غزوئہ خندق اور مسلمانوں کی خستہ حالی جنگ خندق میں جو سنہ ٥ ہجری ماہ شوال میں ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر جو اپنا فضل واحسان کیا تھا اس کا بیان ہو رہا ہے ۔ جبکہ مشرکین نے پوری طاقت سے اور پورے اتحاد سے مسلمانوں کو مٹا دینے کے ارادے سے زبردست لشکر لے کر حملہ کیا تھا ۔ بعض لوگ کہتے ہیں جنگ خندق سنہ ٤ ہجری میں ہوئی تھی ۔ اس لڑائی کا قصہ یہ ہے کہ بنو نضیر کے یہودی سرداروں نے جن میں سلام بن ابو حقیق ، سلام بن مشکم ، کنانہ بن ربیع وغیرہ تھے مکے میں آکر قریشیوں کو جو اول ہی سے تیار تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کرنے پر آمادہ کیا اور ان سے عہد کیا کہ ہم اپنے زیر اثر لوگوں کے ساتھ آپ کی جماعت میں شامل ہیں ۔ انہیں آمادہ کرکے یہ لوگ قبیلہ غطفان کے پاس گئے ان سے بھی ساز باز کرکے اپنے ساتھ شامل کرلیا قریشیوں نے بھی ادھر ادھر پھر کر تمام عرب میں آگ لگا کر سب گرے پڑے لوگوں کو بھی ساتھ ملالیا ۔ ان سب کا سردار ابو سفیان صخر بن حرب بنا اور غطفان کا سردار عینیہ بن حصن بن بدر مقرر ہوا ۔ ان لوگوں نے کوشش کرکے دس ہزار کا لشکر اکٹھا کرلیا اور مدینے کی طرف چڑھ دوڑے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس لشکر کشی کی خبریں پہنچیں تو آپ نے بہ مشورہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینے شریف کی مشرقی سمت میں خندق یعنی کھائی کھدوائی اس خندق کے کھودنے میں تمام صحابہ مہاجرین وانصار رضی اللہ تعالیٰ عنہم شامل تھے اور خود آپ بھی بہ نفس نفیس اس کے کھودنے اور مٹی ڈھونے میں بھی حصہ لیتے تھے ۔ مشرکین کا لشکر بلامزاحمت مدینے شریف تک پہنچ گیا اور مدینے کے مشرقی حصے میں احد پہاڑ کے متصل اپنا پڑاؤ جمایا یہ تھا مدینے کا نیچا حصہ اوپر کے حصے میں انہوں نے اپنی ایک بڑی بھاری جمعیت بھیج دی جس نے اعالی مدینہ میں لشکر کا پڑاؤ ڈالا اور نیچے اوپر سے مسلمانوں کو محصور کرلیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ کے صحابہ کو جو تین ہزار سے نیچے تھے اور بعض روایات میں ہے کہ صرف سات سو تھے لے کر ان کے مقابلے پر آئے ۔ سلع پہاڑی کو آپ نے اپنی پشت پر کیا اور دشمنوں کی طرف متوجہ ہو کر فوج کو ترتیب دیا ۔ خندق جو آپ نے کھودی اور کھدوائی تھی اس میں پانی وغیرہ نہ تھا وہ صرف ایک گڑھا تھا جو مشرکین کے ریلے کو بےروک آنے نہیں دیتا تھا آپ نے بچوں اور عورتوں کو مدینے کے ایک محلے میں کردیا تھا ۔ یہودیوں کی ایک جماعت بنو قریظہ مدینے میں تھی مشرقی جانب ان کا محلہ تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاہدہ مضبوط تھا ان کا بھی بڑا گروہ تھا تقریبا آٹھ سو جنگجو لڑنے کے قابل میدان میں موجود تھے مشرکین اور یہود نے ان کے پاس حی بن اخطب نضری کو بھیجا اس نے انہیں بھی شیشے میں اتار کر سبز باغ دکھلا کر اپنی طرف کرلیا اور انہوں نے بھی ٹھیک موقعہ پر مسلمانوں کے ساتھ بد عہدی کی ۔ اور اعلانیہ طور پر صلح توڑ دی ۔ باہر سے دس ہزار کا وہ لشکر جو گھیرا ڈالے پڑا ہے اندر سے ان یہودیوں کی بغاوت جو بغلی پھوڑے کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے ۔ مسلمان بتیس دانتوں میں زبان یا آٹے میں نکل کی طرح ہوگئے ۔ یہ کل سات سو آدمی کر ہی کیا سکتے تھے ۔ یہ وقت تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ آنکھیں پتھرا گئیں دل الٹ گئے طرح طرح کے خیالات آنے لگے ۔ جھنجھوڑ دئیے گئے اور سخت امتحان میں مبتلا ہوگئے ۔ مہینہ بھر تک محاصرہ کی یہی تلخ صورت قائم رہی گو مشرکین کی یہ جرات تو نہیں ہوئی کہ خندق سے پار ہو کر دستی لڑائی لڑتے لیکن ہاں گھیرا ڈالے پڑے رہے اور مسلمانوں کو تنگ کردیا ۔ البتہ عمرو بن عبدود عامری جو عرب کا مشہور شجاع پہلوان کو لے کر خندق سے اپنے گھوڑوں کو کدالایا ۔ یہ حال دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سواروں کی طرف اشارہ کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ انہیں تیار نہ پاکر آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ تم اس کے مقابلے پر جاؤ آپ گئے تھوڑی دیر تک تو دونوں بہادروں میں تلوار چلتی رہی لیکن بالآخر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے کفر کے اس دیو کو تیہ تیغ کیا جس سے مسلمان بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ فتح ہماری ہے ۔ پھر پروردگار نے وہ تندوتیز آندھی بھیجی کہ مشرکین کے تمام خیمے اکھڑے گئے کوئی چیز قرینے سے نہ رہی آگ کا جلانا مشکل ہوگیا ۔ کوئی جائے پناہ نظر نہ آئی بالآخر تنگ آکر نامرادی سے واپس ہوئے ۔ جس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ جس ہوا کا اس آیت میں ذکر ہے بقول مجاہد رحمۃ اللہ یہ صبا ہواؤں سے ہلاک کئے گئے تھے ۔ عکرمہ فرماتے ہیں جنوبی ہوا نے شمالی ہوا سے اس جنگ احزاب میں کہا کہ چل ہم تم جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں تو شمالی ہوا نے کہا کہ کہگرمی رات کو نہیں چلاتی ۔ پھر ان پر صبا ہوا بھیجی گئی ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں مجھے میرے ماموں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خندق والی رات سخت جاڑے اور تیز ہوا میں مدینہ شریف بھیجا کہ کھانا اور لحاف لے آؤں ۔ میں نے حضور سے اجازت چاہی تو آپ نے اجازت مرحمت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ میرے جو صحابی تمہیں ملے انہیں کہنا کہ میرے پاس چلے آئیں ۔ اب میں چلا ہوائیں زناٹے کی شائیں شائیں چل رہی تھیں ۔ مجھے جو مسلمان ملا میں نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دیا اور جس نے سنا الٹے پاؤں فورا حضور کی طرف چل دیا یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ ہوا میری ڈھال کو دکھے دے رہی تھی اور وہ مجھے لگ رہی تھی یہاں تک کہ اس کا لوہا میرے پاؤں پر گرپڑا جسے میں نے پھینک دیا ۔ اس ہوا کے ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھی نازل فرمائے تھے جنہوں نے مشرکین کے دل اور سینے خوف اور رعب سے بھر دئیے ۔ یہاں تک کہ جتنے سرداران لشکر تھے اپنے ماتحت سپاہیوں کو اپنے پاس بلابلاکر کر کہنے لگے نجات کی صورت تلاش کرو ۔ بچاؤ کا انتظام کرو ۔ یہ تھا فرشتوں کا ڈالا ہوا رعب اور یہی وہ لشکر ہے جس کا بیان اس آیت میں ہے کہ اس لشکر کو تم نے نہیں دیکھا ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک نوجوان شخص نے جو کوفے کے رہنے والے تھے کہا کہ اے ابو عبداللہ تم بڑے خوش نصبیب ہو کہ تم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ کی مجلس میں بیٹھے بتاؤ تم کیا کرتے تھے؟ حضرت حذیفہ نے فرمایا واللہ ہم جان نثاریاں کرتے تھے ۔ نوجوان فرمانے لگے سنئے چچا اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو پاتے تو واللہ آپ کو قدم بھی زمین پر نہ رکھنے دیتے اپنی گردنوں پر اٹھا کر لیجاتے ۔ آپ نے فرمایا بھیتجے لو ایک واقعہ سنو جنگ خندق کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی رات تک نماز پڑھتے رہے ۔ فارغ ہو کر دریافت فرمایا کہ کوئی ہے جو جا کر لشکر کفار کی خبر لائے؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے شرط کرتے ہیں کہ وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ کوئی کھڑا نہ ہوا کیونکہ خوف کی بھوک کی اور سردی کی انتہا تھی ۔ پر آپ دیر تک نماز پڑھتے رہے ۔ پھر فرمایا کوئی ہے جو جا کر یہ خبر لادے کہ مخالفین نے کیا کیا ؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے مطمئن کرتے ہیں کہ وہ ضرور واپس آئے گا اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں میرا رفیق کرے ۔ اب کے بھی کوئی کھڑا نہ ہوا اور کھڑا ہوتا کیسے؟ بھوک کے مارے پیٹ کمر سے لگ رہا تھا سردی کے مارے دانت بج رہے تھے ، خوف کے مارے پتے پانی ہو رہے تھے ۔ بالآخر میرا نام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی اب تو بےکھڑے ہوئے چارہ نہیں تھا ۔ فرمانے لگے حذیفہ تو جا اور دیکھ کہ وہ اس وقت کیا کر رہے ہیں دیکھ جب تک میرے پاس واپس نہ پہنچ جائے کوئی نیا کام نہ کرنا میں نے بہت خوب کہہ کر اپنی راہ لی اور جرات کے ساتھ مشرکوں میں گھس گیا وہاں جاکر عجیب حال دیکھا کہ دکھائی نہ دینے والے اللہ کے لشکر اپنا کام پھرتی سے کررہے ہیں ۔ چولہوں پر سے دیگیں ہوا نے الٹ دی ہیں ۔ خیموں کی چوبیں اکھڑ گئی ہیں ، آگ جلا نہیں سکتے ۔ کوئی چیز اپنی ٹھکانے نہیں رہی اسی وقت ابو سفیان کھڑا ہوا اور با آواز بلند منادی کی کہ اے قریشیوں اپنے اپنے ساتھی سے ہوشیار ہوجاؤ ۔ اپنے ساتھی کو دیکھ بھال لو ایسانہ ہو کوئی غیر کھڑا ہو ۔ میں نے یہ سنتے ہی میرے پاس جو ایک قریشی جوان تھا اس کا ہاتھ پکڑلیا اور اس سے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے کہا میں فلاں بن فلاں ہوں ۔ میں نے کہا اب ہوشیار رہنا ۔ پھر ابو سفیان نے کہا اللہ گواہ ہے ہم اس وقت کسی ٹھہرنے کی جگہ پر نہیں ہیں ۔ ہمارے مویشی ہمارے اونٹ ہلاک ہو رہے ہیں ۔ بنو قریظہ نے ہم سے وعدہ خلافی کی اس نے ہمیں بڑی تکلیف پہنچائی پھر اس ہوا نے تو ہمیں پریشان کر رکھا ہے ہم کھانا نہیں پکا سکتے آگ تک نہیں جلاسکتے خیمے ڈیرے ٹھہر نہیں سکتے ۔ میں تو تنگ آگیا ہوں اور میں نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ واپس ہوجاؤں پس میں تم سب کو حکم دیتا ہوں کہ واپس چلو ۔ اتنا کہتے ہی اپنے اونٹ پر جو زانوں بندھا ہوا بیٹھا تھا چڑھ گیا اور اسے مارا وہ تین پاؤں سے ہی کھڑا ہوگیا پھر اس کا پاؤ کھولا ۔ اس وقت ایسا اچھا موقعہ تھا کہ اگر میں چاہتا ایک تیر میں ہی ابو سفیان کا کام تمام کردیتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمادیا تھا کہ کوئی نیا کام نہ کرنا اس لئے میں نے اپنے دل کو روک لیا ۔ اب میں واپسی لوٹا اور اپنے لشکر میں آگیا جب میں پہنچا ہوں تو میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر کو لپیٹے ہوئے جو آپ کی کسی بیوی صاحبہ کی تھی نماز میں مشغول ہیں ۔ آپ نے مجھے دیکھ کر دونوں پیروں کے درمیان بٹھالیا اور چادر مجھے بھی اڑھا دی ۔ پھر رکوع اور سجدہ کیا اور میں وہیں وہی چادر اوڑھے بیٹھارہا جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے سارا واقعہ بیان کیا ۔ قریشیوں کے واپس لوٹ جانے کی خبر جب قبیلہ غطفان کو پہنچی تو انہوں نے بھی سامان باندھا اور واپس لوٹ گئے اور روایت میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب میں چلا تو باوجود کڑاکے کی سخت سردی کے قسم اللہ کی مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کسی گرم حمام میں ہوں ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ جب میں لشکر کفار میں پہنچا ہوں اس وقت ابو سفیان آگ سلگائے ہوئے تاپ رہا تھا میں نے اسے دیکھ کر پہچان کر اپنا تیر کمان میں چڑھالیا اور چاہتا تھا کہ چلادوں اور بالکل زد میں تھا ناممکن تھا کہ میر انشانہ خالی جائے لیکن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آگیا کہ کوئی ایسی حرکت نہ کرنا کہ وہ چوکنے ہو کر بھڑک جائیں تو میں نے اپنا ارادہ ترک کردیا ۔ جب میں واپس آیا اس وقت بھی مجھے کوئی سردی محسوس نہ ہوئی بلکہ یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا میں حمام میں چل رہا ہوں ۔ ہاں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا بڑے زور کی سردی لگنے لگی اور میں کپکپانے لگا توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مجھ کو اوڑھادی ۔ میں جو اوڑھ کر لیٹا تو مجھے نیند آگئی اور صبح تک پڑا سوتارہا صبح خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مجھے یہ کہہ کر جگایا کہ اے سونے والے بیدار ہوجا ۔ اور روایت میں ہے کہ جب اس تابعی نے کہا کہ کاش ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے اور آپ کے زمانے کو پاتے تو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاکاش کہ تم جیسا ایمان ہمیں نصیب ہو تاکہ باجود نہ دیکھنے کے پورا اور پختہ عقیدہ رکھتے ہو ۔ برادر زادے جو تمنا کرتے ہو یہ تمناہی ہے نہ جانے تم ہوتے تو کیا کرتے؟ ہم پر تو ایسے کٹھن وقت آئے ہیں ۔ یہ کہہ کہ پھر آپ نے مندرجہ بالا خندق کی رات کا واقعہ بیان کیا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ہوا جھڑی آندھی کے ساتھ بارش بھی تھی ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کے واقعات کو بیان فرما رہے تھے جو اہل مجلس نے کہا کہ اگر ہم اس وقت موجود ہوتے تو یوں اور یوں کرتے اس پر آپ نے یہ واقعہ بیان فرمادیا کہ باہر سے تو دس ہزار کا لشکر گھیرے ہوئے ہے اندر سے بنوقریظہ کے آٹھ سو یہودی بگڑے ہوئے ہیں بال بچے اور عورتیں مدینے میں ہیں خطرہ لگا ہوا ہے اگر بنو قریظہ نے اس طرف کا رخ کیا تو ایک ساعت میں ہی عورتوں بچوں کا فیصلہ کردیں گے ۔ واللہ اس رات جیسی خوف وہراس کی حالت کبھی ہم پر نہیں گذری ۔ پھر وہ ہوائیں چلتی ہیں ، آندھیاں اٹھتی ہیں ، اندھیرا چھا جاتا ہے ، کڑک گرج اور بجلی ہوتی ہے کہ العظمتہ اللہ ۔ ساتھی کو دیکھنا تو کہاں اپنی انگلیاں بھی نظر نہ آتی تھی ۔ جو منافق ہمارے ساتھ تھے وہ ایک ایک ہو کر یہ بہانا بناکر ہمارے بال بچے اور عورتیں وہاں ہیں اور گھر کا نگہبان کوئی نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر اجازت چاہنے لگے اور آپ نے بھی کسی ایک کو نہ روکا جس نے کہا کہ میں جاؤں ؟ آپ نے فرمایا شوق سے جاؤ ۔ وہ ایک ایک ہو کر سرکنے لگے اور ہم صرف تین سو کے قریب رہ گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب تشریف لائے ایک ایک کو دیکھا میری عجیب حالت تھی نہ میرے پاس دشمن سے بچنے کے لئے کوئی آلہ تھا نہ سردی سے محفوظ رہنے کے لئے کوئی کپڑا تھا ۔ صرف میری بیوی کی ایک چھوٹی سی چادر تھی جو میرے گھٹنوں تک بھی نہیں پہنچتی تھی ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے اس وقت میں اپنے گھٹنوں میں سر ڈالے ہوئے دبک کر بیٹھا ہوا کپکپارہا تھا ۔ آپ نے پوچھا یہ کون ہیں؟ میں نے کہا حذیفہ ۔ فرمایا حذیفہ سن واللہ مجھ پر تو زمین تنک آگئی کہ کہیں حضور مجھے کھڑا نہ کریں میری تو درگت ہو رہی ہے لیکن کرتا کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سن رہا ہوں ارشاد؟ آپ نے فرمایا دشمنوں میں ایک نئی بات ہونے والی ہے جاؤ ان کی خبر لاؤ ۔ واللہ اس وقت مجھ سے زیادہ نہ تو کسی کو خوف تھا نہ گھبراہٹ تھی نہ سردی تھی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنتے ہی کھڑا ہوگیا اور چلنے لگا تو میں نے سنا کہ آپ میرے لئے دعا کررہے ہیں کہ اے اللہ اس کے آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اوپر سے نیچے سے اس کی حفاظت کر ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کے سات ہی میں نے دیکھا کہ کسی قسم کا خوف ڈر دہشت میرے دل میں تھی ہی نہیں ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دے کر فرمایا دیکھو حذیفہ وہاں جاکر میرے پاس واپس آنے تک کوئی نئی بات نہ کرنا ۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ میں ابو سفیان کو اس سے پہلے پہچانتا نہ تھا میں گیا تو وہاں یہی آوازیں لگ رہی تھیں کہ چلو کوچ کرو واپس چلو ۔ ایک عجیب بات میں نے یہ بھی دیکھی کہ وہ خطرناک ہوا جو دیگیں الٹ دیتی تھی وہ صرف ان کے لشکر کے احاطہ تک ہی تھی واللہ اس سے ایک بالشت بھر باہر نہ تھی ۔ میں نے دیکھا کہ پتھر اڑ اڑ کر ان پر گرتے تھے ۔ جب میں واپس چلا ہوں تو میں نے دیکھا کہ تقریبا بیس سوار ہیں جو عمامے باندھے ہوئے ہیں انہوں نے مجھ سے فرمایا جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کفایت کردی اور آپ کے دشمنوں کو مات دی ۔ اس میں یہ بھی بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت میں داخل تھا کہ جب کبھی کوئی گھبراہٹ اور دقت کا وقت ہوتا تو آپ نماز شروع کردیتے ۔ جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی اسی وقت یہ آیت اتری ۔ پس آیت میں نیچے کی طرف سے آنے والوں سے مراد بنو قریظہ ہیں ۔ شدت خوف اور سخت گھبراہٹ سے آنکھیں الٹ گئیں اور دل حلقوم تک پہنچ گئے تھے اور طرح طرح کے گمان ہو رہے تھے یہاں تک کہ بعض منافقوں نے سمجھ لیا تھا کہ اب کی لڑائی میں کافر غالب آجائیں گے عام منافقوں کا تو پوچھنا ہی کیا ہے؟ معتب بن قشیر کہنے لگا کہ آنحضرت تو ہمیں کہہ رہے تھے کہ ہم قیصر وکسریٰ کے خزانوں کے مالک بنیں گے اور یہاں حالت یہ ہے کہ پاخانے کو جانا بھی دو بھر ہو رہا ہے ۔ یہ مختلف گمان مختلف لوگوں کے تھے مسلمان تو یقین کرتے تھے کہ غلبہ ہمارا ہی ہے جیسا کہ فرمان ہے آیت ( وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ ۙ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ۡ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا 22ۭ ) 33- الأحزاب:22 ) لیکن منافقین کہتے تھے کہ اب کی مرتبہ سارے مسلمان مع آنحضرت گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دئیے جائیں گے ۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عین اس گبھراہٹ اور پریشانی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہمیں اس سے بچاؤ کی کوئی تلقین کریں ۔ آپ نے فرمایا یہ دعامانگو ( اللہم استرعوراتنا وامن روعاتنا ) اللہ ہماری پردہ پوشی کر اللہ ہمارے خوف ڈر کو امن وامان سے بدل دے ۔ ادھر مسلمانوں کی یہ دعا بلند ہوئیں ادھر اللہ کا لشکر ہواؤں کی شکل میں آیا اور کافروں کا تیاپانچا کردیا ، فالحمدللہ ۔
9 1ان آیات میں غزوہ احزاب کی کچھ تفصیل ہے جو 5ہجری میں پیش آیا۔ اسے احزاب اس لئے کہتے ہیں کہ اس موقعہ پر تمام اسلام دشمن گروہ جمع ہو کر مسلمانوں کے مرکز مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ احزاب حزب (گروہ) کی جمع ہے۔ اسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ مسلمانوں نے اپنے بچاؤ کے لئے مدینے کے اطراف میں خندق کھودی تھی تاکہ دشمن مدینہ کے اندر نہ آسکیں۔ اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر، جس کو رسول اللہ نے مسلسل بد عہدی کی وجہ سے مدینے سے جلا وطن کردیا تھا، یہ قبیلہ خیبر میں جا آباد ہوا اس نے کفار مکہ کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار کیا، اسی طرح غطفان وغیرہ قبائل نجد کو بھی امداد کا یقین دلا کر آمادہ قتال کیا یوں یہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے تمام دشمنوں کو اکٹھا کر کے مدینے پر حملہ آور ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ مشرکین مکہ کی قیادت ابو سفیان کے پاس تھی، انہوں نے احد کے آس پاس پڑاؤ ڈال کر تقریباً مدینے کا محاصرہ کرلیا ان کی مجموعی تعداد 1 0ہزار تھی، جب کہ مسلمان تین ہزار تھے۔ علاوہ ازیں جنوبی رخ پر یہودیوں کا تیسرا قبیلہ بنو قریظہ آباد تھا۔ جس سے ابھی تک مسلمانوں کا معاہدہ قائم اور وہ مسلمانوں کی مدد کرنے کا پابند تھا۔ لیکن اسے بھی بنو نضیر کے یہودی سردار حیی بن اخطب نے ورغلا کر مسلمانوں پر کاری ضرب لگانے کے حوالے سے، اپنے ساتھ ملا لیا یوں مسلمان چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں گھر گئے۔ اس موقع پر حضرت سلیمان فارسی کے مشورے سے خندق کھودی گئی، جس کی وجہ سے دشمن کا لشکر مدینے سے اندر نہیں آسکا اور مدینے کے باہر قیام پذیر رہا۔ تاہم مسلمان اس محاصرہ اور دشمن کی متحدہ یلغار سے سخت خوفزدہ تھے، کم و بیش ایک مہینے تک محاصرہ قائم رہا اور مسلمان سخت خوف اور اضطراب کے عالم میں مبتلا تھے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے پردہ غیب سے مسلمانوں کی مدد فرمائی ان آیات میں ان ہی سراسیمہ حالات اور امداد غیبی کا تذکرہ فرمایا گیا ہے پہلے جُنُودًا سے مراد کفار کی فوجیں ہیں، جو جمع ہو کر آئی تھیں۔ تیز و تند ہوا سے مراد ہوا ہے جو سخت طوفان اور آندھی کی شکل میں آئی، جس نے ان کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا جانور رسیاں تڑا کر بھاگ کھڑے ہوئے، ہانڈیاں الٹ گئیں اور سب بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ وہی ہوا ہے۔ جس کی بابت حدیث میں آتا ہے، (بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا) 9 ۔ التوبہ :40) سے مراد فرشتے ہیں۔ جو مسلمانوں کی مدد کے لئے آئے، انہوں نے دشمن کے دلوں پر ایسا خوف اور دہشت طاری کردی کہ انہوں نے وہاں سے جلد بھاگ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
[ ١٤] جنگ احزاب کے اصل محرک خیبر میں پناہ گزین یہودی تھے :۔ آیت نمبر ٩ سے لے کر آیت نمبر ٢٧ تک جنگ احزاب کا یا جنگ خندق کا بیان ہے۔ مگر اس میں تسلسل کا وہ انداز نہیں جو ایک انسان یا مورخ کے بیان یا اس کی تصنیف میں پایا جاتا ہے۔ وہ سب سے پہلے جنگ کے اسباب بیان کرے گا۔ پھر واقعات کی تفصیل بتائے گا پھر اس کے بعد اس کے نتائج پر تبصرہ کرے گا۔ لیکن قرآن کا انداز بیان اس سے بالکل جداگانہ ہوتا ہے۔ قرآن کا اصل موضوع انسان کی ہدایت اور مسلمانوں کی اخلاقی اور عملی تربیت ہے۔ لہذا اس مخصوص انداز بیان سے اس جنگ کے بیان کا آغاز کیا گیا ہے اور انھیں بتایا ہے کہ جب اللہ کے فرمانبردار صرف اللہ پر توکل کرتے ہیں تو وہ کن کن غیر مرئی اسباب سے اپنے بندوں کی مدد فرماتا ہے لہذا مسلمانوں کو مشکل سے مشکل آزمائش کے وقت بھی صرف اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور جو کام وہ کرسکتے ہیں وہ بہرحال انھیں پوری محنت سے سرانجام دینا چاہئیں۔ پھر بعد میں قرآن کے بیان میں ان تمام فرقوں کے کردار پر بھی تبصرہ آگیا ہے جو اس جنگ میں شریک تھے۔ اب ہم پہلے اس جنگ کے مختصر حالات ترتیب وار بیان کرتے ہیں تاکہ اس جنگ کا پس منظر اور واقعات بھی سامنے رہیں اور آیات قرآنی کا مفہوم سمجھنے میں آسانی ہو۔ - خ کفار کے متحدہ گروپ میں کون کون سے گروپ اور قبائل شامل تھے ؟ اس جنگ میں قریش مکہ، یہود مدینہ اور مشرک بدوی قبائل سب نے حصہ لیا تھا اسی لئے اسے جنگ احزاب کہا جاتا ہے۔ رہے منافقین تو وہ کھل کر سامنے آنے کی بجائے مسلمانوں میں بددلی پھیلانے اور ان کی حوصلہ شکنی کرنے، ان کا مذاق اڑانے اور دشمنوں سے سازباز کا کردار ادا کر رہے تھے۔ کافر اتحادیوں کے اس مشترکہ لشکر کا سردار چونکہ ابو سفیان ہی تھا لہذا اس جنگ میں زیادہ تر حصہ قریش مکہ کا ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس جنگ کا آغاز یوں ہوا کہ جنگ احد کے بعد غزوہ بنو نضیر پیش آیا۔ جس کے نتیجہ میں یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا گیا اور انہوں نے خیبر میں جاکر پناہ لی تھی۔ انھیں جلا وطن شدہ یہودیوں میں سے بیس افراد پر مشتمل ایک وفد قریش مکہ کے پاس آیا اور انھیں مسلمانوں پر ایک اجتماعی اور کاری ضرب لگانے کی ترغیب دی۔ ایسی ضرب جس سے مسلمانوں کی جڑ کٹ جائے اور یہ روزمرہ کی بک بک ختم ہو۔ قریش مکہ نے یہودی وفد کی اس آواز پر لبیک کہا اور انہوں نے اس موقعہ کو اس لحاظ سے بھی غنیمت جانا کہ جنگ احد کے اختتام پر ابو سفیان نے ایک سال بعد بدر کے میدان میں جنگ لڑنے کا چیلنج دیا تھا۔ مسلمانوں کے وقت مقررہ پر میدان بدر میں پہنچنے کے باوجود ابو سفیان وہاں نہ پہنچ سکا تھا۔ یہود کی اس پیش کش نے اس کے حوصلے بڑھا دیئے اور فورا ان کا ہم نوا بن گیا۔ قریش مکہ کی طرف سے حوصلہ افزا جواب پانے کے بعد یہ وفد بنوغطفان کے پاس گیا۔ یہ قبیلہ چونکہ پہلے ہی یہود کا حلیف تھا لہذا وہ بھی فوراً تیار ہوگیا۔ بعد ازاں یہ وفد دوسرے اسلام دشمن قبائل میں گھوما پھرا حتیٰ کہ تمام اسلام دشمن عناصر کو مسلمانوں کے خلاف آمادہ جنگ کرلیا۔ چناچہ ذی قعدہ ٥ ھ میں ابو سفیان کی سر کردگی میں جنوبی اطراف سے قریش، کنانہ اور تہامہ میں آباد دوسرے حلیف قبائل کا چار ہزار افراد پر مشتمل لشکر مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ مرالظہران کے مقام پر بنوسلیم کے ذیلی قبائل جنہوں نے بیئرمعونہ کے قریب چوٹی کے ستر (٧٠) قاریوں کو دھوکے سے شہید کردیا تھا، ابو سفیان کے لشکر سے آکر مل گئے۔ مشرقی اطراف سے غطفانی قبائل فزارہ، حرہ اور اشجع بھی اس لشکر سے آملے۔ غرضیکہ مدینہ تک پہنچتے پہنچتے اس لشکر کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی۔ جبکہ مدینہ کی کل آبادی بھی دس ہزار سے کم تھی اس میں سے جنگجو افراد صرف تین ہزار تھے اور ان تین ہزار میں منافقین بھی شامل تھے۔ اگر مسلمانوں نے خندق کھود کر بروقت اپنا دفاع نہ کرلیا ہوتا تو فی الواقع یہ عظیم لشکر مسلمانوں کو ایک ہی حملہ میں نیست و نابود کرنے کے لئے کافی تھا۔- خ مجلس مشاورت اور خندق کی کھدائی :۔ دوسری طرف مسلمانوں کا محکمہ خبررسانی ( ) کفار کی نسبت بہت زیادہ فعال اور متحرک تھا۔ جب یہود بنو نضیر کا وفد قریش اور دوسرے قبائل کو آمادہ جنگ کر رہا تھا تو جلد ہی یہ خبریں مدینہ پہنچ گئیں اور آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ دفاع کے لئے کیا صورت اختیار کی جائے ؟ چناچہ سیدنا سلمان فارسی کے مشورہ کے مطابق مدینہ کے سامنے والی سمت میں خندق کھود کر دفاع کرنے کی تجویز پاس ہوئی۔ چناچہ خندق کی کھدائی کا کام شروع ہوگیا۔ خندق ١٥ فٹ گہری کھودی۔ ہر دس آدمیوں کو چالیس ہاتھ لمبی خندق کھودنے پر مامور کیا گیا اور تیس افراد نے مل کر یہ خندق بیس دن میں مکمل کی۔ معاشی لحاظ سے بھی مسلمانوں پر یہ وقت انتہائی تنگی کا دور تھا۔ مسلمان پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھود رہے تھے۔ اور سیدنا انس فرماتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار نے مدینہ کے گرد خندق کھودنا شروع کی تو مٹی اپنی پیٹھ پر ڈھو رہے تھے اور یہ شعر پڑھتے جاتے تھے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات پر بیعت کی کہ جب تک زندہ رہیں گے۔ اسلام کی خاطر زندہ رہیں گے اور آپ انھیں یہ جواب دے رہے تھے۔ یا اللہ بھلائی تو وہی ہے جو آخرت کی ہے۔ لہذا مہاجرین و انصار میں برکت عطا فرما - خوراک کی قلت :۔ سیدنا انس کہتے ہیں کہ اس وقت خوراک کی قلت کا یہ حال تھا کہ تھوڑے سے جو بدبودار چربی میں ملا کر پکاتے۔ لوگ بھوکے ہوتے وہ اسے بھی کھا جاتے۔ حالانکہ وہ بدمزا چربی حلق پکڑ لیتی اور اس سے خراب بو آتی تھی۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الخندق)- آپ کا اکیلے چٹان توڑنا اور جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم خندق کھود رہے تھے تو زمین میں ایک بڑا سخت قطعہ آگیا جو کدال سے کھد نہ سکا۔ لوگوں نے آپ کو اس صورت حال سے مطلع کیا۔ آپ نے فرمایا : میں خود اترتا ہوں۔ آپ کھڑے ہوئے بھوک کی وجہ سے آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا تھا اور ہم لوگ نے بھی تین دن سے کوئی کھانے کی چیز نہ چکھی تھی۔ آپ نے کدال اس قطعہ پر اس زور سے ماری کہ وہ ریزہ ریزہ ہوگیا۔ میں نے جب بھوک سے آپ کا یہ حال دیکھا تو مجھ سے برداشت نہ ہوسکا۔ سیدھا گھر اپنی بیوی (سہیلہ) کے پاس آیا اور کہا میں نے رسول اللہ کی یہ حالت دیکھی ہے۔ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے۔ وہ کہنے لگی ایک صاع جو اور ایک بکری کا بچہ ہے۔ میری بیوی نے جو پیسے اور میں نے بکری ذبح کرکے اس کا گوشت ہانڈی میں ڈالا اور رسول اللہ کو بلانے کے لئے روانہ ہوا تو بیوی کہنے لگی۔ رسول اللہ کے ساتھ تھوڑے ہی آدمی بلانا اور مجھے سب کے سامنے شرمندہ نہ کرنا - جابر بن عبداللہ (رض) کے ہاں دعوت اور آپ کا معجزہ :۔ میں نے آپ کے پاس حاضر ہو کر چپکے سے کہا کہ ہم نے ایک صاع جو کا آٹا پیسا ہے اور ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے۔ لہذا آپ چند آدمیوں کو ہمراہ لے کر ہمارے ہاں چلئے۔ یہ سن کر آپ نے بلند آواز سے پکارا، خندق والو جابر کے ہاں تمہاری دعوت ہے۔ چلو، جلدی کرو اور جابر (رض) سے فرمایا کہ : جب تک میں نہ آؤں۔ ہانڈی چولھے پر سے مت اتارنا اور نہ آٹے کی روٹیاں بنانا میں گھر واپس لوٹا ہی تھا، آپ کے ساتھ بہت سے لوگ موجود تھے۔ میری بیوی مجھے کہنے لگی اللہ تجھ سے سمجھے میاں نے کہا جیسا تو نے کہا تھا میں نے ویسا ہی آپ سے کہا تھا۔ پھر رسول اللہ نے آٹے میں اپنا لب ڈال دیا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ ہانڈی کی طرف گئے۔ اس میں بھی لب ڈالا۔ اور میری بیوی سے فرمایا : روٹی پکانے والی ایک اور بلا لے اور کفگیر سے ہانڈی میں سے گوشت نکالتی جا اور اس کو چولہے سے نہ اتارنا۔ سیدنا جابر (رض) کہتے ہیں کہ کھانے والے ایک ہزار آدمی تھے اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ سب نے کھانا خوب سیر ہو کھایا مگر ہانڈی کا وہی حال تھا۔ وہ گوشت سے بھری جوش مار رہی تھی اور آٹے میں سے بھی روٹیاں بن رہی تھیں۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الخندق)- خ بنو قریظہ کی عہد شکنی :۔ خندق تیار ہونے کے بعد ایک افتاد یہ پیش آئی کہ مدینہ کے اندر جو یہود کا قبیلہ بنو قریظہ، جو مسلمانوں کا معاہد اور اب تک اپنے عہد پر قائم تھا۔ حیی بن اخطب کی انگیخت اور جنگ کے بعد بھی تعاون کی یقین دہانی کی بنا پر عہد شکنی پر آمادہ ہوگیا۔ آپ نے اس خبر کی تحقیق کے لئے حذیفہ بن یمان کو بھیجا اور اسے یہ تاکید کردی کہ جو بھی صورت حال ہو کسی سے ذکر نہ کرنا اور صرف مجھے ہی آکر علیحدگی میں بتانا۔ قاصد نے صورتحال کی تحقیق کے بعد آپ کو بتایا کہ بنو قریظہ کی عہد شکنی والی بات درست ہے۔ اس خبر سے آپ کو انتہائی صدمہ ہوا۔ مسلمانوں کے لئے یہ وقت کڑی آزمائش کا وقت تھا۔ خندق پار دشمن کا سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا لشکر اور مدینہ کے اندر منافقین مار آستین بن گئے۔ خوراک کی شدید قلت الگ تھی۔ کفار کا یہ محاصرہ تقریباً ایک ماہ تک جاری رہا۔ ہر روز خندق کے آر پار دونوں طرف سے نیزہ باری اور تیراندازی ہوتی رہی مگر جنگ کسی فیصلہ کن مرحلہ پر نہ پہنچتی تھی۔ یہ اس قدر کڑی آزمائش تھی کہ بھلے بھلے صحابہ کرام کے قدم ڈگمگا گئے۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دو طرح سے مدد فرمائی۔ - خنعیم بن مسعود کی سیاسی چال اور اتحادی گروپ میں پھوٹ :۔ ایک صورت تو یہ بنی کہ بنوغطفان کا ایک رئیس نعیم بن مسعود، رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آیا۔ اور اس بات کا علم نہ قریش کو ہوسکا اور نہ یہود کو۔ دونوں اسے اپنا اتحادی دوست سمجھتے تھے۔ نعیم بن مسعود نے رسول اللہ سے پوچھا کہ میں ان حالات میں آپ کی اور اسلام کی کیا خدمت کرسکتا ہوں ؟ چناچہ آپ نے اس کے ذمہ قریش اور یہود میں پھوٹ ڈالنے کی ڈیوٹی لگائی۔ آدمی بڑا عقلمند تھا۔ اسے فورا ایک ترکیب سوجھ گئی وہ پہلے بنو قریظہ کے ہاں گیا اور کہنے لگا : دیکھو اگر جنگ میں اتحادیوں کو ناکامی ہوئی تو قریش تو اپنے گھروں کو چلے جائیں گے لیکن تم مسلمانوں کے اندر بیٹھے ہو۔ وہ تمہارا بھرکس نکال دیں گے۔ لہذا میرا مشورہ یہ ہے کہ تم قریش سے بطور یرغمال دس آدمیوں کا مطالبہ کرو تاکہ ایسی صورت میں وہ تمہارے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہوں۔ یہود کو یہ بات بہت پسند آئی۔ پھر وہ ابو سفیان کے پاس جاکر کہنے لگا : یہود تم سے بدظن ہوچکے ہیں۔ اور وہ تم سے بطور یرغمال دس آدمیوں کا مطالبہ کرنا چاہتے ہیں۔ جنہیں وہ کسی وقت بھی مسلمانوں کے حوالہ کرکے جنگ کا نقشہ بدل سکتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمانوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ لہذا تم ان کا مطالبہ ہرگز تسلیم نہ کرنا۔ ابو سفیان کے دل میں یہ بات کھب گئی۔ ابو سفیان نے دوسرے دن بنو قریظہ کو مشترکہ حملہ کے لئے پیغام بھیجا تو انہوں نے بطور یرغمال دس آدمیوں کا مطالبہ کردیا۔ اس طرح یہ دونوں فریق پھوٹ کا شکار ہوگئے۔- خ سخت ٹھنڈی ہوا کی آندھی :۔ مسلمانوں کی مدد کی دوسری صورت جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی اور جس کا آیت میں ذکر ہے، یہ تھی کہ ٹھنڈی یخ ہوا اتنی تیز چلی جس نے خیمے اکھاڑ دیئے۔ گھوڑوں کے رسے ٹوٹ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہنڈیاں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ آگ بجھ گئی، ہوا اتنی سخت ٹھنڈی تھی کہ بدن کو چھید کرتی اور آر پار ہوتی معلوم ہوتی تھی۔ غرض لشکر کفار میں سخت بدحواسی پھیل گئی اور بھگڈر مچ گئی۔- خ زبیر بن عوام دشمن کی خبر لانے کو تیار ہونا :۔ ان حالات میں رسول اللہ نے صحابہ کو مخاطب کرکے پوچھا کہ کون ہے جو جاکر دشمن کی خبر لائے ؟ مگر اتنی ٹھنڈی آندھی میں کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ آخر سیدنا زبیر بن عوام (رض) نے اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کیا۔ آپ نے دوبارہ یہی سوال کیا تو بھی سیدنا زبیر بن عوام (رض) ہی نے کہا، میں جاتا ہوں۔ آپ نے سہ بار یہی سوال کیا تو پھر سیدنا زبیر بن عوام (رض) نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ چناچہ آپ لشکر کفار کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ خود کہتے ہیں کہ اس وقت مجھے قطعاً کچھ سردی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ آپ نے واپس آکر وہی حالات بیان کئے جو لوگ سن رہے تھے۔ اس وقت آپ نے فرمایا : ہر پیغمبر کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ خندق وھی الاحزاب)- خ آپ کا فرمان کہ آئندہ کفار ہم پر حملہ نہ کرسکیں گے :۔ چناچہ ان حالات نے دشمن کو واپسی پر مجبور کردیا اور وہ افراتفری کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس وقت آپ نے فرمایا : آج کے دن کے بعد کفار ہم پر چڑھ کر نہیں آئیں گے بلکہ ہم ان پر چڑھائی کریں گے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ خندق) چناچہ آپ کا ارشاد حرف بحرف پورا ہوا۔- خ اللہ تعالیٰ کے غیر مرئی لشکر :۔ اس آیت میں ایک تو ہوا سے مدد کا ذکر ہے اور دوسرے ایسے لشکروں سے مدد کا ذکر ہے جو تمہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ اس سے مراد وہ باطنی اسباب ہیں جن کی بنا پر کفار بھاگ کھڑا ہونے پر مجبور ہوتے تھے۔ ممکن ہے اس سے مراد فرشتے ہوں جو ہواؤں پر مامور تھے۔ واللہ اعلم۔ بہرحال اس جنگ میں فرشتوں کا نزول احادیث صحیحہ سے صراحت سے ثابت نہیں۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ ۔۔ : سورت کے شروع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کے تقویٰ کا حکم دیا اور اس کا ہر حکم علی الاعلان سنا دینے اور کفار و منافقین کی پروا نہ کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور اس معاملے اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم دیا۔ اب اللہ تعالیٰ کے تقویٰ اور اس پر توکل کی صورت میں اس کے کافی ہوجانے کی دلیل کے طور پر جنگ احزاب میں مسلمانوں کو اپنی نصرت کی نعمت یاد دلائی، یہ جنگ مسلمانوں کو پیش آنے والی تمام جنگوں سے زیادہ خوف ناک تھی۔ اس میں بتایا ہے کہ جب اللہ کے فرماں بردار بندے صرف اللہ پر توکل کرتے ہیں تو وہ ایسے لشکروں کے ساتھ ان کی مدد کرتا ہے جو نظر بھی نہیں آتے۔ اس آیت میں ” يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا “ کے ساتھ مسلمانوں کو مخاطب فرمایا، معلوم ہوا کہ اس سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب بھی تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر اس لیے ہے کہ جب نبی اس حکم کی تعمیل کا پابند ہے تو امت تو بدرجۂ اولیٰ اس کی تعمیل کی پابند ہوگی۔ (بقاعی)- 3 ہمارے استاذ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں : ” یہ غزوۂ خندق کا ذکر ہے، جسے غزوۂ احزاب بھی کہا جاتا ہے، جو صحیح اور مشہور روایات کے مطابق شوال سن پانچ ہجری میں واقع ہوا۔ اس کی مختصر روداد یہ ہے کہ سن چار (٤) ہجری میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کے یہودی قبیلہ بنو نضیر کو مدینہ کی سرزمین سے جلا وطن کردیا تھا۔ اس کے کچھ اشراف (سرکردہ لوگ) مکہ گئے اور سرداران قریش سے ملاقات کر کے انھیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے رہے اور ان سے وعدہ کیا کہ اگر تم مدینہ پر حملہ کرو تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے اور ہر طریقے سے تمہاری مدد کریں گے۔ جب قریش نے آمادگی کا اظہار کیا تو وہ نجد کے قبائل غطفان اور ہذیل وغیرہ کی طرف گئے اور انھیں بھی مدینہ پر حملے کے لیے اکسایا اور ہر ممکن طریقے سے امداد کرنے کا وعدہ کیا، یہاں تک کہ وہ بھی آمادہ ہوگئے۔ چناچہ سن پانچ (٥) ہجری میں ایک طرف ابو سفیان کی سرکردگی میں قریش اور ان کے حلیف قبائل کا لشکر اور دوسری طرف غطفان، ہذیل اور ان کے حلیف قبائل کا لشکر عیینہ بن حصن کی سرکردگی میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے پہنچ گئے اور جنوب اور مشرق سے مدینہ کا محاصرہ کرلیا۔ شمال کی طرف سے بنو نضیر اور بنو قینقاع کے وہ یہودی آئے جو مدینہ سے جلا وطن ہونے کے بعد خیبر اور وادی القریٰ میں آباد ہوگئے تھے۔ مجموعی طور پر ان سب کی تعداد دس ہزار تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حالات کا اندازہ کرکے سلمان فارسی (رض) کے مشورے سے ان سمتوں میں خندق کھدوائی اور عام مسلمانوں کے ساتھ خود بھی زمین کھودنے اور مٹی اٹھانے کا کام کرتے رہے۔ پیچھے یعنی مغرب کی سمت میں قبیلہ بنو قریظہ کے یہودی آباد تھے، جو مسلمانوں کے حلیف تھے، اس لیے مسلمان ان کی طرف سے بےفکر تھے، بلکہ انھوں نے اپنے بال بچے ان گڑھیوں میں بھیج دیے تھے جو ان کی جانب تھیں۔ لیکن بنو نضیر کا سردار حیی بن اخطب ان کے پاس پہنچا اور انھیں حالات کی سازگاری کا واسطہ دے کر مسلمانوں سے بد عہدی پر آمادہ کرلیا۔ اس طرح گویا مدینہ منورہ ہر طرف سے مشرکوں اور یہودیوں کے نرغہ میں آگیا۔ ان آیات میں انھی نازک حالات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنا احسان و انعام بیان کیا ہے۔ “ (اشرف الحواشی) واضح رہے کہ قرآن مجید میں اس غزوہ کی تفصیل مؤرخین کے طریقے والی ترتیب پر نہیں، بلکہ نصیحت و عبرت کے اعتبار سے بیان ہوئی ہے، اس لیے واقع ہونے کے لحاظ سے کئی بعد والی باتیں پہلے بیان ہوئی ہیں اور کئی پہلے والی بعد میں۔- 3 غزوۂ احزاب میں کفار کی تعداد دس ہزار تھی، جب کہ مشہور قول کے مطابق مسلمان تین ہزار تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ نو سو تھے۔ ابن حزم نے ” جوامع السیرۃ “ میں فرمایا : ” یہی بات صحیح ہے بلاشک اور پہلی وہم ہے۔ “ اس وقت مسلمانوں کی حالت کا نقشہ پیش کرنے کے لیے چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔ انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خندق کی طرف نکلے تو مہاجرین و انصار سردی میں صبح صبح خندق کھود رہے تھے، ان کے پاس کوئی غلام نہ تھے، جو ان کے بجائے یہ کام سرانجام دیتے، تو جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی مشقت اور بھوک کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا - اَللّٰہُمَّ إِنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الْآخِرَہْ- فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَ الْمُہَاجِرَہْ- ” اے اللہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے، سو تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔ “ - صحابہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جواب میں کہا - نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا - عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِیْنَا أَبَدَا - ” ہم وہ ہیں جنھوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جہاد پر بیعت کی ہے، ہمیشہ کے لیے، جب تک ہمارے جسم میں جان باقی ہے۔ “- انس (رض) کہتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے جواب میں کہتے - اَللّٰہُمَّ إِنَّہُ لَا خَیْرَ إِلاَّ خَیْرُ الْآخِرَہْ- فَبَارِکْ فِي الْأَنْصَارِ وَ الْمُہَاجِرَہْ- ” اے اللہ خیر تو بس آخرت ہی کی خیر ہے، سو تو انصار و مہاجرین میں برکت فرما۔ “- انس (رض) نے فرمایا : ( یُؤْتَوْنَ بِمِلْءِ کَفَّيَّ مِنَ الشَّعِیْرِ فَیُصْنَعُ لَہُمْ بِإِہَالَۃٍ سَنِخَۃٍ تُوْضَعُ بَیْنَ یَدَيِ الْقَوْمِ ، وَالْقَوْمُ جِیَاعٌ، وَہِيَ بَشِعَۃٌ فِي الْحَلْقِ وَلَہَا رِیْحٌ مُنْتِنٌ ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : ٤٠٩٩، ٤١٠٠ ] ” صحابہ کرام کو دو ہتھیلیاں بھرنے کے برابر جو دیے جاتے، ان کے لیے اس سے بدلی ہوئی بو والی چربی کے ساتھ کھانا تیار کیا جاتا، جو لوگوں کے سامنے رکھا جاتا، وہ بھوکے ہوتے، یہ کھانا ان کے گلوں میں اٹکتا جس میں ناگوار بو ہوتی۔ “ جابر (رض) نے فرمایا : ( إِنَّا یَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفِرُ فَعَرَضَتْ کُدْیَۃٌ شَدِیْدَۃٌ، فَجَاءُوا النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقَالُوْا ہٰذِہِ کُدْیَۃٌ عَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ ، فَقَالَ أَنَا نَازِلٌ ثُمَّ قَامَ وَ بَطْنُہُ مَعْصُوْبٌ بِحَجَرٍ ، وَ لَبِثْنَا ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ لاَ نَذُوْقُ ذَوَاقًا، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ الْمِعْوَلَ فَضَرَبَ فِي الْکُدْیَۃِ ، فَعَادَ کَثِیْبًا أَہْیَلَ أَوْ أَہْیَمَ ، فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اءْذَنْ لِيْ إِلَی الْبَیْتِ فَقُلْتُ لاِمْرَأَتِيْ رَأَیْتُ بالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ شَیْءًا، مَا کَانَ فِيْ ذٰلِکَ صَبْرٌ، فَعِنْدَکِ شَيْءٌ ؟ قَالَتْ عِنْدِيْ شَعِیْرٌ وَعَنَاقٌ، فَذَبَحْتُ الْعَنَاقَ وَطَحَنَتِ الشَّعِیْرَ ، حَتّٰی جَعَلْنَا اللَّحْمَ فِي الْبُرْمَۃِ ، ثُمَّ جِءْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَالْعَجِیْنُ قَدِ انْکَسَرَ ، وَالْبُرْمَۃُ بَیْنَ الْأَثَافِيِّ قَدْ کَادَتْ أَنْ تَنْضَجَ فَقُلْتُ طُعَیِّمٌ لِيْ ، فَقُمْ أَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ رَجُلٌ أَوْ رَجُلاَنِ ، قَالَ کَمْ ہُوَ ؟ فَذَکَرْتُ لَہُ ، قَالَ کَثِیْرٌ طَیِّبٌ قَالَ قُلْ لَّہَا لاَ تَنْزِعِ الْبُرْمَۃَ وَ لاَ الْخُبْزَ مِنَ التَّنُّوْرِ حَتّٰی آتِيَ فَقَالَ قُوْمُوْا، فَقَامَ الْمُہَاجِرُوْنَ وَ الْأَنْصَارُ ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَی امْرَأَتِہِ قَالَ وَیْحَکِ ، جَاء النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ بالْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ وَمَنْ مَعَہُمْ ، قَالَتْ ہَلْ سَأَلَکَ ؟ قُلْتُ نَعَمْ ، فَقَالَ ادْخُلُوْا وَلاَ تَضَاغَطُوْا فَجَعَلَ یَکْسِرُ الْخُبْزَ وَ یَجْعَلُ عَلَیْہِ اللَّحْمَ ، وَیُخَمِّرُ الْبُرْمَۃَ وَالتَّنُّوْرَ إِذَا أَخَذَ مِنْہُ ، وَیُقَرِّبُ إِلٰی أَصْحَابِہِ ثُمَّ یَنْزِعُ ، فَلَمْ یَزَلْ یَکْسِرُ الْخُبْزَ وَ یَغْرِفُ حَتّٰی شَبِعُوْا وَ بَقِيَ بَقِیَّۃٌ قَالَ کُلِيْ ہٰذَا وَ أَہْدِيْ ، فَإِنَّ النَّاسَ أَصَابَتْہُمْ مَجَاعَۃٌ ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق و ھي الأحزاب : ٤١٠١ ] ” خندق کے دن ہم کھدائی کر رہے تھے، تو ایک سخت چٹان پیش آگئی۔ صحابہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور بتایا کہ یہ ایک سخت چٹان پیش آگئی ہے۔ آپ نے فرمایا : ” میں اترتا ہوں۔ “ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھے، آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا۔ ہمیں تین دن گزر چکے تھے کہ ہم نے کوئی چیز چکھی تک نہ تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کدال پکڑی، چٹان پر ماری تو وہ بھر بھرے تودے کی طرح ہوگئی۔ میں نے کہا : ” یا رسول اللہ مجھے گھر جانے کی اجازت دیں۔ “ گھر جا کر میں نے بیوی سے کہا : ” میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایسی حالت دیکھی ہے جس پر مجھ سے صبر نہیں ہوسکتا، تو تیرے پاس کچھ (کھانے کے لیے) ہے ؟ “ اس نے کہا : ” میرے پاس کچھ جو اور ایک بکری کی پٹھوری ہے۔ “ میں نے پٹھوری ذبح کی، اس نے جو پیسے اور ہم نے گوشت ہانڈی میں ڈال دیا۔ پھر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، اتنے میں آٹا پکنے کے لیے تیار ہوگیا تھا اور ہانڈی چولھے پر پکنے کے قریب تھی۔ میں نے جا کر کہا : ” تھوڑا سا کھانا ہے یا رسول اللہ آپ اور آپ کے ساتھ ایک یا دو آدمی چلیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کتنا ہے ؟ “ میں نے بتایا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بہت ہے اور عمدہ ہے، بیوی سے کہو کہ میرے آنے تک نہ ہانڈی اتارے اور نہ تنور سے روٹی نکالے۔ “ آپ نے صحابہ سے فرمایا : ” چلو۔ “ مہاجرین و انصار اٹھ کھڑے ہوئے۔ جابر (رض) بیوی کے پاس گئے اور اسے کہنے لگے : ” تجھ پر افسوس ہو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مہاجرین و انصار اور جو بھی ان کے ساتھ ہیں انھیں لے کر آ رہے ہیں۔ “ اس نے کہا : ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم سے پوچھا تھا ؟ “ میں نے کہا : ” ہاں “ خیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اندر آجاؤ اور بھیڑ نہ کرو۔ “ آپ روٹی توڑ توڑ کر اس پر گوشت ڈالتے رہے۔ ہانڈی اور تنور سے سالن اور روٹی نکالنے کے بعد اسے ڈھانک دیتے اور صحابہ کے سامنے رکھ دیتے، پھر دوبارہ اسی طرح کرتے، آپ روٹی اور سالن ڈالتے رہے، یہاں تک کہ سب سیر ہوگئے اور کھانا بچ بھی گیا تو جابر کی بیوی سے فرمایا : ” کھاؤ اور ہدیہ بھی دو ، لوگوں کو بھوک آپہنچی ہے۔ “ اس سے اگلی روایت میں جابر (رض) نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اُدْعُ خَابِزَۃً فَلْتَخْبِزْ مَعَکِ ) ” اپنے ساتھ روٹیاں پکانے والی ایک اور عورت بلا لو۔ “ اور جابر (رض) نے فرمایا : ” وہ ایک ہزار تھے اور اللہ کی قسم وہ کھا کر کھانا چھوڑ گئے، ہانڈی اسی طرح ابل رہی تھی اور آٹا پکایا جا رہا تھا۔ “ [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق و ھي الأحزاب : ٤١٠٢ ] اس حدیث سے ابن حزم کی بات کی تائید ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا لشکر تین ہزار نہیں بلکہ ایک ہزار کے قریب تھا۔- کفار کا خندق کو عبور کرنے کے لیے اتنا زبردست دباؤ تھا کہ مسلسل دفاع کی وجہ سے بعض اوقات آپ کی نماز بھی رہ جاتی اور آپ بعد میں ادا کرتے۔ جابر (رض) فرماتے ہیں : ” عمر (رض) خندق کے موقع پر سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے کہنے لگے : ” اللہ کی قسم یا رسول اللہ میں نماز کے قریب بھی نہیں جاسکا، حتیٰ کہ سورج ڈوبنے کے قریب پہنچ گیا۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَاللّٰہِ مَا صَلَّیْتُہَا ) ” اللہ کی قسم میں نے بھی (عصر) نہیں پڑھی۔ “ تو ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بطحان میں اترے، آپ نے اور ہم نے نماز کے لیے وضو کیا، تو آپ نے سورج غروب ہونے کے بعد عصر پڑھی، پھر مغرب پڑھی۔ “ [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : ٤١١٢ ] عبداللہ بن ابی اوفی (رض) فرماتے ہیں : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احزاب (اتحادی لشکروں) کے خلاف بد دعا کی اور عرض کیا : ( اَللّٰہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِہْزِمِ الْأَحْزَابَ ، اَللّٰہُمَّ اہْزِمْہُمْ وَ زَلْزِلْہُمْ ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : ٤١١٥ ] ” اے اللہ اے کتاب نازل کرنے والے بہت جلد حساب لینے والے ان لشکروں کو شکست دے۔ اے اللہ انھیں شکست دے اور انھیں سخت ہلا کر رکھ دے۔ “ اللہ تعالیٰ نے ” َّجُنُوْدًا “ کا لفظ ارشاد فرمایا، حالانکہ اس کا واحد ” جُنْدٌ“ (لشکر) بھی بڑی تعداد کے اظہار کے لیے کافی تھا، لیکن کیونکہ یہ مختلف گروہ تھے، قریش مکہ، بنو غطفان وغیرہ، اس لیے ” َّجُنُوْدًا “ کا لفظ استعمال فرمایا۔- فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا : الرحیق المختوم میں ہے : ” مشرکین نے مدینہ کا محاصرہ ایک ماہ یا ایک ماہ کے قریب جاری رکھا تھا۔ “ آزمائش کے یہ ایام بہت سخت تھے۔ اس دوران مسلمانوں کی حالت اس کے بعد والی آیات میں بیان ہوئی ہے۔ کفار اس ارادے سے آئے تھے کہ مسلمانوں کا نام و نشان مٹا کر دم لیں گے اور جاتے ہی مردوں کو قتل کرکے عورتوں اور بچوں کو باندھ کر ساتھ لے آئیں گے۔ دس ہزار کے مقابلے میں ایک ہزار کی حیثیت ہی کیا تھی، مگر اللہ کی توفیق سے خندق کی وجہ سے وہ نہ مدینہ میں داخل ہو سکے، نہ انھیں کوئی کامیابی حاصل ہوسکی۔ وہ تو ایک ہلّے میں فتح کا منصوبہ لے کر آئے تھے، لیکن یہاں انھیں محاصرے کے لیے ایک ماہ رکنا پڑا، جس کے لیے وہ تیار ہو کر نہیں آئے تھے، نہ ہی ان کے پاس اتنے دن رہنے کے لیے درکار خور و نوش کی اور دوسری اشیاء موجود تھیں، اس لیے وہ ہر لمحے زیادہ سے زیادہ قوت سے حملہ آور ہو رہے تھے۔ مسلمانوں نے اگرچہ اپنی حد تک مدافعت کی، مگر ان کی تعداد، ان کی تیاری اور تدابیر ہرگز ایسی نہ تھیں کہ ان لشکروں کا مقابلہ کرسکتیں، لیکن ان کی حالت زار دیکھ کر اور ان کی فریاد سن کر اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور غیب سے ان کی مدد فرمائی۔ یہ مدد دو چیزوں پر مشتمل تھی، ایک سخت آندھی اور دوسرے ایسے لشکر جو مسلمانوں کی نگاہ سے اوجھل تھے۔ ” ریحاً “ سے مراد وہ نہایت سرد اور سخت آندھی ہے جس سے کفار کے خیمے اکھڑ گئے، ان کے چولھوں کی آگ بجھ گئی، دیگیں الٹ گئیں، گھوڑے اور اونٹ رسیاں تڑوا کر بھاگ گئے اور ان پر ایسا شدید خوف طاری ہوا کہ وہ راتوں رات محاصرہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( نُصِرْتُ بالصَّبَا وَأُہْلِکَتْ عَادٌ بالدَّبُوْرِ ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق و ھي الأحزاب : ٤١٠٥ ] ” میری مدد صبا (مشرق سے آنے والی ہوا) کے ساتھ کی گئی اور عاد کو دبور (مغرب سے آنے والی ہوا) کے ساتھ ہلاک کیا گیا۔ “- وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا : ان لشکروں سے مراد فرشتوں کے لشکر ہیں، جنھوں نے کفار کے دلوں میں رعب ڈال کر ان کی ہمتیں توڑ دیں اور انھیں تتر بتر کردیا۔ بعض حضرات نے لکھ دیا کہ غزوۂ خندق میں فرشتوں کا اترنا صحیح احادیث سے صراحت کے ساتھ ثابت نہیں، مگر یہ بات درست نہیں۔ عائشہ (رض) سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں : ( لَمَّا رَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مِنَ الْخَنْدَقِ وَ وَضَعَ السِّلاَحَ وَاغْتَسَلَ ، أَتَاہُ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ فَقَالَ قَدْ وَضَعْتَ السِّلاَحَ وَاللّٰہِ مَا وَضَعْنَاہُ ، فَاخْرُجْ إِلَیْہِمْ قَالَ فَإِلٰی أَیْنَ ؟ قَالَ ہَاہُنَا، وَأَشَارَ إِلٰی بَنِيْ قُرَیْظَۃَ ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ إِلَیْہِمْ ) [ بخاري، المغازي، باب مرجع النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الأحزاب۔۔ : ٤١١٧ ] ” جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خندق سے واپس آئے، ہتھیار اتار دیے اور غسل کیا تو جبریل (علیہ السلام) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے : ” آپ نے ہتھیار اتار دیے، اللہ کی قسم ہم نے تو نہیں اتارے، سو آپ ان کی طرف نکلیے۔ “ آپ نے فرمایا : ” کس طرف ؟ “ انھوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : ” اس طرف۔ “ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرف نکل پڑے۔ “ انس (رض) فرماتے ہیں : ( کَأَنِّيْ أَنْظُرُ إِلَی الْغُبَارِ سَاطِعًا فِيْ زُقَاقِ بَنِيْ غَنْمٍ مَوْکِبِ جِبْرِیْلَ حِیْنَ سَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ إِلٰی بَنِيْ قُرَیْظَۃَ ) [ بخاري، المغازي، باب مرجع النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الأحزاب۔۔ : ٤١١٨ ]” گویا کہ میں وہ غبار چمکتا ہوا دیکھ رہا ہوں جو جبریل (علیہ السلام) کی سواری سے بنو غنم کی گلی میں اٹھ رہا تھا، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی قریظہ کی طرف گئے۔ “- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غزوات میں فرشتوں کے نزول اور اس کے جنود کی آمد کا ذکر قرآن میں کئی جگہ آیا ہے، جنگ حنین میں فرمایا : (ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا ) [ التوبۃ : ٢٦ ] ” پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہیں دیکھے۔ “ یہ ” جنود “ فرشتے تھے، اس کی وضاحت غزوۂ بدر کے بیان میں سورة انفال میں آئی ہے، فرمایا : (اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَةِ اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭسَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ) [ الأنفال : ١٢ ] ” جب تیرا رب فرشتوں کی طرف وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، پس تم ان لوگوں کو جمائے رکھو جو ایمان لائے ہیں، عنقریب میں ان لوگوں کے دلوں میں جنھوں نے کفر کیا، رعب ڈال دوں گا۔ پس ان کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے ہر ہر پور پر ضرب لگاؤ۔ “ سورة توبہ میں غار کے اندر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد نظر نہ آنے والے انھی لشکروں کے ساتھ کرنے کا ذکر فرمایا : (اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ وَاَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى ۭوَكَلِمَةُ اللّٰهِ ھِىَ الْعُلْيَا ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ) [ التوبۃ : ٤٠ ] ” اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کر، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے اپنی سکینت اس پر اتار دی اور اسے ان لشکروں کے ساتھ قوت دی جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کی بات نیچی کردی جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی بات ہی سب سے اونچی ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی کفار کے ساتھ مسلمانوں کی جنگوں میں بارہا فرشتوں کے نزول کا مشاہدہ ہوا ہے۔ ہمارے زمانے میں بھی ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں، شرط اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد اور اس پر استقامت ہے۔ مزید دیکھیے سورة انفال کی آیت (١٠) کی تفسیر۔- 3 یہ جنگ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی سب سے بڑی مہم تھی۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ وہ اس کے بعد اتنے لشکر کبھی جمع نہ کرسکے، نہ پھر انھیں مدینہ پر حملہ آور ہونے کی جرأت ہوسکی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی پیش گوئی پہلے ہی فرما دی۔ سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب وہ لشکر آپ کو چھوڑ کر چلے گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْآنَ نَغْزُوْہُمْ وَلاَ یَغْزُوْنَنَا، نَحْنُ نَسِیْرُ إِلَیْہِمْ ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : ٤١١٠ ] ” اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے، وہ ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے، ہم ان کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ “- 3 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی قسم کے فخر یا غرور کے بجائے ان لشکروں کی شکست کو ہمیشہ اپنے اکیلے رب کا کام قرار دیتے تھے۔ چناچہ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا کرتے تھے : ( لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ ، أَعَزَّ جُنْدَہُ ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَ غَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ ، فَلاَ شَيْءَ بَعْدَہُ ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : ٤١١٤ ] ” اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنے لشکر کو غلبہ عطا فرمایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلا تمام جماعتوں پر غالب آیا، سو اس کے بعد کوئی چیز نہیں۔ “- وَكَان اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا : یعنی تم دشمن کے مقابلے میں جو کچھ کر رہے تھے، خندق کھود رہے تھے، بھوک پیاس اور خوف کی سختیاں برداشت کر رہے تھے اور استقامت اختیار کیے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ سب کچھ خوب دیکھ رہا تھا، سو اس نے تمہاری حالت دیکھ کر غیب سے تمہاری مدد فرمائی۔
خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو اللہ کا انعام اپنے اوپر یاد کرو، جب تم پر بہت سے لشکر چڑھ آئے (یعنی عیینہ کا لشکر اور ابوسفیان کا لشکر اور یہود بنی قریظہ) پھر ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی (جس نے ان کو پریشان کردیا اور ان کے خیمے اکھاڑ پھینکے) اور (فرشتوں کی) ایسی فوج بھیجی جو تم کو (عام طور پر) دکھائی نہ دیتی تھی (گو بعض صحابہ مثلاً حضرت حذیفہ نے بعض ملائکہ کو بشکل انسان دیکھا بھی اور کفار کے لشکر میں یہ جاسوسی کے لئے گئے تھے وہاں یہ آواز بھی سنی کہ بھاگو بھاگو۔ اور اس واقعہ میں ملائکہ نے قتال نہیں کیا، صرف کفار کے دلوں میں رعب ڈالنے کے لئے بھیجے گئے تھے) اور اللہ تعالیٰ تمہارے (اس وقت کے) اعمال کو دیکھتے تھے (کہ تم نے ایک طویل و عریض اور گہری خندق کھودنے میں بڑی محنت اٹھائی، پھر کفار کے مقابلہ کے لئے بڑے استقلال کے ساتھ ثابت قدم رہے اور اس پر خوش ہو کر تمہاری امداد فرما رہے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا تھا) جبکہ وہ (دشمن) لوگ تم پر (ہر طرف سے نرغہ کر کے) آ چڑھے تھے اوپر کی طرف سے اور نیچے کی طرف سے بھی (یعنی کوئی قبیلہ مدینہ کے نشیب کی طرف سے اور کوئی قبیلہ اس کی بلندی کی طرف سے) اور جب کہ آنکھیں (مارے دہشت کے) کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم لوگ اللہ کے ساتھ طرح طرح کے گمان کر رہے تھے (جیسا مواقع شدت میں طبعی طور پر مختلف وسوسے آیا کرتے ہیں اور یہ غیر اختیاری ہونے کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں، اور نہ اس قول کے منافی ہے جو آگے اہل ایمان کا آئے گا، (آیت) ھذا ما وعدنا اللہ و رسولہ وصدق اللہ و رسولہ کیونکہ اس میں لفظ ہذا کا اشارہ احزاب کے چڑھ آنے کی طرف ہے، چونکہ اس کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دے دی گئی تھی، اس لئے یہ تو متیقن تھا لیکن انجام اس واقعہ کا نہیں بتلایا گیا تھا اس لئے اس میں احتمالات مختلفہ غالب آنے اور مغلوب ہونے کے پیدا ہوتے تھے) اس موقع پر مسلمانوں کا (پورا) پورا امتحان کیا گیا (جس میں وہ پورے اترے) اور (سخت) زلزلہ میں ڈالے گئے اور (یہ واقعہ اس وقت ہوا تھا) جب کہ منافقین اور وہ (وہ) لوگ جن کے دلوں میں (نفاق اور شک کا) مرض ہے یوں کہہ رہے تھے کہ ہم سے تو اللہ نے اور اس کے رسول نے محض دھوکہ ہی کا وعدہ کر رکھا ہے (جیسا معتب بن قثیر اور اس کے ہمراہیوں نے یہ قول اس وقت کہا تھا کہ خندق کھودتے وقت کدال لگنے سے کئی بار آگ کا شرارہ نکلا، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر بار ارشاد فرمایا کہ مجھ کو فارس اور روم اور شام کے محل اس کی روشنی میں نظر آئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی فتح کا وعدہ فرمایا ہے۔ جب احزاب کے اجتماع کے وقت پریشانی ہوئی تو یہ لوگ کہنے لگے کہ یہ تو حالت ہے اور اس پر فتح روم وفارس کی بشارتیں سنا رہے ہیں، یہ محض دھوکہ ہے اور گو وہ اس کو اللہ کا وعدہ نہ سمجھتے تھے نہ آپ کو رسول جانتے تھے، پھر یہ کہنا (آیت) ماوعدنا اللہ و رسولہ، یا تو صرف حکایت کے درجہ میں ہے اور یا بطور فرض و استہزاء ہے) اور (یہ واقعہ اس وقت کا تھا) جبکہ ان (منافقین) میں سے بعض لوگوں نے (دوسرے حاضرین معرکہ) سے کہا کہ یثرب (یعنی مدینہ) کے لوگو (یہاں) ٹھہرنے کا موقع نہیں (کیونکہ یہاں رہنا موت کے منہ میں جانا ہے) سو (اپنے گھروں کو) لوٹ چلو (یہ قول اوس بن قیطی نے کہا تھا اور بھی کچھ لوگ اس میں شریک تھے) اور بعضے لوگ ان (منافقوں میں) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (اپنے گھر واپس جانے کی) اجازت مانگتے تھے کہتے تھے کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں (یعنی صرف عورتیں بچے رہ گئے ہیں، دیواریں قابل اطمینان نہیں کبھی چور نہ آ گھسیں، یہ قول ابوعرابہ اور دوسرے بعض بنی حارثہ کا تھا) حالانکہ وہ (ان کے خیال میں) غیر محفوظ نہیں ہیں (یعنی ان کو اندیشہ چوری وغیرہ کا ہرگز نہیں اور نہ واپس جانے سے یہ نیت ہے کہ ان کا انتظام قابل اطمینان کر کے چلے آویں گے) یہ محض بھاگنا ہی چاہتے ہیں، اور (ان کی یہ حالت ہے کہ) اگر مدینہ میں اس کے (سب) اطراف سے ان پر (جب یہ اپنے گھروں میں ہوں) کوئی (لشکر کفار کا) آ گھسے پھر ان سے فساد (یعنی مسلمانوں سے لڑنے) کی درخواست کی جاوے تو یہ (فوراً ) اس (فساد) کو منظور کرلیں اور ان گھروں میں بہت ہی کم ٹھہریں (یعنی اتنا توقف ہو کہ کوئی ان سے درخواست کرے اور یہ منظور کریں اور اس کے بعد وہ فوراً ہی تیار ہوجائیں اور مسلمانوں کے مقابلہ میں جا پہنچیں اور کچھ بھی گھروں کا خیال نہ کریں کہ ہم تو دوسروں کو لوٹ مار کرتے جاتے ہیں، کبھی کوئی ہمارے گھر کو لوٹ لے تو اگر ان کا قصد واقعی حفاظت کا ہے تو اب گھروں میں کیوں نہیں رہے، اس سے صاف معلوم ہوا کہ اصل میں ان کو مسلمانوں سے عداوت اور کفار سے محبت ہے، اس لئے تکثیر سواد سے بھی مسلمانوں کی نصرت پسند نہیں کرتے۔ باقی گھروں کا تو بہانہ ہے) حالانکہ یہ لوگ (اس سے) پہلے خدا سے عہد کرچکے تھے کہ (دشمن کے مقابلہ میں) پیٹھ نہ پھیریں گے (یہ عہد اس وقت کیا تھا جبکہ بدر میں بعض شرکت سے رہ گئے تھے تو بعض منافقین بھی مفت کرم داشتن کے طور پر کہنے لگے کہ افسوس ہم شریک نہ ہوئے، ایسا کرتے ویسا کرتے، جب وقت آیا ساری قلعی کھل گئی) اور اللہ سے جو (اس قسم) کا عہد کیا جاتا ہے اس کی باز پرس ہوگی، آپ (ان سے) فرما دیجئے کہ (تم جو بھاگے بھاگے پھرتے ہو کماقال تعالیٰ (آیت) ان یریدون الافر ارا تو) تم کو بھاگنا کچھ نافع نہیں ہوسکتا اگر تم موت سے یا قتل سے بھاگتے ہو اور اس (بھاگنے کی) حالت میں بجز تھوڑے دنوں کے (کہ وہ بقیہ عمر مقدر ہے) اور زیادہ (حیات سے) متمتع نہیں ہو سکتے (یعنی بھاگ کر عمر نہیں بڑھ سکتی، کیونکہ اس کا وقت مقدر ہے، اور جب مقدر ہے تو اگر نہ بھاگتے تو بھی وقت سے پہلے مر نہیں سکتے۔ پس نہ قرار بالقاف سے کوئی ضرر اور نہ فرار بالفاء سے کوئی نفع، پھر بھاگنا محض بےعقلی اور اس مسئلہ قدر کی تحقیق کے لئے ان سے) یہ بھی فرما دیجئے کہ وہ کون ہے جو تم کو خدا سے بچا سکے اگر وہ تمہارے ساتھ برائی کرنا چاہے (مثلاً تم کو ہلاک کرنا چاہے تو کیا تم کو کوئی بچا سکتا ہے جیسا تم فرار کو نافع خیال کرتے ہو) یا وہ کون ہے جو خدا کے فضل کو تم سے روک سکے اگر وہ تم پر فضل کرنا چاہے (مثلاً وہ زندہ رکھنا چاہے جو کہ رحمت دنیویہ ہے تو کوئی اس کا مانع ہوسکتا ہے ؟ جیسا تمہارا خیال ہے کہ ثبات فی المعرکہ کو قاطع حیات سمجھتے ہو) اور (وہ لوگ سن رکھیں کہ) خدا کے سوا نہ کوئی اپنا حمایتی پائیں گے (جو نفع پہنچائے) اور نہ کوئی مددگار (جو ضرر سے بچائے اب مسئلہ تقدیر کے بعد پھر تشنیع منافقین کا سلسلہ ہے، یعنی) اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو (دوسروں کو لڑائی میں جانے سے) مانع ہوتے ہیں اور جو اپنی (نسبی یا وطنی) بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس آجاؤ (وہاں اپنی جان کیوں دیتے ہو، یہ بات ایک شخص نے اپنے حقیقی بھائی سے کہی تھی۔ اور اس وقت یہ کہنے والا گوشت بریاں اور روٹی کھا رہا تھا۔ مسلمان بھائی نے کہا افسوس تو اس چین میں ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی تکلیف میں، وہ بولا میاں تم بھی یہاں ہی چلے آؤ) اور (ان کی بزدلی اور حرص و بخل کی یہ کیفیت ہے کہ) لڑائی میں بہت ہی کم آتے ہیں (جس میں ذرا نام ہوجائے یہ تو ان کی بزدلی ہے اور آتے بھی ہیں تو) تمہارے حق میں بخیلی لئے ہوئے (یعنی آنے میں بڑی نیت یہ ہوتی ہے کہ سب غنیمت مسلمانوں کو نہ مل جائے برائے نام شریک ہونے سے استحقاق غنیمت کا دعویٰ تو کسی درجہ میں کرسکیں گے) سو (جب ان کا جبن اور بخل دونوں امر ثابت ہوگئے ہیں تو اس مجموعہ کا اثر یہ ہے کہ) جب (کوئی) خوف (کا موقع) پیش آتا ہے تو ان کو دیکھتے ہو کہ وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھنے لگتے ہیں کہ ان کی آنکھیں چکرائی جاتی ہیں جیسے کسی پر موت کی بےہوشی طاری ہو (یہ تو بزدلی کا اثر ہوا) پھر جب وہ خوف دور ہوجاتا ہے تو تم کو تیز تیز زبانوں سے طعنے دیتے ہیں مال (غنیمت) پر حرص لئے ہوئے، (یعنی مال غنیمت لینے کے لئے دل خراش باتیں کرتے ہیں کہ کیوں ہم شریک نہ تھے، ہماری ہی مدد سے تم کو یہ فتح میسر نہیں ہوئی، یہ اثر بخل اور حرص کا ہے۔ یہ معاملہ ان کا تم سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا معاملہ یہ ہے کہ) یہ لوگ (پہلے ہی سے) ایمان نہیں لائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام اعمال (نیک پہلے ہی سے) بےکار کر رکھے ہیں (آخرت میں کچھ ثواب نہ ملے گا) اور یہ بات اللہ کے نزدیک بالکل آسان ہے (کوئی اس سے مزاحمت نہیں کرسکتا کہ ہم ان اعمال کا صلہ دیں گے اور یہ حالت تو ان کی اجتماع احزاب کے وقت تھی مگر ان کا جُبُن یہاں تک بڑھا ہوا ہے کہ احزاب کے چلے جانے کے بعد بھی) ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ (ابھی تک) یہ لشکر گئے نہیں اور غایت بزدلی سے ان کی یہ حالت ہے کہ) اگر (بالفرض) یہ (گئے ہوئے) لشکر (پھر لوٹ کر) آجائیں تو (پھر تو) یہ لوگ (اپنے لئے) بھی پسند کریں کہ کاش ہم (کہیں) دیہاتوں میں باہر جا رہیں کہ (وہاں ہی بیٹھے بیٹھے آنے جانے والوں سے) تمہاری خبریں پوچھتے رہیں (اور وہ جگر دوز معرکہ اپنی آنکھ سے نہ دیکھیں) اور اگر (اتفاق سے کل یا بعض دیہات میں نہ جاسکیں) بلکہ تم ہی میں رہیں تب بھی (اس وقت کی لے دے سن کر بھی کبھی غیرت نہ آوے اور محض نام کرنے کو) کچھ یوں ہی سا لڑیں (آگے ثبات فی الحرب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقتداء و اتباع کا مقتضائے ایمان ہونا بیان فرماتے ہیں تاکہ منافقین کو عار دلائی جائے کہ باوجود دعویٰ ایمان اس کے مقتضاء سے تخلف کیا، اور مخلصین کو بشارت ملے کہ یہ لوگ البتہ مصداق (کان یر جو اللہ الخ کے ہیں پس ارشاد فرماتے ہیں کہ) تم لوگوں کے لئے یعنی ایسے شخص کے لئے جو اللہ سے اور روز آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکر الٰہی کرتا ہو (یعنی مومن کامل ہو اس کے لئے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا (کہ جب آپ ہی شریک رہے تو آپ سے زیادہ کون پیارا ہے کہ وہ اقتداء نہ کرے اور اپنی جان بچائے پھرے) اور (آگے منافقین کے مقابلہ میں مومنین مخلصین کا ذکر ہے) جب ایمان داروں نے ان لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ وہی (موقع) ہے جس کی ہم کو اللہ، رسول نے خبر دی تھی (چنانچہ اس آیت بقرہ میں اس کا اشارہ قریب بصراحت موجود ہے، (آیت) ام حسبتم ان تدخلوا الجنة (الی قولہ) وزلزلوا کیونکہ سورة بقرہ نزول میں سورة احزاب سے مقدم ہے، کذا فی الاتقان) اور اللہ، رسول نے سچ فرمایا تھا اور اس (احزاب کے دیکھنے) سے (جو کہ مصدق پیشن گوئی ہے) ان کے ایمان اور اطاعت میں ترقی ہوگئی (یہ وصف تو سب مومنین میں مشترک ہے اور بعض اوصاف بعض مومنین میں خاص بھی ہیں جس کا بیان یہ ہے کہ) ان مومنین میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے جس بات کا اللہ سے عہد کیا تھا اس میں سچے اترے (اس تقسیم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بعضے مسلمانوں نے عہد کیا اور سچے نہیں اترے بلکہ یہ تقسیم اس بنا پر ہے کہ بعض نے عہد ہی نہیں کیا تھا اور بلاعہد ہی ثابت قدم رہے۔ ان معاہدین کے ذکر کی تصریح بمقابلہ آیت بالا کے ہے جو منافقین کے حق میں ہے، ولقد کانوا عاھدوا اللہ الخ اور مراد ان معاہدین سے حضرت انس بن النضر اور ان کے رفقاء ہیں۔ یہ حضرات اتفاق سے غزوہ بدر میں شریک نہیں ہونے پائے تھے تو ان کو افسوس ہوا اور عہد کیا کہ اگر اب کے کوئی جہاد ہو تو اس میں ہماری جان توڑ کوشش دیکھ لی جائے گی۔ مطلب یہ تھا کہ منہ نہ موڑیں گے گو مارے جاویں) پھر ان (معاہدین) میں (دو قسمیں ہوگئیں) بعضے تو ان میں وہ ہیں جو اپنی نذر پوری کرچکے، (مراد وہ عہد ہے جو مثل نذر کے واجب الایقاع ہے۔ مطلب یہ کہ شہید ہوچکے اور اخیر دم تک منہ نہیں موڑا۔ چناچہ حضرت انس بن نضر احد میں شہید ہوگئے تھے، اسی طرح حضرت مصعب) اور بعضے ان میں (اس کے ایفاء کے آخری اثر یعنی شہادت کے) مشتاق ہیں (ابھی شہید نہیں ہوئے) اور (اب تک) انہوں نے (اس میں) ذرا تغیر تبدل نہیں کیا (یعنی اپنے عزم پر قائم ہیں، پس مجموعہ قوم کا دو قسم پر ہے، ایک منافق جن کا اوپر بیان ہوا، دوسرے مومنین۔ پھر مومنین کی دو قسم ہیں، معاہد اور غیر معاہد، اور ثبات میں دونوں مشترک ہیں۔ لقولہ تعالیٰ (آیت) لما را المومنون الخ۔ پھر معاہدہ دو قسم پر ہیں شہید اور منتظر شہادت، کل چار قسمیں ان آیات میں مذکور ہیں۔ آگے اس غزوہ کی ایک حکمت بیان فرماتے ہیں کہ) یہ واقعہ اس لئے ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ سچے مسلمانوں کو ان کے سچ کا صلہ دے اور منافقوں کو چاہے سزا دے یا چاہے ان کو (نفاق سے) توبہ کی توفیق دے (کیونکہ ایسے مصائب اور حوادث میں مخلص اور متصنع متمیز ہوجاتا ہے اور احیاناً ملامت سے بعض متصنعین بھی متاثر ہو کر مخلص ہوجاتے ہیں اور بعضے بحالہ بھی رہتے ہیں) بیشک اللہ غفور رحیم ہے (اس لئے توبہ کا قبول ہوجانا مستبعد نہیں، اس میں ترغیب ہے توبہ کی) اور (یہاں تک اس مجمع اسلام کے اقسام مختلفہ کے حالات تھے، آگے کفار مخالفین کی حالت کا ذکر ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے کافروں کو (یعنی مشرکین کو) ان کے غصہ میں بھرا ہوا (مدینہ سے) ہٹا دیا کہ ان کی کچھ بھی مراد پوری نہ ہوئی (اور ان کا غصہ بھرا ہوا تھا) اور جنگ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لئے آپ ہی کافی ہوگیا (یعنی کفار کو قتال متعارف کی نوبت ہی نہ آئی کہ پہلے ہی دفع ہوگئے اور خفیف سی لڑائی متفرق طور پر منفی نہیں ہے) اور (اس طرح کافروں کا ہٹا دینا کچھ عجیب نہ سمجھو، کیونکہ) اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا زبردست ہے (اس کو کچھ دیوار نہیں۔ یہ تو مشرکین کا حال ہوا) اور (دوسرا گروہ مخالفین میں یہود بنی قریظہ کا تھا آگے ان کا ذکر ہے) جن اہل کتاب نے ان (مشرکین) کی مدد کی تھی ان کو اللہ تعالیٰ نے) ان کے قلعوں سے (جن میں وہ محصور تھے) نیچے اتار دیا اور ان کے دلوں میں تمہارا رعب بٹھلا دیا (جس سے وہ اتر آئے اور پھر) بعض کو تم قتل کرنے لگے اور بعض کو قید کرلیا اور ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مالوں کا تم کو مالک بنادیا، اور ایسی زمین کا بھی (تم کو اپنے علم ازلی میں مالک بنا رکھا ہے) جس پر تم نے (ابھی) قدم (تک) نہیں رکھا (اس میں بشارت ہے فتوحات مستقبلہ کی عموماً یا فتح خیبر کی خصوصاً جو اس سے کچھ بعید ہوا) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے (اس لئے یہ امور کچھ بعید نہیں ہیں)
رکوع نمبر 18- يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَاۗءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْہِمْ رِيْحًا وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْہَا ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا ٩ ۚ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔- الرِّيحُ معروف،- وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] . وأمّا قوله :- يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ.- وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ :- تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ :- مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء .- ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من - المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح .- الریح کے معنی معروف ہیں - ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير - سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔- المراوحتہ - کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے
اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کا انعام و احسان اپنے اوپر یاد کرو کہ تم سے دشمن کو سخت آندھی اور فرشتوں کی مدد سے بھگا دیا جب تم پر کفار کے بہت سے لشکروں نے چڑھائی کردی تھی پھر ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی اور فرشتوں کی جماعت کو مسلط کیا اور اللہ تعالیٰ تمہاری خندق کھودنے کو دیکھ رہے تھے۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا (الخ)- امام بیہقی نے دلائل میں حضرت حذیفہ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہم نے غزوہ احزاب کی رات کا منظر دیکھا ہے۔- ہم سب صف بنائے ہوئے بیٹھے تھے۔ ابو سفیان اور اس کے ساتھ جو لشکر تھا وہ اوپر کی طرف تھے اور بنو قریظہ نیچے کی طرف۔ ان کی وجہ سے ہمیں اپنے بچوں کا خوف تھا اور اس رات سے زیادہ سخت تاریک اور سخت آندھی والی رات ہم پر کبھی نہیں آئی۔ چناچہ منافقین رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہہ کر اجازت طلب کرنے لگے کہ ہمارے گھر خالی ہیں اور حقیقت میں وہ خالی نہ تھے مگر ان منافقین میں سے جو بھی آپ سے جانے کی اجازت طلب کرتا تھا آپ اس کو اجازت دے دیتے تھے چناچہ یہ سب کے سب میدان جنگ سے نکل گئے۔- جب ہم باری باری رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے تو آپ نے مجھ سے فرمایا دشمن کی قوم کی خبر لاؤ۔ چناچہ میں آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سخت ترین آندھی ان کے لشکر میں موجود ہے اور ان کا لشکر تھوڑا سا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹا۔- اللہ کی قسم میں پتھروں کی آواز ان کے کچاو وں میں سے سن رہا تھا اور ہوا اس کے ذریعے ان کو مار رہی تھی اور وہ ایک دوسرے سے جلدی بھاگنے کو کہہ رہے تھے۔ چناچہ میں نے آکر اس قوم کی حالت بیان کردی اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی اے ایمان والو اللہ کا انعام اپنے اوپر یاد کرو۔- اور ابن ابی حاتم اور بیہقی نے دلائل میں بواسطہ کثیر بن عبداللہ، عبداللہ بن عمرو، عمرو مزنی سے روایت نقل کی ہے۔- فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خندق کے سال خندق کھودنا شروع فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے خندق کے درمیان سے ایک سفید گول پتھر نکالا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھدال لے کر اس پر ایسی ماری کہ وہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور اس میں سے ایسی روشنی نکلی جس سے مدینہ منورہ کے دونوں کنارے روشن ہوگئے آپ سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے پہلی مرتبہ جو اس پتھر کے مارا تو میرے سامنے حیرہ کے محلات اور مدائن کسری روشن ہوگئے اور مجھے جبریل امین نے بتلایا کہ میری امت ان مقامات پر غلبہ پائے گی اور پھر میں نے دوسری مرتبہ جو مارا تو میرے سامنے سرزمین روم میں حمر کے محلات روشن ہوگئے اور مجھے جبریل امین نے اطلاع دی کہ میری امت ان مقامات پر بھی غلبہ پائے گی اور پھر میں نے تیسری مرتبہ مارا تو صنعاء کے محلات نظر آئے اور جبریل امین نے مجھے بتایا کہ آپ کی امت ان مقامات کو بھی فتح کرے گی۔- اس پر منافقین کہنے لگے کہ کیا تم لوگوں کو تعجب نہیں ہوتا کہ یہ تم سے باتیں کرتے ہیں اور تمہیں امیدیں دلاتے اور تم سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور یہ تم سے کہتے ہیں کہ یہ مدینہ سے حیرہ کے محلات اور مدائن کسری دیکھ رہے ہیں اور یہ کہ تم ان شہروں کو فتح کرو گے۔ حالانکہ اس وقت کھدالوں سے تم خندق کھود رہے ہو مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی : واذ یقول المنافقون والذین فی قلوبھم مرض الخ۔ یعنی جبکہ منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے یوں کہہ رہے تھے۔- اور جبیر بن ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت معتب بن قشیر انصاری کے بارے میں نازل ہوئی جو اس بات کا کہنے والا تھا۔- اور ابن اسحاق اور بیہقی نے بھی عروہ بھی زبیر اور محمد بن کعب قرضی سے روایت نقل کی ہے کہ معتب بن قشیر کہنے لگا کہ محمد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ قیصر و کسری کے خزانے دکھا رہے ہیں اور ہم میں سے کوئی اطمینان کے ساتھ بیت الخلاء تک بھی نہیں جاسکتا اور اوس بن قیظی نے اپنی ایک جماعت کے ساتھ کہا کہ ہمارے گھر مدینہ منورہ سے بارہ ہیں۔ سو ہمیں اپنی عورتوں اور بچوں میں جانے کی اجازت دیجیے۔- اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اکرم کی زبانی جبکہ ان لوگوں کی وجہ سے گھبراہٹ تھی اور شدت کا عالم تھا اپنی نعمتوں کو یاد دلانے اور ان لوگوں کو کافی م ہیں ے کے بارے میں جبکہ ان منافقین کی طرف سے بدگمانی ہورہی تھی اور یہ منافقین باتیں ملا رہے تھے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
اب دوسرے اور تیسرے رکوع میں غزوئہ احزاب کا ذکر ہے۔ یہ غزوہ ٥ ہجری میں ہوا اور اس کی منصوبہ بندی میں کلیدی کردار مدینہ سے نکالے گئے یہودی قبیلہ بنو نضیر کے سرداروں نے ادا کیا۔ بنو نضیر کو عہد شکنی کی سزا کے طور پر ٤ ہجری میں مدینہ سے نکال دیا گیا تھا۔ مدینہ سے نکلنے کے بعد وہ لوگ خیبر میں جا کر آباد ہوگئے تھے۔ وہ نہ صرف مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ اگر مسلمانوں کا قلع قمع ہوجائے تو انہیں دوبارہ مدینہ میں آباد ہونے کا موقع مل جائے گا۔ چناچہ انہوں نے بڑی تگ ودو سے عرب کی تمام مسلم مخالف قوتوں کو متحد کر کے مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ اس کے لیے انہوں نے ابو عامر راہب (جس کا تذکرہ اس سے پہلے سورة التوبہ کے مطالعے کے دوران مسجد ضرار کے حوالے سے آیت ١٠٧ کی تشریح کے ضمن میں ہوچکا ہے) کی مدد سے قریش ِمکہ ‘ نجد کے بنو غطفان اور عرب کے دیگر چھوٹے بڑے قبائل سے رابطہ کیا۔ اپنی اس مہم کے نتیجے میں وہ لگ بھگ بارہ ہزار جنگجوئوں پر مشتمل ایک بہت بڑا لشکر تیار کرنے اور اس کو مدینہ پر چڑھا لانے میں کامیاب ہوگئے۔ عربوں کے مخصوص قبائلی نظام کی تاریخ کو مد نظر رکھا جائے تو اس زمانے میں اتنے بڑے پیمانے پر لشکر کشی ایک انہونی سی بات تھی۔ - دوسری طرف مدینہ میں مسلمانوں کی تعداد مشکل سے تین ہزار تھی اور اس میں بھی منافقین کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ اس کے علاوہ ایک بہت طاقتور یہودی قبیلے بنو قریظہ کی مدینہ میں موجودگی بھی ایک بہت بڑے خطرے کی علامت تھی۔ مدینہ میں ان لوگوں نے مضبوط گڑھیاں بنا رکھی تھیں۔ اس سے پہلے مدینہ کے دو یہودی قبائل بنو قینقاع اور بنو نضیر میثاقِ مدینہ کی خلاف ورزی کرکے مسلمانوں سے غداری کرچکے تھے۔ اس پس منظر میں اس طاقتور یہودی قبیلے کی طرف سے بھی نہ صرف غداری کا اندیشہ تھا ‘ بلکہ حملہ آور قبائل کے ساتھ ان کے خفیہ گٹھ جوڑ کے بارے میں ٹھوس اطلاعات بھی آچکی تھیں۔ ان حالات میں مٹھی بھر مسلمانوں کے لیے اتنے بڑے لشکر سے مقابلہ کرنا بظاہر ممکن نہیں تھا۔ - اس صورت حال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب صحابہ (رض) سے مشورہ کیا تو حضرت سلمان فارسی (رض) کی طرف سے خندق کھودنے کی تجویز سامنے آئی۔ حضرت سلمان (رض) کا تعلق ایران سے تھا۔ آپ (رض) نے ایران میں رائج اس مخصوص طرز دفاع کے بارے میں اپنی ذاتی معلومات کی روشنی میں یہ مشورہ دیا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پسند فرمایا۔ محل وقوع کے اعتبار سے مدینہ کی آبادی تین اطراف سے قدرتی طور پر محفوظ تھی۔ مشرق اور مغرب میں حرات (لاوے کی چٹانوں) پر مشتمل علاقہ تھا۔ اس علاقے میں اونٹوں اور گھوڑوں کی نقل و حرکت نہ ہوسکنے کی وجہ سے ان دونوں اطراف سے کسی بڑے حملے کا خطرہ نہیں تھا۔ عقب میں جنوب کی طرف بنو قریظہ کی گڑھیاں تھیں اور چونکہ ان کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا باقاعدہ معاہدہ تھا اور ابھی تک ان کی طرف سے کسی بد عہدی کا اظہار نہیں ہوا تھا اس لیے بظاہر یہ سمت بھی محفوظ تھی۔ اس طرح مدینہ کی صرف شمال مغربی سمت میں ہی ایسا علاقہ تھا جہاں سے اجتماعی فوج کشی کا خطرہ باقی رہ جاتا تھا۔ اس لیے اس علاقہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق کھودنے کا فیصلہ فرمایا۔ خندق کا مقصد اس سمت سے کسی بڑے حملے ‘ خصوصاً گھڑ سوار دستوں کی یلغار کو ناممکن بنانا تھا۔ اگر یکبارگی کسی بڑے حملے کا امکان نہ رہتا تو انفرادی طور پر خندق پار کرنے والے جنگجوئوں کے ساتھ آسانی سے نپٹا جاسکتا تھا۔ - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے خندق کی کھدائی کا کام شروع ہوگیا اور چھ دن کے اندر اندر یہ خندق تیار ہوگئی۔ لیکن خندق تو محض ایک مسئلے کا حل تھا ‘ جبکہ حالات تھے کہ انسانی تصور سے بھی بڑھ کر گھمبیر تھے۔ جزیرہ نمائے عرب کی تاریخ کے سب سے بڑے لشکر سے مقابلہ ‘ منافقین کی مدینہ کے اندر آستین کے سانپوں کی حیثیت سے موجودگی ‘ شدید سردی کا موسم ‘ قحط کا زمانہ ‘ رسد کی شدید کمی اور یہودی قبیلہ بنو قریظہ کی طرف سے بد عہدی کا خدشہ غرض خطرات و مسائل کا ایک سمندر تھا جس کی خوفناک لہریں پے درپے مسلمانوں پر اپنے تھپیڑوں کی یلغار کیے بڑھتی ہی چلی جا رہی تھیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے صبر اور امتحان کے لیے ایک بہت ہی سخت اور خوفناک صورت پیدا کردی تھی۔- اسی دوران حضرت ُ نعیم بن مسعود (رض) جن کا تعلق بنوغطفان کی شاخ اشجع قبیلے سے تھا ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے مدینہ آئے اور عرض کیا کہ میں اسلام قبول کرچکا ہوں مگر اس بارے میں ابھی تک کسی کو علم نہیں۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اجازت دیں تو میں بڑی آسانی سے حملہ آور قبائل اور بنو قریظہ کے مابین بد اعتمادی پیدا کرسکتا ہوں۔ واضح رہے کہ بنوقریظہ اور حملہ آور قبائل کے مابین سلسلہ جنبانی کا آغاز ہوچکا تھا۔ بنونضیر کا یہودی سردار حُیّ بن اخطب بنوقریظہ کے پاس پہنچا تھا اور انہیں مسلمانوں کے ساتھ بدعہدی پر آمادہ کرچکا تھا۔ اس طرح بنوقریظہ عہدشکنی کے مرتکب ہوچکے تھے۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت سے حضرت نعیم بن مسعود (رض) بنوقریظہ کے پاس گئے اور انہیں سمجھایا کہ دیکھو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے۔ اگر تم ان سے عہد شکنی کر کے حملہ آور قبائل کا ساتھ دو گے تو عین ممکن ہے کہ تم اپنی توقعات کے مطابق مسلمانوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائو۔ لیکن یہ بھی تو سوچو کہ اگر یہ منصوبہ ناکام ہوا تو تمہارا کیا بنے گا ؟ آخر اس کا امکان تو موجود ہے نا ‘ خواہ کتنا ہی خفیف کیوں نہ ہو ایسی صورت میں باہر سے آئے ہوئے سب لوگ تو محاصرہ اٹھا کر چلتے بنیں گے اور تمہیں مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ جائیں گے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ حملہ آور قبائل کا ساتھ دینے سے پہلے تم لوگ اپنی حفاظت کی ضمانت کے طور پر ان سے کچھ افراد بطور یرغمال مانگ لو۔ - اس کے بعد حضرت نعیم (رض) حملہ آور قبائل کے سرداروں کے پاس گئے اور انہیں خبردار کیا کہ بنو قریظہ تم لوگوں سے مخلص نہیں ‘ وہ تم سے کچھ آدمی بطور یرغمال مانگنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تاکہ تمہارے آدمی مسلمانوں کے حوالے کر کے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلا سکیں۔ چناچہ تم لوگ ان سے خبردار رہنا اور کسی قیمت پر بھی اپنے آدمی ان کے سپرد نہ کرنا حملہ آور قبائل اور بنو قریظہ کے درمیان مسلمانوں پر مشترکہ حملے کے بارے میں معاہدہ طے پانے ہی والا تھا ‘ لیکن معاہدے کو حتمی شکل دینے سے پہلے جب بنو قریظہ نے حملہ آور قبائل سے کچھ افراد بطور ضمانت مانگے تو انہوں نے ان کا یہ مطالبہ رد کردیا۔ اس طرح فریقین کے اندر بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوگئی اور مسلمانوں کے خلاف ایک انتہائی خطرناک منصوبہ ناکام ہوگیا۔ - بنو قریظہ کی طرف سے عدم تعاون کے بعد حملہ آور لشکر کی کامیابی کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔ دوسری طرف انہیں موسم کی شدت اور رسد کی قلت کی وجہ سے بھی پریشانی کا سامنا تھا۔ ان حالات میں ایک رات قدرت الٰہی سے شدید آندھی آئی جس سے ان کے کیمپ کی ہرچیز درہم برہم ہوگئی۔ خیمے اکھڑ گئے ‘ کھانے کی دیگیں الٹ گئیں اور جانور دہشت زدہ ہوگئے۔ اس غیبی وار کی شدت کے سامنے ان کی ہمتیں بالکل ہی جواب دے گئیں۔ چناچہ اسی افراتفری کے عالم َمیں تمام قبائل نے واپسی کی راہ لی۔ - یہ محاصرہ تقریباً پچیس دن تک جاری رہا۔ مسلمانوں کے لیے تو یہ ایک بہت سخت امتحان تھا ہی ‘ جس سے وہ سرخرو ہو کر نکلے ‘ لیکن دوسری طرف اس آزمائش سے منافقین کے نفاق کا پردہ بھی چاک ہوگیا اور ایک ایک منافق کا ُ خبث ِباطن اس کی زبان پر آگیا۔ یہی دراصل اس آزمائش کا مقصد بھی تھا : لِیَمِیْزَ اللّٰہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ (الانفال : ٣٧) ” تاکہ اللہ ناپاک کو پاک سے چھانٹ کر الگ کر دے “ ۔ - ۔ - سورة العنکبوت کے پہلے رکوع میں یہی اصول اور قانون اللہ تعالیٰ نے سخت تاکیدی الفاظ میں دو دفعہ بیان فرمایا ہے۔ پہلے فرمایا : فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ۔ ” چناچہ اللہ ظاہر کر کے رہے گا ان کو جو (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں۔ “ پھر اس کے بعد دوبارہ فرمایا : وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ۔ ” اور یقینا اللہ ظاہر کر کے رہے گا سچے اہل ایمان کو ‘ اور ظاہر کر کے رہے گا منافقین کو بھی “- اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جس طرح ٥ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں مکہ کے اندر غلاموں ‘ نوجوانوں اور بےسہارا مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا (اس کی تفصیل سورة العنکبوت کے پہلے رکوع کے مطالعے کے دوران گزر چکی ہے) بالکل اسی طرح ٥ ہجری میں مدینہ کے اندر بھی مسلمانوں کو غزوئہ خندق کی صورت میں سخت ترین آزمائش سے دو چار ہونا پڑا۔ بلکہ اس ضمن میں میری رائے (واللہ اعلم) تو یہ ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ذاتی طور پر سب سے مشکل وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفر ِطائف کے دوران آیا تھا ‘ جبکہ مسلمانوں کو اجتماعی سطح پر شدید ترین تکلیف دہ صورت حال کا سامنا غزوئہ خندق کے موقع پر کرنا پڑا۔- آیت ٩ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ” اے اہل ِایمان یاد کرو اللہ کے اس انعام کو جو تم لوگوں پر ہوا “- اِذْ جَآئَ تْکُمْ جُنُوْدٌ ” جب تم پر حملہ آور ہوئے بہت سے لشکر “- یہ لشکر مدینہ پر چاروں طرف سے چڑھ آئے تھے۔ بنو غطفان اور بنو خزاعہ کے لشکروں نے مشرق کی طرف سے چڑھائی کی ‘ جنوب مغرب کی طرف سے قریش ِمکہ حملہ آور ہوئے ‘ جبکہ شمال کی جانب سے انہیں بنو نضیر اور خیبر کے دوسرے یہودی قبائل کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔- فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحًا وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْہَا ” تو ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیجی اور ایسے لشکر بھی جو تم نے نہیں دیکھے۔ “- یعنی آندھی کی کیفیت تو تم لوگوں نے بھی دیکھی تھی ‘ لیکن اس کے علاوہ ہم نے ان پر فرشتوں کے لشکر بھی بھیجے تھے جو تم کو نظر نہیں آئے۔- وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا ” اور جو کچھ تم لوگ کر رہے تھے اللہ اسے دیکھ رہا تھا۔ “- اس ایک جملے میں محاصرے کے دوران ہر فرد کے رویے کا احاطہ کردیا گیا ہے۔ اس دوران کس کا ایمان غیر متزلزل رہا ‘ کس کی نیت میں نفاق تھا اور کون اپنے نفاق کو زبان پر لے آیا ‘ اللہ کو سب معلوم ہے۔ یہ محاصرہ تقریباً پچیس دن تک رہا۔ اس دوران اکا دکا مقامات پر معرکہ آرائی بھی ہوئی۔ اس حوالے سے حضرت علی (رض) اور عرب کے مشہور پہلوان عبد ِوُدّ کے درمیان ہونے والا مقابلہ تاریخ میں بہت مشہور ہے۔ عبد ِوُدّ پورے عرب کا مانا ہوا شہسوار تھا۔ اس کی عمر نوے ّسال تھی مگر وہ اس عمر میں بھی ہزار جنگجوئوں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ کوئی اکیلا شخص اس کے مقابلے میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ گھوڑے کو بھگاتے ہوئے ایک ہی زقند میں خندق پار کرنے میں کامیاب ہوگیا اور تن ِتنہا اس طرف آکر دعوت مبارزت دی کہ تم میں سے کوئی ہے جو میرا مقابلہ کرے ؟ ادھر سے حضرت علی (رض) اس کے مقابلے کے لیے تیار ہوئے۔ - حضرت علی (رض) کے سامنے آنے پر اس نے کہا کہ میں اپنے مقابل آنے والے ہر شخص کو تین باتیں کہنے کا موقع دیتا ہوں اور ان میں سے ایک بات ضرور قبول کرتا ہوں۔ اس لیے تم اپنی تین خواہشات کا اظہار کرو۔ اس پر حضرت علی (رض) نے کہا کہ میری پہلی خواہش تو یہ ہے کہ تم ایمان لے آئو۔ اس نے کہا کہ یہ تو نہیں ہوسکتا۔ حضرت علی (رض) نے اپنی دوسری خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم جنگ سے واپس چلے جائو اس نے کہا کہ یہ بھی ممکن نہیں۔ ان دونوں باتوں سے انکار پر آپ (رض) نے فرمایا کہ پھر آئو اور مجھ سے مقابلہ کرو اس پر اس نے ایک بھر پور قہقہہ لگاتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا کہ آج تک پورے عرب میں اس کے سامنے کسی کو ایسا کہنے کی جرات نہیں ہوئی۔ بہر حال دو بدو مقابلے میں حضرت علی (رض) نے اسے واصل ِجہنم کردیا۔ اس طرح کے اکا ّدُکا انفرادی مقابلوں کے علاوہ دونوں لشکروں کے درمیان کسی بڑے اجتماعی معرکے کی نوبت نہیں آئی۔- محاصرے کے غیر متوقع طور پر طول کھینچنے سے کفار کے لشکر میں روز بروزبد دلی پھیلتی جا رہی تھی۔ اس دوران حضرت ُ نعیم بن مسعود اشجعی (رض) کی حکمت عملی سے بھی بنو قریظہ اور حملہ آور قبائل کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہوگئی۔ طویل محاصرے کے بعد اچانک خوفناک آندھی نے بھی اپنا رنگ دکھایا۔ اس پر مستزاد فرشتوں کے لشکروں کی دہشت تھی جس کی کیفیت کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس سب کچھ کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب کی تاریخ کے سب سے بڑے لشکر کو اپنے مقاصد حاصل کیے بغیر ناکام و نامراد لوٹنا پڑا ۔ - ۔ - آئندہ آیات میں محاصرے کے دوران کی صورت حال پر مزید تبصرہ کیا جا رہا ہے :
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :18 یہاں سے رکوع ۳ تک کی آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بنی قریظہ سے فارغ ہو چکے تھے ۔ ان دونوں رکوعوں میں غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنی قریظہ کے واقعات پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔ ان کو پڑھتے وقت ان دونوں غزوات کی وہ تفصیلات نگاہ میں رہنی چاہییں جو ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :19 یہ آندھی اسی وقت آگئی تھی جبکہ دشمنوں کے لشکر مدینے پر چڑھ کر آئے تھے بلکہ اس وقت آئی تھی جب محاصرے کو تقریباً ایک مہینہ گزر چکا تھا ۔ نظر نہ آنے والی فوجوں سے مراد وہ مخفی طاقتیں ہیں جو انسانی معاملات میں اللہ تعالیٰ کے اشارے پر کام کرتی رہتی ہیں اور انسانوں کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی ۔ انسان واقعات و حوادث کو صرف ان کے ظاہری اسباب پر محمول کرتا ہے ۔ لیکن اندر ہی اندر غیر محسوس طور پر جو قوتیں کام کرتی ہیں وہ اس کے حساب میں نہیں آتیں ، حالانکہ اکثر حالات میں انہی مخفی طاقتوں کی کار فرمائی فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے ۔ یہ طاقتیں چونکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی ماتحتی میں کام کرتی ہیں اس لیے فوجوں سے مراد فرشتے بھی لیے جا سکتے ہیں ، اگرچہ یہاں فرشتوں کی فوجیں بھیجنے کی صراحت نہیں ہے ۔
10: یہاں سے جنگِ احزاب کا بیان شروع ہورہا ہے۔ آیت نمبر:۲۷ تک اس جنگ کے مختلف پہلووں پر تبصرہ فرمایا گیا ہے۔ اِس جنگ کا واقعہ مختصرا یہ ہے کہ بنو نضیر کے یہودیوں کی سازش سے قریش کے بت پرستوں نے یہ طے کیا تھا کہ عرب کے مختلف قبائل کو جمع کر کے مدینہ منورہ پر اکٹھے حملہ کریں۔ چنانچہ قریش کے علاوہ بنو غطفان، بنو اسلم، بنو مرّہ، بنو اشجع، بنو کنانہ اور بنو فزارہ نے مل کر ایک زبردست لشکر تیار کیا جس کی تعداد بارہ سے پندرہ ہزار تک بتائی جاتی ہے، اور یہ لشکرِ جرار مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے مشورہ دیا کہ مدینہ منورہ کے شمال میں جہاں سے حملہ آور آنے والے ہیں، ایک گہری خندق کھود دی جائے، تاکہ وہ شہر تک نہ پہنچ سکیں۔ چنانچہ تمام صحابہؓ نے بڑی محنت اٹھا کر صرف چھ دن میں یہ خندق کھودی جو ساڑھے تین میل لمبی اور پانچ گز گہری تھی۔ یہ جنگ پچھلی تمام جنگوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ سخت جنگ تھی۔ دُشمن کی تعداد ان کے چار گنے سے بھی زائد تھی، اور اس پر طرّہ یہ ہوا کہ بنو قریظہ کے یہودی جو مسلمانوں کی بالکل بغل میں بیٹھے تھے، اُن کے بارے میں یہ اطلاع مل گئی کہ انہوں نے بھی مسلمانوں سے کیا ہوا عہد توڑ کر دُشمن کی مدد کا عہد کرلیا ہے۔ سخت سردی کا موسم تھا، اتنی لمبی خندق کھودنے میں دن رات مصروفیت کی وجہ سے خوراک کا سامان کم پڑگیا تھا۔ پھر جب دشمن نے خندق کے پار پڑاو ڈال دیا تو دونوں طرف سے تیروں اور پتھروں کا تبادلہ تقریبا ایک مہینے جاری رہا، اور دن رات پہرہ دینے کی وجہ سے لوگ تھکن سے نڈھال تھے۔ کڑی آزمائش کا یہ زمانہ آخر کار اس طرح ختم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے دُشمن کے لشکر پر برفانی ہوا کی ایک سخت آندھی مسلط فرما دی جس سے ان کے خیمے اکھڑ گئے، دیگیں الٹ گئیں، چولہے تباہ ہوگئے، اور سواری کے جانور بدک کر بھاگنے لگے۔ اِس موقع پر اُنہیں محاصرہ ختم کر کے واپس جانا پڑا۔ اِس آیت میں اسی آندھی کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور اس کے ساتھ ان دیکھے لشکروں کا بھی، جن سے مراد فرشتے ہیں جنہوں نے دُشمن کو سراسیمہ کر کے بھاگنے پر مجبور کیا۔