Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٨] یعنی یہ سزا کچھ قوم سبا سے ہی مختص نہ تھی بلکہ جو قوم بھی اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے بعد اپنے محسن حقیقی کو بھول جاتی ہے اور اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے سرتابی کی راہ اختیار کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ اس قوم کو ایسے ہی انجام سے دوچار کردیتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِمَا كَفَرُوْا ۔۔ : ” الْكَفُوْرَ “ مبالغے کا صیغہ ہے، بہت کفر کرنے والا، بہت ناشکرا۔ یعنی ہم نے انھیں اس کا بدلا دیا جو انھوں نے ناشکری کی اور ایسی سخت سزا ہم اسی کو دیتے ہیں جو بہت ناشکرا ہو، یعنی کافر و مشرک ہو، کیونکہ بڑی ناشکری اور بڑا ظلم شرک ہی ہے۔ تھوڑی بہت ناشکری والے سے ہمارا معاملہ درگزر کا ہوتا ہے۔ ” وَهَلْ نُجٰزِيْٓ اِلَّا الْكَفُوْرَ “ کے الفاظ سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہاں کچھ الفاظ جو آگے قوسین میں ہیں، محذوف ہیں، یعنی ہم نے انھیں یہ جزا اس کے بدلے میں دی جو انھوں نے ناشکری کی (اور ناشکری میں حد سے بڑھ گئے) اور ہم ایسے بڑے ناشکرے ہی کو یہ سخت بدلا دیا کرتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) ذلک جزیناھم بما کفروا، یعنی یہ سزا ہم نے ان کو اس لئے دی کہ انہوں نے کفر کیا۔ کفر کے معنی ناشکری کے بھی آتے ہیں اور دین حق سے انکار کے بھی آتے ہیں۔ یہاں دونوں معنی ہو سکتے ہیں، کیونکہ انہوں نے ناشکری بھی کی اور جو تیرہ انبیاء ان کی طرف بھیجے گئے تھے ان کی تکذیب بھی کی۔- فائدہ :- اس واقعہ میں جو یہ بیان ہوا ہے کہ سبا کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے تیرہ پیغمبر بھیجے تھے، اور اس کے ساتھ یہ بھی اوپر گزر گیا ہے کہ اس قوم اور سیل عرم کا واقعہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے درمیانی زمانے میں تھا جس کو زمانہ فترت کہا جاتا ہے۔ اور جمہور علماء کے نزدیک اس زمانے میں کوئی نبی و پیغمبر مبعوث ہی نہیں ہوا، اسی لئے اس کو فترت کے زمانے سے تعبیر کرتے ہیں، تو یہ تیرہ انبیاء کی بعثت کیسے صحیح ہو سکتی ہے ؟ روح المعانی میں اس کا جواب یہ دیا ہے کہ واقعہ سیل عرم کا فترت کے زمانے میں ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ انبیاء بھی اسی زمانے میں آئے ہوں، ہوسکتا ہے کہ انبیاء کی بعثت اس قوم کی طرف زمانہ فترت سے پہلے ہو اور ان کی سرکشی اور کفر زمانہ فترت میں بڑھی ہو جس پر سیل عرم کا عذاب فترت میں ان پر بھیجا گیا ہو واللہ اعلم۔- (آیت) وھل نجزی الا الکفور، کفور، کافر کا صیغہ مبالغہ ہے، جس کے معنی ہیں بہت کفر کرنے والا اور آیت کے معنی یہ ہوئے کہ ” ہم بہت کفر کرنے والے کے سوا کسی کو سزا نہیں دیتے “ یہ بظاہر ان تمام آیات قرآن اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہے جن سے ثابت ہے کہ مسلمان گناہ گاروں کو بھی جہنم کی سزا ان کے عمل کے مطابق دی جائے گی، اگرچہ آخر کار سزا بھگتنے کے بعد وہ ایمان کی وجہ سے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیئے جائیں گے۔ اس اشکال کے جواب میں بعض حضرات نے فرمایا کہ مراد یہاں مطلق عذاب نہیں، بلکہ ایسا عذاب عام جیسا کہ قوم سبا پر بھیجا گیا یہ کافروں کے ساتھ مخصوص ہے، مسلمان گناہ گاروں پر ایسا عذاب نہیں آتا۔ (روح)- اس کی تائید ایک تابعی ابن خیرہ کے قول سے بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے فرمایا جزاء المعصیة الوھن فی العباة واضیق فی المحیشة والتعسر فی اللذة قال لا یصادف لذة حلالاً الا جاءہ من ینغصہ ایاھا، ” یعنی معصیت کی سزا یہ ہے کہ عبادت میں سستی پیدا ہوجائے، معیشت میں تنگی پیدا ہوجائے اور لذت میں تعسر یعنی دشواری پیدا ہوجائے۔ جس کا مطلب ابن خیرہ نے یہ بیان فرمایا کہ جب اس کو کوئی حلال لذت نصیب ہوتی ہے تو کوئی نہ کوئی ایسا سبب پیدا ہوجاتا ہے جو اس لذت کو مکدر کردیتا ہے “ (ابن کثیر) معلوم ہوا کہ مومن گناہ گار کی سزائیں دنیا میں اس قسم کی ہوتی ہیں، اس پر آسمان سے یا زمین سے کوئی کھلا عذاب نہیں آتا، یہ کفار ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔- اور حضرت حسن بصری نے فرمایا : صدق اللہ العظیم لایعاقب بمثل فعلہ الا الکفور، یعنی اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا کہ برے عمل کی سزا اس کے برابر بجز کفور کے کسی کو نہیں دی جاتی۔ (ابن کثیر) کیونکہ غیر کفور یعنی مومن کو اس کے گناہوں میں بھی کچھ چھوٹ دی جاتی ہے۔- اور روح المعانی میں بحوالہ کشف اس آیت کے مفہوم کی توجیہ یہ کی ہے کہ کلام اپنی حقیقت پر ہے کہ سزا بطور سزا کے تو صرف کافر کو دی جاتی ہے اور مومن گناہگار کو جو تکلیف آگ وغیرہ کی دی جاتی ہے وہ صرف صورت سزا کی ہوتی ہے، درحقیقت اس کو گناہ سے پاک کرنا مقصود ہوتا ہے، جیسے سونے کو بھٹی میں ڈال کر تپانے سے اس کا میل دور کرنا مقصود ہوتا ہے اسی طرح مومن کو بھی اگر کسی گناہ کی پاداش میں جہنم میں ڈالا گیا تو اس لئے کہ اس کے بدن کے وہ اجزاء جل جائیں جو حرام سے پیدا ہوئے ہیں۔ اور جب یہ ہو چکتا ہے تو وہ جنت میں جانے کے قابل ہوجاتا ہے، اس وقت جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ جَزَيْنٰہُمْ بِمَا كَفَرُوْا۝ ٠ ۭ وَہَلْ نُجٰزِيْٓ اِلَّا الْكَفُوْرَ۝ ١٧- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے ان کو یہ سزا ان کی ناشکری کی وجہ سے دی کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں کی ناشکری کی اور ہم ایسی سزا بڑے ناشکر گزار ہی کو دیا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ ذٰلِکَ جَزَیْنٰہُمْ بِمَا کَفَرُوْا ” یہ بدلہ دیا ہم نے ان کو ان کے کفر انِ نعمت کی وجہ سے۔ “- وَہَلْ نُجٰزِیْٓ اِلَّا الْکَفُوْرَ ” اور ہم ایسا برا بدلہ نہیں دیتے مگر نا شکرے لوگوں کو۔ “- چند سال پہلے میرا ذہن پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے ان آیات کی طرف منتقل ہوا کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے دائیں اور بائیں کے دو خوبصورت باغات سے نوازا تھا۔ ایک باغ کا نام مغربی پاکستان تھا اور دوسرے کا مشرقی پاکستان۔ ہمارے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دونوں باغات میں آزادی اور امن وامان کا ماحول فراہم کیا گیا تھا۔ دونوں جگہوں پر کسی نہ کسی حد تک بَلْدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌکی عملی تصویر نظر آتی تھی۔ پھر ہم بھی اپنے رب کی نا شکری کے مرتکب ہوئے ‘ ہم نے بھی اس کی اطاعت سے اعراض کیا۔ چناچہ ہمارے اس طرز عمل کے باعث ہم سے بھی بہت سی نعمتیں سلب کرلی گئیں اور پھر ہمیں معاشی بدحالی اور خطرات و خدشات کی اس حالت کو پہنچا دیا گیا جس کا سامنا ہم آج کر رہے ہیں۔ سورة الانبیاء میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ ” (اے لوگو) ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے ‘ اس میں تمہارا ذکر ہے ‘ تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟ “ اس فرمانِ الٰہی کے مطابق قرآن کے اندر ہر قوم اور ہر انسان کو اپنے حالات کا عکس کہیں نہ کہیں ضرور نظر آئے گا ‘ بشرطیکہ اسے پڑھنے والے اس کے ” بین السطور “ مطالب و مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ چناچہ ہمیں ہلکے سے ہلکے درجے میں ہی سہی اس آیت کا تطابق اپنے قومی و ملکی حالات پر کر کے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani