Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کی کیفیت بیان ہو رہی ہے اور یہ بھی کہ جو جنات ان کے فرمان کے تحت کام کاج میں مصروف تھے ان پر ان کی موت کیسے نامعلوم رہی وہ انتقال کے بعد بھی لکڑی کے ٹیکے پر کھڑے ہی رہے اور یہ انہیں زندہ سمجھتے ہوئے سر جھکائے اپنے سخت سخت کاموں میں مشغول رہے ۔ مجاہد وغیرہ فرماتے ہی تقریباً سال بھر اسی طرح گزر گیا ۔ جس لکڑی کے سہارے آپ کھڑے تھے جب اسے دیمک چاٹ گئی اور وہ کھوکھلی ہوگئی تو آپ گرپڑے ۔ اب جنات اور انسانوں کو آپ کی موت کا پتہ چلا ۔ تب تو نہ صرف انسانوں بلکہ خود جنات کو بھی یقین ہوگیا کہ ان میں سے کوئی بھی غیب داں نہیں ۔ ایک مرفوع منکر اور غریب حدیث میں ہے کہ لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جب نماز پڑھتے تو ایک درخت اپنے سامنے دیکھتے اس سے پوچھتے کہ تو کیسا درخت ہے تیرا نام کیا ہے ۔ وہ بتا دیتا آپ اسے اسی استعمال میں لاتے ۔ ایک مرتبہ جب نماز کو کھڑے ہوئے اور اسی طرح ایک درخت دیکھا تو پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا ضروب ۔ پوچھا تو کس لئے ہے؟ کہا اس گھر کو اجاڑنے کیلئے تب آپ نے دعا مانگی کہ اللہ میری موت کی خبر جنات پر ظاہر نہ ہونے دے تاکہ انسان کو یقین ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتے ۔ اب آپ ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور جنات کو مشکل مشکل کام سونپ دیئے آپ کا انتقال ہوگیا لیکن لکڑی کے سہارے آپ ویسے ہی کھڑے رہے جنات دیکھتے رہے اور سمجھتے رہے کہ آپ زندہ ہیں اپنے اپنے کام میں مشغول رہے ایک سال کامل ہوگیا ۔ چونکہ دیمک آپ کی لکڑی کو چاٹ رہی تھی سال بھر گزرنے پر وہ اسے کھاگئی اور اب حضرت سلیمان گر پڑے اور انسانوں نے جان لیا کہ جنات غیب نہیں جانتے ورنہ سال بھر تک اس مصیبت میں نہ رہتے ۔ لیکن اس کے ایک راوی عطا بن مسلم خراسانی کی بعض احادیث میں نکارت ہوتی ہے ۔ بعض صحابہ سے مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی عادت تھی آپ سال سال دو دو سال یا کم و بیش مدت کیلئے مسجد قدس میں اعتکاف میں بیٹھ جاتے آخری مرتبہ انتقال کے وقت بھی آپ مسجد بیت المقدس میں تھے ہر صبح ایک درخت آپ کے سامنے نمودار ہوتا ۔ آپ اس سے نام پوچھتے فائدہ پوچھتے وہ بتاتا آپ اسی کام میں اسے لاتے بالآخر ایک درخت ظاہر ہوا جس نے اپنا نام ضروبہ بتایا کہا تو کس مطلب کا ہے کہا اس مسجد کے اجاڑنے کیلئے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے فرمانے لگے میری زندگی میں تو یہ مسجد ویران ہوگی نہیں البتہ تو میری موت اور اس شہر کی ویرانی کیلئے ہے ۔ چنانچہ آپ نے اسے اپنے باغ میں لگا دیا مسجد کی بیچ کی جگہ میں کھڑے ہو کر ایک لکڑی کے سہارے نماز شروع کردی ۔ وہیں انتقال ہوگیا لیکن کسی کو اس کا علم نہ ہوا ۔ شیاطین سب کے سب اپنی نوکری بجا لاتے رہے کہ ایسا نہ ہو ہم ڈھیل کریں اور اللہ کے رسول آ جائیں تو ہمیں سزا دیں ۔ یہ محراب کے آگے پیچھے آئے ان میں جو ایک بہت بڑا پاجی شیطان تھا اس نے کہا دیکھو جی اس میں آگے اور پیچھے سوراخ ہیں اگر میں یہاں سے جاکر وہاں سے نکل آؤں تو میری طاقت کو مانو گے یا نہیں؟ چنانچہ وہ گیا اور نکل آیا لیکن اسے حضرت سلیمان کی آواز نہ آئی ۔ دیکھ تو سکتے نہ تھے کیونکہ حضرت سلیمان کی طرف نگاہ بھر کر دیکھتے ہی وہ مرجاتے تھے لیکن اس کے دل میں کچھ خیال سا گزرا اس نے پھر اور جرأت کی اور مسجد میں چلا گیا دیکھتا کہ وہاں جانے کے بعد وہ نہ جلا تو اس کی ہمت اور بڑھ گئی اور اس نے نگاہ بھر کر آپ کو دیکھا تو دیکھا کہ وہ گرے پڑے ہیں اور انتقال فرما چکے ہیں اب آکر سب کو خبر کی لوگ آئے محراب کو کھولا تو واقعی اللہ کے رسول کو زندہ نہ پایا ۔ آپ کو مسجد سے نکال لائے ۔ مدت انتقال کا علم حاصل کرنے کیلئے انہوں نے لکڑی کو دیمک کے سامنے ڈال دیا ایک دن رات تک جس قدر دیمک نے اسے کھایا اسے دیکھ کر اندازہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کے انتقال کو پورا سال گزر چکا ۔ تمام لوگوں کو اس وقت کامل یقین ہوگیا کہ جنات جو بنتے تھے کہ ہم غیب کی خبریں جانتے ہیں یہ محض ان کی دھونس تھی ورنہ سال بھر تک کیوں مصیبت جھیلتے رہتے ۔ اس وقت سے جنات گھن کے کیڑے کو مٹی اور پانی لا دیا کرتے ہیں گویا اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ کہا یہ بھی تھا کہ اگر تو کچھ کھاتا پیتا ہوتا تو بہتر سے بہتر غذا ہم تجھے پہنچاتے لیکن یہ سب بنی اسرائیل کے علماء کی روایتیں ہیں ان میں جو مطابق حق ہوں قبول ۔ خلاف حق ہوں مردود دونوں سے الگ ہوں وہ نہ تصدیق کے قابل نہ تکذیب کے واللہ اعلم الغیب ۔ حضرت زید بن اسلم سے مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملک الموت سے کہہ رکھا تھا کہ میری موت کا وقت مجھے کچھ پہلے بتا دینا حضرت ملک الموت نے یہی کیا تو آپ نے جنات کو بغیر دروازے کے ایک شیشے کا مکان بنانے کا حکم دیا اور اس میں ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر نماز شروع کی یہ موت کے ڈر کی وجہ سے نہ تھا ۔ حضرت ملک الموت اپنے وقت پر آئے اور روح قبض کرکے گئے ۔ پھر لکڑی کے سہارے آپ سال بھر تک اسی طرح کھڑے رہے جنات ادھر ادھر سے دیکھ کر آپ کو زندہ سمجھ کر اپنے کاموں میں آپ کی ہیبت کی وجہ سے مشغول رہے لیکن جو کیڑا آپ کی لکڑی کو کھا رہا تھا جب وہ آدھی کھاچکا تو اب لکڑی بوجھ نہ اٹھا سکی اور آپ گر پڑے جنات کو آپ کی موت کا یقین ہوگیا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ اور بھی بہت سے اقوال سلف سے یہ مروی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں جنات کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا کہ یہ غائب کی باتیں جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کے ذریعے سے اس عقیدے کے فساد کو واضح کردیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٣] جس وقت حضرت سلیمان کی وفات کا وقت قریب آگیا اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ہوگیا کہ اب دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں۔ اس وقت آپ نے جنوں کو بیت المقدس کی تعمیر پر لگایا ہوا تھا جسے ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ اس وقت تعمیر کا ابھی خاصا کام باقی تھا۔ آپ نے باقی کام کا پورا نقشہ جنوں کے سربراہ کے حوالہ کردیا اور پوری طرح مکمل کام سمجھا دیا تھا۔ پھر اپنے عبادت خانے میں آکر عبادت میں کھڑے ہوگئے۔ اور اپنی لاٹھی سے ٹیک لگا لی۔ آپ کا یہ عبادت خانہ ایسا تھا جس میں شیشے کی کھڑکیاں تھیں اور باہر سے دیکھنے والا حضرت سلیمان کو عبادت میں مصروف دیکھ سکتا تھا۔ آپ عبادت میں کھڑے ہوئے تو اسی حالت میں فرشتے نے روح قبض کرلی اور آپ لاٹھی کے سہارے کھڑے کے کھڑے ہی رہے۔ جن اور بعض دوسرے لوگ آپ کو کبھی کبھار عبادت میں مصروف دیکھ جاتے تھے۔ اسی حالت میں تقریباً چار ماہ گزر گئے۔ چار ماہ بعد ادھر بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہوئی اور ادھر وہ لاٹھی ٹوٹ گئی جس کے سہارے آپ کی میت کھڑی تھی۔ لاٹھی کو اندر ہی اندر دیمک نے چاٹ کر ختم کردیا تھا۔ لاٹھی ٹوٹی تو آپ کی میت گر پڑی۔ تب لوگوں کو اور تعمیر پر متعین جنوں کو معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان تو بہت عرصہ پہلے کے فوت ہوچکے ہیں۔ اس وقت جنوں کو سخت افسوس ہوا کہ وہ اتنا عرصہ مفت میں محنت مشقت جھیلتے رہے۔ اس وقت جنوں کی یہ غلط فہمی دور ہوگئی کہ وہ غیب جانتے ہیں اور ان لوگوں کی بھی جو یہ سمجھتے تھے کہ جن غیب جانتے ہیں اور اپنے اسی اعتقاد کی بنا پر جنوں کی تسخیر کے لئے طرح طرح چلے کاٹتے اور پاپڑ بیلتے تھے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ جس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہے اس کے لئے کیسے کیسے اسباب مہیا کردیتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ ۔۔ : ” دَاۗبَّةُ الْاَرْضِ “ دیمک۔ ” تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ “ ” تَبَیَّنَ یَتَبَیَّنُ “ (تفعّل) کا معنی واضح طور پر جان لینا بھی ہے اور کسی چیز کا واضح ہوجانا اور کھل کر سامنے آجانا بھی ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ؂- إِذَا اشْتَبَکَتْ دُمُوْعٌ فِيْ خُدُوْدٍ- تَبَیَّنَ مَنْ بَکٰی مِمَّنْ تَبَاکٰی - ” جب رخساروں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تو وہ لوگ صاف ظاہر ہوگئے جو رو رہے تھے، ان لوگوں سے جو رونے کی نمائش کر رہے تھے۔ “- 3 اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کو عطا کردہ عظیم سلطنت، علمی کمالات اور ہوا اور جنوں کی تسخیر وغیرہ کے بیان کے بعد ان کی موت کا تذکرہ فرمایا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ موت سے کوئی نہیں بچ سکتا، اگر اس سے کوئی بچتا تو سلیمان (علیہ السلام) ضرور بچ جاتے، جن کے پاس اتنی عظیم قوتیں تھیں۔- 3 سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ جنّات غیب جانتے ہیں، جیسا کہ آج کل بھی اکثر لوگوں کا یہی حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کے علم غیب کی حقیقت واضح کرنے کے لیے ایک عجیب طریقہ اختیار فرمایا، وہ یہ کہ سلیمان (علیہ السلام) کی وفات اس حال میں ہوئی کہ وہ اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا کر کھڑے تھے۔ جنّات ان کاموں میں مصروف تھے جن کا حکم انھیں سلیمان (علیہ السلام) نے دے رکھا تھا، انھیں معلوم نہیں ہوسکا کہ سلیمان (علیہ السلام) فوت ہوچکے ہیں اور وہ بدستور کام میں جتے رہے۔ دیمک ان کی لاٹھی کو اندر سے کھاتی رہی، جب لاٹھی اندر سے کھوکھلی ہوگئی اور سلیمان (علیہ السلام) کا بوجھ برداشت نہ کرسکی تو وہ گرپڑے۔ تب جا کر لوگوں اور جنوں کو ان کی وفات کا پتا چلا۔ اس واقعہ سے تمام لوگوں کے سامنے جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔ - 3 اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے تابع جنوں اور شیاطین سے سرکش انسانی قبائل مراد نہیں، کیونکہ ان کے متعلق کوئی بھی علم غیب کا قائل نہیں، نہ خود انھیں اس کا دعویٰ ہوسکتا ہے، بلکہ یہ حقیقی جنّ و شیاطین تھے۔ - 3 اکثر تفاسیر میں لکھا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) وفات کے بعد لاٹھی کے سہارے ایک سال تک کھڑے رہے۔ بعض حضرات نے یہ بیان کیا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے جنوں کو حکم دے کر شیشے کا ایک مکان بنوایا اور اس میں لاٹھی کے سہارے کھڑے ہوگئے۔ اسی حالت میں ان کی وفات ہوگئی۔ جنّات ان کو ایک سال تک لاٹھی کے سہارے کھڑے دیکھتے رہے اور انھیں زندہ سمجھ کر ان کی ہیبت کی وجہ سے ان کی بتائی ہوئی تعمیرات اور دوسرے کام کرتے رہے۔ مگر ایک سال تک اس طرح کھڑے رہنے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے پورا سال نہ کچھ کھایا، نہ پیا، نہ لباس بدلا، نہ نماز پڑھی یا جماعت کروائی، نہ کسی خدمت گار کے دل میں کوئی فکر پیدا ہوئی، جو ہر روز ان کے لیے ان کاموں کا اہتمام کرتے تھے، نہ امور سلطنت کے متعلق کسی نے ان سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی۔ آیا یہ ممکن بھی ہے ؟ میں نے بہت سی تفسیروں کا مطالعہ کیا، مگر انھوں نے اس سوال کی طرف توجہ نہیں فرمائی۔ بعض مفسرین نے اسے استعارہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ لاٹھی کو دیمک کے کھانے کا مطلب ان کی سلطنت کا اندرونی طور پر آہستہ آہستہ کمزور ہونا ہے وغیرہ، مگر آیت کے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دیتے۔- علامہ مراغی نے اس کا اچھا حل بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : ” وَالْکِتَابُ الْکَرِیْمُ لَمْ یُحَدِّدِ الْمُدَّۃَ الَّتِيْ قَضَاھَا سُلَیْمَانُ وَھُوَ مُتَوَکِّئٌ عَلٰی عَصَاہُ حَتّٰی عَلِمَ الْجِنُّ بِمَوْتِہِ ، وَقَدْ رَوَی الْقَصَّاصُوْنَ أَنَّھَا کَانَتْ سَنَۃً ، وَ مِثْلُ ھٰذَا لَا یَنْبَغِي الرُّکُوْنُ إِلَیْہِ ، فَلَیْسَ مِنَ الْجَاءِزِ أَنَّ خَدَمَ سُلَیْمَانَ لَا یَتَنَبَّھُوْنَ إِلَی الْقِیَامِ بِوَاجِبَاتِہِ الْمَعِیْشِیَّۃِ مِنْ مَأْکَلٍ وَ مَشْرَبٍ وَ مَلْبَسٍ وَ نَحْوِھَا یَوْمًا کَامِلًا دُوْنَ أَنْ یُّحَادِثُوْہُ فِيْ ذٰلِکَ وَ یَطَّلِبُوْا إِلَیْہِ الْقِیَامَ بِخِدْمَتِہِ ، فَالْمَعْقُوْلُ أَنَّ الْأَرْضَۃَ بَدَأَتِ الْعَصَا وَ سُلَیْمَانُ لَمْ یَتَنَبَّہْ لِذٰلِکَ ، وَ بَیْنَمَا ھُوَ مُتَوَکِّئٌ عَلَیْھَا حَانَتْ مَنِیَّتُہُ ، وَکَانَتِ الْأَرَضَۃُ قَدْ فَعَلَتْ فِعْلَھَا فِي الْعَصَا فَانْکَسَرَتْ فَخَرَّ عَلَی الْأَرْضِ فَعَلِمَتِ الْجِنُّ کِذْبَھَا، إِذْ کَانَتْ تَدَّعِيْ أَنَّھَا تَعْلَمُ الْغَیْبَ ، إِذْ لَوْ عَلِمَتْہُ مَا لَبِثَتْ تُرْھِقُ نَفْسَھَا فِيْ شَاقِّ الْأَعْمَالِ الَّتِيْ کُلِّفَتْ بِھَا “ ” قرآن کریم نے اس مدت کی تعیین نہیں فرمائی جو سلیمان (علیہ السلام) نے جنوّں کو ان کی موت کا علم ہونے تک لاٹھی پر ٹیک لگانے کی حالت میں گزاری۔ قصہ گو حضرات نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک سال تھی مگر ایسی بات قابل توجہ نہیں ہے، کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت کرنے والوں کا پورا ایک دن ان کی معاشی ضروریات یعنی کھانے پینے اور لباس وغیرہ کی طرف خیال ہی نہ جائے، نہ وہ ان سے اس کے بارے میں بات کریں، نہ ان کی خدمت سرانجام دینے کا تقاضا کریں (سال تو بہت دور کی بات ہے) ۔ اس لیے معقول بات یہ ہے کہ دیمک پہلے ہی لاٹھی میں لگ چکی تھی، سلیمان (علیہ السلام) کو اس کی خبر نہیں ہوئی۔ وہ اس پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ ان کی موت کا وقت آگیا، جب کہ دیمک لاٹھی کے اندر اپنا کام کرچکی تھی۔ چناچہ وہ ٹوٹ گئی اور سلیمان (علیہ السلام) زمین پر گرگئے تو جنوّں کو اپنا جھوٹ معلوم ہوگیا، کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ غیب جانتے ہیں، اس لیے کہ اگر وہ اسے جانتے ہوتے تو ان مشقت والے کاموں میں اپنی جان نہ مارتے رہتے جن کی انھیں تکلیف دی گئی تھی۔ “- مراغی کی رائے اس لیے بھی مضبوط ہے کہ ایک سال کی مدت کی کوئی روایت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں، محض اسرائیلی روایات ہیں، جن کا یہ درجہ بھی نہیں کہ انھیں ” لَا نُصَدِّقُ وَلَا نُکَذِّبُ “ کہا جاسکے، بلکہ سب صریح عقل کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ ابن کثیر (رض) نے ایک سال مدت بیان کرنے کے باوجود ان روایات کو اسرائیلیات قرار دیا ہے اور مرفوع روایت کو غریب اور ” فِيْ صِحَّتِہِ نَظْرٌ“ فرمایا ہے اور فی الواقع وہ روایت غیر ثابت ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فلما قضینا علیہ الموت الآیة، آیت میں لفظ منساة عصاء اور لاٹھی کے معنی میں ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے، بمعنی عصاء اور بعض نے فرمایا کہ عربی لفظ ہے۔ نساء کے معنی ہٹانے اور موخر کرنے کے ہیں، لاٹھی کے ذریعے انسان مضر چیزوں کو ہٹاتا ہے، اس لئے اس کو منساة کہا گیا، یعنی ہٹانے کا آلہ۔ اس آیت میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا واقعہ عجیبہ بیان فرما کر بہت سی عبرتوں اور ہدایتوں کا دروازہ کھول دیا۔- حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا عجیب واقعہ :- اس واقعہ میں بہت سی ہدایات ہیں، مثلاً یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جن کو ایسی بےمثل حکومت و سلطنت حاصل تھی کہ صرف ساری دنیا پر ہی نہیں بلکہ جنات اور طیور اور ہوا پر بھی ان کی حکومت تھی، مگر ان سب سامانوں کے باوجود موت سے ان کو بھی نجات نہ تھی۔ اور یہ کہ موت تو مقررہ وقت پر آنی تھی، بیت المقدس کی تعمیر جو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے شروع کی، پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی تکمیل فرمائی، اس میں کچھ کام تعمیر کا باقی تھا، اور یہ تعمیر کا کام جنات کے سپرد تھا جن کی طبیعت میں سرکشی غالب تھی، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے خوف سے کام کرتے تھے، ان کی وفات کا جنات کو علم ہوجائے تو فوراً کام چھوڑ بیٹھیں، اور تعمیر رہ جائے۔ اس کا انتظام حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے باذن ربانی یہ کیا کہ جب موت کا وقت آیا تو موت کی تیاری کر کے اپنے محراب میں داخل ہوگئے، جو شفاف شیشے سے بنی ہوئی تھی، باہر سے اندر کی سب چیزیں نظر آتی تھیں، اور اپنے معمول کے مطابق عبادت کے لئے ایک سہارا لے کر کھڑے ہوگئے کہ روح پرواز کرنے کے بعد بھی جسم اس عصا کے سہارے اپنی جگہ جما رہے۔ سلیمان (علیہ السلام) کی روح وقت مقرر پر قبض کرلی گئی مگر وہ اپنے عصا کے سہارے اپنی جگہ جمے ہوئے باہر سے ایسے نظر آتے تھے کہ عبادت میں مشغول ہیں، جنات کی یہ مجال نہ تھی کہ پاس آ کر دیکھ سکتے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو زندہ سمجھ کر کام میں مشغول رہے، یہاں تک کہ سال بھر گزر گیا، اور تعمیر بیت المقدس کا بقیہ کام پورا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے گھن کے کیڑے کو جس کو فارسی میں دیوک اور اردو میں دیمک کہا جاتا ہے، اور قرآن کریم نے اس کو دابة الارض کے نام سے موسوم کیا ہے، عصائے سلیمانی پر مسلط کردیا۔ دیمک نے عصاء کی لکڑی کو اندر سے کھا کر کمزور کردیا، عصاء کا سہارا ختم ہوا تو سلیمان (علیہ السلام) گر گئے، اس وقت جناب کو ان کی موت کی خبر ہوئی۔- جنات کو اللہ تعالیٰ نے دور دراز کی مسافت چند لمحوں میں قطع کرلینے کی قوت عطا فرمائی ہے وہ بہت سے ایسے حالات و واقعات سے واقف ہوتے تھے، جن کو انسان نہیں جانتے، جب وہ انسانوں کو ان واقعات کی خبر دیتے تو انسان یہ سمجھتے تھے کہ یہ غیب کی خبر ہے اور جنات کو بھی علم غیب حاصل ہے، خود جنات کو بھی علم غیب کا دعویٰ ہو تو بعید نہیں، موت کے اس عجیب واقعہ نے اس کی بھی حقیقت کھول دی۔ خود جنات کو بھی پتہ چل گیا اور سب انسانوں کو بھی کہ جنات عالم الغیب نہیں ہیں، کیونکہ ان کو غیب کا علم ہوتا تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت سے ایک سال پہلے ہی باخبر ہوجاتے۔ اور یہ سال بھر کی محنت و مشقت جو ان کو زندہ سمجھ کر برداشت کرتے رہے اس سے بچ جاتے۔ آیت کے آخری جملے میں اسی کا بیان ہے (آیت) فلما خر تبینت الجن ان لو کانوا یعلمون الغیب مالبثوا فی العداب المھین، اس میں عذاب مہین سے مراد وہ محنت مشقت کا کام ہے جس پر تعمیر بیت المقدس کی تکمیل کے لئے ان کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے لگا دیا تھا۔ سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا یہ عجیب واقعہ کچھ تو خود قرآن کی اس آیت میں مذکور ہے، باقی تفصیل حضرت ابن عباس وغیرہ ائمہ تفسیر سے منقول ہے جو ابن کثیر وغیرہ سب تفاسیر میں نقل کی گئی ہے۔- اس عجیب واقعہ سے یہ عبرت بھی حاصل ہوئی کہ موت سے کسی کا چھٹکارا نہیں، اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کو جو کام لینا ہوتا ہے اس کا جس طرح چاہیں انتظام کرسکتے ہیں، جیسا اس واقعہ میں ہوا کہ موت کے باوجود سلیمان (علیہ السلام) کو سال بھر تک اپنی جگہ قائم رکھ کر جنات سے کام پورا کرا لیا۔ اور یہ بھی کہ دنیا کے سارے اسباب وآلات اسی وقت تک اپنا کام کرتے ہیں جب تک منظور حق ہوتا ہے، جب منظور نہیں ہوتا تو آلات و اسباب جواب دے دیتے ہیں، جیسے یہاں عصا کا سہارا دیمک کے ذریعہ ختم کردیا گیا۔ اور یہ بھی کہ سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے بعد خطرہ تھا کہ لوگ جنات کے حیرت انگیز عمل اور کارناموں اور بظاہر غیب کی چیزوں سے ان کے باخبر ہونے وغیرہ کے اعمال عجیبہ کو دیکھ کر کہیں انہی کو اپنا معبود نہ بنا بیٹھیں، اس خطرہ کو بھی اس واقعہ موت نے ختم کردیا، سب کو جنات کی بیخبر ی اور بےبسی معلوم ہوگئی۔- تقریر مذکور سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے موت کے وقت اس خاص طریقہ کو دو وجہ سے اختیار کیا تھا، اول یہ کہ تعمیر بیت المقدس کا باقی ماندہ کام پورا ہوجائے، دوسرے یہ کہ ان لوگوں پر جنات کی بیخبر ی اور بےبسی واضح ہوجائے تاکہ ان کی عبادت کا خطرہ نہ رہے۔ (قرطبی)- امام نسائی نے باسناد صحیح حضرت عبداللہ بن عمرو سے یہ روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے چند دعائیں کیں، جو مقبول ہوئیں۔ ان میں ایک دعا یہ ہے کہ جو شخص اس مسجد میں صرف نماز کی نیت سے داخل ہو (اور کوئی دنیاوی غرض نہ ہو) اس مسجد سے نکلنے سے پہلے اس کو تمام گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسا کہ اس وقت پاک تھا جب ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔- اور سدی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہونے پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بطور شکرانہ کے بارہ ہزار گائے بیل اور بیس ہزار بکریوں کی قربانی کر کے لوگوں کو دعوت عام دی اور اس دن کی خوشی منائی، اور صخرہ بیت المقدس پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں مانگیں کہ ” یا اللہ آپ نے ہی مجھے یہ قوت اور وسائل عطا فرمائے، جن سے تعمیر بیت المقدس مکمل ہوئی تو یا اللہ مجھے اس کی بھی توفیق دیجئے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں اور مجھے اپنے دین پر وفات دیجئے اور ہدایت کے بعد میرے قلب میں کوئی زیغ اور کجی نہ ڈالئے۔ اور عرض کیا کہ اے میرے پروردگار جو شخص اس مسجد میں داخل ہو میں اس کے لئے آپ سے پانچ چیزیں مانگتا ہوں۔ ایک یہ کہ جو گناہگار توبہ کرنے کے لئے اس مسجد میں داخل ہو تو آپ اس کی توبہ قبول فرما لیں اور اس کے گناہوں کو معاف فرما دیں۔ دوسرے یہ کہ جو آدمی کسی خوف و خطرہ سے بچنے کے لئے اس مسجد میں داخل ہو تو آپ اس کو امن دے دیں، اور خطرات سے نجات عطا فرما دیں۔ تیسرے یہ کہ جو بیمار آدمی اس میں داخل ہو اس کو شفا عطا فرما دیں۔ چوتھے یہ کہ جو فقیر آدمی اس میں داخل ہو اس کو غنی کردیں۔ پانچویں یہ کہ جو شخص اس میں داخل ہو جب تک وہ اس میں رہے آپ اپنی نظر عنایت و رحمت اس پر رکھیں۔ بجز اس شخص کے جو کسی ظلم یا بےدینی کے کام میں مشغول ہو۔ (قرطبی)- اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر کا کام حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حیات میں مکمل ہوچکا تھا، مگر جو واقعہ اوپر مذکور ہوا ہے وہ کچھ اس کے منافی نہیں کہ اصل تعمیر مکمل ہونے کے بعد بڑی تعمیرات میں کچھ کام رہا کرتے ہیں وہ باقی ہوں ان کے لئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مذکورہ تدبیر اختیار کی ہو۔ - حضرت ابن عباس سے یہ بھی منقول ہے کہ موت کے بعد عصا کے سہارے حضرت سلیمان (علیہ السلام) ایک سال کھڑے رہے۔ (قرطبی) اور بعض روایات میں ہے کہ جب جنات کو یہ معلوم ہوا کہ سلیمان (علیہ السلام) کی موت کو عرصہ ہوگیا ہم بیخبر رہے تو مدت موت معلوم کرنے کے لئے یہ تدبیر کی کہ ایک لکڑی پر دیمک چھوڑ دی، ایک دن رات میں جتنی لکڑی دیمک نے کھائی اس سے حساب لگا لیا کہ عصائے سلیمانی پر ایک سال اس طرح گزرا ہے۔- فائدہ :- بغوی نے علماء تاریخ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی عمر کل تریپن سال کی ہوئی، اور ان کی سلطنت و حکومت چالیس سال رہی، تیرہ سال کی عمر میں سلطنت کا کام سنبھال لیا تھا، اور بیت المقدس کی تعمیر اپنی سلطنت کے چوتھے سال میں شروع کی تھی۔ - (مظہری، قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّہُمْ عَلٰي مَوْتِہٖٓ اِلَّا دَاۗبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَہٗ۝ ٠ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِي الْعَذَابِ الْمُہِيْنِ۝ ١٤ۭ- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ،- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ،- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - دلَ- الدّلالة : ما يتوصّل به إلى معرفة الشیء، کدلالة الألفاظ علی المعنی، ودلالة الإشارات،- والرموز، والکتابة، والعقود في الحساب، وسواء کان ذلک بقصد ممن يجعله دلالة، أو لم يكن بقصد، كمن يرى حركة إنسان فيعلم أنه حيّ ، قال تعالی: ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ- [ سبأ 14] . أصل الدّلالة مصدر کالکتابة والإمارة، والدّالّ : من حصل منه ذلك، والدلیل في المبالغة کعالم، وعلیم، و قادر، وقدیر، ثم يسمّى الدّالّ والدلیل دلالة، کتسمية الشیء بمصدره .- ( د ل ل ) الدلا لۃ - ۔ جس کے ذریعہ کسی چی کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرن اور اشارات در ہو ز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا اور حساب میں عقود کا عدد مخصوص پر دلالت کرنا وغیرہ اور پھر دلالت عام ہے کہ جاہل یعنی واضح کی وضع سے ہوا یا بغیر وضع اور قصد کے ہو مثلا ایک شخص کسی انسان میں حرکت دیکھ کر جھٹ جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ 14] تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑز سے ۔ اصل میں دلالۃ کا لفظ کنایہ وامارۃ کی طرح مصدر ہے اور اسی سے دال صیغہ صفت فاعل ہے یعنی وہ جس سے دلالت حاصل ہو اور دلیل صیغہ مبالغہ ہے جیسے ہے کبھی دال و دلیل بمعنی دلالۃ ( مصدر آجاتے ہیں اور یہ تسمیہ الشئ بمصدر کے قبیل سے ہے ۔- دب - الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] - ( د ب ب ) دب - الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- منساتہ۔ منساۃ۔ اسم آلہ۔ نسی مصدر سے باب فتح۔ بروزن ( مفعلۃ) آواز دینا۔ ہنکانا۔ مضاف ہ ضمیر واحد مذکر غائب مضاف الیہ۔ اس کا ڈنڈا۔ اس کی لاٹھی اشارہ حضرت سلیمان کی طرف ہے) ۔- خر - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ.- وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] - ( خ ر ر ) خر - ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ - خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔- بَيِّنَة- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- ( ب ی ن ) البَيِّنَة- کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ - جِنَّة :- جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- ۔ الجنتہ - جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- هين - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ- [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤۔ ١٥) اور جب ہم نے سلیمان کی روح قبض کی تو وہ سال بھر تک اپنے عصا کا سہارا لیے ہوئے اپنی محرام میں کھڑے رہے کسی بات سے ان کے مرنے کا پتہ نہ چلا مگر گھن کے کیڑے نے کہ وہ سلیمان کے عصا کو کھاتا تھا۔ سو جب گر پڑے تب انسان کو معلوم ہوا کہ جنات غیب نہیں جانتے کیونکہ اگر وہ غیب جانتے تو کاموں کی اس سختی میں نہ گرفتار رہتے اور اس واقعہ سے پہلے انسانوں کو یہ گمان تھا کہ جنات کو غیب کی خبر ہے مگر اب حقیقت واضح ہوگئی ہے اور ایسی تقریبا یمن کی طرف تیرہ بستیاں تھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے تیرہ انبیاء کرام کو بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ اپنے پروردگار کا دیا ہوا رزق یعنی پھل اور تمام قسم کی نعمتیں کھاؤ اور توحید کے ساتھ اس کا شکر ادا کرو یہ ایک عمدہ شہر ہے اور مومن و تائب کی مغفرت فرمانے والا پروردگار۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ ” پھر جب ہم نے اس ( علیہ السلام) پر موت طاری کردی “- مَا دَلَّہُمْ عَلٰی مَوْتِہٖٓ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ ” تو کسی نے ان (جنات) کو اس کی موت سے آگاہ نہ کیا مگر زمین کے کیڑے نے “- تَاْکُلُ مِنْسَاَتَہٗ ” جو اس (علیہ السلام) کے عصا کو کھاتا تھا۔ “- حضرت سلیمان (علیہ السلام) ِجنات ّکی نگرانی کے لیے اپنے عصا کے سہارے کھڑے تھے کہ آپ ( علیہ السلام) کی روح قبض ہوگئی مگر آپ ( علیہ السلام) کا جسد مبارک اسی طرح کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ دیمک نے آپ ( علیہ السلام) کی لاٹھی کو کھا کر کھوکھلا کردیا۔ اس دوران جنات آپ ( علیہ السلام) کی موت سے بیخبر کام میں مصروف رہے۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ آپ کھڑے ان کی نگرانی کر رہے ہیں۔- فَلَمَّا خَرَّ تَـبَـیَّـنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّــوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْْعَذَابِ الْمُہِیْنِ ” پھر جب وہ گرپڑا توجنوں پر واضح ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں نہ پڑے رہتے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :23 اصل لفظ ہیں تَبَیَّنَتِ الجِنُّ ۔ ۔ اس فقرے کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو ہم نے اوپر متن میں کیا ہے ۔ اور دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جنوں کا حال کھل گیا یا منکشف ہو گیا ۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ خود جنوں کو پتہ چل گیا کہ غیب دانی کے متعلق ان کا زعم غلط ہے ۔ دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ عام لوگ جو جنوں کو غیب داں سمجھتے تھے ان پر یہ راز فاش ہو گیا کہ وہ علم غیب نہیں رکھتے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :24 موجودہ زمانے کے بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ حضرت سلیمان کا بیٹا رَجُبعام چونکہ نالائق اور عیش پسند تھا اور خوشامدی مصاحبوں میں گھرا ہوا تھا ، اس لیے اپنے جلیل القدر والد کی وفات کے بعد وہ اس بار عظیم کو نہ سنبھال سکا جو اس پر آ پڑا تھا ۔ اس کی جانشینی کے تھوڑی مدت بعد ہی سلطنت کا قصر دھڑام سے زمین پر آ رہا اور گرد و پیش کے جن سرحدی قبائل ( یعنی جنوں ) کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی قوت قاہرہ سے خادم بنا رکھا تھا وہ سب قابو سے نکل گئے ۔ لیکن یہ تاویل کسی طرح بھی قرآن کے الفاظ سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ قرآن کے الفاظ جو نقشہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایسی حالت میں موت طاری ہوئی جبکہ وہ ایک عصا کے سہارے کھڑے یا بیٹھے تھے ۔ اس عصا کی وجہ سے ان کا بے جان جسم اپنی جگہ قائم رہا اور جن یہ سمجھتے ہوئے ان کی خدمت میں لگے رہے کہ وہ زندہ ہیں ۔ آخر کار جب عصا کو گھن لگ گیا اور وہ اندر سے کھوکھلا ہو گیا تو ان کا جسم زمین پر گر گیا اور اس وقت جنوں کو پتہ چلا کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے ۔ اس صاف اور صریح بیان واقعہ کو آخر یہ معنی پہنانے کی کیا معقول وجہ ہے کہ گھن سے مراد حضرت سلیمان کے بیٹے کی نالائقی ہے ، اور عصا سے مراد ان کا اقتدار ہے ، اور ان کے مردہ جسم کے گر جانے سے مراد ان کی سلطنت کا پارہ پارہ ہو جانا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو اگر یہی مضمون بیان کرنا ہوتا تو کیا اس کے لیے عربی مبین میں الفاظ موجود نہ تھے کہ اس ہیر پھیر کے ساتھ اسے بیان کیا جاتا ؟ یہ پہیلیوں کی زبان آخر قرآن مجید میں کہاں استعمال کی گئی ہے؟ اور اس زمانے کے عام عرب جو اس کلام کے اولین مخاطب تھے ، یہ پہیلی کیسے بوجھ سکتے تھے؟ پھر اس تاویل کا سب سے زیادہ عجیب حصہ یہ ہے کہ اس میں جنوں سے مراد وہ سرحدی قبائل لیے گیے ہیں جنہیں حضرت سلیمان نے اپنی خدمت میں لگا رکھا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان قبائل میں سے کون غیب دانی کا مدعی تھا اور کس کو مشرکین غیب داں سمجھتے تھے؟ آیت کے آخری الفاظ کو اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر پڑھے تو وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جن سے مراد یہاں لازماً کوئی ایسا گروہ ہے جو یا تو خود غیب دانی کا دعوی رکھتا تھا ، یا لوگ اس کو غیب داں سمجھتے تھے ، اور اس گروہ کے غیب سے ناواقف ہونے کا راز اس واقعہ نے فاش کر دیا کہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو زندہ سمجھتے ہوئے خدمت میں لگے رہے ، حالانکہ ان کا انتقال ہو چکا تھا ۔ قرآن مجید کا یہ بیان اس کے لیے کافی تھا کہ ایک ایسا ایماندار آدمی اس کو دیکھ کر اپنے اس خیال پر نظر ثانی کر لیتا کہ جن سے مراد سرحدی قبائل ہیں ۔ لیکن جو لوگ مادہ پرست دنیا کے سامنے جن نامی ایک پوشیدہ مخلوق کا وجود تسلیم کرتے ہوئے شرماتے ہیں وہ قرآن کی اس تصریح کے باوجود اپنی تاویل پر مصر ہیں ۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ مشرکین عرب جنوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے تھے ، انہیں اللہ کی اولاد سمجھتے تھے اور ان سے پناہ مانگا کرتے تھے : وَجَعَلُوا لِلہِ شُرَکآَءَ الجِنَّ وَخَلَقَھُم ۔ ( الانعام ، 100 ) اور انہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا لیا حالانکہ اس نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ وَجَعَلُوا بَینَہْ وَبَیْنَ الجِنّۃِ نَسَبَا ۔ ( الصّٰفّٰت ۔ 158 ) اور انہوں نے اللہ کے اور جنوں کے درمیان نسبی تعلق تجویز کر لیا ۔ وَاَنَّہْ کَانَ رِجَال مِّنَ ا لْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ ۔ ( الجن ۔ 6 ) اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے ۔ انہی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ وہ جنوں کو عالم الغیب سمجھتے تھے اور غیب کی باتیں جاننے کے لیے ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ یہاں اسی عقیدے کی تردید کے لیے یہ واقعہ سنا رہا ہے اور اس سے مقصود کفار عرب کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم لوگ خواہ مخواہ جاہلیت کے غلط عقائد پر اصرار کیے چلے جا رہے ہو حالانکہ تمہارے یہ عقائد بالکل بے بنیاد ہیں ( مزید توضیح کے لیے آگے حاشیہ نمبر 63 ملاحظہ ہو )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بیت المقدس کی تعمیر پر جنات کو مقرر کیا ہوا تھا یہ جنات طبعی طور پر سرکش تھے اور صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نگرانی میں کام کرتے تھے، اور اندیشہ تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے بعد وہ کام کرنا چھوڑ دیں گے، اس لئے جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے یہ تدبیر اختیار کی کہ جنات کی نگاہوں کے سامنے ایک عصا کے سہارے اپنی عبادت گاہ میں کھڑے ہوگئے، جو شفاف شیشے کی بنی ہوئی تھی، تاکہ جنات انہیں دیکھتے رہیں، اسی حالت میں ان کی وفات ہوگئی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے جسم کو عصا کے سہارے کھڑا رکھا، اور جنات یہ سمجھتے رہے کہ وہ زندہ ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے تعمیر کا کام مکمل کرلیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس عصا پر دیمک مسلط فرمادی جس نے عصا کو کھانا شروع کیا، عصا کمزور پڑگیا، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا جسم گرپڑا، اس وقت جنات کو احساس ہوا کہ وہ اپنے آپ کو جو عالم الغیب سمجھتے تھے وہ کتنی غلط بات تھی اگر انہیں غیب کا پتہ ہوتا تو وہ اتنے دن تک غلط فہمی میں مبتلا رہ کر تعمیر کے کام کی تکلیف نہ اٹھاتے۔