ابلیس اور اس کا عزم ۔ سبا کے قصے کے بیان کے بعد شیطان کے اور مریدوں کا عام طور پر ذکر فرماتا ہے کہ وہ ہدایت کے بدلے ضلالت بھلائی کے بدلے برائی لے لیتے ہیں ۔ ابلیس نے راندہ درگاہ ہو کر جو کہا تھا کہ میں ان کی اولاد کو ہر طرح برباد کرنے کی کوشش کروں گا اور تھوڑی سی جماعت کے سوا باقی سب لوگوں کو تیری سیدھی راہ سے بھٹکا دوں گا ۔ اس نے یہ کر دکھایا اور اولاد آدم کو اپنے پنجے میں پھانس لیا ۔ جب حضرت آدم و حوا اپنی خطا کی وجہ سے جنت سے اتار دیئے گئے اور ابلیس لعین بھی ان کے ساتھ اترا اس وقت وہ بہت خوش تھا اور جی میں اترا رہا تھا کہ جب انہیں میں نے بہکا لیا تو ان کی اولاد کو تباہ کر دینا تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ اس خبیث کا قول تھا کہ میں ابن آدم کو سبز باغ دکھاتا رہوں گا غفلت میں رکھوں گا ۔ طرح طرح سے دھوکے دوں گا اور اپنے جال میں پھنسائے رکھوں گا ۔ جس کے جواب میں جناب باری جل جلالہ نے فرمایا تھا مجھے بھی اپنی عزت کی قسم موت کے غرغرے سے پہلے جب کبھی وہ توبہ کرے گا میں فوراً قبول کرلوں گا ۔ وہ مجھے جب پکارے گا میں اس کی طرف متوجہ ہو جاؤں گا ۔ مجھ سے جب کبھی جو کچھ مانگے گا میں اسے دوں گا ۔ مجھ سے جب وہ بخشش طلب کرے گا میں اسے بخش دوں گا ۔ ( ابن ابی حاتم ) ، اس کا کوئی غلبہ ، حجت ، زبردستی ، مارپیٹ انسان پر نہ تھی ۔ صرف دھوکہ ، فریب اور مکر بازی تھی جس میں یہ سب پھنس گئے ۔ اس میں حکمت الٰہی یہ تھی کہ مومن و کافر ظاہر ہو جائیں ۔ حجت اللہ ختم ہو جائے آخرت کو ماننے والے شیطان کی نہیں مانیں گے ۔ اس کے منکر رحمان کی اتباع نہیں کریں گے ۔ اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے ۔ مومنوں کی جماعت اس کی حفاظت کا سہارا لیتی ہے اس لئے ابلیس ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور کافروں کی جماعت خود اللہ کو چھوڑ دیتی ہے اس لئے ان پر سے اللہ کی نگہبانی ہٹ جاتی ہے اور وہ شیطان کے ہر فریب کا شکار بن جاتے ہیں ۔
[ ٣٣] جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کرکے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا تو ابلیس نے سجدہ سے انکار کردیا تھا اور جب آدم و ابلیس کی آپس میں ٹھن گئی تو ابلیس آدم کو چکمہ دینے پر اور اللہ کی نافرمانی پر اکسانے میں کامیابی ہوگیا تو اس وقت ہی اس نے یہ خیال ظاہر کردیا تھا اور اللہ تعالیٰ کو برملا کہہ دیا تھا کہ میں اولاد آدم کے اکثر حصہ کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔ تھوڑے ہی تیرے ایسے بندے ہوں گے جو تیرے شکرگزار بن کر رہیں گے۔ قوم سبا کے حالات سے بھی یہی نتیجہ سامنے آتا ہے اور دوسرا اقوام کے حالات سے بھی کہ ابلیس فی الواقعہ ایسا گمان کرنے میں سچا تھا۔
وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ ۔۔ : یعنی ابلیس نے آدم (علیہ السلام) کو سجدے سے انکار کے بعد جس گمان کا اظہار کیا تھا کہ تو ان کے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔ (دیکھیے اعراف : ١٧) اس ظالم نے قوم سبا کو گمراہ کر کے ان کے بارے میں اپنے اس گمان کو سچا کر دکھایا، چناچہ وہ سب اس کے پیچھے لگ گئے، صرف مومنوں کا ایک گروہ اس سے محفوظ رہا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ سبا میں بھی ہمیشہ کچھ لوگ ایسے موجود رہے جو اللہ واحد کی عبادت پر قائم رہے اور شیطان ان پر اپنا تسلّط قائم نہ کرسکا۔
خلاصہ تفسیر - اور واقعی ابلیس نے اپنا گمان ان لوگوں کے بارے میں (یعنی بنی آدم کے بارے میں) صحیح پایا (یعنی اس کو جو یہ گمان تھا کہ میں آدم کی اکثر ذریت کو گمراہ کر دوں گا، کیونکہ یہ مٹی سے اور میں آگ سے پیدا ہوا ہوں (درمنثور) اس کا یہ گمان صحیح نکلا) کہ یہ سب اسی راہ پر ہو لئے مگر ایمان والوں کا گروہ (کہ ان میں ایمان کامل والے تو بالکل محفوظ رہے، اور ضعیف الایمان گو گناہوں میں مبتلا ہوگئے، مگر شرک و کفر سے وہ بھی محفوظ رہے) اور ابلیس کا ان لوگوں پر (جو) تسلط (بطور اغوا کے ہے وہ) بجز اس کے اور کسی وجہ سے نہیں کہ ہم کو (ظاہری طور پر) ان لوگوں کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ان لوگوں سے (الگ کر کے) معلوم کرنا ہے جو اس کی طرف سے شک میں ہیں (یعنی مقصود امتحان ہے کہ مومن و کافر میں امتیاز ہوجائے، تاکہ بمقتضائے عدل و حکمت ثواب و عذاب کے احکام جاری ہوں) اور (چونکہ) آپ کا رب ہر چیز کا نگراں ہے (جس میں لوگوں کا ایمان و کفر بھی داخل ہے) اس لئے ہر ایک کو مناسب جزاء و سزا ملے گی)
وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْہِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّہٗ فَاتَّبَعُوْہُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ٢٠- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - بلس - الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] ، وقال تعالی:- أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» .- ( ب ل س )- الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔ - ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
اور واقعتا ابلیس نے ان لوگوں کے بارے میں اپنا گمان بالکل صحیح پایا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ سب کفر اختیار کر کے اسی کے راستہ پر چلے سواوئے ایمان والوں کی جماعت کے یا یہ کہ سب نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں شیطان کی راہ اختیار کی مگر مسلمانو کی ایک جماعت نے جن کی تعداد ستر ہزار ہے جو کہ جنت میں بغیر حساب و عذاب کے داخل ہوں گے۔
آیت ٢٠ وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْہِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ ” اور یقینا ابلیس نے ان کے بارے میں اپنا گمان سچ کر دکھایا “- فَاتَّبَعُوْہُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ” سو ان سب نے اس (ابلیس) کی پیروی کی ‘ سوائے مومنین کی ایک جماعت کے۔ “
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :35 تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قدیم زمانے سے قوم سبا میں ایک عنصر موجود تھا جو دوسرے معبودوں کو ماننے کے بجائے خدائے واحد کو مانتا تھا ۔ موجودہ زمانے کی اثری تحقیقات کے سلسلے میں یمن کے کھنڈروں سے جو کتبات ملے ہیں ان میں سے بعض اس قلیل عنصر کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ 650 قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے کے بعض کتبات بتاتے ہیں کہ مملکت سبا کے متعدد مقامات پر ایسی عبادت گاہیں بنی ہوئی تھیں جو ذسموی یا ذو سماوی ( یعنی رب السماء ) کی عبادت کے لیے مخصوص تھیں ۔ بعض مقامات پر اس معبود کا نام ملکن ذُسموی ( وہ بادشاہ جو آسمانوں کا مالک ہے ) لکھا گیا ہے ۔ یہ عنصر مسلسل صدیوں تک یمن میں موجود رہا ۔ چنانچہ 378 کے ایک کتبے میں بھی الٰہ ذو سموی کے نام سے ایک عبادت گاہ کی تعمیر کا ذکر ملتا ہے ۔ پھر 465 کے ایک کتبے میں یہ الفاظ پائے جاتے ہیں: بنصر وردا الٰھن بعل سمین وارضین ( یعنی اس خدا کی مدد اور تائید سے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے ) ۔ اسی زمانہ کے ایک اور کتبے میں جس کی تاریخ 458 قبل مسیح ہے اسی خدا کے لیے رحمان کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ اصل الفاظ ہیں بردا رحمنن ( یعنی رحمان کی مدد سے ) ۔
14: یعنی ابلیس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت جو خیال ظاہر کیا تھا کہ میں آدم (علیہ السلام) کی اولاد کو بہکاؤں گا، ان سرکش لوگوں کے حق میں وہ واقعی درست نکلا کہ انہوں نے اس کی بات مان لی۔