Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 یعنی دو باتوں میں سے ایک بات تو ضرور ہے، کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور اللہ کی طرف سے وحی و رسالت کا دعویٰ ، یہ اس کا اللہ پر افترا ہے۔ یا پھر اس کا دماغ چل گیا ہے اور دیوانگی میں ایسی باتیں کر رہا ہے جو غیر معقول ہیں۔ 8۔ 2 اللہ تعالیٰ نے فرمایا، بات اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ گمان کر رہے ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ عقل و فہم اور ادراک حقائق سے یہی لوگ قاصر ہیں، جس کی وجہ سے یہ آخرت پر ایمان لانے کی بجائے اس کا انکار کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ آخرت کا دائمی عذاب ہے اور یہ آج ایسی گمراہی میں مبتلا ہیں جو حق سے غایت درجہ دور ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٠] کفار مکہ آپ کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے تھے۔ کیونکہ یہ بات ان کے زندگی بھر کے تجربہ کے خلاف تھی۔ لیکن وہ آپ کی دعوت کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ رسول اللہ کی دعوت میں تین باتیں تھیں جو انھیں ناگوار تھیں یا جن پر وہ ایمان نہیں رکھتے تھے۔ (١) وہ اس زمین و آسمان یا کائنات کے فنا ہونے کا یقین نہیں رکھتے تھے۔ بالفاظ دیگر وہ قیامت کے قائم ہونے کے قائل نہیں تھے۔ (٢) وہ بعث بعدالموت کے بھی قائل نہیں تھے۔ یعنی جب انسان مر کر مٹی میں مل کر مٹی بنا جائے تو اس کا دوبارہ جی اٹھنا ان کے خیال کے مطابق ناممکنات سے تھا۔ اور (٣) اسی کے نتیجہ میں وہ آخرت کے ثواب و عذاب کے بھی قائل تھے۔ لہذا وہ اپنی دنیوی زندگی میں احکام الٰہی کا پابند بن جانے کے بجائے آزاد رہنا ہی پسند کرتے تھے۔ جب بھی ان لوگوں نے مذاق اڑایا تو انھیں باتوں کا اور ان میں سے بھی پہلی دو باتیں تو وہ اکثر مختلف پرایوں میں دہراتے رہتے تھے۔ اس آیت میں ان کے سوال کا انداز تمسخر کا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس نبی کی یہ دعوت دو ہاتھوں سے خالی نہیں ہوسکتی۔ یا تو وہ اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے یا پھر اس کی عقل جواب دے گئی ہے۔- [ ١١] وہ خود بھی بھی اپنے ان دونوں احتمالات کو درست نہیں سمجھتے تھے اور سرداران قریش اپنی نجی گفتگو میں خود بھی ان احتمالات پر مطمن نہ ہوسکے۔ نہ ایک دوسرے کو مطمئن کرسکے تھے۔ آپ کے صادق ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ جو شخص لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹ بول سکتا ہے ؟ اور دیوانگی کی بات تو اور بھی زیادہ مہم تھی۔ یہی سرداران قریش جب ولید بن مغیرہ کے ہاں اکٹھے ہوئے تو زیربحث یہی موضوع تھا کہ ہم اس نبی کی دعوت کو کیسے روک سکتے ہیں اور لوگوں کو اس کے متعلق کیا کہہ سکتے ہیں تو ایک سردار نے یہ کہا تھا کہ ہم دوسروں سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دیوانہ ہے۔ تو ولید بن مغیرہ رئیس قریش نے کہا تھا : اللہ کی قسم وہ دیوانہ بھی نہیں، ہم نے دیوانوں کو دیکھا ہے اس کے اندر دیوانوں جیسی دم گھٹنے کی کیفیت ہے، نہ الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ان جیسی بہکی بہکی باتیں ہیں ولید بن مغیرہ کا یہ جواب بھی صرف سلبی انداز سے دیوانگی کی تردید تھا کیونکہ وہ بھی آپ کا دشمن تھی۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ آپ کے دوسرے لوگوں سے معاملات اور آپ کی بلندی کردار اور معقول دلائل گفتگو سے کوئی ناواقف آدمی ایک آپ کے عظیم انسان ہونے کا با اسانی اندازہ لگا سکتا تھا۔ دیوانگی کا تصور تو بڑی دور کی بات تھی۔- اللہ تعالیٰ نے کافروں کی تینوں باتوں میں سے بالخصوص تیسری بات کو انکار کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ روز آخرت کا انکار اس بنا پر نہیں کرتے کہ انھیں آخرت کے دلائل کی سمجھ نہیں آرہی یا نہیں آسکتی۔ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ آخرت کی باز پرس سے ڈرتے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ بس کبوتر کے آنکھیں بند کرنے سے بلی از خود غائب ہوجائے گی۔ انہوں نے خود ہی اپنی آنکھیں حقائق کو دیکھتے اور ان کا مردانہ وار مقابلہ کرنے سے بند کر رکھی ہیں۔ اور اسی طریق کار سے مسلسل آگے بڑھتے جارہے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَفْتَرٰى عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَمْ بِهٖ جِنَّةٌ ۔۔ : یعنی اس کا یہ کہنا کہ ریزہ ریزہ کردیے جانے کے بعد تم نئے سرے سے پھر زندہ کیے جاؤ گے، دو حال سے خالی نہیں، یا تو ہوش و حواس کی درستی میں وہ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ رہا ہے اور اس کی طرف نسبت کر کے وہ بات کہہ رہا ہے جو اس نے نہیں فرمائی، یا اسے جنون ہے، اس کا دماغ خراب ہے، بےسوچے سمجھے جو جی میں آئے کہہ دیتا ہے۔ [ نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ]- بَلِ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ ۔۔ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری عمر قریش مکہ کے سامنے گزری تھی۔ (دیکھیے یونس : ١٦) آپ کے متعلق یہ دونوں باتیں اتنی بےکار تھیں کہ ان کی تردید کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صادق اور امین ہونا سب کے ہاں مسلّم تھا۔ (دیکھیے انعام : ٣٣) جیسا کہ ابوسفیان کے اس اعتراف پر کہ انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جھوٹ بولنے کا کوئی واقعہ معلوم نہیں، ہرقل نے کہا تھا : ” یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ نہ بولے، مگر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے لگے۔ “ [ دیکھیے بخاري : ٧ ] رہی دیوانہ یا پاگل ہونے کی بات تو آپ کی عقل کا کمال دوست و دشمن سب کے سامنے تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کے منکر ہیں وہ جہالت اور نادانی سے کام لے رہے ہیں اور غور و فکر سے بات کی تہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے وہ حق بات اور سیدھی راہ سے بہت دور نکل گئے ہیں اور اس راستے پر چل رہے ہیں جو انھیں سیدھا جہنم کے عذاب میں لے جانے والا ہے۔ الٹا سیدھی راہ پر چلنے والے کو جھوٹا یا دیوانہ بتا رہے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) افتریٰ علیٰ اللہ کذباً ام بہ جنة، مطلب یہ ہے کہ جسم کے ریزہ ریزہ ہوجانے کے بعد سب ذرات کا جمع ہو کر پھر بدن انسانی بن جانا اور زندہ ہونا تو ایسی نامعقول بات ہے جس کو تسلیم کرنے اور ماننے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لئے ان کا یہ قول یا تو جان بوجھ کر خدا تعالیٰ پر افتزاء و بہتان باندھنا ہے، یا پھر یہ کہنے والا مجنون ہے جس کے کلام کی کوئی بنیاد صحیح نہیں ہوتی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفْتَرٰى عَلَي اللہِ كَذِبًا اَمْ بِہٖ جِنَّۃٌ۝ ٠ ۭ بَلِ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلٰلِ الْبَعِيْدِ۝ ٨- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - جِنَّة :- جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- ۔ الجنتہ - جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

محمد نے نعوذ باللہ، اللہ پر جھوٹ باندھا ہے یا ان کو کسی قسم کا جنون ہوگیا ہے۔- اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حقیقت میں جو لوگ بعث بعد الموت پر ایمان نہیں رکھتے وہی آخرت میں سخت عذاب میں اور دنیا میں حق و ہدایت سے دور اور گمراہی میں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ اَفْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ” کیا اس نے جھوٹ باندھا ہے اللہ پر “- کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اتنی بڑی جسارت کی ہے کہ جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے ؟ کہنے کو تو وہ ایک دوسرے سے یوں کہتے تھے اور خود اپنے آپ سے بھی یہ سوال کرتے تھے لیکن اصل حقیقت کو وہ خوب سمجھتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے جھوٹ گھڑنے کا کوئی ہلکا سا بھی امکان نہیں تھا۔ اندر سے ان کے دل گواہی دیتے تھے کہ دیکھو اس شخص کی پچھلے چالیس برس کی زندگی تمہارے سامنے ہے۔ ان کی سیرت و کردار سے تم خوب واقف ہو۔ تم نے خود انہیں الصادق اور الامین کا خطاب دیا ہے۔ تو بھلا ایک ایسا شخص جس نے اپنی معمول کی زندگی میں کبھی کوئی چھوٹا سا بھی جھوٹ نہ بولا ہو ‘ آخر اتنا بڑا جھوٹ کیسے بول سکتا ہے اور وہ بھی اللہ کے بارے میں - اَمْ بِہٖ جِنَّــۃٌ ” یا اسے جنون ہوگیا ہے “- کبھی کہتے ممکن ہے کہ ان پر آسیب کا سایہ آگیا ہو یا ان کا دماغی توازن خراب ہوگیا ہو ‘ اس لیے اس طرح کی باتیں کرنے لگے ہوں۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر ان کا اپنا کوئی قصور نہیں اور انہیں جھوٹ کا الزام نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اس الزام پر بھی ان کے ضمیر پکار اٹھتے کہ اس پر غور تو کرو کیا اس کلام میں تم لوگوں کو واقعی دیوانگی کے آثار نظر آتے ہیں ؟ چناچہ واقعتا انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ ماجرا آخر ہے کیا ؟- جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ اگر بارہ سالہ مکی دور کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے تو مکی سورتوں کے درمیانی گروپس (سورۃ الفرقان تا سورة السجدۃ اور سورة سبا تا سورة الاحقاف) میں ‘ سورة الشعراء کو چھوڑ کر کہ وہ ابتدائی دور کی سورت ہے ‘ باقی تمام وہ سورتیں ہیں جو درمیانی چار سالوں میں نازل ہوئی ہیں اور ان سب سورتوں کے مطالعہ کے دوران کفارِ مکہ کی یہی کیفیت سامنے آتی ہے۔ یعنی اس دور میں وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں سخت الجھن اور شش و پنج کا شکار تھے۔ کبھی وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر کہتے ‘ کبھی جادوگر اور کبھی مجنون قرار دیتے ‘ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کوئی واضح اور حتمی موقف اپنانے سے قاصر تھے۔ البتہ آخری چار سالہ دور میں نازل ہونے والی پندرہ سورتوں یعنی سورة الانعام ‘ سورة الاعراف اور سورة یونس تا سورة المومنون (اس گروپ میں بھی سورة الحجر ایک ایسی سورت ہے جو ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی) کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں ان کے اندر ہوگئی تھی۔ یعنی مکی دور کے آخری سالوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ان کے مختلف لوگ مختلف آراء رکھتے تھے۔- بَلِ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ فِی الْْعَذَابِ وَالضَّلٰلِ الْبَعِیْدِ ” بلکہ وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ عذاب میں اور دور کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ “- دُنیا میں بھی ان کی جان ضیق (تنگی) میں آئی ہوئی ہے اور وہ بڑی دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں آخرت کا یقین ہوتا تو یہ بات جو ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ‘ بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :10 قریش کے سردار اس بات کو خوب جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا تسلیم کرنا عوام الناس کے لیے سخت مشکل ہے ، کیونکہ ساری قوم آپ کو صادق القول جانتی تھی اور کبھی ساری عمر کسی نے آپ کی زبان سے کوئی جھوٹی بات نہ سنی تھی ۔ اس لیے وہ لوگوں کے سامنے اپنا الزام اس شکل میں پیش کرتے تھے کہ یہ شخص جب زندگی بعد موت جیسی انہونی بات زبان سے نکالتا ہے تو لامحالہ اس کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا ۔ یا تو ( معاذ اللہ ) یہ شخص جان بوجھ کر ایک جھوٹی بات کہہ رہا ہے ، یا پھر یہ مجنون ہے ۔ لیکن یہ مجنون والی بات بھی اتنی ہی بے سر و پا تھی جتنی جھوٹ والی بات تھی ۔ اس لیے کہ کوئی عقل کا اندھا ہی ایک کمال درجہ کے عاقل و فہیم آدمی کو مجنون مان سکتا تھا ، ورنہ آنکھوں دیکھتے کوئی شخص جیتی مکھی کیسے نگل لیتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ بات کے جواب میں کسی استدلال کی ضرورت محسوس نہ فرمائی اور کلام صرف ان کے اس اچنبھے پر کیا جو موت کے امکان پر وہ ظاہر کرتے تھے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :11 یہ ان کی بات کا پہلا جواب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نادانو ، عقل تو تمہاری ماری گئی ہے کہ جو شخص حقیقت حال سے تمہیں آگاہ کر رہا ہے اس کی بات نہیں مانتے اور سرپٹ اس راستے پر چلے جا رہے ہو جو سیدھا جہنم کی طرف جاتا ہے ، مگر تمہاری حماقت کی طغیانی کا یہ عالم ہے کہ الٹا اس شخص کو مجنون کہتے ہو جو تمہیں بچانے کی فکر کر رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی مذکورہ بات کا جواب ہے۔ انہوں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں دو احتمال ذکر کیے تھے۔ ایک یہ کہ (معاذ اللہ) آپ نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے مرادف ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عذاب الٰہی کو دعوت دینے والا کوئی کام نہیں کیا، اس کے برعکس آخرت کے منکرین ضرور عذاب کا کام کر رہے ہیں۔ دوسرا احتمال کافروں نے یہ ذکر کیا تھا کہ (معاذ اللہ) آپ کو جنون لاحق ہوگیا ہے، اور جنون کی حالت میں اگرچہ عذاب نہیں ہوتا، لیکن مجنون راستے سے بھٹکا ہوا ضرور ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ آپ نہیں، بلکہ منکرین آخرت پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔