Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ان پر جو نعمتیں تھیں ان کا ذکر ہو رہا ہے کہ قریب قریب آبادیاں تھیں ۔ کسی مسافر کو اپنے سفر میں توشہ یا پانی ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ تھی ۔ ہر ہر منزل پر پختہ مزے دار تازے میوے خوشگوار میٹھا پانی موجود ہر رات کو کسی بستی میں گذار لیں اور راحت و آرام امن و امان سے جائیں آئیں کہتے ہیں کہ یہ بستیاں صنعا کے قرب و جوار میں تھیں ، باعد کی دوسری قرأت بعدہ ۔ اس راحت و آرام سے وہ پھول گئے اور جس طرح بنو اسرائیل نے من سلویٰ کے بدلے لہسن پیاز وغیرہ طلب کیا تھا انہوں نے بھی دور دراز کے سفر طے کرنے کی چاہت کی تاکہ درمیان میں جنگل بھی آئیں غیر آباد جگہیں بھی آئیں کھانے پینے کا لطف بھی آئے ۔ قوم موسیٰ کی اس طلب نے ان پر ذلت و مسکنت ڈالی ۔ اسی طح انہیں بھی فراخی روزی کے بعد ہلاکت ملی ۔ بھوک اور خوف میں پڑے ۔ اطمینان اور امن غارت ہوا ۔ انہوں نے کفر کر کے خود اپنا بگاڑا اب ان کی کہانیاں رہ گئیں ۔ لوگوں میں ان کے افسانے رہ گئے ۔ تتر بتر ہوگئے ۔ یہاں تک کہ جو قوم تین تیرہ ہو جائے تو عرب میں انہیں سبائیوں کی مثل سناتے ہیں ۔ عکرمہ ان کا قصہ بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں ایک کاہنہ اور ایک کاہن تھا جن کے پاس جنات ادھر ادھر کی خبریں لایا کرتے تھے اس کاہن کو کہیں پتہ چل گیا کہ اس بستی کی ویرانی کا زمانہ قریب آ گیا ہے اور یہاں کے لوگ ہلاک ہونے والے ہیں تھا یہ بڑا مالدار خصوصاً جائیداد بہت ساری تھی اس نے سوچا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے اور ان حویلیوں اور مکانات اور باغات کی نسبت کیا انتظام کرنا چاہئے آخر ایک بات اس کی سمجھ میں آ گئی اس کے سسرال کے لوگ بہت سارے تھے اور وہ قبیلہ بھی جری ہونے کے علاوہ مالدار تھا ۔ اس نے اپنے لڑکے کو بلایا اور اس سے کہا سنو کل لوگ میرے پاس جمع ہو جائیں گے میں تجھے کسی کام کو کہوں گا تو انکار کر دینا میں تجھے برا بھلا کہوں گا تو بھی مجھے میری گالیوں کا جواب دینا میں اٹھ کر تجھے تھپڑ ماروں گا تو بھی اس کے جواب میں مجھے تھپڑ مارنا اس نے کہا ابا جی مجھ سے یہ کیسے ہو سکے گا ؟ کاہن نے کہا تم نہیں سمجھتے ایک ایسا ہی اہم معاملہ درپیش ہے اور تمہیں میرا حکم مان لینا چاہئے ۔ اس نے اقرار کیا دوسرے دن جبکہ اس کے پاس اس کے ملنے جلنے والے سب جمع ہو گئے اس نے اپنے اس لڑکے سے کسی کام کو کہا اس نے صاف انکار کر دیا اس نے اسے گالیاں دیں تو اس نے بھی سامنے گالیاں دیں ۔ یہ غصے میں اٹھا اور اسے مارا لڑکے نے بھی پلٹ کر اسے پیٹا یہ اور غضبناک ہوا اور کہنے لگا چھری لاؤ میں تو اسے ذبح کروں گا تمام لوگ گھبرا گئے ہر چند سمجھایا لیکن یہ یہی کہتا رہا کہ میں تو اسے ذبح کروں گا لوگ دوڑے بھاگے گئے اور لڑکے کے ننھیال والوں کو خبر کی وہ سب آگئے اول تو منت سماجت کی منوانا چاہا لیکن یہ کب مانتا تھا انہوں نے کہا آپ اسے کوئی اور سزا دیجئے اس کے بدلے ہمیں جو جی چاہے سزا دیجئے لیکن اس نے کہا میں تو اسے لٹکا کر باقاعدہ اپنے ہاتھ سے ذبح کروں گا انہوں نے کہا ایسا آپ نہیں کر سکتے اس سے پہلے ہم آپ کو مار ڈالیں گے ۔ اس نے کہا اچھا جب یہاں تک بات پہنچ گئی ہے تو میں ایسے شہر میں نہیں رہنا چاہتا جہاں میرے اور میری اولاد کے درمیان اور لوگ پڑیں مجھ سے میرے مکانات جائیدادیں اور زمینیں خرید لو میں یہاں سے کہیں اور چلا جاتا ہوں چنانچہ اس نے سب کچھ بیچ ڈالا اور قیمت نقد وصول کرلی جب اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو اس نے اپنی قوم کو خبر کر دی سنو عذاب اللہ کا آ رہا ہے زوال کا وقت قریب پہنچ چکا ہے اب تم میں سے جو محنت کر کے لمبا سفر کر کے نئے گھروں کا آرزو مند ہو وہ تو عمان چلا جائے اور جو کھانے پینے کا شوقین ہو وہ بصرہ چلا جائے اور جو مزیدار کھجوریں باغات میں بیٹھ کر آزادی سے کھانا چاہتا ہو وہ مدینے چلا جائے ۔ قوم کو اس کی باتوں کا یقین تھا جسے جو جگہ اور جو چیز پسند آئی وہ اسی طرف منہ اٹھائے بھاگا ۔ بعض عمان کی طرف بعض بصرہ کیطرف ۔ بعض مدینے کی طرف ۔ اس طرف تین قبیلے چلے تھے اوس اور خزرج اور بنو عثمان جب یہ لوگ بطن مر میں پہنچے تو بنو عثمان نے کہا ہمیں تو یہ جگہ بہت پسند ہے اب ہم آگے نہیں جائیں گے ۔ چنانچہ یہ یہیں بس گئے اور اسی وجہ سے انہیں خزاعہ کہا گیا ۔ کیونکہ وہ اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گئے ۔ اوس و خزرج برابر مدینے پہنچے اور یہاں آ کر قیام کیا ۔ یہ اثر بھی عجیب و غریب ہے ۔ جس کاہن کا اس میں ذکر ہے اس کا نام عمرہ بن عامر ہے یہ یمن کا ایک سردار تھا اور سبا کے بڑے لوگوں میں سے تھا اور ان کا کاہن تھا ۔ سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ سب سے پہلے یہی یمن سے نکلا تھا اس لئے کہ سد مارب کو کھوکھلا کرتے ہوئے اس نے چوہوں کو دیکھ لیا تھا اور سمجھ گیا تھا کہ اب یمن کی خیر نہیں یہ دیوار گری اور سیلاب سب کچھ تہ و بالا کرے گا تو اس نے اپنے سب سے چھوٹے لڑکے کو وہ مکر سکھایا جس کا ذکر اوپر گذرا اس وقت اس نے غصے میں کہا کہ میں ایسے شہر میں رہنا پسند نہیں کرتا میں اپنی جائیدادیں اور زمینیں اسی وقت بیچتا ہوں لوگوں نے کہا عمرو کے اس غصے کو غنیمت جانو چنانچہ سستا مہنگا سب کچھ بیچ ڈالا اور فارغ ہو کر چل پڑا قبیلہ اسد بھی اس کے ساتھ ہو لیا راستے میں عکہ ان سے لڑے برابر برابر کی لڑائی رہی ۔ جس کا ذکر عباس بن مرد اس اسلمی رضی اللہ عنہ کے شعروں میں بھی ہے ۔ پھر یہ یہاں سے چل کر مختلف شہروں میں پہنچ گئے ۔ آل جفتہ بن عمرو بن عامر شام میں گئے ۔ اوس و خزرج مدینے میں ، خزاعہ مر میں از مراۃ سراۃ میں ، ازدعمان عمان میں ۔ یہاں سیلاب آیا جس نے مارب کے بند کو توڑ دیا ۔ سدی نے اس قصے میں بیان کیا ہے کہ اس نے اپنے مقابلے کے لئے اپنے بیٹے کو نہیں بلکہ بھتیجے کو کہا تھا ۔ بعض اہل علم کا بیان ہے کہ اس کی عورت جس کا نام طریقہ تھا اس نے اپنی کہانت سے یہ بات معلوم کر کے سب کو بتائی تھی اور روایت میں ہے کہ عمان میں غسانی اور ازد بھی ہلاک کر دیئے گئے ۔ میٹھے اور ٹھنڈے پانی کی ریل پیل پھلوں اور کھیتوں کی بیشمار روزی کے باوجود سیل عرم سے یہ حالت ہو گئی کہ ایک ایک لقمے کو اور ایک ایک بوند پانی کو ترس گئے یہ پکڑ اور عذاب یہ تنگی اور سزا جو انہیں پہنچی اس سے ہرصابر وشاکر عبرت حاصل کر سکتا ہے کہ اللہ کی نافرمانیاں کس طرح انسان کو گھیر لیتی ہیں عافیت کو ہٹا کر آفت کو لے آتی ہیں ۔ مصیبتوں پر صبر نعمتوں پر شکر کرنے والے اس میں دلائل قدرت پائیں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مومن کے لئے تعجب ناک فیصلہ کیا ہے اگر اسے راحت ملے اور یہ شکر کرے تو اجر پائے اور اگر اسے مصیبت پہنچے اور صبر کرے تو اجر پائے ۔ غرض مومن کو ہر حالت پر اجر و ثواب ملتا ہے اس کا ہر کام نیک ہے ۔ یہاں تک کہ محبت کے ساتھ جو لقمہ اٹھا کر یہ اپنی بیوی کے منہ میں دے اس پر بھی اسے ثواب ملتا ہے ( مسند احمد ) بخاری و مسلم میں ہے آپ فرماتے ہیں تعجب ہے کہ مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کی ہر قضا بھلائی کے لئے ہی ہوتی ہے ۔ اگر اسے راحت اور خوشی پہنچتی ہے تو شکر کر کے بھلائی حاصل کرتا ہے اور اگر برائی اور غم پہنچتا ہے تو یہ صبر کرتا ہے اور بدلہ حاصل کرتا ہے ۔ یہ نعمت تو صرف مومن کو ہی حاصل ہے کہ جس کی ہر حالت بہتری اور بھلائی والی ہے ۔ حضرت مطرف فرماتے ہیں صبر و شکرانے والا بندہ کتنا ہی اچھا ہے کہ جب اسے نعمت ملے تو شکر کرے اور جب زحمت پہنچے تو صبر کرے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 برکت والی بستیوں سے مراد شام کی بستیاں ہیں یعنی ہم نے ملک سبا (یمن) اور شام کے درمیاں لب سڑک بستیاں آباد کی ہوئی تھیں بعض نے ظاھرۃ کے معنی متواصلۃ ایک دوسرے سے پیوست اور مسلسل کے لیے ہیں مفسریں نے ان بستیوں کی تعداد 4 ہزار سات سو بتلائی ہے یہ ان کی تجارتی شاہراہ تھی جو مسلسل آباد تھی جس کی وجہ سے ایک تو ان کے کھانے پینے اور آرام کرنے کے لیے زاد راہ ساتھ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی دوسرے ویرانی کی وجہ سے لوٹ مار اور قتل و غارت کا جو اندیشہ ہوتا ہے وہ نہیں ہوتا تھا 18۔ 2 یعنی ایک آبادی سے دوسری آبادی کا فاصلہ متعین اور معلوم تھا، اور اس کے حساب سے وہ بہ آسانی اپنا سفر طے کرلیتے تھے۔ مثلا صبح سفر کا آغاز کرتے تو دوپہر تک کسی آبادی اور قریے تک پہنچ جاتے۔ وہاں کھا پی کر قیلولہ کرتے اور پھر سر گرم سفر ہوجاتے تو رات کو کسی آبادی میں جا پہنچتے۔ 18۔ 3 یہ ہر قسم کے خطرے سے محفوظ اور زاد راہ کی مشقت سے بےنیاز ہونے کا بیان ہے کہ رات اور دن کی جس گھڑی میں تم سفر کرنا چاہو کرو نہ جان مال کا کوئی اندیشہ نہ راستے کے لیے سامان سفر ساتھ لینے کی ضرورت۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٩] ان کی ترقی اور خوشحالی کی دوسری وجہ ان کا تجارتی نظام تھا۔ ایسی سرزمین جسے ہم نے برکت دے رکھی ہے کے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان دنوں یہ چار ماہ سفر تھا اور اس تجارتی شاہراہ کو اللہ تعالیٰ نے امام مبین کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے اسی تجارتی شاہراہ پر قریش کے تجارتی قافلے مکہ سے شام تک سفر کرتے تھے۔ یہ تجارتی شاہراہ اس لحاظ سے تھی کہ برلب سڑک اور نزدیک نزدیک آبادیاں موجود تھیں۔ جہاں مسافروں کو کھانا پانی مل سکتا تھا ایک بستی پر انسان پہنچ جائے تو اگلی بستی سامنے نظر آنے لگتی تھی (اور یہ قریً ظَاھِرَۃً کا مطلب ہے) اس شاہراہ کی بڑی خوبی یہ تھی کہ کوئی شخص جس وقت بھی آرام کرنا چاہتا تو وہ کرسکتا تھا اور آرام کرنے کے لئے اگلی منزل اس کے قریب ہی ہوتی تھی۔ پھر چونکہ اس شاہراہ پر بکثرت آمدروفت رہتی تھی اس لئے لوٹ مار کا بھی اس پر اتنا خطرہ نہیں ہوتا تھا۔ جتنا کہ عرب کے دوسرے علاقوں میں تھا۔ اس لحاظ سے ان کا یہ تجارتی سفر دوسرے علاقوں کی نسبت بہت آسان بھی تھا اور پرامن بھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا۔۔ : برکت والی بستیوں سے مراد شام کا علاقہ ہے۔ قرآن مجید میں اکثر برکت والی زمین شام کی سر زمین کو کہا گیا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٣٧) ، بنی اسرائیل (١) اور سورة انبیاء (٧١ اور ٨١) یعنی یمن سے شام تک سڑک کے کنارے مسلسل بستیاں تھیں، جو پہاڑیوں یا اونچی جگہوں پر بنائی گئی تھیں اور ایک دوسری سے اتنی قریب تھیں کہ ایک بستی سے دوسری بستی نظر آتی تھی اور ایسے اندازے اور تناسب سے آباد تھیں کہ مسافر کو ہر منزل پر کھانا، پانی اور آرام کا موقع ملتا تھا۔ آبادیوں کے قریب ہونے اور نظر آتے رہنے کی وجہ سے نہ مسافروں کا دل گھبراتا تھا، نہ چوروں ڈاکوؤں کا خوف تھا اور نہ زاد راہ ساتھ لینے کی مشقت تھی۔- سِيْرُوْا فِيْهَا لَيَالِيَ وَاَيَّامًا اٰمِنِيْنَ : یعنی رات دن کی جس گھڑی میں سفر کرنا چاہو کرو، نہ جان و مال کا کوئی اندیشہ، نہ راستے کے لیے سامان سفر ساتھ لینے کی کوئی ضرورت۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اور رکھی تھیں ہم نے ان میں اور ان بستیوں میں جہاں ہم نے برکت رکھی ہے ایسی بستیاں جو راہ پر نظر آتی تھیں اور منزلیں مقرر کردیں ہم نے ان میں آنے جانے کی پھرو ان میں راتوں کو اور دنوں کو امن سے

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلْنَا بَيْنَہُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا قُرًى ظَاہِرَۃً وَّقَدَّرْنَا فِيْہَا السَّيْرَ۝ ٠ ۭ سِيْرُوْا فِيْہَا لَيَالِيَ وَاَيَّامًا اٰمِنِيْنَ۝ ١٨- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- ظَاهَرَ- وظَهَرَ الشّيءُ أصله : أن يحصل شيء علی ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفی، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفی، ثمّ صار مستعملا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصیرة . قال تعالی: أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر 26] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف 33] ، إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] ، يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم 7] ، أي : يعلمون الأمور الدّنيويّة دون الأخرويّة، والعلمُ الظَّاهِرُ والباطن تارة يشار بهما إلى المعارف الجليّة والمعارف الخفيّة، وتارة إلى العلوم الدّنيوية، والعلوم الأخرويّة، وقوله : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] ، وقوله : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] ، أي : كثر وشاع، وقوله : نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] ، يعني بالظَّاهِرَةِ : ما نقف عليها، وبالباطنة : ما لا نعرفها، وإليه أشار بقوله : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل 18] ، وقوله : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ 18] ، فقد حمل ذلک علی ظَاهِرِهِ ، وقیل : هو مثل لأحوال تختصّ بما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، وقوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن 26] ، أي : لا يطلع عليه، وقوله : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة 33] ، يصحّ أن يكون من البروز، وأن يكون من المعاونة والغلبة، أي : ليغلّبه علی الدّين كلّه . وعلی هذا قوله : إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ- [ الكهف 20] ، وقوله تعالی: يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر 29] ، فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف 97] ، وصلاة الظُّهْرِ معروفةٌ ، والظَّهِيرَةُ : وقتُ الظُّهْرِ ، وأَظْهَرَ فلانٌ: حصل في ذلک الوقت، علی بناء أصبح وأمسی «4» . قال تعالی:- وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم 18]- ظھر الشئی کسی چیز کا زمین کے اوپر اس طرح ظاہر ہونا کہ نمایاں طور پر نظر آئے اس کے بالمقابل بطن کے معنی ہیں کسی چیز کا زمین کے اندر غائب ہوجانا پھر ہر وہ چیز اس طرح پر نمایاں ہو کہ آنکھ یابصیرت سے اس کا ادراک ہوسکتا ہو اسے ظاھر کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر 26] یا ملک میں فساد ( نہ ) پیدا کردے ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف 33] ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] مگر سرسری سی گفتگو ۔ اور آیت کریمہ : يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم 7] یہ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کو جانتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ صرف دنیو یامور سے واقفیت رکھتے ہیں اخروی امور سے بلکل بےبہر ہ ہیں اور العلم اظاہر اور الباطن سے کبھی جلی اور خفی علوم مراد ہوتے ہیں اور کبھی دنیوی اور اخروی ۔ قرآن پاک میں ہے : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] جو اس کی جانب اندورنی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب ۔ اور آیت کریمہ : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ۔ میں ظھر کے معنی ہیں زیادہ ہوگیا اور پھیل گیا اور آیت نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان 20] اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں ۔ میں ظاہرۃ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکتی ہیں اور باطنۃ سے وہ جو ہمارے علم سے بلا تر ہیں چناچہ اسی معنی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اور آیت کریمہ : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ 18] کے عام معنی تو یہی ہیں کہ وہ بستیاں سامنے نظر آتی تھیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور مثال کے انسانی احوال کیطرف اشارہ ہو جس کی تصریح اس کتاب کے بعد دوسری کتاب ہیں ) بیان کریں گے انشاء اللہ ۔ اظھرہ علیہ اسے اس پر مطلع کردیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن 26] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنے غائب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا اور آیت کریمہ : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة 33] میں یظھر کے معنی نمایاں کرنا بھی ہوسکتے ہیں اور معاونت اور غلبہ کے بھی یعنی تمام ادیان پر اسے غالب کرے چناچہ اس دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر 29] اے قوم آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو ۔ فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف 97] پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس کے اوپر چڑھ سکیں ۔ صلاۃ ظھر ظہر کی نماز ظھیرۃ ظہر کا وقت ۔ اظھر فلان فلاں ظہر کے وقت میں داخل ہوگیا جیسا کہ اصبح وامسیٰ : صبح اور شام میں داخل ہونا ۔ قرآن پاک میں ہے : وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم 18] اور آسمان اور زمین میں اسی کیلئے تعریف ہے اور سہ پہر کے وقت بھی اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو ۔ - سير - السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير - ( س ی ر ) السیر - ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے اہل سبا اور اردن و فلسطین والوں کے درمیان جہاں ہم نے پانی اور درختوں سے برکت کر رکھی ہے بہت سے گاؤں آباد کر رکھے تھے جو سڑک پر سے ہی نظر آتے تھے اور ہم نے ان بستیوں کے درمیان رات گزارنے اور آرام کرنے کا ایک خاص انداز رکھا تھا۔- کہ بھوک و پیاس اور رہزنوں سے مطمئن ہو کر ان میں سفر کرو اس کے بعد پھر انبیاء کرام نے ان سے فرامیا کہ اب بھی اپنے پروردگار کی نعمتوں کا شکر ادا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح اس نے تم سے پہلی نعمت چھین لی یہ بھی چھین لے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ وَجَعَلْنَا بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْقُرَی الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْہَا قُرًی ظَاہِرَۃً ” ہم نے ان کے (علاقے) اور ان بستیوں کے درمیان جنہیں ہم نے برکت عطا کر رکھی تھی واضح نظر آنے والی بستیاں قائم کردی تھیں “- یہاں پر ” بابرکت بستیوں “ سے ارض فلسطین مرا د ہے۔ اس ضمن میں سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں مذکور بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ کے الفاظ بھی مدنظر رہنے چاہئیں۔ آیت زیر مطالعہ میں دراصل اس زمانے کی ایک اہم شاہراہ کا ذکر ہوا ہے جس پر یورپ اور ایشیا کے مابین ہونے والی تجارت کے حوالے سے قوم سبا کی اجارہ داری تھی۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ یہ اپنے زمانے کی ایک بہت خوشحال اور طاقتور قوم تھی۔ ان کا علاقہ بہت سرسبز و شاداب تھا اور وہاں مختلف اقسام کی خوشبوئیں کثرت سے پیدا ہوتی تھیں۔ پرانے زمانے کے سیاحوں کے حوالے سے قوم سبا کے بارے میں ایسی بہت سی معلومات تاریخ میں دستیاب ہیں۔ چناچہ اپنے دور کی ایک طاقتور اور خوشحال قوم کی حیثیت سے مشرق و مغرب کے درمیان ہونے والی تجارت پر ان کی اجارہ داری تھی (بعد میں ایک مدت تک اس تجارت پر قریش ِمکہ ّکی اجارہ داری رہی جس کا ذکر سورة القریش میں آیا ہے) ۔ ہندوستان ‘ چین اور دیگر مشرقی ممالک سے آنے والا تجارتی سامان یمن کی بندرگاہ پر اترتا تھا ‘ جبکہ یورپ سے آنے والا سامان بحیرہ روم ( ) کے راستے فلسطین کی بندرگاہ پر پہنچتا تھا۔ چناچہ یمن اور فلسطین کے درمیان قوم سبا کے تجارتی قافلے اس سامان کی نقل و حمل کے سلسلے میں مذکورہ شاہراہ پر سارا سال رواں دواں رہتے تھے۔- یہ تجارتی شاہراہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی سے بہت ُ پر سکون ‘ پر امن اور ہر لحاظ سے مثالی تھی۔ اس کی کیفیت یوں تھی کہ تقریباً سو میل کے فاصلے تک اس شاہراہ کے دونوں طرف ان کے باغات پھیلے ہوئے تھے۔ اس کے بعد عین شاہراہ کے اوپر جگہ جگہ بستیاں اس طرح آباد تھیں کہ ایک بستی کی حدود ختم ہوتے ہی دوسری بستی کے آثار شروع ہوجاتے تھے۔ اس طرح تجارتی قافلے نہ صرف رہزنی وغیرہ کے خطرات سے محفوظ رہتے تھے بلکہ انہیں سفر و قیام کے دوران اشیائِ ضرورت اور مطلوبہ سہولیات بھی ہر جگہ ہر وقت دستیاب رہتی تھیں۔- وَّقَدَّرْنَا فِیْہَا السَّیْرَ ” اور ہم نے اندازہ مقرر کردیا تھا ان میں سفر کرنے کا۔ “- یعنی ان کے درمیان سفر کی منزلیں مقرر کردی تھیں۔ یہ آبادیاں شاہراہ کے عین کناروں پر اس طرح واقع تھیں کہ ایک آبادی سے دوسری آبادی تک کا درمیانی فاصلہ تیس چالیس میل کے لگ بھگ تھا اور یہ فاصلہ سفر کی منزلوں کے حساب سے رکھا گیا تھا تاکہ ہر منزل پر قافلوں کو قیام و طعام کی مطلوبہ سہولیات آسانی سے میسر آسکیں۔- سِیْرُوْا فِیْہَا لَیَالِیَ وَاَیَّامًا اٰمِنِیْنَ ” (ہم نے انہیں کہہ دیا تھا کہ) تم سفر کرو ان میں راتوں کو بھی اور دن کو بھی امن کے ساتھ۔ “- یعنی ان میں رات دن بےخوف و خطر سفر کرو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :31 برکت والی بستیوں سے مراد شام و فلسطین کا علاقہ ہے جسے قرآن مجید میں عموماً اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف ، آیت 137 ۔ بنی اسرائیل ، آیت 1 ۔ الانبیاء ، آیات 71 و 81 ) نمایاں بستیوں سےرماد ہیں ایسی بستیاں جو شاہراہ عام پر واقع ہوں ، گوشوں میں چھپی ہوئی نہ ہوں ، اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بستیاں بہت زیادہ فاصلے پر نہ تھیں بلکہ متصل تھیں ۔ ایک بستی کے آثار ختم ہونے کے بعد دوسری بستی کے آثار نظر آنے لگتے تھے ۔ سفر کی مسافتوں کو ایک اندازے پر رکھنے سے مراد یہ ہے کہ یمن سے شام تک کا پورا سفر مسلسل آباد علاقے میں طے ہوتا تھا جس کی ہر منزل سے دوسری منزل تک کی مسافت معلوم و متعین تھی ۔ آباد علاقوں کے سفر اور غیر آباد صحرائی علاقوں کے سفر میں یہی فرق ہوتا ہے ۔ صحراء میں مسافر جب تک چاہتا ہے چلتا ہے اور جب تھک جاتا ہے تو کسی جگہ پڑاؤ کرلیتا ہے ۔ بخلاف اس کے آباد علاقوں میں راستے کی ایک بستی سے دوسری بستی تک کی مسافت جانی بوجھی اور متعین ہوتی ہے ۔ مسافر پہلے سے پروگرام بنا سکتا ہے کہ راستے کے کن کن مقامات پر وہ ٹھہرتا ہوا جائے گا ، کہاں دوپہر گزارے گا اور کہاں رات بسر کرے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: اس سے مراد شام اور فلسطین کے علاقے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان علاقوں کو ظاہری حسن اور شادابی سے بھی نوازا ہے اور انبیاء کرام کی سر زمین ہونے کا بھی شرف عطا فرمایا ہے۔ 12: یہ اللہ تعالیٰ کے ایک اور انعام کا ذکر ہے جو سبا کی قوم پر فرمایا گیا تھا۔ یہ لوگ تجارتی مقاصد کے لیے یمن سے شام کا سفر کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی سہولت کے لیے یہ انتظام فرمایا تھا کہ یمن سے لے کر شام تک کے پورے علاقے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بستیاں بسائی تھیں جو سفر کے دوران تھوڑے تھوڑے وقفے سے نظر آتی رہتی تھیں۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ سفر کو آسان مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا تھا، اور مسافر جہاں چاہے، کھانے پینے اور سونے کے لیے ٹھہر سکتا تھا۔ اور دوسرا فائدہ یہ تھا کہ اس طرح بستیوں کے تسلسل کی وجہ سے نہ چوری ڈاکے کا خطرہ تھا۔ نہ راستہ بھٹک جانے کا، نہ کھانے پینے کے سامان کے ختم ہوجانے کا۔ لیکن بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس نعمت کی قدر پہچان کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے، انہوں نے الٹا اللہ تعالیٰ سے یہ کہنا شروع کردیا کہ بستیوں کے اس تسلسل کی وجہ سے ہمیں سفر کی مہم جوئی کا مزہ ہی نہیں آتا، اس لیے یہ بستیاں ختم کر کے منزلوں کا فاصلہ بڑھا دیجئے، تاکہ صحراؤں اور جنگلوں میں سفر کرنے کا لطف آئے۔