Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101اس سے مراد یہ ہے کہ ہر طرف سے دشمن آگئے یا اوپر سے مراد غطفان، ہوازن اور دیگر نجد کے مشرکین ہیں اور نیچے کی سمت سے قریش اور ان کے اعوان و انصار۔ 102یہ مسلمانوں کی اس کیفیت کا اظہار ہے جس سے اس وقت دو چار تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ : اس سے مراد مدینہ کا بالائی حصہ، یعنی مشرقی جانب ہے۔ اس طرف سے عیینہ بن حصن کی قیادت میں قبیلہ غطفان، عوف بن مالک کی قیادت میں قبیلہ ہوازن اور طلیحہ بن خویلد اسدی کی قیادت میں نجد کے قبائل آئے اور ان کے ساتھ بنو نضیر کے یہودی بھی مل گئے۔- وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ : نیچے کی جانب سے مراد مدینے کا مغربی حصہ ہے۔ اس طرف سے ابوسفیان بن حرب کی قیادت میں کفار مکہ اور کچھ دوسرے لوگ آئے۔ عین حالت جنگ میں بنو قریظہ نے بھی صلح توڑ دی اور دشمن کے ساتھ مل گئے۔- وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ : ” زَاغَ یَزِیْغُ زَیْغًا “ (ض) کا معنی ہے ” مَالَ “ یعنی جھکنا، ٹیڑھا ہونا۔ سورة نجم میں ہے : (مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى) [ النجم : ١٧ ] ” نہ نگاہ ادھر ادھر ہوئی اور نہ حد سے آگے بڑھی۔ “ اللہ تعالیٰ نے آنکھ کے اوپر نیچے اور دائیں بائیں کی جہتوں میں حرکت کرنے کی خاص کیفیت رکھی ہے، جب زیادہ خوف یا گھبراہٹ آپڑے تو نگاہ ان جہتوں سے پھرجاتی ہے، پھر کبھی وہ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (فَاِذَا هِىَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ) [ الأنبیاء : ٩٧ ] ” تو اچانک یہ ہوگا کہ ان لوگوں کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی جنھوں نے کفر کیا۔ “ کبھی ایک ہی طرف پھری ہوئی رہ جاتی ہے، جیسا کہ اس آیت میں ہے اور کبھی بےاختیار گھومنے لگتی ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے : (تَدُوْرُ اَعْيُنُهُمْ كَالَّذِيْ يُغْشٰى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ) [ الأحزاب : ١٩ ] ” ایسے دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس شخص کی طرح گھومتی ہیں جس پر موت کی غشی طاری کی جا رہی ہو۔ “ مراد خوف کی شدت ہے۔- وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ : ” الحناجر “ ” حَنْجَرَۃٌ“ کی جمع ہے، حلق کا آخری حصہ۔ خوف کی شدت کی تصویر کھینچی ہے، جیسے دل شدید دکھڑکن اور گھبراہٹ کی وجہ سے اپنی جگہ چھوڑ کر حلق تک آپہنچا ہو۔ بقاعی نے کہا، ہوسکتا ہے یہ تشبیہ کے بجائے حقیقت ہو کہ طحال اور پھیپھڑا پھول کر دل کو گلے کی طرف دھکیل دیں، اس لیے بزدل کو کہتے ہیں : ” اِنْتَفَخَ مَنْخِرُہُ أَيْ رِءَتُہُ “ یعنی اس کا پھیپھڑا پھول گیا۔ خوف کی وجہ سے دل گلے کی طرف جانے کی وجہ سے بعض اوقات سانس بند ہو کر آدمی کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( شَرُّ مَا فِيْ رَجُلٍ شُحٌّ ہَالِعٌ، وَجُبْنٌ خَالِعٌ ) [ مسند أحمد : ٢؍٣٢٠، ح : ٨٢٨٣، عن أبي ہریرۃ (رض) ، صحیح ] ” بد ترین چیز جو آدمی میں ہے، وہ شدید حرص ہے جو بےحوصلہ بنا دینے والی ہے اور بزدلی ہے جو دل نکال دینے والی ہے۔ “- وَتَظُنُّوْنَ باللّٰهِ الظُّنُوْنَا : اس سے مراد یا تو کمزور ایمان والے لوگ ہیں، کیونکہ پختہ ایمان والوں کا ذکر آگے آ رہا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ ۙ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ۡ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا) [ الأحزاب : ٢٢ ] ” اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا تو انھوں نے کہا یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا، اور اس چیز نے ان کو ایمان اور فرماں برداری ہی میں زیادہ کیا۔ “ ایسے کمزور ایمان والے لوگ یہ گمان کر رہے تھے کہ اب کے بار نہیں بچیں گے۔ یا سبھی مومن مراد ہیں اور کئی طرح کے گمانوں سے مراد وہ گمان ہیں جو بےاختیار اس موقع پر دل میں آجاتے ہیں، جیسا کہ سورة بقرہ (٢١٤) اور سورة یوسف (١١٠) میں ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - سابقہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت شان اور مسلمانوں کو آپ کے مکمل اتباع و اطاعت کی ہدایت تھی۔ اسی کی مناسبت سے یہ پورے دو رکوع قرآن کے غزوہ احزاب کے واقعہ سے متعلق نازل ہوئے ہیں، جس میں کفار و مشرکین کی بہت سی جماعتوں کا مسلمانوں پر یکبارگی حملہ اور سخت نرغہ کے بعد مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعدد معجزات کا ذکر ہے۔ اور اس کے ضمن میں زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق بہت سی ہدایات اور احکام ہیں۔ انہی بےبہا ہدایات کی وجہ سے اکابر مفسرین نے اس جگہ واقعہ احزاب کو خاص تفصیل سے لکھا ہے خصوصاً قرطبی اور مظہری وغیرہ نے۔ اس لئے واقعہ احزاب کی کچھ تفصیل مع ان ہدایات کے لکھی جاتی ہے جس کا اکثر حصہ قرطبی اور مظہر سے لیا گیا ہے، جو کسی دوسری کتاب سے لیا ہے، اس کا حوالہ لکھ دیا گیا ہے۔- واقعہ غزوہ احزاب - احزاب، حزب کی جمع ہے، جس کے معنی پارٹی یا جماعت کے آتے ہیں۔ اس غزوہ میں کفار کی مختلف جماعتیں متحد ہو کر مسلمانوں کو ختم کردینے کا معاہدہ کر کے مدینہ پر چڑھ آئی تھیں، اسی لئے اس غزوہ کا نام غزوہ احزاب رکھا گیا ہے۔ اور چونکہ اس غزوہ میں دشمن کے آنے کا راستہ پر بامر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خندق کھودی گئی تھی، اس لئے اس کو غزوہ خندق بھی کہتے ہیں۔ غزوہ بنو قریظہ بھی جو غزوہ احزاب کے فوراً بعد ہوا اور مذکورہ آیات میں اس کا بھی ذکر ہے وہ بھی درحقیقت غزوہ احزاب ہی کا ایک جز تھا، جیسا کہ واقعہ کی تفصیل سے معلوم ہوگا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس سال مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوئے، اس کے دوسرے ہی سال میں غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا۔ تیسرے سال میں غزوہ احد پیش آیا، چوتھے سال میں یہ غزوہ احزاب واقع ہوا۔ اور بعض روایات میں اس کو پانچویں سال کا واقعہ قرار دیا ہے۔ بہرحال ابتداء ہجرت سے اس وقت تک کفار کے حملے مسلمانوں پر مسلسل جاری تھے غزوہ احزاب کا حملہ بڑی بھرپور طاقت وقوت اور پختہ عزم اور عہد و میثاق کے ساتھ کیا گیا تھا اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام پر یہ غزوہ سب دوسرے غزوات سے زیادہ اشد تھا۔ کیونکہ اس میں حملہ آور احزاب کفار کی تعداد بارہ سے پندرہ ہزار تک بتلائی گئی ہے، اور اس طرف سے مسلمان کل تین ہزار وہ بھی بےسروسامان، اور زمانہ سخت سردی کا۔ قرآن کریم نے تو اس واقعہ کی شدت بڑی ہولناک صورت میں یہ بیان فرمائی ہے، زاغت الابصار (آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں) بلغت القلوب الحناجر (کلیجے منہ کو آنے لگے) وزلزلوا زلزالاً شدیداً (سخت زلزلہ میں ڈالے گئے) ۔- مگر جیسا کہ یہ وقت مسلمانوں پر سب سے زیادہ سخت تھا، ویسے ہی اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد سے اس کا انجام مسلمانوں کے حق میں ایسی عظیم فتح و کامیابی کی صورت میں سامنے آیا کہ اس نے تمام مخالف گروہوں مشرکین، یہود اور منافقین کی کمریں توڑ دیں، اور آگے ان کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ مسلمانوں پر کسی حملے کا ارادہ کرسکیں۔ اس لحاظ سے یہ غزوہ کفر واسلام کا آخری معرکہ تھا، جو مدینہ منورہ کی زمین پر ہجرت کے چوتھے یا پانچویں سال میں لڑا گیا۔- اس واقعہ کی ابتداء یہاں سے ہوئی کہ یہود کے قبیلہ بنی نضیر اور قبیلہ بنی وائل کے تقریباً بیس آدمی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے سخت عداوت رکھتے تھے مکہ مکرمہ پہنچے، اور قریشی سرداروں سے ملاقات کر کے ان کو مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ قریشی سردار سمجھتے تھے کہ جس طرح مسلمان ہماری بت پرستی کو کفر کہتے ہیں اور اس لئے ہمارے مذہب کو برا سمجھتے ہیں یہود کا بھی یہی خیال ہے، تو ان سے موافقت و اتحاد کی کیا توقع رکھی جائے۔ اس لئے ان لوگوں نے یہود سے سوال کیا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان دین و مذہب کا اختلاف ہے اور آپ لوگ اہل کتاب اور اہل علم ہیں، پہلے ہمیں یہ بات بتلائیے کہ آپ کے نزدیک ہمارا دین بہتر ہے یا ان کا۔- سیاست کے اکھاڑے میں جھوٹ کوئی نئی چیز نہیں :- ان یہودیوں نے اپنے علم و ضمیر کے بالکل خلاف ان کو یہ جواب دیا کہ تمہارا دین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین سے بہتر ہے۔ اس پر یہ لوگ کچھ مطمئن ہوئے، مگر اس پر بھی معاملہ یہ ٹھہرا کہ بیس آدمی یہ آنے والے اور پچاس آدمی قریشی سرداروں کے مسجد حرام میں جا کر بیت اللہ کی دیواروں سے سینے لگا کر اللہ کے سامنے یہ عہد کریں کہ ہم میں سے جب تک ایک آدمی بھی زندہ رہے گا ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ کرتے رہیں گے۔- اللہ تعالیٰ کے علم و کرم کا ایک عجوبہ :- اللہ کے گھر میں اللہ کے بیت سے چمٹ کر اللہ کے دشمن اس کے رسول کے خلاف جنگ لڑنے کا معاہدہ کر رہے ہیں، اور مطمئن ہو کر جنگ کا نیا جذبہ لے کر لوٹتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علم و کرم کا عجیب مظہر ہے۔ پھر ان کے اس معاہدہ کا حشر بھی آخر قصہ میں معلوم ہوگا کہ سب کے سب اس جنگ سے منہ موڑ کر بھاگے۔- یہ یہودی قریش مکہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد عرب کے ایک بڑے اور جنگجو قبیلہ غطفان کے پاس پہنچے اور ان کو بتلایا کہ ہم اور قریش مکہ اس پر متفق ہوچکے ہیں کہ اس نئے دین (اسلام) کے پھیلانے والوں کا ایک مرتبہ سب مل کر استیصال کردیں۔ آپ بھی اس پر ہم سے معاہدہ کریں۔ اور ان کو یہ رشوت بھی پیش کی کہ خیبر میں جس قدر کھجور ایک سال میں پیدا ہوگی وہ اور بعض روایات میں اس کا نصف قبیلہ غطفان کو دیا جانے کا وعدہ کیا۔ قبیلہ غطفان کے سردار عیینہ بن حصن نے اس شرط کے ساتھ ان سے شرکت کو منظور کرلیا اور یہ لوگ بھی جنگ میں شامل ہوگئے۔- اور باہمی قرار داد کے مطابق مکہ سے قریشیوں کا لشکر چار ہزار جوانوں اور تین سو گھوڑوں اور ایک ہزار اونٹوں کے سامان کے ساتھ ابوسفیان کی قیادت میں مکہ مکرمہ سے نکلا اور مرظہران میں قیام کیا یہاں قبیلہ اسلم اور قبیلہ اشجع اور بنو مرہ، بنو کنانہ اور فزارہ اور غطفان کے سب قبائل شامل ہوگئے۔ جن کی مجموعی تعداد بعض روایات میں دس بعض میں بارہ ہزار اور بعض میں پندرہ ہزار بیان کی گئی ہے۔- مدینہ منورہ پر سب سے بڑا حملہ :- غزوہ بدر میں مسلمانوں کے مقابل آنے والا لشکر ایک ہزار کا تھا، پھر غزوہ احد میں حملہ کرنے والا لشکر تین ہزار کا تھا۔ اس مرتبہ لشکر کی تعداد بھی ہر پہلی مرتبہ سے زائد تھی، اور سامان بھی اور تمام قبائل عرب و یہود کی اتحادی طاقت بھی۔- مسلمانوں کی جنگی تیاری (١) اللہ پر توکل (٢) باہمی مشورہ (٣) بقدر وسعت مادی وسائل کی فراہمی :- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس متحدہ محاذ کے حرکت میں آنے کی اطلاع ملی تو سب سے پہلا کلمہ جو زبان مبارک پر آیا یہ تھا حسبنا اللہ و نعم الوکیل، ” یعنی ہمیں اللہ کافی اور وہی ہمارا بہتر کار ساز ہے “ اس کے بعد مہاجرین و انصار کے اہل حل وعقد کو جمع کر کے ان سے مشورہ لیا۔ اگرچہ صاحب وحی کو درحقیقت مشورہ کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ براہ راست حق تعالیٰ کے اذن و اجازت سے کام کرتے ہیں مگر مشورے میں دو فائدے تھے۔ ایک امت کے لئے مشورہ کی سنت جاری کرنا، دوسرے قلوب مومنین میں باہمی ربط و اتحاد کی تجدید اور تعاون و تناصر کا جذبہ بیدار کرنا۔ اس کے بعد دفاع اور جنگ کے مادی وسائل پر غور ہوا۔ مجلس مشورہ میں حضرت سلمان فارسی بھی شامل تھے جو ابھی حال میں ایک یہودی کی مصنوعی غلامی سے نجات حاصل کر کے اسلامی خدمات کے لئے تیار ہوئے تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمارے بلاد فارس کے بادشاہ ایسے حالات میں دشمن کا حملہ روکنے کے لئے خندق کھود کر ان کا راستہ روک دیتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ مشورہ قبول فرما کر خندق کھودنے کا حکم دے دیا۔ اور بنفس نفیس خود بھی اس کام میں شریک ہوئے۔- خندق کی کھدائی :- یہ خندق جبل سلع کے پیچھے اس پورے راستہ کی لمبائی پر کھودنا طے ہوا جس سے مدینہ کے شمال کی طرف سے آنے والے دشمن آسکتے تھے، اس خندق کے طول وعرض کا خطہ خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھینچا۔ یہ خندق قلعہ شیخین سے شرو ہو کر جبل سلع کے مغربی گوشہ تک آئی اور بعد میں اسے بڑھا کر وادی بطحان اور وادی راتونا کے مقام اتصال تک پہنچا دیا گیا۔ اس خندق کی کل لمبائی تقریباً ساڑھے تین میل تھی، چوڑائی اور گہرائی کی صحیح مقدار کسی روایت سے معلوم نہیں ہوئی، لیکن یہ ظاہر ہے کہ چوڑائی اور گہرائی بھی خاصی ہوگی جس کو عبور کرنا دشمن کے لئے آسان نہ ہو۔ - حضرت سلمان کے خندق کھودنے کے واقعہ میں یہ آیا ہے کہ وہ روزانہ پانچ گز لمبی اور پانچ گز گہری خندق کھودتے تھے (مظہری) اس سے خندق کی گہرائی پانچ گز کہی جاسکتی ہے۔- اسلامی لشکر کی تعداد :- اس وقت مسلمانوں کی کل جمعیت تین ہزار تھی اور کل چھتیس گھوڑے تھے۔- بلوغ کی عمر پندرہ سال قرار دی گئی :- اسلامی لشکر میں کچھ نابالغ بچے بھی اپنے جوش ایمانی سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان بچوں کو واپس کردیا جو پندرہ سال سے کم عمر تھے، پندرہ سالہ نوعمر لے لئے گئے۔ جن میں حضرت عبداللہ بن عمر، زید بن ثابت، ابو سعید خدری، براء بن عازب (رض) شامل ہیں۔ جس وقت یہ اسلامی لشکر مقابلہ کے لئے روانہ ہونے لگا تو جو منافقین مسلمانوں میں رلے ملے رہتے تھے انہوں نے سرکنا شروع کیا۔ کچھ چھپ کر نکل گئے، کچھ لوگوں نے جھوٹے اعذار پیش کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واپسی کی اجازت لینی چاہی۔ یہ اپنے اندر سے ایک نئی آفت پھوٹی، مذکورہ الصدر آیات میں انہی منافقین کے متعلق چند آیات نازل ہوئی ہیں۔ (قرطبی)- قبائلی اور نسبی قومیتوں کا انتظامی معاشرتی امتیاز اسلامی وحدت اور اسلامی قومیت کے منافی نہیں :- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جہاد کے لئے مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن حارثہ کے سپرد فرمایا۔ اس وقت مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات (بھائی چارے) کے تعلقات بڑی مضبوط و مستحکم بنیادوں پر قائم تھے، اور سب بھائی بھائی تھے۔ مگر انتظامی سہولت کے لئے مہاجرین کی قیادت الگ اور انصار کی الگ کردی گئی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی قومیت اور اسلامی وحدت انتظامی اور معاشرتی تقسیم کے منافی نہیں بلکہ ہر جماعت پر ذمہ داری کا بوجھ ڈال دینے سے باہمی اعتماد اور تعاون و تناصر کے جذبہ کی تقویت ہوئی تھی۔ اور اس جنگ کے سب سے پہلے کام یعنی خندق کھودنے میں اس تعاون و تناصر کا اس طرح مشاہدہ ہوا کہ :۔- خندق کی کھدائی کی تقسیم پورے لشکر پر کی گئی :- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورے لشکر کے مہاجرین و انصار کو دس دس آدمیوں کی جماعت میں تقسیم کر کے ہر دس آدمیوں کو چالیس گز خندق کھودنے کا ذمہ دار بنایا۔ حضرت سلمان فارسی چونکہ خندق کھودنے کا مشورہ دینے والے اور کام سے واقف اور مضبوط آدمی تھے، اور نہ انصار میں شامل تھے نہ مہاجرین میں، ان کے متعلق انصار و مہاجرین میں ایک مسابقت کی فضا پیدا ہوگئی۔ انصار ان کو اپنے میں شامل کرنا چاہتے تھے، مہاجرین اپنے میں۔ یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رفع نزاع کے لئے مداخلت کرنے کی نوبت آئی اور آپ نے فیصلہ دیا کہ سلمان ہمارے اہل بیت میں شامل ہیں۔- صلاحیت کار میں ملکی غیر ملکی، مقامی اور بیرونی کا امتیاز :- آج تو غیر ملکی باشندے اور غیر مقامی کو اپنی برابر کا درجہ دینا لوگ پسند نہیں کرتے وہاں ہر فریق اہل صلاحیت کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں فخر محسوس کرتا تھا اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اہل بیت میں خود داخل فرما کر نزاع کو ختم کیا اور عملی طور پر چند انصار اور چند مہاجرین شامل کر کے ان کے دس کی جماعت بنائی جس میں حضرت عمر و بن عوف اور حذیفہ وغیرہ مہاجرین میں سے تھے۔- ایک عظیم معجزہ :- اتفاق سے جو حصہ خندق کا حضرت سلمان وغیرہ کے سپرد تھا اس میں ایک سخت اور چکنے پتھر کی بڑی چٹان نکل آئی۔ حضرت سلمان کے ساتھی عمرو بن عوف فرماتے ہیں کہ اس چٹان نے ہمارے اوزار توڑ دیئے اور ہم اس کے کاٹتے سے عاجز ہوگئے تو میں نے سلمان سے کہا کہ اگرچہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اس جگہ سے کچھ ہٹ کر خندق کھودیں اور ذرا سی کجی کے ساتھ اس کو اصل خندق سے ملا دیں مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کھینچے ہوئے خط سے انحراف ہمیں اپنی رائے سے نہیں کرنا چاہئے، آپ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ واقعہ بیان کر کے حکم حاصل کریں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔- قدرت کی تنبیہات :- اس ساڑھے تین میل کے میدان میں خندق کھودنے والوں میں کسی کو رکاوٹ پیش نہ آئی جو عاجز کر دے۔ پیش آئی تو حضرت سلمان کو پیش آئی، جنہوں نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا تھا اور اسی کو قبول کر کے یہ سلسلہ جاری ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دکھلا دیا کہ خندق کھودنے اور بنانے میں بھی اللہ کی طرف رجوع کے سوا چارہ نہیں، آلات و اوزار سب جواب دے چکے جس میں ان حضرات کو تعلیم تھی کہ مادی اسباب کو بقدر وسعت و طاقت جمع کرنا فرض ہے، مگر ان پر بھروسہ کرنا درست نہیں۔ مومن کا بھروسہ تمام اسباب مادیہ کو جمع کرلینے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ پر ہی ہونا چاہئے۔- حضرت سلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بتلایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی اپنے حصہ کی خندق میں کام کر رہے تھے، خندق کی مٹی کو اس جگہ سے منتقل کرنے میں مصروف تھے۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ کے جسم مبارک کو غبار نے ایسا ڈھانپ لیا تھا کہ پیٹ اور پیٹھ کی کھال نظر نہ آتی تھی۔ ان کو کوئی مشورہ یا حکم دینے کے بجائے خود ان کے ساتھ موقع پر تشریف لائے اور دس حضرات صحابہ مع سلمان کے جو اس کھودنے میں مصروف تھے خندق کے اندر اتر کر آپ بھی ان میں شامل ہوگئے۔ اور کدال اپنے دست مبارک میں لے کر اس چٹان پر ایک ضرب لگائی۔ اور یہ آیت پڑھی (آیت) تمت کلمة ربک صدقاً (یعنی پوری ہوگئی نعمت آپ کے رب کی سچائی کے ساتھ) اس کی ایک ہی ضرب سے چٹان کا ایک تہائی حصہ کٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی ایک روشنی پتھر کی چٹان سے برآمد ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے دوسری ضرب لگائی اور آیت مذکورہ کو آخر تک پڑھا، یعنی تمت کلمة ربک صدقاً عدلاً ، اس دوسری ضرب سے ایک تہائی چٹان اور کٹ گئی، اور اس پتھر سے ایک روشنی نکلی۔ تیسری مرتبہ پھر وہی آیت پوری پڑھ کر تیسری ضرب لگائی تو باقی چٹان بھی کٹ کر ختم ہوگئی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خندق سے باہر تشریف لائے۔ اور اپنی چادر جو خندق کے کنارہ پر رکھ دی تھی اٹھا لی اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ اس وقت سلمان فارسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے جتنی مرتبہ اس پتھر پر ضرب لگائی میں نے ہر مرتبہ پھر سے ایک روشنی نکلتی دیکھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان سے فرمایا کہ کیا واقعی تم نے یہ روشنی دیکھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری آنکھوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پہلی ضرب میں جو روشنی نکلی میں نے اس روشنی میں یمن اور کسریٰ کے محلات دیکھے اور جبرئیل امین نے مجھے بتلایا کہ آپ کی امت ان شہروں کو فتح کرلے گی اور جب میں نے دوسری ضرب لگائی تو مجھے رومیوں کے سرخ محلات دکھائے گئے، اور جبرائیل امین نے یہ خوش خبری دے دی کہ آپ کی امت ان شہروں کو بھی فتح کرلے گی۔ یہ ارشاد سن کر سب مسلمان مطمئن ہوئے اور آئندہ عظیم الشان فتوحات پر یقین ہوگیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللہِ الظُّنُوْنَا۝ ١٠- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - سفل - السُّفْلُ : ضدّ العلو، وسَفُلَ فهو سَافِلٌ ، قال تعالی: فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74] ، وأَسْفَل ضدّ أعلی،- ( س ف ل ) السفل - یہ علو کی ضد ہے اور سفل ( سفولا ) فھوا سافل کے معنی پست اور حقیر ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74]- زيغ - الزَّيْغُ : المیل عن الاستقامة، والتَّزَايُغُ : التمایل، ورجل زَائِغٌ ، وقوم زَاغَةٌ ، وزائغون، وزاغت الشمس، وزَاغَ البصر، وقال تعالی: وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى ما يداخلهم من الخوف حتی اظلمّت أبصارهم، ويصحّ أن يكون إشارة إلى ما قال : يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] ، وقال : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] ، مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] ، فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ- [ الصف 5] ، لمّا فارقوا الاستقامة عاملهم بذلک .- ( ز ی غ ) الزیغ کے معنی حالت استقامت سے ایک جانب مائل ہوجانا کے ہیں اور التزایغ کے معنی تمایل یعنی بہت زیادہ مائل ہوجانا ایک دوسرے سے مائل ہونا رجل زائغ مائل ہونے والا ۔ اس کی جمع زاغۃ وزائغون آتی ہے ۔ زاغت الشمس ۔ سورج مائل بزوال ہوگیا زاغ البصر نگاہ نے غلطی کی ، ایک طرف ہٹ گئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ خوف و ہراس کی وجہ سے انہیں کچھ نظر نہیں آئے گا اور یہ بھی کہ یہ آیت :۔ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] کے ہم معنی ہو یعنی نگاہیں صحیح طور پر کسی چیز کا ادارک نہیں کرسکیں گی ۔ نیز فرمایا : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] نظر نہ تو حقیقت سے ایک طرف ہٹی اور نہ ہی اس نے حد سے تجاوز کیا ۔ مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] اس کے بعد کہ ۔۔۔۔ پھرجانے کو تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ [ الصف 5] کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ از خود صحیح راہ سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو اسی طرف جھکا دیا ۔ بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - حنجر - قال تعالی: لَدَى الْحَناجِرِ كاظِمِينَ [ غافر 18] ، وقال عزّ وجلّ : وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَناجِرَ [ الأحزاب 10] ، جمع حَنْجَرَة، وهي رأس الغلصمة من خارج .- ( ح ن ج ر) الحنجرۃ ( نرخرہ ) نائے گلو یعنی بیرونی جانب سے حلقوم کا سرا س کی جمع حناجر آتی ہے قرآن میں ہے ؛ لَدَى الْحَناجِرِ كاظِمِينَ [ غافر 18] غم سے بھر کر گلو تک آرہے ہوں گے ۔ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَناجِرَ [ الأحزاب 10] اور دل ( مارے دہشت کے ) گلوں تک پہنچ گئے ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جبکہ کفار مکہ تم پر اوپر کی طرف سے بھی چڑھ آئے تھے یعنی طلحہ بن خویلہ اسدی اور اس کے ساتھی اور نیچے کی طرف سے بھی یعنی ابو الاعور اسلمی اور اس کے ساتھی اور ابو سفیان اور اس کے ساتھی اور جبکہ منافقین کی آنکھیں خندق میں اپنی جگہ سے ہٹ گئی تھیں اور ان کے دل گھبرانے لگے تھے اور اے گروہ منافقین تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ اپنے نبی کی مدد نہیں فرمائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ ” جب وہ (لشکر) آئے تم پر تمہارے اوپر سے بھی اور تمہارے نیچے سے بھی “- جزیرہ نمائے عرب کا جغرافیائی محل وقوع پہلے بھی کئی بار زیر بحث آچکا ہے۔ اس میں شمالاً جنوباً حجاز کا طویل پہاڑی سلسلہ ہے۔ مکہ ‘ طائف اور مدینہ حجاز ہی میں واقع ہیں ‘ جبکہ اسی علاقے میں اوپر شمال کی طرف تبوک کا علاقہ ہے۔ اس پہاڑی سلسلے اور ساحل سمندر کے درمیان ایک وسیع میدان ہے جس کا نام تہامہ ہے۔ حجاز کے پہاڑی سلسلے اور تہامہ کے درمیان سطح مرتفع ہے جو اگرچہ پہاڑی علاقہ تو نہیں مگر میدانی سطح سے بلند ہے۔ اس علاقے میں بنو غطفان وغیرہ قبائل آباد تھے۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ کے الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ مدینہ کے اوپر کی طرف سے بنو غطفان وغیرہ جبکہ نیچے تہامہ کی طرف سے قریش مکہ حملہ آور ہوئے تھے۔- وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ ” اور جب (خوف کے مارے) نگاہیں پتھرا گئی تھیں اور دل حلق میں آگئے تھے “- یہ اس غیر معمولی کیفیت کا نقشہ ہے جب انتہائی خوف اور دہشت کی وجہ سے انسان کی آنکھیں حرکت کرنا بھول جاتی ہیں ‘ اس کے دل کی دھڑکن غیر معمولی طور پر تیز ہوجاتی ہے اور اسے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس کا دل اچھل کر اب سینے سے باہر نکل جائے گا۔- وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا ” اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: اوپر سے مراد تو وہ متحدہ محاذ کا لشکر ہے جو خندق کے پار محاصرہ کئے ہوئے تھے، اور نیچے سے مراد بنو قریظہ ہیں جنہوں نے اندر سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ٹھان لی تھی۔ 12: سخت آزمائش کی اس گھڑی میں غیر اختیاری طور پر مختلف وسوسے دل میں آیا کرتے ہیں، یہ انہی وسوسوں کا بیان ہے جن سے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔