Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا وعدہ ایک فریب تھا۔ یہ تقریباً ستر منافقین تھے جن کی زبانوں پر وہ بات آگئی جو دلوں میں تھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٥] منافقوں کے مسلمانوں کو طعنے :۔ جب بنو قریظہ بھی مسلمانوں سے بدعہدی پر آمادہ ہوگئے تو اب مسلمانوں کے لئے اندر اور باہر ہر طرف دشمن ہی دشمن تھے۔ اس تشویشناک صورت حال میں منافقوں نے مسلمانوں ہی کو یہ طعنے دینا شروع کردیئے کہ تم تو ہمیں یہ بتاتے تھے کہ ہمیں قیصر و کسریٰ کے خزانے ملیں گے اور یہاں یہ صورت حال ہے کہ رفع حاجت کو جانے میں بھی جان کی سلامتی نظر نہیں آتی دراصل منافقوں کا خیال کچھ ایسا تھا کہ بس ان کے ایمان کا دعویٰ کرنے کی دیر ہے کہ آسمان سے فرشتے اتر پڑیں گے۔ اور ان کی تاج پوشی کی رسم ادا کریں گے۔ انھیں انگلی تک بھی ہلانے کی نوبت نہ آئے گی۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ ایمان لانے کے بعد انھیں سخت آزمائشوں کے دور سے گزرنا ہوگا۔ مصائب کے پہاڑ ان پر ٹوٹیں گے اور انھیں سردھڑ کی بازی لگانا پڑے گی۔ تب کہیں جاکر اللہ کی مدد آتی ہے۔ البتہ اس کے وعدہ کے مطابق آتی ضرور ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ ۔۔ :” يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا “ سے لے کر آیت (٢٧) تک کی آیات غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنو قریظہ کے بعد نازل ہوئیں۔ ان میں دونوں جنگوں کا تذکرہ ہوا ہے۔ پچھلی آیت تک ایمان والوں کے خوف، آزمائش اور سخت جھنجوڑے جانے کا ذکر ہوا ہے، جس کے دوران ان کے دلوں میں طرح طرح کے گمان بھی آتے رہے، مگر ان کی زبان پر کفر یا مایوسی کا کوئی لفظ نہیں آیا۔ اب اس دوران منافقین کے رویے اور ان کی منافقانہ باتوں کا ذکر ہوتا ہے، جن سے ان کا نفاق کھل کر سب کے سامنے آگیا۔- 3 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ساتھ ان لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جن کے دلوں میں بیماری ہے۔ سوال یہ ہے کہ منافقین کے دلوں میں بھی تو بیماری ہے، جیسا کہ سورة بقرہ میں فرمایا : (فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ) [ البقرۃ : ١٠ ] ” ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے۔ “ تو یہاں منافقین کے بعد ” الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ“ سے کون لوگ مراد ہیں ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں منافقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو پکے منافق تھے، جیسے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی۔ ان کے متعلق جو سورة بقرہ میں ” فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ“ فرمایا ہے، وہاں ” مرضٍ “ کی ” تنوین “ تعظیم و تہویل کے لیے ہے، اس لیے وہاں مراد یہ ہے کہ ان کے دلوں میں ایک بھاری بیماری ہے۔ اس آیت میں ” الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ابھی نفاق میں پختہ نہیں ہوئے تھے، بلکہ ان کے دلوں میں شک و شبہ اور نفاق کی کچھ بیماری تھی۔ گویا یہاں ” مرض “ میں تنوین تنکیر و تبعیض کے لیے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ) [ الحج : ١١ ] ” اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پر کرتا ہے۔ “ غرض اس موقع پر صرف پکے ایمان والے ثابت قدم رہے۔ رہے منافقین یا ڈھلمل یقین والے، تو ان سب کا نفاق کھل کر سامنے آگیا۔- مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا : جنگ خندق کے دوران رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو کئی بشارتیں دی تھیں۔ خندق کھودنے کے دوران ایک چٹان جو کھدائی میں رکاوٹ بن گئی تھی، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کدال ماری تو وہ تین ضربوں میں تین ٹکڑے ہوگئی اور ہر ضرب پر اس سے ایک چمک نکلی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پہلی ضرب کے ساتھ مجھے کسریٰ کے شہر اور ان کے اردگرد کے شہر اور بہت سے شہر دکھائے گئے، جنھیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ “ وہاں موجود صحابہ نے کہا : ” یا رسول اللہ دعا کیجیے اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر فتح عطا فرمائے، ان کے گھر ہمیں بطور غنیمت عطا کرے اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں برباد کرے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کردی اور فرمایا : ” پھر میں نے دوسری ضرب لگائی تو قیصر کے شہر اور ان کے اردگرد کی بستیاں میرے سامنے لائی گئیں، یہاں تک کہ میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ ہمیں ان پر فتح عطا فرمائے، ان کے گھر ہمیں بطور غنیمت عطا فرمائے اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں برباد کرے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کردی اور فرمایا : ” پھر میں نے تیسری ضرب ماری تو حبشہ کے شہر اور ان کے اردگرد کی بستیاں میرے سامنے لائیں گئیں، حتیٰ کہ میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ “ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” حبشیوں کو اپنے حال پر رہنے دو جب تک وہ تمہیں تمہارے حال پر رہنے دیں اور ترکوں کو کچھ نہ کہو جب تک وہ تمہیں کچھ نہ کہیں۔ “ [ نساءي، الجہاد، باب غزوۃ الترک والحبشۃ : ٣١٧٨، و قال الألباني حسن ] - جب مدینہ کو کفار نے ہر طرف سے گھیر لیا اور یہودیوں کی عہدشکنی کی وجہ سے مدینہ کے اندر سے بھی ہر وقت حملے کا خطرہ پیدا ہوگیا، تو اس وقت مسلمانوں کے لیے مزید پریشانی کا باعث یہ بات ہوئی کہ منافقین اور کچے ایمان والے لوگوں نے ایسی باتیں کہنا شروع کردیں جن سے لوگوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں اور بددلی پھیل جائے، مثلاً یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ہمیں قیصرو کسریٰ کے شہر فتح ہونے کی بشارتیں سناتے تھے، جبکہ اب ہماری یہ حالت ہے کہ ہم قضائے حاجت کے لیے بھی باہر نہیں جاسکتے۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدے کیے تھے سب دھوکا تھے۔ دراصل منافقین کا خیال یہ تھا کہ بس ایمان کا دعویٰ کرنے کی دیر ہے، آسمان سے فرشتے اتریں گے اور انھیں فتح حاصل ہوجائے گی، انھیں انگلی تک نہیں ہلانا پڑے گی، حالانکہ ایمان کے بعد آزمائش تو اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، تاکہ کھرے کھوٹے الگ الگ ہوجائیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” بعض منافق کہنے لگے، پیغمبر کہتا ہے کہ میرا دین پہنچے گا مشرق مغرب، یہاں جائے ضرور (قضائے حاجت) کو نہیں نکل سکتے۔ مسلمان کو چاہیے اب بھی نا امیدی کے وقت بےایمانی کی باتیں نہ بولے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

منافقین کی طعنہ زنی اور مسلمانوں کا بےنظیر یقین ایمانی :- اس وقت جو منافقین خندق کی کھدائی میں شامل تھے، وہ کہنے لگے کہ تمہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پر حیرت و تعجب نہیں ہوتا۔ وہ تمہیں کیسے باطل اور بےبنیاد وعدے سنا رہے ہیں کہ یثرب میں خندق کی گہرائی کے اندر انہیں حیرہ اور مدائن کسریٰ کے محلات نظر آ رہے ہیں، اور یہ کہ تم لوگ ان کو فتح کرو گے۔ ذرا اپنے حال کو تو دیکھو کہ تمہیں اپنے تن بدن کا تو ہوش نہیں، پیشاب پاخانے کی ضرورت پوری کرنے کی مہلت نہیں، تم ہو جو کسریٰ وغیرہ کے ملک کو فتح کرو گے۔ اس واقعہ پر آیات مذکور الصدر میں یہ نازل ہوا (آیت) اذایقول المنفقون والذین فی قلوبہم مرض ما وعدنا اللہ و رسولہ الاغروراً ، اس آیت میں الذین فی قلوبہم مرض میں بھی انہی منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے جن کے دلوں میں نفاق کا مرض چھپا ہوا تھا۔- غور کیجئے کہ اس وقت مسلمانوں کے ایمان اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر پر پورے یقین کا کیسا امتحان تھا کہ ہر طرف سے کفار کے نرغہ اور خطرے میں ہیں، خندق کھودنے کے لئے مزدور اور خادم نہیں، خود ہی محنت ایسی حالت میں برداشت کر رہے ہیں کہ سخت سردی نے سب کو پریشان کر رکھا ہے۔ ہر طرف خوف ہی خوف ہے۔ بظاہر اسباب اپنے بچاؤ اور بقاء پر یقین کرنا بھی آسان نہیں، دنیا کی عظیم سلطنت روم وکسریٰ کی فتوحات کی خوش خبری پر یقین کس طرح ہو ؟ مگر ایمان کی قیمت سب اعمال سے زیادہ اسی بنا پر ہے کہ اسباب و حالات کے سراسر خلاف ہونے کے وقت بھی ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں کوئی شک وشبہ پیدا نہ ہوا۔- واقعہ مذکورہ میں امت کے لئے خاص ہدایت کہ بڑوں کو چھوٹوں کی ہر تکلیف ومشقت میں شامل رہنا چاہئے :- ایسے جاں نثار خادم تھے جو کسی حال میں یہ نہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی اس مزدور کی محنت شاقہ میں ان کے شریک ہوں۔ مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کی دل جوئی اور امت کی تعلیم کے لئے اس محنت و مزدوری میں برابر کا حصہ لیا۔ صحابہ کرام کی جانثاری، آپ کے اوصاف کمال اور نبوت و رسالت کی بنیاد پر تو تھی ہی، مگر ظاہر اسباب میں ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ہر محنت و مشقت اور تنگی و تکلیف میں آپ سب عوام کی طرح ان میں شریک ہوتے تھے۔ حاکم و محکوم، بادشاہ و رعیت اور صاحب اقتدار عوام کی تفریق کا کوئی تصور وہاں نہ پیدا ہوتا۔ اور جب سے مخلوق اسلام نے اس سنت کو ترک کیا اس وقت سے یہ تفرقے پھوٹے، اور طرح طرح کے فتنے اپنے دامن میں لائے۔- مشکلات پر عبور حاصل کرنے کا نسخہ :- واقعہ مذکورہ میں اس ناقابل تسخیر چٹان پر ضرب لگانے کے ساتھ آیت قرآن (آیت) تمت کلمة ربک صدقاً وعدلاً لا مبدل لکلمة تلاوت فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ کسی مشکل کو حل کرنے کے لئے اس آیت کی تلاوت ایک مجرب نسخہ ہے۔- صحابہ کرام کا ایثار اور تعاون و تناصر :- اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ خندق کی کھدائی کے لئے ہر چالیس گز پر دس آدمی مامور تھے، مگر یہ ظاہر ہے کہ بعض لوگ قوی اور جلد کام کرلینے والے ہوتے ہیں۔ صحابہ کرام میں سے جن حضرات کا اپنا حصہ کھدائی کا پورا ہوجاتا تو یہ سمجھ کر خالی نہ بیٹھتے تھے کہ ہماری ڈیوٹی پوری ہوگئی، بلکہ دوسرے صحابہ جن کا حصہ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا ان کی مدد کرتے تھے۔ (قرطبی، مظہری)- ساڑھے تین میل لمبی خندق چھ دن میں مکمل ہوگئی :- صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جدوجہد اور کوشش کا نتیجہ چھ روز میں سامنے آ گیا، کہ اتنی طویل اور چوڑی اور گہری خندق کی چھ روز میں تکمیل ہوگئی۔ (مظہری) - حضرت جابر کی دعوت میں ایک کھلا ہوا معجزہ :- اسی خندق کی کھدائی کے دوران وہ مشہور واقعہ پیش آیا کہ ایک روز حضرت جابر نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ کر یہ محسوس کیا کہ بھوک کے سبب آپ متاثر ہو رہے ہیں اپنی اہلیہ سے جا کر کہا کہ تمہارے پاس کچھ ہو تو پکا لو، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھوک کا اثر دیکھا نہیں جاتا۔ اہلیہ نے بتلایا کہ ہمارے گھر میں ایک صاع بھر جو رکھے ہیں میں ان کو پیس کر آٹا بناتی ہوں۔ ایک صاع ہمارے وزن کے اعتبار سے تقریباً ساڑھے تین سیر کا ہوتا ہے۔ اہلیہ پیسنے پکانے میں لگی، گھر میں ایک بکری کا بچہ تھا حضرت جابر نے اس کو ذبح کر کے گوشت تیار کیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلانے کے لئے چلے۔ تو اہلیہ نے پکار کر کہا کہ دیکھئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بہت بڑا مجمع صحابہ کا ہے، صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح تنہا بلا لائیں، مجھے رسوا نہ کیجئے کہ صحابہ کرام کا بڑا مجمع چلا جائے۔ حضرت جابر نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوری حقیقت حال عرض کردی کہ صرف اتنا کھانا ہے، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورے لشکر میں اعلان فرما دیا کہ چلو جابر کے گھر دعوت ہے۔ حضرت جابر حیران تھے۔ گھر پہنچے تو اہلیہ نے سخت پریشانی کا اظہار کیا اور پوچھا کہ آپ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اصل حقیقت اور کھانے کی مقدار بتلا دی تھی ؟ جابر نے فرمایا کہ ہاں میں بتلا چکا ہوں تو اہلیہ محترمہ مطمئن ہوئیں کہ پھر ہمیں کچھ فکر نہیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مالک ہیں جس طرح چاہیں کریں۔- واقعہ کی تفصیل اس جگہ غیر ضروری ہے، اتنا نتیجہ معلوم کرلینا کافی ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دست مبارک سے روٹی اور سالن سب کو دینے اور کھلانے کا اہتمام فرمایا، اور پورے لشکر نے شکم سیر ہو کر کھایا۔ اور حضرت جابر فرماتے ہیں کہ سب مجمع کے فارغ ہونے کے بعد بھی نہ ہماری ہنڈیا میں کچھ گوشت کم نظر آتا تھا اور نہ گوندھے ہوئے آٹے میں کوئی کمی معلوم ہوتی تھی۔ ہم سب گھروالوں نے بھی شکم سیر ہو کر کھایا باقی پڑوسیوں میں تقسیم کردیا۔- اس طرح چھ روز میں جب خندق سے فراغت ہوگئی تو احزاب کا لشکر آپہنچا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے جبل سلع کو اپنی پشت کی طرف رکھ کر فوج کی صف بندی کردی۔- یہود بنی قریظہ کی عہد شکنی اور احزاب کے ساتھ شرکت :- اس وقت دس بارہ ہزار کے باسامان لشکر کے ساتھ تین ہزار بےسروسامان لوگوں کا مقابلہ بھی عقل و قیاس میں آنے کی چیز نہ تھی اس پر ایک اور نیا اضافہ ہوا کہ احزاب میں قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب نے جس نے سب کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی دشمنی پر جمع کرنے میں بڑا کام کیا تھا، مدینہ پہنچ کر یہود کے قبیلہ بنو قریظہ کو بھی اپنے ساتھ ملانے کا منصوبہ بنایا۔ بنو قریظہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مابین ایک صلح نامہ پر دستخط ہوچکے تھے اور معاہدہ مکمل ہو کر ایک دوسرے سے بےفکر تھے۔ بنو قریظہ کا سردار کعب بن اسد تھا۔ حیی بن اخطب اس کے پاس پہنچا۔ جب کعب کو اس کے آنے کی خبر ملی تو اپنے قلعہ کا دروازہ بند کرلیا کہ حیی اس تک نہ پہنچ سکے۔ مگر حیی بن اخطب نے آوازیں دیں اور دروازہ کھولنے پر اصرار کیا۔ کعب نے اندر ہی سے جواب دے دیا کہ ہم تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صلح کرچکے ہیں، اور ہم نے آج تک ان کی طرف سے معاہدہ کی پابندی اور صدق و سچائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا، اس لئے ہم اس معاہدہ کے پابند ہیں، آپ کے ساتھ نہیں آسکتے۔ دیر تک حیی بن اخطب دروازہ کھولنے اور کعب سے باتیں کرنے پر اصرار کرتا رہا اور یہ اندر سے ہی انکار کرتا رہا۔ مگر بالآخر جب کعب کو بہت عار دلایا تو اس نے دروازہ کھول کر حیی کو بلایا اس نے بنو قریظہ کو وہ سبز باغ دکھائے کہ بالآخر کعب اس کی باتوں میں آ گیا اور احزاب میں شرکت کا وعدہ کرلیا۔ اور کعب نے جب اپنے قبیلہ کے دوسرے سرداروں کو یہ بات بتلائی تو سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ تم نے غضب کیا کہ مسلمانوں سے بلا وجہ عہد شکنی کی اور ان کے ساتھ لگ کر اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیا۔ کعب بھی ان کی بات سے متاثر ہوا اور اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کیا۔ مگر اب بات اس کے قبضہ سے نکل چکی تھی اور بالآخر یہی عہد شکنی بنو قریظہ کی ہلاکت و بربادی کا سبب بنی جس کا ذکر آگے آئے گا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو اس کی اطلاع ملی تو اس وقت میں ان کی عہد شکنی سے سخت صدمہ پہنچا اور بہت بڑی فکر اس کی لاحق ہوگئی کہ احزاب کے راستہ پر تو خندق کھودی گئی تھی، مگر یہ لوگ تو مدینہ کے اندر تھے، ان سے بچاؤ کیسے ہو۔ قرآن کریم میں جو اس جملہ کے متعلق فرمایا ہے کہ لشکر احزاب کے کفار تم پر چڑھ آئے تھے (آیت) من فوقکم ومن اسفل منکم اس کی تفسیر میں بعض ائمہ تفسیر نے یہی فرمایا ہے کہ فوق کی جانب سے مراد بنو قریظہ ہیں اور اسفل سے آنے والے باقی احزاب ہیں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عہد شکنی کی حقیقت اور صحیح صورت حال معلوم کرنے کے لئے انصار کے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ اور قبیلہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ کو بصورت وفد کعب کے پاس بھیجا کہ اس سے گفتگو کریں اور یہ ہدایت دے دی کہ اگر عہد شکنی کا واقعہ غلط ثابت ہوا تو سب صحابہ کے سامنے کھل کر بیان کردینا اور صحیح ثابت ہو تو آ کر گول مول بات کہنا جس سے ہم سمجھ لیں اور عام صحابہ کرام میں سراسیمگی پیدا نہ ہو۔ - یہ دونوں بزرگ سعد نامی وہاں پہنچے تو عہد شکنی کے سامان کھلے دیکھے۔ ان کے اور کعب کے درمیان سخت کلامی بھی ہوئی، واپس آ کر حسب ہدایت گول مول بات کہہ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عہد شکنی کا واقعہ صحیح ہونے سے باخبر کردیا۔- اس وقت جب کہ یہود کا قبیلہ بنو قریظہ جو مسلمانوں کا حلیف تھا وہ بھی برسر جنگ آ گیا تو جو نفاق کے ساتھ مسلمانوں میں شامل تھے ان کا نفاق بھی کھلنے لگا۔ بعض نے تو کھل کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف باتیں کہنا شروع کردیں، جیسا کہ اوپر گزرا (آیت) اذیقول المنفقون، اور بعض نے حیلے بہانے بنا کر میدان جنگ سے بھاگ جانے کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگی جس کا ذکر آیات مذکورہ (ان بیوتنا عورة) میں آیا ہے۔- اب محاذ جنگ کی یہ صورت تھی کہ خندق کی وجہ سے احزاب کا لشکر اندر نہ آسکتا تھا۔ اس کے دوسرے کنارہ پر مسلمانوں کا لشکر تھا۔ دونوں میں ہر وقت تیر اندازی کا سلسلہ رہتا تھا۔ اسی حال میں تقریباً ایک مہینہ ہوگیا کہ نہ کھل کر کوئی فیصلہ کن جنگ ہوتی تھی اور نہ کسی وقت بےفکری، دن رات صحابہ کرام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خندق کے کنارے اس کی حفاظت کرتے تھے۔ اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی بنفس نفیس اس محنت ومشقت میں شریک تھے، مگر آپ پر یہ بات بہت شاق تھی کہ صحابہ کرام سب کے سب سخت اضطراب اور بےچینی میں ہیں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک جنگی تدبیر :- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم میں یہ بات آ چکی ہے کہ قبیلہ غطفان کے رئیس نے ان یہودیوں کے ساتھ شرکت خیبر کے پھل اور کھجور کی طمع میں کی ہے۔ آپ نے غطفان کے دو سردار عیینہ ابن حصن اور ابو الحارث بن عمرو کے پاس قاصد بھیجا کہ ہمیں تمہیں مدینہ طیبہ کا ایک تہائی پھل دیں گے، اگر تم اپنے ساتھیوں کو لے کر میدان سے واپس چلے جاؤ۔ یہ گفتگو درمیان میں تھی اور دونوں سردار راضی ہوچکے تھے قریب تھا کہ معاہدہ صلح پر دستخط ہوجائیں، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسب عادت ارادہ کیا کہ صحابہ کرام سے اس معاملہ میں مشورہ لیں۔ قبیلہ اوس و خزرج کے دو بزرگ سعدین یعنی سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ کو بلا کر ان سے مشورہ لیا۔- حضرت سعد کی غیرت ایمانی اور عزم شدید :- دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کو اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا ہے تو ہمارے کچھ کہنے کی مجال نہیں ہم قبول کریں گے ورنہ بتائیں کہ یہ آپ کی طبعی رائے ہے۔ یا آپ نے ہمیں مشقت و تکلیف سے بچانے کے لئے یہ تدبیر کی ہے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہ امر الٰہی اس کا ہے، اور نہ میری اپنی طبیعت کا تقاضا ہے بلکہ صرف تمہاری مصیبت و تکلیف کو دیکھ کر یہ صورت اختیار کی ہے، کیونکہ تم لوگ ہر طرف سے گھرے ہوئے ہو۔ میں نے چاہا فریق مقابل کی قوت کو اس طرح فوراً توڑ دیا جائے۔ حضرت سعد بن معاذ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم جس وقت بتوں کو پوجتے تھے اللہ تعالیٰ کو نہ پہچانتے تھے نہ اس کی عبادت کرتے تھے، بجز اس کے کہ وہ ہمارے مہمان ہوں، اور مہمانی کے طور پر ہم ان کو کھلا دیں یا پھر ہم سے خرید کرلے جائیں۔ آج جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی معرفت عطا فرمائی اور اسلام کا اعزاز عطا فرمایا، کیا آج ہم ان لوگوں کو اپنا پھل اور اپنے اموال دے دیں گے، ہمیں ان کی مصالحت کی کوئی حاجت نہیں، ہم تو ان کو تلوار کے سوا کچھ نہیں دیں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد کی اولوالعزمی اور غیرت ایمانی کو دیکھ کر اپنا یہ ارادہ چھوڑ دیا اور فرمایا کہ تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ سعد نے صلح نامہ کا کاغذ ان کے ہاتھوں سے لے کر تحریر مٹا دی، کیونکہ ابھی اس پر دستخط نہیں ہوئے تھے۔ غطفان کے سردار عیینہ اور حارث جو خود اس صلح کے لئے تیار ہو کر مجلس میں موجود تھے، صحابہ کرام کی یہ قوت وشدت دیکھ کر خود بھی اپنے دلوں میں متزلزل ہوگئے۔- حضرت سعد بن معاذ کا زخمی ہونا اور ان کی دعا :- ادھر خندق کے دونوں طرفوں سے تیر اندازی اور پتھراؤ کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت سعد بن معاذ، بنی حارثہ کے قلعہ میں جہاں عورتوں کو محفوظ کردیا گیا تھا، اپنی والدہ کے پاس گئے تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں بھی اس وقت اسی قلعہ میں تھی، اور عورتوں کے پردے کے احکام اس وقت تک نہ آئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ سعد بن معاذ ایک چھوٹی زرہ پہنے ہوئے ہیں جس میں سے ان کے ہاتھ نکل رہے تھے اور ان کی والد ان سے کہہ رہی ہیں کہ جاؤ جلدی کرو، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لشکر میں شامل ہوجاؤ۔ میں نے ان کی والدہ سے کہا کہ ان کے لئے کوئی بڑی زرہ ہوتی تو بہتر تھا۔ مجھے ان کے ہاتھ پاؤں کا خطرہ ہے، جو زرہ سے نکلے ہوئے ہیں۔ والدہ نے کہا کچھ مضائقہ نہیں اللہ کو جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔- حضرت سعد بن معاذ لشکر میں پہنچے تو ان کو تیر لگا جس نے ان کی رگ الحل کو کاٹ ڈالا۔ اس وقت حضرت سعد نے یہ دعا کی کہ یا اللہ اگر آئندہ بھی قریش کا کوئی حملہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ پر ہونا مقدر ہے تو مجھے اس کے لئے زندہ رکھئے، کیونکہ اس سے زیادہ میری کوئی تمنا نہیں کہ میں اس قوم سے مقابلہ کروں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذائیں پہنچائیں، وطن سے نکالا اور آپ کی تکذیب کی۔ اور اگر آئندہ آپ کے علم میں جنگ کا یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے تو آپ مجھے موت شہادت عطا فرمائیں، مگر اس وقت تک مجھے موت نہ آئے جب تک کہ بنی قریظہ سے ان کی غداری کا انتقام لے کر میری آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوجائیں۔- حق تعالیٰ نے آپ کی یہ دونوں دعائیں قبول فرمائیں۔ اس واقعہ احزاب کو کفار کا آخری حملہ بنادیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کی فتوحات کا دور شروع ہوا۔ پہلے خیبر پھر مکہ مکرمہ اور پھر دوسرے بلاد فتح ہوئے۔ اور بنو قریظہ کا واقعہ آگے آتا ہے کہ وہ گرفتار کر کے لائے گئے اور ان کے معاملہ کا فیصلہ حضرت سعد بن معاذ ہی کے سپرد کیا گیا۔ ان کے فیصلہ کے مطابق ان کے جوان قتل کئے گئے اور عورتیں بچے قید کر لئے گئے۔- اس واقعہ احزاب میں صحابہ کرام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات بھر خندق کی دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی۔ اگر کسی وقت آرام کے لئے لیٹے بھی تو ذرا کسی طرف سے شورو شغب کی آواز آئی تو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلحہ باندھ کر میدان میں جاتے تھے۔ حضرت ام سلمہ ام المومنین فرماتی ہیں کہ ایک رات میں کئی کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ آپ ذرا آرام کرنے کے لئے تشریف لائے اور کوئی آواز سنی تو فوراً باہر تشریف لے گئے، پھر آرام کے لئے ذرا کمر لگائی اور پھر کوئی آواز سنی تو باہر تشریف لے گئے۔- ام المومنین حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں بہت سے غزوات غزوہ مریسیع، خیبر، حدیبیہ، فتح مکہ اور غزوہ حنین میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہی ہوں، آپ پر کسی غزوہ میں ایسی شدت اور مشقت نہیں ہوئی، جیسی غزوہ خندق میں پیش آئی۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کو زخم بھی بہت لگے، سردی کی شدت سے بھی تکلیف اٹھائی، اس کے ساتھ کھانے پینے کی ضروریات میں بھی تنگی تھی۔ - (مظہری)- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار نمازیں اس جہاد میں قضا ہوئیں :- ایک روز مقابل کفار نے یہ طے کیا کہ سب مل کر یکبارگی حملہ کرو اور کسی طرح خندق کو عبور کر کے آگے پہنچو۔ یہ طے کر کے بڑی بےجگری سے مسلمانوں کے مقابلہ میں آگئے، اور سخت تیز اندازی کی۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو دن بھر ایسا مشغول رہنا پڑا کہ نماز کے لئے بھی ذرا سی مہلت نہ ملی، چار نمازیں عشاء کے وقت میں پڑھی گئیں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاء - جب مسلمانوں پر شدت کی انتہا ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احزاب کفار کے لئے بد دعا کی اور تین روز پیر، منگل، بدھ میں مسجد فتح کے اندر مسلسل احزاب کی شکست و فرار اور مسلمانوں کی فتح کے لئے دعا کرتے رہے۔ تیسرے روز بدھ کے دن ظہر و عصر کے درمیان دعا قبول ہوئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاداں وفرحاں صحابہ کرام کے پاس تشریف لائے۔ فتح کی بشارت سنائی۔ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ اس وقت کے بعد سے کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پیش نہیں آئی۔ (مظہری) - کشود کار اور فتح کے اسباب کا آغاز :- دشمنوں کی صفوف میں قبیلہ غطفان ایک بڑی طاقت تھی۔ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ نے انہی میں سے ایک شخص نعیم ابن مسعود کے دل میں ایمان ڈال دیا، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر انہوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ اور بتلایا کہ ابھی تک میری قوم میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں، اب مجھے فرمائیں کہ میں اسلام کی کیا خدمت کروں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم اکیلے آدمی یہاں کوئی خاص کام نہ کرسکو گے، اپنی قوم میں واپس جا کر انہی میں مل کر اسلام سے مدافعت کا کوئی کام کرسکو تو کرو۔ نعیم ابن مسعود ذہین سمجھدار آدمی تھے۔ ایک منصوبہ دل میں بنا لیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی اجازت چاہی کہ میں ان لوگوں میں جا کر جو مصلحت دیکھوں کہوں آپ نے اجازت دے دی۔- نعیم بن مسعود یہاں سے بنو قریظہ کے پاس گئے جن کے ساتھ زمانہ جاہلیت میں ان کے قدیم تعلقات تھے۔ ان سے کہا کہ اے بنو قریظہ تم جانتے ہو کہ میں تمہارا قدیم دوست ہوں۔ انہوں نے اقرار کیا کہ ہمیں آپ کی دوستی میں کوئی شبہ نہیں، اس کے بعد حضرت نعیم ابن مسعود نے بنو قریظہ کے سرداروں سے ناصحانہ اور خیر خواہانہ انداز میں سوال کیا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ قریش مکہ ہوں یا ہمارا قبیلہ غطفان یا دوسرے قبائل یہود وغیرہ، ان کا یہاں وطن نہیں، یہ اگر شکست کھا کر بھاگ جائیں تو ان کا کوئی نقصان نہیں، تمہارا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ مدینہ تمہارا وطن ہے، تمہاری عورتیں اور اموال سب یہاں ہیں۔ اگر تم نے ان لوگوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کی اور بعد میں یہ لوگ شکست کھا کر بھاگ گئے، تو تمہارا کیا بنے گا، کیا تم تنہا مسلمانوں کا مقابلہ کرسکو گے ؟- اس لئے میں تمہاری خیر خواہی سے یہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم لوگ ان کے ساتھ اس وقت تک شریک جنگ نہ ہو جب تک یہ لوگ اپنے خاص سرداروں کی ایک خاص تعداد تمہارے پاس رہن نہ رکھ دیں تاکہ وہ تم کو مسلمانوں کے حوالہ کر کے نہ بھاگ جائیں بنو قریظہ کو ان کا یہ مشورہ بہت اچھا معلوم ہوا، اس کی قدر کی اور کہا کہ آپ نے بہت اچھا مشورہ دیا۔- اس کے بعد نعیم بن مسعود قریشی سرداروں کے پاس پہنچے، اور ان سے کہا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں آپ کا دوست ہوں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بری ہوں، مجھے ایک خبر ملی ہے تمہاری خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ میں وہ خبر تمہیں پہنچا دوں بشرطیکہ آپ لوگ میرے نام کا اظہار نہ کریں۔ وہ خبر یہ ہے کہ یہود بنی قریظہ تمہارے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد اپنے فیصلہ پر نادم ہوئے اور اس کی اطلاع محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ کہہ کر بھیج دی ہے کہ کیا آپ ہم سے اس شرط پر راضی ہو سکتے ہیں کہ ہم قریش اور غطفان کے چند سرداروں کو آپ کے حوالے کردیں کہ آپ ان کی گردن مار دیں، پھر ہم آپ کے ساتھ مل کر ان سے جنگ کریں۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بات کو قبول کرلیا ہے۔ اب بنو قریظہ تم سے بطور رہن کے تمہارے کچھ سرداروں کا مطالبہ کریں گے، اب آپ لوگ اپنے معاملہ کو سوچ لیں۔- اس کے بعد نعیم ابن مسعود اپنے قبیلہ غطفان میں گئے، اور ان کو یہی خبر سنائی۔ اس کے ساتھ ہی ابو سفیان نے قریش کی طرف سے عکرمہ بن ابی جہل کو اور غطفان کی طرف سے ورقہ ابن غطفان کو اس کام کے لئے مقرر کیا کہ وہ بنو قریظہ سے جا کر کہیں کہ اب ہمارا سامان جنگ بھی ختم ہو رہا ہے، اور ہمارے آدمی بھی مسلسل جنگ سے تھک رہے ہیں، ہم آپ کے معاہدے کے مطابق آپ کی امداد اور شرکت کے منتظر ہیں۔ بنو قریظہ نے ان کو اپنی قرار داد کے مطابق یہ جواب دیا کہ ہم تمہارے ساتھ جنگ میں اس وقت تک شریک نہیں ہوں گے جب تک تم دونوں قبیلوں کے چند سردار ہمارے پاس بطور رہن (یرغمال) کے نہ پہنچ جائیں۔ عکرمہ اور ورقہ نے یہ خبر ابوسفیان کو پہنچا دی تو قریش اور غطفان کے سرداروں نے یقین کرلیا کہ نعیم بن مسعود نے جو خبر دی تھی وہ صحیح ہے۔ اور بنو قریظہ سے کہلا بھیجا کہ ہم ایک آدمی بھی اپنا آپ کو نہیں دیں گے، پھر آپ کا دل چاہے تو ہمارے ساتھ جنگ میں شرکت کریں اور نہ چاہیں تو نہ کریں۔ بنو قریظہ کا یہ حال دیکھ کر اس بات پر جو نعیم ابن مسعود نے کہی تھی اور زیادہ یقین ہوگیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے دشمن گروہ میں سے ایک شخص کے ذریعہ ان کے آپس میں پھوٹ ڈال دی اور ان لوگوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔- اس کے ساتھ دوسری آسمانی افتاد ان پر یہ آئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سخت اور برفانی ہوا ان پر مسلط کردی، جس نے ان کے خیمے اکھاڑ پھینکے، ہنڈیاں چولہوں سے اڑا دیں۔ یہ تو ظاہری اسباب اللہ تعالیٰ نے ان کے پاؤں اکھاڑنے کے لئے پیدا فرما دیئے تھے اس پر مزید اپنے فرشتے بھیج دیئے جو باطنی طور پر ان کے دلوں پر رعب طاری کردیں، ان دونوں باتوں کا ذکر آیات مذکورہ کے شروع میں بھی اس طرح فرمایا گیا ہے (آیت) فارسلنا علیہم ریحاً وجنوداً ثم تروھا، ” یعنی ہم نے بھیج دی ان کے اوپر ایک تندرست ہوا اور بھیج دیئے فرشتوں کے لشکر “- اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اب ان لوگوں کے لئے بھاگ کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔- حضرت حذیفہ کا دشمن کے لشکر میں جانے اور خبر لانے کا واقعہ :- دوسری طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نعیم ابن مسعود کی کارگزاری اور احزاب کے درمیان پھوٹ کے واقعات کی خبر ملی تو ارادہ فرمایا کہ اپنا کوئی آدمی جا کر دشمن کے لشکر اور ان کے ارادوں کا پتہ لائے۔ مگر وہ سخت برفانی ہوا جو دشمن پر بھیجی گئی تھی بہرحال پورے مدینہ پر حاوی ہوئی، اور مسلمان بھی اس سخت سردی سے متاثر ہوئے۔ رات کا وقت تھا، صحابہ کرام دن بھر کی محنت و مقابلہ سے چور چور سخت سردی کے سبب سمٹے ہوئے بیٹھے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجمع کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کون ہے جو کھڑا ہو اور دشمن کے لشکر میں جا کر ان کی خبر لائے، اور اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائے، جاں نثار صحابہ کا مجمع تھا مگر حالات نے ایسا مجبور کر رکھا تھا کہ کوئی کھڑا نہیں ہوسکا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں مشغول ہوگئے اور کچھ دیر نماز میں مشغول رہنے کے بعد پھر مجمع کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہے کوئی شخص جو دشمن کے لشکر کی مجھے خبر لا دے اور اس کے عوض میں جنت حاصل کرے۔ اس مرتبہ بھی پورے مجمع میں سناٹا رہا، کوئی نہیں اٹھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر نماز میں مشغول ہوگئے اور کچھ دیر کے بعد پھر تیسری مرتبہ وہی خطاب فرمایا کہ جو ایسا کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ مگر پوری قوم دن بھر کے سخت تھکان اور کئی وقت کے فاقہ اور بھوک سے اور اوپر سے سردی کی شدت سے ایسی بےبس ہو رہی تھی کہ پھر بھی کوئی نہ اٹھا۔- حضرت حذیفہ بن یمان راوی حدیث فرماتے ہیں کہ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا نام لے کر فرمایا کہ حذیفہ تم جاؤ۔ حالت میری بھی سب جیسی تھی، مگر نام لے کر حکم دینے پر اطاعت کے سوا چارہ نہ تھا۔ میں کھڑا ہوگیا، اور سردی سے میرا تمام بدن کانپ رہا تھا۔ آپ نے اپنا دست مبارک میرے سر اور چہرے پر پھیرا اور فرمایا کہ دشمن کے لشکر میں جاؤ اور مجھے صرف خبر لا کردو اور میرے پاس واپس آنے سے پہلے کوئی کام نہ کرو۔ اور پھر آپ نے میری حفاظت کے لئے دعا فرمائی۔ میں نے اپنی تیر کمان اٹھائی اور اپنے کپڑے اپنے اوپر باندھ لئے اور ان کی طرف روانہ ہوگیا۔- جب یہاں سے روانہ ہوا تو عجیب ماجرا یہ دیکھا کہ خیمے کے اندر بیٹھے ہوئے جو سردی سے کپکپی طاری تھی وہ ختم ہوگئی، اور میں اس طرح چل رہا تھا جیسے کوئی گرم حمام کے اندر ہو، یہاں تک کہ میں ان کے لشکر میں پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ ہوا کے طوفان نے ان کے خیمے اکھاڑ دیئے تھے اور ہانڈیاں الٹ دی تھیں۔ ابو سفیان آگ کے پاس بیٹھ کر آگ سینک رہے تھے۔ میں نے یہ دیکھ کر اپنا تیر کمان مستحکم کیا اور ابوسفیان پر تیر پھینکنے ہی والا تھا کہ مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان یاد آ گیا۔ کہ کچھ کام وہاں سے واپس آنے تک نہ کرنا۔ ابو سفیان بالکل میری زد میں تھے، مگر اس فرمان کی بنا پر میں نے اپنا تیر الگ کرلیا۔- ابوسفیان حالات سے پریشان ہو کر واپسی کا اعلان کرنا چاہتے تھے، مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ قوم کے ذمہ داروں سے بات کریں۔ رات کی تاریکی اور سناٹے میں یہ خطرہ بھی تھا کہ کوئی جاسوس موجود ہو اور ان کی بات سن لے۔ اس لئے ابو سفیان نے یہ ہوشیاری کی کہ بات کرنے سے پہلے سارے مجمع کو کہا کہ ہر شخص اپنی برابر والے آدمی کو پہچان لے تاکہ کوئی غیر آدمی ہماری بات نہ سن سکے۔- حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ اب مجھے خطرہ ہوا کہ میری برابر کا آدمی جب مجھ سے پوچھے گا کہ تو کون ہے ؟ تو میرا راز کھل جائے گا۔ انہوں نے بڑی ہوشیاری اور دلیری سے خود مسابقت کر کے اپنے برابر والے آدمی کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر پوچھا تم کون ہو ؟ اس نے کہا تعجب ہے تم مجھے نہیں جانتے، میں فلاں ابن فلاں ہوں۔ وہ قبیلہ ہوازن کا آدمی تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت حذیفہ کو گرفتاری سے بچا دیا۔- ابو سفیان نے جب یہ اطمینان کرلیا کہ مجمع اپنا ہی ہے، کوئی غیر نہیں ہے تو اس نے پریشان کن حالات اور بنو قریظہ کی بد عہدی اور سامان جنگ ختم ہوجانے کے واقعات سنا کر کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ اب آپ سب واپس چلیں اور میں بھی واپس جا رہا ہوں اسی وقت لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور سب واپس جانے لگے۔- حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں یہاں سے واپس چلا تو ایسا محسوس ہوا کہ میرے گرد کوئی گرم حمام ہے جو مجھے سردی سے بچا رہا ہے۔ واپس پہنچا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز میں مشغول پایا۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو میں نے واقعہ کی خبر دی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس خبر مسرت سے خوش ہو کر ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ رات کی تاریکی میں آپ کے دندان مبارک چمکنے لگے۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنے قدموں میں جگہ دی اور جو چادر آپ اوڑھے ہوئے تھے اس کا ایک حصہ مجھ پر ڈال دیا، یہاں تک کہ میں سو گیا۔ جب صبح ہوگئی تو آپ نے ہی یہ کہہ کر مجھے بیدار فرمایا کہ قم یا نومان، ” کھڑا ہوجا اے بہت سونے والے “- آئندہ کفار کے حوصلے پست ہوجانے کی خوشخبری :- صحیح بخاری میں حضرت سلیمان بن صرد کی روایت ہے کہ احزاب کے واپس جانے کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ - ” یعنی اب وہ ہم پر حملہ آور نہ ہوں گے بلکہ ہم ان پر حملہ کریں گے اور ان کے ملک پر چڑھائی کریں گے “ (مظہری)- یہ ارشاد فرمانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام شہر مدینہ میں واپس آگئے، اور ایک مہینہ کے بعد مسلمانوں نے اپنے ہتھیار کھولے۔- تنبیہ :- حضرت حذیفہ (رض) کا یہ واقعہ صحیح مسلم میں ہے اور یہ مستقلاً ایک درس عبرت ہے، جو بہت سی ہدایات اور معجزات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مشتمل ہے۔ غور کرنے والے خود معلوم کرلیں گے، تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں۔- غزوہ بنو قریظہ :- ابھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام مدینہ میں واپس پہنچے ہی تھے کہ اچانک جبرائیل امین (علیہ السلام) حضرت دحیہ کلبی صحابی کی صورت میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اگرچہ آپ لوگوں نے اپنے ہتھیار کھول دیئے ہیں مگر فرشتوں نے اپنے ہتھیار نہیں کھولے، اللہ تعالیٰ کا آپ کو یہ حکم ہے کہ آپ بنو قریظہ پر حملہ کریں اور میں آپ سے آگے وہیں جا رہا ہوں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں اعلان کرنے کے لئے ایک منادی بھیج دی جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حکم لوگوں کو سنایا اور پہنچایا۔ لایصلین احد العصر الا فی بنی قریظة، ” یعنی کوئی آدمی عصر کی نماز نہ پڑھے جب تک کہ بنو قریظہ میں نہ پہنچ جائے۔ “- صحابہ کرام سب کے سب اس دوسرے جہاد کے لئے فوراً تیار ہو کر بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ میں عصر کا وقت آیا تو بعض حضرات نے حکم نبوی کے ظاہر کے موافق راستہ میں نماز عصر ادا نہیں کی، بلکہ منزل مقرر بنو قریظہ میں پہنچ کر ادا کی۔ اور بعض نے یہ سمجھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد عصر کے وقت میں بنو قریظہ پہنچ جانا ہے، ہم اگر نماز راستہ میں پڑھ کر عصر کے وقت میں وہاں پہنچ جائیں تو یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے منافی نہیں۔ انہوں نے نماز عصر اپنے وقت پر راستہ میں ادا کرلی۔- مجتہدین کے اختلاف میں کوئی جانب گناہ یا منکر نہیں ہوتی جس پر ملامت کی جائے :- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام کے اس اختلاف عمل کی خبر دی گئی، تو آپ نے دونوں فریق میں سے کسی کو ملامت نہیں فرمائی، بلکہ دونوں کی تصویب فرمائی۔ اس سے علماء امت نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ علمائے مجتہدین جو حقیقتاً مجتہد ہوں اور اجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہوں ان کے اقوال مختلفہ میں سے کسی کو گناہ اور منکر نہیں کہا جاسکتا، دونوں فریقوں کے لئے اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرنے میں ثواب لکھا جاتا ہے۔- بنو قریظہ سے جہاد کے لئے نکلنے کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھنڈا حضرت علی مرتضیٰ (رض) کے سپرد فرمایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے آنے کی خبر سن کر بنو قریظہ قلعہ بند ہوگئے۔ اسلامی لشکر نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا۔- بنو قریظہ کے رئیس کعب کی تقریر :- بنو قریظہ کا سردار کعب جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عہد توڑ کر احزاب کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، اس نے اپنی قوم کو جمع کر کے حالات کی نزاکت بیان کرتے ہوئے تین صورتیں عمل کی پیش کیں :- اول یہ کہ تم سب کے سب اسلام قبول کرو اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع ہوجاؤ کیونکہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم سب لوگ جانتے ہو کہ وہ حق پر ہیں، اور تمہاری کتاب تورات میں ان کی پیشن گوئی موجود ہے، جو تم پڑھتے ہو۔ اگر تم نے ایسا کرلیا تو دنیا میں اپنی جان و مال اور اولاد کو محفوظ کرلو گے اور آخرت بھی درست ہوجائے گی۔- دوسری صورت یہ ہے کہ تم اپنی اولاد اور عورتوں کو پہلے خود اپنے ہاتھ سے قتل کردو، اور پھر پوری طاقت سے مقابلہ کرو یہاں تک کہ تم بھی سب مقتول ہوجاؤ۔- تیسری صورت یہ ہے کہ یوم السبت (ہفتہ کے دن) تم مسلمانوں پر یکبارگی حملہ کردو، کیونکہ مسلمان جانتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں یوم السبت میں قتل حرام ہے، اس لئے وہ ہماری طرف سے اس دن میں بےفکر ہوں گے، ہم ناگہانی طور پر حملہ کریں تو ممکن ہے کہ کامیاب ہوجائیں۔- کعب رئیس قوم کی یہ تقریر سن کر قوم کے لوگوں نے جواب دیا کہ پہلی بات یعنی مسلمان ہوجانا یہ تو ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے، کیونکہ ہم تورات کو چھوڑ کر اور کسی کتاب کو نہ مانیں گے۔ رہی دوسری بات تو عورتوں بچوں نے کیا قصور کیا ہے کہ ہم ان کو قتل کردیں۔ باقی تیسری بات خود حکم تورات اور ہمارے مذہب کے خلاف ہے، یہ بھی ہم نہیں کرسکتے۔- اس کے بعد سب نے اس پر اتفاق کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور آپ ان کے بارے میں جو فیصلہ فرما دیں اس پر راضی ہوجائیں۔ انصاری صحابہ کرام میں جو لوگ قبیلہ اوس سے متعلق تھے ان کے اور بنو قریظہ کے درمیان قدیم زمانے میں معاہدہ رہا تھا تو اوسی صحابہ کرام نے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کردیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی ہو کہ میں ان کا معاملہ تمہارے ہی ایک سردار کے سپرد کر دوں۔ یہ لوگ اس پر راضی ہوگئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ تمہارے سردار سعد بن معاذ ہیں، اس کا فیصلہ میں ان کے سپرد کرتا ہوں۔ اس پر سب لوگ راضی ہوگئے۔- حضرت سعد بن معاذ کو واقعہ خندق میں تیر کا زخم شدید پہنچا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تیمار داری کے لئے مسجد کے احاطہ میں ایک خیمہ لگوا کر اس میں ٹھہرا دیا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق بنو قریظہ کے قیدیوں کا فیصلہ ان پر چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان میں سے جو جنگ کرنے والے جوان ہیں وہ قتل کردیئے جائیں اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں کے ساتھ جنگی قیدیوں کا معاملہ کیا جائے جو اسلام میں معروف ہے۔ یہی فیصلہ نافذ کردیا گیا، اور اس فیصلے کے فوراً بعد ہی حضرت سعد بن معاذ کے زخم سے خون بہہ پڑا، اسی میں ان کی وفات ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دونوں دعائیں قبول فرمائیں ایک یہ کہ آئندہ قریش کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی حملہ نہ ہوگا، دوسرے بنو قریظہ کی غداری کی سزا ان کو مل جائے وہ اللہ نے انہی کے ذریعہ دلوا دی۔- جن کو قتل کرنا تجویز ہوا تھا ان میں سے بعض مسلمان ہوجانے کی وجہ سے آزاد کردیئے۔ عطیہ قرظی جو صحابہ کرام میں معروف ہیں انہی لوگوں میں سے ہیں۔ انہی لوگوں میں زبیر بن باطا بھی تھے۔ ان کو حضرت ثابت بن قیس بن شماس صحابی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کر کے آزاد کرا دیا، جس کا سبب یہ تھا کہ زبیر بن باطا نے ان پر زمانہ جاہلیت میں ایک احسان کیا تھا۔ وہ یہ کہ جاہلیت کے زمانے کی جنگ بعاث میں ثابت بن قیس قید ہو کر زبیر بن باطا کے قبضہ میں آگئے تھے، زبیر بن باطا نے ان کے سر کے بال کاٹ کر ان کو آزاد کردیا قتل نہیں کیا تھا۔- احسان کے بدلے اور غیرت قومی کے دو عجیب نمونے :- حضرت ثابت بن قیس زبیر بن باطا کی رہائی کا حکم حاصل کر کے ان کے پاس گئے اور کہا کہ میں نے یہ اس لئے کیا ہے کہ تمہارے اس احسان کا بدلہ کر دوں، جو تم نے جنگ بعاث میں مجھ پر کیا تھا۔ زبیر بن باطا نے کہا کہ بیشک شریف آدمی دوسرے شریف کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا کرتا ہے۔ مگر یہ تو بتلاؤ کہ وہ آدمی زندہ رہ کر کیا کرے گا جس کے اہل و عیال نہ رہے ہوں۔ یہ سن کر ثابت بن قیس حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ان کے اہل و عیال کی جان بخشی کردی جائے، آپ نے قبول فرما لیا۔ زبیر بن باطا کو اس کی اطلاع دی تو یہ ایک قدم اور آگے بڑھے۔ کہ ثابت یہ تو بتلاؤ کہ کوئی انسان صاحب عیال کیسے زندہ رہے گا جب اس کے پاس کوئی مال نہ ہو۔ ثابت بن قیس پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور ان کا مال بھی ان کو دلوا دیا۔ یہاں تک تو ایک مومن کی شرافت اور احسان شناسی کا قضیہ تھا جو حضرت ثابت بن قیس کی طرف سے ہوا۔- اب دوسرا رخ سنئے کہ زبیر بن باطا کو جب اپنے اور اپنے اہل و عیال کی آزادی اور اپنے مال و متاع سب واپس مل جانے کا اطمینان ہوچکا تو اس نے حضرت ثابت بن قیس سے قبائل یہود کے سرداروں کے متعلق سوال کیا اور پوچھا کہ ابن ابی الحقیق کا کیا ہوا جس کا چہرہ چینی آئینہ جیسا تھا۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ قتل کردیا گیا۔ پھر پوچھا کہ بنی قریظہ کے سردار کعب بن قریظہ اور عمرو بن قریظہ کا کیا انجام ہوا ؟ انہوں نے بتلایا کہ یہ دونوں بھی قتل کردیئے گئے، پھر دو جماعتوں کے متعلق سوال کیا اس کے جواب میں ان کو خبر دی گئی کہ وہ سب قتل کردیئے گئے۔- یہ سن کر زبیر بن باطا نے حضرت ثابت بن قیس سے کہا کہ آپ نے اپنے احسان کا بدلہ پورا کردیا، اور اپنی ذمہ داری کا حق ادا کردیا، مگر میں اب اپنی زمین جائیداد کو ان لوگوں کے بعد آباد نہیں کروں گا، مجھے بھی انہی لوگوں کے ساتھ شامل کردو، یعنی قتل کر ڈالو۔ ثابت بن قیس نے اس کو قتل کرنے سے انکار کردیا، پھر اس کے اصرار پر کسی دوسرے مسلمان نے اس کو قتل کیا۔ (قرطبی)- یہ ایک کافر کی غیرت قومی تھی جس نے سب کچھ ملنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے بغیر زندہ رہنا پسند نہ کیا، ایک مومن ایک کافر کے یہ دونوں عمل ایک تاریخی یادگار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بنو قریظہ کی یہ فتح ہجرت کے پانچویں سال میں ماہ ذی قعدہ کے آخر اور ذی الحجہ کے شروع میں ہوئی ہے۔ (قرطبی)- تنبیہ :- غزوہ احزاب و بنو قریظہ کو اس جگہ کسی قدر تفصیل سے لانے کی ایک وجہ تو خود قرآن کریم کا ان کو تفصیل سے دو رکوع میں بیان فرمانا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ان واقعات میں زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق بہت سی ہدایات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات بینات اور بہت سی عبرتیں ہیں، جن کو اس قصے میں عنوانات دے کر واضح کردیا گیا ہے۔ اس پورے واقعہ کے معلوم کرلینے کے بعد آیات مذکورہ کی تفسیر کے لئے خلاصہ تفسیر مذکور کا دیکھ لینا کافی ہے، کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں رہتی، صرف چند باتیں قابل نظر ہیں۔- اول یہ کہ اس غزوہ میں مسلمانوں پر شدت اور مختلف قسم کی تکلیفوں میں مبتلا ہونے کا ذکر فرما کر اس اضطراب کے عالم میں ایک حال تو مومنین کا بتلایا گیا ہے کہ تظنون باللہ الظنونا، یعنی تم لوگ اللہ کے ساتھ مختلف قسم کے گمان کرنے لگے تھے۔ ان گمانوں سے مراد غیر اختیاری وساوس ہیں جو اضطراب کے وقت انسان کے دل میں آیا کرتے ہیں کہ موت اب آ ہی گئی، اب نجات کی صورت نہیں رہی وغیرہ وغیرہ۔ ایسے غیر اختیاری خطرات و وساوس نہ کمال ایمانی کے منافی ہیں نہ کمال ولایت کے۔ البتہ ان سے مصیبت و اضطراب کی شدت کا ضرور پتہ لگتا ہے۔ کہ صحابہ کرام جیسے جبل استقامت کے دلوں میں بھی وسوسے آنے لگے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا۝ ١٢- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] ونَيْفَقُ السَّرَاوِيلِ معروفٌ- نا فقاء الیربوع ہے یعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دود ھا نے ہوں نافق الیر بوع ونفق جنگی چوہیا اپنے مل کے دہانے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گئی اور اسی سے نفاق ہے جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَالنَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نیفق السراویل پا جامے کا نیفہ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - مرض - الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان :- الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ- [ النور 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] .- والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة .- نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] . وذلک نحو قوله : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] ويشبّه النّفاق والکفر ونحوهما من الرذائل بالمرض، إما لکونها مانعة عن إدراک الفضائل کالمرض المانع للبدن عن التصرف الکامل، وإما لکونها مانعة عن تحصیل الحیاة الأخرويّة المذکورة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] ، وإمّا لمیل النّفس بها إلى الاعتقادات الرّديئة ميل البدن المریض إلى الأشياء المضرّة، ولکون هذه الأشياء متصوّرة بصورة المرض قيل : دوي صدر فلان، ونغل قلبه . وقال عليه الصلاة والسلام :- «وأيّ داء أدوأ من البخل ؟» «4» ، ويقال : شمسٌ مریضةٌ: إذا لم تکن مضيئة لعارض عرض لها، وأمرض فلان في قوله : إذا عرّض، والتّمریض القیام علی المریض، وتحقیقه : إزالة المرض عن المریض کالتّقذية في إزالة القذی عن العین .- ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] اور نہ بیماروں پر ۔ دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] اور یہ ( قرآن پاک) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر بڑھے گا ۔ اور نفاق ، کفر وغیرہ اخلاق رذیلہ کی ( مجاز ) بطور تشبیہ مرض کہاجاتا ہے ۔ یا تو اس لئے کہ اس قسم کے اخلاق کسب فضائل سے مائع بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ بیماری جسم کو کامل تصرف سے روک دیتی ہے ۔ اور یا اس لئے اخروی زندگی سے محرومی کا سبب بنتے ہیں ۔ جس قسم کی زندگی کا کہ آیت کریمہ : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] اور ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے کاش کہ یہ لوگ سمجھتے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور یا رذائل کو اس چونکہ ایسے اخلاق بھی ایک طرح کا مرض ہی ہیں اس لئے قلب وصدر میں کینہ و کدورت پیدا ہونے کے لئے دوی صدر فلان وبخل قلبہ وغیر محاورات استعمال ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے : وای داء ادوء من ا لبخل اور بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہوسکتی ہے ۔ اور شمس مریضۃ اس وقت کہتے ہیں جب گردہ غبار یا کسی اور عاضہ سے اس کی روشنی ماند پڑجائے ۔ امرض فلان فی قولہ کے معنی تعریض اور کنایہ سے بات کرنے کے ہیں ۔ المتریض تیمار داری کرنا ۔ اصل میں تمریض کے معنی مرض کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ۔ تقذبۃ کی طرح سے جس کے معنی آنکھ سے خاشاگ دور کرنا کے ہیں ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - غرر - يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ «5» ، وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ- [ الانفطار 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ- [ آل عمران 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً- [ النساء 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا - [ الأنعام 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ- [ لقمان 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ «1» ، والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ» «2» .- والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل :- فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة «3» ، فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها .- ( غ ر ر )- غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ وَاِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا ” اور جب کہہ رہے تھے منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا کہ نہیں وعدہ کیا تھا ہم سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مگر دھوکے کا۔ “- یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے جو وعدے کیے تھے وہ محض فریب نکلے۔ ہمیں تو انہوں نے سبز باغ دکھا کر مروا دیا۔ ہم سے تو کہا گیا تھا کہ اللہ کی مدد تمہارے شامل حال رہے گی اور قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں تمہارے قدموں میں ڈھیر ہوجائیں گی ‘ مگر اس کے برعکس آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم قضائے حاجت کے لیے بھی باہر نکلنے سے عاجز ہیں۔ ظاہر ہے اس دور میں آج کل کی طرز کے بیت الخلاء تو تھے نہیں ‘ چناچہ محاصرے کے دوران اس نوعیت کے جو مسائل پیدا ہوئے ان پر منافقین نے خوب واویلا مچایا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :22 یعنی اس امر کے وعدے کہ اہل ایمان کو اللہ کی تائید و نصرت حاصل ہو گی اور آخر کار غلبہ انہی کو بخشا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: مستند روایات میں ہے کہ حضرت سلمان فارسی (رض) جس جگہ خندق کھود رہے تھے وہاں ایک سخت چٹان بیچ میں آگئی جو کسی طرح ٹوٹ نہیں رہی تھی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ہوئی تو آپ بہ نفس نفیس وہاں تشریف لے گئے، اور اپنے دست مبارک میں کدال لے کر یہ آیت پڑھی : وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا : اور کدال سے چٹان پر ضرب لگائی تو ایک تہائی چٹان ٹوٹ گئی اور اس میں سے ایک روشنی نمودار ہوئی جس میں آپ کو یمن اور کسری کے محلات دکھائے گئے، پھر دوسری ضرب لگاتے وقت آپ نے اسی آیت کو پورا پڑھا وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلًا : اس پر چٹان کا ایک حصہ ٹوٹا اور دوبارہ روشنی ظاہر ہوئی جس میں آپ نے روم کے محلات دیکھے، پھر تیسری ضرب پر چٹان پوری ٹوٹ گئی، اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ مجھے یمن، ایران اور روم کے محلات دکھاکر یہ بشارت دی گئی ہے کہ یہ سارے ملک میری امت کے ہاتھوں فتح ہوں گے، منافقین نے یہ سنا تو کہا کہ حالت تو یہ ہے کہ خود اپنے شہر کا بچاؤ کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے، اور خواب یہ دیکھے جارہے ہیں کہ ایران اور روم ہمارے ہاتھوں فتح ہوں گے، مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں منافقین کی اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔