Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یعنی اس پر غور نہیں کرتے ؟ اللہ تعالیٰ ان کی زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ آخرت کا یہ انکار، آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے، ورنہ جو ذات آسمان جیسی چیز، جس کی بلندی اور وسعت ناقابل بیان ہے اور زمین جیسی چیز، جس کا طول و عرض بھی ناقابل فہم ہے، پیدا کرسکتا ہے، اس کے لئے اپنی ہی پیدا کردہ چیز کا دوبارہ پیدا کردینا اور اسے دوبارہ اسی حالت میں لے آنا، جس میں وہ پہلے تھی، کیوں کر ناممکن ہے۔ 9۔ 1 یعنی یہ آیت دو باتوں پر مشتمل ہے ایک اللہ کے کمال قدرت کا بیان جو ابھی مذکور ہوا دوسری کفار کے لیے تنبیہ و تہدید کہ جو اللہ آسمان و زمین کی تخلیق پر اس طرح قادر ہے کہ ان پر اور ان کے مابین ہر چیز پر اس کا تصرف اور غلبہ ہے وہ جب چاہے ان پر اپنا عذاب بھیج کر ان کو تباہ کرسکتا ہے زمین میں دھنسا کر بھی، جس طرح قارون کو دھنسایا یا آسمان کے ٹکڑے گرا کر جس طرح اصحاب الایکہ کو ہلاک کیا گیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٢] وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں اس زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا اور اس کائنات کا انتظام چلانے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اور یہی زمین و آسمان انھیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اس کی حدود سے وہ باہر نہیں جاسکتے۔ زمین کا مالک اللہ ہے وہ زمین کو حکم دے کر انھیں پکڑلے یا اندر جذب کرلے تو زمین کی مجال نہیں کہ وہ اللہ کے حکم سے سرتابی کرے۔ آسمان سے بھی وہ ان پر عذاب نازل کرسکتا ہے اور زمین کے نیچے سے بھی۔ پھر آخر یہ کس بوتے پر اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت پر تلے بیٹھے ہیں۔- [ ١٣] نظام کائنات میں صرف ایک نشانی نہیں بیشمار نشانیاں ہیں۔ مگر یہ نشانیاں ہر ایک کے لئے نہیں بلکہ صرف اس شخص کے لئے جو عقل و انصاف اور سوچ سمجھ سے کام لے کر اس کائنات کے خالق کی طرف جھکتے اور رجوع ہوتے ہیں۔ وہ اس مربوط اور منظم نظام کائنات کو دیکھ کر فوراً اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ کسی حکیم وخبیر ہستی کا قائم کردہ نظام ہے۔ اور چونکہ اللہ نے کوئی بھی چیز بےمقصد پیدا نہیں کی لہذا یہ نظام ضرور ایک دن کسی اعلیٰ و اکمل نتیجہ پر پہنچنے والا ہے۔ یہ انداز فکر انھیں اپنے خالق ومالک کی طرف سے مزید جھکا دیتا ہے۔ آگے اللہ اپنے ایک رجوع کرنے والے بندے حضرت داود اور ان پر اپنے انعامات کا ذکر فرما رہے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَفَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِ ۔۔ : فرمایا، آخرت کا انکار زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے، ورنہ اگر یہ اپنے آگے اور پیچھے چاروں طرف پھیلے ہوئے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے پر غور کرتے، جن کی وسعت ان کے خیال سے بھی زیادہ ہے تو زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر نہ تعجب کرتے، نہ اس کا انکار کرتے، کیونکہ آسمان و زمین کی پیدائش کے مقابلے میں ان کی تخلیق تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی، جیسا کہ فرمایا : (ءانتم اشد خلقا ام السماء بنھا) [ النازعات : ٢٧ ] ” کیا پیدا کرنے میں تم زیادہ مشکل ہو یا آسمان ؟ اس نے اسے بنایا۔ “ اور فرمایا : (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ المؤمن : ٥٧ ] ” یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “- اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ ۔۔ : ” کسفا “ ” کِسْفَۃٌ“ کی جمع ہے، ٹکڑے۔ اس میں کفار کو ڈرایا ہے کہ یہی آسمان و زمین جن کو تم اپنے لیے نفع بخش اور زندگی کا سبب سمجھتے ہو، اللہ تعالیٰ چاہے تو انھی چیزوں کو تمہاری ہلاکت کا موجب بنا سکتا ہے۔ پھر وہ چاہے تو تمہیں اس زمین میں دھنسا دے، جیسے اس نے قارون کو دھنسا دیا، یا آسمان سے عذاب کے کچھ ٹکڑے گرا دے، جیسے اس نے اصحاب الایکہ کے ساتھ کیا۔- اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيْبٍ : یعنی جو شخص کسی قسم کا تعصّب یا ہٹ دھرمی نہ رکھتا ہو، بلکہ اخلاص کے ساتھ اپنے رب سے ہدایت کا طالب ہو اور اس کی طرف رجوع رکھتا ہو، اس کے لیے تو آسمان و زمین کے اس عظیم الشّان نظام میں بہت بڑا سبق موجود ہے کہ جس نے اتنا بڑا حکمت سے بھرا ہوا نظام بنایا ہے، وہ دوبارہ زندہ بھی کرسکتا ہے اور یہ بھی سبق ہے کہ اس کی عنایت اور اس کے فضل ہی سے ہم بچے ہوئے ہیں، ورنہ وہ ایک ہی لمحہ میں ہمیں ہلاک کرسکتا ہے۔ یہ زمین اس کی ہے اور آسمان بھی اسی کا ہے، پھر ہم بھاگ کر کہاں جاسکتے ہیں ؟ مگر جو اپنے رب کی طرف رجوع کے بجائے اس سے بغاوت اختیار کرچکا ہو، اس کے لیے یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود اس میں کوئی سبق نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) افلم یروا الی مابین ایدیہم وما خلفہم، الایة جیسا کہ خلاصہ تفسیر سے معلوم ہوچکا ہے اس آیت میں قیام قیامت کے دلائل بھی ہیں کہ آسمان و زمین کی مخلوقات میں غور کرنے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرنے سے وہ استبعاد رفع ہوسکتا ہے جو منکرین قیامت کو اس کی تسلیم سے مانع تھا، اور ساتھ ہی منکرین کے لئے سزا کی دھمکی بھی ہے کہ یہ آسمان و زمین کی تمام مخلوقات عظیمہ جو تمہارے لئے بڑی نعمتیں ہیں، اگر ان کے مشاہدہ کے بعد بھی تم تکذیب و انکار پر جمے رہے تو اللہ کی قدرت میں یہ بھی ہے کہ انہی نعمتوں کو تمہارے لئے عذاب بنا دے کہ زمین تمہیں نگل جائے، یا آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تم پر گر پڑے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِہِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَيْہِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيْبٍ۝ ٩ ۧ- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- خسف - الخُسُوف للقمر، والکسوف للشمس «1» ، وقال بعضهم : الکسوف فيهما إذا زال بعض ضوئهما، والخسوف : إذا ذهب كلّه . ويقال خَسَفَهُ اللہ وخسف هو، قال تعالی: فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص 81] ، وقال : لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص 82] ، وفي الحدیث : «إنّ الشّمس والقمر آيتان من آيات اللہ لا يُخْسَفَانِ لموت أحد ولا لحیاته» «2» ، وعین خَاسِفَة : إذا غابت حدقتها، فمنقول من خسف القمر، وبئر مَخْسُوفَة : إذا غاب ماؤها ونزف، منقول من خسف اللہ القمر . وتصوّر من خسف القمر مهانة تلحقه، فاستعیر الخسف للذّلّ ، فقیل : تحمّل فلان خسفا .- ( خ س ف ) الخسوف - کا لفظ چاند کے بےنور ہونے اور کسوف کا لفظ سورج کے بےنور ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ خسوف قدر ہے بےنور ہونے کو کہاجاتا ہے اور کسوف پوری طرح بےنور ہوجانے کو کہتے ہیں ، عام اس سے کہ وہ سورج ہو یا چاند کہاجاتا ہے خسفہ اللہ اللہ نے اسے زمین میں دھنسادیا ( متعدی ) خسف ھو ( لازمی ) زمین میں دھنس جانا ۔ قرآن میں ہے :۔ فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص 81] پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا ۔ لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص 82] اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا ۔ حدیث میں ہے ( ا اا) ان الشمس والقمر ایتان من ایات اللہ لایخسفان لموت احد ولا لحیاتہ کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو کسی کی موت پاپیدائش کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے ۔ اور عین خاسفہ ( اندر دھنسی ہوئی آنکھ ) کا محاورہ خسف القمر سے منقول ہے بئر مخسوفۃ وہ کنواں جس کا پانی غائب ہوگیا ہو اور چاند گہن لگنے سے چونکہ ماند پڑجاتا ہے اس لیے بطور استعارہ خسیف بمعنی ذلت ورسوائی بھی آجاتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے ۔ تحمل فلان خسفا ۔ فلاں شخص ذلیل ہوگیا ۔- سقط - السُّقُوطُ : طرح الشیء، إمّا من مکان عال إلى مکان منخفض کسقوط الإنسان من السّطح، قال تعالی: أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة 49] ، وسقوط منتصب القامة، وهو إذا شاخ وکبر، قال تعالی: وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور 44] ، وقال : فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء 187] ، والسِّقَطُ والسُّقَاطُ : لما يقلّ الاعتداد به، ومنه قيل : رجل سَاقِطٌ لئيم في حَسَبِهِ ، وقد أَسْقَطَهُ كذا، وأسقطت المرأة اعتبر فيه الأمران :- السّقوط من عال، والرّداءة جمیعا، فإنه لا يقال : أسقطت المرأة إلا في الولد الذي تلقيه قبل التمام، ومنه قيل لذلک الولد : سقط «1» ، وبه شبّه سقط الزّند بدلالة أنه قد يسمّى الولد، وقوله تعالی: وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 149] ، فإنه يعني النّدم، وقرئ : تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم 25] «2» ، أي : تسّاقط النّخلة، وقرئ : تُساقِطْ «3» بالتّخفیف، أي : تَتَسَاقَطُ فحذف إحدی التاء ین، وإذا قرئ ( تَسَاقَطْ ) فإنّ تفاعل مطاوع فاعل، وقد عدّاه كما عدّي تفعّل في نحو : تجرّعه، وقرئ : يَسَّاقَطْ عليك «4» أي : يسّاقط الجذع .- ( س ق ط )- السقوط ( ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کے اوپر سے نیچے گرنے کے ہیں مثلا کسی انسان کا چھت سے گر پڑنا یا اس کا بوڑھا ہو کر نیچے جھک جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور 44] اور اگر یہ آسمان ( سے عذاب ) کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گراؤ اور اس کے معنی قدر و قیمت اور مرتبہ کے لحاظ سے گر جانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة 49] دیکھو یہ آفت میں پڑے گئے ۔ السقط والسقاطۃ ناکاری اور ردی چیز کو کہتے ہیں اور اسی سے رجل ساقط ہے جس کے معنے کمینے آدمی کے ہیں ۔ اسقطہ کذا : فلاں چیز نے اس کو ساقط کردیا ۔ اور اسقط المرءۃ ( عورت نے نا تمام حمل گرا دیا ) میں اوپر سے نیچے گرنا اور ردی ہونا دونوں معنی اکٹھے پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ اسقطت المرءۃ اس وقت بولتے ہیں جب عورت نا تمام بچہ گرا دے اور اسی سے نا تمام بچہ کو سقط یا سقط کہا جاتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر چقماق کی ہلکی سی ( ناقص ) چنگاری کو سقط الزند کہا جاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی اس کے ساتھ بچہ کو بھی موسوم کیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 149] اور جب وہ نادم ہوئے ۔ میں پشیمان ہونا مراد ہے ۔ اور آیت : ۔ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم 25] تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ میں ایک قراءت تساقط بھی ہے اور اس کا فاعل نخلۃ ہے اور ایک قراءت میں تساقط ہے جو اصل میں تتساقط فعل مضارع کا صیغہ ہے اس میں ایک تاۃ محذوف ہے اس صورت میں یہ باب تفاعل سے ہوگا اور یہ اگرچہ فاعل کا مطاوع آتا ہے لیکن کبھی متعدی بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ تجرعہ میں باب تفعل متعدی ہے ۔ اور ایک دوسری قرات میں یساقط ( صیغہ مذکر ) ہے اس صورت میں اس کا فاعل جذع ہوگا ۔- كسف - كُسُوفُ الشمس والقمر : استتارهما بعارض مخصوص، وبه شبّه كُسُوفُ الوجه والحال، فقیل : كَاسِفُ الوجه وكَاسِفُ الحال، والکِسْفَةُ : قطعة من السّحاب والقطن، ونحو ذلک من الأجسام المتخلخلة الحائلة، وجمعها كِسَفٌ ، قال : وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً [ الروم 48] ، فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء 187] ، أَوْ تُسْقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمْتَ عَلَيْنا كِسَفاً [ الإسراء 92] وکسفا «1» بالسّكون . فَكِسَفٌ جمع كِسْفَةٍ ، نحو : سدرة وسِدَرٍ. وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ [ الطور 44] . قال أبو زيد : كَسَفْتُ الثّوب أَكْسِفُهُ كِسْفاً :إذا قطعته قطعا «2» ، وقیل : كَسَفْتُ عرقوب الإبل، قال بعضهم : هو كَسَحْتُ لا غيرُ.- ( ک س ف )- کسوف الشمش والقمر کے معنی ہیں سورج یا چاند کا کیس خاص عارض سے مستور یعنی گہن میں آجانا کے ہیں ۔ اور تشبیہ کے طور پر چہرہ یا حالت کے خراب ہونے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے کا سف الوجھہ یا کا سف الحال ۔ الکسفۃ کے معنی بادل روئی یا اس قسم کے دوسرے متخلخل اجسام کے ٹکڑے کے ہیں اس کی جمع کسف آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً [ الروم 48] اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لاکر گراؤ أَوْ تُسْقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمْتَ عَلَيْنا كِسَفاً [ الإسراء 92] یا جیسا تم کہا کرتے ہو ہم پر آسمان کے ٹکڑے لاکر گراؤ ۔ ایک قرات میں کسفا بسکون سین ہے اور کسف کا واحد کسفۃ ہے جیسے سدرۃ وسدرۃ اور فرمایا : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ [ الطور 44] اور اگر یہ آسمان سے عذاب کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ابو ذید نے کہا ہے کسفت الثوب ( ج ) کسفا کے معنی کپڑے کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ہیں بعض نے کسفت عر قوب الابل بھی کہا ہے جس کے معنی اونٹ کی کونچ کاٹ دینے کے ہیں لیکن ) بعض ایک لغت کے نزدیک اس معنی میں صر ف کسحت ( ف ) ہی استعمال ہوتا ہے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- نوب - النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] - ( ن و ب ) النوب - ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کیا ان کفار مکہ نے آسمان و زمین کی طرف نظر نہیں کی جو ان کے اوپر نیچے موجود ہے اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا اگر چاہیں تو ان پر آسمان کے ٹکڑے گراکر ان کو ہلاک کردیں۔- آسمان و زمین کی مذکورہ دلیل میں قدرت خداوندی کی ہر اس بندہ کے لیے جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت کی طرف متوجہ ہو پوری دلیل ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩ اَفَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ ” تو کیا انہوں نے دیکھا نہیں جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے آسمان اور زمین میں سے “- کیا یہ لوگ اس کائنات کا مشاہدہ نہیں کرتے جو ان کے سامنے ہے اور کیا یہ ان تاریخی شواہد و بصائر سے سبق حاصل نہیں کرتے جو ان کے پیچھے ہیں۔ گویا یہاں اس چھوٹے سے فقرے میں ” تذکیر بآلاء اللہ “ کا حوالہ بھی آگیا اور ” تذکیر بایام اللہ “ کا بھی۔- اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِہِمُ الْاَرْضَ ” اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں “- اَوْ نُسْقِطْ عَلَیْہِمْ کِسَفًا مِّنَ السَّمَآئِ ” یا ان پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دیں۔ “- اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ ” یقینا اس میں نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے جو (اللہ کی طرف) رجوع کرنے والاہو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :12 یہ ان کی بات کا دوسرا جواب ہے ۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ کفار قریش جن وجوہ سے زندگی بعد موت کا انکار کرتے تھے ان میں تین چیزیں سب سے زیادہ نمایاں تھیں ۔ ایک یہ کہ وہ خدا کے محاسبے اور باز پرس کو نہیں ماننا چاہتے تھے کیونکہ اسے مان لینے کے بعد دنیا میں من مانی کرنے کی آزادی ان سے چھن جاتی تھی ۔ دوسرے یہ کہ وہ قیامت کے وقوع اور نظام عالم کے درہم برہم ہو جانے اور پھر سے ایک نئی کائنات بننے کو ناقابل تصور سمجھتے تھے ۔ تیسرے یہ کہ جن لوگوں کو مرے ہوئے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہوں اور جن کی ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو کر زمین ، ہوا اور پانی میں پراگندہ ہو چکی ہوں ان کا دوبارہ جسم و جان کے ساتھ جی اٹھنا ان کے نزدیک بالکل بعید از امکان تھا ۔ اوپر کا جواب ان تینوں پہلوؤں پر حاوی ہے ، اور مزید براں اس میں ایک سخت تنبیہ بھی مضمر ہے ۔ ان مختصر سے فقروں میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس کی تفضیل یہ ہے ۔ 1 ۔ اس زمین و آسمان کو اگر کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا ہوتا تو تمہیں نظر آتا کہ یہ کوئی کھلونا نہیں ہے ، اور نہ یہ نظام اتفاقاً بن گیا ہے ، اس کائنات کی ہر چیز اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اسے ایک قادر مطلق نے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا ہے ۔ ایسے ایک حکیمانہ نظام میں یہ تصور کرنا کہ یہاں کسی کو عقل و تمیز و اختیارات عطا کرنے کے بعد اسے غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ چھوڑا جا سکتا ہے ، سراسر ایک لغو بات ہے ۔ 2 ۔ اس نظام کو جو شخص بھی دیدہ بینا کے ساتھ دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ قیامت کا آجانا کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔ زمین اور آسمان جن بندشوں پر قائم ہیں ان میں ایک ذرا سا الٹ پھیر بھی ہو جائے تو آناً فاناً قیامت برپا ہو سکتی ہے ۔ اور یہی نظام اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے آج یہ دنیا بنا رکھی ہے وہ ایک دوسری دنیا پھر بنا سکتا ہے ۔ اس کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا تو یہی دنیا کیسے بن کھڑی ہوتی ۔ 3 ۔ تم نے آخر خالق ارض و سما کو کیا سمجھ رکھا ہے کہ مرے ہوئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کیے جانے کو اسکی قدرت سے باہر خیال کر رہے ہو ، جو لوگ مرتے ہیں ان کے جسم پارہ پارہ ہو کر خواہ کتنے ہی منتشر ہو جائیں ، رہتے تو اسی زمین و آسمان کے حدود میں ہیں ۔ اس سے کہیں باہر تو نہیں چلے جاتے ۔ پھر جس خدا کے یہ زمین و آسمان ہیں اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ مٹی اور پانی اور ہوا میں جو چیز جہاں بھی ہے اسے وہاں سے نکال لائے ۔ تمہارے جسم میں اب جو کچھ موجود ہے وہ بھی اسی کا جمع کیا ہوا ہے اور اسی مٹی ، ہوا اور پانی میں سے نکال لایا گیا ہے ۔ ان اجزا کی فراہمی اگر آج ممکن ہے تو کل کیوں غیر ممکن ہو جائے گی ۔ ان تینوں دلیلوں کے ساتھ اس کلام میں یہ تنبیہ بھی پوشیدہ ہے کہ تم ہر طرف سے خدا کی خدائی میں گھرے ہوئے ہو ۔ جہاں بھی جاؤ گے یہی کائنات تم پر محیط ہو گی ۔ خدا کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ تم نہیں پا سکتے اور خدا کی قدرت کا حال یہ ہے کہ جب وہ چاہے تمہارے قدموں کے نیچے سے یا سر کے اوپر سے جو بلا چاہے تم پر نازل کر سکتا ہے ۔ جس زمین کو آغوش مادر کی طرح تم اپنے لیے جائے سکون پاتے ہو اور اطمینان سے اس پر گھر بنائے بیٹھے ہو تمھیں کچھ پتہ نہیں کہ اس کی سطح کے نیچے کیا قوتیں کام کر رہی ہیں اور کب وہ کوئی زلزلے لا کر اسی زمین کو تمہارے لیے مرقد بنا دیتی ہیں ۔ جس آسمان کے نیچے تم اس اطمینان کے ساتھ چل پھر رہے ہو گویا کہ یہ تمہارے گھر کی چھت ہے ، تمہیں کیا معلوم کہ اسی آسمان سے کب کوئی بجلی گر پڑتی ہے ، یا ہلاکت خیز بارش ہوتی ہے ، یا اور کوئی ناگہانی آفت آجاتی ہے ۔ اس حالت میں تمہاری خدا سے یہ بے خوفی اور فکر عاقبت سے یہ غفلت اور ایک خیر خواہ کی نصیحت کے مقابلے میں یہ یَاوَہ گوئی بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ تم اپنی شامت ہی کو دعوت دے رہے ہو ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :13 یعنی جو شخص کسی قسم کا تعصب نہ رکھتا ہو ، جس میں کوئی ہٹ دھرمی اور ضد نہ پائی جاتی ہو ، بلکہ جو اخلاص کے ساتھ اپنے خدا سے طالب ہدایت ہو ، وہ تو آسمان و زمین کے اس نظام کو دیکھ کر بڑے سبق لے سکتا ہے ۔ لیکن جس کا دل خدا سے پھرا ہوا ہو وہ کائنات میں سب کچھ دیکھے گا مگر حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی اسے سجھائی نہ دے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani