اسلام اور ایمان میں فرق اور ذکر الٰہی ۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ مردوں کا ذکر تو قرآن میں آتا رہتا ہے لیکن عورتوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا جاتا ۔ ایک دن میں اپنے گھر میں بیٹھی اپنے سر کے بال سلجھا رہی تھی جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز منبر پر سنی میں نے بالوں کو تو یونہی لپیٹ لیا اور حجرے میں آ کر آپ کی باتیں سننے لگی تو آپ اس وقت یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے ۔ نسائی وغیرہ ۔ اور بہت سی روایتیں آپ سے مختصراً مروی ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ چند عورتوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا تھا اور روایت میں ہے کہ عورتوں نے ازواج مطہرات سے یہ کہا تھا ۔ اسلام و ایمان کو الگ الگ بیان کرنا دلیل ہے اس بات کی کہ ایمان اسلام کا غیر ہے اور ایمان اسلام سے مخصوص و ممتاز ہے ( قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا 14 ) 49- الحجرات:14 ) والی آیت اور بخاری و مسلم کی حدیث کہ زانی زنا کے وقت مومن نہیں ہوتا پھر اس پر اجماع کہ زنا سے کفر لازم نہیں آتا ۔ یہ اس پر دلیل ہے اور ہم شرح بخاری کی ابتداء میں اسے ثابت کر چکے ہیں ۔ ( یہ یاد رہے کہ ان میں فرق اس وقت ہے جب اسلام حقیقی نہ ہو جیسے کہ امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کتاب الایمان میں بدلائل کثیرہ ثابت کیا ہے ، واللہ اعلم ، مترجم ) قنوت سے مراد سکون کے ساتھ کی اطاعت گذاری ہے جیسے ( اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَّقَاۗىِٕمًا يَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ ۭ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ Ḍۧ ) 39- الزمر:9 ) ، میں ہے اور فرمان ہے ( وَلَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ 26 ) 30- الروم:26 ) یعنی آسمان و زمین کی ہر چیزاللہ کی فرماں بردار ہے اور فرماتا ہے ( يٰمَرْيَمُ اقْنُتِىْ لِرَبِّكِ وَاسْجُدِيْ وَارْكَعِيْ مَعَ الرّٰكِعِيْنَ 43 ) 3-آل عمران:43 ) ، اور فرماتا ہے ( وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ ٢٣٨ ) 2- البقرة:238 ) یعنی اللہ کے سامنے با ادب فرماں برداری کی صورت میں کھڑے ہوا کرو ۔ پس اسلام کے اوپر کا مرتبہ ایمان ہے اور ان کے اجتماع سے انسان میں فرماں برداری اور اطاعت گذاری پیدا ہو جاتی ہے ۔ باتوں کی سچائی اللہ کو بہت ہی محبوب ہے اور یہ عادت ہر طرح محمود ہے ۔ صحابہ کبار میں تو وہ بزرگ بھی تھے جنہوں نے جاہلیت کے زمانے میں بھی کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا ، سچائی ایمان کی نشانی ہے اور جھوٹ نفاق کی علامت ہے ۔ سچا نجات پاتا ہے ۔ سچ ہی بولا کرو ۔ سچائی نیکی کی طرف رہبری کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف ۔ جھوٹ سے بچو ۔ جھوٹ بدکاری کی طرف رہبری کرتا ہے اور فسق وفجور انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے ۔ انسان سچ بولتے بولتے اور سچائی کا قصد کرتے کرتے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ بولتے ہوئے اور جھوٹ کا قصد کرتے ہوئے اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ صبر ثابت قدمی کا نتیجہ ہے ۔ مصیبتوں پر صبر ہوتا ہے اس علم پر کہ تقدیر کا لکھا ٹلتا نہیں ۔ سب سے زیادہ سخت صبر صدمے کے ابتدائی وقت پر ہے اور اسی کا اجر زیادہ ہے ۔ پھر تو جوں جوں زمانہ گذرتا ہے خواہ مخواہ ہی صبر آ جاتا ہے ۔ خشوع سے مراد تسکین دلجمعی تواضح فروتنی اور عاجزی ہے ۔ یہ انسان میں اس وقت آتی ہے جبکہ دل میں اللہ کا خوف اور رب کو ہر وقت حاضر ناظر جانتا ہو اور اس طرح اللہ کی عبادت کرتا ہو جیسے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور یہ نہیں تو کم از کم اس درجے پر وہ ضرور ہو کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ صدقے سے مراد محتاج ضعیفوں کو جن کی کوئی کمائی نہ ہو نہ جن کا کوئی کمانے والا ہو انہیں اپنا فالتو مال دینا اس نیت سے کہ اللہ کی اطاعت ہو اور اس کی مخلوق کا کام بنے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا ان میں ایک وہ بھی ہے جو صدقہ دیتا ہے لیکن اسطرح پوشیدہ طور پر کہ داہنے ہاتھ کے خرچ کی بائیں ہاتھ کو خبر نہیں لگتی اور حدیث میں ہے صدقہ خطاؤں کو اسطرح مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں جو اپنی اپنی جگہ موجود ہیں ۔ روزے کی بابت حدیث میں ہے کہ یہ بدن کی زکوٰۃ ہے یعنی اسے پاک صاف کر دیتا ہے اور طبی طور پر بھی ردی اخلاط کو مٹا دیتا ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رمضان کے روزے رکھ کر جس نے ہر مہینے میں تین روزے رکھ لئے وہ ( وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا 35 ) 33- الأحزاب:35 ) ، میں داخل ہو گیا ۔ روزہ شہوت کو بھی جھکا دینے والا ہے ۔ حدیث میں ہے اے نوجوانو تم میں سے جسے طاقت ہو وہ تو اپنا نکاح کر لے تاکہ اس سے نگاہیں نیچی رہیں اور پاک دامنی حاصل ہو جائے اور جسے اپنے نکاح کی طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے ، یہی اس کے لئے گویا خصی ہونا ہے ۔ اسی لئے روزوں کے ذکر کے بعد ہی بدکاری سے بچنے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ایسے مسلمان مرد و عورت حرام سے اور گناہ کے کاموں سے بچتے رہتے ہیں ۔ اپنی اس خاص قوت کو جائز جگہ صرف کرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ یہ لوگ اپنے بدن کو روکے رہتے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں سے اور لونڈیوں سے ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ ہاں اس کے سوا جو اور کچھ طلب کرے وہ حد سے گذر جانے والا ہے ۔ ذکر اللہ کی نسبت ایک حدیث میں ہے کہ جب میاں اپنی بیوی کو رات کے وقت جگا کر دو رکعت نماز دونوں پڑھ لیں تو وہ اللہ کا ذکر کرنے والوں میں لکھ لئے جاتے ہیں ( ملاحظہ ہو ابو داؤد وغیرہ ) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے درجے والا بندہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک کون ہے؟ آپ نے فرمایا کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ کے مجاہد سے بھی؟ آپ نے فرمایا اگرچہ وہ کافروں پر تلوار چلائے یہاں تک کہ تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خون میں رنگ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنے والا اس سے افضل ہی رہے گا ۔ ( مسند احمد ) مسند ہی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے کے راستے میں جا رہے تھے جمدان پر پہنچ کر فرمایا یہ جمدان ہے مفرد بن کر چلو ۔ آگے بڑھنے والوں نے پوچھا مفرد سے کیا مراد ہے؟ فرمایا اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے ۔ پھر فرمایا اے اللہ حج و عمرے میں اپنا سر منڈوانے والوں پر رحم فرما لوگوں نے کہا بال کتروانے والوں کے لئے بھی دعا کیجئے آپ نے فرمایا یا اللہ سر منڈوانے والوں کو بخش ۔ لوگوں نے پھر کتروانے الوں کے لئے درخواست کی تو آپ نے فرمایا کتروانے والے بھی ۔ آپ کا فرمان ہے کہ اللہ کے عذابوں سے نجات دینے والا کوئی عمل اللہ کے ذکر سے بڑا نہیں ۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا میں تمہیں سب سے بہتر سب سے پاک اور سب سے بلند درجے کا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے حق میں سونا چاندی اللہ کی راہ میں لٹانے سے بھی بہتر ہو اور اس سے بھی افضل ہو جب تم کل دشمن سے ملو گے اور ان کی گردنیں مارو گے اور وہ تمہاری گردنیں ماریں گے ۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلائے فرمایا اللہ عزوجل کا ذکر ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا مجاہد افضل ہے؟ آپ نے فرمایا سب سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے والا ۔ اس نے پھر روزے دار کی نسبت پوچھا یہی جواب ملا پھر نماز ، زکوٰۃ ، حج صدقہ ، سب کی بابت پوچھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کا یہی جواب دیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا پھر اللہ کا ذکر کرنے والے تو بہت ہی بڑھ گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ کثرت ذکر اللہ کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں آئی ہیں ۔ اسی سورت کی آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا 41ۙ ) 33- الأحزاب:41 ) کی تفسیر میں ہم ان احادیث کو بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرمایا یہ نیک صفتیں جن میں ہوں ہم نے ان کے لئے مغفرت تیار کر رکھی ہے اور اجر عظیم یعنی جنت
3 5 1حضرت ام سلمہ (رض) اور بعض دیگر صحابیات نے کہا کہ کیا بات ہے اللہ تعالیٰ ہر جگہ مردوں سے ہی خطاب فرماتا ہے عورتوں سے نہیں جس پر یہ آیت نازل ہوئی (مسندا 6 30 1ترمذی نمبر 321 1 اس میں عورتوں کی دل داری کا اہتمام کردیا گیا ہے ورنہ تمام احکام میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں سوائے ان مخصوص احکام کے جو صرف عورتوں کے لیے ہیں۔ اس آیت اور دیگر آیات سے واضح ہے کہ عبادت واطاعت الہٰی اور اخروی درجات و فضائل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے دونوں کے لیے یکساں طور پر یہ میدان کھلا ہے اور دونوں زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور اجر وثواب کماسکتے ہیں جنس کی بنیاد پر اس میں کمی پیشی نہیں کی جائے گے علاوہ ازیں مسلمان اور مومن کا الگ الگ ذکر کرنے سے واضح ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے ایمان کا درجہ اسلام سے بڑھ کر ہے جیسا کہ قرآن و حدیث کے دیگر دلائل بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔
[ ٥٤] اسلام کی دس بنیادی اقدار :۔ اس آیت میں مسلمانوں کی دس ایسی صفات کا ذکر آیا ہے جنہیں اسلام کی بنیادی اقدار کا نام دیا جاسکتا ہے۔ پہلی صفت اسلام لانا ہے۔ اور اس کا انحصار دو شہادتوں پر ہے کہ جو شخص یہ اقرار کرے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسلام کے بعد دوسری صفت ایمان ہے۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ دو شہا دتیں اس کے دل میں جانشین ہوجائیں اور دل بھی ان کی تصدیق کرے اور انسان اسلام کے تقاضے اور بنیادی ارکان کے لئے مستعد ہوجائے۔ جب تک انسان دعویٰ اسلام کے ساتھ دل کی تصدیق اور ساتھ ہی ساتھ اعمال صالح بجا نہ لائے اس کے ایمان کے دعویٰ کو غلط اور جھوٹ سمجھا جائے گا۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ لوگ صرف زبانی حد تک ہی اللہ کے اور اس کے رسول کے احکام کے قائل نہیں ہوتے۔ بلکہ عملی لحاظ سے بھی ہر وقت انھیں ماننے پر اور مطیع فرمان بن کر رہنے پر تیار رہتے ہیں۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ سچے اور راست باز ہوتے ہیں۔ اپنے معاملات میں جھوٹ، مکر، ریا کاری اور دغا بازی سے حتی الوسع اجتناب کرتے ہیں۔ پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ نیز احکام الٰہی پر پورے صبر و ثبات کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ چھٹی صفت یہ ہے کہ ان میں تکبر نام کو نہیں ہوتا۔ ان کی وضع قطع، چال ڈھال، اور گفتگو کبر و نخوت سے پاک ہوتی ہے۔ اس کے بجائے ان میں دوسروں کے لئے تواضع اور انکسار موجود ہوتا ہے۔ وہ ہر ایک سے عزت و احترام سے پیش آتے ہیں۔ اس مقام پر لفظ خاشعین استعمال ہوا ہے اور خشوع کے معنی ایسا خوف یا جذبہ ہے جس کے اثرات جوارح پر ظاہر ہونے لگیں۔ پھر یہی لفظ بول کر اس سے نماز بھی مراد لی جاسکتی ہے کیونکہ خشوع ہی نماز کی روح ہے اور یہاں نماز مراد لینا اس لحاظ سے بھی مناسب ہے کہ آگے صدقہ اور روزہ کا ذکر آرہا ہے۔ ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ متصدق ہوتے ہیں اور اس لفظ میں تین مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ زکوٰ ۃ (فرضی صدقہ) ادا کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ نفلی صدقات سے محتاجوں کی احتیاج کو دور کرتے اور ان کاموں میں خرچ کرتے ہیں جن کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تیسرا یہ کہ اگر کسی سے قرض وغیرہ لینا ہو تو وہ معاف کردیتے ہیں۔ یعنی اپنے حق سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ آٹھویں صفت یہ ہے کہ وہ فرضی روزے تو ضرور رکھتے ہیں ان کے علاوہ نفلی روزے بھی حسب توفیق رکھتے ہیں۔ نویں صفت یہ ہے کہ وہ زنا سے بھی بچتے ہیں اور عریانی اور برہنگی سے بھی اجتناب کرتے ہیں اور دسویں صفت یہ ہے کہ وہ اپنے اکثر اوقات میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں۔ یاد کرنے سے مراد تسبیح و تہلیل اور اللہ کے ذکر سے زبان کو تر رکھنا ہے اور یاد رکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ کوئی کام کریں انھیں ہر وقت دل میں اللہ کا خوف رہتا ہے۔ جو انھیں اللہ کی نافرمانی سے بچاتا ہے۔ اور حقیقت ہے کہ تمام عبادتوں کی روح یہی اللہ کا ذکر یا اللہ کی یاد ہے۔ باقی سب عبادتوں کا کوئی نہ کوئی وقت ہوتا ہے مگر اس عبادت کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ اور یہ ہر وقت کی جاسکتی ہے اور اسی اللہ کی یاد سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ بندے کا اپنے اللہ سے تعلق کس حد تک مضبوط ہے یا کمزور ہے۔- خعام طور پر مردوں کو ہی کیوں مخاطب کیا جاتا ہے اعمال کے اجر میں مرد اور عورت برابر ہیں :۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ بعض ازواج مطہرات نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ قرآن میں عام طور پر مردوں کو ہی خطاب کیا گیا ہے۔ عورتوں کا ذکر کم ہی ہوتا ہے۔ چناچہ اس آیت میں ایک ایک صفت میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی ذکر کیا گیا۔ اور یہ بعض ازواج (سیدہ ام سلمہ) کا محض جذبہ اشتیاق ہی تھا کہ عورتوں کا الگ سے نام لیا جانا چاہئے۔ ورنہ ہر زبان کا اور اسی طرح عربی زبان کا یہ ہی دستور ہے کہ جب کسی مردوں اور عورتوں کے مشترکہ اجتماع کو خطاب کرنا ہو تو جمع مذکر کا صیغہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اور عورتیں بالتبع اس خطاب میں شامل ہوتی ہیں۔ چناچہ اس آیت میں یہ وضاحت کردی گئی کہ عمل کرنے والا مرد ہو یا عورت کسی کی محنت اور کمائی اللہ کے ہاں ضائع نہیں جاتی۔ دوسرے یہ کہ ان دونوں کی کمائی کے اجر میں کچھ فرق نہ ہوگا۔ اخلاقی ترقی اور روحانی کمال دونوں کے سامنے ایک جیسا وسیع ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مردوں کا دائرہ عمل عورتوں کے دائرہ عمل سے الگ ہے۔ مرد کے لئے اگر جہاد میں بڑا درجہ ہے تو عورتوں کے لئے اولاد کی صحیح تربیت میں بڑا درجہ ہے۔ البتہ جن مسائل کا تعلق ہی عورتوں سے ہے ان میں عورتوں کو ہی خطاب کیا گیا ہے۔
اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ ۔۔ : امہات المومنین کو پاکیزہ اعمال و اخلاق کی ترغیب، برے اطوار سے اجتناب کی تلقین اور کتاب و حکمت کے سیکھنے اور سکھانے کی تاکید کے بعد ان دس صفات کمال کا ذکر فرمایا جن پر کاربند ہونے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ مگر ان صفات والوں کو عام الفاظ کے ساتھ ذکر فرمایا اور تمام مردوں اور عورتوں دونوں کو الگ الگ صراحت کے ساتھ ذکر فرمایا، تاکہ کوئی اسے امہات المومنین کے ساتھ خاص نہ سمجھ لے، نہ ان فضائل کو اور ان کے اجرو ثواب کو صرف مردوں کا حصہ سمجھ لے۔- 3 ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول قرآن میں جس طرح مردوں کا ذکر ہوتا ہے ہم عورتوں کا نہیں ہوتا۔ “ تو اچانک ایک دن میں نے منبر پر آپ کی آواز سنی، میں نے دروازے کے قریب ہو کر کان لگایا تو آپ فرما رہے تھے : ” اے لوگو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا [ الأحزاب : ٣٥ ] [ مسند أحمد : ٦؍٣٠١، ح : ٢٦٥٧٥، و قال المحقق صحیح ] - الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ : اسلام کا معنی انقیاد (تابع ہوجانا) ہے اور ایمان کا معنی تصدیق ہے۔ پھر ان کا استعمال تین طرح ہوتا ہے، کبھی دونوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں، جیسے فرمایا : (فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 35ۚفَمَا وَجَدْنَا فِيْهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ ) [ الذاریات : ٣٥، ٣٦ ] ” سو ہم نے اس (بستی) میں ایمان والوں سے جو بھی تھا نکال لیا۔ تو ہم نے اس میں مسلمانوں کے ایک گھر کے سوا کوئی نہ پایا۔ “ کبھی الگ الگ معنوں میں استعمال ہوتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰكِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا ) [ الحجرات : ١٤] ” بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے، کہہ دے تم ایمان نہیں لائے اور لیکن یہ کہو کہ ہم مطیع ہوگئے۔ “ اور کبھی مسلم کا لفظ عام ہوتا ہے، یعنی وہ شخص جو اسلام کے ظاہری اعمال بجا لائے، عام اس سے کہ اس کے سچا ہونے کا یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو اور مومن کا لفظ خاص ہوتا ہے، یعنی وہ شخص جو ظاہری اعمال بجا لانے کے ساتھ دل سے بھی اللہ اور اس کے سچا ہونے کا یقین رکھتا ہو۔ ظاہر یہ ہے کہ اس آیت میں ” المسلمین “ سے مراد تمام مسلم ہیں، خواہ صرف ظاہر میں اعمال بجا لانے والے ہوں یا دل سے بھی یقین رکھنے والے ہوں۔ (ابن جزیّ )- وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ : چونکہ ” المسملین وا لمسلمت “ میں مخلص اور منافق دونوں آسکتے تھے، اس لیے مومنین اور مومنات کا ذکر فرمایا، یعنی جو ظاہری انقیاد کے ساتھ دل میں بھی ایمان رکھتے ہیں، کیونکہ جب تک دل میں یقین نہ ہو ظاہر میں تابع ہونے کا کچھ فائدہ نہیں۔- وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ : ہمیشہ کے لیے اطاعت کرنے والے۔ اسلام کے بعد ایمان کا مرتبہ ہے، ان دونوں کے نتیجے میں قنوت، یعنی اطاعت اور فرماں برداری پیدا ہوتی ہے۔- وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ : اس کی تفصیل سورة توبہ کی آیت (١١٩) : (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ ) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔- وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٤٥ اور ١٥٣) ۔- وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ ۔۔ : یعنی وہ تکبر اور غرور سے پاک ہیں، ہر وقت اللہ کے سامنے عاجز اور دل و زبان اور جسم و جان سے اس کے آگے جھکے رہتے ہیں، حق سامنے آنے پر اس سے نہ سر پھیرتے ہیں، نہ انکار کرتے ہیں۔ خشوع اور عاجزی کی تمام کیفیتیں نماز میں جمع ہیں، اس لیے خشوع کا اعلیٰ درجہ نماز میں خشوع ہے، جیسا کہ فرمایا : (قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۙالَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ ) [ المؤمنون : ١، ٢ ] ” یقیناً کامیاب ہوگئے مومن۔ وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ “ ممکن ہے یہاں عام حالات میں خشوع کے ساتھ خاص طور پر یہ مراد ہو، کیونکہ اس کے بعد صدقے اور روزے کا ذکر ہے اور نماز، صدقہ اور روزہ تینوں اسلام کے بنیادی ارکان ہیں۔ خشوع، صدقہ اور صیام کے الفاظ میں فرض اور نفل دونوں شامل ہیں۔- وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ : اس میں زنا سے اجتناب کے علاوہ ننگا ہونے سے اجتناب بھی شامل ہے اور ایسا لباس پہننے سے بھی جس سے جسم کا وہ حصہ نمایاں ہوتا ہو جسے چھپانا لازم ہے۔ دیکھیے سورة مومنون (٥ تا ٧) اور معارج (٢٩ تا ٣١) ۔- وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۔۔ : ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کے راستے میں چل رہے تھے تو ایک پہاڑ پر گزرے، جسے جمدان کہا جاتا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( سِیْرُوْا ھٰذَا جُمْدَانُ سَبَقَ الْمُفَرَّدُوْنَ ) ” چلتے رہو، یہ جمدان ہے، ” مفرد “ لوگ (اپنے کام میں اکیلے رہ جانے والے) سبقت لے گئے۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ مفرد لوگوں سے کیا مراد ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلذَّاکِرُوْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذَّاکِرَاتُ ) [ مسلم، الذکر و الدعاء، باب الحث علی ذکر اللہ تعالیٰ : ٢٦٧٦ ] ” اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے مرد اور بہت زیادہ یاد کرنے والی عورتیں۔ “ ابو درداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَلاَ أُنَبِّءُکُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالِکُمْ وَ أَزْکَاہَا عِنْدَ مَلِیْکِکُمْ وَأَرْفَعِہَا فِیْ دَرَجَاتِکُمْ وَ خَیْرٍ لَّکُمْ مِنْ إِنْفَاق الذَّہَبِ وَ الْوَرِقِ وَ خَیْرٍ لَّکُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَہُمْ وَ یَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ ؟ قَالُوْا بَلٰی قَالَ ذِکْرُ اللّٰہِ تَعَالٰی ) [ ترمذي، الدعوات، باب منہ : ٣٣٧٧، و قال الألباني صحیح ] ” کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے اعمال میں سے سب سے بہتر ہے اور تمہارے مالک کے ہاں سب سے پاکیزہ ہے اور تمہارے درجات میں سب سے بلند ہے اور تمہارے لیے سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے اور اس سے بھی بہتر ہے کہ تم اپنے دشمن سے ملو، پھر وہ تمہاری گردنیں اڑائیں اور تم ان کی گردنیں اڑاؤ ؟ “ صحابہ نے عرض کیا : ” کیوں نہیں (یا رسول اللہ ) “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ اللہ کا ذکر ہے۔ “ عبداللہ بن بسر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا : ” یا رسول اللہ اسلام کے احکام مجھ پر بہت زیادہ ہوگئے ہیں، اس لیے آپ مجھے کوئی ایک چیز بتادیں جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ) [ ترمذي، الدعوات، باب ما جاء في فضل الذکر : ٣٣٧٥، و قال الألباني صحیح ] ” تیری زبان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رہے۔ “- یاد رہے زبانی ذکر ہی کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کو دل میں یاد رکھنا اور ہر وقت اس بات کا احساس ضروری ہے کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں آدمی اللہ کی نافرمانی سے بچتا ہے اور اگر نافرمانی کر بیٹھے تو اللہ کی یاد اسے اپنے رب کے ساتھ معاملہ درست کرنے پر مجبور کردیتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کی صفت بیان فرمائی : (وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ ) [ آل عمران : ١٣٥ ] ” اور وہ لوگ کہ جب کوئی بےحیائی کرتے ہیں، یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پس اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون گناہ بخشتا ہے ؟ اور انھوں نے جو کیا اس پر اصرار نہیں کرتے جب کہ وہ جانتے ہوں۔ “ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کا سایہ حاصل کرنے والے سات خوش نصیبوں میں سے ایک وہ ہے جس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَ رَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ ) [ بخاري، الأذان، باب من جلس في المسجد۔۔ : ٦٦٠ ] ” وہ آدمی جس نے اللہ کو خلوت میں یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہ پڑیں۔ “ اللہ کی نافرمانی پر اصرار کے ساتھ محض زبان سے ذکر کو اللہ کی یاد کہنا ” یاد “ کے مفہوم سے غفلت کا نتیجہ ہے۔
خلاصہ تفسیر - بیشک اسلام کے کام کرنے والے مرد اور اسلام کے کام کرنے والی عورتیں اور ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں (مسلمین و مسلمات کی اس تفسیر پر اسلام سے مراد اعمال نماز، روزہ، زکوٰة، حج وغیرہ ہوئے اور مومنین و مومنات میں ایمان سے مراد عقائد ہوئے جیسا صحیح بخاری و مسلم میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے پوچھنے پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسلام و ایمان کے متعلق بھی یہی جواب دینا منقول ہے) اور فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبرداری کرنے والی عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں (اس راست بازی میں صادق القول ہونا بھی داخل ہے صادق العمل ہونا بھی اور ایمان اور نیت میں صادق ہونا بھی، یعنی نہ ان کے کلام میں کوئی جھوٹ ہے نہ عمل میں کم ہمتی اور سستی اور نہ ریاکاری یا نفاق) اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں (اس میں صبر کی سب قسمیں آگئیں، یعنی طاعات و عبادات پر ثابت قدم رہنا اور معاصی سے اپنے نفس کو روکنا اور مصائب پر صبر کرنا) اور خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے والی عورتیں (لفظ خشوع میں نماز و عبادت کا خشوع بھی داخل ہے کہ قلب سے بھی عبادت کی طرف متوجہ ہو اور اپنے اعضاء وجوارح کو بھی اس کے مناسب رکھے اور اس میں عام تواضع بھی داخل ہے جو تکبر کے بالمقابل ہے۔ یعنی یہ لوگ تکبر اور اپنی بڑائی سے بھی پاک ہیں اور نماز وغیرہ عبادات میں بھی خشوع و خضوع ان کا وظیفہ ہے) اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں (اس میں زکوٰة اور صدقات نافلہ سب داخل ہیں) اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنیوالے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور بکثرت خدا کو یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں (یعنی جو اذکار فرض کے علاوہ نفلی اذکار کو بھی ادا کرتے ہیں) ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔- معارف ومسائل - قرآن کے عام خطابات مردوں کو ہیں عورتیں ضمناً شامل ہیں، اس کی حکمت :- قرآن کریم کے عام احکام میں اگرچہ مرد و عورت دونوں ہی شامل ہیں، مگر عموماً خطاب مردوں کو کیا گیا ہے، عورتیں اس میں ضمناً شامل ہیں۔ ہر جگہ ایہا الذین امنوا کے الفاظ استعمال فرما کر عورتوں کو ان کے ضمن میں مخاطب کیا گیا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ عورتوں کے سب معاملات تستر اور پردہ پوشی پر مبنی ہیں، اس میں ان کا اکرام و اعزاز ہے۔ خصوصاً پورے قرآن میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت مریم بنت عمران کے سوا کسی عورت کا نام قرآن میں نہیں لیا گیا، بلکہ ذکر آیا تو مردوں کی نسبت کے ساتھ امراة فرعون، امراة نوح، امراة لوط کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت مریم کی خصوصیت شاید یہ ہو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نسبت کسی باپ کی طرف نہ ہو سکتی تھی، اس لئے ماں کی طرف نسبت کرنا تھا اس نسبت کے لئے ان کا نام ظاہر کیا گیا۔ واللہ اعلم۔- قرآن کریم کا یہ اسلوب اگرچہ خود ایک بڑی حکمت و مصلحت پر مبنی تھا، مگر عورتوں کو اس کا خیال گزرنا ایک امر طبعی تھا۔ اسی لئے کتب حدیث میں ایسی متعدد روایات ہیں جن میں عورتوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ مردوں کا ہی ذکر قرآن میں فرماتے ہیں، انہی کو مخاطب فرماتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ہم عورتوں میں کوئی خیر ہی نہیں، ہمیں ڈر ہے کہ ہماری عبادت بھی قبول نہ ہو (رواہ البغوی عن الازواج المطہرات) اور ترمذی میں بسند حسن حضرت ام عمارہ انصاریہ سے اور بعض روایات میں حضرت اسماء بنت عمیس سے اس طرح کی عرضداشت پیش کرنا منقول ہے، اور ان سب روایات میں آیات مذکور الصدر کا سبب نزول اسی عرض داشت کو قرار دیا ہے۔- آیات مذکورہ میں عورتوں کی دل جوئی اور ان کے اعمال کی مقبولیت کا خصوصی ذکر فرمایا گیا ہے، جس میں یہ جتلا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبولیت اور فضیلت کا مدار اعمال صالحہ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ہے اس میں مرد و عورت میں کوئی امتیاز نہیں۔- ذکر اللہ کی کثرت کا حکم اور اس کی حکمت :- اسلام کے ارکان پانچ عبادتیں ہیں، نماز، زکوٰة، روزہ، حج، جہاد لیکن پورے قرآن میں ان میں سے کسی عبادت کو کثرت کے ساتھ کرنے کا حکم نہیں۔ مگر ذکر اللہ کے متعلق قرآن کریم کی متعدد آیات میں بکثرت کرنے کا ارشاد ہے۔ سورة انفال، سورة جمعہ میں اور اس سورت میں والذاکرین اللہ کثیراً والذاکرات فرمایا۔- اس کی حکمت غالباً یہ ہے کہ اول تو ذکر اللہ سب عبادات کی اصل روح ہے، جیسا کہ حضرت معاذ بن انس کی روایت سے آیا ہے کہ کسی شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ مجاہدین میں سب سے زیادہ اجر وثواب کس کا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ اللہ کا ذکر کرے۔ پھر پوچھا کہ روزہ داروں میں کس کا ثواب سب سے زیادہ ہے ؟ فرمایا جو سب سے زیادہ اللہ کا ذکر کرے۔ پھر اسی طرح نماز، زکوٰة اور حج و صدقہ کے متعلق سوالات کئے، ہر مرتبہ آپ نے یہی فرمایا کہ جو اللہ کا ذکر زیادہ کرے، وہی زیادہ مستحق اجر ہے۔ رواہ احمد (ابن کثیر)- دوسرے وہ سب عبادات میں سب سے زیادہ سہل ہے۔ شریعت نے بھی اس کے لئے کوئی شرط نہیں رکھی، وضو، بےوضو، لیٹے، بیٹھے، چلتے پھرتے، ہر وقت میں ذکر اللہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ نہ انسان سے کوئی محنت لیتا ہے، نہ کسی فرصت کو مقتضی ہے۔ اور اثر و فائدہ اس کا اتنا عظیم ہے کہ ذکر اللہ کے ذریعہ دنیا کے کام بھی دین اور عبادت بن جاتے ہیں۔ کھانے سے پہلے اور بعد کی دعا، گھر سے نکلنے اور واپس آنے کی دعائیں، سفر میں جانے اور دوران سفر اور وطن کی واپسی کی دعائیں، کوئی کاروبار کرنے سے پہلے اور بعد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم فرمودہ دعاؤں کا حاصل ہی یہ ہے کہ مسلمان کسی وقت اللہ سے غافل ہو کر کوئی کام نہ کرے، اور اس نے یہ ماثور دعائیں اپنے کاموں میں پڑھ لیں تو وہ دنیا کے کام بھی دین بن جاتے ہیں۔
اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالصّٰۗىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللہَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ٠ ۙ اَعَدَّ اللہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا ٣٥- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - قنت - القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ- [ البقرة 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] قيل : خاضعون، وقیل :- طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» «1» ، وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» «2» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه . وقال تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً- [ النحل 120] ، وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم 12] ، أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] ، اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران 43] ، وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ- [ الأحزاب 31] ، وقال : وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب 35] ، فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء 34] .- ( ق ن ت ) القنوت - ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن منصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل 120] بت شک حضرت ابراھیم لوگوں کے امام اور خدا کے فرمابنرداری تھے ۔ اور مریم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم 12] اور فرمانبرداری میں سے تھیں ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] یا وہ جو رات کے وقتقں میں زمین پریشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران 43] اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا ۔ وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب 31] اور جو تم میں سے خدا اور اسکے رسول کی فرمنبردار رہے گی ۔ وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب 35] اور فرمانبرداری مرد اور فرمانبردار عورتیں ۔ فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء 34] تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - خشع - الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» «2» . قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] .- ( خ ش ع ) الخشوع - ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )- صدقه - والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60- ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات )- ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔- صوم - الصَّوْمُ في الأصل : الإمساک عن الفعل مطعما کان، أو کلاما، أو مشیا، ولذلک قيل للفرس الممسک عن السّير، أو العلف : صَائِمٌ. قال الشاعر :۔ خيل صِيَامٌ وأخری غير صَائِمَةٍ- «1» وقیل للرّيح الرّاكدة : صَوْمٌ ، ولاستواء النهار :- صَوْمٌ ، تصوّرا لوقوف الشمس في كبد السماء، ولذلک قيل : قام قائم الظّهيرة . ومَصَامُ الفرسِ ، ومَصَامَتُهُ : موقفُهُ. والصَّوْمُ في الشّرع : إمساک المکلّف بالنّية من الخیط الأبيض إلى الخیط الأسود عن تناول الأطيبين، والاستمناء والاستقاء، وقوله : إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً- [ مریم 26] ، فقد قيل : عني به الإمساک عن الکلام بدلالة قوله تعالی: فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم 26] .- ( ص و م ) الصوم - ( ن ) کے اصل معنی کسی کام سے رک جانا اور باز رہنا کے ہیں خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا چلنے پھرنے اور یا گفتگو کرنے سے اس بنا پر گھوڑا چلنے سے رک جائے یا چارہ نہ کھائے اسے بھی صائم کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ( البیط ) ( 280 ) خیل صیام واخرٰ ی غیر صائیمۃ کچھ گھوڑے اپنے تھان پر کھڑے ہیں اور دوسرے میدان جنگ میں ہوں ۔ اور ہوا کے ساکن ہونے اور دوپہر کے وقت پر بھی صوم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس تصور پر کہ اس وقت آفتاب وسط آسمان میں ٹہھر جاتا ہے اسی اعتبار سے قام قائم الظھیرۃ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی دوپہر کے وقت سورج کے خط نصف النہار پر ہونا کے ہیں مصمام الفرس او مصامتہ گھوڑے کے کھڑے ہونے کی جگہ ۔ اصطلاحی شریعت میں کسی مکلف کا روزہ کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے منی خارج کرنے اور ۔ عمدا قے کرنے سے رک جانے کا نام صوم ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم 26] کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت مانی ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں صوم سے مراد کلام سے رکنے یعنی خاموش رہنا کے ہیں ۔ جیسا کہ بعد میں فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم 26] تو آج میں کسی آدمی سے ہر گز کلام نہ کروں گی ) سے اسکی تفسیر کی گئی ہے ۔- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] - ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ - کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
حضرت ام سلمہ زوجہ نبی اکرم اور نسیبہ بنت کعب الانصاریہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا وجہ ہے کہ خیر اور بھلائی میں اللہ تعالیٰ صرف مردوں ہی کا ذکر فرماتے ہیں عورتوں کا کچھ تذکرہ نہیں کرتے اس پر حسب ذیل آیات نازل ہوئیں۔- کہ بیشک موحد مرد اور موحد عورتیں اور توحید کا اقرار کرنے والے مرد اور توحید کا اقرار کرنے والی عورتیں اور فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبرداری کرنے والی عورتیں اور ایمان میں سچے مرد اور سچی عورتیں اور احکام خداوندی پر قائم رہنے والے اور تکالیف پر صبر کرنے والے اور اسی طرح احکام خداوندی پر ثابت رہنے والی اور تکالیف پر صبر کرنے والی عورتیں اور خشوع و خضوع کرنے والے مرد اور خشوع و خضوع کرنے والی عورتیں اور اپنے اموال میں سے خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور زبان و قلب کے ساتھ یا یہ کہ پانچوں نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ بکثرت اللہ کو یاد کرنے والے مرد اور بکثرت یاد کرنے والی عورتیں اللہ تعالیٰ ان مردوں اور عورتوں کے لیے ان کے گناہوں کی مغفرت اور جنت میں اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔- شان نزول : اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ (الخ)- امام ترمذی نے تحسین کے ساتھ بواسطہ عکرمہ ام امارہ اور انصاریہ سے روایت کیا ہے کہ وہ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئی تھیں اور عرض کیا کہ میں ساری باتیں مردوں ہی کے لیے دیکھتی ہوں عورتوں کا کسی فضیلت میں ذکر نہیں کیا گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی بیشک اسلام کے کام کرنے والے مرد اور اسلام کے کام کرنے والی عورتیں۔ الخ - اور امام طبرانی نے اچھی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ عورتوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا وجہ ہے کہ مردوں کا ذکر خیر ہوتا ہے اور عورتوں کا نہیں ہوتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور سورة آل عمران کے آخر میں ام سلمہ کی حدیث گزر چکی ہے۔- اور ابن سعد سے روایت کیا ہے کہ جب ازواج مطہرات کا تذکرہ کیا گیا تو اور عورتیں کہنے لگیں کہ اگر ہم میں کوئی بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ ہمارا بھی ذکر کرتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔
آیت ٣٥ اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ” یقینا مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ‘ اور مومن مرد اور مومن عورتیں “- ” مسلم “ کے لفظی معنی ہیں فرمانبردار اور سر ِتسلیم خم کرنے والا۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ اس آیت کے ساتھ سورة النور کی آیت ٣٥ کی ایک خاص مناسبت ہے۔ سورة النور کی مذکورہ آیت یہ ہے : اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍلا یَّکَادُ زَیْتُہَا یُضِیْٓ ُٔ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ یَہْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ” اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا۔ اس کے نور کی مثال ایسے ہے جیسے ایک طاق ‘ اس (طاق) میں ایک روشن چراغ ہے ‘ وہ چراغ شیشے (کے فانوس) میں ہے ‘ اور وہ شیشہ چمک رہا ہے جیسے کہ ایک چمکدار ستارہ ہو ‘ وہ (چراغ) جلایا جاتا ہے زیتون کے ایک مبارک درخت سے ‘ جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی ‘ قریب ہے اس کا روغن (خود بخود) روشن ہوجائے ‘ چاہے اسے نہ چھوئے آگ۔ روشنی پر روشنی۔ اللہ ہدایت دیتا ہے اپنی روشنی کی جس کو چاہتا ہے ‘ اور اللہ یہ مثالیں بیان کرتا ہے لوگوں کے لیے ‘ جبکہ اللہ ہرچیز کا جاننے والا ہے ۔ “- سورة النور کی اس طویل آیت میں ایمان کی ماہیت و حقیقت اور ایمان کے اجزائے ترکیبی کا ذکر ہے۔ لیکن دل میں حقیقی ایمان کے جاگزیں ہوجا نے کے باعث متعلقہ شخصیت کے اندر جو اوصاف پیدا ہوتے ہیں ان کا ذکر آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے۔ یہاں خصوصی طور پر ایک نکتہ یہ بھی سمجھ لیں کہ سورة النور اور سورة الاحزاب میں معاشرتی اصلاحات کے بارے میں جو احکام آئے ہیں ان میں عورتوں سے متعلق مسائل کی خصوصی اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت زیر نظر میں یہاں خصوصی طور پر َمردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا ذکر علیحدہ صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے ‘ جبکہ اس ضمن میں قرآن کا عمومی اسلوب یہی ہے کہ اکثر احکام مذکر کے صیغے میں دیے جاتے ہیں ‘ یعنی مردوں کو مخاطب کر کے ایک حکم دے دیا گیا اور بر سبیل ِ ” تغلیب “ عورتیں خود بخود اس حکم میں شامل ہوگئیں۔ جیسے وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ مذکر کا صیغہ ہے لیکن اس حکم میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔ بہر حال اس آیت میں تکرار کے ساتھ مردوں کے ساتھ خصوصی طور پر عورتوں کا ذکر کر کے دونوں کے لیے دس اوصاف ِگنوائے گئے ہیں :- وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ ” اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں ‘ اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں “- ” صدق “ سے مراد یہاں زبان کی سچائی کے ساتھ ساتھ عمل اور کردار کی سچائی ہے۔- وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ ” اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ‘ اور خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے والی عورتیں “- یعنی اللہ کے حضور جھک کر رہنے والے مرد اور عورتیں۔- وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ ” اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں ‘ اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں “- وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ ” اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں “- وَالذَّاکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ ” اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں “- اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا ” اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ “- اللَّھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ۔ - ۔ - آمین
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :53 پچھلے پیراگراف کے بعد متصلاً یہ مضمون ارشاد فرما کر ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف کر دیا گیا ہے کہ اوپر ازواج مطہرات کو جو ہدایات دی گئی ہیں وہ ان کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ مسلم معاشرے کو بالعموم اپنے کردار کی اصلاح انہی ہدایات کے مطابق کرنی چاہیے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :54 یعنی جنہوں نے اسلام کو اپنے لیے ضابطۂ حیات کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے اور یہ طے کر لیا ہے کہ اب وہ اسی کی پیروی میں زندگی بسر کریں گے ۔ دوسرے الفاظ میں ، جن کے اندر اسلام کے دیے ہوئے طریق فکر اور طرز زندگی کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت باقی نہیں رہی ہے ۔ بلکہ وہ اس کی اطاعت اور اتباع کی راہ اختیار کر چکے ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :55 یعنی جن کی یہ اطاعت محض ظاہری نہیں ہے ۔ بادل ناخواستہ نہیں ہے ، بلکہ دل سے وہ اسلام ہی کی رہنمائی کو حق مانتے ہیں ۔ ان کا ایمان یہی ہے کہ فکر و عمل کا جو راستہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا ہے وہی سیدھا اور صحیح راستہ ہے اور اسی کی پیروی میں ہماری فلاح ہے ۔ جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے غلط کہہ دیا ہے ان کی اپنی رائے بھی یہی ہے کہ وہ یقیناً غلط ہے ، اور جسے اللہ اور اس کے رسول نے حق کہہ دیا ہے ان کا اپنا دل و دماغ بھی اسے برحق ہی یقین کرتا ہے ۔ ان کے نفس اور ذہن کی حالت یہ نہیں ہے کہ قرآن اور سنت سے جو حکم ثابت ہو اسے وہ نامناسب سمجھتے ہوں اور اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہیں کہ کسی طرح اسے بدل کر اپنی رائے کے مطابق ، یا دنیا کے چلتے ہوئے طریقوں کے مطابق ڈھال بھی دیا جائے اور یہ الزام بھی اپنے سر نہ لیا جائے کہ ہم نے حکم خدا اور رسول میں ترمیم کر ڈالی ہے ۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایمان کی صحیح کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں : ذاق طعم الایمان من رضی باللّٰہ ربّاً و بالاسلام دینا و بِمُحمَّدٍ رسُولا ۔ ایمان کا لذت شناس ہو گیا وہ شخص جو راضی ہوا اس بات پر کہ اللہ ہی اس کا رب ہو اور اسلام ہی اس کا دین ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے رسول ہوں ۔ اور ایک دوسری حدیث میں آپ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں ۔ لا یؤمن احدکم حتٰی یکون ھواہ تبعاً لما جئتُ بہ ( شرح السنّہ ) تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس چیز کے تابع نہ ہو جائے جسے میں لایا ہوں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :56 یعنی وہ محض مان کر رہ جانے والے بھی نہیں ہیں بلکہ عملاً اطاعت کرنے والے ہیں ۔ ان کی یہ حالت نہیں ہے کہ ایمانداری کے ساتھ حق تو اسی چیز کو مانیں جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے مگر عملاً اس کی خلاف ورزی کریں ، اور اپنی مخلصانہ رائے میں تو ان سب کاموں کو برا ہی سمجھتے رہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے مگر اپنی عملی زندگی میں ارتکاب انہی کا کرتے چلے جائیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :57 یعنی اپنی گفتار میں بھی سچے ہیں اور اپنے معاملات میں بھی کھرے ہیں ۔ جھوٹ ، فریب ، بدنیتی ، دغا بازی اور چھل بٹے ان کی زندگی میں نہیں پائے جاتے ۔ ان کی زبان وہی بولتی ہے جسے ان کا ضمیر صحیح جانتا ہے ۔ وہ کام وہی کرتے ہیں جو ایمانداری کے ساتھ ان کے نزدیک راستی و صداقت کے مطابق ہوتا ہے ۔ اور جس سے بھی وہ کوئی معاملہ کرتے ہیں دیانت کے ساتھ کرتے ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :58 یعنی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے اور خدا کے دین کو قائم کرنے میں جو مشکلات بھی پیش آئیں ، جو خطرات بھی درپیش ہوں ، جو تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں اور جن نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑے ، ان کا پوری ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں ۔ کوئی خوف ، کوئی لالچ اور خواہشات نفس کا کوئی تقاضا ان کو سیدھی راہ سے ہٹا دینے میں کامیاب نہیں ہوتا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :59 یعنی وہ تکبُّر اور استکبار اور غرور نفس سے خالی ہیں ۔ وہ اس حقیقت کا پورا شعور و احساس رکھتے ہیں کہ ہم بندے ہیں اور بندگی سے بالا تر ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ اس لیے ان کے دل اور جسم دونوں ہی اللہ کے آگے جھکے رہتے ہیں ۔ ان پر خدا کا خوف غالب رہتا ہے ۔ ان سے کبھی وہ رویہ ظاہر نہیں ہوتا جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا اور خدا سے بے خوف لوگوں سے ظاہر ہوا کرتا ہے ۔ ترتیب کلام ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس عام خدا ترسانہ رویہ کے ساتھ خاص طور پر خشوع سے مراد نماز ہے کیونکہ اس کے بعد ہی صدقے اور روزے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :60 اس سے مراد صرف فرض زکوٰۃ ادا کرنا ہی نہیں ہے ، بلکہ عام خیرات بھی اس میں شامل ہے ۔ مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کھلے دل سے اپنے مال صرف کرتے ہیں ۔ اللہ کے بندوں کی مدد کرنے میں اپنی حد استطاعت تک وہ کوئی دریغ نہیں کرتے ۔ کوئی یتیم ، کوئی بیمار ، کوئی مصیبت زدہ ، کوئی ضعیف و معذور ، کوئی غریب و محتاج آدمی ان کی بستیوں میں دستگیری سے محروم نہیں رہتا ۔ اور اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لیے ضرورت پیش آجائے تو اس پر اپنے مال لٹا دینے میں وہ کبھی بخل سے کام نہیں لیتے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :61 اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے شامل ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :62 اس میں دو مفہوم شامل ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ زنا سے پرہیز کرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ برہنگی و عریانی سے اجتناب کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ برہنگی و عریانی صرف اسی چیز کا نام نہیں ہے کہ آدمی لباس کے بغیر بالکل ننگا ہو جائے ۔ بلکہ ایسا لباس پہننا بھی برہنگی ہی ہے جو اتنا رقیق ہو کہ جسم اس میں سے جھلکتا ہو ، یا اتنا چست ہو کہ جسم کی ساخت اور اس کے نشیب و فراز سب اس میں سے نمایاں نظر آتے ہوں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :63 اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے ۔ یہ کیفیت آدمی پر اس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو ۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لا شعور تک میں جب یہ خیال گہرا اتر جاتا ہے تب ہے اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا ۔ کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا ۔ فارغ ہو گا تو الحمد للہ کہے گا ۔ سوئے گا تو اللہ کو یاد کر کے اور اٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے ۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ ، الحمد للہ ، ماشاء اللہ اور اسی طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے ۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگے گا ۔ ہر نعمت ملنے پر اس کا شکر ادا کرے گا ۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلبگار ہو گا ۔ مشکل میں اس سے رجوع کرے گا ۔ ہر برائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا ۔ ہر قصور سرزد ہو جانے پر اس سے معافی چاہے گا ۔ ہر حاجت پیش آنے پر اس سے دعا مانگے گا ۔ غرض اٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہو گا ۔ یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے ۔ دوسری جتنی بھی عبادات ہیں ان کے لیے بہرحال کو ئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہو جاتا ہے ۔ لیکن یہ وہ عبادت ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے ۔ خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کا دل محض ان خاص اعمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کی طرف راغب اور اس کی زبان دائماً اس کے ذکر سے تر رہے ۔ یہ حالت انسان کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اسی طرح پروان چڑھتے اور نشو و نما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطابق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو ۔ اس کے برعکس جو زندگی اس دائمی ذکر خدا سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پر ادا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہو اور محض باغبان کی خاص خبر گیری کی وجہ سے پل رہا ہو ۔ اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں یوں واضح فرماتے ہیں : عن معاذ بن انس الجھنی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان رجلاً سألہ ای المجاھدین اعظمُ اجراً یا رسول اللہَ؟ قال اکثرھم للہِ تعَالیٰ ذکراً قال ایُّ الصائمین اکثر اجرا ؟ قال اکثرھم لِلہ عزّ وجل ذکراً ثم ذکرا لصّلوٰۃ والزکوٰۃ والحجّ والصَّدَقَۃکل ذٰلک یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثرھم لِلہ ذکراً ۔ ( مسند احمد ) معاذ بن انَس جُہَنی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ، جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے ؟ فرمایا جو ان میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے ۔ اس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گا ؟ فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرنے والا ہو ۔ پھر اس شخص نے اسی طرح نماز ، زکوٰۃ حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کا یہی جواب دیا کہ جو اللہ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :64 اس آیت میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اصل قدر و قیمت کن اوصاف کی ہے ۔ یہ اسلام کی بنیادی قدریں ( ) ہیں جنہیں ایک فقرے کے اندر سمیٹ دیا گیا ہے ۔ ان قدروں کے لحاظ سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ عمل کے لحاظ سے تو بلاشبہ دونوں صنفوں کا دائرۂ کار الگ ہے ۔ مردوں کو زندگی کے کچھ شعبوں میں کام کرنا ہے اور عورتوں کو کچھ اور شعبوں میں اگر یہ اوصاف دونوں میں یکساں موجود ہوں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں دونوں کا مرتبہ یکساں اور دونوں کا اجر برابر ہو گا ۔ اس لحاظ سے ان کے مرتبے اور اجر میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ایک نے چولھا چکی سنبھالا اور دوسرے نے خلافت کی مسند پر بیٹھ کر احکام شریعت جاری کیے ، ایک نے گھر میں بچے پالے اور دوسرے نے میدان جنگ میں جا کر اللہ اور اس کے دین کے لیے جان لڑائی ۔
29: مسلمانوں کو قرآن کریم میں جب بھی کوئی حکم دیا گیا ہے، یا ان کو کوئی خوشخبری دی گئی ہے، تو عام طور سے مذکر ہی کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اگرچہ خواتین بھی اس میں داخل ہیں، (جیسا کہ دنیوی قوانین میں بھی صورت حال یہی ہے) لیکن بعض صحابیات کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ خاص مؤنث کے صیغے کے ساتھ بھی خواتین کے بارے میں کوئی خوشخبری دیں۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ 30: یہ ’’ خشوع‘‘ کا ترجمہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کے وقت دل عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ساتھ لگا ہوا ہو۔ اس کا بیان سورۂ مومنون کی دوسری آیت میں گذر چکا ہے۔