عہد لیا گیا تھا جس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ صادقوں سے ان کے صدق کا سوال ہو یعنی ان سے جو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہنچانے والے تھے ۔ ان کی امتوں میں سے جو بھی ان کو نہ مانے اسے سخت عذاب ہوگا ۔ اے اللہ تو گواہ رہ ہماری گواہی ہے ہم دل سے مانتے ہیں کہ بیشک تیرے رسولوں نے تیرا پیغام تیرے بندوں کو بلا کم وکاست پہنچا دیا ۔ انہوں نے پوری خیر خواہی کی اور حق کو صاف طور پر نمایاں طریقے سے واضح کردیا جس میں کوئی پوشیدگی کوئی شبہ کسی طرح کا شک نہ رہا گو بدنصیب ضدی جھگڑالو لوگوں نے انہیں نہ مانا ۔ ہمارا ایمان ہے کہ تیرے رسولوں کی تمام باتیں سچ اور حق ہیں اور جس نے ان کی راہ نہ پکڑی وہ گمراہ اور باطل پر ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71اس عہد سے مراد ہے ؟ بعض کے نزدیک یہ وہ عہد ہے جو ایک دوسرے کی مدد اور تصدیق کا انبیاء (علیہم السلام) سے لیا گیا تھا (وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاق النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ ۭ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ۭ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران :81) میں ہے، بطور خاص پانچ انبیاء (علیہم السلام) کا نام لیا گیا جن سے ان کی اہمیت و عظمت واضح ہے اور ان میں بھی نبی کا ذکر سب سے پہلے ہے درآں حالیکہ نبوت کے لحاظ سے آپ سب سے متأخر ہیں، اس سے آپ کی عظمت اور شرف کا جس طرح اظہار ہو رہا ہے، محتاج وضاحت نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] انبیاء کا عہد کیا ہے ؟ انبیاء کا عہد، عہد الست سے الگ ہے۔ اور اس عہد کا بھی قرآن میں متعدد بار ذکر آیا ہے (٢: ٨٣، ٣: ١٨٧، ٥: ٦٧، ٧: ١٦٩ تا ١٧١، ٤٢: ١٣ میں) اور وہ عہد یہ تھا کہ ہر پیغمبر اپنے سے پہلے پیغمبروں کی اور ان کی کتابوں کی تصدیق کرے گا، اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی سب سے پہلے خود اطاعت کرے گا پھر دوسروں سے کرائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو بلاکم وکاست دوسروں تک پہنچائے گا اور ان احکام کو عملاً نافذ کرنے میں اپنی مقدور بھر کوشش سے دریغ نہ کرے گا۔ اور اس مقام پر اس عہد کو یاد دلاتے اور بالخصوص منک کہنے سے مراد یہ ہے کہ آپ جو منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کی رسم توڑنے سے جھجک رہے ہیں اور دشمنوں کے طعن وتشنیع سے ڈر رہے ہیں تو ان لوگوں کی قطعاً پروا نہ کیجئے۔ دوسرے پیغمبروں کی طرح آپ سے بھی ہمارا پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی ہم تمہیں حکم دیں گے اسے بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے۔ لہذا جو خدمت ہم آپ سے لینا چاہتے ہیں اسے بلاتامل سرانجام دو اور شماتت اعداء کا خوف نہ کرو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ ۔۔ : جاہلی معاشرے میں منہ بولے بیٹوں کی ان کے باپ کی طرف نسبت کرنے کے حکم، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبنٰی زید (رض) کی طلاق کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کے حکم پر عمل نہایت مشکل تھا، کیونکہ متبنٰی کا مسئلہ ان کے دینی عقیدے کی شکل اختیار کرچکا تھا اور ان کے رگ و پے میں رچ چکا تھا۔ پھر زینب (رض) سے نکاح میں طرح طرح کی باتوں کا اندیشہ بھی تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس عہد کی طرف توجہ دلائی جو اس نے تمام انبیاء سے اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لیا، جس میں ان پر یہ فریضہ عائد کیا کہ وہ ہر حال میں احکام پر عمل کرنے میں اور انھیں لوگوں تک پہنچانے میں کوئی تنگی محسوس نہیں کریں گے، نہ ہی اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے ڈریں گے۔ یہی بات اس سورة احزاب میں دوبارہ زیادہ تفصیل کے ساتھ آیت (٣٨، ٣٩) میں آرہی ہے۔ انبیاء سے لیے جانے والے میثاق کا ذکر سورة احزاب کی اس آیت اور آیت (٣٨، ٣٩) کے علاوہ سورة آل عمران کی آیت (٨١) اور سورة شوریٰ کی آیت (١٣) میں بھی آیا ہے کہ ہر پیغمبر دوسرے تمام پیغمبروں کی تصدیق کرے گا، اپنے آپ پر اور لوگوں پر دین قائم کرے گا۔ دین میں تفرقے سے بچے گا۔ مشرکین پر گراں گزرنے کے باوجود اللہ کے دین کی دعوت میں کوتاہی نہیں کرے گا۔- وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ ۔۔ : تمام انبیاء سے عہد لینے کے بعد پانچ پیغمبروں کا نام لے کر عہد لینے کی صراحت فرمائی۔ اس سے ان پیغمبروں کی شان کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر پیغمبر کی دعوت مدت دراز تک جاری رہی، پھر سب سے آخر میں آنے کے باوجود ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام پہلے ذکر فرمایا۔ آپ کے بعد باقی انبیاء کا نام ان کے تشریف لانے کی ترتیب کے ساتھ ذکر فرمایا۔ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفعت کا اظہار مقصود ہے اور یہ بھی کہ یہاں اس عہد کا ذکر خاص آپ کے لیے کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس مقام پر لکھا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگرچہ دنیا میں سب سے آخر میں تشریف لائے، مگر وجود میں سب سے پہلے آئے، یعنی سب سے پہلے پیدا ہوئے، مگر یہ بات بالکل بےدلیل ہے۔ جس حدیث میں ذکر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ آپ کب سے نبی ہیں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کُنْتُ نَبِیًّا وَ آدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَ الْجَسَدِ ) [ مستدرک حاکم : ٢؍٦٠٨، ح : ٤٢٠٩ ] (میں اس وقت نبی تھا جب آدم (علیہ السلام) روح اور جسم کے درمیان تھے) اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی طے ہونے کا بیان ہے۔ یہ معنی نہیں کہ آپ اس وقت پیدا ہوچکے تھے، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے آخر میں پیدا ہونا سب کو معلوم ہے۔ - 3 خصوصاً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچا دینے کی تاکید کا ذکر سورة مائدہ (٦٧) میں ہے اور اہل کتاب کو اس تاکید کا ذکر سورة آل عمران (١٨٧) اور اعراف (١٦٩) میں ہے۔ - 3 اس مقام پر اس عہد کو یاد دلانے اور بالخصوص ” مِنک “ کہنے سے مراد یہ ہے کہ آپ جو منہ بولے رشتوں کے معاملے میں جاہلیت کی رسم توڑنے سے جھجک رہے ہیں اور دشمنوں کے طعن و تشنیع سے ڈر رہے ہیں، تو آپ لوگوں کے طعن و تشنیع کی قطعاً پروا نہ کریں، دوسرے پیغمبروں کی طرح آپ سے بھی ہمارا پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی ہم آپ کو حکم دیں گے اسے بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے، لہٰذا جو فریضہ ہم نے آپ پر عائد کیا ہے اسے بلا تامل سرانجام دیں اور کفار و منافقین کی باتوں کی پروا مت کریں، ان سے آپ کو محفوظ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، فرمایا : (وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) [ المائدۃ : ٦٧ ] ” اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (وہ وقت قابل ذکر ہے) جب کہ ہم نے تمام پیغمبروں سے ان کا اقرار لیا (کہ احکام آلہیہ کا اتباع کریں، جن میں خلق اللہ کو تبلیغ و دعوت اور باہمی تعاون و تناصر بھی داخل ہے) اور (ان پیغمبروں میں) آپ سے بھی (اقرار لیا) اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم (علیہم السلام) سے بھی اور (یہ کوئی معمولی عہد و اقرار نہیں تھا بلکہ) ہم نے ان سب سے خوب پختہ عہد لیا تاکہ (قیامت کے روز) ان سچے لوگوں سے (یعنی انبیاء (علیہم السلام) سے) ان کے سچ کی تحقیقات کرے (تا کہ ان کا شرف و اعزاز اور نہ ماننے والوں پر حجت مکمل ہوجائے، اس عہد اور اس کی تحقیقات سے دو باتوں کا وجوب ثابت ہوگیا کہ صاحب وحی پر اپنی وحی کا اتباع واجب ہے، اور جو عام لوگ صاحب وحی نہیں ان پر اپنے صاحب وحی پیغمبر کے اتباع کا وجوب) اور کافروں کے لئے (جو صاحب وحی کے اتباع سے منحرف ہیں) اللہ تعالیٰ نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔- معارف و مسائل - شروع سورة میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی وحی کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ (آیت) واتبع مایوحی الیک اور گزشتہ آیت (آیت) النبی اولیٰ بالمومنین۔ میں مومنین پر صاحب وحی کے احکام کی تعمیل واجب کی گئی ہے۔ انہی دونوں باتوں کے مزید اثبات و اظہار کے لئے مذکورہ دونوں آیتوں میں بھی دو مضمون بیان ہوئے ہیں۔ یعنی صاحب وحی کو اپنی وحی کا اتباع اور غیر صاحب وحی کو صاحب وحی کا اتباع کرنا واجب ہے۔- میثاق انبیاء - آیت مذکورہ میں جو انبیاء (علیہم السلام) سے عہد وقرار لینے کا ذکر ہے وہ اس اقرار عام کے علاوہ ہے جو ساری مخلوق سے لیا گیا ہے۔ جیسا کہ مشکوة میں بروایت امام احمد مرفوعاً آیا ہے کہ : خصو ابمیثاق الرسالة والنبوة وھو قولہ تعالیٰ و اذا اخذنا من النبین میثاقہم الآیة- یہ عہد انبیاء (علیہم السلام) سے نبوت و رسالت کے فرائض ادا کرنے اور باہم ایک دوسرے کی تصدیق اور مدد کرنے کا عہد تھا۔ جیسا کہ ابن جریر وابن ابی حاتم وغیرہ نے حضرت قتادہ سے روایت کیا ہے۔ اور ایک روایت میں اس عہد انبیاء میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ سب اس کا بھی اعلان کریں کہ محمد رسول اللہ لا نبی بعدہ، ” یعنی محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبین ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا “- اور یہ میثاق انبیاء بھی ازل میں اسی وقت لیا گیا جبکہ عام مخلوق سے الست بربکمہ کا عہد لیا گیا تھا۔ (روح ومظہری)- (آیت) ومنک ومن نوح الآیة، انبیاء (علیہم السلام) کا عام ذکر کرنے کے بعد ان میں سے پانچ انبیاء کا خصوصی ذکر ان کے اس خاص امتیاز وشرف کی بنا پر کیا گیا، جو ان کو زمرہ انبیاء میں حاصل ہے۔ اور ان میں بھی لفظ منک میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر کو اوروں سے مقدم کیا گیا، اگرچہ آپ کی بعثت سب کے بعد ہے، وجہ اس کی خود حدیث میں یہ بیان فرمائی ہے :- ” یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تخلیق وتکوین میں سارے انسانوں سے پہلا ہوں اور بعثت و نبوت میں سب سے آخر “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَہُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ۝ ٠ ۠ وَاَخَذْنَا مِنْہُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا۝ ٧ۙ- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے معنی پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال :- عَاسَهَا يَعِيسُهَا «2» .- ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- غلظ - الغِلْظَةُ ضدّ الرّقّة، ويقال : غِلْظَةٌ وغُلْظَةٌ ، وأصله أن يستعمل في الأجسام لکن قد يستعار للمعاني كالكبير والکثير «1» . قال تعالی:- وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة 123] ، أي : خشونة . وقال : ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان 24] ، مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود 58] - ( ع ل ظ ) الغلظۃ - ( غین کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ) کے معنی موٹاپا یا گاڑھازپن کے ہیں یہ رقتہ کی ضد ہے اصل میں یہ اجسام کی صفت ہے ۔ لیکن کبیر کثیر کی طرح بطور استعارہ معانی کے لئے بھی استعمال ہوتاز ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة 123] چاہئے کہ وہ تم میں سختی محسوس کریں میں غلظتہ کے معنی سخت مزاجی کے ہیں ۔ نیز فرمایا۔ ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان 24] پھر عذاب شدید کی طرف مجبور کر کے لیجائیں گے ۔ مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود 58] عذاب شدید سے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جبکہ ہم نے تمام پیغمبروں سے وعدہ لیا کہ دوسروں کو احکام پہنچائیں گے اور ان میں سب سے پہلے آپ سے اقرار لیا کہ آپ اپنی قوم کو ایمان لانے کا حکم دیں گے اور آپ سے پہلے جتنے انبیاء کرام گزرے ہیں اور جو جو ان پر کتابیں نازل ہوئی ہیں سب سے اپنی قوم کو باخبر کریں گے اور حضرت نوح، ابراہیم، موسیٰ عیسیٰ بن مریم (علیہم السلام) سے بھی عہد لیا کہ پہلے بعد والوں کو احکام پہنچائیں گے اور بعد والے پہلوں کی تصدیق کریں گے اور سب اپنی اپنی قوموں کو ایمان لانے کا حکم دیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَہُمْ ” اور (یاد کرو) جب ہم نے ابنیاء سے ان کا عہد لیا تھا “- ” میثاق النبیین “ کا ذکر اس سے پہلے سورة آل عمران کی آیت ٨١ اور ٨٢ میں بھی آچکا ہے۔- وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ‘ اور نوح ( علیہ السلام) ‘ ابراہیم ‘ موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ اور عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ ابن مریم سے بھی۔ “- وَاَخَذْنَا مِنْہُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا ” اور ان سب سے ہم نے بڑا گاڑھا قول وقرار لیا تھا۔ “- یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق ِتوجہ ہے کہ اگر کوئی شخص ارواح کے علیحدہ وجود کا منکر ہو اور یہ بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو کہ بنی نوع انسان کی تمام ارواح پہلے پیدا کردی گئی تھیں تو اس کے لیے اس آیت میں مذکور میثاق کی توجیہہ کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ بہر حال قرآن میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ارواح سے دو عہد لیے گئے۔ ان میں سے ایک عہد کا ذکر سورة الاعراف کی آیت ١٧٢ میں ہے ‘ جسے ” عہد ِالست “ کہا جاتا ہے اور یہ عہد بلا تخصیص تمام انسانی ارواح سے لیا گیا تھا۔ دوسرے عہد کا ذکر آیت زیر مطالعہ اور سورة آل عمران کی آیت ٨١ میں ہے جو صرف انبیاء کی ارواح سے اضافی طور پر لیا گیا تھا۔ اس عہد میں روح محمد (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) بھی موجود تھی اور دوسرے تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کی ارواح بھی۔ جو لوگ ارواح کے علیحدہ وجود کو تسلیم نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ عہد کا یہ ذکر استعا راتی انداز میں ہوا ہے۔ لیکن اگر ان کا یہ موقف تسلیم کرلیا جائے تو پھر قرآن کے تمام احکام ہی استعارہ بن کر رہ جائیں گے اور حقیقت ان استعاروں میں گم ہوجائے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :15 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات یاد دلاتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی طرح آپ سے بھی اللہ تعالیٰ ایک پختہ عہد لے چکا ہے جس کی آپ کو سختی کے ساتھ پابندی کرنی چاہیے ۔ اس عہد سے کونسا عہد مراد ہے ؟ اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آر ہا ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سے مراد یہ عہد ہے کہ پیغمبر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی خود اطاعت کرے گا اور دوسروں سے کرائے گا ، اللہ کی باتوں کو بےکم و کاست پہنچائے گا اور انہیں عملاً نافذ کرنے کی سعی و جہد میں کوئی دریغ نہ کرے گا ۔ قرآن مجید میں اس عہد کا ذکر متعدد مقامات پر کیا گیا ہے ۔ مثلاً: شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوْحاً وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ۔ ط ( الشُورٰی ۔ آیت ۱۳ ) اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا تمہارے لیے وہ دین جس کی ہدایت کی تھی اس نے نوح ( علیہ السلام ) کو ، اور جس کی وحی کی گئی ( اے محمد ) تمہاری طرف ، اور جس کی ہدایت کی گئی ابراہیم ( علیہ السلام ) اور موسیٰ ( علیہ السلام ) اور عیسیٰ ( علیہ السلام ) کو ۔ اس تاکید کے ساتھ کہ تم لوگ قائم کرو اس دین کو اور اس میں تفرقہ نہ کرو ۔ وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَہٗ ۔ ق ( آل عمران ۔ ۱۸۷ ) اور یاد کرو اس بات کو کہ اللہ نے عہد لیا تھا ان لوگوں سے جن کو کتاب دی گئی تھی کہ تم لوگ اس کی تعلیم کو بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں ۔ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ ۔ ( البقرہ ۔ ۸۳ ) اور یاد کرو کہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو گے ۔ اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خُذُوْا مَٓا اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ ع ( الاعراف ۔ آیات ۱٦۹ ۔ ۱۷۱ ) کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا گیا تھا ؟ ۔ ۔ ۔ مضبوطی کے سا تھ تھامو اس چیز کو جو ہم نے تمہیں دی ہے اور یاد رکھو اس ہدایت کو جو اس میں ہے ۔ توقع ہے کہ تم اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو گے ۔ وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( المائدہ ۔ ۷ ) اور اے مسلمانو یاد رکھو اللہ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر کیا ہے اور اس عہد کو جو اس نے تم سے لیا ہے جبکہ تم نے کہا ہم نے سنا اور اطاعت کی ۔ اس عہد کو اس سیاق و سباق میں اللہ تعالیٰ جس وجہ سے یاد دلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شماتت اعداء کے اندیشے سے منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کی رسم کو توڑتے ہوئے جھجک رہے تھے ۔ آپ کو بار بار یہ شرم لاحق ہو رہی تھی کہ معاملہ ایک خاتون سے شادی کرنے کا ہے ۔ میں خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ محض اصلاح معاشرہ کی خاطر یہ کام کروں ، مگر دشمن یہی کہیں گے کہ یہ کام دراصل نفس پرستی کی خاطر کیا گیا ہے اور مصلح کا لبادہ اس شخص نے محض فریب دینے کے لیے اوڑھ رکھا ہے ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ تم ہمارے مقرر کیے ہوئے پیغمبر ہو ، تمام پیغمبروں کی طرح تم سے بھی ہمارا یہ پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی حکم ہم دیں گے اس کو خود بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے ، لہٰذا تم کسی کے طعن و تشنیع کی پروا نہ کرو ، کسی سے شرم اور خوف نہ کرو ، اور خدمت ہم تم سے لینا چاہتے ہیں اسے بِلا تأمّل انجام دو ۔ ایک گروہ اس میثاق سے وہ میثاق مراد لیتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام انبیاء اور ان کی امتوں سے اس بات کے لیے لیا گیا تھا کہ وہ بعد کے آنے والے نبی پر ایمان لائیں گے اور اس کا ساتھ دیں گے ۔ اس تاویل کی بنیاد پر اس گروہ کا دعویٰ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ میثاق لیا گیا ہے کہ آپ کے بعد جو نبی آئے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی امت اس پر ایمان لائے گی ۔ لیکن آیت کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے کہ یہ تاویل بالکل غلط ہے ۔ جس سلسلۂ کلام میں یہ آیت آئی ہے اس میں یہ کہنے کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور آپ کی امت کو ان پر ایمان لانا چاہیے ۔ یہ مفہوم اس کا لیا جائے تو یہ آیت یہاں بالکل بے محل ہو جاتی ہے ۔ علاوہ بریں آیت کے الفاظ میں کوئی صراحت ایسی نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ یہاں میثاق سے کونسا میثاق مراد ہے ۔ لامحالہ اس کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے ہم کو قرآن مجید کے دوسرے مقامات کی طرف رجوع کرنا ہو گا جہاں انبیاء سے لیے ہوئے مواثیق کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اب اگر سارے قرآن میں صرف ایک ہی میثاق کا ذکر ہوتا اور وہ بعد کے آنے والے انبیاء پر ایمان لانے کے بارے میں ہوتا تو یہ خیال کرنا درست ہوتا کہ یہاں بھی میثاق سے مراد ہی میثاق ہے ۔ لیکن قرآن پاک کو جس شخص نے بھی آنکھیں کھول کر پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کتاب میں بہت سے میثاقوں کا ذکر ہے جو انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں سے لیے گئے ہیں ۔ لہٰذا ان مختلف مواثیق میں سے وہ میثاق یہاں مراد لینا صحیح ہو گا جو اس سیاق و سباق سے مناسبت رکھتا ہو ، نہ کہ وہ میثاق جس کے ذکر کا یہاں کوئی موقع نہ ہو ۔ اسی طرح کی غلط تاویلوں سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ بعض لوگ قرآن سے ہدایت لینے نہیں بیٹھتے بلکہ اسے ہدایت دینے بیٹھ جاتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: پیچھے جو حقیقت بیان فرمائی تھی کہ نبی ہر مومن کے لئے اپنی جان سے بھی زیادہ قربت کا مقام رکھتے ہیں، اس کی وجہ اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ ان کی ذمہ داری بڑی سخت ہے ؛ کیونکہ ان سے بڑا سخت عہد لیا گیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو ٹھیک ٹھیک لوگوں تک پہنچاکر ان کی ہدایت کا سبب بنیں گے۔