حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو رد کرنا گناہ عظیم ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کا پیغام لے کر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئے ۔ انہوں نے کہا میں اس سے نکاح نہیں کروں گی آپ نے فرمایا ایسا نہ کہو اور ان سے نکاح کر لو ۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ اچھا پھر کچھ مہلت دیجئے میں سوچ لوں ۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ وحی نازل ہوئی اور یہ آیت اتری ۔ اسے سن کر حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ۔ یا رسول اللہ کیا آپ اس نکاح سے رضامند ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ بس پھر مجھے کوئی انکار نہیں ، میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کروں گی ۔ میں نے اپنا نفس ان کے نکاح میں دے دیا اور روایت میں ہے کہ وجہ انکار یہ تھی کہ نسب کے اعتبار سے یہ بہ نسبت حضرت زید کے زیادہ شریف تھیں ۔ حضرت زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عقبہ بن ابو معیط کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ صلح حدیبیہ کے بعد سب سے پہلے مہاجر عورت یہی تھی ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا نفس آپ کو ہبہ کرتی ہوں ۔ آپ نے فرمایا مجھے قبول ہے ۔ پھر حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کرا دیا ۔ غالباً یہ نکاح حضرت زینب رضی اللہ عنہ کی علیحدگی کے بعد ہوا ہو گا ۔ اس سے حضرت ام کلثوم ناراض ہوئیں اور ان کے بھائی بھی بگڑ بیٹھے کہ ہمارا اپنا ارادہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کا تھا نہ کہ آپ کے غلام سے نکاح کرنے کا ، اس پر یہ آیت اتری بلکہ اس سے بھی زیادہ معاملہ صاف کر دیا گیا اور فرما دیا گیا کہ ( اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا Č ) 33- الأحزاب:6 ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ اولیٰ ہیں ۔ پس آیت ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا 36ۭ ) 33- الأحزاب:36 ) خاص ہے اور اس سے بھی جامع آیت یہ ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک انصاری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی لڑکی کا نکاح جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اچھی بات ہے ۔ میں اس کی ماں سے بھی مشورہ کرلوں ۔ جا کر ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا ، ہم نے فلاں فلاں ان سے بڑے بڑے آدمیوں کے پیغام کو رد کردیا اور اب جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر دیں ۔ انصاری اپنی بیوی کا یہ جواب سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانا چاہتے ہی تھے کہ لڑکی جو پردے کے پیچھے سے یہ تمام گفتگو سن رہی تھی بول پڑی کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد کرتے ہو؟جب حضور اس سے خوش ہیں تو تمہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔ اب دونوں نے کہا کہ بچی ٹھیک کہہ رہی ہے ۔ بیچ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس نکاح سے انکار کرنا گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور خواہش کو رد کرنا ہے ، یہ ٹھیک نہیں ۔ چنانچہ انصاری سیدھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کیا آپ اس بات سے خوش ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں میں تو اس سے رضامند ہوں ۔ کہا پھر آپ کو اختیار ہے آپ نکاح کر دیجئے ، چنانچہ نکاح ہو گیا ۔ ایک مرتبہ اہل اسلام مدینہ والے دشمنوں کے مقابلے کے لئے نکلے ، لڑائی ہوئی جس میں حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے انہوں نے بھی بہت سے کافروں کو قتل کیا تھا جن کی لاشیں ان کے آس پاس پڑی ہوئی تھیں ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے خود دیکھا ان کا گھر بڑا آسودہ حال تھا ۔ تمام مدینے میں ان سے زیادہ خرچیلا کوئی نہ تھا ۔ ایک اور روایت میں حضرت ابو بردہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ کی طبیعت خوش مذاق تھی اس لئے میں نے اپنے گھر میں کہہ دیا تھا کہ یہ تمہارے پاس نہ آئیں ۔ انصاریوں کی عادت تھی کہ وہ کسی عورت کا نکاح نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ یہ معلوم کرلیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بابت کچھ نہیں فرماتے ۔ پھر وہ واقعہ بیان فرمایا جو اوپر مذکور ہوا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سات کافروں کو اس غزوے میں قتل کیا تھا ۔ پھر کافروں نے یک مشت ہو کر آپ کو شہید کر دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تلاش کرتے ہوئے جب ان کی نعش کے پاس آئے تو فرمایا سات کو مار کر پھر شہید ہوئے ہیں ۔ یہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں ۔ دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا پھر قبر کھدوا کر اپنے ہاتھوں پر انہیں اٹھا کر قبر میں اتارا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک ہی ان کا جنازہ تھا اور کوئی چار پائی وغیرہ نہ تھی ۔ یہ بھی مذکور نہیں کہ انہیں غسل دیا گیا ہو ۔ اس نیک بخت انصاریہ عورت کے لئے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی عزت رکھ کر اپنے ماں باپ کو سمجھایا تھا کہ انکار نہ کرو ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ اس پر اپنی رحمتوں کی بارش برسا اور اسے زندگی کے پورے لطف عطا فرما ۔ تمام انصار میں ان سے زیادہ خرچ کرنے والی عورت نہ تھی ۔ انہوں نے جب پردے کے پیچھے سے اپنے والدین سے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات رد نہ کرو اس وقت یہ آیت ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا 36ۭ ) 33- الأحزاب:36 ) نازل ہوئی تھی ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت طاؤس نے پوچھا کہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھ سکتے ہیں؟ آپ نے منع فرمایا اور اسی آیت کی تلاوت کی پس یہ آیت گو شان نزول کے اعتبار سے مخصوص ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے ہوتے ہوئے نہ تو کوئی مخالفت کر سکتا ہے نہ اسے ماننے نہ ماننے کا اختیار کسی کو باقی رہتا ہے ۔ نہ رائے اور قیاس کرنے کا حق ، نہ کسی اور بات کا ۔ جیسے فرمایا ( فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65 ) 4- النسآء:65 ) ، یعنی قسم ہے تیرے رب کی لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک کہ وہ آپس کے تمام اختلافات میں تجھے حاکم نہ مان لیں ۔ پھر تیرے فرمان سے اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی نہ رکھیں بلکہ کھلے دل سے تسلیم کر لیا ۔ صحیح حدیث میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو گا جب تک کہ اس کی خواہش اس چیز کی تابعدار نہ بن جائے جسے میں لایا ہوں ۔ اسی لئے یہاں بھی اس کی نافرمانی کی برائی بیان فرما دی کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والا کھلم کھلا گمراہ ہے ۔ جیسے فرمان ہے ( فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63 ) 24- النور:63 ) یعنی جو لوگ ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو ان پر کوئی فتنہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب ہو ۔
3 6 1یہ آیت حضرت زینب (رض) کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔ حضرت زید بن حارثہ (رض) ، جو کہ اصلا عرب تھے، لیکن کسی نے انھیں بچپن میں زبردستی پکڑ کر بطور غلام بیچ دیا تھا لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت خدیجہ کے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ نے انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کردیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں آزاد کر کے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے نکاح کے لئے اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب کو نکاح کا پیغام بیجھا، جس پر انھیں اور ان کے بھائی کو خاندانی وضاحت کی بنا پر تامل ہوا، کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں اور ہمارا تعلق ایک اونچے خاندان سے ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کے فیصلے کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا اختیار بروئے کار لائے۔ بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سر تسلیم خم کردے چناچہ یہ آیت سننے کے بعد حضرت زینب وغیرہ نے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا باہم نکاح ہوگیا۔
[ ٥٥] آزاد شدہ غلاموں کا معاشرہ میں مقام :۔ اس سورة کے آغاز میں پہلے بتایا جاچکا ہے کہ عرب معاشرہ میں کثیر تعداد غلاموں کی تھی۔ اور غلاموں کو ایک حقیر اور دوسرے درجہ کی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی غلام آزاد کردیا جاتا، جسے مولیٰ کہا جاتا تھا، تو بھی آزاد لوگوں کا معاشرہ اسے اپنے آپ میں جذب کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔ اسلام اس معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کرنا چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ اس اصلاح کا آغاز نبی کی ذات اور اس کے گھرانہ سے کیا جائے۔- خ سیدہ زینب کا اللہ اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا :۔ آپ کا ایک غلام زید بن حارثہ تھا جسے آپ نے آزاد کرنے کے بعد اسے اپنا متبنّی بھی بنا لیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود آزاد لوگ اسے معاشرتی لحاظ سے اپنے برابر کا درجہ دینے کو تیار نہ تھے۔ آپ نے زید کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن زینب کا رشتہ طلب کیا۔ تو ان لوگوں کو یہ بات توہین آمیز معلوم ہوئی اور سخت ناگوار گزری۔ اسی وجہ سے ان لوگوں نے رشتہ دینے سے انکار کردیا۔ مگر اللہ کو منظور تھا کہ یہ کام ضرور ہونا چاہئے۔ اسی ضمن میں یہ آیت نازل ہوئی۔ چناچہ آپ نے یہ آیت سیدہ زینب بنت جحش کو سنائی تو انہوں نے اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور یہ رشتہ قبول کرلیا۔ اور سیدنا زید کا زینب بنت جحش سے نکاح ہوگیا۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ ۔۔ : ” الْخِـيَرَةُ “ ” تَخَیَّرَ یَتَخَیَّرُ “ (تفعّل) کا مصدر ہے، جیسا کہ ” تَطَیَّرَ “ کا مصدر ” اَلطِّیَرَۃُ “ ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں، اس وزن پر اس باب سے یہی دو مصدر آتے ہیں۔ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنی بیویوں کو اپنے ساتھ رہنے کا یا اپنے سے الگ ہونے کا اختیار دیں، تاکہ واضح ہوجائے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات کے لیے کسی کو تکلیف نہیں دینا چاہتے۔ اب فرمایا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس طرح بیویوں کو ساتھ رہنے یا جدا ہونے کا اختیار دیا گیا، اس طرح ہر آدمی کو ہر کام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ماننے یا نہ ماننے کا اختیار ہے۔ بلکہ کچھ کام ایسے ہیں جن میں کسی مومن مرد یا مومن عورت کو اپنی مرضی کا اختیار نہیں، یہ وہ کام ہیں جن کا اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول واضح حکم دے دیں اور اسے کرنے یا نہ کرنے کی گنجائش نہ دیں۔ اگر وہ خود ہی گنجائش دے دیں تو الگ بات ہے، جیسا کہ بریرہ (رض) لونڈی تھیں تو مغیث (رض) کے نکاح میں تھیں، جب وہ آزاد ہوئیں تو خاوند کے غلام ہونے کی وجہ سے انھیں اس کی زوجیت میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیار حاصل ہوگیا۔ بریرہ (رض) نے اس سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عباس (رض) سے فرمایا : ( یَا عَبَّاسُ أَلَا تَعْجَبُ مِنْ حُبِّ مُغِیْثٍ بَرِیْرَۃَ ، وَ مِنْ بُغْضِ بَرِیْرَۃَ مُغِیْثًا )” اے عباس کیا تمہیں مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر تعجب نہیں ہوتا ؟ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : ( لَوْ رَاجَعْتِہِ ؟ ) ” کاش تو اس سے رجوع کرلیتی ؟ “ اس نے کہا : ” یا رسول اللہ کیا آپ مجھے حکم دے رہے ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّمَا أَنَا أَشْفَعُ ) ” میں تو صرف سفارش کر رہا ہوں۔ “ اس نے کہا : ( فَلَا حَاجَۃَ لِيْ فِیْہِ ) [ بخاري، الطلاق، باب شفاعۃ النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) في زوج بریرۃ : ٥٢٨٣ ] ” مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ “ - ” اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا “ کا یہی مطلب ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے فیصلہ کن حکم آجائے تو کسی مسلمان کو اپنا اختیار استعمال کرنے کی کسی صورت میں گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ” کَان “ کے ساتھ ” مَا “ نافیہ کی مزید تاکید ہو رہی ہے، کیونکہ ” کَان “ کے ساتھ نفی کا استمرار اور اس کی ہمیشگی مقصود ہے۔ یعنی کسی مومن مرد یا مومن عورت کو کبھی بھی یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول۔۔- 3 اکثر مفسرین نے اس آیت کی شان نزول یہ لکھی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبد المطلب کی بیٹی زینت بنت جحش (رض) کو اپنے متبنٰی اور آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ (رض) کے ساتھ نکاح کے لیے کہا تو انھوں نے یہ کہہ کر کہ میں حسب میں اس سے بہتر ہوں، انکار کردیا۔ اس پر یہ آیت اتری تو وہ نکاح پر رضا مند ہوگئیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) کے ساتھ ان کا نکاح کردیا۔ ابن کثیر (رض) نے اس شان نزول کی دو روایتیں ذکر فرمائی ہیں، پہلی عوفی عن ابن عباس (رض) ہے، جو طبری نے روایت کی ہے، اس کی سند ضعیف ہے۔ دوسری ابن لہیعہ عن ابن ابی عمرہ عن عکرمہ عن ابن عباس (رض) ہے، اسے بھی طبری نے روایت کیا ہے اور یہ بھی ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی یقینی نہیں کہ زینب (رض) کا نکاح زید (رض) سے ہجرت کے بعد ہوا تھا، جب کہ یہ سورت مدنی ہے۔ ابن عاشور نے اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ یہ نکاح ہجرت سے پہلے مکہ میں ہوچکا تھا اور ابن کثیر نے مقاتل بن حیان کا جو قول نقل کیا ہے کہ زینب (رض) زید (رض) کے پاس ایک سال کے قریب رہیں، ثابت نہیں، کیونکہ مقاتل تبع تابعی ہیں، انھوں نے اس بات کو نقل کرنے والے تابعی کا ذکر کیا ہے نہ صحابی کا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری (رض) لکھتے ہیں : ” اصول شریعت کی رو سے دیکھا جائے تو گو نکاح کرنا ایک شرعی حکم ہے، مگر یہ بات کہ نبی کسی خاص عورت کو کسی خاص مرد، یا کسی خاص مرد کو کسی خاص عورت سے نکاح کرنے پر شرعی طور پر مامور کرے صحیح نہیں، یعنی نبی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو فلاں مرد سے شادی کر اور اگر وہ عورت نہ مانے تو نافرمان قرار پائے۔ ہمارے اس دعویٰ پر بریرہ (رض) کی حدیث قوی شہادت ہے (جو اسی آیت کی تفسیر میں گزر چکی ہے) ۔ “ (تفسیر ثنائی) اس لیے بہتر یہی ہے کہ یہ کہنے کے بجائے کہ زینب (رض) نے اس آیت کے نزول سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا، اس آیت کو اسی طرح اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی اطاعت کی تاکید سمجھا جائے، جس طرح یہ تاکید اسی سورت کے شروع میں اس سے بھی جامع الفاظ میں گزر چکی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ) [ الأحزاب : ٦ ] ” یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہے۔ “- 3 ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں : ” یہ آیت تمام احکام کے لیے عام ہے کہ اللہ اور اس کا رسول جب کسی چیز کا فیصلہ فرما دیں تو نہ کسی کے لیے اس کی ممانعت جائز ہے، نہ اسے ماننے یا نہ ماننے کا اختیار کسی کو باقی رہتا ہے، نہ اس کے مقابلے میں کسی قیاس یا رائے یا قول اقوال کی کوئی حیثیت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا) [ النساء : ٦٥ ] ” پس نہیں تیرے رب کی قسم ہے وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑجائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا۔ “- وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۔۔ : اس میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی شدید وعید ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : (ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ) [ النور : ٦٣ ] ” سو لازم ہے کہ وہ لوگ ڈریں جو اس کا حکم ماننے سے پیچھے رہتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ آپہنچے، یا انھیں دردناک عذاب آپہنچے۔ “
خلاصہ تفسیر - اور کسی ایمان دار مرد اور کسی ایمان دار عورت کو گنجائش نہیں جبکہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا (گو وہ دنیا ہی کی بات کیوں نہ ہو وجوباً ) حکم دے دیں کہ (پھر) ان (مومنین) کو ان کے اس کام میں کوئی اختیار (باقی) رہے (یعنی اس اختیار کی گنجائش نہیں رہتی کہ خواہ کریں یا نہ کریں بلکہ عمل ہی کرنا واجب ہوجاتا ہے) اور جو شخص (بعد حکم وجوبی کے) اللہ کا اور اس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا وہ صریح گمراہی میں پڑا اور (اس وقت کو یاد کیجئے) جب آپ (فہمائش و مشورہ کے طور سے) اس شخص سے فرما رہے تھے جس پر اللہ نے بھی انعام کیا (کہ اسلام کی توفیق دی جو انعام دینی ہے اور غلامی سے چھڑایا کہ نعمت دنیویہ ہے) اور آپ نے بھی انعام کیا (تعلیم دین فرمائی اور آزاد کیا، اور پھوپھی زاد بہن سے نکاح کرایا مراد حضرت زید ہیں کہ آپ ان کو سمجھا رہے تھے) کہ اپنی بی بی (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دے (اور اس کی معمولی خطاؤں پر نظر نہ کر کہ گاہے اس سے ناموافقت ہوجاتی ہے) اور خدا سے ڈر (اور اس کے حقوق میں بھی کوتاہی نہ کر کہ کبھی اس سے ناموافقت پیدا ہوجاتی ہے) اور (جب شکایتیں حد سے متجاوز ہوگئیں اور قرائن سے اصلاح و توافق کی امید نہ رہی تو اس وقت فہمائش کے ساتھ) آپ اپنے دل میں وہ بات (بھی) چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ تعالیٰ (آخر) میں ظاہر کرنیوالا تھا (مراد اس سے آپ کا نکاح ہے حضرت زینب سے جبکہ زید ان کو طلاق دے دیں جس کو حق تعالیٰ نے زوجنکہا میں قولاً اور خود نکاح کردینے سے فعلاً ظاہر فرمایا) اور (اس مشروط اور معلق ارادہ کے ساتھ ہی) آپ لوگوں (کے طعن) سے (بھی) اندیشہ کرتے تھے (کیونکہ اس وقت اس نکاح میں کسی اہم مصلحت دینیہ کا ہونا ذہن مبارک میں نہ آیا ہوگا، محض دنیوی مصلحت خاص حضرت زینب کی خیال میں ہوگی اور امور دنیویہ میں ایسا اندیشہ ہونا مضائقہ نہیں، بلکہ بعض حیثیتوں سے مطلوب ہے، جبکہ اعتراض سے دوسروں کی دین کی خرابی کا احتمال ہو اور ان کو اس سے بچانا مقصود ہو) اور ڈرنا تو آپ کو خدا ہی سے زیادہ سزاوار ہے (یعنی چونکہ واقع میں اس میں دینی مصلحت ہے، جیسا کہ آگے لکی لایکون الخ میں مذکور ہے، اس لئے خلق سے اندیشہ نہ کیجئے، چناچہ بعد اطلاع مصلحت دینیہ کے پھر اندیشہ آپ نے نہیں کیا اور ارادہ نکاح میں تو کیا اندیشہ ہوتا خود نکاح کے بعد بھی اندیشہ نہیں کیا۔ جس کا قصہ آگے ہے کہ) پھر جب زید کا اس (زینب) سے جی بھر گیا، (یعنی طلاق دے دی اور عدت بھی گزر گئی تو) ہم نے آپ سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیبیوں کے (نکاح کے) بارے میں کچھ تنگی نہ رہے جب وہ (منہ بولے بیٹے) ان سے اپنا جی بھر چکیں (یعنی طلاق دے دیں، مطلب یہ کہ اس تشریح کا اظہار مقصود تھا) اور خدا کا یہ حکم تو ہونے والا تھا ہی (کیونکہ حکمت اس کو مقتضی تھی، آگے طعن کا جواب ہے کہ) ان پیغمبر کے لئے خدا تعالیٰ نے جو بات (تکویناً یا تشریعاً ) مقرر کردی تھی اس میں نبی پر کوئی الزام (اور طعن کی بات) نہیں، اللہ تعالیٰ نے ان (پیغمبروں) کے حق میں (بھی) یہی معمول کر رکھا ہے جو پہلے ہو گزرے ہیں (کہ ان کو جس امر کی اجازت ہوتی ہے بےتکلف وہ اس کو کرتے رہے ہیں اور محل طعن نہیں بنے، ایسے ہی یہ نبی بھی محل اعتراض نہیں) اور (ان پیغمبروں کے بھی اس قسم کے جتنے کام ہوتے ہیں ان سب کے بارے میں بھی) اللہ کا حکم تجویز کیا ہوا (پہلے سے) ہوتا ہے (اور اسی کے موافق پھر ان کو حکم ہوتا ہے اور وہ عمل کرتے ہیں۔ شاید آپ کے قصہ میں اس مضمون کو لانا اور پھر انبیاء کے تذکرہ میں اس کو مکرر لانا اس طرف اشارہ ہے کہ ایسے امور مثل تمام امور تکوینیہ کے ایسے متضمن حکمت ہوتے ہیں کہ پہلے ہی سے علم الہٰی میں تجویز ہو چکتے ہیں، پھر نبی پر طعن کرنا اللہ پر طعن کرنا ہے۔ بخلاف ان امور کے جن پر خود حق تعالیٰ ملامت فرما دیں گو وہ مقدر ہونے کی وجہ سے متضمن حکمت ہوں مگر محل ملامت ہونا دلیل ہے، اس کے تضمن مفاسد کی۔ اس لئے ان مفاسد کے اعتبار سے ان پر نکیر جائز ہے۔ آگے ایک مدح خاص ہے ان پیغمبروں کی تاکہ آپ کو تسلی ہو یعنی) یہ سب (پیغمبران گزشتہ) ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے (اگر تبلیغ قولی کے مامور ہوئے تو قولاً اور اگر تبلیغ فعلی کے مامور ہوئے تو فعلاً ) اور (اس باب میں) اللہ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے (پس آپ کو بھی جب تک معلوم نہ تھا کہ یہ نکاح تبلیغ فعلی ہے اندیشہ ہونا مضائقہ نہیں، لیکن آپ کو جب یہ بات معلوم ہوگئی تو آپ بھی اندیشہ نہ کیجئے جیسا کہ مقتضا ہے شان رسالت کا۔ چناچہ اس کے انکشاف کے بعد پھر آپ نے اندیشہ نہیں کیا اور باوجودیکہ خود آپ کو تبلیغ رسالت میں کسی سے خوف نہیں ہوا، نہ اس کا احتمال تھا پھر بھی انبیاء (علیہ السلام) کا قصہ سنانا زیادہ تقویت قلب کے لئے ہے) اور (آپ کی زیادہ تسلی کے لئے فرماتے ہیں کہ) اللہ (اعمال کا) حساب لینے کے لئے کافی ہے (پھر کسی سے کا ہے کا ڈر ہے نیز آپ پر طعن کرنے والوں کو بھی سزا دے گا آپ طعن سے مغموم نہ ہوجئے)- معارف و مسائل - یہ بات پہلے کئی مرتبہ معلوم ہوچکی ہے کہ سورة احزاب میں زیادہ تر وہ احکام ہیں جن کا تعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و محبت اور مکمل اطاعت سے یا آپ کو کسی قسم کی ایذاء و تکلیف پہنچانے کی ممانعت سے ہے۔ آیات مذکورہ الصدر بھی اسی سلسلے کے چند واقعات سے متعلق نازل ہوئی ہیں۔- ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ حضرت زید بن حارثہ کسی شخص کے غلام تھے۔ زمانہ جاہلیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بازار عکاظ سے خرید لیا تھا، ابھی عمر بھی کم تھی۔ آپ نے خریدنے کے بعد ان کو آزاد کر کے یہ شرف بخشا کہ عرب کے عام رواج کے مطابق ان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا اور ان کی پرورش فرمائی۔ مکہ مکرمہ میں ان کو زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ قرآن کریم نے اس کو جاہلیت کی رسم غلط قرار دے کر اس کی ممانعت کردی کہ منہ بولے بیٹے کو اس شخص کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے، اور حکم دیا کہ اس کو اس کے اصلی باپ کی طرف منسوب کیا جائے۔ اسی سلسلے میں وہ آیات نازل ہوئیں جو اسی سورة میں پہلے آ چکی ہیں (آیت) ادعوہم لاباہم الآیہ ان احکام کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام نے ان کو زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہنا چھوڑ دیا اور ان کے والد حارثہ کی طرف منسوخ کرنے لگی۔- ایک لطیفہ :- پورے قرآن میں انبیاء (علیہم السلام) کے سوا کسی بڑے سے بڑے صحابی کا بھی نام ذکر نہیں کیا گیا بجز حضرت زید بن حارثہ کے۔ اس کی حکمت بعض حضرات نے یہی بیان کی ہے کہ ان کی نسبت ولدیت کو بحکم قرآنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قطع کیا گیا تو ان کے لئے ایک بہت بڑے اعزاز سے محرومی ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے اس کا بدل اس طرح کردیا کہ قرآن میں ان کا نام لے کر ذکر فرما دیا۔ اور لفظ زید قرآن کا ایک لفظ ہونے کی حیثیت سے اس کے ہر لفظ پر حسب وعدہ حدیث دس نیکیاں نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں ان کا نام جب قرآن میں پڑھا جائے تو صرف ان کا نام لینے پر تیس نیکیاں ملتی ہیں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کا اکرام فرماتے تھے۔ حضرت صدیقہ عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ نے جب کبھی کسی لشکر میں ان کو بھیجا ہے تو امیر لشکر انہی کو بنایا ہے۔ (ابن کثیر )- تنبیہ :- یہ تھی اسلام میں غلامی کی حقیقت کہ ان کو تعلیم و تربیت دے کر جو صاحب صلاحیت ثابت ہوا اس کو مقتداؤں کا درجہ دیا۔- زید بن حارثہ جوان ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے نکاح کے لئے اپنی پھوپھی کی لڑکی حضرت زینب بنت جحش کا انتخاب فرما کر پیغام نکاح دیا۔ حضرت زید پر چونکہ یہ عرفی عیب لگا ہوا تھا کہ آزاد کردہ غلام تھے۔ حضرت زینب اور ان کے بھائی عبداللہ بن جحش نے اس رشتہ سے انکار کردیا کہ ہم با اعتبار خاندان و نسب کے ان سے اشرف ہیں۔- اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ماکان لمومن ولامومنة الایة، جس میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو کسی کام کا حکم بطور وجوب دے دیں تو اس پر وہ کام کرنا واجب ہوجاتا ہے، اس کو نہ کرنے کا اختیار شرعاً نہیں رہتا اگرچہ فی نفسہ وہ کام شرعاً واجب و ضروری نہ ہو، مگر جس کو آپ نے حکم دے دیا اس کے ذمہ لازم و واجب ہوجاتا ہے اور جو ایسا نہ کرے آخر آیت میں اس کو کھلی گمراہی فرمایا ہے۔- اس آیت کو حضرت زینب بنت جحش اور ان کے بھائی نے سنا تو اپنے انکار سے باز آگئے، اور نکاح پر راضی ہوگئے۔ چناچہ یہ نکاح کردیا گیا۔ ان کا مہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے ادا کیا۔ جو دس دینار سرخ (جو پونے چار تولہ سونا ہوتا ہے) اور ساٹھ درہم (جس کی پونے سولہ تولہ چاندی ہوتی ہے) اور ایک بار برداری کا جانور اور پورا زنانہ جوڑا اور پچاس مد آٹا (یعنی تقریباً پینتالیس سیر) اور دس مد (ساڑھے آٹھ سیر تیس ماشہ) کھجور تھا (ابن کثیر) اس آیت کے نزول کا مشہور واقعہ جمہور مفسرین کے نزدیک یہی حضرت زید اور حضرت زینب بنت جحش کے نکاح کا قصہ ہے (ابن کثیر، قرطبی، مظہری)- ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے اس طرح کے دو واقعے اور بھی نقل کئے ہیں۔ ان میں بھی یہ مذکور ہے کہ آیت مذکورہ ان واقعات کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ حضرت جلیبیب کا ہے کہ ان کا رشتہ ایک انصاری صحابی کی لڑکی سے کرنا چاہا تو اس انصاری اور ان کے گھر والوں نے اس رشتہ اور نکاح سے انکار کردیا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو سب راضی ہوگئے اور نکاح کردیا گیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لئے وسعت رزق کی دعا فرمائی۔ صحابہ کرام کا بیان ہے کہ اللہ نے ان کے گھر میں ایسی برکت دی تھی کہ مدینہ طیبہ کے گھروں میں سب سے زیادہ اجلا اور بڑا خرچ اس گھر کا تھا، بعد میں حضرت جلیبیب ایک جہاد میں شہید ہوگئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تجہیز وتکفین اپنے دست مبارک سے فرمائی۔- اسی طرح کا ایک واقعہ روایات حدیث میں ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط کا منقول ہے (ابن کثیر، قرطبی) اور ان میں کوئی تضاد نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس طرح کے متعدد واقعات ہی نزول آیت کا سبب بنے ہوں۔- نکاح میں نسبی کفو کی رعایت کا حکم اور درجہ :- نکاح مذکور میں حضرت زینب بنت جحش اور ان کے بھائی عبداللہ نے جو زید بن حارثہ سے نکاح کو ابتدا میں نامنظور کیا تھا، اس کی وجہ ان دونوں میں خاندانی اور نسبی کفاءت و مماثلت کا نہ ہونا تھا۔ اور یہ وجہ شرعاً خود مطلوب ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ لڑکیوں کا نکاح ان کے کفوء میں کرنا چاہئے (جس کی تحقیق آگے آئے گی) اس لئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں حضرت زینب اور ان کے بھائی کا عذر کیوں مقبول نہ ہوا۔- جواب یہ ہے کہ دینی اعتبار سے کفاءت و مماثلت زوجین کی تو لازم وضروری ہے، کسی مسلمان لڑکی کا نکاح کسی کافر سے باجماع امت حلال نہیں، اگرچہ لڑکی اس پر راضی ہو۔ کیونکہ یہ صرف عورت کا حق نہیں جو اس کی رضامندی سے ساقط ہوجائے بلکہ حق اللہ اور فریضہ آلہیہ ہے بخلاف نسبی اور مالی کفاءت کے وہ لڑکی کا حق ہے، اور خاندانی کفایت کے حق میں لڑکی کے ساتھ اس کے اولیاء بھی شریک ہیں۔ اگر عاقلہ بالغہ لڑکی مالدار خاندان سے ہونے کے باوجود کسی غریب فقیر سے نکاح پر راضی ہو کر اپنا حق ساقط کر دے تو اس کو اختیار ہے اور خاندانی کفایت میں لڑکی اور اس کے اولیاء سب اس حق کو کسی دوسری اہم مصلحت کی خاطر چھوڑ کر کسی ایسے شخص سے نکاح پر راضی ہوجائیں جو نسب اور خاندان کے اعتبار سے ان سے کم درجہ ہے تو ان کو اس کا حق ہے۔ بلکہ مصالح دینیہ کے پیش نظر اس حق کو چھوڑ دینا محمود و مطلوب ہے۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد مواقع میں اس حق کو نظرانداز کرنے اور مصالح دینیہ کی وجہ سے نکاح کردینے کا مشورہ دیا۔- اور قرآن کریم کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق اپنی امت کے مرد و زن پر سب سے زیادہ ہے، بلکہ اپنے نفس سے بھی زیادہ ہے جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے النبی اولیٰ بالمومنین من انفسہم، ” یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق مومنین پر ان کے اپنے نفوس سے بھی زیادہ ہے “ اس لئے حضرت زینب اور عبداللہ کے معاملہ میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نسبی کفایت کے حق کو نظر انداز کر کے زید بن حارثہ سے نکاح منظور کرلینے کا حکم دے دیا تو یہ ان کا فرض تھا کہ اس حکم کے سامنے اپنی رائے اور اپنے نفس کے حقوق کو ترک کردیتے، اس لئے ان کے انکار پر قرآن کریم کا یہ حکم نازل ہوا۔- رہا یہ معاملہ کہ جب نسبی کفایت خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک قابل رعایت ہے تو خود آپ نے اس کی رعایت کیوں نہ فرمائی ؟ تو اس کا جواب بھی مذکورہ تقریر سے واضح ہوگیا کہ یہ رعایت دوسری دینی مصالح کے بالمقابل قابل ترک ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں متعدد نکاح اسی طرح غیر کفوء میں اسی قسم کی دینی مصالح کی بناء پر کئے گئے، اس سے اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔- مسئلہ کفاءت :- نکاح ایک ایسا معاملہ ہے جس میں اگر زوجین کی طبائع میں موافقت نہ ہو تو مقاصد نکاح میں خلل آتا ہے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے میں خلل آتا ہے، باہمی جھگڑے نزاع پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے شریعت میں کفاءت یعنی باہمی مماثلت کی رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی اعلیٰ خاندان کا آدمی اپنے سے کم خاندان والے آدمی کو رذیل یا ذلیل سمجھے۔ ذلت وعزت کا اصل مدار اسلام میں تقویٰ اور دینداری ہے جس میں یہ چیز نہیں اس کو خاندانی شرافت کتنی بھی حاصل ہو اللہ کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں، صرف انتظامی معاملات کو استوار رکھنے کے لئے نکاح میں کفاءت کی رعایت کا حکم دیا گیا ہے۔- ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ لڑکیوں کا نکاح ان کے اولیاء ہی کے ذریعہ ہونا چاہئے (یعنی بالغ لڑکی کو بھی یہ مناسب نہیں کہ اپنے نکاح کا معاملہ خود طے کرے، حیا کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کام اس کے والدین اور اولیاء کریں) اور فرمایا کہ لڑکیوں کا نکاح ان کے کفوء ہی میں کرنا چاہئے۔ اس حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہے، مگر صحابہ کرام کے آثار و اقوال سے اس کی تائید ہو کر حدیث قابل استدلال ہوجاتی ہے۔ امام محمد نے کتاب الآثار میں حضرت فاروق اعظم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” میں یہ حکم جاری کروں گا کہ کسی بڑے اونچے معروف خاندان کی لڑکی کا نکاح دوسرے کم درجہ والے سے نہ کیا جائے “ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت انس نے بھی اس کی تاکید فرمائی کہ نکاح میں کفاءت کی رعایت کی جائے، جو متعدد اسانید سے منقول ہے۔ امام ابن ہمام نے بھی فتح القدیر میں اس کی تفصیل لکھی ہے۔- حاصل یہ ہے کہ نکاح میں کفاءت و مماثلت کی رعایت کرنا دین میں مطلوب ہے تاکہ زوجین میں موافقت رہے، لیکن کوئی دوسری اہم مصلحت اس کفاءت سے بڑھ کر سامنے آجائے تو عورت اور اس کے اولیاء کو اپنا یہ حق چھوڑ کر غیر کفوء میں نکاح کرلینا بھی جائز ہے۔ خصوصاً جب کہ کوئی دینی مصلحت پیش نظر ہو تو ایسا کرنا افضل و بہتر ہے جیسا کہ صحابہ کرام کے متعدد واقعات سے ثابت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ان واقعات سے اصل مسئلہ کفاءت کی نفی نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ ٠ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا ٣ ٦ۭ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - خِيَرَة- : الحالة التي تحصل للمستخیر والمختار، نحو القعدة والجلسة لحال القاعد والجالس - الخیرۃ سے مراد وہ حالت ہے جو طالب خیر یا مختار کو حاصل ہوتی ہے جیسا کہ قعدۃ وہ جلسۃ کا لفظ قاعد اور جالس کی ہیئت اور حالت پر بولا جاتا ہے ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - عصا - العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] . - ( ع ص ی ) العصا - ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔
اللہ اور رسول کا حکم ماننا واجب ہے - قول باری ہے (وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا اقضی اللہ ورسولہ امر ا ان لیکون لھم الخیرۃ من امرھم) کسی مومن یا مومنہ کے لئے یہ درست نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا حکم دے دیں تو پھر ان کو اپنے (اس) امر میں کوئی اختیار باقی رہ جائے۔- اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے اوامروجوب پر محمول ہوتے ہیں اس لئے کہ آیت میں اس بات کی نفی کردی گئی ہے ہمیں اللہ اور اس کے رسول کے اوامر کو ترک کرنے کا کوئی اختیار ہوتا ہے۔- اگر یہ اوامروجوب پر محمول نہ ہوتے تو ہمیں ان کو ترک کرنے اور ان پر عمل کرنے کا اختیار ہوتا جبکہ آیت نے اس اختیار کی نفی کردی ہے۔- خدا اور رسول کے حکم اختیاری نہیں ہیں - قول باری ہے (ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلا لا مبینا۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں جا پڑے گا) اوامر کے ذکر کے سلسلہ میں اس آیت کا ورود بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول کے اوامر کو ترک کرنے کا اختیار نہیں ہے، نیز یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کا تارک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نافرمان ہے۔- پوری آیت اللہ اور اس کے رسول کے اوامر کے وجوب پر دو طرح سے دلالت کررہی ہے اول یہ کہ آیت نے اللہ اور اس کے رسول کے اوامر میں تخییر کی نفی کردی اور دوم یہ کہ امر کا تارک اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔
حضرت زید اور حضرت زینب کو جبکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے آپس میں شادی کرنے کا حکم دے دیا اب دونوں کو اس کے خلاف کرنے میں کوئی اختیار نہیں رہتا۔ اور جو حکم خداوندی میں اس کے خلاف ورزی کرے وہ کھلی گمراہی میں پڑا۔- شان نزول : وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ (الخ)- امام طبرانی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت قتادہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے حضرت زید کے لیے حضرت زینب کو نکاح کا پیغام دیا وہ سمجھیں کہ آپ اپنی ذات کے لیے پیغام دے رہے ہیں جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ آپ حضرت زید کے لیے پیغام دے رہے ہیں تو انہوں نے انکار کردیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی کسی ایمان دار مرد اور کسی ایمان دار عورت کو گنجائش نہیں۔ الخ۔ چناچہ اس آیت کے نزول کے بعد انہوں نے فورا اس چیز کو قبول کرلیا اور خود کو سپرد کردیا۔- اور ابن جریر نے عکرمہ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے حضرت زینب کو حضرت زید بن حارثہ کے لیے نکاح کا پیغام دیا انہوں نے اس سے انکار کیا اور بولیں کہ میں ان سے حسب و نسب کے اعتبار سے بہتر ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔- نیز ابن جریر نے عوفی کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔- ابن ابی حاتم نے ابن زید سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی انہوں نے عورتوں میں سب سے پہلے ہجرت کی تھی اور انہوں نے اپنی ذات کو رسول اکرم کے حوالہ کردیا تھا آپ نے حضرت زید بن حارثہ سے شادی کردی یہ چیز ان کو اور ان کے بھائی کو ناگوار گزری اور کہنے لگے کہ ہماری منشا حضور کی تھی۔ مگر آپ نے اپنے غلام سے شادی کردی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
اب آئندہ آیات میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت زینب (رض) کے نکاح سے متعلق معاملے کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ پہلے رکوع میں اس مضمون کی تمہید کے طور پر ُ منہ بولے بیٹے کے بارے میں مختصر حکم آیا تھا ‘ لیکن یہاں پر اس معاملے کے تمام اہم پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مثلاً پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم اور خواہش کے مطابق حضرت زینب (رض) کا نکاح حضرت زید (رض) بن حارثہ سے ہونا ‘ بعد میں ناچاقی کی شکایت پر بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت زید (رض) کو طلاق نہ دینے کی ہدایت کرنا ‘ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ سوچنا کہ چونکہ میں نے اصرارکر کے نکاح کروایا تھا ‘ اس لیے اب اگر طلاق ہوئی تو حضرت زینب (رض) کے لیے اس کے علاوہ تلافی کی کوئی صورت نہیں ہوگی کہ میں خود ان سے نکاح کرلوں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ سوچنا کہ اگر میں خود نکاح کروں گا تو منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنے پر مخالفین ایک طوفان کھڑا کردیں گے۔ اگرچہ بظاہر اس میں کچھ مضائقہ نہیں تھا ‘ لیکن پھر بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے مصلحت کے خلاف سمجھتے تھے۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی شش و پنج میں تھے کہ یہ آیات نازل ہوگئیں۔- آیت ٣٦ وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ ” اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لیے روا نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو (پھر بھی انہیں یہ خیال ہو کہ) ان کے لیے اپنے اس معاملے میں کوئی اختیار باقی ہے۔ “- یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید (رض) کے لیے حضرت زینب (رض) کے ساتھ نکاح کا پیغام بھجوایا تھا اور حضرت زینب (رض) اور ان کے بھائی عبداللہ (رض) بن جحش اسے منظور کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد وہ فوراً آمادہ ہوگئے۔- وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا ” اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔ “- اپنے سیاق وسباق کے حوالے سے اگرچہ اس فقرے کا تعلق پس منظر میں بیان کیے گئے معاملہ سے ہے ‘ لیکن اس حکم کی نوعیت ایک قاعدہ کلیہ کی ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے کے بعد بھی کسی معاملے میں یہ سمجھے کہ اب بھی اس کے پاس کوئی اختیار ( ) باقی ہے تو وہ گویا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کا مرتکب ہو کر اس آیت کا مصداق ٹھہرے گا۔- حضرت زینب بنت جحش (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی تھیں۔ اس لحاظ سے ان کا تعلق قریش کے اونچے خاندان سے تھا۔ دوسری طرف حضرت زید (رض) بن حارثہ آزاد کردہ غلام تھے۔ اگرچہ ان کا تعلق بھی عرب کے ایک شریف خاندان سے تھا ‘ لیکن غلام تو وہ بہر حال رہ چکے تھے۔ اس لیے اگرچہ اس حکم کے بعد حضرت زینب (رض) اور ان کے گھر والوں نے اس نکاح کو قبول کرلیا تھا ‘ لیکن گمان غالب یہی ہے کہ حضرت زینب (رض) خاندانی تفاوت کے معاملے میں اپنے جذبات و احساسات کی وجہ سے حضرت زید (رض) کو شوہر کے طور پر مطلوبہ ادب و احترام نہ دے سکیں۔ حضرت زید (رض) نے متعدد بار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس صورت حال کی شکایت بھی کی اور طلاق دینے کی اجازت بھی چاہی مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر دفعہ انہیں موافقت کی کوشش کرنے کی ہدایت فرما دیتے :
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :65 یہاں سے وہ آیات شروع ہوتی ہیں جو حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :66 ابن عباس ، مجاہد ، قَتادہ ، عِکْرِمَہ اور مُقاتِل بن حَیّان کہتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا تھا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور ان کے رشتہ داروں نے اسے نامنظور کر دیا تھا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیغام دیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا ، انا خیر منہ نسباً ، میں اس سے نسب میں بہتر ہوں ۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ انہوں نے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ لا ارضاہ لنفسی وانا ایّم قریش ۔ میں اسے اپنے لیے پسند نہیں کرتی ، میں قریش کی شریف زادی ہوں ۔ اسی طرح کا اظہار نارضا مندی ان کے بھائی عبداللہ بن جَحْش رضی اللہ عنہ نے بھی کیا تھا ۔ اس لیے کہ حضرت زید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ( اُمَیْمہ بنت عبدالمطلب ) کی صاحبزادی تھیں ۔ ان لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی ، اور وہ بھی کوئی غیر نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی پھوپھی زاد بہن ہے ، اور اس کا پیغام آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آزاد کردہ غلام کے لیے دے رہے ہیں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، اور اسے سنتے ہی حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور ان کے سب خاندان والوں نے بلا تامل سر اطاعت خم کر دیا ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح پڑھایا ، خود حضرت زید رضی اللہ عنہ کی طرف سے دس دینار اور ٦۰ درہم مہر ادا کیا ، چڑھاوے کے کپڑے دیے ، اور کچھ سامان خوراک گھر کے خرچ کے لیے بھجوا دیا ۔ یہ آیت اگرچہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی ہے ، مگر جو حکم اس میں بیان کیا گیا ہے وہ اسلامی آئین کا اصل الاصول ہے اور اس کا اطلاق پورے اسلامی نظام زندگی پر ہوتا ہے ، اس کی رو سے کسی مسلمان فرد ، یا قوم ، یا ادارے ، یا عدالت ، یا پارلیمنٹ ، یا ریاست کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم ثابت ہو اس میں وہ خود اپنی آزادی رائے استعمال کرے ۔ مسلمان ہونے کے معنی ہی خدا اور رسول کے آگے اپنے آزادانہ اختیار سے دستبردار ہو جانے کے ہیں ۔ کسی شخص یا قوم کا مسلمان ہونا اور اپنے لیے اس اختیار کو محفوظ بھی رکھنا ، دونوں ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں ۔ کوئی ذی عقل انسان ان دونوں رویوں کو جمع کرنے کا تصور نہیں کر سکتا جسے مسلمان رہنا ہو اس کو لازماً حکم خدا و رسول کے آگے جھک جانا ہو گا ۔ اور جسے نہ جھکنا ہو اس کو سیدھی طرح ماننا پڑے گا کہ وہ مسلمان نہیں ہے ۔ نہ مانے گا تو چاہے اپنے مسلمان ہونے کا وہ کتنا ہی ڈھول پیٹے ، خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ منافق ہی قرار پائے گا ۔
31: یہ آیتِ کریمہ چند ایسے واقعات کے پسِ منظر میں نازل ہوئی جن میں حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہؓ کے لئے کسی خاتون سے رشتہ دیا، مگر وہ خاتون یا اُن کے رشتہ دار شروع میں اس رشتے پر راضی نہیں ہوئے۔ حافظ ابن کثیرؒ نے یہ واقعات تفصیل سے بیان کئے ہیں، اور اِن سب میں مشترک بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن صحابہؓ کے نکاح کا پیغام دیا تھا، اُن میں کوئی خرابی نہیں تھی، لیکن خاتون یا اُن کے گھر والوں نے صرف اپنی خاندانی یا مالی فوقیت کی وجہ سے شروع میں اُن کا رشتہ قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ دوسری طرف حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم غالباً یہ چاہتے تھے کہ لوگ صرف اپنی خاندانی یا مالی فوقیت کی وجہ سے اچھے رشتوں سے انکار کرنے کا رجحان ختم کریں۔ اگرچہ شریعت نے نکاح میں کفات (یعنی میاں بیوی کے ہم پلہ ہونے) کا فی الجملہ اعتبار کیا ہے، لیکن اگر رشتے میں کوئی اور بڑی وجہ ترجیح موجود ہو تو عورت اور اُس کے سرپرستوں کو صرف اس بنا پر رشتے سے انکار نہیں کردینا چاہئے کہ وہ خاندانی اعتبار سے عورت کے خاندان کا ہم پلہ نہیں ہے۔ چنانچہ اِس آیت کے نازل ہونے کے بعد اُن تمام واقعات میں رشتہ منظور کرلیا گیا۔ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تجویز ہی کے مطابق نکاح ہوا۔ اِن واقعات میں سب سے اہم واقعہ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کا واقعہ ہے، جس کا تعلق آنے والی آیات سے بھی ہے۔ یہ شروع میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے غلام تھے، اور انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہبہ کردیا تھا، آپ نے انہیں آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔ (جس کی تفصیل اگلی آیت کے حاشیہ میں آ رہی ہے)۔ چنانچہ آپ نے اپنی پھوپی کی صاحبزادی حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ عنہا سے ان کے نکاح کا پیغام دیا۔ حضرت زینبؓ اُونچے خاندان کی خاتون تھیں، اور اُس وقت کسی آزاد کردہ غلام سے شادی کرنا ایسی خاندانی عورت کے لئے معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے اُنہوں نے شروع میں انکار کیا۔ اِس پر یہ آیت نازل ہوئی، جس کے بعد اُنہوں نے یہ رشتہ منظور کرلیا، اور پھر حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ سے ان کا نکاح ہوگیا جس کا مہر خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ادا فرمایا۔ آیتِ کریمہ اگرچہ اِن واقعات کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے، لیکن اس کے الفاظ عام ہیں، اور وہ شریعت کا یہ بنیادی اصول واضح کر رہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کے بعد کسی بھی مخلوق کو اپنی رائے چلانے کا اختیار نہیں رہتا۔