[ ٧٥] مومنوں پر اللہ کا بہت بڑا فضل کیا ہے ؟ اور امت مسلمہ کی فضیلت :۔ مومنوں پر اللہ کا فضل کبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آفتاب نبوت کو ان لوگوں میں مبعوث فرمایا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب انبیاء سے افضل بنایا اسی طرح آپ کی امت کو دوسری امتوں پر فضیلت اور بزرگی عطا فرمائی۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :- ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : گذشتہ قوموں (یہود و نصاری) کے مقابلہ میں تمہارا رہنا ایسا ہے جیسے عصر سے سورج غروب ہونے کا وقت۔ اہل تورات کو تورات دی گئی انہوں نے (صبح سے) دوپہر تک مزدوری کی پھر تھک گئے تو انھیں ایک ایک قیراط ملا۔ اہل انجیل کو انجیل دی گئی انہوں نے (دوپہر سے) عصر کی نماز تک مزدوری کی پھر تھک گئے۔ انھیں بھی ایک قیراط ملا۔ پھر ہم مسلمانوں کو قرآن دیا گیا ہم نے سورج غروب ہونے تک مزدوری کی (اور کام پورا کردیا) تو ہمیں دو قیراط دیئے گئے۔ اب اہل کتاب کہنے لگے : پروردگار تو نے انھیں دو قیراط دیئے اور ہمیں ایک ایک حالانکہ ہم نے ان سے زیادہ کام کیا ہے ؟ اللہ عزوجل نے انھیں جواب دیا : میں نے تمہاری مزدوری سے (جو تم سے طے کی تھی) کچھ دبایا تو نہیں ؟ وہ کہنے لگے : نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پھر یہ میرا فضل ہے جسے جو کچھ چاہوں دوں (بخاری۔ کتاب مواقیت الصلوٰۃ۔ باب من ادرک رکعۃ من العصر)- ٢۔ سیدنا حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ ہمیں دوسری امتوں پر تین باتوں میں فضیلت ملی۔ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح کی گئیں اور ہمارے لئے ساری زمین نماز کی جگہ ہے اور زمین کی خاک ہمیں پاک کرنے والی ہے جب پانی نہ ملے۔ ایک بات اور بیان کی (مسلم۔ کتاب المساجدو مواضع الصلوۃ )
وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِيْرًا : ” فضلا “ کا معنی زائد ہونا، یعنی برتری ہے، جیسا کہ فرمایا : (مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۙ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ ) [ المؤمنون : ٢٤ ] ” یہ نہیں ہے مگر تمہارے جیسا ایک بشر، جو چاہتا ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے۔ “ یعنی اے نبی مومنوں کو بشارت دے دے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی برتری عطا ہونے والی ہے۔ کفار کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو عطا ہونے والے فضل اور برتری کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة شوریٰ میں فرمایا : (تَرَى الظّٰلِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا كَسَبُوْا وَهُوَ وَاقِـــعٌۢ بِهِمْ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِيْ رَوْضٰتِ الْجَـنّٰتِ ۚ لَهُمْ مَّا يَشَاۗءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيْرُ ) [ الشورٰی : ٢٢ ] ” تو ظالموں کو دیکھے گا کہ اس سے ڈرنے والے ہوں گے جو انھوں نے کمایا، حالانکہ وہ ان پر آکر رہنے والا ہے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے وہ جنتوں کے باغوں میں ہوں گے، یہی بہت بڑا فضل ہے۔ “ اور دوسری امتوں کے اہل ایمان کے مقابلے میں اس امت کی برتری کا ذکر سورة بقرہ کی آیت (١٤٣) اور آل عمران کی آیت (١١٠) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔- علاوہ ازیں ہماری امت کی دوسری امتوں پر برتری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں وہ پیغمبر مبعوث فرمایا جو سید ولد آدم ہے اور جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب انبیاء سے افضل بنایا اسی طرح آپ کی امت کو دوسری امتوں پر فضیلت اور برتری عطا فرمائی۔ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّمَا بَقَاؤُکُمْ فِیْمَا سَلَفَ قَبْلَکُمْ مِنَ الْأُمَمِ کَمَا بَیْنَ صَلاَۃِ الْعَصْرِ إِلٰی غُرُوْبِ الشَّمْسِ ، أُوْتِيَ أَہْلُ التَّوْرَاۃِ التَّوْرَاۃَ فَعَمِلُوْا حَتّٰی إِذَا انْتَصَفَ النَّہَارُ عَجَزُوْا، فَأُعْطُوْا قِیْرَاطًا قِیْرَاطًا، ثُمَّ أُوْتِيَ أَہْلُ الْإِنْجِیْلِ الْإِنْجِیْلَ فَعَمِلُوْا إِلٰی صَلاَۃِ الْعَصْرِ ، ثُمَّ عَجَزُوْا، فَأُعْطُوْا قِیْرَاطًا قِیْرَاطًا، ثُمَّ أُوْتِیْنَا الْقُرْآنَ فَعَمِلْنَا إِلٰی غُرُوْبِ الشَّمْسِ ، فَأُعْطِیْنَا قِیْرَاطَیْنِ قِیْرَاطَیْنِ ، فَقَالَ أَہْلُ الْکِتَابَیْنِ أَيْ رَبَّنَا أَعْطَیْتَ ہٰؤُلاَءِ قِیْرَاطَیْنِ قِیْرَاطَیْنِ ، وَأَعْطَیْتَنَا قِیْرَاطًا قِیْرَاطًا، وَ نَحْنُ کُنَّا أَکْثَرَ عَمَلاً ؟ قَالَ قَال اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ ہَلْ ظَلَمْتُکُمْ مِنْ أَجْرِکُمْ مِنْ شَيْءٍ ؟ قَالُوْا لَا، قَالَ فَہُوَ فَضْلِيْ أُوْتِیْہِ مَنْ أَشَاءُ ) [ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب من أدرک رکعۃ من العصر قبل الغروب : ٥٥٧ ] ” تم سے پہلی قوموں کے مقابلے میں تمہارا عرصہ اتنا ہے جتنا عصر سے غروب آفتاب تک۔ اہل تورات کو تورات دی گئی، انھوں نے کام کیا، جب دوپہر ہوئی تو وہ تھک کر رہ گئے تو انھیں ایک ایک قیراط دیا گیا، پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی، انھوں نے عصر کی نماز تک کام کیا، پھر تھک کر رہ گئے، انھیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر ہمیں قرآن دیا گیا تو ہم نے سورج غروب ہونے تک کام کیا تو ہمیں دو دو قیراط دیے گئے، تو دونوں کتابوں والے کہنے لگے : ” اے ہمارے رب تو نے انھیں دو دو قیراط دیے اور ہمیں ایک ایک قیراط دیا، حالانکہ ہم نے زیادہ کام کیا ؟ “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” کیا میں نے تمہاری مزدوری میں کچھ کمی کی ہے ؟ “ انھوں نے کہا : ” نہیں “ فرمایا : ” پھر یہ میرا فضل ہے، میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں۔ “
وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ بِاَنَّ لَہُمْ مِّنَ اللہِ فَضْلًا كَبِيْرًا ٤٧- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
جس وقت سورة فتح کی شروع کی یہ آیات نازل ہوئیں کہ ہم نے آپ کو واضح فتح دی تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردے اس پر صحابہ کرام کہنے لگے یا رسول اللہ آپ کے لیے یہ مقام مبارک ہو باقی اللہ تعالیٰ کے یہاں ہمارے لیے کیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حسب ذیل آیتیں نازل کیں کہ اے نبی کریم آپ مومنین کو بشارت دے دیجیے کہ ان کے لیے جنت میں اجر عظیم ہے۔- شان نزول : وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ بِاَنَّ لَهُمْ (الخ)- ابن جریر نے عکرمہ اور حسن بصری سے روایت کیا ہے کہ جس وقت حضور کے بارے میں یہ آیت مبارکہ لیغفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تاخر۔ نازل ہوئی اس پر مسلمانوں میں سے کچھ حضرات نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کے لیے خوشی کا مقام ہے ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کیا فضیلت و مرتبہ عطا فرمائے گا۔ باقی ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے لیدخل المومنین والمومنات جنات (الخ) یہ آیت سورة احزاب میں نازل فرمائی۔- اور امام بیہقی نے دلائل نبوت میں ربیع بن انس سے کہ جس وقت یہ آیت وما ادری ما یفعل بی ولا بکم نازل ہوئی تو اس کے بعد ہی یہ آیت نازل ہوئی لیغفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تاخر اس پر صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمیں معلوم ہوگیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا باقی ہمارے ساتھ کیا ہوگا۔- اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مومنین کو بشارت دے دیجیے کہ ان پر اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہونے والا ہے فضل کبیر سے مراد جنت ہے۔
آیت ٤٧ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ مِّنَ اللّٰہِ فَضْلًا کَبِیْرًا ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان کو بشارت دے دیجیے کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے۔ “