Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی جس طرح لوگ سفر کی صعوبتوں، خطرات اور موسم کی شدتوں کا تذکرہ کرتے ہیں ہمارے سفر بھی اسی طرح دور دور کردے مسلسل آبادیوں کے بجائے درمیان میں سنسان و ویران جنگلات اور صحراؤں سے ہمیں گزرنا پڑے گرمیوں میں دھوب کی شدت اور سردیوں میں بیخ بستہ ہوائیں ہمیں پریشان کریں اور راستے میں بھوک اور پیاس اور موسم کی سختیوں سے بچنے کے لیے زاد راہ کا بھی انتظام کرنا پڑے ان کی یہ دعا اسی طرح کی ہے جیسے بنی اسرائیل نے من وسلویٰ اور دیگر سہولتوں کے مقابلے میں دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا یا پھر زبان حال سے ان کی یہ دعا تھی۔ 19۔ 2 یعنی انھیں اس طرح ناپید کیا کہ ان کی ہلاکت کا قصہ زبان زد خلائق ہوگیا۔ اور مجلسوں اور محفلوں کا موضوع گفتگو بن گیا۔ 19۔ 3 یعنی انھیں متفرق اور منتشر کردیا، چناچہ سبا میں آباد مشہور قبیلے مختلف جگہوں پر جا آباد ہوئے، کوئی یثرب و مکہ آگیا، کوئی شام کے علاقے میں چلا گیا کوئی کہیں اور کوئی کہی

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٣٠] جب انسان مال و دولت کے نشہ میں مست ہوجاتا ہے اور اسے ہر طرف سے فرسودگی اور آسانیاں ہی میسر ہونے لگتی ہیں تو بعض دفعہ وہ اسی مستی میں بعض انہونی باتیں بھی بکنے لگتا ہے کہ لوگ جو سفر سے متعلق ایسی اور ایسی مشکلات بیان کرتے ہیں کہ اتنے دن کچھ کھانے کو ملا نہ پینے کو، یا ہم فلاں مقام پر جاکر راستہ بھول گئے تو ہمیں کوئی آرم زاد نظر نہ آتا تھا جس سے راستہ ہی پوچھ سکیں وغیرہ وعیرہ چناچہ وہ آرزو کرنے لگے کہ ہمارا بھی کوئی سفر تو ایسا بھی ہونا چاہئے ممکن ہے ان لوگوں نے یہ بات زبان قال سے نہ کہی ہو زبان حال سے کہی ہو۔ یعنی دل میں ایسے خیالات آنے لگے ہوں۔- [ ٣١] جب ان لوگوں کی زرعی معیشت تباہ ہوگئی تو یہی چیز ان کی تجارتی ترقی کی تباہی کا باعث بن گئی۔ جب اپنے مال کی پیداوار ہیختم ہوجائے تو پھر تجارت کیسی ؟ اگر بیرون ملک کی چیزیں ہی خریدی جائیں اور بیرون ملک ہی بیچی جائیں تو ان سے آخر کتنا منافع ہوسکتا ہے۔ اور اس کا دوسرا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کثیر آبادیاں جو اس شاہراہ کے کنارے آباد تھیں۔ وہاں سے اٹھ کر دوسرے مقامات کی طرف چلی گئیں کیونکہ ان کی معیشت کا انحصار بھی زیادہ تر انہی تجارتی قافلوں کی اشیائے خوردنی کی خریدو فروخت پر تھا۔ اس طرح سبا کی تمام نو آبادیاں تباہ و برباد ہو کر رہ گئیں۔- [ ٣٢] صَبَّار اور شَکُوْرٌ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں اور یہ ایک مومن کی پوری طرز زندگی پر محیط ہیں۔ اور یہ دونوں لازم و ملزوم ہوتی ہیں۔ مومن کی شامن یہ ہوتی ہے کہ جب اسے اللہ کی طرف سے نعمتیں عطا ہوتی ہیں تو وہ شکر بجا لاتا ہے اور زندگی بھر اس کا یہی معمول ہوتا ہے اور جب اسے کوئی مصیبت پیش آتی ہے وہ اسے صبر و استقامت سے برداشت کرتا ہے اور آئندہ کے لئے اللہ کی رحمت کا امیدوار رہتا ہے۔ اس آیت کا یہی مفہوم ہے اور ہر مومن خوب سمجھ سکتا ہے کہ قوم سبا کے عروج کے اصل اسباب کیا تھے اور ان کی بربادی اور ہلاکت کا اصل سبب کیا چیز تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَقَالُوْا رَبَّنَا بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا۔۔ : اس کی تفسیر تین طرح سے کی گئی ہے، ایک یہ کہ انھیں یہ نعمتیں راس نہ آئیں، وہ امن و عافیت کی قدر کرنا بھول گئے اور کبرو غرور میں آکر کہنے لگے کہ یہ بھی کوئی سفر ہے کہ ہر تھوڑی مسافت کے بعد بستی پائی جاتی ہے۔ مزا تو جب آتا کہ دور دراز علاقوں، چٹیل میدانوں، دشوار گزار جنگلوں اور پرخطر وادیوں سے گزر ہوتا۔ شاہ عبدالقادر (رض) لکھتے ہیں : ” آرام میں مستی یہ آئی، لگے تکلیف مانگنے کہ جیسے اور ملکوں کی خبر سنتے ہیں کہ سفروں میں پانی نہیں ملتا، آبادی نہیں ملتی، ویسا ہم کو بھی ہو، یہ بڑی ناشکری ہوئی۔ “ (موضح) ان کی یہ دعا اسی طرح کی ہے جیسے بنی اسرائیل نے من وسلویٰ اور دوسری سہولتوں کے مقابلے میں دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا۔ - دوسری تفسیر ابن عاشور کی ہے، وہ فرماتے ہیں : ” میرے نزدیک زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ انھوں نے یہ بات اپنے انبیاء اور صالح لوگوں کے جواب میں کہی، جب وہ انھیں شرک سے منع کرتے تھے، کیونکہ وہ انھیں نصیحت کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر اتنی نعمتیں کی ہیں، سفر اتنا آسان بنادیا اور اس قدر خوش حالی عطا فرمائی ہے، سو تم پر اس کا شکر کرنا اور اس اکیلے کی عبادت کرنا واجب ہے، تو انھوں نے آگے سے یہ بات کہی جو آیت میں مذکور ہے، جیسا کہ کفار قریش نے کہا تھا : (اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) [ الأنفال : ٣٢ ] ” اے اللہ اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔ “ دلیل اس کی یہ ہے کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَاَعْرَضُوْا) ” انھوں نے منہ موڑ لیا “ ظاہر ہے منہ کسی دعوت ہی سے موڑا جاتا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ان کی اس بات کے بعد فرمایا : ( وَظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ )” اور انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا “ یعنی انھوں نے نا شکری اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا، قرآن میں ظلم کا لفظ اکثر شرک کے لیے آیا ہے، کیونکہ اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔ “- تیسری تفسیر وہ ہے جس کی طرف تقریباً تمام مفسرین نے اشارہ فرمایا ہے کہ یہ ان کی زبان حال کی بات ہے۔ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے وہ گویا زبان حال سے کہتا ہے کہ پروردگار میں ان نعمتوں کا مستحق نہیں ہوں۔ اسی طرح جو قوم اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتی اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتی ہے، وہ گویا اپنے رب سے دعا کرتی ہے کہ اے پروردگار یہ نعمتیں ہم سے واپس لے لے، کیونکہ ہم اس قابل نہیں ہیں۔ - وَظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ : یعنی انھوں نے کفر و شرک پر اصرار کیا۔- فَجَعَلْنٰهُمْ اَحَادِيْثَ ۔۔ : یعنی ہم نے انھیں اس طرح برباد اور منتشر کیا کہ وہ بکھرنے کے لیے کہاوت اور ضرب المثل بن گئے۔ مختلف قبائل کے سیلاب سے بچ نکلنے والے لوگ اپنا وطن چھوڑ کر عرب کے مختلف علاقوں میں چلے گئے۔ غسانیوں نے اردن اور شام کا رخ کیا، اوس اور خزرج کے قبیلے یثرب میں جا بسے، خزاعہ نے جدہ کے قریب تہامہ کے علاقہ میں سکونت اختیار کی۔ ازد کا قبیلہ عمان میں جا کر آباد ہوا، لخم اور کندہ بھی نکلنے پر مجبور ہوئے، حتیٰ کہ سبا نام کی کوئی قوم دنیا میں موجود نہ رہی، صرف کہاوتوں اور افسانوں میں اس کا ذکر باقی رہ گیا۔- اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْر : قوم سبا پر لازم تھا کہ ان بےحساب نعمتوں کی قدر کرتے اور ان کا شکر ادا کرتے جن کا ان آیات میں ذکر ہوا، پھر جب عذاب آیا تو لازم تھا کہ گناہوں سے توبہ کرتے اور مصیبت پر صبر کرتے۔ ان کے سردار ملک کے نظام کو دوبارہ درست کرنے کی کوشش کرتے، امن بحال کرتے، پہلے کی طرح زرعی ضرورتوں اور سفری سہولتوں کا بندوبست کرتے، مگر وہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر مختلف علاقوں میں بکھر گئے اور انھوں نے نہ اللہ کے انعامات کا شکر کیا، نہ مصیبت آنے پر تائب ہوئے اور نہ صبر سے وہاں رہ کر ان کے سرداروں نے ملک کی اصلاح کی کوشش کی، بلکہ جس کا جدھر منہ آیا نکل گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ صبر اور شکر لازم و ملزوم ہیں۔ شکر وہی کرتا ہے جو تقدیر میں سے اپنے حصے پر صابر ہو اور صبر وہی کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی قدر جانتا اور ان کا شکر ادا کرتا ہو جو اسے حاصل ہیں۔ سبا کے واقعات میں نشانیاں تو ہر شخص کے لیے ہیں، مگر ہر صبّار و شکور کے لیے بہت سی نشانیاں اور عبرتیں اس لیے بتائیں کہ وہی ہیں جو اپنی مصیبتوں پر بہت صبر اور نعمتوں پر بہت شکر کرتے ہیں اور دوسروں پر آنے والی مصیبتوں اور انھیں ملنے والی نعمتوں پر ان کے رویے اور اس کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ نہ صبر کرتے ہیں، نہ شکر اور نہ ہی دوسروں کے حال سے انھیں عبرت ہوتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) فقا لواربنا بعد بین اسفارنا وظلموا انفسھم فجعلنہم احادیث ومزقنہم کل ممزق، ” یعنی ان ظالموں نے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی کہ سفر کی تکلیف ہی نہ رہے ناقدری اور ناشکری کر کے خود یہ دعا مانگی کہ ہمارے سفر میں بعد پیدا کر دے، قریب قریب کے گاؤں نہ رہیں، جنگل بیابان آئے، جس میں کچھ محنت مشقت بھی اٹھانی پڑے۔ ان کی مثال وہی ہے جو بنی اسرائیل کی تھی کہ بےمحنت بہترین رزق من وسلویٰ ان کو ملتا تھا، اس سے اکتا کر اللہ سے یہ مانگا کہ اس کے بجائے ہمیں سبزی ترکاری دے دیجئے، حق تعالیٰ نے ان کی ناشکری اور نعمت کی بےقدری پر وہ سزا جاری فرمائی جو اوپر سیل عرم کے عنوان سے مذکور ہوئی ہے۔ اسی کا آخری نتیجہ اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ ان کو ایسا تباہ و برباد کیا کہ دنیا میں ان کی عیش و عشرت اور دولت و نعمت کے قصے ہی رہ گئے، اور یہ لوگ افسانہ بن گئے۔- مزقنہم، تمزیق سے مشق ہے، جس کے معنی ٹکڑے ٹکڑے اور پارہ پارہ کرنے کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اس مقام شہر مآرب کے بسنے والے کچھ ہلاک ہوگئے، کچھ ایسے منتشر ہوگئے کہ ان کے ٹکڑے مختلف ملکوں میں پھیل گئے۔ عرب میں قوم سبا کی تباہی اور منتشر ہونا ایک ضرب المثل بن گیا، ایسے مواقع میں عرب کا محاورہ ہے تفرقوا ایادی سباء، یعنی یہ لوگ ایسے منتشر ہوئے جیسے قوم سبا کے نعمت پروردہ لوگ منتشر ہوگئے تھے۔- ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے اس جگہ طویل قصہ ایک کاہن کا نقل کیا ہے، کہ سیلاب کا عذاب آنے سے کچھ پہلے اس کاہن کو اس کا علم ہوگیا تھا۔ اس نے ایک عجیب تدبیر کے ذریعہ پہلے تو اپنی زمین جائیداد مکان وغیرہ سب فروخت کردیا، جب رقم اس کے ہاتھ آگئی تو اس نے اپنی قوم کو آنے والے سیلاب و عذاب سے باخبر کیا اور کہا کہ جس کو اپنی جان سلامت رکھنا ہے وہ فوراً یہاں سے نکل جائے۔ اس نے لوگوں کو یہ بھی بتلایا کہ تم میں جو لوگ سفر بعید اختیار کر کے محفوظ مقام کا ارادہ کریں، وہ عمان چلے جائیں اور جو لوگ شراب اور خمیری روٹی اور پھل وغیرہ چاہیں وہ ملک شام کے مقام بصریٰ میں چلے جائیں، اور جو لوگ ایسی سواریاں چاہیں جو کیچڑ میں ثابت قدم رہیں، اور قحط کے زمانے میں کام آئیں اور جلدی سفر کی ضرورت کے وقت ساتھ دیں تو وہ یثرب (مدینہ منورہ) چلے جائیں جس میں کھجور کثرت سے ہے۔ اس کی قوم نے اس کے مشورے پر عمل کیا۔ قبیلہ ازدعمان کی طرف چلے گئے اور غسان بصریٰ ملک شام کی طرف اور اوس و خزرج اور بنو عثمان یثرب ذات النخل کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ بطن مر کے مقام پر پہنچ کر بنوعثمان نے تو اسی جگہ کو پسند کرلیا اور یہیں رہ پڑے، اور اسی انقطاع کی وجہ سے بنوعثمان کا لقب خزاعہ ہوگیا۔ یہ بطن مرہ میں جو مکہ مکرمہ کے قریب ہی رہ پڑے اور اوس و خزرج یثرب پہنچ کر مقیم ہوگئے۔ ابن کثیر میں طویل قصہ کے بعد لوگوں کے متفرق مقامات میں منتشر ہوجانے کی یہی تفصیل بسند سعید عن قتادہ عن الشعبی نقل کر کے فرمایا کہ اس طرح یہ قوم سبا ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی، جس کا ذکر مزقنا ھم کل ممزق میں آیا ہے۔- (آیت) ان فی ذلک لایات لکل صبار شکور، یعنی قوم سبا کے عروج و نزول اور ان کے احوال کے انقلاب میں بڑی نشانی اور عبرت ہے، اس شخص کے لئے جو بہت صبر کرنے والا اور بہت شکر کرنے والا ہو۔ یعنی کوئی مصیبت و تکلیف پیش آئے تو اس پر صبر کرے اور کوئی نعمت و راحت حاصل ہو تو اس پر اللہ کا شکر کرے، اس طرح وہ زندگی کے ہر حال میں نفع ہی نفع کماتا ہے۔ جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مومن کا حال عجیب ہے، کہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ جو کچھ بھی تقدیری حکم نافذ فرماتے ہیں سب خیر ہی خیر اور نفع ہی نفع ہوتا ہے، کہ اگر اس کو کوئی نعمت راحت اور اس کی خوشی کی چیز حاصل ہوتی ہے تو یہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے وہ اس کی آخرت کے لئے خیر اور نفع بن جاتا ہے اور اگر کوئی تکلیف و مصیبت پیش آجائے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے جس کا اس کو بہت بڑا اجر وثواب ملتا ہے، اس طرح یہ مصیبت بھی اس کے لئے خیر اور نفع بن جاتی ہے۔ (از ابن کثیر)- اور بعض حضرات مفسرین نے لفظ صبار کو صبر کے عام معنی میں لیا ہے، جس میں طاعات پر ثابت قدم رہنا اور معاصی سے پرہیز کرنا بھی داخل ہے، اس تفسیر پر مومن ہر حال میں صبر و شکر کا جامع رہتا ہے اور ہر صبر شکر ہے اور ہر شکر صبر بھی ہے۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَقَالُوْا رَبَّنَا بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا وَظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِيْثَ وَمَزَّقْنٰہُمْ كُلَّ مُمَــزَّقٍ۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ۝ ١٩- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔- سفر - السَّفْرُ : كشف الغطاء، ويختصّ ذلک بالأعيان، نحو : سَفَرَ العمامة عن الرّأس، والخمار عن الوجه، وسَفْرُ البیتِ : كَنْسُهُ بِالْمِسْفَرِ ، أي : المکنس، وذلک إزالة السَّفِيرِ عنه، وهو التّراب الذي يكنس منه، والإِسْفارُ يختصّ باللّون، نحو : وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ- [ المدثر 34] ، أي : أشرق لونه، قال تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس 38] ، و «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» »من قولهم : أَسْفَرْتُ ، أي : دخلت فيه، نحو : أصبحت، وسَفَرَ الرّجل فهو سَافِرٌ ، والجمع السَّفْرُ ، نحو : ركب . وسَافَرَ خصّ بالمفاعلة اعتبارا بأنّ الإنسان قد سَفَرَ عن المکان، والمکان سفر عنه، ومن لفظ السَّفْرِ اشتقّ السُّفْرَةُ لطعام السَّفَرِ ، ولما يوضع فيه . قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء 43] ، والسِّفْرُ : الکتاب الذي يُسْفِرُ عن الحقائق، وجمعه أَسْفَارٌ ، قال تعالی: كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة 5] ، وخصّ لفظ الأسفار في هذا المکان تنبيها أنّ التّوراة۔ وإن کانت تحقّق ما فيها۔ فالجاهل لا يكاد يستبینها کالحمار الحامل لها، وقوله تعالی: بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ- [ عبس 15- 16] ، فهم الملائكة الموصوفون بقوله : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، والسَّفَرَةُ : جمع سَافِرٍ ، ککاتب وکتبة، والسَّفِيرُ : الرّسول بين القوم يكشف ويزيل ما بينهم من الوحشة، فهو فعیل في معنی فاعل، والسِّفَارَةُ : الرّسالة، فالرّسول، والملائكة، والکتب، مشترکة في كونها سَافِرَةٌ عن القوم ما استبهم عليهم، والسَّفِيرُ : فيما يكنس في معنی المفعول، والسِّفَارُ في قول الشاعر :- 235-- وما السّفار قبّح السّفار - «1» فقیل : هو حدیدة تجعل في أنف البعیر، فإن لم يكن في ذلک حجّة غير هذا البیت، فالبیت يحتمل أن يكون مصدر سَافَرْتُ «2» .- ( س ف ر ) السفر - اصل میں اس کے معنی کشف غطاء یعنی پردہ اٹھانے کے ہیں اور یہ اعیان کے ساتھ مخصوص ہے جیسے سفر العمامۃ عن الراس اس نے سر سے عمامہ اتارا دیا ۔ سعر عن الوجہ چہرہ کھولا اور سفر البیت کے معنی گھر میں جھاڑو دینے اور کوڑا کرکٹ صاف کرنے کے ہیں اور جھاڑو کو مسفرۃ اور اس گرد و غبار کو سفیر کہا جاتا ہے جو جھاڑو دے کر دور کی جاتی ہے ۔ الاسفار ( افعال ) یہ الوان کے ساتھ مختص ہے یعنی کسی رنگ کے ظاہر ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر 34] اور قسم ہے صبح کی جب روشن ہو ۔ اور فرمایا : ۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس 38] کتنے منہ اس روز چمک رہے ہوں گے ۔ اور حدیث «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» صبح خوب روشن ہونے کے بعد نماز پڑھا کرو تو زیادہ ثواب ملے گا ۔ میں اسفروا اسفرت کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی روشنی میں داخل ہونے کے ہیں جیسے اصبحت ( میں صبح میں داخل ہوا ) سفر الرجل اس نے سفر کیا اور سافر ( مسافر ) کی جمع سفر آتی ہے جیسے راکب کی جمع رکب رد علی ہذا القیاس ) اور سافر کے معنی ہیں اس نے سفر کیا یہ خاص کر باب مفاعلۃ سے آتا ہے گویا اس میں جانبین یعنی وطن اور آدمی کے ایک دوسرے سے دور ہونے کے معنی کا لحاظ کیا گیا ہے ۔ اور سفر سے ہی سفرۃ کا لفظ مشتق ہے جس کے معنی طعام سفر یا توشہ دان ہیں جس میں سفری کھانا رکھا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء 43] اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو ۔ السفر اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں حقائق کا بیان ہو گویا وہ حقائق کو بےنقاب کرتی ہے اس کی جمع اسفار آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة 5] کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوئی ہوں ۔ یہاں ممثل بہ میں خصوصیت کے ساتھ اسفار کا لفظ ذکر کرنے سے اس بات پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ تورات اگر چہ اپنے مضامین کو محقق طور پر بیان کرتی ہے لیکن جاہل ( یہود ) پھر بھی اس کو نہیں سمجھ پاتے ۔ لہذا ان کی مثال بعینہ اس گدھے کی سی ہے جو علم و حکمت کے پشتارے اٹھائے ہوئے ہو اور آیت بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15- 16] ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سردار نیکو کار ہیں ۔ میں سفرۃ سے مراد وہ فرشتے ہیں جنہیں دوسری جگہ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر لکھنے والے کہا ہے اور یہ سافر کی جمع ہے جیسے کاتب کی جمع کتبۃ السفیر ۔ اس فرستادہ کو کہا جاتا ہے جو مرسل کی غرض کو مرسل الیہ پر کھولتا اور فریقین سے منافرت کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ فعیل بمعنی فاعل سے ہے اور سفارۃ بمعنی رسالت آتا ہے پیغمبر فرشتے اور سماوی ) کتابیں لوگوں پر حقائق کی کشادگی کرنے میں باہم شریک ہیں ( اس نے ان سب کو سفیر کہہ سکتے ہیں ۔ اور سفیر ( فعیل ) بمعنی مفعول ہو تو اس کے معنی کوڑا کرکٹ کے ہوتے ہیں جو جھاڑ دے کر صاف کردیا جاتا ہے ۔ اور شاعر کے قول ۔ ( 229 ) وما السّفار قبّح السّفار میں بعض نے سفار کے معنی اس لوہے کے لئے ہیں جو اونٹ کی ناک میں ڈالا جاتا ہے اور اس معنی پر اگر اس شعر کے علاوہ اور کوئی دلیل نہ ہو تو یہ سافرت ( مفاعلہ ) کا مصدر بھی ہوسکتا ہے - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔- أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں - مزقنہم۔ مزقنا فعل ماضی جمع متکلم تمزیق ( تفعیل) مصدر۔ جس کے معنی ہیں ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ پارہ پارہ کرنا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ضمیر فاعل فقالوا کی طرف راجع ہے۔ کل ممزق۔ ( ملاحظہ ہو 34:7) فعل کے بعد تاکید کے لئے مصدر کو لایا گیا ہے ہم نے ان کو بالکل تتر بتر کردیا۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

مگر وہ کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے سفر کی مسافت میں فاصلہ اور درازی کردے غرض کہ انہوں نے کفر و شرک اور ناشکری کر کے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا ہم نے ان کو بعد والوں کے لیے افسانہ بنا دیا اور ہم نے ان کو بلکل شہروں میں بکھیر دیا اور ان کا پوری طرح خاتمہ ہی کردیا۔ اس واقعہ میں اطاعت خداوندی پر ثابت قدم رہنے والے اور انعامات خداوندی پر شکر کرنے والے کے لیے بڑی نشانیاں اور عبرت کی چیزیں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ فَقَالُوْا رَبَّـنَا بٰعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا ” تو انہوں نے کہا : اے ہمارے پروردگار ہمارے سفروں کے درمیان دوری پیدا کر دے “- ان کی یہ خواہش یا دعا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور مہربانیوں کی ناقدری کی عبرت انگیز مثال ہے۔ گویا وہ سفر کے مذکورہ مثالی انتظامات سے اکتا چکے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ ُ پر امن اور پر سکون سفر کرتے کرتے تن آسانی اور سہل انگاری کا شکار ہوجائیں گے۔ انہیں زعم تھا کہ وہ بہادر اور مہم جو قسم کے لوگ ہیں اور ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چناچہ انہوں نے دعا کی کہ ان کے سفر لمبے ہوجائیں تاکہ سفر کے دوران انہیں مشکلات و خطرات کا سامنا ہو ‘ جن کا وہ مردانہ وار مقابلہ کریں اور یوں انہیں مہم جوئی اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع ملے۔- وَظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِیْثَ وَمَزَّقْنٰہُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ ” اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں کہانیاں بنا دیا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا۔ “- اس زمانے میں یمن تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی نا شکریوں اور نا فرمانیوں کے سبب اس قوم کا ایسا نام و نشان مٹا کہ اب دنیا میں ان کی صرف داستانیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ قوم سبا پر سیلاب کے عذاب کا واقعہ بہت زیادہ پرانا نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت سے تقریباً سوا سو سال قبل یعنی ٤٥٠ عیسوی کے لگ بھگ یہ واقعہ پیش آیا۔ بند ٹوٹنے کی وجہ سے یہ علاقہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا تو زندہ بچ رہنے والے لوگ عراق اور عرب کے دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے۔ خود اوس اور خزرج کے قبائل کا تعلق بھی یمن سے تھا اور یہ لوگ اس علاقے کی تباہی کے بعد یمن سے یثرب میں آکر آباد ہوئے تھے۔ قوم سبا کی تباہی کے بعد مذکورہ تجارتی شاہراہ پر قریش مکہ کی اجارہ داری قائم ہوگئی اور جس زمانے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا آغاز ہوا اس زمانے میں قریش کے تجارتی قافلے جنوب میں یمن اور شمال میں شام و فلسطین کے درمیان آزادانہ سفر کرتے تھے۔- اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ ” یقینا اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو بڑا صبر کرنے والا ‘ شکر کرنے والا ہو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :32 ضروری نہیں ہے کہ انہوں نے زبان ہی سے یہ دعا کی ہو ۔ دراصل جو شخص بھی خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے وہ گویا زبان حال سے یہ کہتا ہے کہ خدایا ، میں ان نعمتوں کا مستحق نہیں ہوں ۔ اور اسی طرح جو قوم اللہ کے فضل سے غلط فائدہ اٹھاتی ہے وہ گویا اپنے رب سے یہ دعا کرتی ہے کہ اے پروردگار ، یہ نعمتیں ہم سے سلب کر لے کیونکہ ہم ان کے قابل نہیں ہیں ۔ علاوہ بریں آیت ( رَبَّنَا بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا ) ( خدایا ہمارے سفر دور دراز کردے ) کے الفاظ سے کچھ یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ شاید سبا کی قوم کو اپنی آبادی کی کثرت کھلنے لگی تھی اور دوسری نادان قوموں کی طرح اس نے بھی اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو خطرہ سمجھ کر انسانی نسل کی افزائش کو روکنے کی کوشش کی تھی ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :33 یعنی سبا کی قوم ایسی منتشر ہوئی کہ اس کی پراگندگی ضرب المثل ہو گئی - آج بھی اہل عرب اگر کسی گروہ کے انتشار کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں تفرقوا ایدی سبا وہ تو ایسے پراگندہ ہو گئے جیسے سبا کی قوم پراگندہ ہوئی تہی ۔ اللہ تعالی کی طرف سے جب زوال نعمت کا دور شروع ہوا تو سبا کے مختلف قبیلے اپنا وطن چھوڑ چھوڑ کر عرب کے مختلف علاقوں میں چلے گئے ۔ غسانیوں نے اردن اور شام کا رخ کیا ۔ اوس و خزرج کے قبیلے یثرب میں جا بسے ۔ خزاعہ نے جدے کے قریب تہامہ کے علاقہ میں سکونت اختیار کی ۔ اَزد کا قبیلہ عمان میں جا کر آباد ہوا ۔ لخم اور جذام اور کندہ بھی نکلنے پر مجبور ہوئے ۔ حتی کہ سبا نام کی کوئی قوم ہی دنیا میں باقی نہ رہی ۔ صرف اس کا ذکر افسانوں میں رہ گیا ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :34 اس سیاق و سباق میں صابر و شاکر سے مراد ایسا شخص یا گروہ ہے جو اللہ کی طرف سے نعمتیں پاکر آپے سے باہر نہ ہو جائے ، نہ خوشحالی پر پھولے اور نہ اس خدا کو بھول جائے جس نے یہ سب کچھ اسے عطا کیا ہے ۔ ایسا انسان ان لوگوں کے حالات سے بہت کچھ سبق لے سکتا ہے جنہوں نے عروج و ترقی کے مواقع پاکر نافرمانی کی روش اختیار کی اور اپنے انجام بد سے دوچار ہو کر رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: یہ اﷲ تعالیٰ کے ایک اور اِنعام کا ذکر ہے جو سبا کی قوم پر فرمایا گیا تھا۔ یہ لوگ تجارتی مقاصد کے لئے یمن سے شام کا سفر کیا کرتے تھے، اﷲ تعالیٰ نے اِن کی سہولت کے لئے یہ انتظام فرمایا تھا کہ یمن سے لے کر شام تک کے پورے علاقے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بستیاں بسائی تھیں۔ جو سفرکے دوران تھوڑے تھوڑے وقفے سے نظر آتی رہتی تھیں، اِس کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ سفر کو آسان مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا تھا، اور مسافر جہاں چاہے، کھانے پینے اور سونے کے لئے ٹھہر سکتا تھا اور دُوسرا فائدہ یہ تھا کہ اِس طرح بستیوں کے تسلسل کی وجہ سے نہ چوری ڈاکے کا خطرہ تھا، نہ راستہ بھٹک جانے کا، نہ کھانے پینے کے سامان کے ختم ہوجانے کا، لیکن بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس نعمت کی قدر پہچان کر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے، اُنہوں نے اُلٹا اﷲ تعالیٰ سے یہ کہنا شروع کردیا کہ بستیوں کے اس تسلسل کی وجہ سے ہمیں سفر کی مہم جوئی کا مزہ ہی نہیں آتا، اِس لئے یہ بستیاں ختم کرکے منزلوں کا فاصلہ بڑھادیجئے، تاکہ صحراوں اور جنگلوں میں سفر کرنے کا لطف آئے۔