عظمت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ کو ہر طرح سمجھایا ۔ ان پر اللہ کا انعام تھا کہ اسلام اور متابعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق دی ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ان پر احسان تھا کہ انہیں غلامی سے آزاد کر دیا ۔ یہ بڑی شان والے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی پیارے تھے یہاں تک کہ انہیں سب مسلمان حب الرسول کہتے تھے ۔ ان کے صاحبزادے اسامہ کو بھی حب بن حب کہتے تھے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ جس لشکر میں انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھیجتے تھے اس لشکر کا سردارانہی کو بناتے تھے ۔ اگر یہ زندہ رہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بن جاتے ( احمد ) بزار میں ہے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں مسجد میں تھا میرے پاس حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما آئے اور مجھ سے کہا جاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لیے اجازت طلب کرو ۔ میں نے آپ کو خبر کی آپ نے فرمایا جانتے ہو وہ کیوں آئے ہیں ؟ میں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا لیکن میں جانتا ہوں جاؤ بلا لاؤ یہ آئے اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا بتایے آپ کو اپنے اہل میں سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا میری بیٹی فاطمہ ۔ انہوں نے کہا ہم حضرت فاطمہ کے بارے میں نہیں پوچھتے ۔ آپ نے فرمایا پھر اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن پر اللہ نے انعام کیا اور میں نے بھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اپنی پھوپھی امیمہ بنت جحش اسدیہ سے کرادیا تھا ۔ دس دینار اور سات درہم مہر دیا تھا ، ایک ڈوپٹہ ایک چادر ایک کرتا پچاس مد اناج اور دس مد کھجوریں دی تھیں ۔ ایک سال یا کچھ اوپر تک تو یہ گھر بسا لیکن پھر ناچاقی شروع ہو گئی ۔ حضرت زید نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر شکایت شروع کی تو آپ انہیں سمجھانے لگے کہ گھر نہ توڑو اللہ سے ڈرو ۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے اس جگہ بہت سے غیر صحیح آثار نقل کئے ہیں جن کا نقل کرنا ہم نامناسب جان کر ترک کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے ایک بھی ثابت اور صحیح نہیں ۔ مسند احمد میں بھی ایک روایت حضرت انس سے ہے لیکن اس میں بھی بڑی غرابت ہے اس لئے ہم نے اسے بھی وارد نہیں کیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ یہ آیت حضرت زینب بنت جحش اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اتری ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا آپ کے نکاح میں آئیں گی ۔ یہی بات تھی جسے آپ نے ظاہر نہ فرمایا اور حضرت زید کو سمجھایا کہ وہ اپنی بیوی کو الگ نہ کریں ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر اللہ کی وحی کتاب اللہ میں سے ایک آیت بھی چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپالیتے ۔ وطر کے معنی حاجت کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جب زید ان سے سیر ہوگئے اور باوجود سمجھانے بجھانے کے بھی میل ملاپ قائم نہ رہ سکا بلکہ طلاق ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت زینب کو اپنے نبی کے نکاح میں دے دیا ۔ اس لئے ولی کے ایجاب و قبول سے مہر اور گواہوں کی ضرورت نہ رہی ۔ مسند احمد میں ہے حضرت زینب کی عدت پوری ہو چکی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ سے کہا کہ تم جاؤ اور انہیں مجھ سے نکاح کرنے کا پیغام پہنچاؤ ۔ حضرت زید گئے اس وقت آپ آٹاگوندھ رہی تھیں ۔ حضرت زید پر ان کی عظمت اس قدر چھائی کہ سامنے پڑ کر بات نہ کر سکے منہ پھیر کر بیٹھ گئے اور ذکر کیا ۔ حضرت زینب نے فرمایا ٹھہرو میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرلوں ۔ یہ تو کھڑی ہو کر نماز پڑھنے لگیں ادھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے ان کا نکاح تجھ سے کر دیا ۔ چنانچہ اسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے اطلاع چلے آئے پھر ولیمے کی دعوت میں آپ نے ہم سب کو گوشت روٹی کھلائی ۔ لوگ کھا پی کر چلے گئے مگر چند آدمی وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ آپ باہر نکل کر اپنی بیویوں کے حجرے کے پاس گئے ۔ آپ انہیں السلام علیک کرتے تھے اور وہ آپ سے دریافت کرتی تھیں کہ فرمائیے بیوی صاحبہ سے خوش تو ہیں ؟ مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی یا آپ خبر دیئے گئے کہ لوگ وہاں سے چلے گئے ۔ اس کے بعد آپ اس گھر کی طرف تشریف لے گئے میں بھی آپ کے ہمراہ تھا میں نے آپ کے ساتھ ہی جانے کا ارادہ کیا لیکن آپ نے پردہ گرا دیا اور میرے اور آپ کے درمیان حجاب ہو گیا اور پردے کی آیتیں اتریں اور صحابہ کو نصیحت کی گئی اور فرما دیا گیا کہ نبی کے گھروں میں بے اجازت نہ جاؤ ۔ ( مسلم وغیرہ ) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ازواج مطہرات سے فخر اً کہا کرتی تھیں کہ تم سب کے نکاح تمھارے ولی وارثوں نے کئے اور میرا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر کرا دیا ۔ سورۃ نور کی تفسیر میں ہم یہ روایت بیان کر چکے ہیں کہ حضرت زینب نے کہا میرا نکاح آسمان سے اترا اور ان کے مقابلے پر حضرت عائشہ نے فرمایا میری برات کی آیتیں آسمان سے اتریں جس کا حضرت زینب نے اقرار کیا ۔ ابن جریر میں ہے حضرت زینب نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کہا مجھ میں اللہ تعالیٰ نے تین خصوصیتیں رکھی ہیں جو آپ کی اور بیویوں میں نہیں ایک تو یہ کہ میرا اور آپ کا دادا ایک ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے مجھے آپ کے نکاح میں دیا ۔ تیسرے یہ کہ ہمارے درمیان سفیر حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے ان سے نکاح کرنا تیرے لئے جائز کر دیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے لے پالک لڑکوں کو بیویوں کے بارے میں جب انہیں طلاق دے دی جائے کوئی حرج نہ رہے ۔ یعنی وہ اگر چاہیں ان سے نکاح کر سکیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے حضرت زید کو اپنا متنبی بنا رکھا تھا ۔ عام طور پر انہیں زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا تھا ۔ قرآن نے اس نسبت سے بھی ممانعت کر دی اور حکم دیا کہ انہیں اپنے حقیقی باپ کی طرف نسبت کر کے پکارا کرو پھر حضرت زید نے جب حضرت زینب کو طلاق دے دی تو اللہ پاک نے انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دے کر یہ بات بھی ہٹادی ۔ جس آیت میں حرام عورتوں کا ذکر کیا ہے وہاں بھی یہی فرمایا کہ تمھارے اپنے صلبی لڑکوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں ۔ تاکہ لے پالک لڑکوں کی لڑکیاں اس حکم سے خارج رہیں ۔ کیونکہ ایسے لڑکے عرب میں بہت تھے ۔ یہ امر اللہ کے نزدیک مقرر ہو چکا تھا ۔ اس کا ہونا حتمی ، یقینی اور ضروری تھا ۔ اور حضرت زینب کو یہ شرف ملنا پہلے ہی سے لکھا جا چکا تھا کہ وہ ازواج مطہرات امہات المومنین میں داخل ہوں رضی اللہ عنہا ۔
37۔ 1 لیکن چونکہ ان کے مزاج میں فرق تھا، بیوی کے مزاج میں خاندانی نسب و شرف رچا ہوا تھا، جب کہ زید کے دامن میں غلامی کا داغ تھا، ان کی آپس میں ان بن رہتی تھی جس کا تذکرہ حضرت زید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرتے رہتے تھے اور طلاق کا عندیہ بھی ظاہر کرتے۔ لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انکو طلاق دینے سے روکتے اور نباہ کرنے کی تلقین فرماتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پیش گوئی سے بھی آگاہ فرمادیا تھا کہ زید کی طرف سے طلاق واقع ہو کر رہے گی اور اس کے بعد زینب کا نکاح آپ سے کردیا جائے گا تاکہ جاہلیت کی اس رسم تبنیت پر ایک کاری ضرب لگا کر واضح کردیا جائے کہ منہ بولا بیٹا، احکام شرعیہ میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے اور اسکی مطلقہ سے نکاح جائز ہے۔ اس آیت میں انہی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت زید پر اللہ کا انعام یہ تھا کہ انھی قبول اسلام کی توفیق دی اور غلامی سے نجات دلائی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احسان ان پر یہ تھا کہ انکی دینی تربیت کی۔ انکو آزاد کرکے اپنا بیٹا قرار دیا اور اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی لڑکی سے ان کا نکاح کرادیا۔ دل میں چھپانے والی بات یہی تھی جو آپ کو حضرت زینب سے نکاح کی بابت بذریعہ وحی بتلائی گئی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈرتے اس بات سے تھے کہ لوگ کہیں گے کہ اپنی بہو سے نکاح کرلیا۔ حالانکہ جب اللہ کو آپ کے ذریعے سے اس رسم کا خاتمہ کرانا تھا تو پھر لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ خوف اگرچہ فطری تھا، اسکے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنبیہ فرمائی گئی۔ ظاہر کرنے سے مراد یہی ہے کہ یہ نکاح ہوگا، جس سے یہ بات سب کے علم کے ہی علم میں آجائے گی۔ 37۔ 2 یعنی نکاح کے بعد طلاق دی اور حضرت زینب عدت سے فارغ ہوگئیں۔ 37۔ 3 یعنی یہ نکاح معرفت طریقے کے برعکس اللہ کے حکم سے قرار پا گیا، نکاح خوانی، ولایت، حق مہر اور گواہوں کے بغیر ہی 37۔ 4 یہ حضرت زینب سے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح کی علت ہے کہ آئندہ کوئی مسلمان اس بارے میں تنگی محسوس نہ کرے اور حسب ضرورت اقتضا لے پالک کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا جاسکے۔ 37۔ 5 یعنی پہلے سے ہی تقدیر الہٰی میں تھا بہر صورت ہو کر رہنا تھا۔
[ ٥٦] آپ کے سیدنا زید بن حارثہ پر احسانات :۔ اس شخص سے مراد زید بن حارثہ ہیں۔ ان پر اللہ اور اللہ کے رسول کا احسان یہ تھا کہ آپ قبیلہ کلب کے ایک شخص حارثہ بن شرحبیل کے بیٹے تھے۔ آٹھ سال کے ہی تھے کہ ایک قبائلی جنگ میں گرفتار ہوئے ان حملہ آوروں نے انھیں عکاظ کے میلہ میں جاکر بیچ ڈالا۔ خریدنے والے سیدہ خدیجہ (رض) کے بھتیجے حکیم بن حزام تھے۔ انہوں نے مکہ آکر اس غلام کو اپنی پھوپھی سیدہ خدیجہ (رض) کی خدمت میں تحفتا ً پیش کردیا۔ جب رسول اللہ کا سیدہ خدیجہ (رض) سے نکاح ہوا اس وقت زید بن حارثہ ١٥ سال کے تھے۔ ان کی عادات واطوار رسول اللہ کو اس قدر پسند آئیں کہ آپ نے سیدہ خدیجہ (رض) سے اپنے لئے مانگ لیا اور انہوں نے آپ کو دے دیا۔ کچھ عرصہ بعد سیدنا زید کے لواحقین کو آپ کا سراغ مل گیا تو سیدنا زید کے والد، چچا اور بھائی تین افراد رسول اللہ کے پاس آئے اور عرض کی کہ آپ جتنا زر فدیہ چاہیں لے لیں اور بچے کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔ آپ نے انھیں کہا میں زرفدیہ کچھ نہیں لیتا۔ البتہ تم زید سے پوچھ لو۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے تو مجھے کچھ عذر نہ ہوگا۔ انہوں نے سیدنا زید سے جانے کو کہا تو سیدنا زید نے ہمراہ جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے یہاں والدین سے بڑھ کر پیار اور شفقت میسر ہے۔ چناچہ سیدنا زید کے لواحقین واپس چلے گئے۔ اس کے بعد آپ نے سیدنا زید کو کعبہ میں لے جاکر سب کے سامنے اعلان کردیا۔ کہ میں نے زید کو آزاد کردیا ہے اور اسے اپنا متبنّیٰ بنا لیا ہے۔ لہذا یہ میرا وارث ہوگا۔ آپ کے اس اعلان کے بعد لوگ آپ کو زید بن حارثہ کے بجائے زید بن محمد کہنے لگے۔- [ ٥٧] اللہ اور اس کے رسول کے سیدنا زید پر احسانات :۔ سیدنا زید پر اللہ اور اس کے رسول کا دوسرا احسان یہ تھا کہ آپ نے اپنے ہی قبیلہ سے جو معاشرتی لحاظ سے بہت اونچے درجے کا شریف قبیلہ شمار ہوتا تھا، سیدنا زید کے لئے رشتہ طلب کرلیا۔ لیکن چونکہ سیدنا زید پر سابقہ غلامی کا داغ موجود تھا۔ لہذا سیدہ زینب خود اور اس کے اولیاء نے اس رشتہ کے مطالبہ میں ہی اپنی توہین سمجھی تو اللہ نے ان لوگوں کو بذریعہ وحی بتادیا کہ یہ نبی کی خواہش نہیں بلکہ میرا حکم ہے۔ اس حکم الٰہی کے سامنے ان لوگوں نے سر تسلیم خم کردیا۔ ورنہ یہ رشتہ یا نکاح ہوجانا ناممکن نظر آرہا تھا۔ اللہ کے حکم کے تحت سیدہ زینب سے نکاح تو ہوگیا لیکن معاشرتی تفاوت ذہنوں سے اتنی جلد دور نہ ہوسکا اور نہ ہوسکتا ہے اور سیدہ زینب اپنے شوہر کا وہ احترام نہ کرسکیں جو انھیں کرنا چاہیے تھا۔ اسی لئے سیدنا زید اس بات کا رسول سے شکوہ کرتے رہے دریں اثناء آپ کو بذریعہ وحی یہ اشارہ مل چکا تھا کہ زینب کا آپ سے نکاح ہوگا اس اشارہ سے کئی باتیں معلوم ہو رہی تھیں۔ ایک یہ کہ سیدنا زید طلاق دیئے بغیر نہ رہیں گے۔ دوسرے یہ کہ سیدہ زینب نے اور ان کے اولیاء نے اللہ کے حکم کے سامنے اپنی خواہش کی جو قربانی کی ہے اس کا صلہ انھیں اس صورت میں ملے کہ نبی خود اس سے نکاح کرلیں اور تیسرے یہ کہ معاشرہ میں جو متبنّیٰ سے متعلق غلط باتیں رواج پا گئی ہیں ان کا استیصال کیا جائے۔- [ ٥٨] آپ کونسی بات دل میں چھپاتے تھے ؟ آپ سیدنا زید کی شکایت پر ہر بار اسے ہی سمجھاتے رہے کہ جب اس عورت نے اپنی خواہش کی قربانی دے کر تم سے نکاح کرلیا ہے تو آخر تمہیں بھی کچھ برداشت سے کام لینا چاہئے۔ آپ کے زید کو طلاق سے منع کرنے اور اس طلاق کے معاملہ کو التوا میں ڈالے رکھنے سے آپ کا مقصد یہ بھی تھا کہ جب بھی طلاق واقع ہوگئی تو سیدہ زینب کو مجھے اپنے نکاح میں لانا ہوگا۔ اس وقت مجھے تمام دشمنان اسلام کے طعن وتشنیع کا نشانہ بننا پڑے گا۔ یہ تھی وہ بات جسے آپ دل میں چھپانا چاہتے تھے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اگر آپ قرآن سے کوئی آیت چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو ضرور چھپاتے۔- اگرچہ دلوں کے خیالات پر اللہ تعالیٰ مؤاخذہ نہیں فرماتا مگر چونکہ آپ کی عظمت شان کے لحاظ سے دل میں ایسا خیال آنا بھی فروتر تھا۔ اس لئے ایسے خیال پر بھی اللہ کی طرف سے عتاب نازل ہوا۔- [ ٥٩] اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جب اپنی بیوی سے اپنی نفسانی خواہش پوری کرچکا تو طلاق دے دی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ سیدنا زید کی خواہش ہی یہ تھی کہ اسے طلاق دے دیں۔ چناچہ انہوں نے طلاق دے دی اور عدت گزر گئی۔- [ ٦٠] اللہ کا حکم ہی زینب کے لئے نکاح کے قائم مقام تھا :۔ اس کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ نکاح تم نے اپنی مرضی اور اپنی خواہش کے مطابق نہیں کیا تھا بلکہ ہمارے حکم کے مطابق کیا تھا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ نکاح اس دنیا میں ہوا ہی نہیں تھا، بلکہ اللہ کا یہ حکم ہی نکاح کا درجہ رکھتا تھا اور یہی مطلب درج ذیل احادیث کی رو سے راجح معلوم ہوتا ہے :- ١۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ زید بن حارثہ اپنی بیوی (زینب بنت جحش) کا شکوہ کرنے آتے تو آپ ان سے فرماتے تھے : اللہ سے ڈر اور اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رہنے دے۔ سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ قرآن سے کچھ چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپاتے اور سیدنا انس کہتے ہیں کہ بی بی زینب رسول اللہ کی دوسری بیویوں پر فخر کیا کرتیں کہ تم کو تو تمہارے اولیاء نے بیاہا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے بیاہ دیا۔ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قولہ وکان عرشہ علی المائ)- ٢۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ جب سیدہ زینب کی عدت پوری ہوگئی تو آپ نے سیدنا زید سے کہا کہ زینب سے میرا ذکر کرو۔ زید کہتے ہیں کہ جب میں ان کے پاس آیا تو وہ اپنے آٹے کا خمیر اٹھا رہی تھیں۔ میں ان کی عظمت کی وجہ سے انھیں نظر بھر کر نہ دیکھ سکا کیونکہ رسول اللہ نے انھیں یاد کیا تھا۔ پھر میں نے ان سے کہا : زینب مجھے رسول اللہ نے بھیجا ہے۔ وہ آپ کو یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا : میں اس وقت تک کوئی بات نہیں کرتی جب تک اپنے پروردگار سے مشورہ نہ کرلوں (استخارہ نہ کرلوں) پھر وہ اپنی جائے نماز پر کھڑی ہوئیں تو قرآن اترا اور رسول اللہ بغیر اذن کے ان کے پاس چلے گئے۔ (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب زواج زینب بنت جحش)- [ ٦١] وہ اللہ کا حکم یہ تھا کہ متبنّیٰ اصل بیٹے کا مقام نہیں رکھتا کہ اس کی مطلقہ بیوی حرام ہوجائے اور اللہ اس غلط رسم کو بہرحال ختم کرنا چاہتا تھا۔
وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِيْٓ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ ۔۔ : ان آیات کے نزول کا سبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ حکم نازل کرنے کا ارادہ فرمایا کہ منہ بولے بیٹے حقیقی بیٹوں کے حکم میں کسی طرح بھی نہیں ہیں اور یہ کہ اگر وہ اپنی بیویوں کو طلاق دے دیں، تو انھیں یعنی منہ بولے بیٹے بنانے والوں کے لیے ان سے نکاح جائز ہے، کیونکہ وہ عورتیں حقیقی بیٹوں کی بیویوں کی طرح ان کی بہو نہیں ہیں۔ تو اس وقت متبنّٰی کی رسم معاشرے میں اس قدر پختہ اور مستحکم ہوچکی تھی کہ بہت بڑے اقدام کے بغیر اس کی اصلاح ممکن نہ تھی اور ضروری تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول کے علاوہ آپ کے عمل کے ساتھ اس پر کاری ضرب لگائی جائے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے اسباب پیدا فرما دیتا ہے۔ چناچہ ایسا ہوا کہ زید بن حارثہ (رض) ، جنھیں زید بن محمد کہا جاتا تھا (کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں متبنّٰی بنایا تھا، جب آیت ” اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ “ اتری تو انھیں زید بن حارثہ (رض) کہا جانے لگا) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نکاح زینب بنت جحش (رض) کے ساتھ کیا تھا۔ مزاج کے اختلاف کی وجہ سے ان دونوں میاں بیوی میں موافقت نہ رہ سکی، اس لیے زید (رض) بار بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے رویے کی شکایت کرتے اور طلاق دینے کی اجازت مانگتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوچکا تھا کہ زید اسے طلاق دیں گے اور وہ آپ کے نکاح میں آئیں گی۔ مگر اس ڈر سے کہ لوگ کہیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بہو سے نکاح کرلیا اور منافقین، یہودی اور مشرکین اسے آپ کی عصمت پر طعن کا ذریعہ بنائیں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زید (رض) کو طلاق سے منع کرتے اور یہی فرماتے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو اور اللہ سے ڈرو۔- ” لِلَّذِيْٓ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَاَنْعَمْتَ عَلَيْهِ “ سے مراد زید بن حارثہ (رض) ہیں۔ انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں : ” یہ آیت : (وَتُخْــفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ ) زینب بنت جحش اور زید بن حارثہ (رض) کے بارے میں نازل ہوئی۔ “ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( و تخفي في نفسک۔۔ ) : ٤٧٨٧ ] اللہ تعالیٰ کا اس پر دوسرے بیشمار انعامات کے ساتھ یہ انعام بھی تھا کہ اسے اس کے مشرک خاندان سے نکال کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچایا، پھر غلامی سے آزادی عطا فرمائی۔ اسلام قبول کرنے اور اس میں سبقت کرنے والے چار افراد میں شامل ہونے کی سعادت بخشی۔ قرآن مجید میں تمام صحابہ میں سے صرف اس کا نام صراحت کے ساتھ ذکر فرمایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس پر دوسرے کئی انعامات کے ساتھ یہ انعام بھی تھا کہ اسے آزاد کیا، اپنا بیٹا بنایا، اپنی پھوپھی زاد کے ساتھ نکاح کیا اور اسے اپنی خاص محبت سے نوازا، چناچہ اسے اور اس کے بیٹے اسامہ کو حِبّ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے محبوب) کہا جاتا تھا۔- وَتُخْــفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ : وہ بات کیا تھی جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چھپاتے تھے اور اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے والا تھا، اس کے متعلق تفاسیر میں متعدد اقوال مذکور ہیں۔ بعض اقوال ایسے بھی ہیں جو شان نبوت کے سراسر منافی ہیں، عقل کے بھی صاف خلاف ہیں اور صحیح سند کے ساتھ ثابت بھی نہیں، بعد کے لوگوں کی فضول باتیں ہیں۔ اس لیے حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں : ” ان کا بیان مناسب نہیں۔ “ اور حافظ ابن کثیر نے فرمایا : ” ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے یہاں بعض سلف سے کچھ آثار نقل کیے ہیں، جنھیں ذکر کرنے سے ہم نے پہلو تہی اختیار کی ہے، کیونکہ وہ ثابت نہیں ہیں۔ “ مگر چونکہ ان اقوال کو لے کر مستشرقین اور اسلام کے مخالفین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر زبان طعن دراز کی ہے، اس لیے انھیں بیان کرنا اور ان کی حقیقت کھولنا لازم ہے۔ چناچہ قتادہ اور ابن زید نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زید (رض) کی عدم موجودگی میں ان کے گھر گئے، تو زینب (رض) کو اس کی زینت میں دیکھا۔ ایک روایت میں ہے کہ ہوا سے اس کے گھر کا پردہ ہٹ گیا اور آپ نے اس کے حسن و جمال کو دیکھا تو آپ کے دل میں اس کی محبت جاگزین ہوگئی اور آپ نے فرمایا : ” سبحان ہی ہے جو دلوں کو پھیرنے والا ہے۔ “ جب زید آئے تو زینب نے انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے نکلنے والے الفاظ بتائے، تو زید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے اور کہا : ” مجھے معلوم ہوا کہ آپ میرے گھر آئے، لیکن آپ اندر کیوں تشریف نہیں لائے ؟ شاید آپ کو زینب پسند آئی ہے تو کیا میں اسے چھوڑ دوں ؟ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اپنی بیوی اپنے پاس رکھو اور اللہ سے ڈرو۔ “ تو یہ آیت اتری۔ تفسیر جلالین میں آیت کا سبب نزول یہی بیان کیا گیا ہے اور مفسر جلال نے اسی کے مطابق تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے : ” تو اپنے دل میں اس کی محبت چھپانے والا تھا، جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور یہ کہ اگر زید اسے طلاق دے دے تو میں اس سے نکاح کرلوں۔ “ یہی تفسیر زمخشری، نسفی، ابن جریر اور ثعلبی وغیرہ نے کی ہے۔ ہاں، ابن جریر نے اس باطل تفسیر کے ساتھ وہ تفسیر بھی لکھی ہے جس میں یہ فضول باتیں نہیں ہیں اور یہ باطل روایات بھی نقل کردی ہیں، اگرچہ سند بیان کرنے کی وجہ سے ان کا نقصان کم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان آثار میں سے کسی کی سند صحیح نہیں، نہ ہی قتادہ یا ابن زید اس واقعہ کے وقت موجود تھے، وہ تابعی ہیں اور اپنی بات کا حوالہ بھی ذکر نہیں کرتے کہ انھوں نے کس سے یہ روایت سنی ہے اور پھر یہ صریح عقل کے بھی خلاف ہے۔ زینب کوئی اجنبی خاتون نہ تھی، جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اچانک دیکھا ہو۔ وہ آپ کی پھوپھی کی بیٹی تھی، آپ کے سامنے جوان ہوئی، آپ نے اپنے (منہ بولے) بیٹے کے لیے اس کا رشتہ مانگا، اس کے ساتھ نکاح کیا، آپ کے ساتھ اس نے ہجرت کی، اس وقت تک پردے کا نہ رواج تھا، نہ اس کا حکم اترا تھا کہ اتنے سالوں تک آپ نے اسے نہ دیکھا ہو۔ غرض اس قسم کی روایات ہر لحاظ سے باطل اور جھوٹ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پاک بازی اور عفت کو بطور چیلنج ذکر کرنے کا حکم دیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : (فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) [ یونس : ١٦ ] ” پس بیشک میں تم میں اس سے پہلے ایک عمر رہ چکا ہوں، تو کیا تم نہیں سمجھتے ؟ “- 3 رہی یہ بات کہ پھر حقیقت میں بات کیا تھی جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دل میں چھپا رہے تھے اور اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے والا تھا، تو اس میں راجح قول وہی ہے جو اس آیت کے پہلے فائدے میں ذکر کیا گیا ہے اور جسے اکثر محقق مفسرین، مثلاً حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر وغیرہ نے اختیار کیا ہے اور ہمارے شیخ استاذ محمد عبدہ نے بھی اسی کو صحیح قرار دیا ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں : ” اصل بات یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی پہلے سے خبردار کردیا گیا تھا کہ زینب آپ کی بیوی ہونے والی ہے، مگر آپ اس کے اظہار سے شرماتے تھے کہ مخالفین الزام لگائیں گے کہ دیکھیے اپنی بہو سے نکاح کرلیا۔ اس لیے جب زید نے آکر شکایت کی تو آپ نے فرمایا : (اَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللّٰهَ ) اس پر اللہ تعالیٰ نے عتاب آمیز لہجے میں فرمایا کہ جب میں نے آپ کو پہلے بتادیا ہے کہ زینب کا نکاح آپ سے ہونے والا ہے تو آپ زید سے یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں، یعنی آپ کی شان کے لائق نہیں، بلکہ بہتر یہ تھا کہ آپ خاموش رہتے، یا زید سے کہہ دیتے کہ تم جو کرنا چاہتے ہو کرو۔ علامہ آلوسی لکھتے ہیں، یہ عتاب ترک اولیٰ پر ہے۔ “ (اشرف الحواشی) واضح رہے کہ یہ بات صراحت کے ساتھ کسی حدیث سے ثابت نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات سے آگاہ کردیا تھا کہ آپ کا نکاح زینب سے ہوگا، یہ صرف سدی کا قول ہے، یا علی بن حسین (زین العابدین) سے کمزور سند کے ساتھ مروی قول ہے۔ البتہ قرآن مجید کے الفاظ : ” وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا “ اور ” مَا كَانَ عَلَي النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗ “ اور ” وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَۨا “ سے اس قول کی تائید ہوتی ہے۔- فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا : ” وَطَراً “ کا معنی حاجت ہے، یعنی جب زید نے کچھ مدت تک اپنے نکاح میں رکھنے کے بعد اسے طلاق دے دی اور اس کی عدت بھی پوری ہوگئی، جس میں انھوں نے رجوع نہیں کیا اور ثابت ہوگیا کہ ان کے دل میں زینب کے متعلق جو خواہش تھی پوری ہوچکی اور اب ان کی کوئی خواہش یا حاجت نہیں رہی، تو ہم نے اے نبی اس کا نکاح آپ سے کردیا۔ ابن کثیر فرماتے ہیں : ” زینب کا آپ سے نکاح کرنے والا ولی خود اللہ تعالیٰ تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی کہ آپ انسانوں میں سے کسی ولی یا عقد یا مہر یا گواہوں کے بغیر (اس کے خاوند ہیں) اس کے پاس چلے جائیں۔ “ (ابن کثیر) انس (رض) فرماتے ہیں : ” جب زینب (رض) کی عدت پوری ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) سے کہا : ” ان سے میرا ذکر کرو۔ “ زید جب ان کے پاس گئے تو وہ آٹے میں خمیر ملا رہی تھیں، کہتے ہیں کہ جب میں نے انھیں دیکھا تو میرے سینے میں ان کی اتنی عظمت چھا گئی کہ میں ان کی طرف نظر بھر کر نہ دیکھ سکا، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا ذکر کیا تھا۔ غرض میں نے ان کی طرف پیٹھ کرلی اور ایڑیوں پر پھر گیا اور کہا : ” اے زینب مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھیجا ہے، وہ آپ کو یاد کر رہے ہیں (یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کی طرف پیغام نکاح بھیجا ہے) ۔ “ زینب (رض) نے کہا : ” میں اس وقت تک کوئی کام نہیں کرتی جب تک اپنے رب سے مشورہ نہ کرلوں (یعنی استخارہ نہ کرلوں) ۔ “ پھر وہ اپنی جائے نماز پر کھڑی ہوگئیں اور قرآن نازل ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس اجازت کے بغیر تشریف لے آئے۔ “ [ مسلم، النکاح، باب زواج زینب - بنت جحش۔ ۔۔ : ١٤٢٨ ]- انس (رض) فرماتے ہیں : ( جَاءَ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ یَشْکُوْ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَقُوْلُ اتَّقِ اللّٰہَ ، وَ أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ ، قَالَ أَنَسٌ لَوْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کَاتِمًا شَیْءًا لَکَتَمَ ہٰذِہِ ، قَالَ فَکَانَتْ زَیْنَبُ تَفْخَرُ عَلٰی أَزْوَاج النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ تَقُوْلُ زَوَّجَکُنَّ أَہَالِیْکُنَّ ، وَ زَوَّجَنِيَ اللّٰہُ تَعَالٰی مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمٰوَاتٍ ) [ بخاري، التوحید، باب : ( و کان عرشہ علی الماء ) ۔۔ : ٧٤٢٠ ] ” زید بن حارثہ (رض) آ کر شکایت کرنے لگے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں یہی کہتے رہے : ” اللہ سے ڈر اور اپنی بیوی کو اپنے پاس روکے رکھ۔ “ انس (رض) نے فرمایا : ” اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی چیز چھپانے والے ہوتے تو اس بات کو ضرور چھپالیتے۔ “ انس (رض) فرماتے ہیں کہ پھر زینب (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسری بیویوں پر فخر کرتے ہوئے کہتی تھیں : ” تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا اور میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے کیا۔ “ - لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ ۔۔ : یعنی ہم نے زینب (رض) کا نکاح آپ سے اس لیے کردیا کہ جاہلی رسم کے مطابق اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کو جو حرام سمجھا جاتا تھا، آپ کے عملی اقدام سے یہ رسم ختم کی جائے اور ایمان والوں کو اپنے منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ عورتوں کے ساتھ نکاح میں کوئی تنگی نہ رہے اور وہ کسی گناہ یا عار کے احساس کے بغیر ان سے نکاح کرسکیں۔- وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا : یعنی اللہ کا یہ فیصلہ پورا ہو کر رہنے والا تھا کہ متبنّٰی حقیقی بیٹا نہیں ہوتا، نہ اسے متبنّٰی بنانے والے کے لیے اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہے اور یہ فیصلہ بھی پورا ہو کر رہنا تھا کہ زینب (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح میں آئیں گی۔
دوسرا واقعہ :- حضرت زینب بنت جحش کا نکاح بامر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ ہوگیا، مگر دونوں کی طبیعتوں میں موافقت نہ ہوئی۔ حضرت زید ان کی تیز زبانی اور نسبی شرافت کی بنا پر اپنے کو اونچا سمجھنے اور اطاعت میں کوتاہی کرنے کی شکایت کیا کرتے تھے۔ دوسری طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی یہ بتلا دیا گیا تھا کہ زید ان کو طلاق دیں گے، اس کے بعد زینب آپ کے نکاح میں آئیں گی۔ ایک روز حضرت زید نے انہی شکایات کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کر کے اپنا یہ ارادہ ظاہر کیا کہ ان کو طلاق دے دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگرچہ منجانب اللہ یہ علم ہوگیا تھا کہ واقعہ یوں ہی پیش آنے والا ہے، کہ زید ان کو طلاق دے دیں گے، پھر یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح میں آئیں گی، لیکن دو وجہ سے آپ نے حضرت زید کو طلاق دینے سے روکا۔ اول یہ کہ طلاق دینا اگرچہ شریعت اسلام میں جائز ہے مگر پسندیدہ نہیں بلکہ بعض المباحات یعنی جائز چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض و مکروہ ہے، اور تکوینی طور پر کسی کام کا وقوع تشریعی حکم کو متاثر نہیں کرتا۔ دوسرے قلب مبارک میں یہ بھی خیال پیدا ہوا کہ اگر انہوں نے طلاق دے دی اور پھر زینب کا نکاح آپ سے ہوا تو عرب اپنے دستور جاہلیت کے مطابق یہ طعنے دیں گے کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ اگرچہ قرآن نے اس دستور جاہلیت کو سورة احزاب کی ہی سابقہ آیات میں ختم کردیا ہے۔ اس کے بعد کسی مومن کے لئے تو اس کے وسوسہ کا بھی خطرہ نہ تھا مگر کفار جو قرآن ہی کو نہیں مانتے وہ اپنی جاہلانہ رسم یعنی منہ بولے بیٹے کو تمام احکام میں حقیقی بیٹے کی طرح سمجھنے پر زبان طعن دراز کریں گے۔ یہ اندیشہ بھی حضرت زید کو طلاق دینے سے منع کرنے کا سبب بنا۔ اس پر حق تعالیٰ کی طرف سے محبوبانہ عتاب قرآن کی ان آیات میں نازل ہوا : (آیت) واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ امسک علیک زوجک واتق اللہ وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشاہ، یعنی آپ اس وقت کو یاد کریں جب کہ آپ کہہ رہے تھے اس شخص کو جس پر اللہ نے انعام کیا اور آپ نے بھی انعام کیا، مراد اس شخص سے حضرت زید ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے پہلا انعام تو یہ فرمایا کہ ان کو مشرف با اسلام کردیا دوسرے آپ کی صحبت کا شرف عطا فرمایا۔ اور آپ نے ان پر ایک انعام تو یہ کیا کہ ان کو غلامی سے آزاد کردیا، دوسرا یہ کہ ان کی تربیت فرما کر ایسا بنادیا کہ بڑے بڑے صحابہ بھی ان کی تعظیم کرتے تھے۔ آگے وہ قول نقل کیا جو آپ نے زید سے فرمایا (آیت) امسک علیک زوجک واتق اللہ، یعنی اپنی بی بی کو آپ اپنے نکاح میں روکیں، طلاق نہ دیں اور خدا سے ڈریں۔ خدا سے ڈرنے کا حکم اس جگہ اس معنی میں بھی ہوسکتا ہے کہ طلاق ایک مبغوض و مکروہ فعل ہے اس سے اجتناب کریں اور اس معنی سے بھی ہوسکتا ہے کہ نکاح میں روکنے کے بعد طبعی منافرت کی وجہ سے ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں۔ آپ کا یہ فرمانا اپنی جگہ صحیح و درست تھا، مگر منجانب اللہ ہونے والے واقعہ کا علم ہوجانے اور دل میں حضرت زینب سے نکاح کا ارادہ پیدا ہوجانے کے بعد زید کو طلاق نہ دینے کی نصیحت ایک طرح کی رسمی اظہار خیر خواہی کے درجہ میں تھی، جو شان رسالت کے مناسب نہ تھی، خصوصاً اس لئے کہ اس کے ساتھ لوگوں کے طعنوں کا اندیشہ بھی شامل تھا اس لئے آیت مذکورہ میں عتاب ان الفاظ میں نازل ہوا کہ آپ دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا۔ جب منجانب اللہ حضرت زنیب کے ساتھ آپ کے نکاح کی خبر مل چکی، اور آپ کے دل میں ارادہ نکاح پیدا ہوچکا تو اس ارادہ کو چھپا کر ایسی رسمی گفتگو جو آپ کی شان کے مناسب نہیں تھی کی۔ اور لوگوں کے طعنوں کے اندیشہ پر فرمایا کہ آپ لوگوں سے ڈرنے لگے، حالانکہ ڈرنا تو آپ کو اللہ ہی سے سزا وار ہے۔ یعنی جب آپ کو یہ معلوم تھا کہ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والا ہے، اس کی ناراضی کا اس میں کوئی خوف وخطر نہیں تو پھر محض لوگوں کے طعنوں سے گھبرا کر آپ کے لئے یہ گفتگو مناسب نہیں تھی۔- اس واقعہ کی جو تفصیل اوپر لکھی گئی ہے، یہ سب تفسیر ابن کثیر اور قرطبی اور روح المعانی سے لی گئی ہے، اور (آیت) تحفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ کی یہ تفسیر کہ وہ چیز جس کو آپ نے دل میں چھپایا تھا وہ یہ ارادہ تھا کہ زید نے طلاق دے دیتو حکم الٰہی کے مطابق آپ ان سے نکاح کرلیں گے، یہ تفسیر حکیم ترمذی اور ابن ابی حاتم وغیرہ محدثین نے حضرت علی بن حسین زین العابدین کی روایت سے نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :- ” یعنی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی یہ اطلاع دے دی تھی کہ حضرت زنیب کو زید طلاق دینے والے ہیں اور اس کے بعد وہ آپ کے نکاح میں آئیں گی “- اور ابن کثیر نے ابن ابی حاتم کے حوال سے یہ الفاظ نقل کئے ہیں :- ” یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو پہلے ہی بتلا دیا تھا کہ حضرت زینب بھی ازواج مطہرات میں داخل ہوجائیں گی، پھر جب حضرت زید ان کی شکایت لے کر آپ کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو طلاق نہ دو ، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تو آپ کو بتلا دیا تھا کہ میں ان سے آپ کا نکاح کرا دوں گا اور آپ اپنے دل میں اس چیز کو چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا۔- جمہور مفسرین زہری، بکر بن العلاء، قشیری، قاضی ابوبکر بن العربی نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے کہ جس چیز کے دل میں چھپانے کا ذکر کیا گیا وہ بوحی الہٰی ارادہ نکاح تھا، اس کے خلاف جن روایات میں ما فی نفسک کی تفسیر محب زنیب سے منقول ہے، اس کے متعلق ابن کثیر نے فرمایا کہ ہم نے ان روایات کا ذکر کرنا اس لئے پسند نہیں کیا کہ ان میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔- اور خود الفاظ قرآن سے تائید اسی تفسیر کی ہوتی ہے جو حضرت زین العابدین کی روایت سے اوپر بیان ہوئی ہے، کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خود بتلا دیا کہ دل میں چھپائی ہوئی چیز وہ تھی جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو اگلی آیت میں ظاہر فرمایا وہ نکاح ہے حضرت زنیب کے ساتھ جیسا کہ فرمایا زوجنکھا (روح)- محمود ہی جب تک کسی مقصود شرعی پر اثر انداز نہ ہو :- یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کے طعن وتشنیع سے بچنے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس معاملہ کا اخفاء کیوں فرمایا جو سبب عتاب بنا۔ جواب یہ ہے کہ اس معاملہ میں اصل مغالطہ جو قرآن و سنت سے ثابت ہے یہ ہے کہ جس کام کے کرنے سے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے اور ان کے طعن وتشنیع میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو تو لوگوں کے دین کی حفاظت اور ان کو طعن وتشنیع کے گناہ سے بچنے کے نیت سے چھوڑ دینا اس صورت میں تو جائز ہے جب کہ یہ فعل خود مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہو، اور کوئی دینی حکم حلال و حرام کا اس سے متعلق نہ ہو، اگرچہ فعل فی نفسہ محمود ہو۔ اس کی نظیر حدیث و سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں موجود ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں جب بیت اللہ کی تعمیر کی گئی تو اس میں کئی چیزیں بناء ابراہیمی کے خلاف کردی گئی ہیں اول تو یہ کہ بیت اللہ کا کچھ حصہ تعمیر سے باہر چھوڑ دیا، دوسرے بناء ابراہیمی میں لوگوں کے بیت اللہ میں داخل ہونے کے لئے دو دروازے تھے، ایک مشرقی جانب میں دوسرا مغربی جانب میں، جس کی وجہ سے بیت اللہ میں داخل ہونے اور نکلنے میں زحمت نہ ہوتی تھی، اہل جاہلیت نے اس میں دو تصرف کئے کہ مغربی دروازہ تو بالکل بند کردیا اور مشرقی دروازہ جو سطح زمین سے متصل تھا اس کو اتنا اونچا کردیا کہ بغیر سیڑھی کے اس میں داخلہ نہ ہو سکے، جس سے یہ مقصد تھا کہ وہ جس کو اجازت دیں صرف وہ اندر جاسکے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر نو مسلم لوگوں کے غلط فہمی میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں بیت اللہ کو پھر بناء ابراہیمی کے مطابق بنا دیتا۔ یہ حدیث سب کتب معتبرہ میں موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو غلط فہمی سے بچانے کے لئے اپنا یہ ارادہ جو شرعاً محمود تھا اس کو ترک کردیا، اور منجانب اللہ اس پر کوئی عتاب نہیں ہوا، جس سے اس عمل کا عند اللہ مقبول ہونا بھی معلوم ہوگیا۔ مگر یہ معاملہ بیت اللہ کو بناء ابراہیمی کے مطابق دوبارہ تعمیر کرنے کا ایسا نہیں جس پر کوئی مقصد شرعی موقوف ہو یا جس سے احکام حلال و حرام متعلق ہوں۔ - بخلاف واقعہ نکاح زینب کے کہ اس سے ایک مقصد شرعی متعلق تھا کہ جاہلیت کی رسم بد اور اس خیال باطل کی عملی تردید ہوجائے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح حرام ہے۔ کیونکہ قوموں میں چلی ہوئی غلط رسموں کو توڑنا عملاً جب ہی ممکن ہوتا ہے جب اس کا عملی مظاہرہ ہو۔ حکم ربانی اسی کی تکمیل کے لئے حضرت زینب کے نکاح سے متعلق ہوا تھا۔ اس تقریر سے بناء بیت اللہ کے ترک اور نکاح زینب پر بارشاد خداوندی عمل کے ظاہری تعارض کا جواب ہوگیا۔- اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم کی قولی تبلیغ جو سورة احزاب کی پہلی آیات میں آ چکی ہے اس کو کافی سمجھا اور اس کے عملی مظاہرہ کی حکمت کی طرف نظر نہیں گئی، اس لئے باوجود علم و ارادہ کے اس کو چھپایا۔ اللہ تعالیٰ نے آیات مذکورہ میں اس کی اصلاح فرمائی، اور اس کا اظہار فرمایا (آیت) لکی لایکون علیٰ المومنین حرج فی ازواج ادعیاہیم اذا قضوا منہن وطراً ، یعنی ہم نے زنیب سے آپ کا نکاح اس لئے کیا تاکہ مسلمانوں پر اس معاملے میں کوئی عملی تنگی پیش نہ آئے، کہ منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ بیویوں سے نکاح کرسکیں۔- اور زوجنکہا کے لفظی معنی یہ ہیں کہ ہم نے ان کا نکاح آپ سے کردیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کو یہ امتیاز بخشا کہ خود ہی نکاح کردیا جو عام شرائط نکاح سے مستثنیٰ رہا، اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں ہم نے اس نکاح کا حکم دے دیا اب آپ شرعی قواعد و شرائط کے مطابق ان سے نکاح کرلیں۔ حضرات مفسرین میں بعض نے پہلے احتمال کو ترجیح دی، بعض نے دوسرے احتمال کو۔ - اور حضرت زینب کا دوسری عورتوں کے سامنے یہ فرمانا کہ تمہارا نکاح تو تمہارے والدین نے کیا میرا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے آسمان پر کیا، جیسا کہ روایات میں آیا ہے، یہ دونوں صورتوں میں صادق ہے۔ پہلی صورت میں زیادہ واضح ہے اور دوسری صورت بھی اس کے منافی نہیں۔
وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِيْٓ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِ وَاَنْعَمْتَ عَلَيْہِ اَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللہَ وَتُخْفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللہُ مُبْدِيْہِ وَتَخْشَى النَّاسَ ٠ ۚ وَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰـىہُ ٠ ۭ فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَہَا لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ فِيْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِيَاۗىِٕہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا ٠ ۭ وَكَانَ اَمْرُ اللہِ مَفْعُوْلًا ٣٧- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- مسك - إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ- [ الزخرف 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ- [ الممتحنة 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال :- هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن .- ( م س ک )- امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہستہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی:- فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] - ( ز و ج ) الزوج - جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - وطر - الوَطَرُ : النّهمة والحاجة المهمّة . قال اللہ عزّ وجلّ : فَلَمَّا قَضى زَيْدٌ مِنْها وَطَراً- [ الأحزاب 37] .- زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی:- فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] - ( ز و ج ) الزوج - جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔- حرج - أصل الحَرَج والحراج مجتمع الشيئين، وتصوّر منه ضيق ما بينهما، فقیل للضيّق : حَرَج، وللإثم حَرَج، قال تعالی: ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] ، وقال عزّ وجلّ :- وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78] ، وقد حرج صدره، قال تعالی:- يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] ، وقرئ حرجا «1» ، أي : ضيّقا بکفره، لأنّ الکفر لا يكاد تسکن إليه النفس لکونه اعتقادا عن ظن، وقیل : ضيّق بالإسلام کما قال تعالی:- خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وقوله تعالی: فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] ، قيل : هو نهي، وقیل : هو دعاء، وقیل : هو حکم منه، نحو : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] ، والمُتَحَرِّج والمتحوّب : المتجنّب من الحرج والحوب .- ( ح ر ج ) الحرج والحراج ( اسم ) کے اصل معنی اشب کے مجتع یعنی جمع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ اور جمع ہونے میں چونکہ تنگی کا تصور موجود ہے اسلئے تنگی اور گناہ کو بھی حرج کہاجاتا ہے قرآن میں ہے ؛۔ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] اور ۔۔۔ اپنے دل میں تنگ نہ ہوں ۔ وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78 اور تم پر دین ( کی کسی بات ) میں تنگی نہیں کی ۔ حرج ( س) حرجا ۔ صدرہ ۔ سینہ تنگ ہوجانا ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے ۔ ایک قرآت میں حرجا ہے ۔ یعنی کفر کی وجہ سے اس کا سینہ گھٹا رہتا ہے اس لئے کہ عقیدہ کفر کی بنیاد وظن پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کو کبھی سکون نفس حاصل نہیں ہوتا اور بعض کہتے کہ اسلام کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے جیسا کہ آیت خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] سے مفہوم ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] اس سے تم کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے ۔ میں لایکن فعل نہی کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے اور ۔۔۔۔ جملہ دعائیہ بھی ۔ بعض نے اسے جملہ خبر یہ کے معنی میں لیا ہے ۔ جیسا کہ آیت کریمہ ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] سے مفہوم ہوتا ہے ،۔ المنحرج ( صفت فاعلی ) گناہ اور تنگی سے دور رہنے والا جیسے منحوب ۔ حوب ( یعنی گنا ہ) بچنے والا ۔- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔
متبنیٰ کی بیوی سے طلاق ہونے پر نکاح ہوسکتا ہے - قول باری ہے (واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ امسک علیک زوجک واتق اللہ وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ توتخشی الناس واللہ احق ان تخشاہ) اور (اس وقت کو بھی یاد کیجئے) جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے بھی فضل کیا ہے اور آپ نے بھی اس پر عنایت کی ہے کہ اپنی بیوی کو اپنی زوجیت میں رہنے دو اور اللہ سے ڈرو۔ اور آپ اپنے دل میں وہ چھپاتے رہے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور آپ لوگوں کی طرف سے اندیشہ کررہے تھے حالانکہ اللہ ہی اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔- سفیان بن عینیہ نے علی بن زید سے روایت کی ہے کہ انہوں نے یہ فرمایا : مجھ سے علی بن الحسین (رض) نے بیان کیا تھا کہ انہوں نے حضرت حسین (رض) سے قول باری (و تخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ) کی تفسیر کے سلسلے میں پوچھا تھا کہ آیا حضرت زینب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عزیز تھیں اور آپ نے ان کے شوہر زید کو کہا تھا کہ اللہ سے ڈرو اور زینب کو اپنی زوجیت میں رہنے دو ؟ حضرت حسین (رض) نے یہ سن کر فرمایا تھا کہ باس اس طرح نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بتادیا تھا کہ زینب عنقریب آپ کی بیوی بننے والی ہیں۔- پھر جب زید اپنی بیوی کی شکایتیں لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے تھے تو آپ نے ان سے فرمایا تھا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنی زوجیت میں رہنے دو ۔ اس موقعہ پر اللہ نے فرمایا (و تخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ)- ایک قول کے مطابق حضرت زید (رض) اپنی بیوی کا جھگڑا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیان کرتے رہتے ہیں، میاں بیوی میں تنازعہ کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین ہوگیا ان کا نباہ نہیں ہوسکتا اور عنقریب علیحدگی ہوجائے گی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دل میں یہ بات رکھی کہ اگر زید (رض) انہیں طلاق دے دیں گے تو آپ انہیں اپنے عقد زوجیت میں لے آئیں گے۔- یہ خاتون حضرت زینب (رض) بنت جحش تھیں۔ آپ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی کی بیٹی تھیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شفقت اور صلہ رحمی کی خاطر انہیں اپنے ساتھ ملا لینے کا ارادہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دل میں اس بات کے چھپانے اور حضرت زید (رض) سے یہ کہنے پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیویں کو اپنی زوجیت میں رکھو۔ “ اللہ کی مراد یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے آپ کا ظاہر وباطن یکساں ہونا چاہیے۔- جس طرح کہ عبداللہ بن سعد کے واقعہ کے سلسلہ میں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ عرض کیا گیا کہ ” آپ نے ہمیں اس شخص کو قتل کردینے کا اشارہ کیوں نہیں کردیا ؟ “ تو آپ نے فرمایا تھا کہ نبی کی شان سے یہ بات بہت بعید ہے کہ وہ آنکھوں سے خفیہ اشارے کرے۔ “ یعنی نبی کا ظاہر وباطن لوگوں کے سامنے یکساں ہونا چاہیے۔- نیز نکاح کی بات ایسی نہیں تھی جسے مخفی رکھنا ضروری تھا کیونکہ یہ ایک جائز اور مباح فعل تھا اور اللہ ک و اس کا علم تھا اللہ تعالیٰ کی ذات اس امر کی زیادہ حق دار تھی کہ لوگوں سے ڈرنے کی بجائے اس کا خوف اپنے دل میں پیدا کیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امر کو مباح کردیا تھا اس لئے اس کے اظہار میں لوگوں سے ڈرنے کی کوئی بات نہ تھی۔- آیت کا نزول حضرت زید بن حارثہ (رض) کے واقعہ کے سلسلے میں ہوا تھا اللہ کا ان پر انعام، اسلام کی دولت عطا کرکے ہوا تھا۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں آزاد کرکے ان پر انعام کیا تھا اسی بنا پر آزادی دینے والے آقا کو مولیٰ النعمہ کہا جاتا ہے۔- قول باری ہے (فلما قضی زید منھا وطرا زوجنا کھا لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیاء ھم اذا قضوا منھن وطرا۔ پھر جب زید کا دل اس عورت سے بھر گیا تو ہم نے اس کا نکاح آپ کے ساتھ کردیا تاکہ اہل ایمان پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں تنگی نہ رہے جب وہ ان سے اپنا جی بھر چکیں) یہ آیت کئی احکام پر مشتمل ہے۔- ایک تو یہ کہ اس میں اس علت کو بیان کردیا گیا جس کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے نکاح کی اباحت کا حکم دیا گیا تھا نیز یہ کہ یہی بات مسلمانوں کے لئے ایسے نکاح کی اباحت کی مقتضی ہوگئی تھی۔- یہ چیز احکام میں قیاس کے اثبات اور ان احکام کے ایجاب کے لئے علل کے اعتبار پر دلالت کرتی ہے۔- آیت کا دوسرا حکم یہ ہے کہ کسی کو منہ بولا بیٹا بنالینا اس کی مطلقہ بیوی سے نکاح کے جواز کے لئے مانع نہیں ہے۔- تیسرا حکم یہ ہے کہ احکامات کے سوا جن کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ تخصیص کردی گئی ہے باقی تمام احکامات میں امت کو آپ کے ساتھ مساوی درجہ حاصل ہے، کیونکہ آیت میں نہ خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اس نکاح کو حلال کردیا تاکہ تمام اہل ایمان اس حکم میں آپ کے مساوی ہوجائیں۔
اور جبکہ آپ حضرت زید سے فرما رہے تھے (جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی توفیق عطا فرمائی اور آپ نے بھی ان کو آزاد کر کے ان پر انعام فرمایا) کہ اپنی بیوی کو طلاق مت دو اور حق سے ڈرو اور آپ زید کے طلاق دینے کی صورت میں اپنے دل میں حضرت زینب سے نکاح کرنے کے ارادہ کو چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ تعالیٰ بذریعہ قرآن حکیم ظاہر کرنے والا تھا اور آپ لوگوں کے طعن کا بھی اندیشہ کر رہے تھے اور ڈرنا تو آپ کو اللہ ہی سے زیادہ مناسب ہے۔- چناچہ جب حضرت زید کا حضرت زینب سے جی بھر گیا اور انہوں نے ان کو طلاق دے دی اور طلاق کی عدت بھی پوری ہوگئی تو ہم نے حضرت زینب سے آپ کا نکاح کرا دیا تاکہ اس کے بعد مسلمانوں کو اپنے مونہہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے کے بارے میں کسی قسم کی کوئی تنگی نہ رہے، جبکہ وہ عورتیں ان کی موت یا طلاق کی عدت پوری کرچکیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم تو ہو کر ہی رہنے والا تھا۔- کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حضرت زینب سے شادی ہوجائے۔- شان نزول : وَتُخْــفِيْ فِيْ نَفْسِكَ (الخ)- امام بخاری نے حضرت انس سے روایت کیا ہے یہ آیت مبارکہ حضرت زینب بنت جحش اور زید بن حارثہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- امام حاکم نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ حضرت زید بن حارثہ رسول اکرم کی خدمت میں حضرت زینب کی شکایت کرنے کے لیے آئے آپ نے فرمایا کہ اپنی بیوی کو اپنی زوجیت میں رہنے دو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- امام مسلم اور احمد و نسائی نے روایت کیا ہے کہ جب حضرت زینب کی عدت پوری ہوگئی تو رسول اکرم نے حضرت زید سے فرمایا کہ تم میرا پیغام نکاح زینب کو پہنچاؤ، حضرت زید ان کے پاس پہنچے اور ان کو اس چیز کی اطلاع دی، حضرت زینب نے فرمایا کہ میں جب تک اپنے پروردگار سے مشورہ نہ کرلوں کچھ نہیں کہہ سکتی یہ کہ وہ اپنی جائے نماز پر کھڑی ہوگئیں اس کے بعد قرآن کریم کی آیت نازل ہوگئی اور رسول اکرم بغیر اجازت کے حضرت زینب کے پاس تشریف لے گئے اور صحیح یاد ہے کہ جب رسول اکرم ان کے پاس تشریف لے گئے تو آپ نے ہمیں گوشت روٹی کھلایا تھا کھانے کے بعد سب باہر چلے آئے صرف چند آدمی مکان میں باتیں کرتے رہ گئے۔- مجبورا رسول اکرم باہر تریف لے گئے میں بھی آپ کے ساتھ ہولیا چناچہ رسول اکرم تمام ازواج مطہرات کے حجروں کا گشت لگانے لگے پھر حضور کو لوگوں کے چلے جانے کی اطلاع دی، بہرحال حضور واپس تشریف لاکر حجرہ میں داخل ہوگئے اور میں بھی ساتھ داخل ہونا چاہتا تھا مگر حضور نے میرے اور اپنے درمیان پردہ چھوڑ دیا اور آیت حجاب نازل ہوئی اور اس کے ذریعے سے جو نصیحت ہوتی تھی وہ لوگوں کو کردی۔ یعنی اے ایمان والو نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔- اور امام ترمذی نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے جب حضرت زینب سے شادی کی تو لوگ کہنے لگے کہ آپ نے اپنے لڑکے کی بیوی سے شادی کرلی۔ اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی یعنی محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں۔
آیت ٣٧ وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْٓ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْہِ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) جب آپ کہتے تھے اس شخص سے جس پر اللہ نے بھی انعام کیا تھا اور آپ نے بھی انعام کیا تھا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس روکے رکھو اور اللہ سے ڈرو “- اس سے مراد حضرت زید (رض) ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انعام و احسان یہ تھا کہ وہ گردش زمانہ سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں گھر کے ایک فرد کی حیثیت سے رہے تھے۔ ان کے والد حارثہ بن شراحیل کا تعلق قبیلہ کلب سے تھا۔ حضرت زید (رض) جب آٹھ سال کے بچے تھے تو اپنی ماں کے ساتھ اپنے ننھیال گئے۔ ان کے قافلے پر دشمن قبیلے نے حملہ کردیا اور لوٹ مار کے ساتھ جن آدمیوں کو پکڑ کرلے گئے ان میں یہ بھی تھے۔ پھر انہوں نے عکاظ کے میلے میں لے جا کر ان کو بیچ دیا۔ خریدنے والے حکیم بن حزام تھے ‘ جنہوں نے ان کو اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ (رض) کی خدمت میں پیش کردیا۔ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حضرت خدیجہ (رض) کا نکاح ہوا تو یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گئے۔ اس وقت ان کی عمر ١٥ برس تھی۔ کچھ مدت کے بعد حضرت زید (رض) کے والد اور چچا ان کو تلاش کرتے ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچے اور عرض کیا کہ آپ جو فدیہ چاہیں ہم دینے کو تیار ہیں ‘ آپ ہمارا بچہ ہمیں دے دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں لڑکے کو بلاتا ہوں اور اس کی مرضی پر چھوڑے دیتا ہوں کہ وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے یا میرے پاس رہنا چاہتا ہے۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جاناچا ہے گا تو میں کوئی فدیہ نہیں لوں گا اور اسے جانے دوں گا ‘ لیکن اگر وہ میرے پاس رہنا چاہے تو میں اسے زبردستی آپ کے ساتھ نہیں بھیجوں گا۔ وہ دونوں حضرات بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ تو آپ نے عدل و انصاف سے بھی بڑھ کر درست بات کی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) کو بلایا اور ان سے کہا کہ ان دونوں صاحبوں کو جانتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں ‘ یہ میرے والد اور میرے چچا ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اچھا ‘ تم ان کو بھی جانتے ہو اور مجھے بھی۔ اب تمہیں پوری آزادی ہے کہ چاہو تو ان کے ساتھ چلے جائو اور چاہو تو میرے ساتھ رہو۔ زید (رض) نے جواب میں کہا کہ میں آپ کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں جانا چاہتا۔ ان کے باپ اور چچا نے ساتھ چلنے پر اصرار کیا اور کہا کہ کیا تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے ؟ لیکن حضرت زید (رض) کسی طرح بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی وقت زید (رض) کو آزاد کردیا اور حرم میں جا کر قریش کے مجمع عام میں اعلان فرمایا کہ آپ سب لوگ گواہ رہیں ‘ آج سے زید میرا بیٹا ہے۔ چناچہ اس روز سے انہیں زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکارا جانے لگا۔ یہ سب واقعات نبوت سے پہلے کے ہیں۔ نزولِ وحی کے بعد جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلانِ نبوت فرمایا تو چار ہستیاں ایسی تھیں جنہوں نے ایک لمحہ شک و تردد کے بغیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت کی تصدیق کی۔ ایک حضرت خدیجہ ‘ دوسرے حضرت زید ‘ تیسرے حضرت علی اور چوتھے حضرت ابوبکر صدیق (رض) ۔ اس وقت حضرت زید (رض) کی عمر ٣٠ سال تھی اور ان کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں رہتے ہوئے ١٥ برس بیت چکے تھے۔ ہجرت کے بعد ٤ ھ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب (رض) سے ان کا نکاح کردیا۔ اپنی طرف سے ان کا مہر ادا کیا اور گھر بسانے کے لیے ان کو ضروری سامان عنایت فرمایا۔ یہی حالات ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ ” جس پر اللہ نے بھی انعام کیا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی انعام کیا تھا۔ “ (ماخوذ از تفہیم القرآن ۔ - اضافہ از مرتب)- وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیْہِ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے وہ بات جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا “- وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں سے ڈر رہے تھے ‘ حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے ڈریں۔ “- نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محسوس فرما رہے تھے کہ اگر زید (رض) نے طلاق دے دی تو مجھے خود زینب (رض) سے نکاح کرنا پڑے گا ‘ لیکن ساتھ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخالفین کی طرف سے منفی پراپیگنڈے کا خدشہ بھی تھا۔ اگرچہ اس سورت کی ابتدائی آیات میں منہ بولے بیٹے کی شرعی اور قانونی حیثیت واضح فرما دی گئی تھی اور متعلقہ آیات کے نزول کے بعد لوگ انہیں زید (رض) بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بجائے زید (رض) بن حارثہ کہنے لگے تھے ‘ لیکن پھر بھی اندیشہ تھا کہ منافقین اس مسئلے کو بہانہ بنا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف واویلا کریں گے۔- فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰـکَھَا ” پس جب زید (رض) نے اس سے اپنا تعلق منقطع کرلیا تو اسے ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت میں دے دیا “- یعنی جب حضرت زید (رض) نے حضرت زینب (رض) کو طلاق دے دی اور عدت بھی پوری ہوگئی تو ہم نے اس کا نکاح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کردیا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت زینب (رض) کے نکاح کی نسبت خصوصی طور پر اپنی طرف فرمائی۔ کلام اللہ کا یہ اندازِ بیاں حضرت زینب (رض) کے لیے یقینا ایک بہت بڑا عزاز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت زینب (رض) ان الفاظ پر فخر کرتے ہوئے دوسری ازواجِ مطہرات (رض) سے کہا کرتی تھیں کہ آپ سب لوگوں کے نکاح زمین پر ہوئے جبکہ میرا نکاح آسمانوں پر ہوا اور اللہ نے خود میرا نکاح پڑھایا۔ کلام اللہ کے ان الفاظ سے یہ صراحت بھی ہوتی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نکاح خود اپنی خواہش کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر کیا تھا۔ - لِکَیْ لَا یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا ” تاکہ مومنوں کے لیے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنا تعلق بالکل کاٹ لیں۔ “- یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس نکاح کے ذریعے عرب معاشرے سے جاہلیت کی اس رسم کا خاتمہ بھی ہوجائے اور قیامت تک کے لیے ایک قانون بھی وضع ہوجائے تاکہ آئندہ منہ بولے بیٹے کی بیوہ یا مطلقہ کے معاملے کو ” محرماتِ ابدیہ “ کے ساتھ گڈ مڈ نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ محرماتِ ابدیہ کی فہرست سورة النساء آیت ٢٣ اور ٢٤ میں دی گئی ہے۔- وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا ” اور اللہ کا فیصلہ تو پورا ہو کر ہی رہنا تھا۔ “- اس سارے معاملے میں یہی حکمت اور مصلحت پوشیدہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اس فضول رسم کا خاتمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذاتی عمل سے کرنا چاہتا تھا۔ بعض نظریات اور خیالات معاشرے میں اس قدر پختہ اور گہرے ہوچکے ہوتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی عمل یا بات لوگ آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ ٰمتبنی ّکی بیوہ یا مطلقہ کے ساتھ منہ بولے باپ کے نکاح کے بارے میں عرب معاشرے کے اندر مروّجہ خود ساختہ قانون بھی اسی زمرے میں آتا تھا۔ اس لیے اس قانون یا روایت کو خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذاتی مثال کے ذریعے سے توڑنا مناسب خیال کیا گیا۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضرت زینب (رض) سے نکاح کے بعد اس مسئلے میں کسی قسم کا ابہام یا شک باقی نہ رہا۔
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :67 یہاں سے آیت ٤۸ تک کا مضمون اس وقت نازل ہوا جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کر چکے تھے اور اس پر منافقین ‘ یہود اور مشرکین نے آپ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان عظیم بر پا کر رکھا تھا ۔ ان آیات کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات ان دشمنوں کی تفہیم کے لیے نہیں تھے جو قصداً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے اور اپنے دل کی جلن نکالنے کے لئے جھوٹ اور بہتان اور طعن و تشنیع کی مہم چلا رہے تھے ، بلکہ اصل مقصود مسلمانوں کو ان کی اس مہم کے اثرات سے بچانا اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات سے محفوظ کرنا تھا ۔ اس سے اگر اطمینان نصیب ہو سکتا تھا تو انہی لوگوں کو جو جانتے اور مانتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے ۔ ان بندگان حق کے متعلق اس وقت یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ دشمنوں کے اعتراضات کہیں ان کے دلوں میں بھی شک اور ان کے دماغوں میں بھی الجھن نہ پیدا کر دیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تمام امکانی شبہات کا ازالہ فرمایا ، اور دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ بتا یا کہ ان حالات میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :68 مراد ہیں حضرت زید ، جیسا کہ آگے بصراحت بیان فرما دیا گیا ہے ۔ ان پر اللہ تعالیٰ کا احسان کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان کیا ؟ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مختصراً یہاں ان کا قصہ بیان کر دیا جائے ۔ یہ دراصل قبیلۂ کَلْب کے ایک شخص حارِثہ بن شَراحیل کے بیٹے تھے اور ان کی ماں سُعدیٰ بنت ثَعْلَبَہ قبیلۂ طَے کی شاخ بنی مَعْن سے تھیں ۔ جب یہ آٹھ سال کے بچے تھے اس وقت ان کی ماں انہیں اپنے میکے لے گئیں ۔ وہاں بنی ْ قَیْن بن جَسْر کے لوگوں نے ان کے پڑاؤ پر حملہ کیا اور لوٹ مار کے ساتھ جن آدمیوں کو وہ پکڑ لے گئے ان میں حضرت زید بھی تھے ۔ پھر انہوں نے طائف کے قریب عکاظ کے میلے میں لے جا کر ان کو بیچ دیا ۔ خریدنے والے حضرت خَدِیجہ کے بھتیجے حکیم بن حِزام تھے ۔ انہوں نے مکہ لا کر اپنی پھوپھی صاحبہ کی خدمت میں نذر کر دیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا جب نکاح ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاں زید کو دیکھا اور ان کی عادات و اطوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر پسند آئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضرت خدیجہ سے مانگ لیا ۔ اس طرح یہ خوش قسمت لڑکا اس خیر الخلائق ہستی کی خدمت میں پہنچ گیا جسے چند سال بعد اللہ تعالیٰ نبی بنانے والا تھا ۔ اس وقت حضرت زید کی عمر ۱۵ سال تھی ۔ کچھ مدت بعد ان کے باپ اور چچا کو پتہ چلا کہ ہمارا بچہ مکہ میں ہے ۔ وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے اور عرض کیا کہ آپ جو فدیہ چاہیں ہم دینے کے لیے تیار ہیں ، آپ ہمارا بچہ ہمیں دے دیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں لڑکے کو بلاتا ہوں اور اسی کی مرضی پر چھوڑے دیتا ہوں کہ وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے یا میرے پاس رہنا پسند کرتا ہے ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے گا تو میں کوئی فدیہ نہ لوں گا اور اسے یوں ہی چھوڑ دوں گا ۔ لیکن اگر وہ میرے پاس رہنا چاہے تو میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ جو شخص میرے پاس رہنا چاہتا ہو اسے خواہ مخواہ نکال دوں ۔ انہوں نے کہا یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاف سے بھی بڑھ کر درست بات فرمائی ہے ۔ آپ بچے کو بلا کر پوچھ لیجیے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے کہا ان دونوں صاحبوں کو جانتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں ، یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اچھا ، تم ان کو بھی جانتے ہو اور مجھے بھی ۔ اب تمہیں پوری آزادی ہے کہ چاہو ان کے ساتھ چلے جاؤ اور چاہو میرے ساتھ رہو ۔ انہوں نے جواب دیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں جانا چاہتا ۔ ان کے باپ اور چچا نے کہا ، زید ، کیا تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے ، اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اس شخص کے جو اوصاف دیکھے ہیں ان کا تجربہ کر لینے کے بعد میں اب دنیا میں کسی کو بھی اس پر ترجیح نہیں دے سکتا ۔ زید کا یہ جواب سن کر ان کے باپ اور چچا بخوشی راضی ہو گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت زید کو آزاد کر دیا اور حرم میں جا کر قریش کے مجمع عام میں اعلان فرمایا کہ آپ سب لوگ گواہ رہیں ، آج سے زید میرا بیٹا ہے ، یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے ۔ اسی بنا پر لوگ ان کو زید بن محمد کہنے لگے ۔ یہ سب واقعات نبوت سے پہلے کے ہیں پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوت پر سرفراز ہوئے تو چار ہستیاں ایسی تھیں جنہوں نے ایک لمحہ شک و تردُّد کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نبوت کا دعویٰ سنتے ہی اسے تسلیم کر لیا ۔ ایک حضرت خدیجہ ، دوسرے حضرت زید ، تیسرے حضرت علی ، اور چوتھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہم ۔ اس وقت حضرت زید رضی اللہ عنہ کی عمر ۳۰ سال تھی اور ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتے ہوئے ۱۵ سال گزر چکے تھے ۔ ہجرت کے بعد ٤ ھج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے ان کا نکاح کر دیا ، اپنی طرف سے ان کا مہر ادا کیا ، اور گھر بسانے کے لیے ان کو ضروری سامان عنایت فرمایا ۔ یہی حالات ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں اشارہ فرما رہا ہے کہ جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :69 یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت زید رضی اللہ عنہ سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے ۔ اور انہوں نے بار بار شکایات پیش کرنے کے بعد آخر کار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں ان کو طلاق دینا چاہتا ہوں ۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اگرچہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مان کر ان کے نکاح میں جانا قبول کر لیا تھا ، لیکن وہ اپنے دل سے اس احساس کو کسی طرح نہ مٹا سکیں کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں ، ان کے اپنے خاندان کے پروردہ ہیں ، اور وہ عرب کے شریف ترین گھرانے کی بیٹی ہونے کے باوجود اس کم تر درجے کے آدمی سے بیاہی گئی ہیں ۔ اس احساس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں انہوں نے کبھی حضرت زید رضی اللہ عنہ کو اپنے برابر کا نہ سمجھا ، اور اسی وجہ سے دونوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی چلی گئیں ۔ ایک سال سے کچھ ہی زیادہ مدت گزری تھی کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :70 بعض لوگوں نے اس فقرے کا الٹا مطلب یہ نکال لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کے خواہشمند تھے ، اور آپ کا جی چاہتا تھا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ ان کو طلاق دے دیں ، مگر جب انہوں نے آ کر عرض کیا کہ میں بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں تو آپ نے معاذاللہ اوپری دل سے ان کو منع کیا ، اس پر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تم دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا ۔ حالانکہ اصل بات اس کے برعکس ہے ۔ اگر اس سورہ کی آیات نمبر ۱ ۔ ۲ ۔ ۳ ۔ اور ۔ ۷ کو ساتھ ملا کر یہ فقرہ پڑھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جس زمانے میں حضرت زید رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ کے درمیان تلخی بڑھتی چلی جا رہی تھی اسی زمانے میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اشارہ کر چکا تھا کہ زید رضی اللہ عنہ جب اپنی بیوی کو طلاق دیں تو ان کی مطلقہ خاتون سے آپ کو نکاح کرنا ہو گا ۔ لیکن چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ عرب کی اس سوسائٹی میں منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنا کیا معنی رکھتا ہے .........اور وہ بھی عین اس حالت میں جبکہ مٹھی بھر مسلمانوں کے سوا باقی سارا عرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پہلے ہی خار کھائے بیٹھا تھا ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شدید آزمائش میں پڑنے سے ہچکچا رہے تھے ۔ اسی بنا پر جب حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو طلاق نہ دو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ یہ شخص طلاق نہ دے تو میں اس بلا میں پڑنے سے بچ جاؤں ، اور نہ اس کے طلاق دے دینے کی صورت میں مجھے حکم کی تعمیل کرنی ہو گی اور پھر مجھ پر وہ کیچڑ اچھالی جائے گی کہ پناہ بخدا ۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اولو العزمی اور رضا بقضا کے جس بلند مرتبے پر دیکھنا چاہتا تھا اس کے لحاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات اس کو فروتر نظر آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصداً زید رضی اللہ عنہ کو طلاق سے روکا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام سے بچ جائیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنامی کا اندیشہ تھا ، حالانکہ اللہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر وہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لینا چاہتا تھا ۔ تم لوگوں سے ڈر رہے تھے ، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو کے الفاظ صاف صاف اسی مضمون کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ یہی بات اس آیت کی تشریح میں امام زین العابدین حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے چکا تھا کہ زینب رضی اللہ عنہا آپ کی بیویوں میں شامل ہونے والی ہیں ، مگر جب زید رضی اللہ عنہ نے آکر ان کی شکایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو نہ چھوڑو ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہیں پہلے خبر دے چکا تھا کہ میں تمہارا نکاح زینب رضی اللہ عنہا سے کرنے والا ہوں ، تم زید رضی اللہ عنہ سے یہ بات کہتے وقت اس بات کو چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا ( ابن جریر ۔ ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم ) علامہ آلوسی نے بھی تفسیر روح المعانی میں اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عتاب کا ترک اولیٰ پر ۔ اس حالت میں اولیٰ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے ، یا زید رضی اللہ عنہ سےفرما دیتے کہ تم جو کچھ کرنا چاہو کر سکتے ہو ، عتاب کا ماحصل یہ ہے کہ تم نے زید رضی اللہ عنہ سے یہ کیوں کہا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو ، حالانکہ میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ زینب رضی اللہ عنہا تمہاری بیویوں میں شامل ہوں گی سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :71 یعنی جب زید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور ان کی عدت پوری ہو گئی ۔ حاجت پوری کر چکا کے الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ زید رضی اللہ عنہ کی اس سے کوئی حاجت باقی نہ رہی ۔ اور یہ صورت حال محض طلاق دے دینے سے رونما نہیں ہوتی ، کیونکہ عدت کے دوران میں شوہر کو اگر کچھ دلچسپی باقی ہو تو وہ رجوع کر سکتا ہے ، اور شوہر کی یہ حاجت بھی مطلقہ بیوی سے باقی رہتی ہے کہ اس کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے کا پتہ چل جائے ۔ اس لیے مطلقہ بیوی کے ساتھ اس کے سابق شوہر کی حاجت صرف اسے وقت ختم ہو تی ہے جب عدت گزر جائے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :72 یہ الفاظ اس باب میں صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکاح خود اپنے خواہش کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر کیا تھا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :73 یہ الفاظ اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسی ضرورت اور مصلحت کی خاطر کرایا تھا جو اس تدبیر کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے پوری نہ ہو سکتی تھی ۔ عرب میں منہ بولے رشتوں کے بارے میں جو غلط رسوم رائج ہو گئی تھیں ، ان کے توڑنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ ، اللہ کا رسول خود آگے بڑھ کر ان کو توڑ ڈالے ۔ لہٰذا یہ نکاح اللہ تعالیٰ نے محض نبی کے گھر میں ایک بیوی کا اضافہ کرنے کی خاطر نہیں بلکہ ایک اہم ضرورت کی خاطر کروایا ۔
32: اِس سے مراد حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ ہیں۔ اُن پر اﷲ تعالیٰ کا احسان تو یہ تھا کہ انہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچایا، اور اسلام لانے کی توفیق دی، یہاں تک کہ یہ اُن چار خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں سے ہیں جو سب سے پہلے اسلام لائے۔ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اُن پر احسان کی تفصیل یہ ہے کہ یہ آٹھ سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ اپنی ننھیا ل میں گئے تھے، وہاں قبیلہ قین کے لوگوں نے حملہ کر کے انہیں غلام بنایا، اور عکاظ کے میلے میں لے جا کر حضرت حکیم بن حزامؓ کے ہاتھ بیچ دیا، اُنہوں نے یہ غلام اپنی پھوپی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کو دے دیا۔ اس کے بعد جب حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے حضور سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا نکاح ہوا تو حضرت خدیجہؓ نے انہیں آپ کی خدمت میں پیش کردیا، جبکہ ان کی عمر پندرہ سال تھی۔ کچھ عرصے کے بعد اُن کے والد اور چچا کو معلوم ہوا کہ ان کا بچہ مکہ مکرَّمہ میں ہے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کی کہ آپ جو معاوضہ چاہیں، ہم سے لے لیں، اور یہ بچہ ہمارے حوالے کردیں۔ آپ نے جواب دیا کہ اگر وہ بچہ آپ کے ساتھ جانا چاہے تو میں کسی معاوضے کے بغیر ہی اُسے آپ کے حوالے کردوں گا، البتہ اگر وہ نہ جانا چاہے تو میں زبردستی اُسے نہیں بھیج سکتا، وہ لوگ یہ سن کر بہت خوش ہوئے، اور حضرت زید رضی اﷲ عنہ کو بلایا گیا، اور آپ نے اُنہیں اختیار دیا کہ اگر وہ اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں، لیکن حضرت زیدؓ نے یہ حیرت انگیز جواب دیا کہ میں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ اُن کے والد اور چچا بڑے حیران ہوئے کہ اُن کا بیٹا آزادی پر غلامی کو اور اپنے باپ اور چچا پر ایک بالکل غیر شخص کو ترجیح دے رہا ہے، لیکن حضرت زید رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے اس آقا کا جو طرز عمل دیکھا ہے، اس کے بعد دُنیا کے کسی شخص کو میں ان پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ (واضح رہے کہ یہ واقعہ اُس وقت کا ہے جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ابھی تک نبوّت عطا نہیں ہوئی تھی) اِس پر اُن کے والد اور چچا بھی مطمئن ہو کر چلے گئے۔ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت زیدؓ کو فورا آزاد کردیا، اور حرمِ مکہ میں جا کر قریش کے لوگوں کے سامنے اعلان فرمادیا کہ آج سے میں نے انہیں اپنا بیٹا بنا لیا ہے۔ اسی بنا پر لوگ انہیں زید بن محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کہا کرتے تھے۔ 33: حضرت زینبؓ سے حضرت زیدؓ کا نکاح ہو تو گیا تھا، لیکن حضرت زیدؓ کو یہ شکایت رہتی تھی کہ اُن کی اہلیہ کے دِل سے اپنی خاندانی فوقیت کا اِحساس مِٹا نہیں، اور شاید اِسی کی وجہ سے بعض اوقات وہ حضرت زیدؓ کے ساتھ تیز زبانی کا بھی مظاہرہ کرتی ہیں۔ حضرت زیدؓ کی یہ شکایت اِتنی بڑھی کہ اُنہوں نے حضرت زینبؓ کو طلاق دینے کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مشورہ کیا۔ آپ نے اُن سے فرمایا کہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دو، بلکہ اپنے پاس رکھو، اور اللہ سے ڈرو، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کو طلاق پسند نہیں ہے، اور اﷲ تعالیٰ نے بیوی کے جو حقوق رکھے ہیں، اُنہیں ادا کرو۔ 34: حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے حضرت زیدؓ کے مشورہ لینے سے پہلے ہی یہ بتا دیا تھا کہ حضرت زیدؓ کسی وقت حضرت زینبؓ کو طلاق دے دیں گے، اور اِس کے بعد اﷲ تعالیٰ کے حکم کے تحت آپ کو ان سے نکاح کرنا ہوگا، تاکہ عرب میں اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنے کو جو معیوب سمجھا جاتا ہے، اُس رسم کا عملی طور پر خاتمہ ہو، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے یہ بڑی آزمائش تھی، اوّل تو حضرت زیدؓ کا یہ نکاح آپ نے بڑے اصرار سے کرایا تھا، دوسرے ان کے طلاق دینے کے بعد اُن سے آپ کا نکاح ہونے سے مخالفین کو باتیں بنانے کا موقع ملے گا کہ انہوں نے اپنی منہ بولی بہو سے نکاح کرلیا۔ لہٰذا جب حضرت زیدؓ نے آپ سے طلاق دینے کے بارے میں مشورہ کیا تو آپ نے یہ سوچا ہوگا کہ جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حتمی حکم آجائے گا، اُس وقت تو سرِ تسلیم خم کرنا ہی ہوگا، لیکن جب تک حتمی حکم نہیں آتا، اُس وقت تک مجھے حضرت زیدؓ کو وہی مشورہ دینا چاہئے جو میاں بیوی کے اختلاف کے موقع پر عام طور سے دیا جاتا ہے کہ طلاق سے حتی الامکان بچو، اور اﷲ تعالیٰ سے ڈر کر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو۔ چنانچہ آپ نے یہی مشورہ دیا، اور یہ بات ظاہر نہیں فرمائی کہ اﷲ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ کسی وقت حضرت زیدؓ اپنی اہلیہ کو طلاق دیں گے، اور پھر وہ آپ کے نکاح میں آئیں گی، اسی بات کو اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں یوں بیان فرمایا ہے کہ :’’ اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھول دینے والا تھا‘‘، صحیح روایات کی روشنی میں اس آیت کی یہی تفسیر صحیح ہے۔ بعض دشمنان اسلام نے کچھ واہی تباہی روایتوں کی بنا پر اِس کا جو مطلب نکالا ہے، وہ سراسر غلط ہے، اور جو انتہائی کمزور روایتیں اِس سلسلے میں پیش کی گئی ہیں، وہ قطعی طور پر غیر معقول اور ناقابلِ توجہ ہیں۔