Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81یہ لام کئ ہے یعنی یہ عہد اس لئے لیا تھا تاکہ اللہ سچے نبیوں سے پوچھے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام اپنی قوموں تک پہنچایا تھا یا دوسرا مطلب یہ ہے کہ انبیاء سے پوچھے کہ تمہاری قوموں نے تمہاری دعوت کا جواب کس طرح دیا ؟ مثبت انداز میں یا منفی طریقے سے، اس میں داعیان حق کے لئے بھی تنبیہ ہے کہ وہ دعوت حق کا فریضہ پوری تن دہی اور اخلاص سے ادا کریں تاکہ بارگاہ الٰہی میں سرخرو ہو سکیں، اور ان لوگوں کے لئے بھی وعید ہے جن کو حق کی دعوت پہنچائی جائے کہ اگر وہ اسے قبول نہیں کریں گے تو عند اللہ مجرم اور مستوجب سزا ہوں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] انبیاء کے عہد کی ان سے باز پرس بھی ہوگی :۔ یہ محض عہد لینے تک ہی معاملہ نہیں ہوجاتا بلکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس عہد سے متعلق پیغمبروں سے بھی سوال کرے گا۔ ان کی بھی بازپرس ہوگی۔ انھیں بھی پوچھا جائے گا کہ آیا تم نے اپنی قوم کو میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ پھر اس قوم نے تمہیں کیا جواب دیا تھا ؟ یا تمہاری دعوت کا ردعمل کیا ہوا تھا ؟ یہ مطلب تو ربط مضمون کے لحاظ سے ہے۔ تاہم یہاں رسولوں کے بجائے صادقین کا لفظ آیا ہے۔ گویا ہر ایماندار سے اس کے عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ پھر جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو پورا کیا ہوگا وہی لوگ صادق العہد قرار پائیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لِّيَسْـَٔـلَ الصّٰدِقِيْنَ عَنْ صِدْقِهِمْ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ عہد محض قول و قرار کے لیے نہیں لیا، بلکہ اس لیے لیا ہے کہ وہ قیامت کے دن پیغمبروں سے سوال کرے گا کہ کیا تم نے قوم کو میرا پیغام پہنچایا ؟ پھر قوم نے تمہیں کیا جواب دیا اور دعوت کا نتیجہ کیا ہوا ؟ پیغمبروں سے جو عہد لیا، وہ ان کی امت کے لوگوں کے لیے بھی ہے اور ” صادقین “ کا لفظ بھی عام ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر مومن سے بھی اس عہد کے متعلق سوال ہوگا، پھر جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے اس عہد کو پورا کیا وہی صادق قرار پائیں گے اور اجر کے مستحق ہوں گے اور جنھوں نے اس کا انکار کیا، ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِّيَسْـَٔـلَ الصّٰدِقِيْنَ عَنْ صِدْقِہِمْ۝ ٠ ۚ وَاَعَدَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝ ٨ ۧ- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

تاکہ قیامت کے دن مبلغین سے ان کی تبلیغ کی اور اقرار وعدہ کرنے والوں سے ان کے وفائے عہد کی اور اہل ایمان سے ان کے ایمان کی تحقیق کرے۔- اور انبیائے کرام اور اللہ کی کتابوں کا انکار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے دوزخ کا دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے کہ اس عذاب کی شدت ان کے دلوں تک سرایت کرجائے گی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ لِّیَسْئَلَ الصّٰدِقِیْنَ عَنْ صِدْقِہِمْ ” تاکہ اللہ پوچھ لے سچے لوگوں سے ان کے سچ کے بارے میں۔ “- یہاں اس فقرے کے بعد یہ الفاظ گویا محذوف ہیں : وَالْـکٰذِبِیْنَ عَنْ کِذْبِھِم (اور وہ جھوٹوں سے بھی پوچھ لے ان کے جھوٹ کے بارے میں ) تاکہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں سے ان کے عقائد و اعمال کے بارے میں اچھی طرح سے پوچھ گچھ کرلے۔- وَاَعَدَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا ” اور اس نے تیار کر رکھا ہے کافروں کے لیے ایک دردناک عذاب۔ “- پہلے رکوع کے اختتام پر اس مضمون کا سلسلہ عارضی طور پر منقطع کیا جا رہا ہے۔ یہاں پر تمہیداً ُ منہ بولے بیٹے کی قانونی حیثیت کو واضح کردیا گیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافرین و منافقین کی باتوں کی طرف بالکل دھیان نہ دیں اور ان کی طرف سے منفی پراپیگنڈے کے اندیشوں کو بالکل نظر انداز کر کے اللہ کے حکم پر عمل کریں ۔ - ۔ اس مضمون کی مزید تفصیل چوتھے رکوع میں آئے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :16 یعنی اللہ تعالیٰ محض عہد لے کر نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس عہد کے بارے میں وہ سوال کرنے والا ہے کہ اس کی کہاں تک پابندی کی گئی ۔ پھر جن لوگوں نی سچائی کے ساتھ اللہ سے کیے ہوئے عہد کو وفا کیا ہو گا وہی صادق العہد قرار پائیں گے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :17 اس رکوع کے مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو اسی سورہ کی آیات ۳٦ ۔ ٤۱ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: یہ عہد اس واسطے لیا گیا تھا کہ لوگوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچ جائے، اور ان پر حجت تمام ہوجائے، اور پھر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے پوچھ گچھ کرے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کس قدر سچائی سے کام لیا، اگر انبیاء کرام اپنے عہد کے مطابق اللہ تعالیٰ کا پیغام ان تک ٹھیک ٹھیک نہ پہنچاتے تو ان پر حجت قائم نہ ہوتی، اور نہ اللہ تعالیٰ ان سے باز پرس فرماتا، کیونکہ حجت تمام کئے بغیر کسی سے باز پرس کرنا اس کے انصاف کے خلاف ہے۔