Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت داؤد پر انعامات الٰہی ۔ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول حضرت داؤد علیہ السلام پر دنیوی اور اخروی رحمت نازل فرمائی ۔ نبوت بھی دی بادشاہت بھی دی لاؤ لشکر بھی دیئے طاقت و قوت بھی دی ۔ پھر ایک پاکیزہ معجزہ یہ عطا فرمایا کہ ادھر نغمہ داؤدی ہوا میں گونجا ، ادھر پہاڑوں اور پرندوں کو بھی وجد آگیا ۔ پہاڑوں نے آواز میں آوا زملا کر اللہ کی حمد و ثناء شروع کی پرندوں نے پر ہلانے چھوڑ دیئے اور اپنی قسم قسم کی پیاری پیاری بولیوں میں رب کی وحدانیت کے گیت گانے لگے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رات کو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے جسے سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے دیر تک سنتے رہے پھر فرمانے لگے انہیں نغمہ داؤدی کا کچھ حصہ مل گیا ہے ۔ ابو عثمان نہدی کا بیان ہے کہ واللہ ہم نے حضرت ابو موسیٰ سے زیادہ پیاری آواز کسی باجے کی بھی نہیں سنی ۔ اوبی کے معنی حبشی زبان میں یہ ہیں کہ تسبیح بیان کرو ۔ لیکن ہمارے نزدیک اس میں مزید غور کی ضرورت ہے لغت عرب میں یہ لفظ ترجیع کے معنی میں موجود ہے ۔ پس پہاڑوں کو اور پرندوں کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ حضرت داؤد کی آواز کے ساتھ اپنی آواز بھی ملا لیا کریں ۔ تاویب کے ایک معنی دن کو چلنے کے بھی آتے ہیں ۔ جیسے سری کے معنی رات کو چلنے کے ہیں لیکن یہ معنی بھی یہاں کچھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتا یہاں تو یہی مطلب ہے کہ داؤد کی تسبیح کی آواز میں تم بھی آواز ملا کر خوش آوازی سے رب کی حمد بیان کرو ۔ اور فضل ان پر یہ ہوا کہ ان کیلئے لوہا نرم کردیا گیا نہ انہیں لوہے کی بھٹی میں ڈالنے کی ضرورت نہ ہتھوڑے مارنے کی حاجت ہاتھ میں آتے ہی ایسا ہو جاتا تھا جیسے دھاگے ، اب اس لوہے سے بفرمان اللہ آپ زرہیں بناتے تھے ۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے زرہ آپ ہی نے ایجاد کی ہے ۔ ہر روز صرف ایک زرہ بناتے اس کی قیمت چھ ہزار لوگوں کے کھلانے پلانے میں صرف کردیتے ۔ زرہ بنانے کی ترکیب خود اللہ کی سکھائی ہوئی تھی کہ کڑیاں ٹھیک ٹھیک رکھیں حلقے چھوٹے نہ ہوں کہ ٹھیک نہ بیٹھیں بہت بڑے نہ ہوں کہ ڈھیلا پن رہ جائے بلکہ ناپ تول اور صحیح انداز سے حلقے اور کڑیاں ہوں ۔ ابن عساکر میں ہے حضرت داؤد علیہ السلام بھیس بدل کر نکلا کرتے اور رعایا کے لوگوں سے مل کر ان سے اور باہر کے آنے جانے والوں سے دریافت فرماتے کہ داؤد کیسا آدمی ہے؟ لیکن ہر شخص کو تعریفیں کرتا ہوا ہی پاتے ۔ کسی سے کوئی بات اپنی نسبت قابل اصلاح نہ سنتے ۔ ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو انسانی صورت میں نازل فرمایا ۔ حضرت داؤد کی ان سے بھی ملاقات ہوئی تو جیسے اوروں سے پوچھتے تھے ان سے بھی سوال کیا انہوں نے کہا کہ داؤد ہے تو اچھا آدمی اگر ایک کمی اسمیں نہ ہوتی تو کامل بن جاتا ۔ آپ نے بڑی رغبت سے پوچھا کہ وہ کیا ؟ فرمایا وہ اپنا بوجھ مسلمانوں کے بیت المال پر ڈالے ہوئے ہیں خود بھی اسی میں سے لیتا ہے اور اپنی اہل و عیال کو بھی اسی میں سے کھلاتا ہے ۔ حضرت داؤد علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ شخص ٹھیک کہتا ہے اسی وقت جناب باری کی طرف جھک پڑے اور گریہ و زاری کے ساتھ دعائیں کرنے لگے کہ اللہ مجھے کوئی کام کاج ایسا سکھا دے جس سے میرا پیٹ بھر جایا کرے ۔ کوئی صنعت اور کاریگری مجھے بتا دے جس سے میں اتنا حاصل کرلیا کروں کہ وہ مجھے اور میرے بال بچوں کو کافی ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زرہیں بنانا سکھائیں اور پھر اپنی رحمت سے لوہے کو ان کیلئے بالکل نرم کردیا ۔ سب سے پہلے زرہیں آپ نے ہی بنائی ہیں ۔ ایک زرہ بناکر فروخت فرماتے اور اس کی قیمت کے تین حصے کرلیتے ایک اپنے کھانے پینے وغیرہ کیلئے ایک صدقے کیلئے ایک رکھ چھوڑنے کیلئے تاکہ دوسری زرہ بنانے تک اللہ کے بندوں کو دیتے رہیں ۔ حضرت داؤد کو جو نغمہ دیا گیا تھا وہ تو محض بےنظیر تھا اللہ کی کتاب زبور پڑھنے کو بیٹھتے ۔ آواز نکلتے ہی چرند پرند صبر و سکون کے ساتھ محویت کے عالم میں آپ کی آواز سے متاثر ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول ہو جاتے ۔ سارے باجے شیاطین نے نغمہ داؤدی سے نکالے ہیں ۔ آپ کی بےمثل خوش آوازی کی یہ چڑاؤنی جیسی نقلیں ہیں ۔ اپنی نعمتوں کو بیان فرما کر حکم دیتا ہے کہ اب تمہیں بھی چاہئے کہ نیک اعمال کرتے رہو ۔ میرے فرمان کے خلاف نہ کرو ۔ یہ بہت بری بات ہے کہ جس کے اتنے بڑے اور بےپایاں احسان ہوں ۔ اس کی فرمانبرداری ترک کردی جائے ۔ میں تمہارے اعمال کا نگران ہوں ۔ تمہارا کوئی عمل چھوٹا بڑا نیک بد مجھ سے پوشیدہ نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یعنی نبوت کے ساتھ بادشاہت اور کئی امتیازی خوبیوں سے نوازا۔ 10۔ 2 ان میں سے ایک حسن صوت کی نعمت تھی، جب وہ اللہ کی تسبیح پڑھتے تو پتھر کے ٹھوس پہاڑ بھی تسبیح خوانی میں مصروف ہوجاتے، اڑتے پرندے ٹھہر جاتے اور زمزمہ خواں ہوجاتے، یعنی پہاڑوں اور پرندوں کو ہم نے کہا، چناچہ یہ بھی داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ مصروف تسبیح ہوجاتے۔ والطیر کا عطف یا جبال کے محل پر ہے اس لیے کہ جبال تقدیرا منصوب ہے اصل عبارت اس طرح ہے نادینا الجبال والطیر (ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو پکارا) یا پھر اس کا عطف فضلا پر ہے اور معنی ہوں گے وسخرنا لہ الطیر (اور ہم نے پرندے ان کے تابع کردیئے (فتح القدیر) 10۔ 3 یعنی لوہے کو آگ میں تپائے اور ہتھوڑی سے کوٹے بغیر، اسے موم، گوندھے ہوئے آٹے اور گیلی مٹی کی طرح جس طرح چاہتے موڑ لیتے، بٹ لیتے اور جو چاہے بنا لیتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٤] وہ بزرگی یہ تھی کہ آپ بچپن میں محض ایک گڈریے تھے۔ اور بکریاں چرایا کرتے تھے۔ پھر اللہ نے آپ کو حکومت بھی عطا فرمائی اور نبوت بھی۔ اور یہ تفصیل پہلے سورة بقرہ کی آیات نمبر ٢٥١ کے تحت گزر چکی ہے۔- [ ١٥] آپ کی خوش الحانی، پہاڑوں اور پرندوں کی آپ سے بہم خوائی کے لئے (دیکھو سورة انبیاء کی آیت نمبر ٧٩ کا حاشیہ نمبر ٦٧)- [ ١٦] آپ کے ہاتھ میں لوہے کا نرم ہونا اور آپ کے لوہے کی زرہیں بنانے کے لئے (دیکھئے سورة انبیاء کی آیت نمبر ٨٠ کا حاشیہ نمبر ٦٨)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا : ” فضلا “ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” بڑا فضل “ کیا گیا ہے۔ پچھلی آیات کے ساتھ داؤد (علیہ السلام) کے ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ پچھلی آیت میں فرمایا کہ زمین و آسمان میں ہر اس بندے کے لیے عظیم نشانی اور عبرت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔ اب اپنے رجوع کرنے والے کچھ بندوں کا اور ان کے چند واقعات کا ذکر فرمایا، ان میں سے ایک داؤد (علیہ السلام) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت سی عنایات فرمائیں اور انھیں متعدّد قسم کی نعمتیں بخشیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی چند عنایات کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے جو قرآن یا حدیث میں آئی ہیں۔- وہ بکریاں چرانے والے ایک عام نوجوان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کفار کے بادشاہ جالوت جیسے گراں ڈیل دشمن کو قتل کروا کر بنی اسرائیل کا محبوب بنادیا اور پھر ایسا عروج عطا فرمایا کہ وہ طالوت کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کے بادشاہ بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں سلطنت کے ساتھ علم و حکمت بھی عطا فرمایا۔ (بقرہ : ٢٥١) انھیں نبوت بخشی اور زبور عطا فرمائی۔ (نساء : ١٦٣) انھیں زبردست قوت عطا فرمائی۔ (سورۂ ص : ١٧) انھیں اور ان کے بیٹے سلیمان (علیہ السلام) کو خاص علم عطا فرمایا۔ (نمل : ١٥) انھیں پرندوں کی بولی سکھائی۔ (نمل : ١٦) انھیں توبہ وانابت کا وصف عطا فرمایا اور ان کی مغفرت فرمائی۔ (سورۂ ص : ٢٤، ٢٥) انھیں صحیح فیصلہ کرنے کی استعداد اور عدل کرنے کی توفیق بخشی۔ (انبیاء : ٧٩۔ ص : ٢٦) ان کے لیے لوہا نرم کردیا اور انھیں زرہیں بنانا سکھایا۔ (انبیاء : ٨٠۔ سبا : ١٠، ١١) انھیں نہایت خوب صورت آواز عطا فرمائی اور پہاڑوں اور پرندوں کو ان کے ساتھ تسبیح دہرانے کا حکم دیا۔ (انبیاء : ٧٩۔ سبا : ١٠) ان کے لیے (زبور) پڑھنا ہلکا کردیا گیا تھا، چناچہ وہ گھوڑوں پر زین ڈالنے کا حکم دیتے اور ان پر زین ڈالنے سے پہلے اسے پڑھ لیتے تھے۔ [ دیکھیے بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و آتینا داوٗد زبورا ) : ٣٤١٧ ] انھیں صوم و صلاۃ کی اور اس کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں استقامت کی وہ توفیق بخشی جس کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی کہ ” وہ رات کا نصف سو جاتے، پھر ایک ثلث قیام کرتے اور ایک سدس پھر سو جاتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ “ [ أبوداوٗد، الصیام، باب في صوم یوم و فطر یوم : ٢٤٤٨، و قال الألباني صحیح ] اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب دشمن سے مڈبھیڑ ہوتی تو (داؤد (علیہ السلام ) بھاگتے نہیں تھے۔ “ [ بخاري، الصوم، باب صوم داوٗد (علیہ السلام) : ١٩٧٩، عن عبداللہ بن عمرو (رض) ] اور وہ صرف اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ [ دیکھیے بخاري، البیوع، باب کسب الرجل و عملہ بیدہ : ٢٠٧٢ ] تلاش کرنے سے ان پر اللہ تعالیٰ کی مزید عنایات بھی مل سکتی ہیں۔ - يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ : اس سے پہلے لفظ ” قُلْنَا “ (ہم نے کہا) محذوف ہے، جو خود بخود سمجھ میں آرہا ہے۔ ” اوبی “ ” آبَ یَؤُبُ أَوْبًا “ (ن) لوٹنا اور ” أَوَّبَ یُأَوِّبُ “ (تفعیل) لوٹانا، دہرانا۔ یعنی ہم نے پہاڑوں سے کہا کہ اے پہاڑو ان کے ساتھ تسبیح اور تلاوت کے کلمات دہراؤ اور اے پرندو تم بھی۔ گویا ” والطیر “ کا عطف ” جِبَالٌ“ کے محل پر ہے، اس لیے منصوب ہے، یا یہ ” سَخَّرْنَا لَہُ “ محذوف کا مفعول ہے، یعنی ہم نے ان کے لیے پرندے بھی تسبیح کرنے کے لیے مسخّر کردیے، جیسا کہ سورة ص میں فرمایا : (والطیر محشورۃً ) [ ص : ١٩ ] ” اور پرندوں کو بھی (مسخّر کردیا) جب کہ وہ اکٹھے کیے ہوئے سب اس کے لیے بہت رجوع کرنے والے تھے۔ “ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کا بیان سورة انبیاء (٧٩) میں گزر چکا ہے۔- وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ : داؤد (علیہ السلام) کے لیے لوہا نرم کرنے کی کیفیت اکثر مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ وہ اللہ کے حکم سے آگ میں پگھلائے بغیر ان کے ہاتھ میں موم یا گندھے ہوئے آٹے کی طرح ہوتا تھا۔ اگر ایسا ہو تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، مگر یہ صرف قتادہ کا قول ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات ثابت نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے انھیں لوہا پگھلا کر نرم کرنے کا سلیقہ سکھا دیا ہو تو یہ بھی ” وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ “ ہی ہے۔ آج کل کسی معجزے یا کرامت کے بغیر ہنر کی بدولت لوہا لوگوں کے ہاتھوں میں نرم ہوچکا ہے۔ داؤد (علیہ السلام) کے لیے سب سے پہلے لوہے کی بھٹی ایجاد کرنے، اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے اور سب سے پہلے زرہیں بنانے کا اور اس بات کا شرف بھی کچھ کم نہیں کہ بعد میں آنے والوں نے انھی سے یہ ہنر حاصل کیے۔ نیز دیکھیے سورة انبیاء (٨٠) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو اپنی طرف سے بڑی نعمت دی تھی (چنانچہ ہم نے پہاڑوں کو حکم دیا تھا کہ) اے پہاڑو داؤد کے ساتھ بار بار تسبیح کرو (یعنی جب یہ ذکر میں مشغول ہوں تم بھی ان کا ساتھ دو ) اور (اسی طرح) پرندوں کو بھی حکم دیا (کہ ان کے ساتھ تسبیح کرو کما قال اللہ تعالیٰ (آیت) انا سخرنا الجبال معہ یسبحن بالعشی ولاشراق والطیر محشورة الخ شاید اس میں ایک حکمت یہ ہو کہ ان کو ذکر میں نشاط ہوگا اور یہ بھی حکمت ہو کہ آپ کا ایک معجزہ ظاہر ہوگا اور غالباً یہ تسبیح ایسی ہوگی کہ سننے والے بھی سمجھ لیں ورنہ غیر مفہوم تسبیح تو عام ہے، اس میں معیت داؤد (علیہ السلام) کی کیا تخصیص ہے کما قال تعالیٰ (آیت) وان من شئی الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقہون تسبیحہم) اور (ایک نعمت یہ دے دی کہ) ہم نے ان کے واسطے لوہے کو (مثل موم کے) نرم کردیا (اور یہ حکم دیا) کہ تم (اس لوہے کی اچھی) پوری زرہیں بناؤ اور (کڑیوں کے) جوڑنے میں (مناسب) اندازہ (کا خیال) رکھو اور (جیسے ہم نے تم کو نعمتیں دی ہیں ان کے شکر میں) تم سب (یعنی داؤد (علیہ السلام) اور ان کے متعلقین) نیک کام کیا کرو میں تمہارے سب کے اعمال کو دیکھ رہا ہوں (اس لئے رعایت حدود کا پورا اہتمام رکھو) اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا کو مسخر کردیا کہ اس (ہوا) کا صبح کا چلنا مہینے بھر کی مسافت تھی اور (اسی طرح) اس کا شام کو چلنا مہینے بھر کی مسافت تھی (یعنی وہ ہوا سلیمان (علیہ السلام) کو اتنی اتنی دور پہنچاتی تھی، کمال قال تعالیٰ (آیت) وسخرنا لہ الریح تجری بامرہ) اور (ایک نعمت ان کو یہ دی کہ) ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ بہا دیا (یعنی تانبے کو اس کے معدن میں رقیق سیال کردیا تاکہ اس سے مصنوعات بنانے میں بدون آلات کے سہولت ہو، پھر وہ منجمد ہوجاتا، یہ بھی ایک معجزہ ہے) اور (ایک نعمت یہ تھی کہ ہم نے جنات کو ان کے تابع کردیا تھا چنانچہ) جنات میں بعضے وہ تھے جو ان کے آگے (طرح طرح کے) کام کرتے تھے ان کے رب کے حکم (تسخیری سے) (یعنی چونکہ پروردگار نے مسخر کردیا تھا) اور (حکم تسخیری کے ساتھ ان کو حکم تشریعی بھی مع وعیدیہ دیا تھا کہ) ان میں جو شخص ہمارے (اس) حکم سے (کہ سلیمان (علیہ السلام) کی اطاعت کرو) سرتابی کرے گا (یعنی تسلیم وانقیاد سے کام نہ کرے گا گو بوجہ تسخیر کے سلیمان (علیہ السلام) سے جبراً کام لینے پر قادر ہوں گے جیسے بیگاریوں سے کام لیا جاتا ہے تو) ہم اس کو (آخرت میں) دوزخ کا عذاب چکھا دیں گے (اس سے یہ بھی مفہوم ہوا کہ جو تسلیم وانقیاد سے کام کرے گا اور پورا انقیاد یہ ہے کہ ایمان بھی اختیار کرے کیونکہ ہر نبی اپنے محکومین کو اس کا امر کرتا ہے تو بدون اس کے انقیاد نہیں پس حاصل یہ کہ جو جن ایمان و اطاعت اختیار کرے گا وہ عذاب سعیر سے محفوظ رہے گا، جیسا کہ ایمان کا مقتضا ہے آگے ان کاموں کو بتلاتے ہیں جن پر جنات مامور تھے) یعنی وہ جنات ان کے لئے وہ چیزیں بناتے جو ان کو (بنوانا) منظور ہوتا بڑی بڑی عمارتیں اور مورتیں اور لگن (ایسے بڑے) جیسے حوض اور (بڑی بڑی) دیگیں جو ایک ہی جگہ جمی رہیں (ہلائے ہل نہ سکیں اور ہم نے ان کو یہ حکم دیا کہ جیسے ہم نے تم کو نعمتیں بھی دی ہیں) اے داؤد کے خاندان والو (یعنی سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے متعلقین) تم سب (ان نعمتوں کے) شکریہ میں نیک کام کیا کرو اور میرے بندوں میں شکر گزار کم ہی ہوتے ہیں (اس لئے اس شکرگزاری کرنے سے جس کا طریقہ مقصود عمل صالح ہے تم کو خلق کثیر پر امتیاز ہوجائے گا۔ پس اس جملہ میں تحریض ہوگئی شکر وعمل صالح پر، جیسے داؤد (علیہ السلام) کو بھی اعملوا صالحاً حکم ہوا تھا اور اسی طرح وہاں تسخیر جبال وطیور تھی، اور یہاں تسخیر ریح وجن مذکور ہوئی اور وہاں لوہے کو نرم کردینا تھا یہاں تانبے کو، غرض زندگی بھر سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے جناب کا یہ معاملہ رہا) پھر جب ہم نے ان پر (یعنی سلیمان (علیہ السلام) پر) موت کا حکم جاری کردیا، (یعنی انتقال فرما گئے) تو (ایسے طور پر موت واقع ہوئی کہ جناب کو خبر نہیں ہوئی وہ یہ کہ سلیمان (علیہ السلام) موت کے قریب عصا کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس کو زیر زمین لگا کر تخت پر بیٹھ گئے اور اسی حالت میں روح قبض ہوگئی اور اسی طرح سال بھر تک بیٹھے رہے، جنات آپ کو بیٹھا دیکھ کر زندہ سمجھتے رہے، یہ کسی کی مجال نہ تھی کہ پاس جا کر یا خوب گھور کر دیکھ سکے، خصوصاً جب کوئی وجہ شبہ کی نہ ہو اور زندہ سمجھ کر بدستور کام کرتے رہے اور) کسی چیز نے ان کے مرنے کا پتہ نہ بتلایا مگر گھن کے کیڑے نے کہ وہ سلیمان (علیہ السلام) کے عصا کو کھاتا تھا (یہاں تک کہ ایک حصہ اس کا کھالیا، تو وہ عصا گر پڑا، اس کے گرنے سے سلیمان (علیہ السلام) گر پڑے) سو جب وہ گر پڑے (اور گھن کے کھانے کا تخمینہ لگانے سے معلوم ہوا کہ ان کو تو وفات پائے ہوئے ایک سال ہوا) تب جنات کو (اپنے دعویٰ غیب دانی کی) حقیقت معلوم ہوئی (وہ یہ کہ) اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو (سال بھر تک) اس ذلت کی مصیبت میں نہ رہتے (مراد اعمال شاقہ ہیں جن میں بوجہ محکومیت کے ذلت بھی تھی اور مشقت کی وجہ سے مصیبت بھی ہے) ۔- معارف و مسائل - اوپر منکرین قیامت کفار سے خطاب تھا، جو مرنے اور جسم کے اجزاء منتشر ہوجانے کے بعد دوبارہ ان کے جمع کرنے اور ان میں حیات پیدا کرنے کو خلاف عقل سمجھ کر انکار کرتے تھے، آیات مذکورہ میں ان کا استبعاد دور کرنے کے لئے حق تعالیٰ نے حضرت داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کے قصے اس لئے ذکر فرمائے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں اسی دنیا میں ایسے کاموں کا مشاہدہ کرا دیا جن کو یہ لوگ محال سمجھا کرتے تھے، مثلاً لوہے کو موم بنادینا، ہوا کو تابع فرمان بنادینا، تانبے کو ایک سیال چیز پانی کی طرح کردینا۔- (آیت) ولقد اتینا داود منا فضلاً ، ” یعنی عطا کیا ہم نے داؤد کو اپنا فضل “ فضل کے لفظی معنی زیادتی کے ہیں، مراد وہ خاص صفات ہیں جو دوسروں سے زائد ان کو عطا کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی پیغمبر کو بعض خاص صفات امتیازی عطا فرمائی ہیں جو ان کی مخصوص فضیلت سمجھی جاتی ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی مخصوص صفات یہ تھیں کہ ان کو اپنی نبوت و رسالت کے ساتھ پوری دنیا کی سلطنت و حکومت بھی عطا فرمائی تھی۔ اور خوش آوازی کی ایسی صفت عطا فرمائی تھی کہ جب آپ اللہ کے ذکر یا زبور کی تلاوت میں مشغول ہوتے تو پرندے ہوا میں اڑتے ہوئے سننے کو جمع ہوجاتے تھے، اسی طرح متعدد معجزات خصوصی عطا ہوئے تھے جن کا ذکر آگے آتا ہے۔- یا جبال اوبی، اوبی، تاویب سے مشتق ہے، جس کے معنی دہرانے اور لوٹانے کے آتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو حکم دے دیا تھا کہ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) اللہ کا ذکر و تسبیح کریں تو پہاڑ بھی وہ کلمات پڑھ کر لوٹائیں۔- اسی طرح حضرت ابن عباس نے اوبی کی تفسیر سجی سے فرمائی ہے۔ (ابن کثیر)- یہ پہاڑوں کی تسبیح جو وہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ کرتے تھے اس عام تسبیح کے علاوہ ہے جس میں کل مخلوقات شریک ہیں اور جو ہر جگہ ہر وقت ہر زمانے میں جاری ہے، جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے : (آیت) و ان منی شئی الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقہون تسبیحہم، ” یعنی دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی تسبیح نہ پڑھتی ہو مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔ “ یہاں جس تسبیح کا ذکر ہے وہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے معجزہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لئے یہ ظاہر ہے کہ اس تسبیح کو عام سننے والے بھی سنتے سمجھتے ہوں گے، ورنہ پھر معجزہ ہی نہ ہوتا۔- اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ داؤد (علیہ السلام) کی آواز کے ساتھ پہاڑوں کا آواز ملانا اور تسبیح کو دہرانا یہ آواز بازگشت کے طور پر نہ تھا جو عام طور پر گنبد یا کنویں وغیرہ میں آواز دینے کے وقت آواز کے لوٹنے سے سنی جاتی ہے۔ کیونکہ قرآن کریم نے اس کو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر خصوصی فضل و انعام کی حیثیت میں ذکر فرمایا ہے، آواز باز گشت میں کسی کی فضیلت وخصوصیت سے کیا تعلق ہے، وہ تو ہر انسان چاہے کافر ہی ہو بازگشت کی جگہ میں اس کی آواز بھی لوٹتی ہے۔- والطیر، یہ لفظ نحوی ترکیب میں سخرنا محذوف کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے (روح) معنی یہ ہیں کہ ہم نے پردوں کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیا تھا، مراد اس تسخیر سے یہ ہے کہ پرندے بھی آپ کی آواز پر ہوا میں جمع ہوجاتے اور آپ کے ساتھ پہاڑوں کی تسبیح کرتے تھے، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں مذکور ہے، (آیت) انا سخرنا الجبال معہ یسبحن بالعشی والاشراق والطیر محشورةً ” یعنی ہم نے پہاڑوں کو داؤد (علیہ السلام) کا مسخر کردیا تھا کہ صبح شام ان کے ساتھ تسبیح کیا کریں اور پرندوں کو بھی مسخر کردیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا۝ ٠ ۭ يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَہٗ وَالطَّيْرَ۝ ٠ ۚ وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِيْدَ۝ ١٠ۙ- آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- داود - داود اسم أعجميّ.- ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے )- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- طير - الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً- [ ص 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ- [ النمل 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] - ( ط ی ر ) الطائر - ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ - لين - اللِّينُ : ضدّ الخشونة، ويستعمل ذلک في الأجسام، ثمّ يستعار للخلق وغیره من المعاني، فيقال : فلان لَيِّنٌ ، وفلان خشن، وكلّ واحد منهما يمدح به طورا، ويذمّ به طورا بحسب اختلاف المواقع . قال تعالی: فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران 159] ، وقوله : ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] فإشارة إلى إذعانهم للحقّ وقبولهم له بعد تأبّيهم منه، وإنكارهم إيّاه، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر 5] أي : من نخلة ناعمة، ومخرجه مخرج فعلة نحو : حنطة، ولا يختصّ بنوع منه دون نوع .- ( ل ی ن ) اللین - کے معنی نر می کے ہیں اور یہ خشونت کی ضد ہے اصل میں تو یہ اجسام کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر استعارہ اخلاق وغیرہ یعنیمعافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ چناچہ فلان لین یا خشن کے معنی ہیں فلاں نرم یا د رشت مزاج ہے اور یہ دونوں لفظ حسب موقع ومحل کبھی مدح کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اور کبھی مذمت کے لئے آتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران 159]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) خدا کی مہر بانی سے تمہاری افتاد ومزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل نرم ہو کر خدا کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ میں اس معنی کی طرف اشارہ ہے کہ اباء اور انکار کے بعد وہ حق کے سامنے سر نگوں ہوجاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر 5] مومنوں کجھور کے جو در خت تم نے کاٹ ڈالے میں لینۃ کے معنی نرم ونازک کھجور کا درخت ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جیسے حنطۃ تاہم یہ مخلتف انواع میں سے ایک نوع کے لئے مخصو ص نہیں ہے ۔- حدَّ- الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا :- جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ- [ الطلاق 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه :- إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض .- وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه «2» .- وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه «3» .- وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . - والحدید - معروف، قال عزّ وجل : وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید 25] ، وحَدَّدْتُ السکّين : رقّقت حدّه، وأَحْدَدْتُهُ :- جعلت له حدّا، ثم يقال لكلّ ما دقّ في نفسه من حيث الخلقة أو من حيث المعنی کالبصر والبصیرة حَدِيد، فيقال : هو حدید النظر، وحدید الفهم، قال عزّ وجل : فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ويقال : لسان حدید، نحو : لسان صارم، وماض، وذلک إذا کان يؤثّر تأثير الحدید، قال تعالی: سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب 19] ، ولتصوّر المنع سمّي البوّاب حَدَّاداً ، وقیل : رجل محدود : ممنوع الرزق والحظّ.- ( ح د د ) الحد - جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں - ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے - حدید - لوہا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید 25] اور لوہا پیدا کیا اس میں ( اسلحہ جنگ کے لحاظ سے ) خطر بھی شدید ہے ۔ حددت السکین میں نے چھری کی دھار تیز کی ۔ اور احد دتہ اس کے لئے حد مقرر کردی پھر ہر وہ چیز جو بلحاظ خلقت یا بلحاظ معنی کے ایک ہو ۔ جیسے نگاہ اور بصیرۃ اس کی صفت میں الحدید کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ جیسے ھو حدید النظر ( وہ تیزنظر ہے ) ھو حدید الفھم ( وہ تیز فہم ہے) قرآن میں ہے :۔ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور جب زبان بلحاظ تیزی کے لوہے کی سی تاثیر رکھتی ہو تو صادم وماض کی طرح اس کی صفت حدید بھی آجاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب 19] تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے باری میں تیز زبانی کریں ۔ اور روکنے کے معنی کے پیش نظر دربان کو حداد کہا جاتا ہے اور بدنصیب اور حجردم آدمی کو رجل محدود کہہ دیتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

ہم نے داؤد کو بادشاہت اور نبوت عطا کی۔ چناچہ ہم نے پہاڑوں کو حکم دیا کہ داؤد کے ساتھ تسبیح کرو اور اسی طرح پرندوں کو بھی ان کے تابع کردیا۔- اور ہم نے ان کے لیے مٹی کی طرح لوہے کو نرم کردیا کہ وہ اس سے جو چاہیں بنا لیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ” اور ہم نے دائود ( علیہ السلام) کو اپنی طرف سے خاص فضل عطا کیا تھا۔ “- حضرت دائود اور حضرت سلیمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر اس سے پہلے سورة النمل میں آچکا ہے۔ وہاں حضرت دائود (علیہ السلام) کا ذکر بہت اختصار کے ساتھ ہے جبکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حالات تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ اب اس سورت میں بھی حضرت دائود ( علیہ السلام) اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) دونوں ہی کا ذکر ہے ‘ مگر یہاں حضرت دائود (علیہ السلام) کی شخصیت کو نسبتاً زیادہ نمایاں کیا گیا ہے۔- یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ ” (ہم نے حکم دیا کہ) اے پہاڑو تم تسبیح کو دہرائو اس کے ساتھ اور پرندوں کو بھی (یہی حکم دیا تھا) ۔ “- ” تا ویب “ گویا ” ترجیع “ کا ہم معنی لفظ ہے ‘ یعنی لوٹانا اور دہرانا۔ جیسے کوئی نظم یا غزل پڑھ رہا ہو اور اس میں ایک بول یا مصرعے کو وہ بار بار اس طرح دہرائے کہ اس دوران کچھ دوسرے لوگ بھی اس کی آواز کے ساتھ آواز ملا لیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو حکم دے رکھا تھا کہ جب حضرت دائود (علیہ السلام) حمد و تسبیح کے ترانے پڑھیں تو وہ بھی آپ ( علیہ السلام) کے ساتھ شامل ہوجائیں اور آپ ( علیہ السلام) کی آواز کے ساتھ آواز ملائیں۔- وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ ” اور ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کردیا تھا ۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :14 اشارہ ہے ان بے شمار عنایات کی طرف جن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نوازا تھا ۔ وہ بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہوواہ کے ایک معمولی نوجوان تھے ۔ فلستیوں کے خلاف ایک معرکے میں جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر کے یکایک وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن گئے ۔ اس واقعہ سے ان کا عروج شروع ہوا یہاں تک کہ طالوت کی وفات کے بعد پہلے وہ خبرون ( موجودہ الخلیل ) میں یہودیہ کے فرمانروا بنائے گئے ، پھر چند سال بعد تمام قبائل بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا ، اور انہوں نے یروشلم کو فتح کر کے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا ۔ یہ انہی کی قیادت تھی جس کی بدولت تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسی خدا پرست سلطنت وجود میں آئی جس کے حدود خلیج عقبہ سے دریائے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلے ہوئے تھے ۔ اس عنایات پر مزید وہ فضل خداوندی ہے جو علم و حکمت ، عدل و انصاف ، اور خدا ترسی و بندگی حق کی صورت میں ان کو نصیب ہوا ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ۔ ص 595 تا 598 ) سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :15 یہ مضمون اس سے پہلے سورہ انبیا آیت 79 میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں ۔ ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم 174 ۔ 175 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: حضرت داؤد (علیہ السلام) خود بھی بہت خوش آواز تھے، اور اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو بھی ان کے لئے مسخر کردیا تھا کہ جب وہ ذکر اور تسبیح میں مشغول ہوں تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ساتھ تسبیحْ اور ذکر کرنے لگتے تھے، اور ماحول میں ایک پر کیف سماں بندھ جاتا تھا، پہاڑوں اور پرندوں کو ذکر وتسبیح کی صلاحیت عطا ہونا حضرت داؤد (علیہ السلام) کا خاص معجزہ تھا۔