Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ کی نعمتیں اور سلیمان علیہ السلام ۔ حضرت داؤد علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کو بیان کرکے پھر آپ کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ان کیلئے ہوا کو تابع فرمان بنادیا ۔ مہینے بھر کی راہ صبح ہی صبح ہو جاتی اور اتنی ہی مسافت کا سفر شام کو ہو جاتا ۔ مثلاً دمشق سے تخت مع فوج و اسباب کے اڑایا اور تھوڑی دیر میں اصطخر پہنچادیا جو تیز سوار کیلئے بھی مہینے بھر کا سفر تھا ۔ اسی طرح شام کو وہاں سے تخت اڑا اور شام ہی کو کا بل پہنچ گیا ۔ تانبے کو بطور پانی کرکے اللہ تعالیٰ نے اس کے چشمے بہا دیئے تھے کہ جس کام میں جس طرح جس وقت لانا چاہیں تو بلاوقت لے لیا کریں ۔ یہ تانبا انہیں کے وقت سے کام میں آ رہا ہے ۔ سدی کا قول ہے کہ تین دن تک یہ بہتا رہا ۔ جنات کو ان کی ماتحتی میں کردیا جو وہ چاہتے اپنے سامنے ان سے کام لیتے ۔ ان میں سے جو جن احکام سلیمان کی تعمیل سے جی چراتا فوراً آگ سے جلا دیا جاتا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنات کی تین قسمیں ہیں ایک تو پردار ہے ۔ دوسری قسم سانپ اور کتے ہیں تیسری قسم وہ ہے جو سواریوں پر سوار ہوتے ہیں اترتے ہیں وغیرہ ۔ یہ حدیث بہت غریب ہے ۔ ابن نعم سے روایت ہے کہ جنات کی تین قسمیں ہیں ایک کیلئے تو عذاب ثواب ہے ایک آسمان و زمین میں اڑتے رہتے ہیں ایک سانپ کتے ہیں ۔ انسانوں کی بھی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوائے اور کوئی سایہ نہ ہوگا ۔ اور ایک قسم مثل چوپایوں کے ہے بلکہ ان سے بھی بدتر ۔ اور تیسری قسم انسانی صورت میں شیطانی دل رکھنے والے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں جن ابلیس کی اولاد میں سے ہیں اور انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں دونوں میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی ۔ عذاب و ثواب میں دونوں شریک ہیں دونوں کے ایماندار ولی اللہ ہیں اور دونوں کے بے ایمان شیطان ہیں ، محاریب کہتے ہیں بہترین عمارتوں کو گھر کے بہترین حصے کو مجلس کی صدارت کی جگہ کو ۔ بقول مجاہد ان عمارتوں کو جو محلات سے کم درجے کی ہوں ۔ ضحاک فرماتے ہیں مسجدوں کو ۔ قتادہ کہتے ہیں بڑے بڑے محل اور مسجدوں کو ۔ ابن زید کہتے ہیں گھروں کو ۔ تماثیل تصویروں کو کہتے ہیں یہ تانبے کی تھیں ۔ بقول قتادہ وہ مٹی اور شیشے کی تھیں ۔ جواب جمع ہے جابیہ کی ۔ جابیہ اس حوض کو کہتے ہیں جس میں پانی آتا رہتا ہو ۔ یہ مثل تالاب کے تھیں بہت بڑے بڑے لگن تھے تاکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بہت بڑی فوج کیلئے بہت سا کھانا بیک وقت تیار ہوسکے اور ان کے سامنے لایا جاسکے ۔ اور جمی ہوئی دیگیں جو بوجہ اپنی بڑائی کے اور بھاری پن کے ادھر سے ادھر نہیں کی جاسکتی تھیں ۔ ان سے اللہ نے فرما دیا تھا کہ دین و دنیا کی جو نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں ان پر میرا شکر کرو ۔ شکر مصدر ہے بغیر فعل کے یا مفعول لہ ہے اور دونوں تقدیروں پر اس میں دلالت ہے کہ شکر جس طرح قول اور ارادہ سے ہوتا ہے فعل سے بھی ہوتا ہے جیسے شاعر کا قول ہے افادتکم النعماء منی ثلاثہ یدی ولسانی الضمیر المحجیا اس میں بھی شاعر نعمتوں کا شکر تینوں طرح مانتا ہے فعل سے ، زبان سے اور دل سے ۔ حضرت عبدالرحمن سلمی سے مروی ہے کہ نماز بھی شکر ہے اور روزہ بھی شکر ہے اور بھلا عمل جسے تو اللہ کیلئے کرے ، شکر ہے اور سب سے افضل شکر حمد ہے ۔ محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں شکر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور نیک عمل ہے ۔ آل داؤد دونوں طرح کا شکر ادا کرتے تھے قولاً بھی اور فعلاً بھی ۔ ثابت بنانی فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی اہل و عیال اولاد اور عورتوں پر اس طرح اوقات کی پابندی کے ساتھ نفل نماز تقسیم کی تھی کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی نماز میں مشغول نظر آتا ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کو سب سے زیادہ پسند حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز تھی ۔ آپ آدھی رات سوتے تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو رہتے ۔ اسی طرح سب روزوں سے زیادہ محبوب روزے بھی اللہ تعالیٰ کو آپ ہی کے تھے آپ ایک دن روزے سے رہتے اور ایک دن بےروزہ ایک خوبی آپ میں یہ تھی کہ دشمن سے جہاد کے وقت منہ نہ پھیرتے ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے آپ سے فرمایا کہ پیارے بچے رات کو بہت نہ سویا کرو ۔ رات کی زیادہ نیند انسان کو قیامت کے دن فقیر بنا دیتی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں اس موقعہ پر حضرت داؤد علیہ السلام کی ایک مطول حدیث مروی ہے ۔ اسی کتاب میں یہ بھی مروی ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کیا کہ الہ العالمین تیرا شکر کیسے ادا ہوگا ؟ شکر گزاری خود تیری ایک نعمت ہے جواب ملا داؤد اب تو نے میری شکر گزاری ادا کرلی جبکہ تونے اسے جان لیا کہ کل نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں ۔ پھر ایک واقعے کی خبر دی جاتی ہے کہ بندوں میں سے شکر گزار بندے بہت ہی کم ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) مع اعیان سلطنت اور لشکر تخت پر بیٹھ جاتے اور جدھر آپ کا حکم ہوتا کہ ہوائیں اسے اتنی رفتار سے لے جاتیں کہ ایک مہینے جتنی مسافت صبح سے دوپہر تک کی ایک منزل میں طے ہوجاتی اور پھر اسی طرح دوپہر سے رات تک ایک مہینے جتنی مسافت طے ہوجاتی اس طرح ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت طے ہوجاتی۔ 12۔ 2 یعنی جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے لوہا نرم کردیا تھا، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے تانبے کا چشمہ ہم نے جاری کردیا تاکہ تانبے کی دھات سے وہ جو چاہیں بنائیں۔ 12۔ 3 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سزا قیامت والے دن دی جائے گی۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ دنیاوی سزا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ مقرر فرما دیا تھا جس کے ہاتھ میں آگ کی لاٹھی تھی۔ جو جن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے سرتابی کرتا، فرشتہ وہ لاٹھی اسے مارتا، جس سے وہ جل کر بھسم ہوجاتا (فتح القدیر

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٨] تشریح کے لئے دیکھئے ( سورة انبیاء کی آیت نمبر ٨١ کا حاشیہ نمبر ٦٩)- [ ١٩] اس کی دو توجیہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے عہد حکومت میں یمن میں تانبے کا ایک پگھلا ہوا چشمہ نکل آیا تھا اور دوسری یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد داود کو لوہا پگھلانے کا فن عطا فرمایا تھا۔ اور آپ سے اس سے زرہیں بنایا کرتے تھے، اسی طرح حضرت سلیمان کو تانبا پگھلانے کا فن عطا فرمایا تھا۔ آپ وسیع پیمانے پر تانبا پگھلاتے۔ پھر اس کو سانچوں میں ڈال کر خبات بڑے بڑے برتن، دیگیں اور لگن وغیرہ تیار کرتے تھے۔ جن میں ایک لشکر کا کھانا پکتا اور کھلایا جاتا، یہ تو سرکاری ضروریات تھیں۔ علاوہ ازیں آپ تانبے کی اشیاء عام لوگوں کی ضروریات کے لئے بھی بناتے تھے۔- [ ٢٠] اس مقام پر جن کا لفظ آیا ہے۔ جبکہ سورة انبیاء کی آیت نمبر ٨٢ میں انہی معنوں میں شیاطین کا لفظ آیا ہے۔ بات ایک ہی ہے جن کا لفظ اسم جنس ہے۔ جبکہ شیاطین کا اطلاق صرف سرکش اور متکبر قسم کے جنوں پر ہوتا ہے۔ (اور شیاطین انسانوں میں سے بھی ہوسکتے ہیں) یہ جن معمولی قلیوں، خدمتگاروں اور مزدوروں کی طرح آپ کے کام کرتے اور آپ کے حکم پر چلتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو حضرت سلیمان کا تابع بنا رکھا تھا اور وہ آپ کی اطاعت پر مجبور تھے۔ اگر وہ ذرا بھی سرکش کرتے تو آگ میں پھونک دیئے جاتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ان جنوں پر اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر کردیا تھا۔ جس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہوتا۔ جو کوئی جن حضرت سلیمان کی نافرمانی کرتا یہ فرشتہ اس کو کوڑا مار کر جلا دیتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ ۔۔ : اللہ تعالیٰ کی طرف انابت کرنے والے بندوں میں سے داؤد (علیہ السلام) کے بعد ان کے فرزند ارجمند سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا۔ وہ ایک مہینے کی راہ دن کے پہلے پہر اور ایک مہینے کی راہ دن کے پچھلے پہر طے کرلیتی تھی۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس زمانے میں بحری جہاز موافق ہواؤں کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ آیت میں ” غُدُوٌّ“ سے مراد جانا ہے اور ” رَوَاحٌ“ سے مراد واپسی ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایک ماہ تک موافق ہوا سلیمان (علیہ السلام) کے پایۂ تخت سے مشرق کی طرف چلتی تھی، جس کے ذریعے سے ان کے بحری جہاز تجارتی اور دوسرے مقاصد کے لیے مشرق کی طرف روانہ ہوتے تھے، پھر ایک ماہ کے لیے واپسی کے سفر کے لیے مغرب کی طرف چلتی تھی جس سے وہ جہاز واپس فلسطین کی طرف آجاتے اور یہ مطلب ہے اس آیت کا : (تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ۭ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عٰلِمِيْنَ ) [ الأنبیاء : ٨١ ] ” اس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی اور ہم ہر چیز کو جاننے والے تھے۔ “ یہ اور اس جیسی تفسیروں کی حقیقت کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (٨١) ۔ - ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ ان میں اس شخصیت کو عطا ہونے والی چیزوں کا ذکر ہے، جس نے یہ دعا کی تھی : (قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ ) [ صٓ : ٣٥ ] ” اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرماجو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔ “ اور جس کی فوجوں کے ایک صاحب علم نے یمن سے آنکھ جھپکنے میں ملکہ سبا کا تخت لا حاضر کیا تھا۔ موجودہ زمانے میں جتنی ترقی ہوئی ہے، یا آئندہ ہوگی سلیمان (علیہ السلام) کو عطا کردہ قوتوں کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی، پھر اگر ہوا ان کے حکم سے انھیں ایک ماہ کا سفر پہلے پہر اور ایک ماہ کا سفر پچھلے پہر میں طے کروا دے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ رہی اس کی کیفیت کہ ہوا انھیں یہ فاصلہ کیسے طے کرواتی تھی تو وہ اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمائی اور جو بات معلوم نہ ہو اس کے متعلق تکلّف نہیں کرنا چاہیے۔ سورة ص میں فرمایا : (قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ ) [ ص : ٨٦ ] ” کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں سے ہوں۔ “ مزید دیکھیے سورة انبیاء (٨١) ۔- وَاَسَلْنَا لَهٗ عَيْنَ الْقِطْرِ : ” سَالَ یَسِیْلُ سَیْلًا “ (ض) بہنا۔ ” أَسَالَ یُسِیْلُ إِسَالَۃً “ (افعال) بہانا، جاری کرنا۔ ” اَسَلْنَا “ باب افعال کے ماضی معلوم سے جمع متکلم کا صیغہ ہے۔ داؤد (علیہ السلام) کے لیے لوہا نرم کردیا، سلیمان (علیہ السلام) کو وہ نعمت وراثت میں ملی، مزید ان کے لیے تانبے کا چشمہ جاری کردیا، تاکہ وہ انھیں وافر مقدار میں دستیاب رہے اور ان کے زیر فرمان انسان اور جنّ اس سے ان کی اور ان کی افواج کی ضرورت کی ہر چیز، مثلاً ہر قسم کے چھوٹے بڑے برتن اور گھروں کے اندر اور باہر استعمال ہونے والا سامان تیار کرتے رہیں۔ ایک اخبار کے مطابق اب بھی اسرائیل میں یہودی تانبے کے اس مقام کی تلاش میں ہیں۔ - وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖ : سورة انبیاء میں ان جنّات کا تذکرہ ” شیاطین “ کے لفظ سے کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ سورة انبیاء میں مذکورہ شیاطین سے مراد انسانی شیاطین نہیں، بلکہ جنّی شیاطین ہیں۔ وہ جنّات جو کام کرتے تھے ان کا تذکرہ اس مقام کے علاوہ سورة انبیاء (٨٢) اور سورة ص (٣٧، ٣٨) میں ملاحظہ کریں۔- وَمَنْ يَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا ۔۔ : اس کی تفسیر سورة انبیاء (٨٢) میں ملاحظہ کریں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) ولسلیمٰن الریح غدوھا شہر و رواحھا شہر، حضرت داؤد (علیہ السلام) کے خصوصی فضائل و انعامات کے ذکر کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا اور ارشاد ہوا کہ جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھا، اسی طرح سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا کو مسخر فرما دیا تھا، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تخت کو جس پر وہ مع اپنے اہل دربار کے بڑی تعداد میں سوار ہوتے تھے، ہوا ان کے حکم کے تابع جہاں وہ چاہتے لے جاتی تھی۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ تسخیر ہوا کا معجزہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس عمل کے صلہ میں عطا ہوا تھا کہ ایک روز وہ اپنے گھوڑوں کے معائنہ میں مشغول تھے، اس میں ایسی مشغولیت ہوئی کہ عصر کی نماز قضاء ہوگئی چونکہ گھوڑے اس غفلت کا سبب ہوئے تھے، اسی سبب غفلت کو ختم کرنے کے لئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان گھوڑوں کو ذبح کر کے قربان کردیا (کیونکہ سلیمان (علیہ السلام) کی شریعت میں گائے بیل کی طرح گھوڑے کی قربانی بھی جائز تھی) اور یہ گھوڑے خود حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ملک میں تھے، اس لئے بیت المال کے نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور قربانی کی وجہ سے اپنا مال ضائع کرنے کا اشکال بھی نہیں ہوتا۔ اس کی پوری تفصیل سورة ص میں آئے گی، چونکہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی سواری کے جانور قربان کردیئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بہتر سواری عطا فرما دی۔ (قرطبی)- (آیت) غدوھا شہر ورواحھا شہر، غدو کے معنی صبح کو چلنے اور رواح کے معنی شام کو چلنے کے ہیں۔ مطلب آیت کا یہ ہوا کہ صبح سے دوپہر تک یہ تخت سلیمانی ہوا کے کاندھوں پر ایک مہینہ کی مسافت طے کرلیتا تھا، اور پھر شام سے رات تک ایک مہینہ کی، اس طرح دو مہینے کی مسافت ایک دن میں طے کرتا تھا۔- حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) صبح کو بیت المقدس سے روانہ ہوتے تو دوپہر کو اصطخر میں جا کر قیام فرماتے اور دوپہر کا کھانا کھاتے تھے، پھر یہاں سے بعد ظہر واپس چلتے تو کا بل میں جا کر رات ہوتی تھی، اور بیت المقدس اور اصطخر کے درمیان اتنی مسافت ہے جو تیز سواری پر چلنے والا ایک ماہ میں طے کرسکتا ہے، اسی طرح اصطخر سے کا بل تک کی مسافت بھی تیز سواری پر چلنے والا ایک ماہ میں طے کرسکتا ہے۔ (ابن کثیر)- (آیت) واسلنا لہ عین القطر، یعنی بہا دیا ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے لئے چشمہ تانبے کا، یعنی تانبے جیسی سخت دھات کو اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کے لئے پانی کی طرح بہنے والا سیال بنادیا، جو پانی کے چشمہ کی طرح جاری تھا اور گرم بھی نہ تھا، تاکہ آسانی کے ساتھ اس کے برتن اور دوسری ضروریات بنا سکیں۔- حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ یہ چشمہ اتنی دور تک جاری ہوا جس کی مسافت تین دن تین رات میں طے ہو سکے، اور یہ ارض یمن میں تھا۔ اور مجاہد کی روایت میں ہے کہ یہ چشمہ صنعاء یمن سے شروع ہوا اور تین دن تین رات کی مسافت تک پانی کے چشمہ کی طرح جاری رہا، خلیل نحوی نے فرمایا کہ لفظ قطر جو اس آیت میں آیا ہے اس سے مراد پگھلا ہوا تانبا ہے۔ (قرطبی)- ومن الجن من یعمل بین یدیہ، یہ جملہ بھی سخرنا محذوف سے متعلق ہے معنی یہ ہیں کہ مسخر کردیا ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنات میں سے ایسے لوگوں کو جو ان کے سامنے ان کے کام انجام دیں اپنے رب کے حکم کے موافق، بین یدیہ ” یعنی ان کے سامنے “ کے الفاظ بڑھانے سے شاید یہ بتلانا ہو کہ سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنات کی تسخیر اس طرح کی نہیں جس طرح چاند سورج وغیرہ کو انسان کے لئے مسخر کرنے کا ارشاد قرآن میں آیا ہے، بلکہ یہ تسخیر ایسی تھی کہ جنات نوکروں چاکروں کی طرح ان کے سامنے مفوضہ خدمات میں لگے رہتے تھے۔- تسخیر جنات کا مسئلہ :- جنات کی تسخیر جو اس جگہ مذکور ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے، اس میں تو کوئی سوال ہی نہیں ہوسکتا اور بعض صحابہ کرام کے متعلق جو روایات میں آیا ہے کہ جنات ان کے مسخر اور تابع تھے، تو یہ تسخیر بھی اسی قسم کی تسخیر باذن اللہ تھی جو بطور کرامت ان حضرات کو عطا کی گئی تھی اس میں کسی عمل و وظیفہ کا کوئی دخل نہیں تھا، جیسا کہ علامہ شربینی نے تفسیر سراج المنیر میں اس آیت کے تحت میں حضرت ابوہریرہ، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، عمر بن خطاب، ابو ایوب انصاری، زید بن ثابت وغیرہ (رض) کے متعدد واقعات ایسے لکھے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جنات ان کی اطاعت و خدمت کرتے تھے۔ مگر یہ سب محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا کہ سلیمان (علیہ السلام) کی طرح کچھ جنات کو ان حضرات کا مسخر بنادیا، لیکن جو تسخیر عملیات کے ذریعہ عاملوں میں مشہور ہے وہ قابل غور ہے، کہ شرعاً اس کا کیا حکم ہے ؟ قاضی بدر الدین شبلی حنفی جو آٹھویں صدی کے علماء میں سے ہیں انہوں نے جنات کے احکام پر ایک مستقل کتاب ” آکام المرجان فی احکام الجان “ لکھی ہے۔ اس میں بیان کیا ہے کہ جنات سے خدمت لینے کا کام سب سے پہلے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے باذن اللہ بطور معجزہ کے کیا ہے، اور اہل فارس جمشید بن اونجہان کی طرف منسوب کرتے ہیں، کہ انہوں نے جنات سے خدمت لی ہے۔ اسی طرح آصف بن برخیا وغیرہ جن کا تعلق حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے رہا ہے، ان کے متعلق بھی است خدام جن کے واقعات مشہور ہیں، اور مسلمانوں میں سب سے زیادہ شہرت ابو نصر احمد بن ہلال البکیل اور ہلال بن وصیف کی ہے جن سے است خدام جنات کے عجیب عجیب واقعات مذکور ہیں۔ ہلال بن وصیف نے ایک مستقل کتاب میں جنات کے کلمات جو انہوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے پیش کئے اور جو عہد و میثاق سلیمان (علیہ السلام) نے ان سے لئے ان کو جمع کردیا ہے۔- قاضی بدرالدین نے اسی کتاب میں لکھا ہے کہ عام طور سے تسخیر جنات کا عمل کرنیوالے عاملین کلمات کفریہ شیطانیہ سے اور سحر سے کام لیتے ہیں، جن کو کافر جنات و شیاطین پسند کرتے ہیں، اور ان کے مسخر و تابع ہونے کا راز صرف یہ ہے کہ وہ ان کے اعمال کفریہ شرکیہ سے خوش ہو کر بطور رشوت کے ان کے کچھ کام بھی کردیتے ہیں، اور اسی لئے بکثرت ان عملیات میں قرآن کریم کو نجاست یا خون وغیرہ سے لکھتے ہیں جس سے کفار جن اور شیاطین راضی ہو کر ان کے کام کردیتے ہیں۔ البتہ ایک شخص ابن الامام کے متعلق لکھا ہے کہ یہ خلیفہ معتضد باللہ کے زمانہ میں تھا، جنات کو اس نے اسماء آلہیہ کے ذریعے سے مسخر کیا تھا، اس میں کوئی بات خلاف شرع نہیں تھی۔ (آکام المرجان، ص 100) ۔- خلاصہ یہ ہے کہ جنات کی تسخیر اگر کسی کے لئے بغیر قصد و عمل کے محض منجانب اللہ ہوجائے جیسا کہ سلیمان (علیہ السلام) اور بعض صحابہ کرام کے متعلق ثابت ہے وہ تو معجزہ یا کرامت میں داخل ہے، اور جو تسخیر عملیات کے ذریعہ کی جاتی ہے اس میں اگر کلمات کفریہ بااعمال کفریہ ہوں تو کفر، اور صرف معصیت پر مشتمل ہوں تو گناہ کبیرہ ہے، اور جن عملیات میں ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں جن کے معنی معلوم نہیں ان کو بھی فقہاء نے اس بنا پر ناجائز کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ان کلمات میں کفر و شرک یا معصیت پر مشتمل کلمات ہوں، قاضی بدر الدین نے ” آکام المرجان “ میں ایسے نامعلوم المعنی کلمات کے استعمال کو بھی ناجائز لکھا ہے۔- اور اگر یہ عمل تسخیر اسماء آلہیہ یا آیات قرآنیہ کے ذریعہ ہو اور اس میں نجاست وغیرہ کے استعمال جیسی کوئی معصیت بھی نہ ہو، تو وہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مقصود اس سے جنات کی ایذاء سے خود بچنا یا دوسرے مسلمانوں کو بچانا ہو، یعنی دفع مضرت مقصود ہو، جلب منفعت مقصود نہ ہو۔ کیونکہ اگر اس کو کسب مال کا پیشہ بنایا گیا تو اس لئے جائز نہیں کہ اس میں استرقاق حر یعنی آزاد کو اپنا غلام بنانا اور بلاحق شرعی اس سے بیگار لینا ہے، جو حرام ہے۔ واللہ اعلم۔- (آیت) ومن یزغ منہم عن امرنا نذقہ من عذاب السعیر، ” یعنی ہم نے جنات کو سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت و اطاعت کا جو حکم دیا ہے اگر ان میں کوئی فرد اس اطاعت سے انحراف کرے گا تو اس کو آگ کا عذاب دیا جائے گا “ اکثر مفسرین نے اس سے آخرت کا عذاب جہنم مراد لیا ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک فرشتہ کو مسلط کردیا تھا کہ جو جن سلیمان (علیہ السلام) کی اطاعت میں کوتاہی کرے اس کو آتشین کوڑے مار کر کام کرنے پر مجبور کرتا تھا (قرطبی) اور اس پر یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ جنات تو خود آگ سے بنے ہوئے ہیں، آگ ان پر کیا اثر کرے گی۔ کیونکہ جنات کے آگ سے بننے کا مطلب وہی ہے جو انسان کے مٹی سے بننے کا مطلب ہے، یعنی عنصر غالب انسان کے وجود کا مٹی ہے، مگر اس کو مٹی پتھر سے مارا جائے تو تکلیف پہنچتی ہے اسی طرح جنات کا عنصر غالب آگ ہے، مگر خالص اور تیز آگ سے وہ بھی جل جاتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ غُدُوُّہَا شَہْرٌ وَّرَوَاحُہَا شَہْرٌ۝ ٠ ۚ وَاَسَلْنَا لَہٗ عَيْنَ الْقِطْرِ۝ ٠ ۭ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْہِ بِـاِذْنِ رَبِّہٖ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يَّزِغْ مِنْہُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيْرِ۝ ١٢- الرِّيحُ معروف،- وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] . وأمّا قوله :- يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ.- وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ :- تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ :- مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء .- ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من - المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح .- الریح کے معنی معروف ہیں - ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير - سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔- المراوحتہ - کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔- غدا - الْغُدْوَةُ والغَدَاةُ من أول النهار، وقوبل في القرآن الغُدُوُّ بالآصال، نحو قوله : بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ- [ الأعراف 205] ، وقوبل الغَدَاةُ بالعشيّ ، قال : بِالْغَداةِ وَالْعَشِيِ [ الأنعام 52] ، غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ 12] - ( غ د و ) الغدوۃ - والغداۃ کے معنی دن کا ابتدائی حصہ کے ہیں قرآن میں غدو ( غدوۃ کی جمع ) کے مقابلہ میں اصال استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : ۔ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف 205] صبح وشام ( یا د کرتے رہو ) ( غدو ( مصدر ) رواح کے مقابلہ میں ) جیسے فرمایا : ۔ غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ 12] اس کا صبح کا جانا ایک مہینہ کی راہ ہوتی ہے اور شام کا جانا بھی ایک مہینے کی ۔- شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ [ البقرة 185] ، الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة 197] ، إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة 36] ، فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] ، والْمُشَاهَرَةُ : المعاملة بالشّهور کالمسانهة والمیاومة، وأَشْهَرْتُ بالمکان : أقمت به شهرا، وشُهِرَ فلان واشْتُهِرَ يقال في الخیر والشّرّ.- ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں ۔۔۔ الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة 197] حج کے مہینے معین ہیں جو معلوم ہیں ۔ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة 36] خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] تو مشرکوا زمین میں چار مہینے چل پھر لو ۔ المشاھرۃ کے معنی ہیں مہینوں کے حساب سے معاملہ کرنا ۔ جیسے مسانھۃ ( سال وار معاملہ کرنا ) اور میاومۃ ( دنوں کے حساب سے معاملہ کرنا ) اشھرت بالمکان کسی جگہ مہینہ بھر قیا م کرنا شھر فلان واشتھر کے معنی مشہور ہونے کے ہیں خواہ وہ شہرت نیک ہو یا بد ۔- سال - سَالَ الشیء يَسِيلُ ، وأَسَلْتُهُ أنا، قال : وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، أي : أذبنا له، والْإِسَالَةُ في الحقیقة : حالة في القطر تحصل بعد الإذابة، والسَّيْلُ أصله مصدر، وجعل اسما للماء الذي يأتيك ولم يصبک مطره، قال : فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] - ( س ی ل )- سال الشئی یسبیل کے معنی کسی چیز کے بہنے کے ہیں اور اسلنا کے معنی بہا دینے کے ۔ قرآن - میں ہے : ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کے لئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا ۔ یاہں اسلنا کے معنی پگھلا دینے کے ہیں ۔ لیکن فی الحقیقت اسالۃ کا لفظ قطر کی اس حالت پر بولا جا تا ہے جو پگھلا نے کے بعد ہوتی ہے ۔ السیل ( ض ) یہ اصل میں سال یسبیل کا مصدر ہے جس کے معنی بہنے کے ہیں اور بطور اسم اس پانی پر بولا جاتا ہے ۔ جو دور سے بہہ کر کسی جگہ پر آجائے اور وہاں بر سانہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] پھر اور رساتی ) نالے پر پھولا ہوا جھاگ آگیا ۔ - عين - ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا - [ القمر 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ- [ الفرقان 74] .- ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة،- واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ- [ الصافات 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] .- ( ع ی ن ) العین - اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔- قَطِرَانُ : - ما يَتَقَطَّرُ من الهناء . قال تعالی: سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ، وقرئ : ( من قِطْرٍ آنٍ ) أي : من نحاس مذاب قد أني حرّها، وقال : آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف 96] أي : نحاسا مذاب - القطران - کے معنی پگھل ہوئی رال یا گیند ھک کے ہیں قرآن میں ہے سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ان کے کرتے گند ھک کے ہوں گے ۔ ایک قراءت میں قطرآ ن ہے جس کے معنی پگھلے ہوئے گرم تانبے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف 96]( اب ) میرے پاس تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں یہاں قطرا کے معنی پگھلا ہوا تا نبا کے ہیں ۔- جِنَّة :- جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- ۔ الجنتہ - جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- أَذِنَ :- والإِذنُ في الشیء : إعلام بإجازته والرخصة فيه، نحو، وَما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ [ النساء 64] أي : بإرادته وأمره، - ( اذ ن) الاذن - الاذن فی الشئی کے معنی ہیں یہ بتا دینا کہ کسی چیز میں اجازت اور رخصت ہے ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ ( سورة النساء 64) اور ہم نے پیغمبر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے ۔ میں اذن بمعنی ارادہ اور حکم ہے - زيغ - الزَّيْغُ : المیل عن الاستقامة، والتَّزَايُغُ : التمایل، ورجل زَائِغٌ ، وقوم زَاغَةٌ ، وزائغون، وزاغت الشمس، وزَاغَ البصر، وقال تعالی: وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى ما يداخلهم من الخوف حتی اظلمّت أبصارهم، ويصحّ أن يكون إشارة إلى ما قال : يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] ، وقال : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] ، مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] ، فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ- [ الصف 5] ، لمّا فارقوا الاستقامة عاملهم بذلک .- ( ز ی غ ) الزیغ کے معنی حالت استقامت سے ایک جانب مائل ہوجانا کے ہیں اور التزایغ کے معنی تمایل یعنی بہت زیادہ مائل ہوجانا ایک دوسرے سے مائل ہونا رجل زائغ مائل ہونے والا ۔ اس کی جمع زاغۃ وزائغون آتی ہے ۔ زاغت الشمس ۔ سورج مائل بزوال ہوگیا زاغ البصر نگاہ نے غلطی کی ، ایک طرف ہٹ گئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ خوف و ہراس کی وجہ سے انہیں کچھ نظر نہیں آئے گا اور یہ بھی کہ یہ آیت :۔ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] کے ہم معنی ہو یعنی نگاہیں صحیح طور پر کسی چیز کا ادارک نہیں کرسکیں گی ۔ نیز فرمایا : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] نظر نہ تو حقیقت سے ایک طرف ہٹی اور نہ ہی اس نے حد سے تجاوز کیا ۔ مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] اس کے بعد کہ ۔۔۔۔ پھرجانے کو تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ [ الصف 5] کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ از خود صحیح راہ سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو اسی طرف جھکا دیا ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- سعر - السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ :- حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً- [ النساء 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار .- ( س ع ر ) السعر - کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا کہ اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ بھر کی ہوتی تھی۔- اور اسی طرح شام کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی تھی یعنی صبح کو بیت المقدس سے اصطخر تک ایک ماہ کی مسافت طے کرلیا کرتے تھے اور اسی طرح اسی دن شام کو اسطخر سے بیت المقدس آجایا کرتے تھے۔- اور ہم نے ان کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا کہ مٹی کی طرح جو اس سے بنانا ہوتا وہ بنا لیتے۔- اور جنات کو بھی ہم نے ان کے تابع کردیا تھا جن میں سے بعض جن تو ان کے پروردگار کے حکم سے ان کے سامنے تعمیرات کا کام کرتے تھے۔- اور یہ وعید بھی سنا دی تھی کہ جو ان میں سے ہمارے حکم یا یہ کہ سلیمان کی فرمانبرداری سے منہ موڑے گا تو ہم اسے دوزخ کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے اور کہا گیا ہے کہ ان کا بادشاہ انہیں آگ کے ستون کے ساتھ سزا دیا کرتا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّہَا شَہْرٌ وَّرَوَاحُہَا شَہْرٌ ” اور سلیمان ( علیہ السلام) کے لیے ہوا کو (مسخر کردیا تھا) ‘ اس کا صبح کو چلنا بھی ایک ماہ (کا سفر) تھا اور اس کا شام کو چلنا بھی ایک ماہ ( کا سفر) تھا۔ “- حضرت سلیمان (علیہ السلام) جہاں جانا چاہتے تیز ہوا آپ ( علیہ السلام) کے تخت کو اڑا کر وہاں پہنچا دیتی اور جو فاصلہ اس زمانے کے لوگ مروّجہ سواریوں کے ذریعے ایک ماہ میں طے کرتے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) وہ فاصلہ ہوا کے ذریعے سے ایک صبح یا ایک شام میں طے کرلیتے تھے۔- وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ ” اور ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کردیا تھا۔ “- وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ ” اور کچھ ِجن بھی (اس (علیہ السلام) کے تابع کردیے تھے) جو اس کے سامنے کام کرتے تھے اس کے رب کے حکم سے۔ “- وَمَنْ یَّزِغْ مِنْہُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ ” اور ان میں سے جو کوئی بھی ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اسے ہم جلا دینے والا عذاب چکھاتے تھے ۔ “- آگے ان کاموں کی تفصیل بھی بتائی جا رہی ہے جو جنات حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے کرتے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :17 یہ مضمون بھی سورہ انبیا آیت 81 میں گزر چکا ہے اور اس کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم 176 ۔ 177 ) سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :18 بعض قدیم مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ زمین سے ایک چشمہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے پھوٹ نکلا تھا جس میں سے پانی کے بجائے پگھلا ہوا تانبہ بہتا تھا ۔ لیکن آیت کی دوسری تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں تانبے کو پگھلانے اور اس سے طرح طرح کی چیزیں بنانے کا کام بڑے پیمانے پر کیا گیا کہ گویا وہاں تانبے کے چشمے بہ رہے تھے ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، ص 176 ) سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :19 یہ جن جو سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کیے گیے تھے ، آیا یہ دہقانی اور کوہستانی انسان تھے یا واقعی وہی جن تھے جو ایک پوشیدہ مخلوق کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہیں ، اس مسئلے پر بھی سورہ انبیا اور سورہ نحل کی تفسیر میں ہم مفصل بحث کر چکے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: یہ وہ معجزہ ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو عطا ہوا تھا، اللہ تعالیٰ نے ہوا کو ان کا تابع فرمان بنادیا تھا، وہ ہوا کی تیز رفتاری کو استعمال فرماکر دور دراز کا سفر مختصر وقت میں طے کرلیتے تھے، قرآن کریم نے اس معجزے کی تفصیل بیان نہیں فرمائی، لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تخت کو ہوا پر اڑنے کی صلاحیت دے دی گئی تھی، چنانچہ جو سفر عام حالات میں ایک مہینے میں طے ہوا کرتا تھا وہ اس طرح صرف صبح یا صرف شام میں طے ہوجایا کرتا تھا۔ 6: یہ ایک اور نعمت کا ذکر ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو عطا ہوئی تھی کہ تانبے کا ایک چشمہ ان کی دسترس میں تھا، اور اس میں اللہ تعالیٰ نے تانبے کو سیال بنادیا تھا جس کی وجہ سے تانبے کی مصنوعات آسانی سے بن جاتی تھیں۔ 7: وہ شریر جنات جو کسی کے قابو میں نہیں آتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع بنادیا تھا، چنانچہ وہ ان کی مختلف خدمات انجام دیتے تھے جن میں سے کچھ کا ذکر آگے آرہا ہے، یہاں یہ واضح رہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے تو جنات کو اللہ تعالیٰ نے خود تابع بنادیا تھا، لیکن آج کل جو لوگ عملیات کے ذریعے جنات کو تابع بنانے کا دعوی کرتے ہیں اگر وہ صحیح ہو اور اس کے لئے کوئی ناجائز طریقہ بھی اختیار نہ کرنا پڑے تو وہ صرف اس صورت میں جائز ہے جب اس کا مقصد شریر جنات کی تکلیف سے بچنا ہو، ورنہ کسی آزاد بے ضرر جن کو غلام بنانا جائز نہیں ہے۔