Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 جس طرح چراغ سے اندھیرے دور ہوجاتے ہیں، اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے کفر و شرک کی تاریکیاں دور ہوجائیں۔ علاوہ ازیں اس چراغ سے کسب ضیا کر کے جو کمال وسعادت حاصل کرنا چاہے، کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ چراغ قیامت تک روشن رہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٧٤] اس مادی دنیا یا کائنات میں اللہ تعالیٰ نے سورج کو سراج (چراغ) کا نام دیا ( سورة نوح : ١٦) جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ چاند اور ستارے بالواسطہ اسی سورج سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور روحانی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو سراج منیر (چمکتا ہوا چراغ) کا لقب عطا فرمایا۔ گویا نبوت کے آفتاب آپ ہیں آپ کے طلوع ہونے کے بعد اب کسی دوسری روشنی کی ضرورت نہیں رہی۔ اب ہر انسان کو اپنے ہر شعبہ زندگی کے لئے ہدایت اسی آفتاب نبوت و ہدایت سے حاصل کرنا ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۙ وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ : یعنی آپ اللہ کی توحید اور اس کے احکام کی اطاعت کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والے ہیں اور یہ دعوت اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے آپ کو اس کام پر مامور کیا گیا ہے۔ اب جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ آپ کی نہیں بلکہ آپ کو مامور کرنے والے کی مخالفت کرتا ہے۔- وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا : قرآن مجید میں دو جگہ سورج کو ” سراج “ کہا گیا ہے، جیسا کہ آسمانوں کو اوپر تلے پیدا کرنے کے ذکر کے بعد فرمایا : (وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْهِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا) [ نوح : ١٦ ] ” اور اس نے ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنادیا۔ “ اور دوسری جگہ فرمایا : (وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا) [ النبا : ١٣ ] ” اور ہم نے ایک بہت روشن گرم چراغ بنایا۔ “ یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” سراج منیر “ فرمایا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کے کفر و شرک کی ظلمتوں سے نکال کر ایمان کے نور کی طرف لانے کا ذریعہ بنایا، جس طرح سورج کو رات کی تاریکی ختم کر کے روشنی کا ذریعہ بنایا۔ سراج منیر قرار دینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ رات کی تاریکی میں چاند کے نور کے باوجود روشنی کے لیے آگ یا مشعلیں جلانے کی ضرورت باقی رہتی ہے، مگر جب آفتاب عالم تاب طلوع ہوتا ہے تو کسی چراغ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کے بعد نہ کسی نبی کی پیروی باقی رہی، نہ قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے کسی امام، بزرگ یا پیر کی تقلید کی گنجائش ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

داعی الی اللہ سے مراد یہ ہے کہ آپ امت کو اللہ تعالیٰ کے وجود اور توحید اور اطاعت کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔ داعیاً الیٰ اللہ کو باذنہ کے ساتھ مشروط فرمایا کہ آپ لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دینے والے اور بلانے والے اللہ ہی کے اذن و اجازت سے ہیں۔ اس قید وشرط کا اضافہ اس اشارہ کے لئے ہے کہ تبلیغ و دعوت کی خدمت سخت دشوار ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے اذن و اجازت کے بغیر انسان کے بس میں نہیں آسکتی۔- سراج کے معنی چراغ اور منیر کے معنی روشن کرنے والا۔ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پانچویں صفت اس میں یہ بیان فرمائی گئی کہ آپ روشن کرنے والے چراغ ہیں اور بعض حضرات نے سراج منیر سے مراد قرآن لیا ہے، مگر نسق کلام سے قریب یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت ہے۔- بیہقی وقت حضرت قاضی ثناء اللہ صاحب نے تفسیر مظہری میں فرمایا کہ آپ کی صفت داعی الی اللہ تو ظاہر اور زبان کے اعتبار سے ہے، اور سراج منیر آپ کی صفت آپ کے قلب مبارک کے اعتبار سے ہے کہ جس طرح سارا عالم آفتاب سے روشنی حاصل کرتا ہے اسی طرح تمام مومنین کے قلوب آپ کے نور قلب سے منور ہوتے ہیں اس لئے صحابہ کرام جنہوں نے اس عالم میں آپ کی صحبت پائی وہ ساری امت سے افضل و اعلیٰ قرار پائے۔ کیونکہ ان کے قلوب نے قلب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بلا واسطہ عیاناً فیض اور نور حاصل کیا، باقی امت کو یہ نور صحابہ کرام کے واسطے سے واسطہ در واسطہ ہو کر پہنچا (انتہیٰ کلامہ) اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ تمام انبیاء خصوصاً رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا سے گزرنے کے بعد بھی اپنی قبروں میں زندہ ہیں، ان کی یہ حیات برزخی عام لوگوں کی حیات برزخی سے بدرجہا زیادہ فائق و ممتاز ہوتی ہے جس کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔- بہرحال اس حیات کی وجہ سے قیامت تک مومنین کے قلوب آپ کے قلب مبارک سے استفاضہ نور کرتے رہیں گے، اور جو جتنی محبت و تعظیم اور درود شریف کا زیادہ اہتمام کرے گا اس نور کا حصہ زیادہ پائے گا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نور کو چراغ سے تشبیہ دی گی، حالانکہ آپ کا نور باطن آفتاب کے نور سے کہیں زیادہ ہے، آفتاب سے صرف دنیا کا ظاہر روشن ہوتا ہے لیکن آپ کے قلب مبارک سے سارے جہان کا باطن اور مومنین کے قلوب روشن ہوتے ہیں۔ وجہ اس تشبیہ کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ چراغ کی روشنی سے استفادہ اختیار ہے، ہر وقت کرسکتے ہیں، اس تک رسائی بھی آسان ہے۔ اس کا حاصل کرنا بھی آسان ہے بخلاف آفتاب کے کہ وہاں تک رسائی بھی متعذر ہے اور اس سے استفادہ ہر وقت نہیں کیا جاسکتا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ صفات جیسے قرآن میں آئی ہیں قرآن سے پہلے تورات میں بھی مذکور ہیں جیسا کہ امام بخاری نے نقل کیا ہے کہ حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں ایک روز حضرت عبداللہ بن عمرو عاص سے ملا، تو ان سے سوال کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو صفات تورات میں آئی ہیں وہ مجھے بتلائیے۔ انہوں نے فرمایا بیشک میں بتلاتا ہوں، خدا کی قسم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعض صفات جو قرآن میں مذکور ہیں وہ تورات میں بھی موجود ہیں، اور فرمایا :- ” اے نبی ہم نے آپ کو بھیجا ہے شاہد بنا کر اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا اور پناہ و حفاظت امین یعنی عرب کی آپ میرے بندے اور رسول ہیں، میں نے آپ کا نام متوکل (یعنی اللہ پر بھروسہ کرنے والا) رکھا ہے نہ آپ تندخو ہیں نہ سخت مزاج اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے، اور آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے، بلکہ معاف کردیتے ہیں، اور آپ کو اللہ تعالیٰ دنیا سے اس وقت تک نہیں واپس لائیں گے جب تک کہ آپ کے ذریعہ ٹیڑھی امت کو سیدھا نہ کردیں کہ وہ لا الہ الا اللہ کہنے لگیں، آپ کے ذریعہ اللہ اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور بند دلوں کو کھول دے گا “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا۝ ٤٦- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - سرج - السِّرَاجُ : الزّاهر بفتیلة ودهن، ويعبّر به عن کلّ مضیء، قال : وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِراجاً [ نوح 16] ، سِراجاً وَهَّاجاً [ النبأ 13] ، يعني : الشمس . يقال : أَسْرَجْتُ السّراج، وسَرَّجْتُ كذا : جعلته في الحسن کالسّراج، قال الشاعر : وفاحما ومرسنا مُسَرَّجاً والسَّرْجُ : رحالة الدّابّة، والسَّرَّاجُ صانعه .- ( س ر ج ) السراج ( چراغ) وہ چیز جو بتی اور تیل سے روشن ہوئی ہے ۔ مجازا ہر روشن چیز کو سراج کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ؛ وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِراجاً [ نوح 16] اور سورج کو چراغ ٹھہرایا ہے ۔ سِراجاً وَهَّاجاً [ النبأ 13] اور روشن چراغ بنایا ۔ تو یہاں روشن چراغ سے مراد سورج ہے ۔ اسرجت السراج کے معنی چراغ روشن کرنے کے ہیں اور سرجت کذا کے معنی چراغ کی مثل کسی چیز کو خوبصورت بنانے کے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ) وفاحما ومرسنا مُسَرَّجاً کوئلہ کی مثل سیاہ بال اور سراج کی مثل خوبصورت ناک السرج کے معنی زین کے ہیں اور زین ساز کو سراج کہا جاتا ہے ۔- منیر - وتخصیص الشّمس بالضّوء، والقمر بالنّور من حيث إنّ الضّوء أخصّ من النّور، قال : وَقَمَراً مُنِيراً [ الفرقان 61] أي : ذا نور . ومما هو عامّ فيهم - اور نور حسبی کے متعلق فرمایا : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جسنے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔ یہاں خاص کر سورج کو ضیاء اور قمر کو نور کہنے کیوجہ یہ ہے کہ ضوء نور سے اخص ہے ۔ وَقَمَراً مُنِيراً [ الفرقان 61] اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا ۔ یعنی روشنی بنایا ۔ اور بعض آیات میں نور عام معنی ہیں استعمال ہوا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داعی الی اللہ اور روشن چراغ ہیں - قول باری ہے (وداعیا الی اللہ باذنہ وسراجا منیرا۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور ایک روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کو سراج منیر کے نام سے موسوم کرکے چراغ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کے ذریعے تاریکی میں چیزوں پر روشنی پڑتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات بابرکات کی بھی یہی حیثیت تھی جب آپ مبعوث ہوئے اس وقت پوری دنیا پر کفر وشرک کی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اس طرح دنیا میں آپ کی ذات کا ظہور اس چراغ کی طرح تھا جو تاریکی میں ظاہر ہوکر اسے دور کردیتا ہے۔- آپ کو سراج منیر کے نام سے اس طرح موسوم کیا گیا جس طرح قرآن نور، ہدایت اور روح کے ناموں سے اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو روح کے نام سے موسوم کیا گیا ہے کیونکہ روح اس چیز کا نام ہے جس کے ذریعے جاندار میں زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ تمام تعبیرات مجاز، استعارہ اور تشبیہ کی صورتیں اختیار کی ہوئی ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا ” اور اللہ کی طرف بلانے والا اس کے حکم سے اور ایک روشن چراغ بنا کر۔ “- یہاں پر بِـاِذْنِہٖ کا لفظ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لیے ” مامور من اللہ “ ہو کر آتا ہے۔ ویسے تو اللہ کا جو بندہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے وہ داعی الی اللہ ہے ‘ لیکن ایک عام داعی اور ایک رسول کی دعوت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ فرق اس مثال سے سمجھئے کہ حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال رکھنا ہر شہری کا فرض ہے۔ یہ گویا اصول شہریت ہے اور عام طور پر گلی محلے میں ایک دوسرے کو اس کی تلقین بھی کی جاتی ہے ‘ اجتماعی طور پر بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ماحول صاف رہے اور آلودگی نہ پھیلے ‘ اور اس کوشش کے اثرات معاشرے کے اندر کسی نہ کسی حد تک نظر بھی آتے ہیں۔ لیکن ان تمام کوششوں کا مقابلہ یا موازنہ اس محکمے کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا جسے حکومت کی طرف سے خصوصی اختیارات کے ساتھ حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل درآمد کی ذمہ داری سونپی گئی ہو ‘ اس محکمے کے چھوٹے بڑے کارندے اسی کام پر مامور ہوں اور اسی کام کی تنخواہ لیتے ہوں۔ اسی طرح سے ملک کے دفاع کی مثال لی جاسکتی ہے۔ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق خود کو دفاعِ وطن کے لیے تیار رکھے ‘ لیکن اس فرض کی ادائیگی کے لیے جب باقاعدہ ایک فوج تیار کی جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ چناچہ اس پہلو سے زیر مطالعہ آیت میں بِاِذْنِہٖ کے لفظ سے رسالت کے فرضِ منصبی کی اہمیت کو خصوصی طور پر اجاگر کیا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کوئی عام داعی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کام کے لیے خصوصی طور پر مامور کر کے بھیجا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :84 یہاں بھی ایک عام مبلغ کی تبلیغ اور نبی کی تبلیغ کے درمیان وہی فرق ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے ۔ دعوت اِلی اللہ تو ہر مبلغ دیتا اور دے سکتا ہے ، مگر وہ اللہ کی طرف سے اس کام پر مامور نہیں ہوتا ۔ اس کے برعکس نبی اللہ کے اذن ( ) سے دعوت دینے اٹھتا ہے ۔ اس کی دعوت نری تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے بھی اس کے بھیجنے والے رب العالمیں کی فرمانروائی کا زور ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر اللہ کے بھیجے ہوئے داعی کی مزاحمت خود اللہ کے خلاف جنگ قرار پاتی ہے ، جس طرح دنیوی حکومتوں میں سرکاری کام انجام دینے والے سرکاری ملازم کی مزاحمت خود حکومت کے خلاف جنگ سمجھی جاتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani