اوصاف الٰہی ۔ چونکہ دنیا اور آخرت کی سب نعمتیں رحمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں ۔ ساری حکومتوں کا حاکم وہی ایک ہے ۔ اس لئے ہر قسم کی تعریف و ثناء کا مستحق بھی وہی ہے ۔ وہی معبود ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ۔ اسی کیلئے دنیا اور آخرت کی حمد و ثناء سزاوار ہے ۔ اسی کی حکومت ہے اور اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جاتے ہیں ۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اس کے ماتحت ہے ۔ جتنے بھی ہیں سب اس کے غلام ہیں ۔ اس کے قبضے میں ہیں سب پر تصرف اسی کا ہے ۔ آخرت میں اسی کی تعریفیں ہوں گی ۔ وہ اپنے اقوال ، افعال ، تقدیر ، شریعت سب میں حکومت والا ہے اور ایسا خبردار ہے جس پر کوئی چیز مخفی نہیں ، جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ، جو اپنے احکام میں حکیم ، جو اپنی مخلوق سے باخبر ، جتنے قطرے بارش کے زمین میں جاتے ہیں ، جتنے دانے اس میں بوئے جاتے ہیں ، اس کے علم سے باہر نہیں ۔ جو زمین سے نکلتا ہے ، اگتا ہے ، اسے بھی وہ جانتا ہے ۔ اس کے محیط ، وسیع اور بےپایاں علم سے کوئی چیز دور نہیں ۔ ہر چیز کی گنتی ، کیفیت اور صفت اسے معلوم ہے ۔ آسمان سے جو بارش برستی ہے ، اس کے قطروں کی گنتی بھی اس کے علم میں محفوظ ہے جو رزق وہاں سے اترتا ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے اس کے علم سے نیک اعمال وغیرہ جو آسمان پر چڑھتے ہیں وہ بھی اس کے علم میں ہیں ۔ وہ اپنے بندوں پر خود ان سے بھی زیادہ مہربان ہے ۔ اسی وجہ سے انکے گناہوں پر اطلاع رکھتے ہوئے انہیں جلدی سے سزا نہیں دیتا بلکہ مہلت دیتا ہے کہ وہ توبہ کرلیں ۔ برائیاں چھوڑ دیں رب کی طرف رجوع کریں ۔ پھر غفور ہے ۔ ادھر بندہ جھکا رویا پیٹا ادھر اس نے بخش دیا یا معاف فرما دیا درگزر کرلیا ۔ توبہ کرنے والا دھتکارا نہیں جاتا توکل کرنے والا نقصان نہیں اٹھاتا ۔
1۔ 1 یعنی اسی کی ملکیت اور تصرف میں ہے اسی کا ارادہ اور فیصلہ اس میں نافذ ہوتا ہے انسان کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسی کی پیدا کردہ ہے اور اسی کا احسان ہے اسی لیے آسمان و زمین کی ہر چیز کی تعریف دراصل ان نعمتوں پر اللہ ہی کی حمد و تعریف ہے جن سے اس نے اپنی مخلوق کو نوازا ہے۔ 1۔ 2 یہ تعریف قیامت والے دن اہل ایمان کریں گے مثلا (الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ) (الحمدللہ الذی ھدٰنا لھذا) (الحمدللہ الذی اذھب عنا الحزن) تاہم دنیا میں اللہ کی حمد و تعریف عبادت ہے جس کا مکلف انسان کو بنایا گیا ہے اور آخرت میں یہ اہل ایمان کی روحانی خوراک ہوگی جس سے انھیں لذت و فرحت محسوس ہوا کرے گی۔
[ ١] فی الآخرۃ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اس دنیا میں اگر کسی انسان کے کارناموں کی تعریف کی جائے۔ تو وہ بالآخر اللہ کی ہی تعریف ہوگی۔ کیونکہ انسان کو ہر طرح کی قوت، صلاحیت اور استعداد عطا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ یعنی فی الاخرۃ کا لفظ یہاں بالآخر کا معنی دے رہا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں تو کچھ اسباب ظاہر ہیں جو سب کو دکھائی دینے یا محسوس ہوتے ہیں لیکن اچھ اسباب ایسے بھی ہیں جن پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ آخرت میں ایسے سب پردے اور جماعت اٹھ جائیں گے اور ہر ایک کو یہ نظر آئے گا کہ قابل تعریف ذات تو صرف اللہ ہی کی ہے۔- [٢] اور حکم اس لحاظ سے ہے کہ اس نے کائنات میں جو چیز بھی بنائی ہے وہ ایک نہیں متعدد مقاصد پورے کر رہی ہے پھر کائنات کے نظام کا مربوط اور منظم ہونا بھی اس کی حکمت کی بہت بڑا دلیل ہے اور باخبر اس لحاظ سے ہے وہ کائنات کے ایک ایک کل پرزے کی براہ راست نگرانی کر رہا ہے اور مدت ہائے دراز گزرنے پر بھی کائنات کے کسی کل پرزے کی کبھی کوئی کمی، کوتاہی یا گڑ بڑا واقع نہیں ہوتی۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۔۔ : حمد کا معنی کسی کی خوبی کی وجہ سے تعریف ہے۔ یہ سورت ان پانچ سورتوں میں سے ایک ہے جن کی ابتدا ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ سے ہوتی ہے اور وہ ہیں سورة فاتحہ، انعام، کہف، سبا اور فاطر۔ پانچوں میں سب تعریف اللہ کے لیے ہونے کی الگ الگ دلیل بیان کی گئی ہے، اگرچہ ان سب کا ایک دوسری کے ساتھ بھی تعلق ہے۔ ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ کہنے میں صرف یہی بات نہیں آتی کہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، بلکہ یہ بات بھی آتی ہے کہ تمام خوبیوں کا مالک بھی وہی ہے، کیونکہ خوبی نہ ہو تو تعریف کیسی ؟ اور سب تعریف اور تمام خوبیاں اللہ کے لیے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آسمانوں میں جو کچھ ہے، یا زمین میں جو کچھ ہے، مراد پوری کائنات میں جو بھی چیز ہے اس کا مالک وہی ہے۔ اسی نے سب کچھ پیدا کیا، وہی انھیں قائم رکھے ہوئے ہے اور وہی ان کی تدبیر فرما رہا ہے۔ کسی بھی چیز میں اگر کوئی خوبی ہے تو اس کی عطا کردہ، پھر ہر خوبی اور ہر تعریف کا مالک اس کے سوا کون ہوسکتا ہے ؟- 3 اس آیت کی تفسیر دو طرح ہے، ایک یہ کہ پہلے جملے ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ “ سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں سب تعریف اللہ کے لیے ہے، کیونکہ دوسرے جملے ” وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْاٰخِرَةِ “ میں آخرت میں سب تعریف اس کے لیے ہونے کا ذکر ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ پہلے جملے ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ “ سے مراد یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں میں حمد اللہ کے لیے ہے۔ پھر آخرت میں حمد کا اللہ ہی کے لیے ہونا خاص طور پر دوبارہ ذکر فرمایا، کیونکہ دنیا میں تو بظاہر کسی اور کی بھی تعریف ہوجاتی ہے، مگر آخرت میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی حمد ہوگی اور ہر ایک کی زبان پر ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ کا کلمہ جاری ہوگا۔ دیکھیے سورة زمر (٧٤) ، اعراف (٤٣) اور فاطر (٣٤، ٣٥) یہ ایسے ہی جیسے سورة بقرہ کی آیت (٩٨) : (مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَرُسُلِهٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ ) میں لفظ ” وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ “ میں سب فرشتے شامل ہونے کے باوجود جبریل و میکال کا الگ ذکر بھی فرمایا۔ ” الحمد للہ “ کے مزید فوائد کے لیے سورة فاتحہ کے فوائد ملاحظہ فرمائیں۔- وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ : یعنی صرف وہ ایک ہے جس کا ہر کام محکم و مضبوط ہے اور جسے کائنات کے ذرّے ذرّے کی پوری خبر ہے، اس لیے اس کے کسی کام میں کوئی نقص ہے نہ عیب، جبکہ کوئی اور نہ پوری خبر رکھتا ہے نہ حکمت، اس لیے اس کے پاس عجز و فقر کے سوا کچھ نہیں، پھر حمد کس بات پر ؟
خلاصہ تفسیر - تمام تر حمد (وثنا) اسی اللہ کو سزاوار ہے، جس کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور کچھ زمین میں ہے (جس طرح وہ فی الحال مستحق حمد ہے اسی طرح) اسی کو حمد (وثناء) آخرت میں (بھی) سزاوار ہے (اس کا ظہور اس طرح ہوگا کہ اہل جنت، جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد ان الفاظ میں کریں گے، (آیت) الحمد للہ الذی ھدانا لہٰذا، الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن، الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ، وغیرہ) اور وہ حکمت والا ہے (کہ آسمان و زمین کی تمام مخلوقات کو بیشمار مصالح اور منافع پر مشتمل بنایا ہے، اور وہ) خبردار (بھی) ہے (کہ ان مصالح اور منافع کو پیدا کرنے سے پہلے سے جانتا ہے، ہر چیز میں مصالح اور منافع بڑی حکمت کے ساتھ رکھ دیئے اور وہ ایسا خبیر ہے کہ) وہ سب کچھ جانتا ہے جو چیز زمین کے اندر داخل ہوتی ہے (مثلاً بارش کا پانی) اور جو چیز اس میں سے نکلتی ہے (مثلاً درخت اور عام نباتات) اور جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور جو چیز اس میں چڑھتی ہے (مثلاً فرشتے جو آسمان سے اترتے ہیں اور چڑھتے رہتے ہیں، اور مثلاً احکام شرعیہ جو آسمان سے اتارے جاتے ہیں اور اعمال صالحہ جو آسمان میں لے جائے جاتے ہیں) اور (چونکہ ان سب چیزوں میں جسمانی یا روحانی منافع ہیں جن کا مقتضا یہ ہے کہ سب لوگ پورا شکر ادا کریں اور جو کوتاہی کرے وہ مستحق سزا ہو، لیکن وہ (اللہ) رحیم (اور) غفور (بھی) ہے، (اور اپنی رحمت سے صغیرہ گناہ کو نیک اعمال سے اور کبیرہ کو توبہ سے، اور کبھی دونوں قسم کے گناہوں کو محض اپنے اپنے فضل سے معاف فرما دیتا ہے۔ اور جو گناہ کفر و شرک کی حد تک پہنچ جائے اس کو ایمان لانے سے معاف کردیتا ہے) ۔
سورة السباء - بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَلَہُ الْحَمْدُ فِي الْاٰخِرَۃِ ٠ ۭ وَہُوَالْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ ١- حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ - خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔
تمام تر حمد وثناء اسی اللہ کے لیے ہے جس کی ملکیت میں آسمان و زمین کی تمام مخلوقات ہیں اس کی حمد وثناء اہل جنت پر جنت میں بھی واجب ہے۔- وہی اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے کہ اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کی جائے اور وہ مخلوق اور اس کے اعمال سے باخبر ہے۔
آیت ١ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ” کل حمد اور کل شکر اس اللہ کے لیے ہے جس کی ملکیت ہے ہر وہ شے جو آسمانوں اور زمین میں ہے “- وَلَہُ الْحَمْدُ فِی الْاٰخِرَۃِط وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ ” اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہوگی ‘ اور وہ کمال حکمت والا ‘ ہرچیز سے باخبر ہے۔ “- آخرت کی حمد کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (لِوَائُ الحَمْدِ یَوْمَئِذٍ بِیَدِیْ ) (١) ” اس دن (یعنی میدانِ حشر میں) حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس روز میں جو حمد کروں گا وہ آج نہیں کرسکتا ۔ - ۔ - آخرت کی اس حمد کا اس آخری امت کے ساتھ خاص تعلق ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسمائے مبارک محمد ‘ احمد اور حامد کا تعلق بھی لغوی طور پر لفظ ” حمد “ کے ساتھ ہے اور اسی لیے اس امت کو بھی ” حَمَّادُون “ (بہت زیادہ حمد کرنے والے) کہا گیا ہے۔
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :1 حمد کا لفظ عربی زبان میں تعریف اور شکر دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہاں دونوں معنی مراد ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا مالک ہے تو لامحالہ اس کائنات میں جمال و کمال اور حکمت و قدرت اور صناعی و کاری گری کی جو شان بھی نظر آتی ہے اس کی تعریف کا مستحق وہی ہے ۔ اور اس کائنات میں رہنے والا جس چیز سے بھی کوئی فائدہ یا لطف و لذت حاصل کر رہا ہے اس پر خدا ہی کا شکر اسے ادا کرنا چاہئے ۔ کوئی دوسرا جب ان اشیاء کی ملکیت میں شریک نہیں ہے تو اسے نہ حمد کا استحقاق پہنچتا ہے نہ شکر کا ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :2 یعنی اس طرح اس دنیا کی ساری نعمتیں اسی کی بخشش ہیں اسی طرح آخرت میں بھی جو کچھ کسی کو ملے گا اسی کے خزانوں سے اور اسی کی عطا سے ملے گا ، اس لیے وہاں بھی وہی تعریف کا مستحق بھی ہے اور شکر کا مستحق بھی ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :3 یعنی جس کے سارے کام کمال درجہ حکمت و دانائی پر مبنی ہیں ، جو کچھ کرتا ہے بالکل ٹھیک کرتا ہے ۔ اور اسے اپنی ہر مخلوق کے متعلق پورا علم ہے کہ وہ کہاں ہے ، کس حال میں ہے ، کیا اس کی ضروریات ہیں ، کیا کچھ اس کی مصلحت کے لیے مناسب ہے ، کیا اس نے اب تک کیا ہے اور آگے کیا اس سے صادر ہونے والا ہے ۔ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا سے بے خبر نہیں ہے بلکہ اسے ذرے ذرے کی حالت پوری طرح معلوم ہے ۔