منافقوں کا فرار اس گھبراہٹ اور پریشانی کا حال بیان ہو رہا ہے جو جنگ احزاب کے موقعہ پر مسلمانوں کی تھی کہ باہر سے دشمن اپنی پوری قوت اور کافی لشکر سے گھیرا ڈالے کھڑا ہے ۔ اندرون شہر میں بغاوت کی آگ بھڑکی ہوئی ہے یہودیوں نے دفعۃ صلح توڑ کر بےچینی کی باتیں بنا رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ بس اللہ کے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدے دیکھ لئے ۔ کچھ لوگ ہیں جو ایک دوسرے کے کان میں صور پھونک رہے ہیں کہ میاں پاگل ہوئے ہو؟ دیکھ نہیں رہے دو گھڑی میں نقشہ پلٹنے والاہے ۔ بھاگ چلو لوٹولوٹو واپس چلو ۔ یثرب سے مراد مدینہ ہے ۔ جیسے صحیح حدیث میں ہے کہ مجھے خواب میں تمہاری ہجرت کی جگہ دکھائی گئی ہے ۔ جو دو سنگلاخ میدانوں کے درمیان ہے پہلے تو میرا خیال ہوا تھا کہ یہ ہجر ہے لیکن نہیں وہ جگہ یثرب ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ وہ جگہ مدینہ ہے ۔ البتہ یہ خیال رہے کہ ایک ضعیف حدیث میں ہے جو مدینے کو یثرب کہے وہ استغفار کر لے ۔ مدینہ تو طابہ ہے وہ طابہ ہے یہ حدیث صرف مسند احمد میں ہے اور اس کی اسناد میں ضعف ہے ۔ کہا گیا ہے کہ عمالیق میں سے جو شخص یہاں آکر ٹھہرا تھا چنکہ اسکا نام یثرب بن عبید بن مہلا بیل بن عوص بن عملاق بن لاد بن آدم بن سام بن نوح تھا اس لئے اس شہر کو بھی اسی کے نام سے مشہور کیا گیا ۔ یہ بھی قول ہے کہ تورات شریف میں اس کے گیارہ نام آئے ہیں ۔ مدینہ ، طابہ ، جلیلہ ، جابرہ ، محبہ ، محبوبہ ، قاصمہ ، مجبورہ ، عدراد ، مرحومہ ۔ کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم تورات میں یہ عبادت پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ شریف سے فرمایا اے طیبہ اور اے طابہ اور اے مسکینہ خزانوں میں مبتلا نہ ہو تمام بستیوں پر تیرا درجہ بلند ہوگا ۔ کچھ لوگ تو اس موقعہ خندق پر کہنے لگے یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ٹھہرنے کی جگہ نہیں اپنے گھروں کو لوٹ چلو ۔ بنو حارثہ کہنے لگے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھروں میں چوری ہونے کا خطرہ ہے وہ خالی پڑے ہیں ہمیں واپس جانے کی اجازت ملنی چاہیے ۔ اوس بن قینطی نے بھی یہی کہا تھا کہ ہمارے گھروں میں دشمن کے گھس جانے کا اندیشہ ہے ہمیں جانے کی اجازت دیجئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی بات بتلادی کہ یہ تو ڈھونک رچایا ہے حقیقت میں عذر کچھ بھی نہیں نامردی سے بھگوڑا پن دکھاتے ہیں ۔ لڑائی سے جی چرا کر سرکنا چاہتے ہیں ۔
1 1 1یعنی مسلمانوں کو خوف، قتال، بھوک اور محاصرے میں مبتلا کر کے ان کو جانچا پرکھا گیا تاکہ منافق الگ ہوجائیں۔
هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ : یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ امتحان ہوجائے کہ ایسے سخت حالات میں کون ایمان پر قائم رہتا ہے اور کس کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔- وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا : چاروں طرف سے لشکروں کے ہجوم اور شہر کے اندر سے بنو قریظہ کی عہد شکنی کی خبر سے مسلمانوں کی یہ حالت ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ اس وقت خوف کی حالت کا اور مسلمانوں کی جانفشانی کا اندازہ زبیر اور - حذیفہ (رض) کے بیانات سے ہوتا ہے۔ جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احزاب کے دن فرمایا : ( مَنْ یَأْتِیْنَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ ؟ ) ” کون ہے جو ہمارے پاس ان (بنو قریظہ کے یہودی) لوگوں کی خبر لائے ؟ “ زبیر (رض) نے کہا : ” میں ہوں۔ “ آپ نے پھر فرمایا : ” کون ہے جو ہمارے پاس ان لوگوں کی خبر لائے ؟ “ زبیر (رض) نے کہا : ” میں ہوں۔ “ پھر فرمایا : ” کون ہے جو ہمارے پاس ان لوگوں کی خبر لائے ؟ “ زبیر (رض) نے کہا : ” میں ہوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ لِکُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِیًّا، وَ إِنَّ حَوَارِيَّ الزُّبَیْرُ ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق و ھي الأحزاب : ٤١١٣ ]” ہر نبی کا ایک حواری (خاص مددگار) ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ “ ابراہیم تیمی کے والد بیان کرتے ہیں کہ ہم حذیفہ (رض) کے پاس تھے، ایک آدمی کہنے لگا : ” اگر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پا لیتا تو آپ کے ساتھ مل کر لڑتا اور پوری کوشش لگا دیتا۔ “ تو حذیفہ (رض) نے کہا : ” تو ایسا کرتا ؟ حالانکہ میں نے اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ احزاب کی رات دیکھا اور ہمیں سخت آندھی اور سردی نے گھیرا ہوا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَلَا رَجُلٌ یَأْتِیْنِيْ بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ مَعِيَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ؟ ) ” کیا کوئی آدمی ہے جو میرے پاس ان لوگوں کی خبر لائے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرے ساتھ کر دے گا ؟ “ ہم خاموش رہے، کسی نے آپ کو جواب نہیں دیا، پھر فرمایا : ” کیا کوئی آدمی ہے جو میرے پاس ان لوگوں کی خبر لائے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرے ساتھ کر دے گا ؟ “ ہم خاموش رہے اور کسی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب نہیں دیا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قُمْ یَا حُذَیْفَۃُ فَأْتِنَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ ) ” حذیفہ اٹھو اور ہمارے پاس ان لوگوں کی خبر لے کر آؤ۔ “ اب میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا، کیونکہ آپ نے میرا نام لے کر مجھے اٹھنے کا کہا تھا۔ آپ نے فرمایا : ( اِذْہَبْ فَأْتِنِيْ بِخَبَرِ الْقَوْمِ وَلَا تَذْعَرْہُمْ عَلَيَّ ) ” جاؤ، میرے پاس ان لوگوں کی خبر لے کر آؤ اور انھیں مجھ پر اکسا نہ دینا (یعنی ایسا کوئی کام نہ کرنا جس کی وجہ سے وہ بھڑک اٹھیں) ۔ “ جب میں آپ کے پاس سے نکلا تو ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں، یہاں تک کہ میں ان کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ ابوسفیان آگ کے ساتھ اپنی پیٹھ سینک رہا تھا۔ میں نے تیر کمان پر چڑھایا اور ارادہ کیا کہ اسے نشانہ بناؤں، تو مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات یاد آگئی کہ انھیں مجھ پر اکسا نہ دینا اور اگر میں تیر مار دیتا تو سیدھا اسے لگتا، پھر میں واپس آیا تو ایسے ہی محسوس ہوتا تھا جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں۔ جب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا تو میں نے آپ کو ان لوگوں کی خبر بیان کی اور فارغ ہوا تو مجھے سردی نے آلیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنا ایک زائد کمبل اوڑھا دیا، جسے آپ اوڑھ کر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ میں صبح تک سویا رہا، جب صبح ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قُمْ یَا نَوْمَانُ ) ” بہت زیادہ سونے والے اٹھ جاؤ۔ “ [ مسلم، الجھاد والسیر، باب غزوۃ الأحزاب : ١٧٨٨ ]
ہُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا ١١- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي :- أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] - ( ب ل ی )- بلی الثوب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔- زلزل - : الاضطراب، وتكرير حروف لفظه تنبيه علی تكرير معنی الزّلل فيه، قال : إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة 1] ، وقال : إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج 1] ، وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً [ الأحزاب 11] ، أي : زعزعوا من الرّعب .- التزلزل اس کے معنی اضطراب کے ہیں اور اس میں تکرار حروف تکرار معنی پر دال ہے قرآن میں ہے : ۔ إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة 1] جب زمین بڑے زور سے ہلائی جائے گی ۔ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج 1] بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی ( سخت ) مصیبت ہوگی ۔ وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً [ الأحزاب 11] اور وہ ( دشمنوں کے رعب سے ) خوب ہی جھڑ جھڑائے گئے ۔- شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔
اس خوف کے موقع پر مسلمانوں کا پورا امتحان کیا گیا اور خوب مشقت اور سخت زلزلہ میں ڈالے گئے۔ اور جبکہ عبداللہ بن ابی بن سلول منافق اور اس کے ساتھی اور وہ لوگ جن کے دلوں میں نفاق اور حسد کا مرض ہے یعنی معتب بن قشیر اور اس کے ساتھ یوں کہہ رہے تھے کہ ہم سے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے فتوحات کے بارے میں محض دھوکہ ہی کا وعدہ کر رکھا ہے۔
آیت ١١ ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْازِلْزَالًا شَدِیْدًا ” اس وقت اہل ایمان کو خوب آزما لیا گیا اور وہ شدت کے ساتھ جھنجھوڑ ڈالے گئے۔ “- اس شدید آزمائش کا نتیجہ یہ نکلا کہ منافقین کے اندر کا خبث ان کی زبانوں پر آگیا۔
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :21 ایمان لانے والوں سے مراد یہاں وہ سب لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مان کر اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروؤں میں شامل کیا تھا ، جن میں سچے اہل ایمان بھی شامل تھے اور منافقین بھی ۔ اس پیراگراف میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے گروہ کا مجموعی طور پر ذکر فرمایا ہے ۔ اس کے بعد کے تین پیرا گرافوں میں منافقین کی روش پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔ پھر آخر کے دو پیراگراف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین صادقین کے بارے میں ہیں ۔