3 4 1یعنی ان پر عمل کرو حکمت سے مراد احادیث ہیں۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ حدیث بھی قرآن کی طرح ثواب کی نیت سے پڑھی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ آیت بھی ازواج مطہرات کے اہل بیت ہونے پر دلالت کرتی ہے، اس لئے کہ وحی کا نزول، جس کا ذکر اس آیت میں ہے، ازواج مطہرات کے گھروں میں ہی ہوتا تھا، بالخصوص حضرت عائشہ (رض) کے گھر میں۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔
[ ٥٢] حکمت کیا چیز ہے :۔ حکمت کا معنی صرف دانائی یا دانائی کی باتیں ہیں۔ پھر اس کی دو قسمیں ہیں ایک حکمت علمی یعنی آیات قرآنی سے استنباطات اور اجتہادات دوسرے حکمت عملی۔ یعنی احکام الٰہی کو عملی طور پر نافذ کرنے کا طریقہ کار۔ قرآن میں بیشمار مقامات پر کتاب و حکمت کا لفظ اکٹھا آیا ہے۔ اور امام شافعی نے بیشمار دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ حکمت سے مراد سنت نبوی ہے۔ یعنی خواہ آپ زبانی کسی آیت کی تشریح و تفسیر امت کو سمجھا دیں یا کسی حکم پر عمل کرکے امت کو دکھا دیں۔ یہ سب کچھ حکمت کے مفہوم میں شامل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ساری حکمت صرف سنت نبوی میں ہی محصور ہے بلکہ قرآن میں بھی موجود ہے اسی لئے اسے القرآن الحکیم کہا گیا ہے۔ اب چونکہ منکرین حدیث، حدیث کی حجیت کے قائل نہیں تو ان کے ایک نمائندہ حافظ اسلم صاحب جیراجپوری نے اس آیت پر اعتراض جڑ دیا کہ کیا ازواج مطہرات کے گھروں میں اللہ کی آیات کے علاوہ رسول اللہ کی حدیثیں بھی پڑھی جاتی تھیں ؟ (مقام حدیث ص ١٢ مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام، لاہور)- خمنکرین حدیث کا ایک اعتراض اور اس کا جواب :۔ حافظ صاحب نے اس اعتراض میں دھوکا دینے کی کوشش فرمائی ہے۔ امام شافعی نے حکمت سے مراد سنت نبوی بتایا ہے۔ حدیث نہیں بتایا۔ اور حدیث اور سنت میں کئی لحاظ سے فرق ہے۔ جس کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے آئینہ پرویزیت) لہذا صرف ایک آدھ اشارہ پر ہی اکتفا کروں گا۔ مثلاً قرآن میں تقریباً سات سو مقامات پر نماز کی ادائیگی کا حکم ہے۔ مگر اس کی مکمل ترکیب کسی ایک جگہ بھی مذکور نہیں۔ یہ ہمیں صرف آپ کے نماز ادا کرنے سے معلوم ہوئی۔ یہ حکمت ہے اور حکمت عملی لیکن یہ حکمت قرآن میں مذکور نہیں۔ اور عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت کے مطابق آپ صحابہ کو التشہد اسی طرح پڑھاتے اور یاد کراتے اور پھر سنتے تھے جیسے قرآنی آیات پڑھاتے تھے اور حکمت علمی اور عملی دونوں قرآن میں مذکور نہیں۔ یہی حال باقی سب احکام کا ہے۔ گویا قرآن کے حکیم ہونے کے باوجود حکمت کا کثیر حصہ سنت نبوی سے ہمیں معلوم ہوا ہے۔- [ ٥٣] تبلیغ دین میں ازواج کا کردار :۔ لفظ واذْ کُرْنَ کے دو معنی ہیں ایک معنی یاد رکھو اور دوسرا معنی بیان کرو پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ اے نبی کی بیویو تمہارا گھر وہ گھر ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیات الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لہذا تم اس بات کو خوب یاد رکھو اور اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اس معاملہ میں تمہاری ذمہ داری بڑی سخت ہے۔ تمہیں اپنا ہر عمل اللہ اور اس کے رسول کی منشا کے مطابق کرنا ہوگا اور دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جو کچھ تم آیات الٰہی اور حکمت کی باتیں سنو اور دیکھو۔ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرو۔ کیونکہ زندگی کا ایک اہم پہلو یا گھریلو زندگی سے متعلق بہت سے امور ایسے ہیں جو تمہارے علاوہ کسی اور ذریعہ سے معلوم نہیں ہوسکتے۔
وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ ۔۔ : پچھلی آیات میں امہات المومنین کو عمل کا حکم دیا تھا، جس میں کچھ چیزوں سے اجتناب اور کچھ چیزوں کے ادا کرنے کا حکم تھا، اب انھیں علم حاصل کرنے اور اسے آگے پہنچانے کا حکم دیا۔ ” اذْكُرْنَ “ ” ذِکْرٌ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی دل میں یاد کرنا اور یاد رکھنا بھی ہے اور کسی کلام کو زبان پر لانا بھی۔ یعنی تمہارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت کی جو تلاوت کی جاتی ہے، اسے یاد کرو اور یاد رکھو، کبھی اس سے غفلت نہ کرو اور اسے دوسرے لوگوں کے سامنے بھی ذکر کرو اور ان تک پہنچاؤ۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری یہ تھی کہ اللہ کے احکام امت تک پہنچا دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک مرد یا ایک عورت تک کوئی حکم پہنچا دینے سے آپ کا فریضہ ادا ہوجاتا تھا، پھر اس مرد یا عورت کا فرض ہوتا کہ اسے آگے پہنچائے، جیسا کہ عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( بَلِّغُوْا عَنِّيْ وَلَوْ آیَۃً ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بني إسرائیل : ٣٤٦١ ] ” میری طرف سے آگے پہنچا دو ، خواہ ایک آیت ہو۔ “ امت کے ہر فرد کو ہر حکم بہ نفس نفیس پہنچانا نہ آپ کے ذمے تھا، نہ آپ کے لیے ممکن تھا۔ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے اقوال و افعال اور احوال ایسے تھے جن کا تعلق گھریلو زندگی سے تھا اور جن کا علم صرف ازواج مطہرات کو ہوتا تھا، اس لیے انھیں آیات و حکمت کو یاد کرنے، انھیں یاد رکھنے اور لوگوں کے سامنے ذکر کرنے کا حکم دیا اور امہات المومنین نے یہ فریضہ نہایت خوش اسلوبی اور پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا۔ چناچہ دینی مسائل کا بہت بڑا حصہ انھی کے ذریعے سے امت تک پہنچا ہے۔ صحابہ کرام (رض) کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی وہ ان سے پوچھتے اور انھیں ان کے پاس سے، خصوصاً عائشہ (رض) کے پاس سے اس کا تسلی بخش حل مل جاتا۔- 3 یہ آیت عورتوں کو دین کی تعلیم دلانے کی واضح دلیل ہے، مردوں کی طرح ان پر بھی لازم ہے کہ قرآن و حدیث کا علم حاصل کریں اور اسے آگے پہنچائیں۔- ” اٰيٰتِ اللّٰهِ “ سے مراد قرآن کریم کی آیات ہیں۔ ” وَالْحِكْمَةِ “ کا لفظی معنی دانائی اور عقل کی بات ہے، مراد اس سے قرآن مجید کے علوم اور معانی ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان فرماتے تھے۔ اسی طرح اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جملہ اقوال و افعال اور احوال بھی شامل ہیں، کیونکہ وہ بھی قرآن کی عملی تفسیر تھے، جیسا کہ عائشہ (رض) نے فرمایا : ( کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ ) [ مسند أحمد : ٦؍٩١، ح : ٢٤٦٥٥ ] ” قرآن آپ کا خلق تھا۔ “ یعنی قرآن آپ کی طبعی عادت بن چکا تھا کہ آپ کا ہر کام خود بخود قرآن مجید کے مطابق ہوتا تھا۔ اس لیے امام شافعی اور دوسرے ائمہ نے بہت سے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ” وَالْحِكْمَةِ “ سے مراد سنت ہے۔ بعض لوگ اس پر یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی طرح سنت کی بھی تلاوت ہوتی تھی، مگر یہ شبہ بےکار ہے، کیونکہ تلاوت کے لفظ کو صرف قرآن کی تلاوت کے لیے خاص کرنا بعد کی اصطلاح ہے۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ سورة بقرہ میں یہی لفظ جادو کے ان الفاظ کے متعلق استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو سناتے تھے، فرمایا : (وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ ) [ البقرۃ : ١٠٢ ] ” اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین سلیمان کے عہد حکومت میں پڑھتے تھے۔ “ ظاہر ہے وہاں تلاوت سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو سناتے تھے۔ ویسے یاد کرنے کرانے کے لیے حدیث رسول پڑھنا بھی کار ثواب ہے اور حدیث حفظ کرنے والے کو اسے بار بار پڑھنا پڑتا ہے۔ ہاں، پڑھنے پڑھنے میں فرق ضرور ہے۔- 3 یہ آیت ازواج مطہرات کے اہل بیت ہونے کی بھی واضح دلیل ہے، کیونکہ ” فی بیوتکن “ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں کو ان کے گھر کہا گیا ہے۔- اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرً : ” لَطِيْفًا “ کے لفظ میں بیحد مہربانی کے ساتھ باریک بینی اور خفیہ طریقے سے کسی کام کے ادا کرنے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ یہاں یہ دونوں صفات ذکر کرنے میں کئی باتوں کی طرف اشارہ ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کا تمام عورتوں میں سے ازواج مطہرات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کے لیے چننا، ان کی طہارت کا اہتمام کرنا، انھیں علم و عمل کا کمال حاصل کرنے کا موقع عطا کرنا، اس کے مخفی سے مخفی امور سے واقف ہونے، اس کے نہایت مہربان ہونے اور ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہونے کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے اس نے انھیں اس کا اہل سمجھ کر اس مرتبے کے لیے منتخب فرمایا۔ ایک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ چونکہ یہ آیات ازواج مطہرات کے خرچے میں اضافے کے مطالبے پر نازل ہوئیں، لہٰذا مطلب یہ ہے کہ حالات بظاہر تمہارے لیے مشکل ہیں، لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کو ترجیح دو گی تو آخرت کی نعمتوں کے ساتھ دنیا کی خوش حالی بھی کچھ دور نہیں، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ایسے باریک طریقوں سے وجود میں لے آتا ہے جو کسی کی سوچ میں بھی نہیں آسکتے۔ وہ لطیف بھی ہے اور پوری طرح باخبر بھی، اس نے ان لوگوں کو جو دنیا کی زیب و زینت سے بےنیاز تھے، زمین کے مشرق و مغرب کا مالک بنادیا اور جو دنیا کے طلب گار تھے اور جن کی ساری تگ و دو ہی دنیا کے لیے تھی انھیں غلام بنادیا۔
آیت میں اہل بیت سے کیا مراد ہے ؟- اوپر کی آیات میں نساء النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب تھا، اس لئے بصیغہ تانیث خطاب کیا گیا۔ یہاں اہل البیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ ان کی اولاد وآباء بھی داخل ہیں، اس لئے بصیغہ مذکر فرمایا عنکم، ویطہرکم اور بعض آئمہ تفسیر نے اہل بیت سے مراد صرف ازواج مطہرات کو قرار دیا ہے۔ حضرت عکرمہ و مقاتل نے یہی فرمایا ہے اور سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے بھی یہی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے آیت میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات کو قرار دیا۔ اور استدلال میں اگلی آیت پیش فرمائی، (آیت) واذاکرن مایتلی فی بیوتکن (رواہ ابن ابی حاتم وابن جریر) اور سابقہ آیات میں نساء النبی کے الفاظ سے خطاب بھی اس کا قرینہ ہے۔ حضرت عکرمہ تو بازار میں منادی کرتے تھے، کہ آیت میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہیں، کیونکہ یہ آیت انہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔- لیکن حدیث کی متعدد روایات جن کو ابن کثیر نے اس جگہ نقل کیا ہے اس پر شاید ہیں کہ اہل بیت میں حضرت فاطمہ اور علی اور حضرت حسن و حسین بھی شامل ہیں۔ جیسے صحیح مسلم کی حدیث حضرت عائشہ کی روایت سے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لے گئے اور اس وقت آپ ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حسن بن علی آگئے تو ان کو اس چادر میں لے لیا، پھر حسین آگئے، ان کو بھی اسی چادر کے اندر داخل فرما لیا، اس کے بعد حضرت فاطمہ پھر حضرت علی مرتضیٰ آگئے، ان کو بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیراً ، اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آیت پڑھنے کے بعد فرمایا اللہم ھولاء اھل بیتی (رواہ ابن جریر)- ابن کثیر نے اس مضمون کی متعدد احادیث معتبرہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ درحقیقت ان دونوں اقوال میں جو آئمہ تفسیر سے منقول ہیں کوئی تضاد نہیں۔ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ازواج مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اور اہل بیت سے وہی مراد ہیں یہ اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہل بیت میں شامل ہوں۔ اس لئے صحیح یہی ہے کہ لفظ اہل بیت میں ازواج مطہرات بھی داخل ہیں، کیونکہ شان نزول اس آیت کا وہی ہیں، اور شان نزول کا مصداق آیت میں داخل ہونا کسی شبہ کا متحمل نہیں۔ اور حضرت فاطمہ و علی و حسن و حسین (رض) بھی ارشاد نبوی (علیہ السلام) کے مطابق اہل بیت میں شامل ہیں۔ اور اس آیت سے پہلے اور بعد میں دونوں جگہ نساء النبی کے عنوان سے خطاب اور ان کے لئے صیغے مونث کے استعمال فرمائے گئے ہیں۔ سابقہ آیات میں (آیت) فلا تخصضعن بالقول سے آخر تک سب صیغے مونث کے استعمال ہوئے ہیں اور آگے پھر واذکرن مایتلیٰ میں بصیغہ تانیث خطاب ہوا ہے۔ اس درمیانی آیت کو سیاق وسباق سے کاٹ کر بصیغہ مذکر عنکم اور یطہرکم فرمانا بھی اس پر شاہد قوی ہے کہ اس میں صرف ازواج ہی داخل نہیں کچھ رجال بھی ہیں۔- آیت مذکورہ میں جو یہ فرمایا ہے کہ (آیت) لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطہرکم تطہیراً ، ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان ہدایات کے ذریعہ اغواء شیطانی اور معاصی اور قبائح سے حق تعالیٰ اہل بیت کو محفوظ رکھے گا، اور پاک کر دے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ تطہیر تشریعی مراد ہے، تکوینی تطہیر جو خاصہ انبیاء ہے وہ مراد نہیں۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ سب معصوم ہوں اور ان سے انبیاء (علیہم السلام) کی طرح کوئی گناہ سرزد ہونا ممکن نہ ہو، جو تکوینی تطہیر کا خاصہ ہے۔ اہل تشیع نے اس آیت میں جمہور امت سے اختلاف کر کے اول تو لفظ اہل بیت کا صرف اولاد و عصبات رسول کے ساتھ مخصوص ہونے اور ازواج مطہرات کے ان سے خارج ہونے کا دعویٰ کیا۔ دوسری آیت مذکورہ میں تطہیر سے مرادان کی عصمت قرار دے کر اہل بیت کو انبیاء کی طرح معصوم کیا۔ اس کا جواب اور مسئلہ کی مفصل بحث احقر نے احکام القرآن سورة احزاب میں لکھی ہے، اس میں عصمت کی تعریف اور اس کا انبیاء اور ملائکہ کے ساتھ مخصوص ہونا اور ان کے علاوہ کسی کا معصوم نہ ہونا دلائل شرعیہ سے واضح کردیا ہے، اہل علم اس کو دیکھ سکتے ہیں، عوام کو اس کی ضرورت نہیں۔- (آیت) واذ کرن مایتلیٰ فی بیوتکن من آیت اللہ والحکمة، آیات اللہ سے مراد قرآن اور حکمت سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات اور سنت رسول ہے، جیسا کہ عامہ مفسرین نے حکمت کی تفسیر اس جگہ سنت کی ہے۔ اور لفظ اذکرن کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں : ایک یہ کہ ان چیزوں کو خود یاد رکھنا جس کا نتیجہ ان پر عمل کرنا ہے، دوسرے یہ کہ جو کچھ قرآن ان کے گھروں میں ان کے سامنے نازل ہوا یا جو تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دیں اس کا ذکر امت کے دوسرے لوگوں سے کریں اور ان کو پہنچائیں۔- فائدہ :- ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی آیت قرآن یا حدیث سنے اس پر لازم ہے کہ وہ امت کو پہنچائے، یہاں تک کہ ازواج مطہرات پر بھی لازم کیا گیا کہ جو آیات قرآن ان کے گھروں میں نازل ہوں یا جو تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کو حاصل ہوں اس کا ذکر امت کے دوسرے افراد سے کریں اور یہ اللہ کی امانت ان کو پہنچائیں۔- قرآن کی طرح حدیث کی حفاظت :- اس آیت میں جس طرح آیات قرآن کی تبلیغ وتعلیم امت پر لازم کی گئی ہے اسی طرح لفظ حکمت فرما کر احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغ وتعلیم کو بھی لازم کیا گیا ہے۔ اس لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس حکم کی تعمیل ہر حال میں کی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت معاذ کا یہ واقعہ کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث سنی، لیکن اس کو عام لوگوں کے سامنے اس لئے بیان نہیں کیا کہ خطرہ تھا کہ لوگ اس کو اس کے درجہ میں نہ رکھیں اور کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں، لیکن جب ان کی وفات کا وقت آیا تو لوگوں کو جمع کر کے وہ حدیث سنا دی اور فرمایا کہ میں نے اس وقت تک دینی مصلحت سے اس کا ذکر کسی سے نہیں کیا تھا، مگر اب موت کا وقت قریب ہے اس لئے امت کی یہ امانت ان کو پہچانا ضروری سمجھتا ہوں۔ صحیح بخاری میں ان کے الفاظ یہ ہیں فاخبربہ معاذ عند مرتہ تائماً ” یعنی حضرت معاذ نے یہ حدیث لوگوں کو وفات کے وقت اس لئے سنا دی کہ وہ گناہگار نہ ہوں کہ حدیث رسول امت کو نہیں پہنچائی “- یہ واقعہ بھی اسی پر شاہد ہے کہ اس حکم قرآنی کی تعمیل سب صحابہ کرام واجب و ضروری سمجھتے تھے اور صحابہ کرام نے حدیث کو احتیاط کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام فرمایا تھا تو حدیث کی حفاظت بھی ایک درجہ میں قرآن کی حفاظت کے قریب قریب ہوگئی، اس معاملہ میں شبہات کا نکالنا درحقیقت قرآن میں شبہات کا نکالنا ہے۔ واللہ اعلم
وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ وَالْحِكْمَۃِ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا ٣٤ۧ- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- لطف - اللَّطِيفُ إذا وصف به الجسم فضدّ الجثل، وهو الثّقيل، يقال : شعر جثل «1» ، أي : كثير، ويعبّر باللَّطَافَةِ واللُّطْفِ عن الحرکة الخفیفة، وعن تعاطي الأمور الدّقيقة، وقد يعبّر باللَّطَائِفِ عمّا لا تدرکه الحاسة، ويصحّ أن يكون وصف اللہ تعالیٰ به علی هذا الوجه، وأن يكون لمعرفته بدقائق الأمور، وأن يكون لرفقه بالعباد في هدایتهم . قال تعالی: اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ- [ الشوری 19] ، إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف 100] أي : يحسن الاستخراج . تنبيها علی ما أوصل إليه يوسف حيث ألقاه إخوته في الجبّ ، - ( ل ط ف ) اللطیف - ۔ جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہو تو یہ جبل کی ضد ہوتا ہے جس کے معنی بھاری اور ثقیل کے ہیں کہتے ہیں شعر جبل ) یعنی زیادہ اور بھاری بال اور کبھی لطافۃ یا لطف سے خرکت حفیفہ اور دقیق امور کا سر انجام دینا مراد ہوتا ہے اور لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسای حواس نہ کرسکتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے اور اک سے مافوق اور بالا تر ہے اور یا سے اس لئے لطیف کہا جا تا ہے کہ وہ دقیق امور تک سے واقف ہے اور یا یہ کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ - اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری 19] خدا اپنے بندوں پر مہر بان ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ - إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف 100] بیشک میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے حسن تدبیر سے کرتا ہے میں لطیف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کو حسن تدبیر سے سر انجام دینا ہے ۔ چناچہ دیکھے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف اکرم سے انہیں اس مرتبہ تک پہنچا دیا - خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔
اور تم آیات قرآنیہ اور اوامرو نواہی حلال و حرام کے احکام کو یاد رکھو جس کا تمہارے گھروں میں چرچا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی باتوں کو جاننے والا اور تمہارے اعمال سے پورا باخبر ہے یا یہ کہ نبی اکرم نے جس وقت تمہیں طلاق دینے کا ارادہ فرمایا اللہ تعالیٰ اس سے اور تمہاری نیکیوں سے واقف ہے۔
آیت ٣٤ وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ ” اور یاد کیا کرو جو تمہارے گھروں میں اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں (سنائی جاتی ہیں) ۔ “- آپ لوگوں کے گھروں میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوتی ہے اور یہاں سے دنیا بھر کو آیات الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے ‘ اس لیے آپ لوگ سب سے بڑھ کر آیات ِالٰہی کو سننے اور ان پر عمل کرنے کی مکلف ہو۔ اس لحاظ سے بھی ازواج مطہرات (رض) کے درمیان حضرت عائشہ (رض) کو امتیازی شرف حاصل ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بار حضرت اُمّ سلمہ (رض) سے حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں فرمایا تھا : (فَاِنَّـہٗ وَاللّٰہِ مَا نَزَلَ عَلَیَّ الْوَحْیُ وَاَنَا فِیْ لِحَافِ امْرَأَۃٍ مِنْکُنَّ غَیْرَھَا) (١) ” اللہ کی قسم ‘ مجھ پر اس حال میں کبھی وحی نازل نہیں ہوئی کہ میں تم میں سے کسی عورت کے لحاف میں ہوں سوائے عائشہ (رض) کے۔ “ ظاہر ہے وحی کا نزول تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر ہوتا تھا۔ اس کے لیے ظاہری طور پر تو کوئی خاص اہتمام کرنے اور جبرائیل (علیہ السلام) کو استیذان کی ضرورت نہیں تھی۔ جب اور جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا وحی کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر نازل ہوگئے۔ - آیت میں ” حکمت “ سے وحی خفی یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمودات مراد ہیں۔ گویا حکمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات سے بھی سب سے بڑھ کر ازواجِ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی مستفیض ہو رہی تھیں۔- اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ” یقینا اللہ بہت باریک بین ‘ ہرچیز سے باخبر ہے۔ “
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :51 اصل میں لفظ وَاذْکُرْنَ استعمال ہوا ہے ، جس کے دو معنی ہیں : یاد رکھو اور بیان کرو ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اے نبی کی بیویو ، تم کبھی اس بات کو فراموش نہ کرنا کہ تمہارا گھر وہ ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیات الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے ، اس لیے تمہاری ذمہ داری بڑی سخت ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی گھر میں لوگ جاہلیت کے نمونے دیکھنے لگیں ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ نبی کی بیویو ، جو کچھ تم سنو اور دیکھو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتی رہو ، کیونکہ رسول کے ساتھ ہر وقت کی معاشرت سے بہت سی ہدایات تمہارے علم میں ایسی آئیں گی جو تمہارے سوا کسی اور ذریعہ سے لوگوں کو معلوم نہ ہو سکیں گی ۔ اس آیت میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک آیات اللہ ۔ دوسرے حکمت ۔ آیات اللہ سے مراد تو کتاب اللہ کی آیات ہی ہیں ۔ مگر حکمت کا لفظ وسیع ہے جس میں وہ تمام دانائی کی باتیں آجاتی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سکھاتے تھے ۔ اس لفظ کا اطلاق کتاب اللہ کی تعلیمات پر بھی ہو سکتا ہے ، مگر صرف انہی کے ساتھ اس کو خاص کر دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ قرآن کی آیات سنانے کے علاوہ جس حکمت کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سیرت پاک سے اور اپنے ارشادات سے دیتے تھی وہ بھی لا محالہ اس میں شامل ہے ۔ بعض لوگ محض اس بنیاد پر کہ آیت میں مَا یُتْلیٰ ( جو تلاوت کی جاتی ہیں ) کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آیات اللہ اور حکمت سے مراد صرف قرآن ہے ، کیونکہ تلاوت کا لفظ اصطلاحاً قرآن کی تلاوت کے لیے مخصوص ہے ۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے ۔ تلاوت کے لفظ کو اصطلاح کے طور پر قرآن یا کتاب اللہ کی تلاوت کے لیے مخصوص کر دینا بعد کے لوگوں کا فعل ہے ۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔ سُورۂ بقرہ آیت ۱۰۲ میں یہی لفظ جادو کے ان منتروں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو سناتے تھے ۔ وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلیٰ مُلْکِ سُلَیْمٰنَ ۔ انہوں نے پیروی کی اس چیز کی جس کی تلاوت کرتے تھے ( یعنی جسے سناتے تھے ) شیاطین سلیمان کی بادشاہی کی طرف منسوب کر کے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن اس لفظ کو اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتا ہے ۔ کتاب اللہ کی آیات سنانے کے لیے اصطلاحاً مخصوص نہیں کرتا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :52 اللہ لطیف ہے ۔ یعنی مخفی باتوں تک اس کا علم پہنچ جاتا ہے ۔ اس سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی ۔