Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 محاریب محراب کی جمع ہے مطلب ہے بلند محلات، عالی شان عمارتیں یا مساجد و تصویریں۔ یہ تصویریں غیر حیوان چیزوں کی ہوتی تھیں، بعض کہتے ہیں کہ انبیاء (علیہ السلام) کی تصاویر مسجدوں میں بنائی جاتی تھیں تاکہ انھیں دیکھ کر لوگ بھی عبادت کریں۔ یہ معنی اس صورت میں صحیح ہے جب تسلیم کیا جائے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شریعت میں تصویر سازی کی اجازت تھی جو صحیح نہیں۔ تاہم اسلام میں تو نہایت سختی کے ساتھ اس کی ممانعت ہے۔ جفان، جفنۃ کی جمع ہے لگن جواب، جابیۃ کی جمع ہے حوض جس میں پانی جمع کیا جاتا ہے یعنی حوض جتنے بڑے بڑے لگن قدور دیگیں، راسیات جمی ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دیگیں پہاڑوں کو تراش کر بنائی جاتی تھیں جنہیں ظاہر ہے اٹھا کر ادھر ادھر نہیں لے جایا جاسکتا تھا اس میں بیک وقت ہزاروں افراد کا کھانا پک جاتا تھا یہ سارے کام جنات کرتے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢١] یہ جنات حضرت سلیمان کے آرڈر کے مطابق بڑے بڑے محل، مساجد، قلعے، مختلف مسجدوں کے ماڈل یا سینیریوں کے ماڈل، بڑے بڑے لگن اور اتنی بڑی دیگیں بناتے تھے جو بڑی بوجھل اور ناقابل حمل و نقل ہونے کی وجہ کسی خاص مقام پر نصب کردی جاتی تھیں اور ان میں حضرت سلیمان کے لشکروں کے لئے کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ بعض لوگوں نے جنوں یا شیاطین سے دیہاتی مضبوط قسم کے انسان مراد لئے ہیں یہ توجیہہ غلط اور قرآن کے سیاق وسباق کے خلاف ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے سورة انبیاء کی آیت ٨٢ کا حاشیہ)- [ ٢٢] یعنی ایسے عمل کرو جو شکرگزار بندے کیا کرتے ہیں۔ شکر گزار بندے ایک تو وہ ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں اور اس کی نعمتوں کا ہر ایک سامنے برملا اعتراف کرتے ہیں۔ پھر وہ جو کام بھی کرتے ہیں اللہ کی مرضی کے مطابق کرتے ہیں اور اس کی رضا کے لئے کرتے ہیں۔ اور شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوتے ہیں اور جو چیز تھوڑی ہو اس کی قدرو منزلت بڑھ جاتی ہے۔ یعنی اگر تم شکرگزار بن جاؤ گے تو میرے ہاں تمہاری قدرومنزل اور بڑھ جائے گی۔ کہتے ہیں کہ اس حکم کے بعد داود نے دن اور رات کے پورے اوقات اپنے گھر والوں پر تقسیم کر رکھے تھے اور کوئی وقت ایسا نہ ہوتا تھا جبکہ آپ کے گھر کا کوئی نہ کوئی اللہ کی عبادت میں مصروف نہ رہتا ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَاۗءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ :” مَّحَارِيْبَ “ ” مِحْرَابٌ“ کی جمع ہے، یہ ” حَرْبٌ“ سے ” مِفْعَالٌ“ کے وزن پر ہے، جو آلہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اصل معنی اس کا جنگ کا آلہ یا ہتھیار ہے، پھر یہ لفظ کئی معانی میں استعمال ہونے لگا، جن سب معانی میں کسی نہ کسی طرح جنگ کا مفہوم شامل ہے۔ چناچہ قلعہ اور بڑی عالی شان عمارت کو بھی ” محراب “ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں رہ کر دشمن سے جنگ کی جاتی ہے۔ عبادت کے لیے خاص کمرے کو بھی ” محراب “ کہتے ہیں، کیونکہ وہ شیطان سے جنگ میں مددگار ہے، جیسا کہ زکریا (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (فَنَادَتْهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَھُوَ قَاۗىِٕمٌ يُّصَلِّيْ فِي الْمِحْرَابِ ) [ آل عمران : ٣٩ ] ” تو فرشتوں نے اسے آواز دی، جب کہ وہ عبادت خانے میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا۔ “ داؤد (علیہ السلام) کی عبادت کے لیے مخصوص جگہ کو بھی ” محراب “ کہا گیا ہے، فرمایا : (وَهَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ ۘ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ ) [ ص : ٢١ ] ” اور کیا تیرے پاس جھگڑنے والوں کی خبر آئی ہے، جب وہ دیوار پھاند کر عبادت خانے میں آگئے۔ “ - سلیمان (علیہ السلام) کی سیرت میں سب سے نمایاں وصف جہاد ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں انسانوں، جنوں اور پرندوں کی فوجیں عطا فرما رکھی تھیں۔ جنگی ضروریات کی تیاری اور فراہمی سے انھیں خاص دلچسپی تھی، چناچہ گھوڑوں کی دوڑ کروانے کے بعد ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر محبت سے ہاتھ پھیرنے کا ذکر سورة ص (٣٠ تا ٣٣) میں ہے۔ یہ سن کر کہ زمین کے کسی خطے پر شرک کا غلبہ اور مشرک عورت کی حکومت ہے، فوراً جہاد کے لیے تیار ہوجانے کا ذکر ملکہ سبا کے قصے میں ہے۔ (دیکھیے سورة نمل) ظاہر ہے اس کے لیے ہر قسم کا جنگی سازو سامان تیار کرنا ضروری تھا، اسے ذخیرہ کرنے کے لیے بڑی بڑی عمارتوں کی ضرورت تھی، دشمن کے علاقے میں پیش قدمی، اس پر حملے اور جنگ کے لیے ان شہروں کے نقشے اور اہم عمارتوں کے ماڈل بہم پہنچانا ضروری تھا۔ بڑی تعداد میں فوجوں کے لیے کھانا پکانے، تقسیم کرنے اور اس کے لیے برتن مہیا کرنے کا کام بہت بڑا کام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام کاموں کے لیے انسانوں اور پرندوں کے علاوہ جنوں کو بھی سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا۔ اگر ان میں سے کوئی ان کے حکم سے سرتابی کرتا، تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آگ کے شعلوں کے ساتھ سزا دی جاتی تھی۔ چناچہ وہ ان کی جنگی ضروریات کے لیے دور دراز سے ہر قسم کا عمارتی سامان پتھر، مرمر، لکڑی اور لوہا وغیرہ مہیا کرتے اور ان کے ساتھ بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرتے۔ ان عمارتوں میں مسجد اقصیٰ کی عمارت بھی شامل تھی۔- وَتَمَاثِيْلَ : یہ ” تِمْثَالٌ“ کی جمع ہے، کسی دوسری چیز کی مثل جو چیز بنائی جائے، خواہ جان دار کی ہو یا بےجان کی، ماڈل اور مجسّمہ کی شکل میں ہو، یا کاغذ پر تصویر کی شکل میں ہو۔ جنّات سلیمان (علیہ السلام) کے لیے کس قسم کی تماثیل بناتے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی تفصیل نہیں آئی، بعض مفسرین نے اس کی تفصیل میں جو جان دار اشیاء، مثلاً شیر، چیتے وغیرہ کی تصاویر یا مجسّمے بنانے کا ذکر کیا ہے، وہ ان کی سنی سنائی بات ہے، کیونکہ نہ انھوں نے یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے، نہ وہ سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ رہے ہیں اور نہ اپنی معلومات کا ذریعہ بتاتے ہیں، جو سلیمان (علیہ السلام) تک پہنچتا ہو۔ - آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ جنات سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے وہ محاریب اور تماثیل بناتے تھے جو وہ چاہتے تھے۔ ظاہر ہے اللہ کا اتنا جلیل القدر پیغمبر شیروں، ہاتھیوں اور چیتوں یا انسانوں کے لاحاصل مجسّمے بنوائے، ممکن ہی نہیں، خصوصاً اس لیے کہ وہ جس تورات کے احکام پر عامل تھے اس میں جان دار اشیاء کی مورتیاں بنانا حرام تھا۔ حرمت کا یہ حکم اب بھی تورات میں متعدد مقامات پر موجود ہے : ” تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا، نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ “ (خروج، باب : ٢٠، آیت : ٤) اور ایک جگہ ہے : ” تم اپنے لیے بت نہ بنانا اور نہ کوئی تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لیے کھڑی کرنا اور نہ ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اسے سجدہ کرو، اس لیے کہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ “ (احبار، باب : ٢٦، آیت ١) ایک اور جگہ ہے : ” تانہ ہو کہ تم بگڑ کر کسی شکل یا صورت کی کھودی ہوئی مورت اپنے لیے بنا لو، جس کی شبیہ کسی مرد یا عورت یا زمین کے کسی حیوان یا ہوا میں اڑنے والے پرندے یا زمین کے رینگنے والے جان دار یا مچھلی سے جو زمین کے نیچے پانی میں رہتی ہو، ملتی ہو۔ “ (استثناء، باب : ٤، آیت : ١٦ تا ١٨) ۔- تورات کی ان صریح آیات سے واضح ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کی طرف جان دار اشیاء کے مجسّمے بنانے کی نسبت ان پر بہتان ہے، جو اسی طرح ان پر لگایا گیا ہے جیسے ان پر جادوگر ہونے کا یا بیویوں کے عشق میں مبتلا ہو کر بت پرستی کا بہتان لگایا گیا ہے، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے اور تورات کے احکام پر پوری طرح عامل تھے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہی ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) جو عمارت بنوانا چاہتے یا جن علاقوں کے نقشے یا عمارتوں کے ماڈل بنوانا چاہتے تھے، جنّات ان کے حکم سے تیار کردیتے تھے۔ اس آیت سے جان دار اشیاء کی تصاویر یا مجسّموں کا جواز نکالنا ہرگز درست نہیں، کیونکہ ان کی حرمت متفق علیہ مسئلہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جان دار اشیاء کی تصاویر کی صریح حرمت اور ان پر وعید کے لیے صحیح بخاری اور دوسری کتب احادیث کا مطالعہ فرمائیں۔ اختصار کے پیش نظر انھیں یہاں نقل نہیں کیا گیا۔ - وَجِفَانٍ كَالْجَــوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍ : ” وَجِفَانٍ “ ” جَفْنَۃٌ“ کی جمع ہے، کھانے کا بڑا برتن، لگن، تھال۔ ” اَلْجَوَابِ “ اصل میں ” اَلْجَوَابِيْ “ ہے جو ” جَابِیَۃٌ“ کی جمع ہے ” حوض “۔ ” قُدُوْرٍ “ ” قِدْرٌ“ کی جمع ہے، ہانڈی، دیگ۔ ” رّٰسِيٰتٍ “ ” رَسَا یَرْسُوْ “ سے اسم فاعل مؤنث ” رَاسِیَۃٌ“ کی جمع ہے۔ قرآن میں پہاڑوں کو ” رّٰسِيٰتٍ “ کہا گیا ہے، زمین میں گڑے ہوئے۔ سلیمان (علیہ السلام) کی فوجوں کی کثرت کے پیش نظر عام دیگیں جتنی بھی ہوں کافی نہیں تھیں، نہ چھوٹے چھوٹے برتن کھانا کھلانے کے لیے کافی تھے، اس لیے جنّات سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ان کی خواہش کے مطابق پکانے کے لیے تانبے وغیرہ کی یا پہاڑوں کو تراش کر پتھر کی اتنی بڑی بڑی دیگیں تیار کرتے تھے جو ایک ہی جگہ جمی رہتیں۔ انھیں اٹھا کر دوسری جگہ لے جایا نہیں جاسکتا تھا۔ ان میں سے ہر دیگ میں ہزاروں آدمیوں کا کھانا پکتا تھا اور مجاہدین کو اجتماعی طور پر کھانا کھلانے کے لیے جنّات سلیمان (علیہ السلام) کی حسب منشا اتنے بڑے بڑے لگن یا تھال بناتے تھے جو حوضوں کی طرح لمبے چوڑے ہوتے، جن پر ایک وقت میں بہت سے آدمی کھانا کھالیتے تھے۔ - ایک ہی برتن میں بہت سے آدمیوں کے کھانا کھانے کا یہ معمول ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں بھی موجود تھا۔ عبداللہ بن بسر (رض) بیان کرتے ہیں : ( کَان للنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَصْعَۃٌ یَحْمِلُہَا أَرْبَعَۃُ رِجَالٍ یُقَالُ لَہَا الْغَرَّاءُ فَلَمَّا أَضْحَوْا وَسَجَدُوا الضُّحٰی أُتِيَ بِتِلْکَ الْقَصْعَۃِ یَعْنِيْ وَقَدْ ثُرِدَ فِیْہَا فَالْتَفُّوْا عَلَیْہَا فَلَمَّا کَثُرُوْا جَثَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ مَا ہٰذِہِ الْجِلْسَۃُ ؟ قَال النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَعَلَنِيْ عَبْدًا کَرِیْمًا وَلَمْ یَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا عَنِیْدًا ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کُلُوْا مِنْ حَوَالَیْہَا وَ دَعُوْا ذِرْوَتَہَا یُبَارَکْ فِیْہَا ) [ أبو داوٗد، الأطعمۃ، باب ما جاء في الأکل من أعلی الصحفۃ : ٣٧٧٣، قال الألباني صحیح ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک لگن یا تھال تھا، جسے چار آدمی اٹھاتے تھے، اسے ” غراء “ کہتے تھے۔ جب ضحی ہوئی اور لوگوں نے ضحی کی نماز پڑھ لی تو وہ لگن لایا گیا، اس میں گوشت کے سالن میں روٹی بھگو کر ثرید بنایا گیا تھا۔ لوگ اس کے گرد بیٹھ گئے، جب لوگ زیادہ ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھٹنوں کے بل ہوگئے، ایک اعرابی نے کہا : ” یہ کیا بیٹھنے کا طریقہ ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے مجھے کریم بندہ بنایا ہے، بدبخت و سرکش نہیں بنایا۔ “ پھر فرمایا : ” اس کے اردگرد سے کھاؤ، درمیان کو چھوڑے رکھو کہ اس میں برکت ہو۔ “ ظاہر ہے جس برتن کو چار آدمی اٹھائیں، اس میں سو دو سو آدمیوں کا کھانا تو ضرور ہوگا اور جو برتن حوض جیسا کھلا ہو، اس میں سے کھانے والوں کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ سلیمان (علیہ السلام) کے لیے جنوں کے ان کاموں کے بیان کا مقصد ان کی سلطنت کی وسعت، جہاد کے لیے ان کی افواج کی کثرت، ان کی وسعت قلب، سخاوت اور انسانوں کے علاوہ جنّات پر ان کی ہیبت کا بیان ہے کہ یہ سب کچھ ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام تھا۔- اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا : ” اِعْمَلُوْٓا “ سے پہلے ” قُلْنَا “ اور ” اٰلَ دَاوٗدَ “ سے پہلے حرف ندا ” یَا “ محذوف ہے، جس کی وجہ سے ” ال “ کا لفظ منصوب ہے۔ ” اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا “ مفعول لہ ہے۔ آل داؤد میں ان کے گھر والوں کے ساتھ وہ خود بھی شامل ہیں، یعنی ہم نے کہا، اے داؤد کے گھر والو شکر ادا کرنے کے لیے عمل کرو۔ معلوم ہوا آدمی پر اللہ تعالیٰ کے انعام جتنے زیادہ ہوں، اسے اتنی ہی زیادہ اعمال صالحہ کی کوشش کرنی چاہیے۔ مغیرہ بن شعبہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقیناً نماز کے لیے اتنا قیام کرتے کہ آپ کے دونوں پاؤں، یا (یہ کہا کہ) آپ کی دونوں پنڈلیوں پر ورم آجاتا، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (اس بارے میں) کہا جاتا تو فرماتے : ( أَفَلَا أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا ؟ ) ” تو کیا میں پورا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ “ [ بخاري، التہجد، باب قیام النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللیل : ١١٣٠ ] داؤد (علیہ السلام) کی نماز، ان کے روزوں اور جہاد کا تذکرہ اس سورت کی آیت (١٠) میں گزر چکا ہے۔- وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ : ” الشَّكُوْرُ “ مبالغے کا صیغہ ہے، اس لیے ترجمہ ” پورے شکر گزار “ کیا ہے۔ اس میں ترغیب ہے کہ تم بھی میرے ان قلیل بندوں میں شامل ہونے کی کوشش کرو جو پورے شکر گزار ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) یعملون لہ ما یشاء من محاریب وتماثیل وجفان کالجواب وقدورراسیات، اس آیت میں ان کاموں کی کچھ تفصیل ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) جنات سے لیتے تھے۔ محاریب، محراب کی جمع ہے جو مکان کے اشرف واعلیٰ حصہ کے لئے بولا جاتا ہے، بادشاہ اور بڑے لوگ جو اپنے لئے حکومت کا کمرہ بنائیں اس کو بھی محراب کہا جاتا ہے۔ اور لفظ محراب حرب بمعنی جنگ سے مشتق ہے، کوئی آدمی جو اپنا حکومت کدہ خاص بناتا ہے اس کو دوسروں کی رسائی سے محفوظ رکھتا ہے، اس میں کوئی دست اندازی کرے تو اس کے خلاف لڑائی کرتا ہے۔ اس مناسبت سے مکان کے مخصوص حصہ کو محراب کہتے ہیں۔ مساجد میں امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو بھی اسی امتیاز کی بنا پر محراب کہتے ہیں، اور کبھی خود مساجد کو محاریب کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں محاریب بنی اسرائیل اور اسلام میں محاریب صحابہ سے ان کی مساجد مراد ہوتی ہیں۔- مساجد میں محراب کے لئے مستقل مکان بنانے کا حکم :- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین کے عہد تک امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو ایک علیحدہ مکان کی حیثیت سے بنانے کا رواج نہیں تھا، قرون اولیٰ کے بعد سلاطین نے اس کا رواج اپنے تحفظ کے لئے دیا اور عام مسلمانوں میں اس کا رواج اس مصلحت سے بھی ہوا کہ امام جس جگہ کھڑا ہوتا ہے وہ پوری صف خالی رہتی ہے۔ نمازیوں کی کثرت اور مساجد کی تنگی کے پیش نظر صرف امام کے کھڑے ہونے کی جگہ دیوار قبلہ میں گہری کر کے بنادی جاتی ہے، تاکہ اس کے پیچھے پوری صفوف کھڑی ہو سکیں، چونکہ یہ طریقہ قرون اولیٰ میں نہ تھا اس لئے بعض علماء نے اس کو بدعت کہہ دیا ہے۔ شیخ جلال الدین سیوطی نے اس مسئلہ پر مستقل رسالہ بنام اعلام الارانیب فی بدعة المحاریب لکھا ہے۔ اور تحقیق اور صحیح بات یہ ہے کہ اگر اس طرح کی محرابیں نمازیوں کی سہولت اور مسجد کے مصالح کے پیش نظر بنائیں جائیں اور ان کو سنت مقصودہ نہ سمجھا جائے تو ان کو بدعت کہنے کی کوئی وجہ نہیں، ہاں اس کو سنت مقصودہ بنا لیا جائے اس کے خلاف کرنیوالے پر نکیر ہونے لگے تو اس غلو سے یہ عمل بدعت میں داخل ہوسکتا ہے۔- مسئلہ :- جن مساجد میں محراب امام ایک مستقل مکان کی صورت میں بنائی جاتی ہے وہاں امام پر لازم ہے کہ اس محراب سے کسی قدر باہر اس طرح کھڑا ہو کہ اس کے قدم محراب سے باہر نمازیوں کی طرف رہیں، تاکہ امام اور مقتدیوں کا مکان ایک شمار ہو سکے، ورنہ یہ صورت مکروہ و ناجائز ہے کہ امام الگ مکان میں تنہا کھڑا ہو، اور سب مقتدی دوسرے مکان میں۔ بعض مساجد میں محراب اتنی وسیع و عریض بنائی جاتی ہے کہ ایک مختصر سی صف مقتدیوں کی بھی اس میں آجائے، ایسی محراب میں اگر ایک صف مقتدیوں کی بھی محراب میں کھڑی ہو اور امام ان کے آگے پورا محراب میں کھڑا ہو تو امام و مقتدیوں کے مکان کا اشتراک ہوجانے کی وجہ سے کراہت نہیں رہے گی۔- تماثیل، تمثال کی جمع ہے۔ قاموس میں ہے کہ تمثال فتح التاء مصدر ہے اور بکسر التاء تمثال تصویر کو کہا جاتا ہے۔ ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ تمثال یعنی تصویر دو طرح کی ہوتی ہے، ایک ذی روح جاندار چیزوں کی تصویر، دوسرے غیر ذی روح بےجان چیزوں کی۔ پھر بےجان چیزوں میں دو قسمیں ہیں۔ ایک جماد جس میں زیادتی اور نمو نہیں ہوتا، جیسے پتھر مٹی وغیرہ، دوسرے نامی جس میں نمو اور زیادتی ہوتی رہتی ہے، جیسے درخت اور کھیتی وغیرہ۔ جنات حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ان سب قسم کی چیزوں کی تصویریں بناتے تھے۔ اول تو لفظ تماثیل کے عموم ہی سے یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ یہ تصاویر کسی خاص قسم کی نہیں، بلکہ ہر قسم کے لئے عام تھیں۔ دوسرے تاریخی روایات میں تخت سلیمان پر پرندوں کی تصاویر ہونا بھی مذکور ہے۔- شرح اسلام میں جاندار کی تصویر بنانے اور استعمال کرنے کی ممانعت :- آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شریعت میں جان داروں کی تصاویر بنانا اور استعمال کرنا حرام نہیں تھا، مگر چونکہ پچھلی امتوں میں اس کا مشاہدہ ہوا کہ لوگوں کی تصاویر ان کی یادگار کے طور پر بنائیں اور ان کو اپنے عبادت خانوں میں اس غرض کے لئے رکھا کہ ان کو دیکھ کر ان کی عبادت گزاری کا نقشہ سامنے آئے تو خود ہمیں بھی عبادت کی توفیق ہوجائے گی مگر رفتہ رفتہ ان لوگوں نے انہی تصویروں کو اپنا معبود بنا لیا، اور بت پرستی شروع ہوگئی۔- خلاصہ یہ ہے کہ پچھلی امتوں میں جانداروں کی تصاویر بت پرستی کا ذریعہ بن گئیں، شریعت اسلام کے لئے چونکہ قیامت تک قائم اور باقی رکھنا تقدیر الٰہی ہے، اس لئے اس میں اس کا خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ جس طرح اصل حرام چیزوں اور معاصی کو حرام و ممنوع کیا گیا ہے، اسی طرح ان کے ذرائع اور اسباب قریبہ کو بھی اصل معاصی کے ساتھ ملحق کر کے حرام کردیا گیا ہے۔ اصل جرم عظیم شرک و بت پرستی ہے، اس کی ممانعت ہوئی تو جن راستوں سے بت پرستی آسکتی تھی ان راستوں پر بھی شرعی پہرہ بٹھا دیا گیا اور بت پرستی کے ذرائع اور اسباب قریبہ کو بھی حرام کردیا گیا۔ ذی روح کی تصاویر کا بنانا اور استعمال کرنا اسی اصول کی بنا پر حرام کیا گیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث صحیحہ سے متواتر سے اس کی حرمت ثابت ہے۔- اسی طرح شراب حرام کی گئی تو اس کی خرید، فروخت، اس کو لانے لے جانے کی مزدوری اس کی صنعت سب حرام کردی گئی جو شراب نوشی کے ذرائع ہیں۔ چوری حرام کی گئی تو کسی کے مکان میں بلا اجازت داخل ہونا بلکہ باہر سے جھانکنا بھی ممنوع کردیا گیا زنا حرام کیا گیا تو غیر محرم کی طرف بالقصد نظر کرنے کو بھی حرام کردیا گیا۔ شریعت اسلام میں اس کی بیشمار نظائر موجود ہیں۔- حرمت تصویر پر ایک عام شبہ اور اس کا جواب :- یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں تصاویر کو جس حیثیت سے استعمال کیا جاتا تھا وہ ذریعہ بت پرستی بن سکتی تھی، لیکن آج کل تصویر سے جس طرح کے کام لئے جاتے ہیں، ملزموں کی شناخت، تجارتوں کے خاص مارک، دوستوں عزیزوں سے ملاقات، واقعات و حالات کی تحقیق میں امداد وغیرہ جس کی وجہ سے وہ ضروریات زندگی میں داخل کرلی گئی ہیں اس میں بت پرستی اور عبادت کا کوئی تصور دور دور نہیں، تو یہ ممانعت جو بت پرستی کے خطرہ سے کی گئی تھی اب مرتفع ہوجانی چاہئے۔- جواب یہ ہے کہ اولاً یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ آج کل تصویر ذریعہ بت پرستی نہیں رہی، آج بھی کتنے فرقے اور گروہ ہیں جو اپنے پیرو وں کی تصویر کو پوجا پاٹ کرتے ہیں اور جو حکم کسی علت پر دائر ہو، یہ ضروری نہیں کہ وہ ہر فرد میں پایا جائے۔ اس کے علاوہ تصویر کی ممانعت کا سبب صرف ایک یہی نہیں کہ وہ بت پرستی کا ذریعہ ہے، بلکہ احادیث صحیحہ میں اس کی حرمت کی دوسری وجوہ بھی مذکور ہیں۔ مثلاً یہ کہ تصویر سازی حق تعالیٰ کی صفت خاص کی نقالی ہے، مصور حق تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے اور صورت گری درحقیقت اسی کے لئے سزاوار اور اسی کی قدرت میں ہے کہ مخلوقات کی ہزاروں اجناس اور انواع اور ہر نوع میں اس کے کروڑوں افراد ہوتے ہیں، ایک کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی، انسان ہی کو لے لو تو مرد کی صورت اور عورت کی صورت میں نمایاں امتیاز، پھر عورتوں اور مردوں کے کروڑوں افراد میں دو فرد بالکل یکساں نہیں ہوئے۔ ایسے کھلے ہوئے امتیازات ہوتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو کسی تامل اور غور و فکر کے بغیر ہی امتیاز واضح ہوجاتا ہے۔ یہ صورت گری اللہ رب العزت کے سوا کس کی قدرت میں ہے، جو انسان کسی جاندار کا مجسمہ یا نقوش اور رنگ سے اس کی تصویر بناتا ہے وہ گویا عملی طور پر اس کا مدعی ہے کہ وہ بھی صورت گری کرسکتا ہے۔ اسی لئے صحیح بخاری وغیرہ کی احادیث میں ہے کہ قیامت کے روز تصویریں بنانے والوں کو کہا جائے گا کہ جب تم نے ہماری نقل اتاری تو اس کو مکمل کر کے دکھلاؤ، اگر تمہارے بس میں ہو کہ ہم نے تو صرف صورت ہی نہیں بنائی اس میں روح بھی ڈالی ہے۔ اگر تمہیں اس تخلیق کا دعویٰ ہے تو اپنی بنائی ہوئی صورت میں روح بھی ڈال کر دکھلاؤ۔- ایک سبب تصویر کی ممانعت کا احادیث صحیحہ میں یہ بھی آیا ہے کہ اللہ کے فرشتوں کو تصویر اور کتے سے نفرت ہے جس گھر میں یہ چیزیں ہوتی ہیں، اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے، جس کے سبب اس گھر کی برکت اور نورانیت مٹ جاتی ہے، گھر میں بسنے والوں کو عبادت و اطاعت کی توفیق گھٹ جاتی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ مشہور مقولہ بھی غلط نہیں کہ ” خانہ خالی راد یومی گیرد “ یعنی خالی گھر پر جن بھوت قبضہ کرلیتے ہیں جب کوئی گھر رحمت کے فرشتوں سے خالی ہوگا تو شیاطین اس کو گھیر لیں گے اور ان کے بسنے والوں کے دلوں میں گناہوں کے وسوسے اور پھر ارادے پیدا کرتے رہیں گے۔- ایک سبب بعض احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ تصویریں دنیا کی زائد از ضرورت زینت ہیں اور اس زمانے میں جس طرح تصاویر سے بہت سے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں ہزاروں جرائم اور فحاشی بھی انہی تصاویر سے جنم لیتے ہیں۔ غرض شریعت اسلام نے صرف ایک وجہ سے نہیں، بہت سے اسباب پر نظر کر کے جاندار کی تصاویر بنانے اور اس کے استعمال کرنے کو حرام قرار دے دیا ہے۔ اب اگر کسی خاص فرد میں فرض کرلیں کہ وہ اسباب اتفاق سے موجود نہ ہوں تو اس اتفاقی واقعہ سے قانون شرعی نہیں بدل سکتا۔- صحیح و بخاری و مسلم میں بروایت عبداللہ بن مسعود یہ حدیث آئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اشد الناس عذاباً یوم القیمة المصورون، یعنی سب سے زیادہ سخت عذاب میں قیامت کے روز تصویر بنانے والے ہوں گے۔- اور بعض روایات حدیث میں تصویر بنانے والوں پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی ہے، اور صحیحین میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کل مصور فی النار، الحدیث، یعنی ہر مصور جہنم میں جائے گا۔- اس مسئلہ کے متعلق روایات حدیث اور تعامل سلف کے شواہد تفصیل کے ساتھ احقر نے اپنے رسالہ ” التصویر الاحکام التصویر “ میں جمع کردیئے ہیں، اور لوگوں کے شبہات کے جوابات بھی اس میں مفصل ہیں، ضرورت ہو تو اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔- فوٹو کی تصویر بھی تصویر ہی ہے :- بعض لوگوں کا یہ کہنا قطعاً غلط ہے کہ فوٹو تصویر سے خارج ہے، کیونکہ وہ تو ظل اور عکس ہے، جیسے آئینہ اور پانی وغیرہ میں آجاتا ہے تو جس طرح آئینہ میں اپنی صورت دیکھنا جائز ہے ایسے ہی فوٹو کی تصویر بھی جائز ہے۔ جواب واضح ہے کہ عکس اور ظل اس وقت تک عکس ہے جب تک وہ کسی ذریعہ سے قائم اور پائدار نہ بنا لیا جائے، جیسے آئینہ یا پانی میں اپنا عکس جس وقت پانی کے مقابلہ سے آپ ہٹ جائیں گے ختم ہوجائے گا، اگر آئینہ کے اوپر کسی مسالہ یا آلہ کے ذریعہ اس صورت کے عکس کو پائیدار بنادیا جائے تو یہی تصویر ہوجائے گی، جس کی حرمت و ممانعت احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔ فوٹو کی مفصل بحث بھی رسالہ مذکور التصویر میں لکھ دی گئی ہے۔- جفان، جفنہ کی جمع ہے، جو پانی کے بڑے برتن جیسے تشلہ یا ٹب وغیرہ کو کہا جاتا ہے۔ کالجواب، جابیہ کی جمع ہے، چھوٹے حوض کو جابیہ کہتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ پانی بھرنے کے بڑے برتن ایسے بناتے ہیں جس میں چھوٹے حوض کے برابر پانی آتا ہے۔ قدور قدر بکسر القاف کی جمع ہے، ہنڈیا کو کہا جاتا ہے۔- راسیات، اپنی جگہ ٹھہری ہوئی۔ مراد یہ ہے کہ اتنی وزنی اور بڑی دیگیں بناتے تھے جو ہلائے نہ ہلیں، اور ممکن ہے کہ یہ دیگیں پتھر سے تراش کر پتھر ہی کے چولہوں پر لگی ہوئی بناتے ہوں جو ناقابل حمل و نقل ہوں۔ امام تفسیر ضحاک نے قدور راسیات کی یہی تفسیر کی ہے۔- (آیت) اعملوا آل داؤد شکراً و قلیل من عبادی الشکور، حضرت داؤد سلیمان (علیہما السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے نوازا اور مخصوص انعامات عطا فرمائے، ان کا بیان فرمانے کے بعد ان کو مع ان کے اہل و عیال کے شکر گزاری کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے۔- شکر کی حقیقت اور اس کے احکام :- قرطبی نے فرمایا کہ شکر کی حقیقت یہ ہے کہ اس کا اعتراف کرے کہ یہ نعمت فلاں منعم نے دی ہے اور پھر اس کو اس کی اطاعت ومرضی کے مطابق استعمال کرے، اور کسی کی دی ہوئی نعمت کو اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرنا ناشکری اور کفران نعمت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شکر جس طرح زبان سے ہوتا ہے اسی طرح عمل سے بھی شکر ہوتا ہے، اور عملی شکر اس نعمت کا منعم کی اطاعت ومرضی کے مطابق استعمال ہے اور ابو عبدالرحمن اسلمی نے فرمایا کہ نماز شکر ہے، روزہ شکر ہے اور ہر نیک کام شکر ہے، اور محمد بن کعب قرظی نے فرمایا کہ شکر تقویٰ اور عمل صالح کا نام ہے، (ابن کثیر) ۔- آیت مذکورہ میں قرآن حکیم نے حکم شکر کے لئے مختصر لفظ اشکرونی کے بجائے اعملوا شکراً استعمال فرما کر شاید اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ آل داؤد سے مطلوب شکر عملی ہے، چناچہ اس حکم کی تعمیل حضرت داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) اور ان کے خاندان نے قول و عمل دونوں سے اس طرح کی کہ ان کے گھر میں کوئی وقت ایسا نہ گزرتا تھا جس میں گھر کا کوئی فرد اللہ کی عبادت میں نہ لگا ہوا ہو۔ افراد خاندان پر اوقات تقسیم کردیئے گئے تھے۔ اس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کا مصلیٰ کسی وقت نماز پڑھنے والے سے خالی نہ رہتا تھا۔ (ابن کثیر)- بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نمازوں میں اللہ کے نزدیک محبوب تر نماز داؤد (علیہ السلام) کی ہے، وہ نصف رات سوتے تھے پھر ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے تھے، پھر آخری چھٹے حصہ میں سوتے تھے اور سب روزوں میں محبوب تر اللہ کے نزدیک صیام داؤد (علیہ السلام) ہیں کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ (ابن کثیر)- حضرت فضیل سے منقول ہے کہ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) پر یہ حکم شکر نازل ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا اے میرے پروردگار میں آپ کا شکر کس طرح پورا کرسکتا ہوں جب کہ میرا شکر قولی ہو یا عملی وہ بھی آپ ہی کی عطا کردہ نعمت ہے، اس پر بھی مستقل شکر واجب ہے۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : الان شکرتنی یا داؤد، یعنی اے داؤد اب آپ نے شکر ادا کردیا، کیونکہ حق شکر ادا کرنے اپنے عجز و قصور کو سمجھ لیا اور اعتراف کرلیا۔- حکیم ترمذی اور امام ابوبکر جصاص نے حضرت عطاء بن یسار سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اعملوا آل داؤد شکراً تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف لائے اور اس آیت کو تلاوت فرمایا پھر ارشاد فرمایا کہ تین کام ایسے ہیں کہ جو شخص ان کو پورا کرلے تو جو فضیلت آل داؤد کو عطا کی گئی تھی وہ اس کو بھی مل جائے گی۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ وہ تین کام کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ رضا اور غضب کی دونوں حالتوں میں انصاف پر قائم رہنا، اور غنا اور فقر کی دونوں حالتوں میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا، اور خفیہ اور علانیہ دونوں حالتوں میں اللہ سے ڈرنا (قرطبی احکام القرآن، جصاص)- وقلیل من عبادی الشکور، شکر کے حکم اور تاکید کے بعد اس واقعہ کا بھی اظہار فرما دیا کہ میرے بندوں میں شکر گزار کم ہی ہوں گے۔ اس میں بھی مومن کے لئے تنبیہ اور تحریض ہے شکر پر۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَعْمَلُوْنَ لَہٗ مَا يَشَاۗءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيْلَ وَجِفَانٍ كَالْجَــوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍ۝ ٠ ۭ اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا۝ ٠ ۭ وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ۝ ١٣- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - حرب - الحَرْبُ معروف، والحَرَب : السّلب في الحرب ثم قد سمّي كل سلب حربا، قال :- والحرب فيه الحرائب، وقال :- والحرب مشتقة المعنی من الحرب - «5» وقد حُرِبَ فهو حَرِيب، أي : سلیب، والتّحریب : إثارة الحرب، ورجل مِحْرَب، كأنه آلة في الحرب، والحَرْبَة : آلة للحرب معروفة، وأصله الفعلة من الحرب أو من الحراب، ومِحرابُ المسجد - قيل : سمّي بذلک لأنه موضع محاربة الشیطان والهوى، وقیل : سمّي بذلک لکون حقّ الإنسان فيه أن يكون حریبا من أشغال الدنیا ومن توزّع الخواطر، وقیل : الأصل فيه أنّ محراب البیت صدر المجلس، ثم اتّخذت المساجد فسمّي صدره به، وقیل : بل المحراب أصله في المسجد، وهو اسم خصّ به صدر المجلس، فسمّي صدر البیت محرابا تشبيها بمحراب المسجد، وكأنّ هذا أصح، قال عزّ وجل :- يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ 13] .- والحِرْبَاء : دویبة تتلقی الشمس كأنها تحاربها، والحِرْبَاء : مسمار، تشبيها بالحرباء التي هي دویبة في الهيئة، کقولهم في مثلها : ضبّة وکلب، تشبيها بالضبّ والکلب .- ( ح ر ب ) الحرب جنگ کا راز ۔ اور فتحۃ را کے ساتھ لڑائی میں کسی کا مال چھیننے کے ہیں پھر ہر قسم کے سب کے حرب کہاجاتا ہے اور حرب معنوی لحاظ سے حرب سے مشتق ہے کہا جاتا ہے ۔ حرب الرجل ان کا سامان چھین لیا گیا فھو حریب یعنی لٹا ہوا ۔ التحریب لڑائی کا بھڑکا نا ۔ رجل محرب جنگجو گویا وہ لڑائی بھڑکانے کا آلہ ہے ۔ الحربۃ بر چھا ۔ اصل میں یہ حرب یا حراب سے فعلۃ کے وزن پر ہے اور مسجد کے محراب کو محراب یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ شیطان اور خواہشات نفسانی سے جنگ کرنے کی جگہ ہے اور یا اس لئے کہ اس جگہ میں کھڑے ہو کر عبادت کرنیوالے پر حق یہ ہے کہ دنیوی کاروبار ۔ اور پریشان خیالیوں سے یک سو ہوجانے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اصل میں محراب البیت صدر مجلس کو کہتے ہیں اسی بنا پر جب مسجد میں امام کی گہ بنائی گئی تو اسے بھی محراب کہہ دیا گیا ۔ اور بعض نے اس کے برعکس محراب المسجد کو اصل اور محراب البیت کو اس کی فرع نانا ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ 13] وہ جو چاہتے یہ ان کے لئے بناتے یعنی محراب اور مجسمے ۔ الحرباء گرگٹ کیونکہ وہ سورج کے سامنے اس طرح بیٹھ جاتی ہے گویا اس سے جنگ کرنا چاہتی ہے نیز زرہ کے حلقہ یا میخ کو بھی صوری مشابہت کی بنا پر حرباء کہاجاتا ہے جیسا کہ ضب اور کلب کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے اس کی بعض حصوں کو ضبہ اور کلب کہہ دیتے ہیں ۔ - جفن - الجَفْنَة خصت بوعاء الأطعمة، وجمعها جِفَان، قال عزّ وجل : وَجِفانٍ كَالْجَوابِ [ سبأ 13] ، وفي حدیث «وأنت الجفنة الغرّاء» «2» أي : المطعام، وقیل للبئر الصغیرة جفنة تشبيها بها، والجِفْن خصّ بوعاء السیف والعین، وجمعه أجفان، وسمي الکرم جفنا تصوّرا أنّه وعاء العنب .- ( ج ف ن ) الجفنۃ ۔ پیالہ ۔ خاص کر کھانے کے برتن کو کہتے ہیں ج جفان قرآن میں ہے :۔ وَجِفانٍ كَالْجَوابِ [ سبأ 13] وجفان کالجواب (34 ۔ 13) اور لگن جیسے بڑی حوض ۔ حدیث میں ہے (63) وانت الجفنۃ الغرا سخی سردار ہو ۔ اور لگن کے ساتھ تشبیہ دے کر چھوٹے کنوئیں کو بھی جفنۃ کہا جاتا ہے ؛۔ الجفن اس کے معنی خاص کر تلوار ک نیام یا آنکھ کے پیوٹے کے آتے ہیں ج اجفان اور انگور کی بیل کو بھی جفن کہا جاتا ہے گو یا وہ انگور کے لئے بمنزلہ برتن کے ہے ۔- جوب - الجَوْبُ : قطع الجَوْبَة، وهي کا لغائط من الأرض، ثم يستعمل في قطع کلّ أرض، قال تعالی: وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر 9] ، ويقال : هل عندک جَائِبَة خبر - ( ج و ب ) الجوب رض ) اس کے اصل معنی جو بہ قطع کرنے کے میں اور یہ پست زمین کی طرح گڑھاسا ) ہوتا ہے ۔ پھر ہر طرح زمین کے قطع کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر 9] اور غمود کے ساتھ کیا کیا جو وادی ( قریٰ ) میں پتھر تراشتے اور مکانات بناتے تھے ۔ الجائبتہ ۔ پھیلنے والی ) محاورہ ہے ھن عندک من جایبتہ خبر ۔ کیا تمہارے پاس کوئی نشر ہونے والی خبر ہے ۔- قِدْرُ- : اسم لما يطبخ فيه اللّحم، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ- [ سبأ 13] ، وقَدَرْتُ اللّحم : طبخته في الْقِدْرِ ، والْقَدِيرُ : المطبوخ فيها، والْقُدَارُ : الذي ينحر ويُقْدَرُ ، قال الشاعر : ضرب القدار نقیعة القدّام - القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔- رسا - يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] ، وقال تعالی: ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها وَمُرْساها - من : أجریت، وأَرْسَيْتُ ، فالمُرْسَى يقال للمصدر، والمکان، والزمان، والمفعول، وقرئ : ( مجريها ومرسيها) - ( ر س و ) رسا الشئی - ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ اور قرآن میں جو ہے ۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها وَمُرْساها«3» اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور لنگر انداز ہونا ہے ۔ تو یہ اجریت وارسیت ( باب افعال ) سے موخوذ ہے ۔ اور مرسی کا لفظ مصدر میمی آتا ہے اور صیغہ ظرف زمان ومکان اور اسم مفعول بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت نذکورۃ الصدر میں ایک قرات وقرئ : ( مجريها ومرسيها) - بھی ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - داود - داود اسم أعجميّ.- ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے )- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اسلام میں مصوری کی ممانعت - قول باری ہے (یعملون لہ مایشآء من محاریب وتماثیل۔ سلیمان کے لئے وہ وہ چیزیں بنادیتے جو انہیں بنوانا منظور ہوتیں مثلاً بڑی عمارتیں اور مجسمے) آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس زمانے میں تصاویر اور مجسمے بنانے کی اباحت تھی لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں اس کی ممانعت ہے۔ آپ سے مروی ہے (لا یدخل الملائکۃ بیتا فیہ صورۃ۔ جس کھر میں کوئی تصویر ہوا اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے) نیز ارشاد ہے (من صورصورۃ کلف یوم القیمۃ ان یحیھا ولا فالنار ۔ جس شخص نے کوئی تصویر بنائی ہوا سے قیامت کے دن مجبور کیا جائے گا کہ اس میں زندگی پیدا کردے ورنہ جہنم میں جائے) ۔- نیز ارشاد ہے (لعن اللہ المصورین۔ اللہ نے تصویریں اور مجسمے بنانے والوں پر لعنت بھیجی ہے) اس میں ایک قول یہ بھی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے کسی میں اس کی شبیہ بناتا ہو وہ یہاں مراد ہے۔- دو انتہائوں کے درمیان میانہ روی کی تلقین - قول باری ہے (اعملوا الی دائود شکرا۔ اے دائود کے خاندان والو تم شکر میں نیک کام کرو) عطاء بن یسار سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ منبر پر اس آیت کی تلاوت کی اور پھر فرمایا ثلاث من اوتیھن فقد اوتی مثل مااوتی ال دائود العدل فی الغضب والرضا والقصد فی الغنی والفقرو خشیۃ اللہ فی السروالعلانیۃ۔ تین باتیں جسے عطا ہوگئیں اسے گویا وہ کچھ عطا ہوگیا جو دائود (علیہ السلام) کے خاندان والوں کو عطا ہوا تھا۔ غضب اور رضادونوں حالتوں میں انصاف کرنا، فقر وغنی میں میانہ روی اختیار کرنا اور کھلے بندوں نیز چھپے بندوں اللہ سے ڈرتے رہنا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

وہ جنات ان کے لیے وہ چیزیں بناتے تھے جو انہیں منظور ہوتا تھا۔ بڑی بڑی مسجدیں اور فرشتوں اور انبیاء کرام (علیہم السلام) اور نیک بندوں کی تصویریں دیکھ کر اپنے پروردگار کی ان کی طرح عبادت کریں اور حوض کی طرح بڑے بڑے طشت جو اپنی جگہ سے حرکت نہ کرتے ہوں اور ایسی بڑی بڑی دیگیں جو اپنی جگی جمی رہیں ہلائے نہ ہلیں اور تقریبا ایک ہزار آدمی اس کا کھانا کھا لیں۔ سلیمان (علیہ السلام) خوب نیک کام کرو تاکہ میں نے جو تمہیں نعمتیں دی ہیں اس کا شکریہ ادا ہو اور میرے بندوں میں شکر گزار بہت ہی کم ہوتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ یَعْمَلُوْنَ لَہٗ مَا یَشَآئُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَتَمَاثِیْلَ ” وہ بناتے تھے اس کے لیے جو وہ چاہتا تھا ‘ بڑی بڑی عمارتیں اور مجسمے “- شریعت ِمحمدی میں مجسمے بنانا حرام ہے ‘ لیکن ان الفاظ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں ایسا کرنا جائز تھا۔ ویسے ” تِمثال “ عربی زبان میں ہر اس شبیہہ یا پیکر کو کہتے ہیں جو کسی قدرتی شے کے مشابہ بنایا جائے ‘ خواہ وہ جاند ار ہو یا بےجان۔- وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِیٰتٍ ” اور تالابوں کی مانند بڑے بڑے لگن اور بڑی بڑی دیگیں جو ایک جگہ مستقل پڑی رہتی تھیں۔ “- یعنی وہ دیگیں اتنی بڑی ہوتی تھیں کہ چولہوں کے اوپر ہی پڑی رہتی تھی اور وہاں سے انہیں ہلایا نہیں جاسکتا تھا۔ اس طرح کی دیگیں اجمیر شریف (انڈیا) میں حضرت معین الدین اجمیری (رح) کے مزار پر بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔- اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا ” اے دائود (علیہ السلام) کے گھر والو عمل کرو شکر ادا کرتے ہوئے “- حضرت سلیمان (علیہ السلام) چونکہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے بیٹے تھے اس لیے آپ ( علیہ السلام) کو آلِ دائود ( علیہ السلام) کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) پر اللہ کی ان نعمتوں کا شکر لازم ہے۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) کا ایک ایک عمل اللہ تعالیٰ کی احسان مندی کا مظہر ہونا چاہیے۔ - وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ ” اور (واقعہ یہ ہے کہ ) میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہی ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :20 اصل میں لفظ تَمَاثِیل استعمال ہوا ہے جو تِمثَال کی جمع ہے ۔ تمثال عربی زبان میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی قدرتی شے کے مشابہ بنائی جائے قطع نظر اس اصل سے کہ وہ کوئی انسان ہو یا حیوان ، کوئی درخت ہو یا پھول یا دریا یا کوئی دوسری بے جان چیز ۔ التمثال اسم للشئ المصنوع مشبھا بخلق من خلق اللہ ( لسان العرب ) تمثال نام ہے ہر اس مصنوعی چیز کا جو خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے مانند بنائی گئی ہو التمثال کل ما صور علی صورۃ غیرہ من حیوان و غیر حیوان ۔ ( تفسیر کشاف ) تمثال ہر اس تصویر کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز کی صورت کے مماثل بنائی گئی ہو ، خواہ وہ جان دار ہو یا بے جان ۔ اس بنا پر قرآن مجید کے اس بیان سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے جو تماثیل بنائی جاتی تھیں وہ ضرور انسانوں اور حیوانوں کی تصاویر یا ان کے مجسمے ہی ہوں گے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پھول پتیاں اور قدرتی مناظر اور مختلف قسم کے نقش و نگار ہوں جن سے حضرت سلیمان نے اپنی عمارتوں کو آراستہ کرایا ہو ۔ غلط فہمی کا منشا بعض مفسرین کے یہ بیانات ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے انبیاء اور ملائکہ کی تصویریں بنوائی تھیں ۔ یہ باتیں ان حضرات نے بنی اسرائیل کی روایات سے اخذ کرلیں اور پھر ان کی توجیہ یہ کی کہ پچھلی شریعتوں میں اس قسم کی تصویر بنانا ممنوع نہ تھا لیکن ان روایات کو بلا تحقیق نقل کرتے ہوئے ان بزرگوں کو یہ خیال نہ رہا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جس شریعت موسوی کے پیرو تھے اس میں بھی انسانی اور حیوانی تصاویر اور مجسمے اسی طرح حرام تھے جس طرح شریعت محمدیہ میں حرام ہیں ۔ اور وہ یہ بھی بھول گئے کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو حضرت سلیمان علیہ السلام سے جو عداوت تھی اس کی بنا پر انہوں نے آنجناب کو شرک و بت پرستی جادوگری اور زنا کے بد ترین الزامات سے متہم کیا ہے ، اس لیے ان کی روایات پر اعتماد کر کے اس جلیل القدر پیغمبر کے بارے میں کوئی ایسی بات ہرگز قبول نہ کرنی چاہیے جو خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت کے خلاف پڑتی ہو ۔ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بنی اسرائیل میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں وہ سب تورات کے پیرو تھے ان میں سے کوئی بھی نئی شریعت نہ لایا تھا جو تورات کے قانون کی ناسخ ہوتی ۔ اب تورات کو دیکھیے تو اس میں بار بار بصراحت یہ حکم ملتا ہے کہ انسانی اور حیوانی تصویریں اور مجسمے قطعاً حرام ہیں : تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے ( خروج ۔ باب 20 ۔ آیت 4 ) ۔ تم اپنے لیے بت نہ بنانا اور نہ تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لیے کھڑی کرنا اور نہ اپنے ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اسے سجدہ کرو ( احبار ۔ باب 26 ، آیت 1 ) تا نہ ہو کہ تم بگڑ کر کسی شکل یا صورت کی کھودی ہوئی مورت اپنے لیے بنا لو جس کی شبیہ کسی مرد یا عورت یا زمین کے کسی حیوان یا ہوا میں اڑنے والے کسی پرند یا زمین میں رینگنے والے جاندار یا مچھلی سے جو زمین کے نیچے پانی میں رہتی ہے ملتی ہو ( استثنا ، باب 4 ۔ آیت 16 ۔ 18 ) ۔ لعنت اس آدمی پر جو کاریگری کی صنعت کی طرح کھودی ہوئی یا ڈھالی ہوئی مورت بنا کر جو خداوند کے نزدیک مکروہ ہے اس کو کسی پوشیدہ جگہ میں نصب کرے ( استثناء ، باب 27 ۔ آیت 15 ) ان صاف اور صریح احکام کے بعد یہ بات کیسے مانی جا سکتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے انبیاء اور ملائکہ کی تصویریں یا ان کے مجسمے بنانے کا کام جنوں سے لیا ہو گا اور یہ بات آخر ان یہودیوں کے بیان پر اعتماد کر کے کیسے تسلیم کر لی جائے جو حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنی مشرک بیویوں کے عشق میں مبتلا ہو کر بت پرستی کرنے لگے تھے ( 1 ۔ سلاطین ۔ باب 11 ) . تاہم مفسرین نے تو بنی اسرائیل کی یہ روایات نقل کرنے کے ساتھ اس امر کی صراحت کر دی تھی کہ شریعت محمدیہ میں یہ فعل حرام ہے اس لیے اب کوئی شخص حضرت سلیمان علیہ السلام کی پیروی میں تصویریں اور مجسمے بنانے کا مجاز نہیں ہے ۔ لیکن موجودہ زمانے کے بعض لوگوں نے ) جو اہل مغرب کی تقلید میں مصوری و بت تراشی کو حلال کرنا چاہتے ہیں ، قرآن مجید کی اس آیت کو دلیل ٹھہرا لیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک پیغمبر نے یہ کام کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب میں اس کے اس فعل کا ذکر کیا ہے اور اس پر کسی ناپسندیدگی کا اظہار بھی نہیں فرمایا ہے تو اسے لازماً حلال ہی ہونا چاہیے ۔ ان مقلدین مغرب کا یہ استدلال دو وجوہ سے غلط ہے ۔ اول یہ کہ لفظ تماثیل جو قرآن مجید میں استعمال کیا گیا ہے ، انسانی اور حیوانی تصاویر کے معنی میں صریح نہیں ہے ، بلکہ اس کا اطلاق غیر جاندار اشیاء کی تصویروں پر بھی ہوتا ہے ، اس لیے محض اس لفظ کے سہارے حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ قرآن کی رو سے انسانی اور حیوانی تصاویر حلال ہیں ۔ دوسرے یہ کہ نہایت کثیر التعداد اور قوی الاسناد اور متواتر المعنیٰ احادیث سے ہی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی روح اشیاء کی تصویریں بنانے اور رکھنے کو قطعی حرام قرار دیا ہے ۔ اس معاملہ میں جو ارشادات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور جو آثار اکابر صحابہ سے منقول ہوئے ہیں انہیں ہم یہاں نقل کرتے ہیں: 1 ۔ عن عائشہ اُم المومنین ان ام جیبۃ وام سلمۃ ذکرتا کنیسۃ رأینھا بالحبشۃ فیھا تصاویر فذکرتا للنبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال ان اولٰٓئِک اذا کان فیھم الرجل الصالح فمات بنوا علیٰ قبرہ مسجد او صوروا فیہ تلک الصور فاولٰٓئِک شرار الخلق عنداللہ یوم القیٰمۃ ( بخاری ، کتاب المساجد ) ام المومنین حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ حضرت ام حبیبہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے حبش میں ایک کنیسہ دیکھا تھا جس میں تصویریں تھیں ۔ اس کا ذکر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ جب ان میں کوئی صالح شخص ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد وہ اس کی قبر پر ایک عبادت گاہ بناتے اور اس میں یہ تصویریں بنا لیا کرتے تھے ۔ یہ لوگ قیامت کے روز اللہ کے نزدیک بدترین خلائق قرار پائیں گے ۔ 2 ۔ عن ابی جحیفہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن المصور ( بخاری ، کتاب البیوع ، کتاب الطلاق و کتاب اللباس ) ابو جحیفہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصور پر لعنت فرمائی ہے ۔ 3 ۔ عن ابی زرعہ قال دخلتُ مع ابی ھریرۃ داراً بالمدینۃ فرأی اعلاھا مصوراً یصور قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ومن اظلم ممن ذھب یخلق کخلقی فلیخلقوا حبۃ و لیخلقوا ذرۃ ( بخاری ، کتاب اللباس ۔ مُسند احمد اور مسلم کی روایت میں تصریح ہے کہ یہ مروان کا گھر تھا ) ابو زرعہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک مکان میں داخل ہوا تو دیکھا کہ مکان کے اوپر ایک مصور تصویریں بنا رہا ہے ۔ اس پر حضرت ابوہریرہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو میری تخلیق کے مانند تخلیق کی کوشش کرے ۔ یہ لوگ ایک دانہ یا ایک چیونٹی تو بنا کر دکھائیں ۔ 4 ۔ عن ابی محمد الھذلی عن علی قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی جنازۃ فقال ایکم ینطلق الی المدینۃ فلا یَدَع بھا وثناً الا کسرہ ولا قبراً الا سوّاہ ولا صورۃ الا لطخھا ۔ فقال رجل انا یا رسول اللہ فانطلق فھاب اھل المدینہ ۔ فرجع ۔ فقال علی انا انطلق یا رسول اللہ ۔ قال فانطلق ، فانطلقَ ثم رجع ۔ فقال یا رسول اللہ لم ادع بھا وثناً الا کسرتہ ولا قبراً الّا سویتہ ولا صورۃ الا لطختھا ۔ ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عاد لصنعۃ شئ من ھٰذا فقد کفر بما انزل علیٰ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ( مسند احمد ۔ مسلم ، کتاب الجنائر اور نَسائی کتاب الجنائیر میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث منقول ہوئی ہے ) ۔ ابو محمد ہُذَلی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں شریک تھے ۔ آپ نے فرمایا تم لوگوں میں سے کون ہے جو جا کر مدینہ میں کوئی بت نہ چھوڑے جسے توڑ نہ دے اور کوئی قبر نہ چھوڑے جسے زمین کے برابر نہ کر دے اور کوئی تصویر نہ چھوڑے جسے مٹا نہ دے ۔ ایک شخص نے عرض کیا میں اس کے لیے حاضر ہوں ۔ چنانچہ وہ گیا مگر اہل مدینہ کے خوف سے یہ کام کیے بغیر پلٹ آیا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں جاتا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تم جاؤ ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ گئے اور واپس آ کر انہوں نے عرض کیا میں نے کوئی بت نہیں چھوڑا جسے توڑ نہ دیا ہو ، اور کوئی قبر نہیں چھوڑی جسے زمین کے برابر نہ کر دیا ہو اور کوئی تصویر نہ چھوڑی جسے مٹا نہ دیا ہو ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اب اگر کسی شخص نے ان چیزوں میں سے کوئی چیز بنائی تو اس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل ہوئی ہے ۔ 5 ۔ عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ………… ومن صور صورۃ عذب و کلف ان ینفخ فیھا ولیس بنافخ ( بخاری ۔ کتاب التعبیر ۔ ترمذی ، ابواب للباس نسائی ۔ کتاب الزینۃ ۔ مسند احمد ) ابن عباس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں……اور جس شخص نے تصویر بنائی اسے عذاب دیا جائے گا اور مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ نہ پھونک سکے گا ۔ 6 ۔ عن سعید بن ابی الحسن قال کنت عند ابن عباس رضی اللہ عنہما اذا تاہ رجل فقال یا ابا عباس انی انسان انما معیشتی من صنعۃ یدی وانی اصنع ھٰذہ التصاویر ۔ فقال ابن عباس لا احدثک الا ما سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ۔ سمعتہ یقول من صور صورۃً فان اللہ معذبہ حتٰی ینفخ فیھا الروح ولیس بنافخ فیھا ابداً ۔ فربا الرجل ربوۃً شدیدۃ واصفر وجھہ ۔ فقال ویحک ان ابیت الا ان تصنع فعلیک بھٰذا الشجر کل شئی لیس فیہ روح ( بخاری ، کتاب البیوع ۔ مسلم ، کتاب اللباس ۔ نسائی ، کتاب الزینۃ ۔ مسند احمد ) ۔ سعید بن ابی الحسن کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا ۔ اتنے میں ایک شخص آیا ، اور اس نے کہا کہ اے ابو عباس میں ایک ایسا شخص ہوں جو اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے اور میرا روزگار یہ تصویریں بنانا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں تم سے وہی بات کہوں گاجو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنی ہے ۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے کہ جو شخص تصویر بنائے گا اللہ اسے عذاب دے گا اور اسے نہ چھوڑے گا جب تک وہ اس میں روح نہ پھونکے ، اور وہ کبھی روح نہ پھونک سکے گا ۔ یہ بات سن کر وہ شخص سخت برافروختہ ہوا اور اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا ۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا بندہ خدا ، اگر تجھے تصویر بنانی ہے تو اس درخت کی بنا ، یا کسی ایسی چیز کی بنا جس میں روح نہ ہو ۔ 7 ۔ عن عبد اللہ بن مسعود قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان اشد الناس عذابا عنداللہ یوم القیامۃ المصورون ( بخاری ، کتاب اللباس ، مسلم ، کتاب اللباس ۔ نسائی ، کتاب الزینۃ ۔ مسند احمد ) عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز اللہ کے ہاں سخت ترین سزا پانے والے مصور ہوں گے ۔ 8 ۔ عن عبداللہ بن عمران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان الذین یصنعون ھٰذہ الصور یعذبون یوم القیٰمۃ یقال لہم احیوا ما خلقتم ( بخاری ، کتاب اللباس ۔ مسلم ، کتاب اللباس ۔ نسائی ، کتاب الزینہ ۔ مسند احمد ) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگ یہ تصویریں بناتے ہیں ان کو قیامت کے روز عذاب دیا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے اسے زندہ کرو ۔ 9 ۔ عن عائشہ رضی اللہ عنھا انھا اشترت نمرقۃ فیھا تصاویر فقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالباب ولم یدخل فقلت اتوب الی اللہ ممّا اذنبت قال ما ھٰذہ النمرقۃ قلت لتجلس علیھا و توسدھا قال ان اصحاب ھٰذہ الصور یعذبون یوم القیٰمۃ یقال لہم احیوا ما خلقتم و ان الملائکۃ لا تدخل بیتاً فیہ الصورۃ ۔ ( بخاری ، کتاب الباس ، مسلم ، کتاب اللباس ۔ نسائی ، کتاب الزینہ ، ابن ماجہ ، کتاب التجارات ۔ موطا ، کتاب الاستیذان ) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک تکیہ خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دروازے ہی میں کھڑے ہو گئے ۔ اندر داخل نہ ہوئے ۔ میں نے عرض کیا کہ میں خدا سے توبہ کرتی ہوں ہر اس گناہ پر جو میں نے کیا ہو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تکیہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا یہ اس غرض کے لیے ہے کہ آپ یہاں تشریف رکھیں اور اس پر ٹیک لگائیں ۔ فرمایا ان تصویروں کے بنانے والوں کو قیامت کے روز عذاب دیا جائے گا ۔ ان سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے اس کو زندہ کرو ۔ اس ملائکہ ( یعنی ملائکہ رحمت ) کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں ہوں ۔ 10 ۔ عن عائشۃ قالت دخل علَیّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و انا متسترہ بقرام فیہ صورۃ فتلوَّنَ وجھہ ثم تناول الستر فھتکہ ثم قال ان من اشد الناس عذاباً یوم القیٰمۃ الذین یشبہون بخلق اللہ ( مسلم ، کتاب اللباس بخاری ، کتاب اللباس ۔ نسائی ، کتاب الزینہ ) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور میں نے ایک پردہ لٹکا رکھا تھا جس میں تصویر تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا ، پھر آپ نے اس پردے کو لے کر پھاڑ ڈالا اور فرمایا قیامت کے روز سخت ترین عذاب جن لوگوں کو دیا جائے گا ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ کی تخلیق کے مانند تخلیق کی کوشش کرتے ہیں ۔ 11 ۔ عن عائشۃ قالت قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سفر وقد سترت علی بابی درنوکا فیہ الخیل ذوات الاجنحۃ فامرنی فنزعتہ ( مسلم ، کتاب اللباس ۔ نسائی ، کتاب الزینۃ ) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس تشریف لائے اور میں نے اپنے دروازے پر ایک پردہ لٹکا رکھا تھا ، جس میں پردار گھوڑوں کی تصویریں تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے اتار دو اور میں نے اتار دیا ۔ 12 ۔ عن جابر قال نھیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الصورۃ فی البیت ونھٰی ان یصنع ذالک ۔ ( ترمذی ، ابواب اللباس ) جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا کہ گھر میں تصویر رکھی جائے اور اس سے بھی منع فرما دیا کہ کوئی شخص تصویر بنائے ۔ 13 ۔ عن ابن عباس عن ابی طلحہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تدخل الملائکۃ بیتا فیہ کلب ولا صورۃ ۔ ( بخاری کتاب اللباس ) ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ ابوطلحہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ملائکہ ( یعنی ملائکہ رحمت ) کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا پلا ہوا ہو اور نہ ایسے گھر میں جس میں تصویر ہو ۔ 14 ۔ عن عبداللہ بن عمر قال وعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم جبریل فراث علیہ حتی اشتد علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فخرج النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلقیہ فشکا الیہ ماوجد فقال لہْ انّا لا ندخل بیتاً فیہ صورۃ ولا کلب ۔ ( بخاری ، کتاب اللباس ۔ اس مضمون کی متعدد روایات بخاری ، مسلم ، ابو داوْد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، امام مالک اور امام احمد نے متعدد صحابہ سے نقل کی ہیں ) ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا وعدہ کیا مگر بہت دیر لگ گئی اور وہ نہ آئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پریشانی ہوئی اور آپ گھر سے نکلے تو وہ مل گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شکایت کی تو انہوں نے کہا ہم کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا تصویر ہو ۔ ان روایات کے مقابلے میں کچھ روایتیں ایسی پیش کی جاتی ہیں جن میں تصاویر کے معاملہ میں رخصت پائی جاتی ہے مثلاً ابو طلحہ انصاری کی یہ روایت کہ جس کپڑے میں تصویر کڑھی ہوئی ہو اس کا پردہ لٹکانے کی اجازت ہے ۔ ( بخاری ، کتاب اللباس ) اور حضرت عائشہ کی یہ روایت کہ تصویر دار کپڑے کو پھاڑ کر جب انہوں نے گدّا بنالیا تو حضور نے اسے بچھانے سے منع نہ فرمایا ۔ ( مسلم ، کتاب اللباس ) اور سالم بن عبداللہ بن عمر کی روایت کہ ممانعت اس تصویر کی ہے جو نمایاں مقام پر نصب کی گئی ہو ، نہ کہ اس تصویر کی جو فرش کے طور پر بچھا دی گئی ہو ( مسند احمد ) ۔ لیکن ان میں سے کوئی حدیث بھی دراصل ان احادیث کی تردید نہیں کرتی جو اوپر نقل کی گئی ہیں ۔ جہاں تک تصویر بنانے کا تعلق ہے اس کا جواز ان میں سے کسی حدیث سے بھی نہیں نکلتا ۔ یہ احادیث صرف اس مسئلے سے بحث کرتی ہیں کہ اگر کسی کپڑے پر تصویر بنی ہوئی ہو اور آدمی اس کو لے چکا ہو تو کیا کرے ۔ اس باب میں ابو طلحہ انصاری والی روایت کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے ، کیونکہ وہ بکثرت دوسری صحیح احادیث سے ٹکراتی ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر دار کپڑا لٹکانے سے نہ صرف منع فرمایا ہے بلکہ اسے پھاڑ دیا ہے ۔ نیز خود حضرت ابو طلحہ کا اپنا عمل جو ترمذی اور موطا میں منقول ہوا ہے وہ یہ ہے کہ تصویر دار پردہ تو درکنار وہ ایسا فرش بچھانے میں بھی کراہت محسوس کرتے تھے جس میں تصاویر ہوں ۔ رہیں حضرت عائشہ اور سالم بن عبداللہ کی روایات تو ان سے صرف اتنا جواز نکلتا ہے کہ اگر تصویر احترام کی جگہ پر نہ ہو بلکہ ذلت کے ساتھ فرش میں رکھی جائے اور اسے پامال کیا جائے تو وہ قابل برداشت ہے ۔ ان احادیث سے آخر اس پوری ثقافت کا جواز کیسے نکالا جا سکتا ہے جو تصویر کشی اور مجسمہ سازی کے آرٹ کو تہذیب انسانی کا قابل فخر کمال قرار دیتی ہے اور اسے مسلمانوں میں رواج دینا چاہتی ہے ۔ تصاویر کے معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر کار امت کے لیے جو ضابطہ چھوڑا ہے اس کا پتہ اکابر صحابہ کے اس طرز عمل سے چلتا ہے جو انہوں نے اس باب میں اختیار کیا ۔ اسلام میں یہ اصول مسلم ہے کہ معتبر اسلامی ضابطہ وہی ہے جو تمام تدریجی احکام اور ابتدائی رخصتوں کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخر عہد میں مقرر کر دیا ہو ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اکابر صحابہ کا کسی طریقے پر عمل درآمد کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسی طریقے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو چھوڑا تھا ۔ اب دیکھیے کہ تصویروں کے ساتھ اس مقدس گروہ کا کیا برتاؤ تھا ۔ قال عمر رضی اللہ عنہ انا لا ندخل کنائسکم من اجل التماثیل التی فیھا الصُّوَر ۔ ( بخاری ، کتاب الصلوٰۃ ) حضرت عمر نے عیسائیوں سے کہا کہ ہم تمہارے کنیسوں میں اس لیے داخل نہیں ہوتے کہ ان میں تصویریں ہیں ۔ کان ابن عباس یصلی فی بیعۃ الابیعۃ فیھا تماثیل ( بخاری ، کتاب الصلوٰۃ ) ابن عباس رضی اللہ عنہ گرجا میں نماز پڑھ لیتے تھے ، مگر کسی ایسے گرجا میں نہیں جس میں تصویریں ہوں ۔ عن ابی الھیاج الاسدی قال لی عَلی الا ابعثک علیٰ ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لا تدع تمثیلاً الا طمستہ ولا قبراً مشرفاً الا سویتہ ولا صورۃ الا طمستھا ۔ ) مسلم ، کتاب الجنائز ۔ نسائی ، کتاب الجنائز ) ابو الہیاج اسدی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے مجھ سے کہا کیا نہ بھیجوں میں تم کو اس مہم پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا ؟ اور وہ یہ کہ تم کوئی مجسمہ نہ چھوڑو جسے توڑ نہ دو ، اور کوئی اونچی قبر نہ چھوڑو جسے زمین کے برابر نہ کر دو اور کوئی تصویر نہ چھوڑو جسے مٹا نہ دو ۔ عن حنش الکنانی عن علی انہ بعث عامل شرطہِ فقال لہ اتدری علی ما ابعثک؟ علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان انحت کل صورۃ و ان اسوی کل قبر ( مسند احمد ) حنش الکنانی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی پولیس کے کوتوال سے کہا کہ تم جانتے ہو میں کس مہم پر تمہیں بھیج رہا ہوں؟ اس مہم پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا ۔ یہ کہ میں ہر تصویر کو مٹا دوں اور ہر قبر کو زمین کے برابر کر دوں ۔ اسی ثابت شدہ اسلامی ضابطہ کو فقہائے اسلام نے تسلیم کیا ہے اور اسے قانون اسلامی کی ایک دفعہ قرار دیا ہے ۔ چنانچہ علامہ بدر الدین عینی توضیح کے حوالہ سے لکھتے ہیں: ہمارے اصحاب ( یعنی فقہائے احناف ) اور دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ کسی جاندار چیز کی تصویر بنانا حرام ہی نہیں ، سخت حرام اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، خواہ بنانے والے نے اسے کسی ایسے استعمال کے لیے بنایا ہو جس میں اس کی تذلیل ہو ، یا کسی دوسری غرض کے لیے ۔ ہر حالت میں تصویر کشی حرام ہے کیونکہ اس میں اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہے ۔ اسی طرح تصویر خواہ کپڑے میں ہو یا فرش میں یا دینار یا درہم یا پیسے میں ، یا کسی برتن میں یا دیوار میں ، بہرحال اس کا بنانا حرام ہے ۔ البتہ جاندار کے سوا کسی دوسری چیز مثلاً درخت وغیرہ کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے ۔ ان تمام امور میں تصویر کے سایہ دار ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہی رائے امام مالک ، سفیان ثوری ، امام ابو حنیفہ اور دوسرے علماء کی ہے ۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ اس سے لڑکیوں کی گڑیاں مستثنی ہیں ۔ مگر امام مالک ان کے خریدنے کو بھی ناپسند کرتے تھے ۔ ( عمدۃ القاری ۔ ج22 ص70 ۔ اسی مسلک کو امام ثوری نے شرح مسلم میں زیادہ تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو شرح نَسَدِی ، مطبوعہ مصر ، ج 14 ۔ ص 81 ۔ 82 ) یہ تو ہے تصویر سازی کا حکم ۔ رہا دوسرے کی بنائی ہوئی تصویر کے استعمال کا مسئلہ تو اس کے بارے میں فقہائے اسلام کے مسلک علامہ ابن حجر نے اس طرح نقل کیے ہیں: مالکی فقیہ ابن عربی کہتے ہیں کہ جس تصویر کا سایہ پڑتا ہو اس کے حرام ہونے پر تو اجماع ہے قطع نظر اس سے کہ وہ تحقیر کے ساتھ رکھی گئی ہو یا نہ ۔ اس اجماع سے صرف لڑکیوں کی گڑیاں مستثنیٰ ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابن عربی یہ بھی کہتے ہیں کہ جس تصویر کا سایہ نہ پڑتا ہو وہ اگر اپنی حالت پر باقی رہے ( یعنی آئنہ کی پرچھائیں کی طرح نہ ہو بلکہ چھپی ہوئی تصویر کی طرح ثابت و قائم ہو ) تو وہ بھی حرام ہے ، خواہ اسے حقارت کے ساتھ رکھا گیا ہو یا نہ ۔ البتہ اگر اس کا سر کاٹ دیا گیا ہو یا اس کے اجزاء الگ الگ کردیے گئے ہوں تو اس کا استعمال جائز ہے …… امام الحرمین نے ایک مسلک یہ نقل کیا ہے کہ پردے یا تکیہ پر اگر تصویر ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہے ، مگر دیوار یا چھت میں جو تصویر لگائی جائے وہ ممنوع ہے کیونکہ اس صورت میں اس کا اعزاز ہو گا ، بخلا ف اس کے پردے اور تکیے کی تصویر حقارت سے رہے گی. ابن ابی شیبہ نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ زمانہ تابعین کے علماء یہ رائے رکھتے تھے کہ فرش اور تکیہ میں تصویر کا ہونا اس کے لیے باعث ذلت ہے ۔ نیز ان کا یہ خیال بھی تھا کہ اونچی جگہ پر جو تصویر لگائی گئی ہو وہ حرام ہے اور قدموں میں جسے پامال کیا جاتا ہو وہ جائز ہے ۔ یہی رائے ابن سیرین ، سالم بن عبداللہ ، عِکرمہ بن خالد اور سعید بن جُبیر سے بھی منقول ہے ۔ ( فتح الباری ، ج10 ، ص300 ) اس تفصیل سے یہ بات بھی اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں تصاویر کی حرمت کوئی مختلف فیہ یا مشکوک مسئلہ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح ارشادات صحابہ کرام کے عمل اور فقہائے اسلام کے متفقہ فتاویٰ کی رو سے ایک مسلم قانون ہے جسے آج بیرونی ثقافتوں سے متاثر لوگوں کی موشگافیاں بدل نہیں سکتیں ۔ اس سلسلے میں چند باتیں اور بھی سمجھ لینی ضروری ہیں تاکہ کسی قسم کی غلطی فہمی باقی نہ رہے ۔ بعض لوگ فوٹو اور ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر میں فرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حالانکہ شریعت بجائے خود تصویر کو حرام کرتی ہے نہ کہ تصویر سازی کے کسی خاص طریقے کو ۔ فوٹو اور دستی تصویر میں تصویر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ۔ ان کے درمیان جو کچھ بھی فرق ہے وہ طریق تصویر سازی کے لحاظ سے ہے اور اس لحاظ سے شریعت نے احکام میں کوئی فرق نہیں کیا ۔ بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ اسلام میں تصویر کی حرمت کا حکم محض شرک و بت پرستی کو روکنے کی خاطر دیا گیا تھا ، اور اب اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے ، لہذا یہ حکم باقی نہ رہنا چاہیے ، لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے ، اول تو احادیث میں کہیں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ تصاویر صرف شرک و بت پرستی کے خطرے سے بچانے کے لئے حرام کی گئی ہیں ۔ دوسرے یہ دعویٰ بھی بالکل بے بنیاد ہے کہ اب دنیا میں شرک و بت پرستی کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔ آج خود بر عظیم ہندو پاکستان میں کروڑوں بت پرست مشرکین موجود ہیں ، دنیا کے مختلف خطوں میں طرح طرح سے شرک ہورہا ہے ، عیسائی اہل کتاب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام اور اپنے متعدد اولیاء کی تصاویر اور مجسموں کو پوج رہے ہیں ، حتی کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی مخلوق پرستی کی آفتوں سے محفوظ نہیں ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف وہ تصویریں ممنوع ہونی چاہییں جو مشرکانہ نوعیت کی ہیں ، یعنی ایسے اشخاص کی تصاویر اور مجسمے جن کو معبود بنا لیا گیا ہو ، باقی دوسری تصویروں اور مجسموں کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ لیکن اس طرح کی باتیں کرنے والے دراصل شارع کے احکام و ارشادات سے قانون اخذ کرنے کے بجائے آپ ہی اپنے شارع بن بیٹھتے ہیں ۔ ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ تصویر صرف بڑے ذرائع میں سے ایک ہے جن سے بادشاہوں ، ڈکٹیٹروں اور سیاسی لیڈروں کی عظمت کا سکہ عوام الناس کے دماغوں پر بٹھانے کی کوشش کی گءی ہے ۔ تصویر کو دنیا میں شہوانیت پھیلانے کے لیے بھی بہت بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے اور آج یہ فتنہ ہر زمانے سے زیادہ برسر عروج ہے ۔ تصاویر قوموں میں نفرت اور عداوت کے بیج بونے ، فساد ڈلوانے اور عام لوگوں کو طرح طرح سے گمراہ کرنے کے لیے بھی بکثرت استعمال کی جاتی رہی ہیں اور آج سب سے زیادہ استعمال کی جارہی ہیں ۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ شارع نے تصویر کی حرمت کا حکم صرف بت پرستی کے استیصال کی خاطر دیا ہے ، اصلاً غلط ہے ۔ شارع نے مطلقاً جاندار اشیاء کی تصویر کو روکا ہے ۔ ہم اگر خود شارع نہیں بلکہ شارع کے متبع ہیں تو ہمیں علی الاطلاق اس سے رک جانا چاہیے ، ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اپنی طرف سے کوئی علت حکم خود تجویز کر کے اس کے لحاظ سے بعض تصویروں کو حرام اور بعض کو حلال قرار دینے لگیں ۔ بعض لوگ چند بظاہر بالکل بے ضرر قسم کی تصاویر کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ آخر ان میں کیا خطرہ ہے ، یہ تو شرک اور شہوانیت اور فساد انگیزی اور سیادی پروپیگنڈے اور ایسے ہی دوسرے مفسدات سے قطعی پاک ہیں ، پھر ان کے ممنوع ہونے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ؟ اس معاملہ میں لوگ پھر وہی غلطی کرتے ہیں کہ پہلے علت حکم خود تجویز کرلیتے ہیں اور اس کے بعد یہ سوال کرتے ہیں کہ جب فلاں چیز میں یہ علت نہیں پائی جاتی تو وہ کیوں ناجائز ہے ۔ علاوہ بریں یہ لوگ اسلامی شریعت کے اس قاعدے کو بھی نہیں سمجھتے کہ وہ حلال اور حرام کے درمیان ایسی دھندلی اور مبہم حد بندیاں قائم نہیں کرتی جن سے آدمی یہ فیصلہ نہ کرسکتا ہو کہ وہ کہاں تک جواز کی حد میں ہے اور کہاں اس حد کو پار کر گیا ہے ، بلکہ ایسا واضح خط امتیاز کھینچتی ہے جسے ہر شخص روز روشن کی طرح دیکھ سکتا ہو ۔ تصاویر کے درمیان یہ حد بندی قطعی واضح ہے کہ جانداروں کی تصویریں حرام اور بے جان اشیاء کی تصویریں حلال ہیں ۔ اس خط امتیاز میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے جسے احکام کی پیروی کرنی ہو وہ صاف صاف جان سکتا ہے کہ اس کے لئے کیا چیز جائز ہے اور کیا ناجائز ۔ لیکن اگر جانداروں کی تصاویر میں سے بعض کو جائز اور بعض ناجائز ٹھہرایا جاتا تو دونوں قسم کی تصاویر کی کوئی بڑی سے بڑی فہرست بیان کردینے کے بعد بھی جواز و عدم جواز کی سرحد کبھی واضح نہ ہوسکتی اور بے شمار تصویروں کے بارے میں یہ اشتباہ باقی رہ جاتا کہ انہیں حد جواز کے اندر سمجھا جائے یا باہر ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے شراب کے بارے میں اسلام کا یہ حکم کہ اس سے قطعی اجتناب کیا جائے ایک صاف حد قائم کردیتا ہے ۔ لیکن اگر یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی اتنی مقدار استعمال کرنے سے پرہیز کیا جائے جس سے نشہ پیدا ہو تو حلال اور حرام کے درمیان کسی جگہ بھی حد فاصل قائم نہ کی جاسکتی اور کوئی شخص بھی فیصلہ نہ کرسکتا کہ کس حد تک وہ شراب پی سکتا ہے اور کہاں جاکر اسے رک جانا چاہیے ۔ ( مزید تفصیلی بحث کے لئے ملاحظہ ہو رسائل و مسائل ، حصہ اول ، ص۱۵۲تا ۱۵۵ ) سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :21 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں بہت بڑے پیمانے پر مہمان نوازی ہوتی تھی ۔ بڑے بڑے حوض جیسے لگن اس لیے بنائے گئے تھے کہ ان میں لوگوں کے لیے کھانا نکال کر رکھا جائے اور بھاری دیگیں اس لیے بنوائی گئی تھیں کہ ان میں بیک وقت ہزاروں آدمیوں کا کھانا پک سکے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :22 یعنی شکر گزار بندوں کی طرح کام کرو ۔ جو شخص نعمت دینے والے کا احسان محض زبان سے مانتا ہو ، مگر اس کی نعمتوں کو اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرتا ہو ، اس کا محض زبانی شکریہ بے معنی ہے ۔ اصل شکر گزار بندہ وہی ہے جو زبان سے بھی نعمت کا اعتراف کرے ، اور اس کے ساتھ منعم کی عطا کردہ نعمتوں سے وہی کام بھی لے جو منعم کی مرضی کے مطابق ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: ظاہر یہ ہے کہ تصویریں بے جان چیزوں کی ہوتی تھیں، جیسے درختوں اور عمارتوں وغیرہ کی، اس لئے کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ جانداروں کی تصویریں بنانا حضرت سلیمان علیہ السلام کی شریعت میں بھی ناجائز تھا۔