2۔ 1 مثلا بارش خزانہ اور دفینہ وغیرہ۔ 2۔ 2 بارش اولے گرج، بجلی اور برکات الٰہی وغیرہ، نیز فرشتوں اور آسمانی کتابوں کا نزول۔ 2۔ 3 یعنی فرشتے اور بندوں کے اعمال۔
[ ٣] زمین میں داخل ہونے والی چیزیں یہ ہیں : ہر قسم کی نباتات کے بیج، بارش کا پانی، تمام جانوروں کے مردہ اجسام۔ اور حشرات الارض وغیرہ اور زمین سے نکلنے والی چیزیں مثلاً کھیتی، پودے، درخت، معدنیات۔ کئی قسم کے تیل اور گیسیں وغیرہ اور آسمان سے اترنے والی چیزیں مثلاً بارش اللہ کی رحمت و برکت، وحی الٰہی، فرشتے وغیرہ اور جو آسمان کی طرف چڑھنے والی چیزیں مثلاً دعا، فرشتے، انسانوں کے اعمال وغیرہ ان سب انواع اور ان کی جزئیات سب کچھ اللہ کے علم میں ہے۔- [ ٤] یعنی انسانوں کی بداعمالیوں پرانیں فوراً سزا نہیں دے ڈالتا۔ یہ اس کی رحمت کا تقاضا ہے کہ انسانوں کو سنبھلنے کی مہلت دیتا ہے اور جو سنبھل جائے تو اس کی ساتھ لغزشیں معاف بھی کردیتا ہے۔
يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم کی کچھ تفصیل بیان فرمائی۔ وہ ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی ہیں اور جو اس سے نکلتی ہیں اور جو آسمان سے اترتی ہیں اور اس میں چڑھتی ہیں، جو شمار سے باہر ہیں اور جنھیں صرف وہی جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ کمال علم بھی اس کے اکیلے مستحق حمد ہونے کی دلیل ہے، کسی اور کو دوسری چیزیں تو ایک طرف رہیں خود اپنی ذات کا بھی پورا علم نہیں، پھر وہ ” الحمد “ کے لائق کیسے ہوگیا۔- وَهُوَ الرَّحِيْمُ الْغَفُوْر : یعنی ہر چیز کا مالک ہونے، حکیم وخبیر ہونے اور ذرّے ذرّے کا علم رکھنے کے باوجود بندوں کی نافرمانی پر فوری گرفت نہیں کرتا، کیونکہ وہی ہے جس کی نہ رحمت کی کوئی حد ہے، نہ مغفرت کی۔ اس لیے اس نے بندوں کو مہلت دے رکھی ہے اور بڑی سے بڑی سرکشی پر بھی مقرر کردہ وقت سے پہلے گرفت نہیں فرماتا۔
يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْہَا ٠ ۭ وَہُوَالرَّحِيْمُ الْغَفُوْرُ ٢- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - ولج - الوُلُوجُ : الدّخول في مضیق . قال تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ- [ الأعراف 40] ، وقوله : يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ- [ الحج 61] فتنبيه علی ما ركّب اللہ عزّ وجلّ عليه العالم من زيادة اللیل في النهار، وزیادة النهار في اللیل، وذلک بحسب مطالع الشمس ومغاربها .- ( و ل ج ) الولوج ( ض ) کے معنی کسی تنک جگہ میں داخل ہونے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف 40] یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جائے ۔ اور آیت : ۔ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ [ الحج 61]( کہ خدا ) رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ۔ میں اس نظام کائنات پت متنبہ کیا گیا ہو جو اس عالم میں رات کے دن اور دن کے رات میں داخل ہونے کی صورت میں قائم ہے اور مطالع شمسی کے حساب سے رونما ہوتا رہتا ہے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - عرج - العُرُوجُ : ذهابٌ في صعود . قال تعالی: تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] ، فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر 14] ، والمَعَارِجُ : المصاعد . قال : ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 3] ، ولیلة المِعْرَاجُ سمّيت لصعود الدّعاء فيها إشارة إلى قوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] ، وعَرَجَ عُرُوجاً وعَرَجَاناً : مشی مشي العَارِجِ. أي : الذاهب في صعود، كما يقال : درج : إذا مشی مشي الصاعد في درجه، وعَرِجَ : صار ذلک خلقة له «4» ،- ( ع ر ج ) العروج - کے معنی اوپر چڑھنا کے ہیں قرآن میں ہے : تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] جس کی طرف روح ( الامین ) اور فرشتے چڑھتے ہیں ۔ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر 14] اور وہ اس میں چڑھنے بھی لگیں ۔ اور معارج کے معنی سیڑھیوں کے ہیں اس کا مفرد معرج ( اور معراج ) ہے ۔ قرآن میں ہے :- ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 3] سیڑھیوں والے خدا کی طرف سے ( نازل ہوگا ) ۔ اور شب معراج کو بھی لیلۃ المعراج اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں دعائیں اوپر چڑھتی ہیں جیسا کہ آیت کریمہ ؛- إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ - سرحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔
اور بارش و پانی اور مدے اور خزانے جو چیزیں زمین میں داخل ہوتی ہیں وہ سب کچھ جانتا ہے اور اسی طرح جو چیزیں اس سے نکلتی ہیں جیسا کہ نباتات پانی خزانے مردے اور جو چیز آسمان سے اترتی ہے۔ مثلا پانی اور رزق وغیرہ اور فرشتے اور کراما کاتبین جو بھی چیزیں اس پر چڑھتی ہیں وہ سب کو جانتا ہے۔ اور وہ اہل ایمان پر رحمت فرمانے والا اور تائبین کی مغفرت فرمانے والا ہے۔
آیت ٢ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا ” وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے نازل ہوتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے ۔ “ - وَہُوَ الرَّحِیْمُ الْغَفُوْرُ ” اور وہ نہایت رحم کرنے والا ‘ بہت بخشنے والا ہے۔ “
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :4 یعنی ایسا نہیں ہے کہ اس کی سلطنت میں اگر کوئی شخص یا گروہ اس کے خلاف بغاوت کرنے کے باوجود پکڑا نہیں جا رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ دنیا اندھیر نگری اور اللہ تعالیٰ اس کا چوپٹ راجہ ہے ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رحیم ہے اور درگزر سے کام لینا اس کی عادت ہے ۔ عاصی اور خاطی کو قصور سرزد ہوتے ہی پکڑ لینا ، اس کا رزق بند کر دینا ، اس کے جسم کو مفلوج کر دینا اس کو آناً فاناً ہلاک کر دینا ، سب کچھ اس کے قبضے میں ہے ، مگر وہ ایسا کرتا نہیں ہے ۔ یہ اس کی شان رحیمی کا تقاضا ہے کہ قادر مطلق ہونے کے باوجود وہ نافرمان بندوں کو ڈھیل دیتا ہے ، سنبھلنے کی مہلت عطا کرتا ہے ، اور جب بھی وہ باز آجائیں ، معاف کر دیتا ہے ۔