قیامت آکر رہے گی ۔ پورے قرآن میں تین آیتیں ہیں جہاں قیامت کے آنے پر قسم کھاکر بیان فرمایا گیا ہے ۔ ایک تو سورۃ یونس میں ( وَيَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَكَ اَحَقٌّ ھُوَ ڼ قُلْ اِيْ وَرَبِّيْٓ اِنَّهٗ لَحَقٌّ ې وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ 53ۧ ) 10- یونس:53 ) لوگ تجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا قیامت کا آنا حق ہی ہے؟ تو کہہ دے کہ ہاں ہاں میرے رب کی قسم وہ یقینا حق ہی ہے اور تم اللہ کو مغلوب نہیں کرسکتے ۔ دوسری آیت یہی ۔ تیسری آیت سورۃ تغابن میں ( زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۭ وَذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ Ċ ) 64- التغابن:7 ) یعنی کفار کا خیال ہے کہ وہ قیامت کے دن اٹھائے نہ جائیں گے ۔ تو کہہ دے کہ ہاں میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر اپنے اعمال کی خبر دیئے جاؤ گے اور یہ تو اللہ پر بالکل ہی آسان ہے ۔ پس یہاں بھی کافروں کے انکار قیامت کا ذکر کرکے اپنے نبی کو ان کے بارے قسمیہ بتا کر پھر اس کی مزیدتاکید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اللہ جو عالم الغیب ہے جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ۔ سب اس کے علم میں ہے ۔ گو ہڈیاں سڑ گل جائیں ان کے ریزے متفرق ہو جائیں لیکن وہ کہاں ہیں؟ کتنے ہیں؟ سب وہ جانتا ہے ۔ وہ ان سب کے جمع کرنے پر بھی قادر ہے ۔ جیسے کہ پہلے انہیں پیدا کیا ۔ وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ اور تمام چیزیں اس کے پاس اس کی کتاب میں بھی لکھی ہوئی ہیں ، پھر قیامت کے آنے کی حکمت بیان فرمائی کہ ایمان والوں کو ان کی نیکیوں کا بدلہ ملے ۔ وہ مغفرت اور رزق کریم سے نوازے جائیں ، اور جنہوں نے اللہ کی باتوں سے ضد کی رسولوں کی نہ مانی انہیں بدترین اور سخت سزائیں ہوں ۔ نیک کار مومن جزا اور بدکار کفار سزا پائیں گے ۔ جیسے فرمایا جہنمی اور جنتی برابر نہیں ۔ جنتی کامیاب اور مقصد ور ہیں ۔ اور آیت میں ہے ( اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ 28 ) 38-ص:28 ) ، یعنی مومن اور مفسد متقی اور فاجر برابر نہیں ، پھر قیامت کی ایک اور حکمت بیان فرمائی کہ ایماندار بھی قیامت کے دن جب نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا ہوتے ہوئے دیکھیں گے تو وہ علم الیقین سے عین الیقین حاصل کرلیں گے اور اس وقت کہہ اٹھیں گے کہ ہمارے رب کے رسول ہمارے پاس حق لائے تھے ۔ اور اس وقت کہا جائے گا کہ یہ ہے جس کا وعدہ رحمان نے دیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہہ دیا تھا ۔ اللہ نے تو لکھ دیا تھا کہ تم قیامت تک رہو گے تو اب قیامت کا دن آچکا ۔ وہ اللہ عزیز ہے یعنی بلند جناب والا بڑی سرکار والا ہے ۔ بہت عزت والا ہے پورے غلبے والا ہے ۔ نہ اس پر کسی کا بس نہ کسی کا زور ۔ ہر چیز اس کے سامنے پست اور عاجز ۔ وہ قابل تعریف ہے اپنے اقوال و افعال شرع و فعل میں ۔ ان تمام میں اس کی ساری مخلوق اس کی ثناء خواں ہے ۔ جل و علا ۔
3۔ 1 قسم بھی کھائی اور صیغہ بھی تاکید کا اور اس پر مزید لام تاکید یعنی قیامت کیوں نہیں آئے گی ؟ وہ تو بہر صورت یقینا آئے گی۔ 3۔ 2 یعنی جب آسمان و زمین کا کوئی ذرہ اس سے غائب اور پوشیدہ نہیں، تو پھر تمہارے اجزائے منتشرہ کو، جو مٹی میں مل گئے ہوں گے، جمع کر کے دوبارہ تمہیں زندہ کردینا کیوں ناممکن ہوگا 3۔ 3 یعنی وہ لوح محفوظ میں موجود اور درج ہے۔
[ ٥] جس دعویٰ پر کوئی ظاہری دلیل موجود نہ ہو یا مخاطب اسے تسلیم کرنے سے منکر ہو تو اللہ کی قسم سے اپنے دعویٰ کو موکد کیا جاتا ہے۔ یہاں قسم کھانے والی وہ ہستی ہے جسے کفار مکہ صادق اور امین سمجھتے تھے اولاً تو انھیں اس بات یا دعویٰ پر یقین کرلینا چاہئے تھا کیونکہ وہ صادق اور امین ہے ثانیاً وہ اللہ کی قسم اٹھا کر اپنے دعویٰ کو موکد بنا رہا ہے۔ اور ضمناً اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قیامت کا علم صرف اسے ہوسکتا ہے جو عالم الغیب ہو اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔- [ ٦] یعنی کائنات کی ہر چھوٹی بڑی، خفیہ اور علانیہ غرض ہر چیز سے اللہ تعالیٰ واقف ہی نہیں بلکہ کائنات میں کوئی بھی چھوٹا یا بڑا پیش آنے والا واقعہ یا حادثہ اس کے پاس پہلے سے لکھا ہوا ہے۔ پھر جب ایسی ذات قیامت کے واقع ہونے کی خبر دے رہی ہے۔ تو پھر اس میں کیا شک و شبہ ہوسکتا ہے۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِيْنَا السَّاعَةُ : یہ بیان کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو بےحساب نعمتیں کی ہیں، ان پر دنیا کے علاوہ آخرت میں بھی حمد اور شکر اسی کے لیے ہے، یہ بیان فرمایا کہ کفار اپنے خالق ومالک کی حمد کے بجائے دوبارہ زندہ ہو کر اس کے سامنے پیش ہونے کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔- قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُمْ : قسم اٹھا کر بات کرنے سے اس بات کی اہمیت اور اس کے واقع ہونے کی تاکید مقصود ہوتی ہے، جس پر قسم اٹھائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بات جتنی شدت سے کی گئی ہو اس کا رد اتنی ہی یا اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ کفار قیامت کا انکار قسمیں اٹھا اٹھا کر کرتے تھے، جیسا کہ اللہ نے ذکر فرمایا : (واقسموا باللہ جہد ایمانھم لایبعث اللہ من یموت) [ النحل : ٣٨ ] ” اور انھوں نے اپنی پکی قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی کہ اللہ اسے نہیں اٹھائے گا جو مرجائے۔ “ وہ قیامت کا مذاق بھی اڑاتے تھے اور اسے جلد از جلد لانے کا مطالبہ بھی کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ وہ اپنے رب کی قسم کھا کر انھیں بتائیں کہ وہ تم پر ضرور بالضرور آئے گی۔ حافظ ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ آیت ان تین آیات میں سے ایک ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ وہ اپنے رب کی قسم کھا کر بتائیں کہ قیامت ضرور قائم ہوگی۔ ان میں سے ایک سورة یونس کی آیت ہے : (ویستنبئونک احق ھو قل سای ) [ یونس : ٥٣ ] ” اور وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ سچ ہی ہے ؟ تو کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم یقیناً یہ ضرور سچ ہے اور تم ہرگز عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ “ دوسری یہ آیت اور تیسری سورة تغابن میں ہے : (زعم الذین کفروا ان لن یبعثوا قل بلی وربی لتبعثن ثم لتنبئن بما عملتم ) [ التغابن : ٧ ] ” وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا انھوں نے گمان کیا کہ وہ ہرگز اٹھائے نہیں جائیں گے۔ کہہ دے کیوں نہیں ؟ میرے رب کی قسم تم ضرور بالضرور اٹھائے جاؤ گے۔ “- عٰلِمِ الْغَيْبِ ۚ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ ۔۔ : ” عٰلِمِ الْغَيْبِ “ ” ربی “ کی صفت ہے۔ ” عَزَبَ یَعْزُبُ “ (ن، ض) غائب ہونا، چھپا رہنا۔ ” وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرُ ۔۔ “ میں ” اصغر “ اور ” اکبر “ پر رفع مبتدا ہونے کی وجہ سے ہے۔ ” الا “ حرف استثنا ہے اور ” فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ “ خبر ہے۔ ” كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ “ سے مراد لوح محفوظ ہے۔ کتاب کو واضح کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کتابوں میں لکھی ہوئی بات ڈھونڈنا پڑتی ہے، مگر وہ ایسی کتاب ہے جو ہر چیز کو خود ہی واضح کردیتی ہے۔- 3 قیامت کے منکروں کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی اور ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوگئے اور ہماری خاک کے ذرّات بھی کہاں سے کہاں منتشر ہوگئے تو ہم دوبارہ کیسے زندہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے کہو، مجھے اپنے اس رب کی قسم ہے جو غیب کو جاننے والا ہے جس سے ذرہ برابر کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں، نہ اس سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی، مگر اس کے علم میں ہے اور لوح محفوظ میں درج ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مرنے والوں کے ذرّات جہاں بھی ہوں وہ سب سے واقف بھی ہے اور انھیں جمع کرنے اور دوبارہ جوڑنے اور زندہ کرنے پر قادر بھی ہے۔ دیکھیے سورة ق (٣، ٤) اور قیامہ (٣، ٤) ۔- ” ذرةٍ “ غبار کے اس چھوٹے سے چھوٹے حصے کو کہتے ہیں جو روشنی میں چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ” کہ اس سے چھوٹی ہر چیز بھی کتاب مبین میں ہے “ اس حقیقت کا بیان ہے جو ان آیات کے نزول کے سیکڑوں برس بعد تجربے سے ثابت ہوئی کہ ذرہ (ایٹم) بھی قابل تقسیم ہے اور اس سے چھوٹی بھی بہت سے چیزیں موجود ہیں۔- ولا اکبر : یہاں ایک سوال ہے کہ یہ کہنے کے بعد کہ ” ذرے سے چھوٹی چیزیں بھی کتاب مبین میں ہیں “ یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ ” اس سے بڑی چیزیں بھی کتاب مبین میں ہیں۔ “ جواب اس کا یہ ہے کہ اس کی ضرورت یہ ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ لوح محفوظ میں صرف باریک چیزوں کا علم ہی محفوظ کیا گیا ہے۔
خلاصہ تفسیر - اور یہ کافر کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہ آئے گی، آپ فرما دیجئے کہ کیوں نہیں (آویگی) قسم اپنے پروردگار عالم الغیب کی کہ وہ ضرور تم پر آوے گی (اس کا علم ایسا وسیع اور محیط ہے کہ) اس (کے علم) سے کوئی ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ آسمانوں میں نہ زمین میں (بلکہ سب اس کے علم میں حاضر ہیں) اور نہ کوئی چیز اس (مقدار مذکور) سے چھوٹی ہے اور نہ کوئی چیز (اس سے) بڑی ہے مگر یہ سب (بوجہ احاطہ علم الٰہی کے) کتاب مبین (یعنی لوح محفوظ) میں (مرقوم) ہے (قیامت کے متعلق کفار کے کئی شہبات تھے، ایک یہ کہ اگر آنے والی ہے تو اس کا وقت بتلایئے، کما قال تعالیٰ (آیت) ایان مرسہا، دوسرا یہ کہ جن اجزاء کو جمع کر کے ان میں حیات پیدا کرنا بتلایا جاتا ہے، اس کا کہیں نشان بھی نہ رہے گا پھر جمع کیسے ہوں گے ؟- اس مضمون اثبات علم غیب سے شبہ اول کا جواب ہوگیا، کہ اس کا علم بوجہ حکمت کے مختص ہے باری تعالیٰ کے ساتھ، اگر نبی کو اس کا معین وقت معلوم نہ ہو تو لازم نہیں آتا کہ اس کا وقوع ہی نہ ہو، کما قال تعالیٰ (آیت) قل انما علمہا عند اللہ اور مضمون اثبات علم محیط سے دوسرے شبہ کا جواب ہوگیا ہے کہ ان تمام اجزاء کے زمین میں منتشر اور ہوا میں پھیل جانے کے باوجود وہ ہمارے علم سے خارج نہ ہوں گے، ہم جب چاہیں گے جمع کرلیں گے کما قال تعالیٰ (آیت) افلم یروا الخ، اب قیامت کی غایت بتلاتے ہیں کہ وہ قیامت اس لئے آئے گی) تاکہ ان لوگوں کو صلہ (نیک) دے جو ایمان لائے تھے اور انہوں نے نیک کام کیا تھا (سو) ایسے لوگوں کے لئے مغفرت اور (بہشت میں) عزت کی روزی ہے، اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کے متعلق (ان کے ابطال کی) کوشش کی تھی (نبی کو) ہرانے کے لئے (گو اس کوشش میں ناکام ہی رہے) ایسے لوگوں کے واسطے سختی کا دردناک عذاب ہوگا اور (آیات قرآنیہ کی تکذیب پر یہ سزا ہونی ہی چاہئے، کیونکہ اول تو قرآن فی نفسہ امر حق منزل من اللہ ہے اور ایسے امر حق کی تکذیب خود حق تعالیٰ کی تکذیب ہے، اس پر جتنی سزا ہو بجا ہے۔ دوسرے قرآن راہ راست کی تعلیم و ہدایت کرتا ہے، جو شخص اس کو نہ مانے گا وہ راہ راست سے قصداً دور رہے گا، نہ اس کو عقائد حقہ کا پتہ لگے گا نہ اعمال صالحہ کا اور یہی طریقہ تھا نجات کا۔ پس طریقہ نجات سے قصداً دور رہنے پر سزا کا ہونا بےجا نہیں ہے، اور قرآن کا حق اور ہادی ہونا ایسا واضح ہے کہ علاوہ اس کے اور دلائل سے ثابت ہے۔ ایک سہل طریق اس کے ثبوت کا یہ ہے کہ) جن لوگوں کو (آسمانی کتابوں کا) علم دیا گیا ہے وہ اس قرآن کو جو کہ آپ کے رب کی طرف سے آپ کے پاس بھیجا گیا ہے ایسا سمجھتے ہیں کہ وہ حق ہے اور وہ خدائے غالب محمود (کی رضا) کا راستہ بتلاتا ہے (اس استدلال کی تقریر شروع رکوع اخیر سورة شعراء میں گزر چکی ہے۔ اور شاید منجملہ جمیع امور واجبة الایمان کے، بیان حقیقت قرآن کا اہتمام اس لئے فرمایا ہو کہ یہ ان امور واجبۃ الایمان پر مشتمل ہے بالخصوص خبر قیامت پر جس میں اس مقام میں کلام ہے۔ پس اس بنا پر حاصل یہ ہوا کہ قیامت کے روز اسی قیامت کی تکذیب پر بھی سزا ہوگی) اور (آگے پھر قیامت کا اثبات ہے یعنی) یہ کافر (آپس میں) کہتے کہ کیا ہم تم کو ایک ایسا آدمی بتائیں جو تم کو یہ (عجیب) خبر دیتا ہے کہ جب تم بالکل ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تو (اس کے بعد قیامت کو) تم ضرور ایک نئے جنم میں آؤ گے معلوم نہیں اس شخص نے خدا پر (قصداً ) جھوٹ بہتان باندھا ہے یا اس کو کسی طرح کا جنون ہے (کہ بلاقصد جھوٹ بول رہا ہے، کیونکہ یہ امر تو محال ہے تو اس کے وقوع کی خبر ضرور غلط ہے، خواہ قصد سے ہو یا فساد تخیل سے ہو۔ حق تعالیٰ ان دونوں شقوں کو رد فرماتے ہیں کہ ہمارے نبی تو مفتری اور مجنون کچھ بھی نہیں) بلکہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے (وہی) عذاب اور دور دراز گمراہی میں (مبتلا) ہیں، (اس گمراہی کا حالی اثر یہ ہے کہ سچے بھی مفتری اور مجنون نظر آتے ہیں، اور مالی اثر یہ ہے کہ عذاب بھگتنا پڑے گا۔ اور یہ جاہل جو اس جمع واحیاء اجزاء متفرقہ جمادیہ کو محال بعید از قدرت سمجھ رہے ہیں) تو کیا انہوں نے (دلائل عظمت قدرت آلہیہ میں سے) آسمان اور زمین کی طرف نظر نہیں کی جو ان کے آگے (بھی) اور ان کے پیچھے (بھی) موجود ہیں (کہ جدھر دیکھیں وہ نظر آ رہے ہیں۔ پس ان اجرام عظیمہ کا ابتداً پیدا کرنیوالا کیا اجسام صغیرہ کے ثانیاً پیدا کرنے پر قادر نہیں، کما قال تعالیٰ لخلق السموٰت والارض اکبر من خلق الناس الخ۔ اور باوجود وضوح دلائل حق کے پھر بھی اکار وعناد کرنے کی وجہ سے یہ ہیں تو اس قابل کہ ان کو ابھی سزا دی جائے اور سزا بھی ایسی کہ یہ دلائل قدرت آسمان و زمین جو ان کے لئے نعمت عظیمہ بھی ہیں انہی کو ان کے آلہ تعذیب بنادیا جائے کہ جس نعمت کا کفران ہو اسی نعمت کو نقمت یعنی عذاب بنانے سے سخت حسرت ہوتی ہے۔ اور ہم اس سزا پر بھی قادر ہیں چنانچہ) اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا (اگر چاہیں تو) ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں (لیکن حکمت مقتضی ہے تاخیر کو، اس لئے مہلت دے رکھی ہے، غرض ان لوگوں کو دفع تو ہم استحالہ کے لئے آسمان و زمین پر نظر کرنا چاہئے کیونکہ) اس (دلیل مذکور) میں (قدرت آلہیہ) کی پوری دلیل ہے (مگر) اس بندہ کے لئے جو (خدا کی طرف) متوجہ (بھی) ہو (اور حق کی طلب ہو یعنی دلیل تو کافی ہے مگر ان کی طرف سے طلب نہیں اس لئے محروم ہیں) ۔- معارف ومسائل - عالم الغیب، یہ صفت رب کی ہے جس کی اوپر قسم کھائی گئی ہے، اور اللہ جل شانہ، کی تمام صفات میں سے اس جگہ صفت علم غیب وعلم محیط کو شاید اس لئے خاص کیا گیا کہ کلام منکرین قیامت کے معاملہ میں ہے، اور قیامت کے انکار کا بڑا سبب کفار کے لئے یہ تھا کہ جب سب انسان مر کر مٹی ہوجائیں گے اور اس مٹی کے ذرات بھی دنیا میں منتشر ہوجائیں گے تو سارے جہان میں پھیلے ہوئے ذرات کو جمع کرنا پھر ہر ایک انسان کے ذرات کو دوسرے انسانوں کے ذرات سے الگ کر کے ہر ایک کے ذرات اسی کے وجود میں پیوست کرنا کیسے ممکن ہے ؟ اور اس کو ناممکن سمجھنا اسی بنا پر تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت کو اپنے علم وقدرت پر قیاس کر رکھا تھا۔ حق تعالیٰ نے بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ کا علم سارے عالم پر ایسا محیط ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو چیز بھی ہے اس کو سب معلوم ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے، کوئی ذرہ مخلوقات کا اس کے علم سے باہر نہیں، اور یہ علم محیط حق تعالیٰ کی خصوصیت ہے کسی مخلوق کو خواہ فرشتہ ہو یا پیغمبر ایسا علم محیط کہ کوئی ذرہ جہاں کا اس سے خارج نہ ہو حاصل نہیں ہو سکتا۔ اور جس ذات کو ایسا علم محیط حاصل ہو اس کے لئے ایک انسان کے ذرات کو الگ الگ سارے جہان میں سے جمع کرلینا اور اس سے ان کے اجسام کو دوبارہ مرکب کردینا کیا مشکل ہے۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِيْنَا السَّاعَۃُ ٠ ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُمْ ٠ ۙ عٰلِمِ الْغَيْبِ ٠ ۚ لَا يَعْزُبُ عَنْہُ مِثْـقَالُ ذَرَّۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرُ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ٣ ۤ ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - عزب - العَازِبُ : المتباعد في طلب الکلإ عن أهله، يقال : عَزَبَ يَعْزُبُ ويَعْزِبُ «3» . قال تعالی: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ [يونس 61] ،- ( ع ز ب ) عزب - العازب وہ آدمی جو گھاس کی تلاش میں اپنے اہل عیال سے دور نکل جائے عزب یعزب ویعزب ( ض ن ) دور نکل جانا پوشیدہ ہوجا نا ۔ قرآن میں ہے : ۔- وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ۔- مِثْقَال - : ما يوزن به، وهو من الثّقل، وذلک اسم لکل سنج قال تعالی: وَإِنْ كانَ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنا بِها وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] ، وقال تعالی: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 6- 7] ، فإشارة إلى كثرة الخیرات، وقوله تعالی: وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة 8] ، فإشارة إلى قلّة الخیرات .- والثقیل والخفیف يستعمل علی وجهين :- أحدهما علی سبیل المضایفة، وهو أن لا يقال لشیء ثقیل أو خفیف إلا باعتباره بغیره، ولهذا يصحّ للشیء الواحد أن يقال خفیف إذا اعتبرته بما هو أثقل منه، و ثقیل إذا اعتبرته بما هو أخفّ منه، وعلی هذه الآية المتقدمة آنفا .- والثاني أن يستعمل الثقیل في الأجسام المرجّحة إلى أسفل، کالحجر والمدر، والخفیف يقال في الأجسام المائلة إلى الصعود کالنار والدخان، ومن هذا الثقل قوله تعالی: اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] .- المثقال ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے چناچہ ہر باٹ کو مثقال کہہ سکتے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 6- 7] تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لیگا تو جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور آیت کریمہ :۔ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة 8] اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے ۔ میں وزن کے ہلکا نکلنے سے اعمال حسنہ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ ثقیل اور خفیف کے الفاظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں ایک بطور مقابلہ کے یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے اعتبار سے ثقیل یا خفیف کہہ دیا جاتا ہے چناچہ مذکورہ بالاآیت میں نہی معنی مراد ہیں اور دوسرے یہ کہ جو چیزیں ( طبعا) نیچے کی طرف مائل ہوتی ہیں انہیں ثقیل کہا جاتا ہے جیسے حجر مدر وغیرہ اور جو چیزیں ( طبعا) اوپر کو چڑھتی ہیں جیسے آگ اور دہواں انہیں حفیف کہا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] تو تم زمین پر گر سے جاتے ہو ۔ میں زمین پر گرنا دوسرے معنی کے اعتبار سے ہے ۔- ذَرَّةٍ- [ النساء 40] ، وقد قيل : أصله الهمز، وقد تذکر بعد في بابه .- ذرأ - الذَّرْءُ : إظهار اللہ تعالیٰ ما أبداه، يقال : ذَرَأَ اللہ الخلق، أي : أوجد أشخاصهم . قال تعالی:- وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ كَثِيراً مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ [ الأعراف 179] ، وقال : وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعامِ نَصِيباً [ الأنعام 136] ، وقال : وَمِنَ الْأَنْعامِ أَزْواجاً يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ [ الشوری 11] ، وقرئ : ( تذرؤه الرّياح) «3» ، والذُّرْأَة : بياض الشّيب والملح .- فيقال : ملح ذُرْآنيّ ، ورجل أَذْرَأُ ، وامرأة ذَرْآءُ ، وقد ذَرِئَ شعره .- ( ذ ر ء ) الذرء - کے معنی ہیں اللہ نے جس چیز کا ارادہ کیا اسے ظاہر کردیا ۔ کہا جاتا ہے ۔ یعنی ان کے اشخاص کو موجود کیا قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ كَثِيراً مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ [ الأعراف 179] اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں ۔ وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعامِ نَصِيباً [ الأنعام 136] اور یہ لوگ ) خدا ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں ( یعنی ) کھیتی اور چوپایوں میں خدا کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں وَمِنَ الْأَنْعامِ أَزْواجاً يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ [ الشوری 11] اور چار پایوں کے بھی جوڑے بنادے اور اسی طریق پر تم کو پھیلاتا رہتا ہے ۔ اور تَذْرُوهُ الرِّياحُ [ الكهف 45] میں ایک قراءت بھی ہے ۔ الذرؤۃ ۔ بڑھاپے یا نمک کی سفیدی ۔ کہاجاتا ہے ملح ذرانی نہایت سفید نمک اور جس کے بال سفید ہوجائیں اسے رجل اذرء کہاجاتا ہے اس کی مونث ذرآء ہے ۔ ذری شعرہ روذرء کفرح ومنع) اس کے بال سفید ہوگئے ۔- صغر - الصِّغَرُ والکبر من الأسماء المتضادّة التي تقال عند اعتبار بعضها ببعض، فالشیء قد يكون صَغِيراً في جنب الشیء، وكبيرا في جنب آخر .- وقد تقال تارة باعتبار الزّمان، فيقال : فلان صَغِيرٌ ، وفلان کبير : إذا کان ما له من السّنين أقلّ ممّا للآخر، وتارة تقال باعتبار الجثّة، وتارة باعتبار القدر والمنزلة، وقوله : وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ [ القمر 53] ، - ( ص غ ر ) الصغریہ - الکبر کی ضد ہے جو کہ ایک دوسرے کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں ایک ہی چیز دوسری چیز کے مقابلہ میں صغیر ہوتی ہے اور وہی کبھی اور چیز کے مقابلہ میں کبیر کہلاتی ہے پھر صغیر وکبیر کا اطلاق کبھی تو باعتبار زمانہ کے ہوتا ہے ۔ یعنی ایک شخص دوسرے سے عمر میں چھوٹا ہوتا ہے اور دوسرا بڑا اور کبھی باعتبار جسامت کے اور کبھی بلحاظ قدر ومنزلت کے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ [ القمر 53] یعنی ہر چھوٹا اور بڑا کام لکھ دیا گیا ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو
اور کفار مکہ یعنی ابو جہل اور اس کے ساتھی وغیرہ کہتے ہیں کہ قیامت قائم نہ ہوگی۔- آپ ان سے فرما دیجیے کہ کیوں نہیں قیامت ضرور قائم ہوگی قسم ہے اپنے پروردگار عالم الغیب کی وہ ضرور تم پر آئے گی۔- بندوں کے اعمال میں سے اللہ تعالیٰ کے علم سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی پوشیدہ نہیں اور نہ کوئی چیز اس مقدار مذکور سے چھوٹی ہے اور نہ کوئی بڑی ہے مگر یہ سب لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔
آیت ٣ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَۃُ ” اور یہ کافر کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت کبھی نہیں آئے گی۔ “- عام طور پر ” السَّاعۃ “ کا ترجمہ قیامت ہی کردیا جاتا ہے ‘ مگر جیسا کہ سورة لقمان کی آیت ٣٤ کے ضمن میں بھی بتایا جا چکا ہے السَّاعۃ اور قیامت دو مختلف الفاظ ہیں اور دونوں کے معانی بھی الگ الگ ہیں۔ السَّاعۃ سے مراد وہ خاص گھڑی ہے جب زمین میں ایک عظیم زلزلہ برپا ہوگا ‘ ستاروں اور سیاروں کا پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور دنیا مکمل طور پر تباہ ہوجائے گی۔ جبکہ القیامۃ اس کے بعد کی کیفیت کا نام ہے جب دنیا دوبارہ نئی شکل میں پیدا ہوگی اور تمام انسانوں کو زندہ کر کے ایک جگہ اکٹھے کرلیا جائے گا۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ کائنات ابدی ہے اور اس کا اختتام ممکن نہیں ‘ لیکن اب فزکس کے میدان میں نئی نئی تحقیقات کی روشنی میں سائنسدانوں کا جو نیا موقف سامنے آیا ہے وہ بھی یہی ہے کہ یہ کائنات ابدی نہیں ہے ‘ اس کا اختتام ایک ّمسلمہ حقیقت ہے اور یہ کہ جس طرح اپنے آغاز کے بعد یہ ایک پھلجھڑی کی طرح پھیلتی رہی ہے ‘ اسی طریقے سے اختتام پذیر ہوجائے گی۔- قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّکُمْ عٰلِمِ الْغَیْبِ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہیے ‘ کیوں نہیں میرے رب کی قسم ‘ جو تمام پوشیدہ چیزوں کو جاننے والا ہے ‘ وہ تم پر ضرور آکر رہے گی۔ “- لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ ” اس سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ذرّہ برابر بھی کوئی چیز نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں “- وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْبَرُ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ” اور نہ کوئی اس سے چھوٹی چیز اور نہ بڑی ‘ مگر وہ ایک روشن کتاب میں (لکھی ہوئی) موجود ہے۔ “- یہ قیامت کیوں آئے گی ؟ اس کا منطقی جواز کیا ہے ؟ اس کا جواب اگلی آیات میں دیا گیا ہے۔
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :5 یہ بات وہ طنز اور تمسخر کے طور پر چندرا چَندرا کر کہتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بہت دنوں سے یہ پیغمبر صاحب قیامت کے آنے کی خبر سنا رہے ہیں ، مگر کچھ خبر نہیں کہ وہ آتے آتے کہاں رہ گئی ۔ ہم نے اتنا کچھ انہیں جھٹلایا ، اتنی گستاخیاں کیں ، ان کا مذاق تک اڑایا ، مگر وہ قیامت ہے کہ کسی طرح نہیں آ چکتی ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :6 پروردگار کی قسم کھاتے ہوئے اس کے لیے عالم الغیب کی صفت استعمال کرنے سے خود بخود اس امر کی طرف اشارہ ہو گیا کہ قیامت کا آنا تو یقینی ہے مگر اس کے آنے کا وقت خدائے عالم الغیب کے سوا کسی کو معلوم نہیں ۔ یہی مضمون قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان ہوا ہے ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، 187 ۔ طٰہٰ ، 15 ۔ لقمان 34 ۔ الاحزاب ، 63 ۔ الملک ، 25 ۔ 26 ۔ النازعات ، 42 یا 44 ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :7 یہ امکان آخرت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے ۔ جیسا کہ آگے آیت نمبر7 میں آ رہا ہے ، منکرین آخرت جن وجوہ سے زندگی بعد موت کو بعید از عقل سمجھتے تھے ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ جب سارے انسان مر کر مٹی میں رل مل جائیں گے اور ان کا ذرہ ذرہ منتشر ہو جائے تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ یہ بے شمار اجزا پھر سے اکٹھے ہوں اور ان کو جوڑ کر ہم دوبارہ اپنے انہی اجسام کے ساتھ پیدا کر دیے جائیں ۔ اس شبہ کو یہ کہہ کر رفع کیا گیا ہے کہ ہر ذرہ جو کہیں گیا ہے ، خدا کے دفتر میں اس کا اندراج موجود ہے اور خدا کو معلوم ہے کہ کیا چیز کہاں گئی ہے ۔ جب وہ دوبارہ پیدا کرنے کا ارادہ کرے گا تو اسے ایک ایک انسان کے اجزائے جسم کو سمیٹ لانے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی ۔
1: جو کافر لوگ آخرت کی زندگی کا انکار کرتے تھے، اُن کا کہنا یہ تھا کہ اِنسان کے مٹی میں مل جانے کے بعد اس کو از سرِ نو زندگی دینا کیسے ممکن ہے؟ ان آیتوں میں جواب یہ دیا جارہا ہے کہ تم اﷲ تعالیٰ کے علم اور قدرت کو اِنسان پر قیاس کر رہے ہو۔ اﷲ تعالیٰ کا علم تو اس کائنات کے ہر چھوٹے سے چھوٹے ذرّے کا بھی اِحاطہ کئے ہوئے ہے، اور جو ذات آسمان و زمین جیسی عظیم الشان مخلوقات کو بالکل عدم سے وجود میں لا سکتی ہے، اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ مردہ جسم کے ذرّات کو دوبارہ اِکٹھا کر کے اُنہیں نئی زندگی عطا کردے؟ اور آیت نمبر:۴ میں آخرت کی زندگی کی عقلی ضرورت بھی بیان فرمائی گئی ہے۔ اگر یہ دُنیا ہی سب کچھ ہے، اور کوئی دوسری زندگی آنے والی نہیں ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فرماں برداروں اور نافرمانوں میں کوئی فرق ہی نہیں رکھا، آخرت کی زندگی اس لئے ضروری ہے تاکہ اُس میں فرماں براداروں کو اُن کی نیکی کا انعام دیا جائے، اور نافرمانوں کو سزا ملے۔