Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قوم سبا کا تفصیلی تذکرہ ۔ قوم سبایمن میں رہتی تھی ۔ تبع بھی ان میں سے ہی تھے ۔ بلقیس بھی انہی میں سے تھیں ۔ یہ بڑی نعمتوں اور راحتوں میں تھے ۔ چین آرام سے زندگی گذار رہے تھے ۔ اللہ کے رسول ان کے پاس آئے انہیں شکر کرنے کی تلقین کی ۔ رب کی وحدانیت کی طرف بلایا اس کی عبادت کا طریقہ سمجھایا ۔ کچھ زمانے تک وہ یونہی رہے لیکن پھر جبکہ انہوں نے سرتابی اور روگردانی کی احکام اللہ بےپرواہی سے ٹال دیئے تو ان پر زور کا سیلاب آیا اور تمام ملک ، باغات اور کھیتیاں وغیرہ تاخت و تاراج ہو گئیں ۔ جس کی تفصیلی یہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سباکسی عورت کا نام ہے ۔ یا مرد کا یا جگہ کا ؟ تو آپ نے فرمایا یہ ایک مرد تھا جس کے دس لڑکے تھے جن میں سے چھ تو یمن میں جا بسے تھے اور چار شام میں ۔ مذحج ، کندہ ، ازد ، اشعری ، اغار ، حمیریہ یہ چھ قبیلے یمن میں ۔ نجم ، جذام ، عاملہ اور غسان یہ چار قبیلے شام میں ۔ ( مسند احمد ) فردہ بن مسیک فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں اپنی قوم میں سے ماننے والوں اور آگے بڑھنے والوں کو لے کر نہ ماننے اور پیچھے ہٹنے والوں سے لڑوں؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ جب میں جانے لگا تو آپ نے مجھے بلا کر فرمایا دیکھو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دینا نہ مانیں تب جہاد کی تیاری کرنا ۔ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سباکس کا نام ہے؟ تو آپ کا جواب تقریباً وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ قبیلہ انمار میں سے بجیلہ اور شعم بھی ہیں ۔ ایک اور مطول روایت میں اس آیت کے شان نزول کے متعلق اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حضرت فردہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاہلیت کے زمانے میں قوم سبا کی عزت تھی مجھے اب ان کے ارتداد کا خوف ہے ۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ان سے جہاد کروں ۔ آپ نے فرمایا ان کے بارے میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ لیکن اس میں غرابت ہے اس سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ، حالانکہ سورت مکیہ ہے محمد بن اسحاق سباکا نسب نامہ اس طرح بیان کرتے ہیں عبدشمس بن العرب بن قحطان اسے سبا اس لئے کہتے ہیں کہ اس نے سب سے پہلے عرب میں دشمن کو قید کرنے کا رواج ڈالا ۔ اس وجہ سے اسے رائش بھی کہتے ہیں ۔ مال کو ریش اور ریاش بھی عربی میں کہتے ہیں ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ اس بادشاہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے پہلے ہی آپ کی پیشن گوئی کی تھی کہ ملک کا مالک ہمارے بعد ایک نبی ہو گا جو حرم کی عزت کرے گا ۔ اس کے بعد اس کے خلیفہ ہوں گے ، جن کے سامنے دنیا کے بادشاہ سرنگوں ہوجائیں گے پھر ہم میں بھی بادشاہت آئے گی اور بنو قحطان کے ایک نبی بھی ہوں گے اس نبی کا نام احمد ہو گا ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کاش کے میں بھی ان کی نبوت کے زمانے کو پالیتا تو ہر طرح کی خدمت کو غنیمت سمجھتا ۔ لوگو جب بھی اللہ کے وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوں تو تم پر فرض ہے کہ ان کا ساتھ دو اور ان کے مددگار بن جاؤ اور جو بھی آپ سے ملے اس پر میری جانب سے فرض ہے کہ وہ آپ کی خدمت میں میرا سلام پہنچا دے ۔ ( اکیل ہمدانی ) قحطان کے بارے میں تین قول ہیں ایک یہ کہ وہ ارم بن سام بن نوح کی نسل میں سے ہے ۔ دوسرا یہ کہ وہ عابر یعنی حضرت ہود علیہ السلام کی نسل میں سے ہے ۔ تیسرا یہ کہ حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کی نسل سے ہے ۔ اس سب کو تفصیل کے ساتھ حافظ عبدالبررحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الابناہ میں ذکر کیا ہے ۔ بعض روایتوں میں جو آیا ہے کہ سباعرب میں سے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے جن کی نسل سے عرب ہوئے ۔ ان کا نسل ابراہیمی میں سے ہونا مشہور نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ قبیلہ اسلم جب تیروں سے نشانہ بازی کر رہے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس نکلے تو آپ نے فرمایا اے اولاد اسماعیل تیر اندازی کئے جاؤ تمہارے والد بھی پورے تیر انداز تھے ۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ سبا کا سلسلہ نسب خلیل الرحمٰن علیہ السلام تک پہنچتا ہے ۔ اسلم انصار کا ایک قبیلہ تھا اور انصار سارے کے سارے غسان میں سے ہیں اور یہ سب یمنی تھے ، سبا کی اولاد ہیں ۔ یہ لوگ مدینے میں اس وقت آئے جب سیلاب سے ان کا وطن تباہ ہو گیا ۔ ایک جماعت یہں آ کر بسی تھی دوسری شام چلی گئی ۔ انہیں غسانی اس لئے کہتے ہیں کہ اس نام کی پانی والی ایک جگہ پر یہ ٹھہرے تھے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مثال کے قریب ہے ۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے شعر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایک پانی والی جگہ یا اس کنویں کا نام غسان تھا ۔ یہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی دس اولادیں تھیں اس سے مراد صلبی اولادیں نہیں کیونکہ بعض بعض دو دوتین تین نسلوں بعد کے بھی ہیں ۔ جیسے کہ کتب انساب میں موجود ہے ۔ جو شام اور یمن میں جا کر آباد ہوئے یہ بھی سیلاب کے آنے کے بعد کا ذکر ہے ۔ بعض وہیں رہے بعض ادھر ادھر چلے گئے ۔ دیوار کا قصہ یہ ہے کہ ان کے دونوں جانب پہاڑ تھے ۔ جہاں سے نہریں اور چشمے بہ بہ کر ان کے شہروں میں آتے تھے اسی طرح نالے اور دریا بھی ادھر ادھر سے آتے تھے ان کے قدیمی بادشاہوں میں سے کسی نے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک مضبوط پشتہ بنوا دیا تھا جس دیوار کی وجہ سے پانی ادھر ادھر ہو گیا تھا اور بصورت دریا جاری رہا کرتا تھا جس کے دونوں جانب باغات اور کھیتیاں لگا دی تھی ۔ پانی کی کثرت اور زمین کی عمدگی کی وجہ سے یہ خطہ بہت ہی زرخیز اور ہرا بھرا رہا کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ کوئی عورت اپنے سر پر جھلی رکھ کر چلتی تھی ۔ کچھ دور جانے تک پھلوں سے وہ جھلی بالکل بھر جاتی تھی ۔ درختوں سے پھل خود بخود جو جھڑتے تھے وہ اس قدر کثرت سے ہوتے تھے کہ ہاتھ سے توڑنے کی حاجت نہیں پڑتی تھی ۔ یہ دیوار مارب میں تھی صنعاء سے تین مراحل پر تھی اور سد مارب کے نام سے مشہور تھی ۔ آب و ہوا کی عمدگی ، صحت ، مزاج اور اعتدال عنایت الہیہ سے اس طرح تھا کہ ان کے ہاں مکھی ، مچھر اور زہریلے جانور بھی نہیں ہوتے تھے یہ اس لئے تھا کہ وہ لوگ اللہ کی توحید کو مانیں اور دل و جان اس کی خلوص کے ساتھ عبادت کریں ۔ یہ تھی وہ نشانی قدرت جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان آباد بستی اور بستی کے دونوں طرف ہرے بھرے پھل دار باغات اور سرسبز کھیتیاں اور ان سے جناب باری نے فرما دیا تھا کہ اپنے رب کی دی ہوئی روزیاں کھاؤ پیو اور اس کے شکر میں لگے رہو ، لیکن انہوں نے اللہ کی توحید کو اور اس کی نعمتوں کے شکر کو بھلا دیا اور سورج کی پرستش کرنے لگے ۔ جیسے کہ ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو خبر دی تھی کہ ( وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۢ بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ 22؀ ) 27- النمل:22 ) ، یعنی میں تمہارے پاس سبا کی ایک پختہ خبر لایا ہوں ۔ ایک عورت ان کی بادشاہت کر رہی ہے جس کے پاس تمام چیزیں موجود ہیں عظیم الشان تخت سلطنت پر وہ متمکن ہے ۔ رانی اور رعایا سب سورج پرست ہیں ۔ شیطان نے ان کو گمراہ کر کھا ہے ۔ بےراہ ہو رہے ہیں ۔ مروی ہے کہ بارہ یا تیرہ پیغمبر ان کے پاس آئے تھے ۔ بالاخر شامت اعمال رنگ لائی جو دیوار انہوں نے بنا رکھی تھی وہ چوہوں نے اندر سے کھوکھلی کر دی اور بارش کے زمانے میں وہ ٹوٹ گئ پانی کی ریل پیل ہو گئی ان دریاؤں کے ، چشموں کے ، بارش کے نالوں کے ، سب پانی آ گئے ان کی بستیاں ان کے محلات ان کے باغات اور ان کی کھیتیاں سب تباہ و برباد ہو گئیں ۔ ہاتھ ملتے رہ گئے کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی ۔ پھر تو وہ تباہی آئی کہ اس زمین پر کوئی پھلدار درخت جمتا ہی نہ تھا ۔ پیلو ، جھاؤ ، کیکر ، ببول اور ایسے ہی بےمیوہ بدمزہ بیکار درخت اگتے تھے ۔ ہاں البتہ کچھ بیریوں کے درخت اگ آئے تھے جو نسبتاً اور درختوں سے کارآمد تھے ۔ لیکن وہ بھی بہت زیادہ خاردار اور بہت کم پھل دار تھے ۔ یہ تھا ان کے کفر و شرک کی سرکشی اور تکبر کا بدلہ کہ نعمتیں کھو بیٹھے اور زخموں میں مبتلا ہوگئے کافروں کو یہی اور اس جیسی ہی سخت سزائیں دی جاتی ہیں ۔ حضرت ابو خیرہ فرماتے ہیں گناہں کا بدلہ یہی ہوتا ہے کہ عبادتوں میں سستی آ جائے روزگار میں تنگی واقع ہو لذتوں میں سختی آ جائے یعنی جہاں کسی راحت کا منہ دیکھا فوراً کوئی زحمت آ پڑی اور مزہ مٹی ہو گیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 سبا وہی قوم تھی جس کی ملکہ سبا مشہور ہے جو حضرت سلیمان علیہ والسلام کے زمانے میں مسلمان ہوگئی تھی قوم ہی کے نام پر ملک کا نام بھی سبا تھا آج کل یمن کے نام سے یہ علاقہ معروف ہے یہ بڑا خوش حال ملک تھا یہ ملک بری وبحری تجارت میں بھی ممتاز تھا اور زراعت وباغبانی میں بھی نمایاں اور یہ دونوں ہی چیزیں کسی ملک اور قوم کی خوش حالی کا باعث ہوتی ہیں اسی مال ودولت کی فراوانی کو یہاں قدرت الہٰی کی نشانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 15۔ 2 کہتے ہیں کہ شہر کے دونوں طرف پہاڑ تھے جن سے چشموں اور نالوں کا پانی بہہ بہہ کر شہر میں آتا تھا ان کے حکمرانوں نے پہاڑوں کے درمیان پشتے تعمیر کرادیئے اور ان کے ساتھ باغات لگائے گئے جس سے پانی کا رخ بھی متعین ہوگیا اور باغوں کو بھی سیرابی کا ایک قدرتی ذریعہ میسر آگیا انہی باغات کو دائیں بائیں دو باغوں سے تعبیر کیا گیا ہے بعض کہتے ہیں جنتین سے دو باغ نہیں بلکہ دائیں بائیں کی دو جہتیں مراد ہیں اور مطلب باغوں کی کثرت ہے کہ جدھر نظر اٹھا کر دیکھیں باغات ہریالی اور شادابی ہی نظرآتی تھی۔ (فتح القدیر) 15۔ 3 یہ ان کے پیغمبروں کے ذریعے سے کہلوایا گیا یا مطلب ان نعمتوں کا بیان ہے، جن سے انکو نوازا گیا تھا۔ 15۔ 4 یعنی منعم و محسن کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے اجتناب۔ 15۔ 5 یعنی باغوں کی کثرت اور پھلوں کی فروانی کی وجہ سے یہ شہر عمدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ آب و ہوا کی عمدگی کی وجہ سے یہ شہر مکھی، مچھر اور اس قسم کے دیگر موذی جانوروں سے بھی پاک تھا واللہ عالم۔ 15۔ 6  یعنی اگر تم رب کا شکر کرتے رہو گے تو وہ تمہارے گناہ کا سبب نہیں بنتے، بلکہ اللہ تعالیٰ عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٤] یہاں نشانی سے مراد تاریخی شہادت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم اللہ کی فرمانبردار اور شکر گزار بن کر رہتی ہے وہ پھلتی پھولتی اور ترقی کی منازل طے کرتی جاتی ہے اور جب وہ اللہ کی نافرمانی اور ناشکری کرنے لگے تو بتدریج زوال آنا شروع ہوجاتا ہے اور اگر وہ اپنا رویہ نہ بدلے تو اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے یہی حال قوم سبا کا ہوا تھا۔- [ ٢٥] قوم سبا کی علاقہ عرب کا جنوب مغربی علاقہ تھا۔ اور یہی علاقہ آج کل یمن کا علاقہ کہلاتا ہے۔ سبا دراصل سبا ایک شخص کا نام تھا جس کے دس بیٹے تھے۔ بعد میں یہی دس قیبلے بن گئے انہی میں سے چار بیٹے اپنے خاندان سمیت شام کی طرف منتقل ہوگئے تھے۔ اس قوم کے عروج وزوال کا زمانہ تیرے صدیوں پر محیط ہے (٧٠٠ ق م تا ٤٥٠ ئ) ایک زمانہ تھا جب تہذیب و تمدن کے لحاظ سے اسی قوم کا طوطی بولتا تھا اور روم اور یونان کی تہذیبیں ان کے سامنے ہیچ تھیں۔ زراعت اور تجارت کے میدان میں ان لوگوں نے خوب ترقی کی۔ ان لوگوں کا آب پاشی کا نظام نہایت عمدہ تھا۔ اس علاقہ کے دو طرف پہاڑی سلسلے تھے۔ جگہ جگہ ان لوگوں سے بارش کا پانی روکنے اور ذخیرہ رکھنے کے لئے بند بنا رکھے تھے۔ ان کا دارالخلافہ مارب تھا اور سب سے اعلیٰ اور بڑا عظیم الشان بند بھی اسی جگہ تعمیر کیا گیا تھا جو سد بارب کے نام سے معروف تھا۔ ان کے علاقہ کے دونوں طرف پہاڑوں کے دامن میں باغات کا سینکڑوں میلوں میں پھیلا ہوا سلسلہ موجود تھا اور انسان کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جس جگہ وہ کھڑا ہے اس کے دونوں طرف باغات ہی باغات ہیں۔- [ ٢٦] بارشوں کے لحاظ سے یہ علاقہ کچھ اتنا زرخیز نہیں تھا۔ مگر ان لوگوں کے نظام آبپاشی کے عمدگی کی وجہ سے ملک کے اندر تین سو مربع میل کا علاقہ جنت نظیر بن گیا تھا۔ جس میں انواع و اقسام کے پھلوں کے درخت بھی تھے جن کی خوشبو سے یہ پوری سرزمین معطر بن گئی تھی اور کھیتی بھی خوب پیدا ہوتی تھی۔ اندرون ملک بخورات دارچینی، دارچینی اور کھجور کے نہایت بلندو بان درختوں کے جنگل تھے اور ان سے میٹھی میٹھی خوشبو تمام فضا کو خوشبودار بنا دیتی تھی۔ اور جب ہوا چلتی تو اس خوشبو سے سب لوگ لطف اندوز ہوتے تھے۔ اسی علاقہ کو اللہ تعالیٰ نے بَلَدَۃٌ طَیِّبَۃٌکے الفاظ سے تعبیر فرمایا۔ یعنی سرسبزی۔ زرخیزی فضا کا خوشبو سے ہر وقت معمور رہنا، موسم اور آب و ہوا میں اعتدال، رزق کی فراوانی اور سامان عیش و شرت کی بہتات یہ وہ نعمتیں تھیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا کر رکھی تھیں۔ مارب کے ایک پہاڑی علاقہ میں گنجان درختوں کے درمیان حکمرانوں کے محلات واقع تھے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمتوں کی بارش کر رکھی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ كَانَ لِسَـبَاٍ فِيْ مَسْكَنِهِمْ اٰيَةٌ : اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد، جو انابت و رجوع والے شکر گزار بندے تھے، قوم سبا کا ذکر فرمایا، جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی نعمتیں دیں، مگر انھوں نے ان نعمتوں کی ناشکری کی، انابت کے بجائے اعراض اور سرکشی اختیار کی، اپنے رسولوں کو اور آخرت کو جھٹلا دیا، جس کے نتیجے میں ان پر عذاب آیا اور ساری خوش حالی ختم ہوگئی۔ اس میں قریش کے لیے بھی نصیحت تھی، جنھیں بیت اللہ کی وجہ سے ہر طرح کی نعمت و راحت میسر تھی، انھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول کو جھٹلایا تو قوم سبا کی طرح ان کی وہ خوش حالی اور امن و سکون ختم ہوگیا، جیسا کہ فرمایا : (وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ ) [ النحل : ١١٢، ١١٣ ] ” اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن والی، اطمینان والی تھی، اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے آتا تھا، تو اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا، اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔ اور بلاشبہ یقیناً ان کے پاس انھی میں سے ایک رسول آیا تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، تو انھیں عذاب نے اس حال میں پکڑ لیا کہ وہ ظالم تھے۔ “ سلیمان (علیہ السلام) کے ذکر کے ساتھ سبا کے ذکر کا ایک اور تعلق بھی ہے جو سورة نمل میں مذکور سلیمان (علیہ السلام) اور ملکہ سبا کے قصے سے ظاہر ہے۔- 3 سبا سے مراد قوم ہے جس کا باپ سبا نامی شخص تھا۔ (دیکھیے سورة نمل : ٢٢) پھر ملک کا نام بھی یہی پڑگیا۔- فِيْ مَسْكَنِهِمْ : یہ علاقہ آج کل یمن کے نام سے معروف ہے۔- اٰيَةٌ : یعنی ان کے لیے ان کے ملک میں بہت بڑی نشانی تھی، جس سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کی قدرت اور کاری گری کا اظہار ہوتا تھا اور جسے دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ ایسے مالک کا شکر اور اس کی اطاعت واجب ہے اور اس کی ناشکری اور نافرمانی سے پرہیز لازم ہے۔- جَنَّتٰنِ عَنْ يَّمِيْنٍ وَّ شِمَالٍ : یہ اس نشانی کی تفصیل ہے۔ سبا کی عمارتوں کا ذکر کرتے ہوئے ” ارض القرآن “ کے مصنف نے لکھا ہے : ” اسی سلسلۂ عمارت میں ایک چیز ” بند مآرب “ ہے، جس کو عرب حجاز ” سد “ اور عرب یمن ” عرم “ کہتے ہیں۔ عرب کے ملک میں کوئی دائمی دریا نہیں، پانی پہاڑوں سے بہ کر ریگستانوں میں خشک اور ضائع ہوجاتا ہے، زراعت کے مصرف میں نہیں آتا۔ ” سبا “ مختلف مناسب موقعوں پر پہاڑوں اور وادیوں کے بیچ میں بڑے بڑے بند باندھ دیتے تھے کہ پانی رک جائے اور بقدر ضرورت زراعت کے کام میں آئے۔ مملکت سبا میں اس طرح کے سیکڑوں بند تھے، ان میں سب سے زیادہ مشہور ” سد مآرب “ ہے، جو ان کے دار الحکومت ” مارب “ میں واقع تھا۔ شہر مارب کے جنوب میں دائیں بائیں دو پہاڑ ہیں، سبا نے ان دو پہاڑوں کے بیچ میں تقریباً ٨٠٠ ق م میں ” سد مارب “ کی تعمیر کی تھی۔ یہ بند تقریباً ایک سو پچاس فٹ لمبی اور پچاس فٹ چوڑی ایک دیوار ہے۔ اس کا اکثر حصہ تو اب افتادہ ہے، تاہم ایک ثلث دیوار اب بھی باقی ہے۔ ” ارناڈ “ ایک یورپی سیاح نے اس کے موجودہ حالات پر ایک مضمون فرنچ ایشیا ٹک سوسائٹی کے جرنل (رسالے) میں لکھا ہے، اس کا موجودہ نقشہ نہایت عمدگی سے تیار کیا ہے، اس دیوار پر جا بجا کتبات ہیں، وہ بھی پڑھے گئے۔ اس سد میں اوپر نیچے بہت سی کھڑکیاں تھیں جو حسب ضرورت کھولی اور بند کی جاسکتی تھیں۔ ” سد “ کے دائیں بائیں، مشرق و مغرب میں دو بڑے بڑے دروازے تھے، جن سے پانی تقسیم ہو کر چپ و راست کی زمینوں کو سیراب کرتا تھا۔ اس نظام آب رسانی سے چپ و راست دونوں جانب اس ریگستانی اور شور ملک کے اندر سیکڑوں کوس تک بہشت زار تیار ہوگئی تھی، جس میں انواع و اقسام کے میوے اور خوشبودار درخت تھے۔ قرآن کریم ”ۚ جَنَّتٰنِ عَنْ يَّمِيْنٍ وَّ شِمَالٍ “ کہہ کر انھی باغوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ “ (ارض القرآن) دائیں اور بائیں دو باغوں کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہر گھر اور ہر گلی کے دائیں بائیں، یعنی ہر طرف باغ ہی باغ تھے۔- كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوْا لَهٗ : یعنی ہم نے اپنے رسولوں اور صالح بندوں کی زبانی ان سے یہ بات کہی، یا اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتوں اور دائیں بائیں کے ان باغات اور کھیتوں کا ان سے تقاضا یہ تھا۔- بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ : ” طیب “ ہر چیز میں سے اعلیٰ کو کہتے ہیں۔ ” بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ“ سے مراد زرخیز اور عمدہ آب و ہوا والی زمین ہے، اس کے مقابلے میں بنجر، شور اور خراب آب و ہوا والی زمین کے لیے ” خبیث “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖ ۚ وَالَّذِيْ خَبُثَ لَا يَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا ) [ الأعراف : ٥٨ ] ” اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کی کھیتی اس کے رب کے حکم سے نکلتی ہے اور جو خراب ہے (اس کی کھیتی) ناقص کے سوا نہیں نکلتی۔ “- وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ : یعنی اگر توحید پر قائم رہو گے، انبیاء کی اطاعت کرو گے اور انابت و رجوع کو اپنا شیوہ بناؤ گے تو اس خوش حالی کے ساتھ اپنے رب کو بھی اپنے لیے مہربان پاؤ گے، جو تمہاری کوتاہیوں پر پردہ ڈالے گا، اس طرح دنیا و آخرت دونوں تمہاری ہوں گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - سبا (کے لوگوں) کے لئے (خود) ان کے وطن (کی مجموعی حالت) میں (وجوب اطاعت خداوندی کی) نشانیاں موجود تھیں (ان میں سے ایک نشانی) دو قطاریں تھیں باغ کی (ان کی سڑک کے) داہنے اور بائیں (یعنی ان کے تمام علاقہ میں دو طرفہ متصل باغات چلے گئے تھے کہ جس میں آمدنی بھی وافر پھل بھی اس قدر کہ ختم کئے ختم نہ ہوں، سایہ بھی رونق بھی۔ ہم نے انبیاء (علیہم السلام) و ناصحین کی معرفت ان کو حکم دیا کہ) اپنے رب کا (دیا ہوا) رزق کھاؤ اور (کھا کر) اس کا شکر کرو (یعنی اطاعت کرو کہ دو قسم کی نعمتیں مقتضی اطاعت ہیں، ایک دنیوی کہ رہنے کو) عمدہ شہر اور (ایک اخروی کہ در صورت ایمان و اطاعت کے اگر کچھ کوتاہی ہوجائے تو گناہ بخشنے کو) بخشنے والا پروردگار ہے (پس ایسے مقتضی پر مقتضا کا ترتب ضرور ہونا چاہئے) سو (اس پر بھی) انہوں نے (اس حکم سے) سرتابی کی (شاید یہ لوگ آفتاب پرست بھی ہوں جیسے بعض کی نسبت سورة نمل میں ہے (آیت) وجدتہا وقومہا یسجدون للشمس) تو ہم نے (ان پر اپنا قہر اس طرح نازل کیا کہ ان پر بند کا سیلاب چھوڑ دیا (یعنی جو سیلاب بند سے رکا رہتا تھا بند ٹوٹ کر اس سیلاب کا پانی چڑھ آیا جس سے ان کے وہ دو رویہ باغات سب غارت ہوگئے) اور ہم نے ان کے ان دو رویہ باغوں کے بدلے اور دو باغ دے دیئے جن میں یہ چیزیں رہ گئیں، بدمزہ پھل اور جھاؤ اور قدرے قلیل بیری (اور وہ بھی شہری نہیں جنگلی خودرو جس میں کانٹے بہت اور پھل میں لطافت ندارد) ان کو یہ سزا ہم نے ان کی ناسپاسی کے سبب دی اور ہم ایسی سزا بڑے ناسپاس ہی کو دیا کرتے ہیں (ورنہ معمولی خطاؤں پر تو ہم درگزر ہی کرتے رہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ کفر سے بڑھ کر کیا ناسپاسی ہوگی جس میں وہ مبتلا تھے) اور (اس نعمت مذکورہ عامہ للمساکن کے علاوہ ایک اور نعمت خاص متعلق سفر کے تھی وہ یہ کہ) ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان میں جہاں ہم نے (باعتبار پیداوار وغیرہ کے) برکت کر رکھی ہے بہت سے گاؤں آباد کر رکھے تھے (جو سڑک پر سے) نظر آتے تھے (کہ مسافر کو سفر میں بھی وحشت نہ ہو اور کہیں ٹھہرنا چاہے تو وہاں جانے میں تکلف و تردد بھی نہ ہو) اور ہم نے ان دیہات کے درمیان ان کے چلنے کا ایک خاص اندازہ رکھا تھا (یعنی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک چال کے حساب سے ایسا مناسب فاصلہ رکھا تھا کہ دوران سفر میں عادت کے مطابق آرام کرلے، وقت پر کوئی نہ کوئی گاؤں مل جاتا جہاں کھا پی سکے آرام کرسکے) کہ بےخوف و خطر ان میں (چاہو) راتوں کو اور (چاہو) دنوں کو چلو (یعنی نہ خطرہ رہزن کا کہ پاس پاس گاؤں تھے نہ خطرہ آب و دانہ و زاد راہ کے میسر نہ ہونے کا کہ ہر جگہ ہر سامان ملتا تھا) سو (ان نعموں کی انہوں نے جیسے اصلی شکر گزاری یعنی اطاعت آلٰہیہ نہیں کی، ایسے ہی ظاہری شکرگزاری یعنی نعمت آلٰہیہ کو غنیمت سمجھنا اور اس کی قدر کرنا ہے وہ بھی نہیں کی چنانچہ) وہ کہنے لگے اے ہمارے پروردگار (ایسے پاس پاس دیہات ہونے سے سفر کا لطف نہیں آتا، لطف تو اسی میں ہے کہ کہیں زاد راہ ختم ہوگیا کہیں پیاس ہے اور پانی نہیں ملتا، اشتیاق ہے انتظار ہے، کہیں چوروں کا اندیشہ ہے، نوکر پہرہ دے رہے ہیں، ہتھیار بندھے ہوئے ہیں، جیسے بنی اسرائیل من وسلویٰ سے اکتا گئے تھے اور بقل و قثاء (سرکاری اور ککڑی کھیرے) کی درخواست کی تھی و نیز اس حالت موجودہ میں ہم کو اپنی امارت کے اظہار کا موقع بھی نہیں ملتا، امیر غریب سب یکساں سفر کرتے ہیں، اسی لئے یوں جی چاہتا ہے کہ) ہمارے سفروں میں درازی (اور فاصلہ) کر دے (یعنی بیچ کے دیہات اجاڑ دے کہ منزلوں میں خوب فاصلہ ہوجائے) اور (علاوہ اس ناشکری کے) انہوں نے (اور بھی نافرمانیاں کر کے) اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے ان کو افسانہ بنادیا اور ان کو بالکل تتر بتر کردیا (یا تو اس طرح کہ بعض کو ہلاک کردیا کہ ان کے قصے ہی رہ گئے اور بعض کو پریشان کردیا اور یا بحیثیت اس حالت تنعم کے سب ہی افسانہ ہوگئے، یعنی وہ سامان تنعم سب کا جاتا رہا اور یا بایں معنی کہ ان کی حالت کو عبرت بنادیا ای جعلناھم ذات حکایات یعتبربہا غرض خود ان کے مساکن و باغات بھی اور ان کی وہ متصل بستیاں بھی سب ویران ہوگئے) بیشک اس (قصہ) میں ہر صابر شاکر یعنی مومن کے لئے بڑی بڑی عبرتیں ہیں۔- معارف ومسائل - منکرین نبوت و رسالت اور منکرین قیامت کو حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر متنبہ کرنے اور انبیاء سابقین کے ہاتھوں فوق القیاس حیرت انگیز واقعات و معجزات کے صدور کے سلسلے میں پہلے حضرت داؤد سلیمان (علیہما السلام) کے واقعات کا ذکر فرمایا، اب اسی سلسلہ میں قوم سبا پر اللہ کے بےحساب انعامات کا پھر ان کی ناشکری کی وجہ سے ان پر عذاب آنے کا ذکر آیات مذکورہ میں کیا گیا۔- قوم سبا اور ان پر اللہ تعالیٰ کے خاص انعامات :- ابن کثیر نے فرمایا کہ سبا یمن کے بادشاہوں اور اس ملک کے باشندوں کا لقب ہے۔ تبابعہ جو اس ملک کے مقتداء و پیشوا تھے وہ بھی اسی قوم سبا میں سے تھے، اور ملکہ بلقیس جن کا واقعہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ سورة نمل میں گزر چکا ہے وہ بھی اسی قوم میں سے تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے رزق کے دروازے کھول دیئے تھے، اور ان کے شہر میں آرام وعیش کے تمام اسباب مہیا کردیئے تھے، اور اپنے انبیاء کے ذریعے ان کو اللہ کی توحید اور اس کے حکام کی اطاعت کے ذریعہ نعمتوں کے شکر کا حکم دیا گیا تھا۔ ایک مدت تک یہ لوگ اس حال پر قائم اور ہر طرح کی راحت وعیش سے مالا مال رہے، پھر ان میں عیش و عشرت میں انہماک سے خدا تعالیٰ سے غفلت بلکہ انکار تک نوبت پہنچ گئی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تنبیہ کے لئے اپنے تیرہ انبیاء بھیجے جنہوں نے ان کی فہمائش اور راہ راست پر لانے کی پوری کوشش کی، مگر یہ لوگ اپنی غفلت و بےہوشی سے باز نہ آئے تو ان پر ایک سیلاب کا عذاب بھیجا گیا، جس نے ان کے شہر اور باغات سب کو ویران و برباد کردیا (رواہ محمد بن اسحاق، ابن کثیر)- امام احمد حضرت ابن عباس سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ سبا جس کا ذکر قرآن میں ہے یہ کسی مرد یا عورت کا نام ہے یا زمین کے کسی حصہ کا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ ایک مرد کا نام ہے، جس کی اولاد میں دس لڑکے ہوئے، جن میں چھ یمن میں آباد رہے اور چار شام میں چلے گئے۔ یمن میں رہنے والوں کے نام یہ ہیں : مدجج، کندہ، ازد، اشعری، انمار، خمیر، (ان چھ لڑکوں سے چھ قبیلے پیدا ہوئے) جو انہی مذکورہ ناموں سے معروف ہیں۔- اور شام میں بسنے والوں کے نام یہ ہیں لخم، جذام، عاملہ، غسان، (ان کی نسل کے قبائل انہی ناموں سے مشہور ہوئے) ۔ یہ روایت حافظ امام ابن عبدالبر نے بھی اپنی کتاب (القصد والامم بمعرفة انساب العرب والعجم) میں نقل کی ہے۔- ابن کثیر کی تحقیق بحوالہ علماء نسب یہ ہے کہ یہ دس لڑکے سبا کے صلبی اور بلاواسطہ بیٹے نہیں تھے، بلکہ سبا کی دوسری تیسری یا چوتھی نسل میں یہ لوگ ہوئے ہیں پھر ان کے قبیلے شام و یمن میں پھیلے اور انہی کے ناموں سے موسوم ہوئے۔ اور سباء کا اصل نام عبد شمس تھا، سبا عبد شمس بن یشحب بن یعرب بن قحطان سے ان کا نسب نامہ واضح ہوجاتا ہے۔ اور اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ سبا عبد شمس نے اپنے زمانے میں نبی آخر الزمان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت سنائی تھی، ممکن ہے کہ ان کو اس کا علم کتب قدیمہ تورات و انجیل سے ہوا ہو یا نجومیوں کاہنوں کے ذریعہ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں اس نے چند عربی اشعار بھی کہے ہیں جن میں آپ کی بعثت کا ذکر کر کے یہ تمنا کی ہے کہ کاش میں ان کے زمانے میں ہوتا تو میں ان کی مدد کرتا، اور اپنی قوم کو ان پر ایمان لانے اور مدد کرنے کی تلقین کی ہے۔- اور حدیث مذکور میں جو یہ مذکور ہے کہ سبا کے دس لڑکوں میں سے چھ یمن میں آباد ہوئے، چار شام میں چلے گئے، یہ واقعہ ان پر سیلاب کا عذاب آنے کے بعد کا ہے، کہ سیلاب آنے کے وقت یہ لوگ مختلف سمتوں اور شہروں میں منتشر ہوگئے (ابن کثیر) قرطبی نے بحوال قشیری قوم سبا کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے زمانہ فترت نقل کیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ كَانَ لِسَـبَاٍ فِيْ مَسْكَنِہِمْ اٰيَۃٌ۝ ٠ ۚ جَنَّتٰنِ عَنْ يَّمِيْنٍ وَّشِمَالٍ۝ ٠ۥۭ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوْا لَہٗ۝ ٠ ۭ بَلْدَۃٌ طَيِّبَۃٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ۝ ١٥- سبأ - قال عزّ وجلّ : وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ [ النمل 22] ، سَبَأ اسم بلد تفرق أهله، ولهذا يقال : ذهبوا أيادي سبأ أي : تفرّقوا تفرّق أهل هذا المکان من کلّ جانب، وسَبَأْتُ الخمر : اشتریتها، والسَّابِيَاءُ : جِلْدٌ فيه الولد - ( س ب ء ) سبا ایک شہر کا نام ہے جو پرانے زمانے میں ( سیل العرم ) سے تباہ ہوگیا تھا قرآن میں ہے : ۔ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ [ النمل 22] اور میں سبا سے تیرے پاس ایک یقینی خبر لیکر آیا ہو ۔ اور اسی سے ایک ضرب المثل ہے ۔ ( مثل ) ذهبوا أيادي سبأ : یعنی وہ تتر بتر ہوگئے اور اہل سبا کی طرح ان کا نام و نشان مٹ گیا ۔ سَبَأْتُ الخمر : میں نے پینے کے لئے شراب خریدی ۔ السَّابِيَاءُ : مشیمہ یعنی وہ جھلی جس میں بچہ ہوتا ہے ۔- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- يمین ( دائیں طرف)- اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ- [ الزمر 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ- [ الصافات 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] ، وعلی هذا حمل :- 477-- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين - ( ی م ن ) الیمین - کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے - شمل - الشِّمَالُ : المقابل للیمین . قال عزّ وجلّ : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] ، ويقال للثّوب الذي يغطّى به : الشِّمَالُ وذلک کتسمية كثير من الثّياب باسم العضو الذي يستره، نحو : تسمية كمّ القمیص يدا، وصدره، وظهره صدرا وظهرا، ورجل السّراویل رجلا، ونحو ذلك . والِاشْتِمَالُ بالثوب : أن يلتفّ به الإنسان فيطرحه علی الشّمال . وفي الحدیث :- «نهي عن اشْتِمَالِ الصمّاء» والشَّمْلَةُ والْمِشْمَلُ : کساء يشتمل به مستعار منه، ومنه :- شَمَلَهُمُ الأمر، ثم تجوّز بالشّمال، فقیل : شَمَلْتُ الشاة : علّقت عليها شمالا، وقیل : للخلیقة شِمَالٌ لکونه مشتملا علی الإنسان اشتمال الشّمال علی البدن، والشَّمُولُ : الخمر لأنها تشتمل علی العقل فتغطّيه، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالخمر لکونها خامرة له . والشَّمَالُ :- الرّيح الهابّة من شمال الکعبة، وقیل في لغة :- شَمْأَلٌ ، وشَامَلٌ ، وأَشْمَلَ الرّجل من الشّمال، کقولهم : أجنب من الجنوب، وكنّي بِالْمِشْمَلِ عن السّيف، كما کنّي عنه بالرّداء، وجاء مُشْتَمِلًا بسیفه، نحو : مرتدیا به ومتدرّعا له، وناقة شِمِلَّةٌ وشِمْلَالٌ: سریعة کا لشَّمال، وقول الشاعر : ولتعرفنّ خلائقا مشمولة ... ولتندمنّ ولات ساعة مندم قيل : أراد خلائق طيّبة، كأنّها هبّت عليها شمال فبردت وطابت .- ( ش م ل ) الشمال ۔ بایاں ضد یمین ۔ قرآن میں ہے ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں ۔ نیز چھوٹی چادر جس سے بائیں جانب ڈھانپ لی جائے اسے بھی شمال کہا جاتا ہے جس طرح کہ عربی زبان میں دوسرے اعضار کی مناسبت سے لباس کے مختلف نام رکھے گئے ہیں ۔ مثلا قمیض کی آستین کو ید ( ہاتھ ) اور جو حصہ سینہ اور پشت پر آئے اسے صدر اور ظہر کہا جاتا ہے اور پائجامہ کے پائتہ کو رجل سے موسم کردیتے ہیں وغیرہ ذالک ۔ اور الاشتمال بالثوب کپڑے کو اس طرح لپیٹا کہ اس کا بالائی سرا بائیں جانب ڈالا جائے حدیث میں ہے ۔ ( 101 ) «نهي عن اشْتِمَالِ الصمّاء» کہ اشتمال الصماء ممنوع ہے ۔ اور استعارہ کے طور پر کمبل کو جو جسم پر لپیٹا جاتا ہے ۔ شملۃ ومشمل کہا جاتا ہے اور اسی سے شملھم الامر کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی امر کے سب کو شامل اور عام ہوجانے کے ہیں ۔ پھر شمال کے لفظ سے مجازا کہا جاتا ہے ۔ شملت الشاۃ بکری کے تھنوں پر غلاف چڑھانا اور شمال کے معنی عادت بھی آتے ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی چادر کی طرح انسان پر مشتمل ہوجاتی ہے ۔ الشمول شراب کیونکہ وہ عقل کو ڈھانپ لیتی ہے اور شراب کو شمول کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ عقل کو ڈھانپ لینے کی وجہ سے خمر کہا جاتا ہے ۔ الشمال ( بکسرالشین ) وہ ہوا جو کعبہ کی بائیں جانب سے چلتی ہے اور اس میں ایک لغت شمال ( بفتحہ شین بھی ہے ۔ شامل واشمل کے معنی شمال کی جانب میں جانے کے ہیں جیسے جنوب سے اجنب ۔ ( جنوب کو جانا ) کنایہ کے طور پر تلوار کو مشتمل کہا جاتا ہے جیسا کہ اسے رداع سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسی سے مرتد بالسیف ومتدرعا لہ کی طرح جاء مشتملا بسیفہ کا محاورہ ہے ۔ : ناقۃ شملۃ و شمال ۔ باد شمالی کی طرح تیز اونٹنی ۔ اور شاعر کے قول ع ( الکامل ) ( 262 ) ولتعرفنّ خلائقا مشمولة ... ولتندمنّ ولات ساعة مندم تم عمدہ اخلاق کو پہچان لو گے اور تم پشیمانی اٹھاؤ گے لیکن وہ وقت پشیمانی کا نہیں ہوگا ۔ میں مشمولۃ سے مراد پاکیزہ اخلاق ہیں گویا باد شمال نے ( شراب کی طرح ) انہیں ٹھنڈا اور خوش گوار بنا دیا ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- بلد - البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی:- بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] ، وقال عزّ وجلّ :- فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر :- وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» .- ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

شان نزول : لَقَدْ كَانَ لِسَـبَاٍ (الخ)- ابن ابی حاتم نے علی بن رباح سے روایت کیا ہے بیان کرتے ہیں کہ مجھے فلاں شخص نے بیان کیا کہ مروہ بن مسیک غطفانی رسول اکرم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ سبا قوم کو زمانہ جاہلیت میں عزت حاصل تھی اور مجھے اس بات کا خوف ہے کہ وہ اسلام سے پھرجائے گی تو کیا میں اس قوم سے لڑائی کروں آپ نے فرمایا میرے اوپر ان لوگوں کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ چناچہ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی یعنی سبا کے لیے ان کے وطن میں نشانیاں موجود تھیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ لَقَدْ کَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْکَنِہِمْ اٰیَۃٌ ” (اسی طرح) قوم سبا کے لیے بھی ان کے مسکن میں ایک نشانی موجود تھی “۔- قوم سبا ٨٠٠ قبل مسیح ( علیہ السلام) کے لگ بھگ یمن کے علاقے میں آباد تھی۔ انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے جن میں سب سے بڑے بند کا نام ” سد ِمآرب “ تھا۔ ان بندوں سے انہوں نے چھوٹی بڑی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کا ایک مربوط و موثر نظام بنا رکھا تھا۔ آب پاشی کے اس نظام کے باعث ان کے ہاں باغات کی کثرت تھی۔ باغات کے دو بڑے سلسلے تو سینکڑوں میلوں تک پھیلے ہوئے تھے۔ بہر حال یہ اپنے وقت کی بڑی خوشحال اور طاقتور قوم تھی ‘ مگر آہستہ آہستہ یہ لوگ مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہوتے گئے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی نا شکری اور سرکشی کی سزا دی اور ان سے تمام نعمتیں سلب کرلیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کا سب سے بڑا بند سد مآرب ٹوٹ گیا اور یوں ایک خوفناک سیلاب قہر خداوندی بن کر ان پر ٹوٹ پڑا۔ اس سیلاب کی وجہ سے اس قوم پر ایسی تباہی آئی کہ جس علاقے میں سینکڑوں میلوں پر پھیلے ہوئے باغات تھے وہاں جنگلی جھاڑیوں اور بیریوں کے چند درختوں کے علاوہ ہریالی کا نام و نشان تک نہ رہا۔- جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّشِمَالٍ ” دو باغات (کے سلسلے) تھے دائیں اور بائیں طرف۔ “- کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْا لَہٗ ” کھائو اپنے رب کے رزق میں سے اور اس کا شکر اداکرو ۔ “- بَلْدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ ” (تمہارا) شہر بہت پاکیزہ ہے اور (تمہارا) رب بہت بخشنے والا ہے “- یعنی تمہارے لیے یہ ایک مثالی صورت حال ہے۔ رہنے کو تمہیں نہایت عمدہ ‘ سرسبز و شاداب اور زرخیز علاقہ عطا ہوا ہے اور تمہارا رب بھی بہت بخشنے والا ہے جو تمہارے ساتھ بہت نرمی کا معاملہ فرما رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :25 سلسلۂ بیان کو سمجھنے کے لیے رکوع اول کے مضمون کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کفار عرب آخرت کی آمد کو بعید از عقل سمجھتے تھے ۔ اور جو رسول اس عقیدے کو پیش کر رہا تھا اس کے متعلق کھلم کھلا یہ کہہ رہے تھے کہ ایسی عجیب باتیں کرنے والا آدمی یا تو مجنون ہو سکتا ہے ، یا پھر وہ جان بوجھ کر افترا پردازی کر رہا ہے ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالی نے پہلے چند عقلی دلائل ارشاد فرمائے جن کی تشریح ہم حواشی نمبر 7 ۔ 8 ۔ 12 میں کر چکے ہیں ۔ اس کے بعد رکوع دوم میں حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کا قصہ اور پھر سبا کا قصہ ایک تاریخی دلیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس سے مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ روئے زمین پر خود نوع انسانی کی اپنی سرگزشت قانون مکافات کی شہادت دے رہی ہے ۔ انسان اپنی تاریخ کو غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے جس کا سارا کارخانہ اندھا دھند چل رہا ہو بلکہ اس پر ایک سمیع و بصیر خدا فرمانروائی کر رہا ہے جو شکر کی راہ اختیار کرنے والوں کے ساتھ ایک معاملہ کرتا ہے اور ناشکری و کافر نعمتی کی راہ چلنے والوں کے ساتھ بالکل ہی ایک دوسرا معاملہ فرماتا ہے ۔ کوئی سبق لینا چاہے تو اسی تاریخ سے یہ سبق لے سکتا ہے کہ جس خدا کی سلطنت کا یہ مزاج ہے اس کی خدائی میں نیکی اور بدی کا انجام کبھی یکساں نہیں ہو سکتا ۔ اس کے عدل و انصاف کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے جب نیکی کا پورا اجر اور بدی کا پورا بدلہ دیا جائے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :26 یعنی اس امر کی نشانی کہ جو کچھ ان کو میسر ہے وہ کسی کا عطیہ ہے نہ کہ ان کا اپنا آفریدہ ۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کی بندگی و عبادت اور شکر و سپاس کا مستحق وہ خدا ہے جس نے ان کو یہ نعمتیں دی ہیں نہ کہ وہ جن کا کوئی حصہ ان نعمتوں کی بخشش میں نہیں ہے ۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کی دولت لازوال نہیں ہے بلکہ جس طرح آئی ہے اسی طرح جا بھی سکتی ہے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :27 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پورے ملک میں بس دو ہی باغ تھے ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سبا کی پوری سر زمین گلزار بنی ہوئی تھی ۔ آدمی جہاں بھی کھڑا ہوتا اسے اپنے دائیں جانب بھی باغ نظر آتا اور بائیں جانب بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: قوم سبا یمن میں آباد تھی اور کسی زمانے میں وہ اپنے تہذیب وتمدن میں ممتاز حیثیت رکھتی تھی، جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے، ان کی زمینیں بڑی زرخیز تھیں، ان کی سڑکوں کے دونوں طرف پھل دار باغات کے سلسلے دور تک چلے گئے تھے، خوشحالی بھی میسر تھی، اور سیاسی استحکام بھی ؛ لیکن رفتہ رفتہ یہ لوگ اپنی عیاشیوں میں ایسے مگن ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کو بھول بیٹھے اور شرک کو اپنا مذہب بنالیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس کئی پیغمبر بھیجے، حافظ ابن کثیر کے بیان کے مطابق ان کے پاس یکے بعد دیگرے تیرہ پیغمبر بھیجے گئے، جنہوں نے اس قوم کو ہر طرح سمجھانے اور راہ راست پر لانے کی کوشش کی، مگر یہ نہ مانے، آخر کار ان پر جو عذاب آیا وہ یہ تھا کہ مآرب کے مقام پر ایک بند تھا جس کے پانی سے ان کی زمینیں سیراب ہوتی تھیں، اللہ تعالیٰ نے وہ بند توڑدیا اور اس طرح پوری بستی کو سیلاب نے گھیر لیا اور سارے باغات تباہ ہوگئے۔