11۔ 1 سابغات محزوف موصوف کی صفت ہے دروعا سابغات یعنی پوری لمبیں زرہیں، جو لڑنے والے کے پورے جسم کو صحیح طریقے سے ڈھانک لیں اور اسے دشمن کے وار سے محفوظ رکھیں۔ 11۔ 2 تاکہ چھوٹی بڑی نہ ہوں یا سخت یا نرم نہ ہوں یعنی کڑیوں کے جوڑنے میں کیل اتنے باریک نہ ہوں کہ جوڑ حرکت کرتے رہیں اور ان میں قرار وثبات نہ آئے اور نہ اتنے موٹے ہوں کہ اسے توڑ ہی ڈالیں یا جس سے حلقہ تنگ ہوجائے اور اسے پہنا نہ جاسکے یہ زرہ بافی کی صنعت کے بارے میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کو ہدایات دی گئیں۔ 11۔ 3 یعنی ان نعمتوں کے بدلے میں عمل صالح کا اہتمام کرو تاکہ میرا عملی شکر بھی ہوتا رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نعمتوں سے سرفراز فرمائے، اسے اسی حساب سے اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے اور شکر میں بنیادی چیز یہی ہے نعمت دینے والے کو راضی رکھنے کی بھرپور سعی کی جائے یعنی اس کی اطاعت کی جائے اور نافرمانی سے بچا جائے۔
[ ١٧] آپ کے نیک اعمال میں سے ایک قابل ذکر نیک عمل یہ بھی تھا کہ آپ بادشاہ اور نبی ہونے کے باوجود اپنے ذاتی اخراجات کا بار بھی بیت المال پر ڈالنا گوارا نہ کرتے تھے۔ بلکہ زرہیں بنا کر ان کی آمدنی سے بسر اوقات کرتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- مقدام بن معدیکرب کہتے ہیں آپ نے فرمایا : کسی آدمی کے لئے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں جسے وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داود اپنے ہاتھ سے (زرہ بنا کر) کھایا کرتے تھے (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب نکسب الرجل و عملہ۔۔ )
اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ : ” سبغت “ کامل اور وسیع، یہ ” دُرُوْعٌ“ محذوف کی صفت ہے، یعنی ہم نے اس سے کہا کہ مکمل اور کشادہ زرہیں تیار کر، جو لڑنے والے کے پورے جسم کو صحیح طریقے سے ڈھانپ لیں اور اسے دشمن کے وار سے محفوظ رکھیں۔ - وَّقَدِّرْ فِي السَّرْدِ : ” السرد “ کسی موٹی چیز کو سینا، پرونا، جیسے زرہ بننا، چمڑے کو سینا، یہاں لوہے کی کڑیوں کو ترتیب سے جوڑنا مراد ہے۔ (مفردات) کڑیاں جوڑنے میں اندازہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹی بڑی نہ ہوں، نہ ایسی کھلی ہوں کہ جوڑ زیادہ حرکت کرتے رہیں، نہ اتنی تنگ ہوں یا کیل اتنے موٹے ہوں کہ آدمی انھیں پہن کر حرکت ہی نہ کرسکے۔ بلکہ ہر کڑی اور ہر جوڑ جسم میں اس کی جگہ درست بیٹھے اور آپس میں صحیح طریقے سے مرتب ہو۔ - وَاعْمَلُوْا صَالِحًا : اس خطاب میں داؤد (علیہ السلام) کی آل کو بھی شامل فرما لیا ہے، اس لیے ” اِعْمَلْ “ کے بجائے ” اعملوا “ فرمایا۔ - انی بما تعملون بصیر : اس میں وعدہ بھی ہے اور وعید بھی، یعنی تم جو کچھ کر رہے ہو میں اسے خوب دیکھ رہا ہوں، صالح اعمال پر جزا دوں گا اور برے اعمال پر سزا دوں گا۔
(آیت) والنالہ الحدید ان اعمل سبغت وقدر فی السرد، یہ دوسرا معجزہ ہے کہ لوہے کو ان کے لئے نرم کردیا تھا۔ حسن بصری، قتادہ، اعمش وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ کے لوہے کو ان کے لئے موم کی طرح نرم بنادیا تھا کہ اس سے کوئی چیز بنانے میں نہ ان کو آگ کی ضرورت پڑتی تھی اور نہ کسی ہتھوڑے یا دوسرے آلات کی۔ آگے آیت میں اس کا بیان ہے کہ لوہے کو ان کے لئے نرم اس لئے بنایا گیا تھا کہ وہ لوہے کی زرہ آسانی سے بنا سکیں، اور ایک دوسری آیت میں یہ بھی مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زرہ سازی کی صنعت آپ کو خود سکھائی تھی (آیت) وعلمنہ صنعة لبوس لکم، ” یعنی ہم نے سکھائی ان کو صنعت زرہ بنانے کی “ اور اس آیت میں بھی آگے جو قدر فی الشرد آیا ہے، یہ بھی اس صنعت کے سکھانے کی تکمیل ہے۔ لفظ قدر تقدیر سے مشتق ہے، جس کے معنی ایک اندازے پر بنانے کے ہیں۔ اور سرد کے لفظی معنی بننے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ زرہ کے بنانے میں اس کی کڑیوں کو متوازن اور متناسب بنائیں، کوئی چھوٹی کوئی بڑی نہ ہو، تاکہ وہ مضبوط بھی بنے اور دیکھنے میں بھی بھلی معلوم ہو۔ قدر فی السرد کی یہ تفسیر حضرت عبداللہ ابن عباس سے منقول ہے۔ (ابن کثیر)- فائدہ :- اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صنعت میں ظاہری خوش نمائی کی رعایت بھی پسندیدہ چیز ہے کہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خاص ہدایت فرمائی۔- فائدہ دوم :- بعض حضرات نے قدر فی السرد کی تفسیر میں تقدیر سے یہ مراد لیا ہے کہ اس صنعت کے لئے ایک مقدار وقت کی معین کرلینا چاہئے۔ سارے اوقات اس میں صرف نہ ہوجائیں، تاکہ عبادت اور امور سلطنت میں اس کی وجہ سے خلل نہ آئے۔ اس تفسیر پر معلوم ہوا کہ صنعت کار اور محنت کش لوگوں کو بھی یہ چاہئے کہ عبادت اور اپنی معلومات حاصل کرنے کے لئے اپنے کام سے کچھ وقت بچایا کریں اور اوقات کا انضباط رکھیں۔ (روح المعانی)- صنعت و حرفت کی بڑی فضیلت ہے :- آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ اشیاء ضرورت کی ایجاد و صنعت ایسی اہم چیز ہے کہ حق تعالیٰ نے خود اس کی تعلیم دینے کا اہتمام فرمایا، اور اپنے عظیم الشان پیغمبروں کو سکھلایا ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو زرہ سازی کی صنعت سکھانا اسی آیت سے ثابت ہوا، حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی بنانے کی صنعت اسی طرح سکھائی گئی، واصنع الفلک باعیننا ” یعنی ہمارے سامنے کشتی بناؤ “ سامنے بنانے کا مطلب یہی ہے کہ جس طرح ہم بتلاتے ہیں اسی طرح بناؤ۔ اسی طرح دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی مختلف صنعتیں سکھانا بعض روایات سے ثابت ہے۔ الطب النبوی کے نام سے ایک کتاب امام حدیث حافظ شمس الدین ذہبی کی طرف نسبت کے ساتھ چھپی ہے، اس میں تو ایک روایت یہ نقل کی ہے کہ انسانی زندگی کے لئے جتنی اہم اور ضروری صنعتیں ہیں مثلاً مکان بنانا، کپڑا بننا، درخت بونا اور اگانا، کھانے کی چیزیں تیار کرنا، حمل ونقل کے لئے پہیوں کی گاڑی بنا کر چلانا وغیرہ یہ سب ضروری صنعتیں اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے انبیاء (علیہم السلام) کو سکھلائی تھیں۔- صنعت پیشہ لوگوں کو حقیر سمجھنا گناہ ہے :- عرب میں مختلف آدمی مختلف صنعتیں اختیار کرتے تھے، کسی صنعت کو حقیر یا ذلیل نہیں سمجھا جاتا تھا، اور پیشہ و صنعت کی بنیاد پر کسی شخص کو کم یا زیادہ نہ سمجھا جاتا تھا، نہ پیشوں کی بنیاد پر کوئی برادری بنتی تھی۔ پیشوں کی بنیاد پر برادریاں بنانا اور بعض پیشوں کو بحیثیت پیشہ حقیر و ذلیل سمجھنا ہندوستان میں ہندوؤں کی پیداوار ہے، ان کے ساتھ رہنے سہنے سے مسلمانوں میں بھی یہ اثرات قائم ہوگئے۔- حضرت داؤد (علیہ السلام) کو صنعت زرہ سکھانے کی حکمت :- تفسیر ابن کثیر میں امام حدیث حافظ ابن عساکر کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنی خلافت و سلطنت کے زمانہ میں بھیس بدل کر بازاروں وغیرہ میں جاتے، اور مختلف اطراف سے آنے والے لوگوں سے پوچھا کرتے تھے کہ داؤد کیسا آدمی ہے ؟ چونکہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی سلطنت میں عدل و انصاف عام تھا اور سب انسان آرام وعیش کے ساتھ گزارہ کرتے تھے، کسی کو حکومت سے کوئی شکایت نہ تھی، اس لئے جس سے سوال کرتے وہ داؤد (علیہ السلام) کی مدح وثناء اور عدل و انصاف پر اظہار شکر کرتا تھا۔- حق تعالیٰ نے ان کی تعلیم کے لئے اپنے ایک فرشتے کو بشکل انسان بھیج دیا، جب داؤد (علیہ السلام) اس کام کے لئے نکلے تو یہ فرشتہ ان سے ملا حسب عادت اس سے بھی وہی سوال کیا، فرشتے نے جواب دیا کہ داؤد بہت اچھا آدمی ہے اور سب آدمیوں سے وہ اپنے نفس کے لئے بھی اور اپنی امت و رعیت کے لئے بھی بہتر ہے، مگر اس میں ایک عادت ایسی ہے کہ وہ نہ ہوتی تو وہ بالکل کامل ہوتا۔ داؤد (علیہ السلام) نے پوچھا وہ عادت کیا ہے ؟ فرشتے نے کہا کہ وہ اپنا کھانا پینا اور اپنے اہل و عیال کا گزارہ مسلمانوں کے مال یعنی بیت المال میں سے لیتے ہیں۔- یہ بات سن کر حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف الحاح وزاری اور دعا کا اہتمام کیا کہ مجھے کوئی ایسا کام سکھا دیں جو میں اپنے ہاتھ کی مزدوری سے پورا کروں، اور اس کی اجرت سے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا گزارہ کروں، اور مسلمانوں کی خدمت اور سلطنت کے تمام کام بلامعاوضہ کروں۔ ان کی دعاء کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا، ان کو زرہ سازی کی صنعت سکھا دی، اور پیغمبرانہ اعزازیہ دیا کہ لوہے کو ان کے لئے موم بنادیا تاکہ یہ صنعت بہت آسان ہوجائے اور تھوڑے وقت میں اپنا گزارہ پیدا کر کے باقی وقت عبادت اور امور سلطنت میں لگا سکیں۔- مسئلہ :- خلیفہ وقت یا سلطان کو جو اپنا پورا وقت امور سلطنت کی انجام دہی میں صرف کرتا ہے شرعاً یہ جائز ہے کہ اپنا متوسط گزارہ بیت المال سے لے لے، لیکن کوئی دوسری صورت گزارہ کی ہو سکے تو وہ زیادہ پسند ہے۔ جیسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے خزانے کھول دیئے تھے، اور زر و جواہرات اور تمام اشیاء ضرورت کی بڑی فراوانی تھی، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو بیت المال کے مال میں حسب منشاء ہر تصرف کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔ آیت فامنن او امسک بغیر حساب میں یہ بھی اطمینان دلایا تھا کہ آپ جس طرح چاہیں خرچ کریں، آپ کے ذمہ حساب دینا نہیں ہے۔ مگر انبیاء (علیہم السلام) کو حق تعالیٰ جس مقام بلند پر رکھنا چاہتے ہیں اس کے تقاضا سے یہ واقعہ پیش آیا اور اس کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) اتنی بڑی سلطنت کے ہوتے ہوئے اپنی مزدوری سے اپنا گزارہ پیدا کرتے اور اسی پر قناعت کرتے تھے۔- علماء جو تعلیم و تبلیغ کی خدمت مفت انجام دیتے ہوں اور قاضی و مفتی جو لوگوں کے کام میں اپنا وقت صرف کرتے ہوں ان کا بھی یہی حکم ہے کہ بیت المال سے اپنا خرچ لے سکتے ہیں، مگر کوئی دوسری صورت گزارہ کی ہو جو دینی خدمت میں خلل انداز بھی نہ ہو تو وہ بہتر ہے۔- فائدہ :- حضرت داؤد (علیہ السلام) کے اس طرز عمل سے کہ اپنے اعمال و عادات کے متعلق لوگوں کی رائیں بےتکلف آزادانہ معلوم کرنے کا اہتمام فرماتے تھے یہ ثابت ہوا کہ اپنے عیوب چونکہ آدمی کو خود معلوم نہیں ہوتے، اس لئے دوسروں سے تحقیق کرنا چاہئے۔ حضرت امام مالک بھی اس کا اہتمام فرماتے تھے کہ یہ معلوم کریں کہ عام لوگ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔
اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْ فِي السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ٠ ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ١١- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - سبغ - درع سَابِغٌ: تامّ واسع . قال اللہ تعالی: أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ [ سبأ 11] ، وعنه استعیر إِسْبَاغُ الوضوء، وإسباغ النّعم قال : وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] .- ( س ب غ ) درع سابغ پوری اور وسیع زرہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ [ سبأ 11] کہ کشادہ ( اور پوری پوری ) زرہیں بناؤ ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر اسباغ الوضوء ( پورا وضو کرنا ) اور اسباغ النعم ( پورا پورا انعام کرنا ) کا محاور استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] اور تم پر اپنی نعمتوں کو پورا کیا ۔- سرد - السَّرْدُ : خرز ما يخشن ويغلظ، کنسج الدّرع، وخرز الجلد، واستعیر لنظم الحدید .- قال : وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ 11] ، ويقال : سَرْدٌ وزَرْدٌ ، والسِّرَادُ ، والزّراد، نحو سراط، وصراط، وزراط، والْمِسْرَدُ : المثقب .- ( س ر د ) السرد اصل میں اس کے معنی کسی سخت چیز کو سینے کے ہیں ۔ جیسے زرہ بنانا اور چمڑے کو سینا پھر بطور استعارہ لو ہے کی کڑیوں کو مسلسل جوڑنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ 11] اور کڑیوں کو اندازہ سے جوڑ ۔ اور سَرْدٌ وزَرْدٌ ، والسِّرَادُ ، والزّراد کی طرح سراط، وصراط، وزراط، والْمِسْرَدُ کہا جاتا ہے ۔ والْمِسْرَدُ ( اسم آلہ ) سوراخ کرنے کا اوزار ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے
اور یہ کہ تم اس سے کشادہ زرہیں بناؤ اور کڑیوں کے جوڑنے اور حلقوں میں مناسب انداز کا خیال رکھو نہ بہت بڑے حلقے ہوں اور نہ بہت ہی تنگ اور نیک کام کرو۔ میں تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہوں۔
آیت ١١ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْ فِی السَّرْدِ ” کہ کشادہ زرہیں بنائو اور کڑیاں ملانے میں ٹھیک ٹھیک اندازہ رکھو “- آپ ( علیہ السلام) کے لیے لوہے کو خصوصی طور پر نرم کردیا گیا تھا اور زرہیں بنانے کا ہنر بھی آپ ( علیہ السلام) کو سکھا دیا گیا تھا۔- وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ” اور تم سب نیک اعمال کرو۔ تم جو کچھ کر رہے ہو میں یقینا اسے دیکھ رہا ہوں۔ “
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :16 یہ مضمون بھی سورہ انبیا آیت 80 میں گزر چکا ہے اور وہاں اس کی تشریح کی جا چکی ہے ۔ ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ص 175 ۔ 176 )
4: یہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ایک اور معجزے کا بیان ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو لوہے کی وہ زرہیں بنانے کی خصوصی مہارت عطا فرمائی تھی، جو اس زمانے میں جنگ کے موقع پر دشمن کے وار سے بچاؤ کے لئے پہنی جاتی تھیں، اس صنعت کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو یہ خصوصیت عطا فرمادی تھی کہ لوہا ان کے ہاتھ میں پہنچ کر نرم ہوجاتا تھا، اور وہ اسے جس طرح چاہتے موڑلیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس بات کا بھی خاص ذکر فرمایا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ زرہ اور کڑیوں میں توازن قائم رکھیں، اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر کام اور ہر صنعت میں سلیقے اور توازن کا خیال رکھنا پسند ہے۔