Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تورات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات ۔ عطابن یسار فرماتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں تورات میں کیا ہیں ؟ فرمایا جو صفتیں آپ کی قرآن میں ہیں انہی میں بعض اوصاف آپ کے تورات میں بھی ہیں ۔ تورات میں ہے اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور خوشی سنانے والا ، ڈرانے والا امتیوں کو بچانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ تو میرا بندہ اور رسول ہے ۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو بدگو اور فحش کلام نہیں ہے ، نہ بازاروں میں شور مچانے والا ۔ وہ برائی کے بدلے برائی نہیں کرتا بلکہ درگذر کرتا ہے ۔ اور معاف فرماتا ہے ۔ اسے اللہ تعالیٰ قبض نہیں کرے گا ۔ جب تک لوگوں کو ٹیڑھا کر دئیے ہوئے دین کو اس کی ذات سے بالکل سیدھا نہ کر دے اور وہ لا الہ الا اللہ کے قائل نہ ہو جائیں ۔ جس سے اندھی آنکھیں روشن ہو جائیں ۔ اور بہرے کان سننے والے بن جائیں ۔ اور پردوں والے دلوں کے زنگ چھوٹ جائیں ( بخاری ) ابن ابی حاتم میں ہے حضرت وہیب بن منبہ فرماتے ہیں بنی اسرائیل کے ایک نبی حضرت شعیا علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اپنی قوم بنی اسرائیل میں کھڑے ہو جاؤ ، میں تمھاری زبان سے اپنی باتیں کہلواؤں گا ۔ میں امیوں میں سے ایک نبی امی کو بھیجنے والا ہوں جو نہ بدخلق ہے نہ بد گو ۔ نہ بازاروں میں شوروغل کرنے والا ۔ اس قدر سکون و امن کا حامل ہے کہ اگر چراغ کے پاس سے بھی گذر جائے تو وہ نہ بجھے اور اگر بانسوں پر بھی چلے تو پیر کی چاپ نہ معلوم ہو ۔ میں اسے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجوں گا ۔ جو حق گو ہوگا اور میں اس کی وجہ سے اندھی آنکھوں کو کھول دوں گا اور بہرے کانوں کو سننے والا کروں گا اور زنگ آلود دلوں کو صاف کر دوں گا ۔ ہر بھلائی کی طرف اس کی ضمیر ہوگی ۔ حکمت اس کی گویائی ہوگی ۔ صدق و وفا اس کی عادت ہو گی ۔ عفو درگذر اس کا خلق ہو گا ۔ حق اس کی شریعت ہو گی ۔ عدل اس کی سیرت ہو گی ۔ ہدایت اس کی امام ہوگی اسلام اس کا دین ہوگا ۔ احمد اس کا نام ہو گا ۔ گمراہوں کو میں اس کی وجہ سے ہدایت دوں گا ۔ جاہلوں کو اس کی بدولت علماء بنادوں گا ۔ تنزل والوں کو ترقی پر پہنچا دوں گا ۔ انجانوں کو مشہور و معروف کر دوں گا ۔ مختلف اور متضاد دلوں کو متفق اور متحد کر دوں گا ۔ جداگانہ خواہشوں کو یکسو کر دوں گا ۔ دنیا کو اس کی وجہ سے ہلاکت سے بچا لوں گا ۔ تمام امتوں سے اس کی امت کو اعلیٰ اور افضل بنادوں گا ۔ وہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے دنیا میں پیدا کئے جائیں گے ۔ ہر ایک کو نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے ۔ وہ موحد ہوں گے ، مومن ہوں گے ، اخلاص والے ہوں گے ، رسولوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے سب کو سچ ماننے والے ہوں گے ۔ وہ اپنی مسجدوں مجلسوں اور بستروں پر چلتے پھرتے بیٹھے اٹھتے میری تسبیح حمد و ثنا بزرگی اور بڑائی بیان کرتے رہیں گے ۔ کھڑے اور بیٹھے نمازیں ادا کرتے رہیں گے ۔ دشمنان اللہ سے صفیں باندھ کر حملہ کر کے جہاد کریں گے ۔ ان میں سے ہزارہا لوگ میری رضامندی کی جستجو میں اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوں گے ۔ منہ ہاتھ وضو میں دھویا کریں گے ۔ تہمد آدھی پنڈلی تک باندھیں گے ۔ میری راہ میں قربانیاں دیں گے ۔ میری کتاب ان کے سینوں میں ہوگی ۔ راتوں کو عابد اور دنوں کو مجاہد ہوں گے ۔ میں اس نبی کی اہل بیت اور اولاد میں سبقت کرنے والے صدیق شہید اور صالح لوگ پیدا کردوں گا ۔ اس کی امت اس کے بعد دنیا کو حق کی ہدایت کرے گی ، اور حق کے ساتھ عدل و انصاف کرے گی ۔ ان کی امداد کرنے والوں کو میں عزت والا کروں گا ۔ اور ان کو بلانے والوں کی مدد کروں گا ۔ ان کے مخالفین اور ان کے باغی اور ان کے بدخواہوں پر میں برے دن لاؤں گا ۔ میں انہیں ان کے نبی کے وارث کردوں گا ۔ جو اپنے زب کی طرف لوگوں کو دعوت دیں گے ۔ نیکیوں کی باتیں بتائیں گے ، برائیوں سے روکیں گے ، نماز ادا کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، وعدے پورے کریں گے ، اس خیر کو میں ان کے ہاتھوں پوری کروں گا جو ان سے شروع ہوئی تھی ۔ یہ ہے میرا فضل جسے چاہوں دوں ۔ اور میں بہت بڑے فضل و کرم کا مالک ہوں ، ابن ابی خاتم میں ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیج رہے تھے جب یہ آیت اتری تو آپ نے انہیں فرمایا جاؤ خوشخبریاں سنانا نفرت نہ دلانا ، آسانی کرنا سختی نہ کرنا ، دیکھو مجھ پر یہ آیت اتری ہے ۔ طبرانی میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا مجھ پر یہ اترا ہے کہ اے نبی ہم نے تجھے تیری امت پر گواہ بنا کر جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر جہنم سے ڈرانے والا بنا کر اور اللہ کے حکم سے اس کی توحید کی شہادت کی طرف لوگوں کو بلانے والا بنا کر اور روشن چراغ قرآن کے ساتھ بنا کر بھیجا پس آپ اللہ کی وحدانیت پر کہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں گواہ ہیں ۔ اور قیامت کے دن آپ لوگوں کے اعمال پر گواہ ہوں گے ۔ جیسے ارشاد ہے ( وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا 41؀ڲ ) 4- النسآء:41 ) یعنی ہم تجھے ان پر گواہ بنا کر لائیں گے ۔ اور آیت میں ہے کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور تم پر یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہیں ۔ آپ مومنوں کو بہترین اجر کی بشارت سنانے والے اور کافروں کو بدترین عذاب کاڈر سنانے والے ہیں ۔ اور چونکہ اللہ کا حکم ہے اس کی بجا آوری کے ماتحت آپ مخلوق کو خالق کی عبادت کی طرف بلانے والے ہیں ۔ آپ کی سچائی اس طرح ظاہر ہے جیسے سورج کی روشنی ۔ ہاں کوئی ضدی اڑ جائے تو اور بات ہے ، اے نبی کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو نہ ان کی طرف کان لگاؤ اور ان سے درگذر کرو ۔ یہ جو ایذائیں پہنچاتے ہیں انہیں خیال میں بھی نہ لاؤ اور اللہ پر پورا بھروسہ کرو وہ کافی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 بعض لوگ شاہد کے معنی حاضر و ناظر کے کرتے ہیں جو قرآن کے اصل لفظ سے معنوی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کی گواہی دیں گے، ان سے بھی جو آپ پر ایمان لائے اور ان کی بھی جنہوں نے تکذیب کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کے اعضائے وضو سے پہچان لیں گے جو چمکتے ہونگے، اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیگر انبیاء (علیہم السلام) کی گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور یہ گواہی اللہ کے دیئے ہوئے یقینی علم کی بنیاد پر ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء (علیہم السلام) کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے ہیں، یہ عقیدہ تو احکام قرآنی کے خلاف ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٧٢] نبی کی شہادت کی تین صورتیں :۔ وہ گواہی یہ ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک اور معبود برحق صرف ایک اللہ ہے دوسرا کوئی اس الوہیت اور حاکمیت میں شریک نہیں۔ اور نبی کی یہ گواہی تین طرح سے ہوتی ہے ایک یہ کہ نظام کائنات کے مطالعہ سے وہ خود اس نتیجہ پر پہنچتا ہے اور بعض انبیاء کو ملکوت السمٰوات والارض دکھائی اور اس کی سیر بھی کرائی جاتی ہے تاکہ جس شہادت کے وہ داعی بننے والے ہیں اس کا انھیں عین الیقین حاصل ہو۔ دوسری گواہی ان کی دعوت پر سب سے پہلے ان کا اپنا عمل ہوتا ہے۔ یعنی ان کی عملی زندگی اس بات پر گواہ ہوتی ہے کہ نبی جو شہادت دے رہا ہے وہ درست اور برحق ہے۔ اور تیسری شہادت وہ قیامت کے دن اپنی امت کے حق میں اور منکروں کے خلاف دیں گے۔- [ ٧٣] یعنی ایمان لانے والوں کو یہ بشارت دیتا ہے کہ ان سے مصائب کے بادل چھٹ جانے والے ہیں اور عنقریب اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنی فتح و نصرت سے سرفراز فرمائے گا اور مرنے کے بعد انھیں جنت اور اس کی نعمتیں میسر آنے والی ہیں۔ اسی طرح وہ دعوت حق کے مخالفین کو دنیا میں بھی ان کے برے انجام اور ذلت و خواری سے ڈراتا ہے اور آخرت میں جہنم کے عذاب سے بھی۔ اور یہ بشارت اور وعید وہ اپنی طرف سے نہیں دے رہا بلکہ وہ ہماری طرف سے اس بات پر مامور ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پانچ صفات بیان فرمائیں، جن سے وہ عظیم الشان مراتب معلوم ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فائز فرمایا اور ان ذمہ داریوں پر روشنی پڑتی ہے جو رسول کی حیثیت سے آپ پر عائد ہوتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ کو اتنے عالی مراتب عطا فرمائے ہیں کہ آپ کے مخالفین جتنے بہتان باندھ لیں اور جتنی زبان درازی کرلیں، آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ اس لیے آپ اپنا فرض منصبی ادا کرتے رہیں اور ان کی باتوں کی پروا مت کریں۔ ان میں سب سے پہلی صفت ” شَاهِدًا “ ہے۔ یہ شہادت دو طرح سے ہے، ایک دنیا میں اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور سچا دین صرف اسلام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بالْقِسْطِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ) [ آل عمران : ١٨، ١٩ ] ” اللہ نے گواہی دی کہ بیشک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ بیشک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوری دنیا کے سامنے اپنے قول اور عمل کے ساتھ اس بات کی شہادت دی۔ دوسری آخرت کو شہادت، یعنی قیامت کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے تمام پیغام امت کو پہنچا دیے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۢ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا) [ النساء : ٤١ ] ” پھر کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور تجھے ان لوگوں پر گواہ لائیں گے۔ “ اور فرمایا : (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا) [ البقرۃ : ١٤٣ ] ” اور اسی طرح ہم نے تمہیں سب سے بہتر امت بنایا، تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر شہادت دینے والا بنے۔ “ - 3 بعض حضرات نے ” شاھداً “ کے لفظ کو یہ معنی پہنانے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے تمام اعمال دیکھ رہے ہیں اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ ورنہ دیکھے بغیر شہادت کیسے دے سکتے ہیں ؟ مگر یہ بات غلط ہے، کیونکہ انبیاء ( علیہ السلام) کا کام بندوں کے اعمال پر شہادت دینا نہیں کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں، بلکہ ان کا کام اس بات کی گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا : ( يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ۭ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ) [ المائدۃ : ١٠٩ ] ” جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا، پھر کہے گا تمہیں کیا جواب دیا گیا ؟ وہ کہیں گے ہمیں کچھ علم نہیں، بیشک تو ہی چھپی باتوں کو بہت خوب جاننے والا ہے۔ “ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بنا لینا ؟ تو وہ عرض کریں گے : (وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ۭواَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ ) [ المائدۃ : ١١٧ ] ” اور میں ان پر گواہ تھا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔ “- یہ آیات اس بات کی صریح دلیل ہیں کہ انبیاء لوگوں کے اعمال پر گواہ نہیں ہوں گے، پھر وہ کس چیز کے گواہ ہوں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے خود اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : (كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا) [ البقرۃ : ١٤٣ ] ” اور اسی طرح ہم نے تمہیں سب سے بہتر امت بنایا، تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر شہادت دینے والا بنے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت پر شہادت دیں گے اور آپ کی امت لوگوں پر شہادت دے گی۔ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو شہادت دینے کے لیے پوری امت کا حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے اور اگر امت کے لوگ صرف اس شہادت کے لیے بلائے جائیں گے کہ خالق کا پیغام اس کی مخلوق تک پہنچ گیا تو یقیناً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسی بات کی شہادت دیں گے۔ مزید دلائل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٤٣) اور سورة مائدہ (١١٧) کی تفسیر۔- وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا : یہ دوسری اور تیسری صفت ہے، یعنی آپ ایمان والوں کو یہ بشارت دینے والے ہیں کہ عنقریب ان سے مصائب کے بادل چھٹ جانے والے ہیں اور جلد ہی اللہ تعالیٰ انھیں اپنی فتح و نصرت سے سرفراز فرمائے گا اور مرنے کے بعد انھیں جنت کی ابدی نعمتیں اور اللہ کا دیدار میسر ہونے والا ہے۔ اسی طرح آپ حق کا انکار کرنے والوں کو دنیا میں ان کے برے انجام اور ذلت و خواری سے ڈرانے والے ہیں اور آخرت میں جہنم کے دائمی عذاب سے بھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاص صفات :- (آیت) یایہا النبی انا ارسلنک شاہداً ومبشراً اونذیراً ، وداعیاً الیٰ اللہ باذنہ وسراجاً منیراً ، یہ پھر عود ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاص صفات کمال اور مناقب کی طرف، اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پانچ صفات کا ذکر فرمایا۔ شاہد، مبشر، نذیر، داعی الی اللہ، سراج، منیر، شاہد سے مراد یہ ہے کہ آپ قیامت کے روز امت کے لئے شہادت دیں گے جیسا کہ صحیح بخاری، نسائی، ترمذی وغیرہ میں حضرت ابوسعید خدری سے ایک طویل حدیث روایت ہے جس کے بعض جملے یہ ہیں کہ قیامت کے روز نوح (علیہ السلام) پیش ہوں گے تو ان سے سوال کیا جائے گا کہ کیا آپ نے ہمارا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا تھا وہ عرض کریں گے کہ میں نے پہنچا دیا، پھر ان کی امت پیش ہوگی، وہ اس سے انکار کرے گی کہ ان کو اللہ کا کوئی پیغام نہیں پہنچا ہے۔ اس وقت حضرت نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ آپ جو پیغام حق پہنچانے کا دعویٰ کرتے ہیں اس پر کوئی آپ کا شاہد بھی ہے ؟ وہ عرض کریں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت گواہ ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ گواہی میں امت محمدیہ کو پیش کریں گے، یہ امت ان کے حق میں گواہی دے گی، تو امت نوح (علیہ السلام) ان پر یہ جرح کرے گی کہ یہ ہمارے معاملہ میں کیسے گواہی دے سکتے ہیں، یہ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، ہمارے زمانے سے بہت طویل زمانے کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ اس جرح کا جواب امت محمدیہ سے پوچھا جائے گا، وہ یہ جواب دے گی کہ بیشک ہم اس وقت موجود نہیں تھے، مگر ہم نے اس کی خبر اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی، جس پر ہمارا ایمان و اعتقاد ہے۔ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی امت کے اس قول کی تصدیق کے لئے شہادت لی جائے گی۔- خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی شہادت کے ذریعہ اپنی امت کی تصدیق و توثیق فرمائیں گے کہ بیشک میں نے ان کو یہ اطلاع دی تھی۔- اور امت پر شاہد ہونے کا ایک مفہوم عام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے سب افراد کے اچھے برے اعمال کی شہادت دیں گے۔ اور یہ شہادت اس بنا پر ہوگی کہ امت کے اعمال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہر روز صبح و شام اور بعض روایات میں ہفتہ میں ایک روز پیش ہوتے ہیں، اور آپ امت کے ایک ایک فرد کو اس کے اعمال کے ذریعہ پہچانتے ہیں۔ اس لئے قیامت کے روز آپ امت کے شاہد بنائے جائیں گے۔ (رواہ ابن المبارک عن سعید بن المسیب، مظہری)- اور مبشر کے معنی بشارت دینے والا، مراد یہ ہے کہ آپ اپنی امت کے نیک با شرع لوگوں کو جنت کی خوش خبری سنانے والے ہیں۔ اور نذیر کے معنی ڈرانے والا، مراد یہ ہے کہ آپ امت کے لوگوں کو در صورت خلاف ورزی و نافرمانی کے عذاب سے ڈرانے والے بھی ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۝ ٤٥ۙ- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر :- مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه .- شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٥۔ ٤٦) اے نبی اکرم ہم نے آپ کو اس شان کے ساتھ بھیجا ہے کہ آپ اپنی امت پر تبلیغ رسالت کے گواہ ہوں گے اور آپ مومنین کو جنت کی خوشخبری دینے والے ہیں اور کافروں کو دوزخ سے ڈرانے والے ہیں۔- اور اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی اطاعت کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے ہیں اور آپ ایک روشن چراغ کے مانند ہیں کہ آپ کی ہر حالت پیروی کے قابل ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقینا ہم نے بھیجا ہے آپ کو گواہ بنا کر اور بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا۔ “- اس آیت کے الفاظ نبوت اور رسالت کے درمیان ربط وتعلق کو بھی واضح کر رہے ہیں۔ نبوت اور رسالت کے تعلق یا فرق کو کسی شخص کے کسی محکمے کے لیے منتخب ہونے اور پھر اس محکمے کے اندر کسی مخصوص منصب پر اس کے ” تقرر “ کی مثال سے سمجھنا چاہیے۔ مثلاً جو لوگ مقابلے کے امتحان میں کامیاب قرار پاتے ہیں وہ سی ایس پی کیڈر ( ) کے لیے منتخب ہوجاتے ہیں۔ لیکن محض اس کیڈر میں منتخب ہوجانے سے ان میں سے کسی کو نہ تو کوئی اختیار ملتا ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن جب ان میں سے کسی کا کسی منصب یا عہدے پر تقرر کردیا جاتا ہے ‘ مثلاً کسی جگہ ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے تعینات کردیا جاتا ہے ‘ تو اس منصب کے اختیارات بھی اسے حاصل ہوجاتے ہیں اور اس سے متعلقہ ذمہ داریاں بھی اس کے کندھوں پر آجاتی ہیں۔ اس مثال کے حوالے سے یوں سمجھئے کہ نبوت ایک ” کیڈر “ ہے ‘ جبکہ رسالت ایک خصوصی ” تقرر “۔ یعنی نسل ِانسانی میں سے جو لوگ نبوت کے لیے منتخب ہوئے وہ سب انبیاء قرار پائے۔ لیکن جب ان میں سے کسی نبی کو کسی خاص قوم کی طرف بھیجا گیا تو انہیں رسالت مل گئی اور اس ” تقرر “ کے بعد وہ رسول بن گئے۔ - اسی اصول کے تحت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ظہور پہلی وحی کے ساتھ ہوا ‘ جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا آغاز اس وقت ہوا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باقاعدہ تبلیغ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ پہلی وحی ان آیات پر مشتمل تھی : اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ۔ ” پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پید ا کیا۔ اس نے پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے۔ پڑھئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب بہت کریم ہے۔ وہ ذات جس نے (علم) سکھایا قلم کے ذریعے۔ اس نے سکھایا انسان کو وہ کچھ جو وہ نہیں جانتا تھا۔ “ - ان پانچ آیات کے اندر نہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ کا کوئی حکم دیا گیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی اور ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس لیے بجا طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ اس وحی کے ذریعے صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ظہور ہوا تھا ‘ جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا آغاز اس وحی سے ہوا : یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ۔ (المدثر) ” اے چادر میں لپٹنے والے اٹھئے اور خبردار کیجیے ‘ اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے “۔ ان آیات میں گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں تک پیغام پہنچانے کا واضح حکم دے کر باقاعدہ ” رسالت “ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ چناچہ زیر مطالعہ آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” نبی “ کی حیثیت سے مخاطب کر کے منصب ِرسالت عطا کرنے کے ذکر (یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ ) سے جہاں نبوت اور رسالت کا فرق واضح ہوجاتا ہے وہاں اس نکتے کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے کہ پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا ہوئی اور بعد میں رسالت۔ - آیت میں رسالت کے حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جن تین ذمہ داریوں (شہادت علی الناس ‘ تبشیر اور انذار) کا ذکر کیا گیا ہے ان کی وضاحت قرآن کی بہت سی دوسری آیات میں بھی ملتی ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت ١٤٣ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ” شہادت “ کی ذمہ داری کے حوالے سے یوں فرمایا گیا : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًاط ” اور (اے مسلمانو ) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت ِوسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو “۔ سورة الحج کی آخری آیت میں بھی یہ مضمون ان ہی الفاظ میں آیا ہے ‘ البتہ الفاظ کی ترتیب ذرا مختلف ہے : لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ ” تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ “ اسی طرح تبشیر اور انذار کے حوالے سے بھی قرآن میں بہت سی آیات آئی ہیں ‘ صیغہ واحد میں بھی اور جمع کے صیغہ میں بھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :81 مسلمانوں کو نصیحت کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو خطاب کر کے چند کلمات تسکین ارشاد فرماتا ہے ۔ مقصود کلام یہ ہے کہ آپ کو ہم نے یہ کچھ مراتب عالیہ بخشے ہیں ، آپ کی شخصیت اس سے بہت بلند ہے کہ یہ مخالفین اپنے بہتان و افترا کے طوفان اٹھا کر آپ کا کچھ بگاڑ سکیں ۔ لہٰذا آپ نہ ان کی شرارتوں سے رنجیدہ ہوں اور نہ ان کے پروپیگینڈے کو پر کاہ کے برابر بھی کوئی وقعت دیں ۔ اپنے فرائض منصبی ادا کیے جائیے اور انہیں جو کچھ ان کا جی چاہے بکنے دیجیے ۔ ان کے ساتھ ضمناً تمام خلق کو ، جس میں مومن و کافر سب شامل ہیں ، یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا سابقہ کسی معمولی انسان سے نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی شخصیت سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بلند ترین مقام پر سرفراز فرمایا ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :82 نبی کو گواہ بنانے کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے جس میں تین قسم کی شہادتیں شامل ہیں ۔ ایک قولی شہادت ، یعنی یہ کہ اللہ کا دین جن حقائق اور اصولوں پر مبنی ہے ، نبی ان کی صداقت کا گواہ بن کر کھڑا ہو اور دنیا سے صاف صاف کہہ دے کہ وہی حق ہیں اور ان کے خلاف جو کچھ ہے باطل ہے ۔ خدا کی ہستی اور اس کی توحید ، ملائکہ کا سجود ، وحی کا نزول ، حیات بعد الموت کا وقوع اور جنت و دوزخ کا ظہور خواہ دنیا کو کیسا ہی عجیب معلوم ہو اور دنیا ان باتوں کے پیش کرنے والے کا مذاق اڑائے یا اسے دیوانہ کہے ، مگر نبی کسی کی پروا کیے بغیر اٹھے اور ہانک پکار کر کہہ دے کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے اور گمراہ ہیں وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے ۔ اسی طرح اخلاق اور تہذیب اور تمدن کے جو تصورات اقدار ، اصول اور ضابطے خدا نے اس پر منکشف کیے ہیں ، انہیں اگر ساری دنیا غلط کہتی ہو اور ان کے خلاف چل رہی ہو تب بھی نبی کا کام یہ ہے کہ انہی کو علی الاعلان پیش کرے اور ان تمام خیالات اور طریقوں کو غلط قرار دے جو ان کے خلاف دنیا میں رائج ہوں ۔ اسی طرح جو کچھ خدا کی شریعت میں حلال ہے نبی اس کو حلال ہی کہے خواہ ساری دنیا اسے حرام سمجھتی ہو ، اور جو کچھ خدا کی شریعت میں حرام ہے نبی اس کو حرام ہی کہے خواہ ساری دنیا اسے حلال و طیب قرار دے رہی ہو ۔ دوسرے عملی شہادت ، یعنی یہ کہ نبی اپنی پوری زندگی میں اس مسلک کا عملاً مظاہرہ کرے جسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے وہ اٹھا ہے ۔ جس چیز کو وہ برائی کہتا ہے اس کے ہر شائبے سے اس کی زندگی پاک ہو ۔ جس چیز کو وہ بھلائی کہتا ہے ، اس کی اپنی سیرت میں وہ پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو ۔ جس چیز کو وہ فرض کہتا ہے اسے ادا کرنے میں وہ سب سے بڑھ کر ہو ۔ جس چیز کو وہ گناہ کہتا ہے اس سے بچنے میں کوئی اس کی برابری نہ کر سکے ۔ جس قانون حیات کو وہ خدا کا قانون کہتا ہے اسے نافذ کرنے میں وہ کوئی کسر نہ اٹھا رکھے ۔ اس کا اپنا اخلاق و کردار اس بات پر گواہ ہو کہ وہ اپنی دعوت میں کس قدر سچا اور کتنا مخلص ہے ۔ اور اس کی ذات اس کی تعلیم کا ایسا مجسم نمونہ ہو جسے دیکھ کر ہر شخص معلوم کر لے کہ جس دین کی طرف وہ دنیا کو بلا رہا ہے وہ کس معیار کا انسان بنانا چاہتا ہے ، کیا کردار اس میں پیدا کرنا چاہتا ہے ، اور کیا نظام زندگی اس سے برپا کرانا چاہتا ہے ۔ تیسرے اخروی شہادت ، یعنی آخرت میں جب اللہ کی عدالت قائم ہو اس وقت نبی اس امر کی شہادت دے کہ جو پیغام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ اس نے بےکم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا اور ان کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق واضح کر دینے میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ اسی شہادت پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ماننے والے کس جزا کے ، اور نہ ماننے والے کس سزا کے مستحق ہیں ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہادت کے مقام پر کھڑا کر کے اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی اور وہ کیسی عظیم شخصیت ہونی چاہیے جو اس مقام بلند پر کھڑی ہو سکے ۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دین حق کی قولی اور عملی شہادت پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے ، تبھی تو آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ شہادت دے سکیں گے کہ میں نے لوگوں پر حق پوری طرح واضح کر دیا تھا ، اور تبھی اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہو گی ۔ ورنہ اگر معاذاللہ آپ ہی سے یہاں شہادت ادا کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو نہ آپ آخرت میں ان پر گواہ ہو سکتے ہیں اور نہ منکرین کے خلاف مقدمہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ بعض لوگوں نے اس شہادت کو یہ معنی پہنانے کی کو شش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخرت میں لوگوں کے اعمال پر شہادت دیں گے ، اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں ، ورنہ بے دیکھے شہادت کیسے دے سکیں گے ۔ لیکن قرآن مجید کی رو سے یہ تاویل قطعاً غلط ہے ۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کے لوگوں کے اعمال پر شہادت قائم کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا ہی انتظام فرمایا ہے ۔ اس غرض کے لیے اس کے فرشتے ہر شخص کا نامۂ اعمال تیار کر رہے ہیں ( ملاحظہ ہو ق ٓ ، آیات ۱۷ ۔ ۱۸اور الکہف ۔ آیت ۱٤۹ ) اور اس کے لیے وہ لوگوں کے اپنے اعضاء سے بھی گواہی لے لے گا ( یٰسٓ٦۵ ۔ حم السجدہ ۲۰ ۔ ۲۱ ) رہے انبیاء علیم السلام ، تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا گیا تھا ۔ قرآن صاف فرماتا ہے : یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ۔ ( المائدہ ۔ ۱۰۹ ) جس روز اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا ، کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا ، تو وہ کہیں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں ، تمام غیب کی باتوں کو جاننے والے تو آپ ہی ہیں ۔ اور اسی سلسلے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے عیسائیوں کی گمراہی کے متعلق سوال ہو گا تو وہ عرض کریں گے : وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْداً مَّادُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ ۔ ( المائدہ ۔ ۱۱۷ ) میں جب تک ان کے درمیان تھا اسی وقت تک ان پر گواہ تھا ۔ جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان پر نگراں تھے ۔ یہ آیات اس باب میں بالکل صریح ہیں کہ انبیا علیہم السلام اعمال خلق کے گواہ نہیں ہوں گے ۔ پھر گواہ کس چیز کے ہو نگے ؟ اس کا جواب قرآن اتنی ہی صراحت کے ساتھ یہ دیتا ہے : وَکذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّتہً وَّسَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلیَ النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً ۔ ( البقرہ ۔ ۱٤۳ ) اور اے مسلمانو اسی طرح ہم نے تم کو ایک امت وَسَط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں ۔ وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْداً عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِھِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَھِیْداً عَلیٰ ھٰٓؤُلَآءِ ۔ ( النحل ۔ ۸۹ ) اور جس روز ہم ہر امت میں انہی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو ان پر گواہی دے گا اور ( اے محمد ) تمہیں ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اپنی نوعیت میں اس شہادت سے مختلف نہ ہو گی جسے ادا کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اور ہر امت پر گواہی دینے والے شہداء کو بلایا جائے گا ۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا بھی حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے ۔ اور اگر یہ گواہ صرف اس امر کی شہادت دینے کے لیے بلائے جائیں گے کہ خلق تک اس کے خالق کا پیغام پہنچ گیا تھا تو لامحالہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی غرض کے لیے پیش ہوں گے ۔ اسی مضمون کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن کو بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابن ماجہ امام احمد وغیرہم نے عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس ، ابو الدرداء ، انس بن مالک اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے ، جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں ، مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر عرض کریں گے کہ خدایا ، یہ تو میرے صحابی ہیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کرتوت کیے ہیں ۔ یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ اور اس سے یہ بات صریحاً ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ایک ایک شخص اور اس کی ایک ایک حرکت کے شاہد قطعاً نہیں ہیں ۔ رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کی امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ، تو وہ کسی طرح بھی اس مضمون سے متعارض نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے حالات سے باخبر رکھتا ہے ۔ اس کے یہ معنی کب ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص کے اعمال کا عینی مشاہدہ فرما رہے ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :83 یہاں اس فرق کو ملحوظ رکھیے کہ کسی شخص کا بطور خود ایمان و عمل صالح پر اچھے انجام کی بشارت دینا اور کفر وبد عملی پر برے انجام سے ڈرانا اور بات ہے اور کسی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبشر و نذیر بنا کر بھیجا جانا بالکل ہی ایک دوسری بات ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر مامور ہو وہ تو اپنی بشارت اور اپنے انذار کے پیچھے لازماً ایک اقتدار رکھتا ہے جس کی بنا پر اس کی بشارتوں اور اس کی تنبیہوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے ۔ اس کا کسی کام پر بشارت دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس احکم الحاکمین کی طرف سے وہ بھیجا گیا ہے وہ اس کام کے پسندیدہ اور مستحق اجر ہونے کا اعلان کر رہا ہے ، لہٰذا وہ فرض یا واجب یا مستحب ہے اور اس کا کرنے و الا ضرور اجر پائے گا ۔ اور اس کا کسی کام کے برے انجام کی خبر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ قادر مطلق اس کام سے منع کر رہا ہے لہٰذا وہ ضرور گناہ اور حرام ہے اور یقیناً اس کا مرتکب سزا پائے گا ۔ یہ حیثیت کسی غیر مامور کی بشارت اور تنبیہ کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani