[ ٣٤] ابلیس کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں کہ وہ زبردستی لوگوں کو اللہ کی راہ سے اپنی راہ پر ڈال دے۔ وہ صرف یہی اختیار رکھتا ہے کہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈال سکے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتا اور شیطان کے انسان کو گمراہ کرنے کے سب سے زیادہ موثر تین طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ انسان کو شرک کی نئی سے نئی راہیں بڑے خوبصورت انداز میں پیش کردیتا ہے۔ اور دوسرے اسے عقیدہ آخرت کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کردیتا ہے۔ یا عقیدہ آخرت میں ایسے جزوی عقائد شامل کردیتا ہے کہ عقیدہ آخرت کے اصل مقصد ہی فوت ہوجائے اور عقیدہ آخرت کا صحیح مفہوم ہی وہ چیز ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ پر قائم رکھ سکتا ہے اور اس کا تیسرا وار اس کے لباس پر ہوتا ہے اور وہ لوگوں کو عریانی، بےحیائی اور فحاشی کی راہیں خوبصورت انداز میں سجھاتا رہتا ہے۔- [ ٣٥] یعنی اللہ یہ بات بھی خوب جانتا ہے کہ اس نے ابلیس کو کس حد تک لوگوں کو گمراہ کرنے کا اختیار دے رکھا ہے اور وہ یہ خوب جانتا ہے کہ ابلیس صرف ان لوگوں کو ہی گمراہ کرسکتا ہے جو پہلے سے شیطان کے اشارے کے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ وہ اس کے چکمے میں نہیں آتے اور کبھی آبھی جائیں تو انھیں جلد ہی اس بات کا احساس ہوجاتا ہے اور فوراً پھر اللہ کی طرف پلٹ آتے ہیں۔
وَمَا كَانَ لَهٗ عَلَيْهِمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ : یعنی ابلیس کو یہ طاقت حاصل نہ تھی کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کرنا چاہے اسے زبردستی ڈنڈے کے زور سے نافرمانی کی راہ پر کھینچ کرلے جائے۔ اسے صرف یہ اختیار تھا کہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈال سکے، اسے سبز باغ دکھا کر دھوکے میں مبتلا کرے اور اس کے سامنے گناہوں کو خوش نما کر کے پیش کرے۔- اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يُّؤْمِنُ بالْاٰخِرَةِ : یعنی ابلیس کو یہ اختیار دینے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ معلوم ہوجائے کہ کون آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور کون ہے جسے اس میں شک ہے اور سب دیکھ لیں کہ رحمٰن کی بات ماننے والا کون ہے اور شیطان کی پیروی کرنے والا کون، جنتی کون ہے اور جہنمی کون۔- مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِيْ شَكٍّ : معلوم ہوا آخرت میں شک کرنا بھی کفر ہے اور سبا والوں کی ناشکری اور سرکشی کا اصل سبب یہ تھا کہ انھیں آخرت پر یقین نہیں تھا۔ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ صحیح عقیدہ ہی انسان کو راہ راست پر قائم رکھ سکتا ہے اور آخرت پر یقین ہی ایسی چیز ہے جو انسان کو سیدھے راستے پر چلنے کا پابند رکھتی ہے۔- وَرَبُّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ تیرا رب ہر چیز پر پوری طرح نگران اور نگہبان ہے، کوئی چیز اس کی حفاظت اور نگرانی سے باہر نہیں، نہ ہی شیطان اس سے زبردست ہو کر کسی کو گمراہ کرسکتا ہے، اس نے خود ہی اپنی حکمت کے تحت اسے آزمائش کے لیے اور حجت تمام کرنے کے لیے انسانوں کے دل میں وسوسہ ڈالنے کا اختیار دے رکھا ہے۔
وَمَا كَانَ لَہٗ عَلَيْہِمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يُّؤْمِنُ بِالْاٰخِرَۃِ مِمَّنْ ہُوَمِنْہَا فِيْ شَكٍّ ٠ ۭ وَرَبُّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ ٢١ۧ- سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - شكك - الشَّكُّ : اعتدال النّقيضين عند الإنسان وتساويهما،- والشَّكُّ :- ضرب من الجهل، وهو أخصّ منه، لأنّ الجهل قد يكون عدم العلم بالنّقيضين رأسا، فكلّ شَكٍّ جهل، ولیس کلّ جهل شكّا، قال اللہ تعالی: وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] - ( ش ک ک ) الشک - کے معنی دونقیضوں کے ذہن میں برابر اور مساوی ہونے کے ہیں ۔- الشک :- شک جہالت ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس سے اخص ہے کیونکہ جہل میں کبھی سرے سے نقیضیں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ پس ہر شک جھل ہے مگر ہر جہل شک نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] وہ تو اس سے قوی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔
ار ابلیس کا جو انسانوں پر تسلط ہے سب اسی کی راہ پر ہو رہے ہیں سوائے اس کے اور کسی وجہ سے نہیں کہ ہمیں ظاہری طور پر نمایاں کر کے ان لوگوں کی جماعت کو جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں ان لوگوں سے ممتاز کر کے معلوم کرنا ہے جو قیام قیامت کے بارے میں شک میں ہیں اور کیونکہ اے نبی کریم آپ کا پروردگار ان کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے۔
آیت ٢١ وَمَا کَانَ لَہٗ عَلَیْہِمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ ” اور اس کو ان پر کوئی اختیار حاصل نہیں تھا “- ابلیس کا انسانوں پر کوئی زور نہیں چلتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو صرف مہلت دے رکھی ہے۔ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ انسانوں کو حیلے بہانے سے ورغلاتا اور انہیں سبز باغ دکھاتا ہے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتا اور اسے یہ مہلت بھی انسانوں کی آزمائش کے لیے دی گئی ہے۔ - اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یُّؤْمِنُ بِالْاٰخِرَۃِ ” مگر یہ کہ ہم دیکھ لیں کہ کون ہے جو آخرت پر یقین رکھتا ہے “- تاکہ آخرت پر ایمان رکھنے والے لوگوں کی پہچان ہوجائے اور انہیں ہم چھانٹ کر الگ کرلیں :- مِمَّنْ ہُوَ مِنْہَا فِیْ شَکٍّ وَرَبُّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَفِیْظٌ ” ان لوگوں سے جو اس سے متعلق شک میں ہیں۔ اور آپ کا پروردگار ہرچیز پر نگران ہے۔ “
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :36 یعنی ابلیس کو یہ طاقت حاصل نہ تھی کہ ان کا ارادہ تو خدا کی فرمانبرداری کرنے کا ہو مگر وہ زبردستی ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں نافرمانی کی راہ پر کھینچ لے گیا ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی قدرت اس کو دی تھی کہ وہ انہیں بہکائے اور ایسے تمام لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لے جو خود اس کی پیروی کرنا چاہیں ۔ اور اس اغوا کے مواقع ابلیس کو اس لیے عطا کیے گئے تاکہ آخرت کے ماننے والوں اور اس کی آمد میں شک رکھنے والوں کا فرق کھل جائے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ ارشاد ربانی اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ عقیدہ آخرت کے سوا کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جو اس دنیا میں انسان کو راہ راست پر قائم رکھنے کی ضامن ہو سکتی ہو ۔ اگر کوئی شخص یہ نہ مانتا ہو کہ اسے مر کر دوبارہ اٹھنا ہے اور اپنے خدا کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے ، تو وہ لازماً گمراہ و بد راہ ہو کر رہے گا ، کیونکہ اس کے اندر سرے سے وہ احساس ذمہ داری پیدا ہی نہ ہو سکے گا جو آدمی کو راہ راست پر ثابت قدم رکھتا ہے ۔ اسی لیے شیطان کا سب سے بڑا حربہ ، جس سے وہ آدمی کو اپنے پھندے میں پھانستا ہے ، یہ ہے کہ وہ اسے آخرت سے غافل کرتا ہے ۔ اس کے اس فریب سے جو شخص بچ نکلے وہ کبھی اس بات پر راضی نہ ہو گا کہ اپنی اصل دائمی زندگی کے مفاد کو دنیا کی اس عارضی زندگی کے مفاد پر قربان کر دے ۔ بخلاف اس کے جو شخص شیطان کے دام میں آ کر آخرت کا منکر ہو جائے ، یا کم از کم اس کی طرف سے شک میں پڑ جائے ، اسے کوئی چیز اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتی کہ جو نقد سودا اس دنیا میں ہو رہا ہے اس سے صرف اس لیے ہاتھ اٹھا لے کہ اس سے کسی بعد کی زندگی میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ دنیا میں جو شخص بھی گمراہ ہوا ہے اسی انکار آخرت یا شک فی الآخرۃ کی وجہ سے ہوا ہے ، اور جس نے بھی راست روی اختیار کی ہے اس کے صحیح طرز عمل کی بنیاد ایمان بالآخرۃ ہی پر قائم ہوئی ہے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :37 قوم سبا کی تاریخ کی طرف یہ اشارات جو قرآن مجید میں کیے گئے ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ معلومات بھی ہماری نگاہ میں رہیں جو اس قوم کے متعلق دوسرے تاریخی ذرائع سے فراہم ہوئی ہیں ۔ تاریخ کی رو سے سبا جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام ہے جو چند بڑے بڑے قبائل پر مشتمل تھی ۔ امام احمد ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، ابن عبدالبرّ اور ترمذی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے کہ سبا عرب کے ایک شخص کا نام تھا جس کی نسل سے عرب میں حسب ذیل قبیلے پیدا ہوئے : کِنْدَہ ۔ حِمْرَ ۔ اَزْد ۔ اَشْعَریین ۔ مَذْحِج ۔ اَنْمار ) جس کی دو شاخیں ہیں خَثْعَمْ اور بَجیْلَہ ) ۔ عامِلہ ۔ جُدّام ۔ لَحْم اور غسان ۔ بہت قدیم زمانے سے دنیا میں عرب کی اس قوم کا شہرہ تھا ۔ 2500 قبل مسیح میں اُور کے کتبات اس کا ذکر سابوم کے نام سے کرتے ہیں ۔ اس کے بعد بابِل اور آشور ( اسیریا ) کے کتبات میں اور اسی طرح بائیبل میں بھی کثرت سے اس کا ذکر آیا ہے ، ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو زَبور ، 72: 15 ۔ یرمیاہ 6:20 ۔ حذقی ایل 27:22 ۔ 38:13 ۔ ایوب 6:19 ) یونان و روم کے مورخین و جغرافیہ نویس تھیو فراسٹس ( 288 قبل مسیح ) کے وقت سے مسیح کے بعد کی کئی صدیوں تک مسلسل اس کا ذکر کرتے چلے گئے ہیں ۔ اس کا وطن عرب کا جنوبی کونہ تھا جو آج یمن کے نام سے مشہور ہے ۔ اس کے عروج کا دور گیارہ سو برس قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے ۔ حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں ایک دولت مند قوم کی حیثیت سے اس کا شہرہ آفاق میں پھیل چکا تھا ۔ آغاز میں یہ ایک آفتاب پرست قوم تھی ۔ پھر جب اس کی ملکہ حضرت سلیمان ( 965 ۔ 926 قبل مسیح ) کے ہاتھ پر ایمان لے آئی تو اغلب یہ ہے کہ اس کی غالب اکثریت مسلمان ہو گئی تھی ۔ لیکن بعد میں نہ معلوم کس وقت اس کے اندر شرک و بت پرستی کا پھر زور ہو گیا اور اس نے اَلْمقہ ( چاند دیوتا ) ، عَشْتَر ( زُہرہ ) ذاتِ حمیم اور ذابِ بعدان ( سورج دیوی ) ہوبس ، حرمتم یا حریمت اور ایسے ہی دوسرے بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کو پوجنا شروع کر دیا ۔ اَلْمقہ اس قوم کا سب سے بڑا دیوتا تھا ، اور اس کے بادشاہ اپنے آپ کو اسی دیوتا کے وکیل کی حیثیت سے اطاعت کا حق دار قرار دیتے ۔ یمن میں بکثرت کتبات ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سارا ملک ان دیوتاؤں ، اور خصوصاً اَلمقہ کے مندروں سے بھرا ہوا تھا اور ہر اہم واقعہ پر ان کے شکریے ادا کیے جاتے تھے ۔ آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں یمن سے تقریباً 3 ہزار کتبات فراہم ہوئے ہیں جو اس قوم کی تاریخ پر اہم روشنی ڈالتے ہیں ۔ اس کے ساتھ عربی روایات اور رومی و یونانی تواریخ کی فراہم کردہ معلومات کو اگر جمع کر لیا جائے تو اچھی خاصی تفصیل کے ساتھ اس کی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے ۔ ان معلومات کی رو سے اس کی تاریخ کے اہم ادوار حسب ذیل ہیں: 1 ۔ 650 قبل مسیح سے پہلے کا دور ۔ اس زمانے میں ملوک سبا کا لقب مُکَرِّبِ سبا تھا ۔ اغلب یہ ہے کہ یہ لفظ مُقَرِّب کا ہم معنی تھا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بادشاہ انسانوں اور خداؤں کے درمیان اپنے آپ کو واسطہ قرار دیتے تھے ، یا دوسرے الفاظ میں یہ کاہن بادشاہ ( - ) تھے ۔ اس زمانے میں ان کا پایہ تخت صرواح تھا جس کے کھنڈر آج بھی مارِب سے مغرب ایک دن کی راہ پر پائے جاتے ہیں اور خَربیہ کے جام سے مشہور ہیں ۔ اسی دور میں مارب کے چند بند کی بنا رکھی گئی اور وقتاً فوقتاً مختلف بادشاہوں نے اسے وسیع کیا ۔ 2 ۔ 650 قبل مسیح سے 115 قبل مسیح تک کا دور ۔ اس دور میں سبا کے بادشاہوں نے مکرب کا لقب چھوڑ کر مَلِک ( بادشاہ ) کا لقب اختیار کر لیا ، جس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت میں مذہبیت کی جگہ سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب ہو گیا اس زمانے میں ملوکِ سبا نے صرواح کو چھوڑ کر مارب کو اپنا دار السلطنت بنایا اور اسے غیر معمولی ترقی دی ۔ یہ مقام سمندر سے 3900 فیٹ کی بلندی پر صنعاء سے 60 میل جانب مشرق واقع اور آج تک اس کے کھنڈر شہادت دے رہے ہیں کہ یہ کبھی ایک بڑی متمدن قوم کا مرکز تھا ۔ 3 ۔ 115 ق م سے 300 عیسوی تک کا دور ۔ اس زمانے میں سبا کی مملکت پر حمیر کا قبیلہ غالب ہو گیا جو قوم سبا ہی کا ایک قبیلہ تھا اور تعداد میں دوسرے تمام قبائل سے بڑھا ہوا تھا ۔ اس دور میں مارب کو اجاڑ کر رَیدان پایہ تخت بنایا گیا جو قبیلہ حمیر کا مرکز تھا ۔ بعد میں یہ شہر ظفار کے نام سے موسوم ہوا ۔ آج کل موجودہ شہر یریم کے قریب ایک مدوَّر پہاڑی پر اس کے کھنڈر ملتے ہیں اور اسی کے قریب علاقہ میں ایک چھوٹا سا قبیلہ حمیر کے نام سے آباد ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص تصور تک نہیں کر سکتا کہ یہ اسی قوم کی یاد گار ہے جس کے ڈنکے کبھی دنیا بھر میں بجتے تھے ۔ اسی زمانے میں سلطنت کے ایک حصہ کی حیثیت سے پہلی مرتبہ لفظ یمنت اور یمینات کا استعمال ہونا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ یمن اس پورے علاقے کا نام ہو گیا جو عرب کے جنوبی مغربی کونے پر عسیر سے عدن تک اور باب المندب سے حضر موت تک واقع ہے ۔ یہی دور ہے جس میں سبائیوں کا زوال شروع ہوا ۔ 4 ۔ 300 کے بعد سے آغاز اسلام تک کا دور ۔ یہ قوم سبا کی تباہی کا دور ہے ۔ اس دور میں ان کے ہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں ۔ بیرونی قوموں کی مداخلت شروع ہوئی ۔ تجارت برباد ہوئی ۔ زراعت نے دم توڑا اور آخر کار آزادی تک ختم ہو گئی ۔ پہلے رَیدانیوں ، حمیریوں ، اور ہمدانیوں کی باہمی نزاعات سے فائدہ اٹھا کر 340 سے 378 تک یمن پر حبشیوں کا قبضہ رہا ۔ پھر آزادی تو بحال ہو گئی مگر مارب کے مشہور بند میں رخنے پڑنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ آخر کار 450 یا 451 میں بند کے ٹوٹنے سے وہ عظیم سیلاب آیا جس کا ذکر قرآن مجید کی آیات میں کیا گیا ہے ۔ اگرچہ اس کے بعد اَبرہہ کے زمانے تک اس بند کی مسلسل مرمتیں ہوتی رہیں ، لیکن جو آبادی منتشر ہو چکی تھی وہ پھر جمع نہ ہو سکی اور نہ آب پاشی اور زراعت کا وہ نظام جو درہم برہم ہو چکا تھا ، دوبارہ بحال ہو سکا ۔ 523 میں یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے نَجران کے عیسائیوں پر وہ ظلم و ستم برپا کیا جس کا ذکر قرآن مجید میں اصحاب الاُخدود کے نام سے کیا گیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں حبش کی عیسائی سلطنت یمن پر انتقاماً حملہ آور ہو گئی اور اس نے سارا ملک فتح کر لیا ۔ اس کے بعد یمن کے حبشی وائسرائے ابرہہ نے کعبہ کی مرکزیت ختم کرنے اور عرب کے پورے مغربی علاقے کو رومی حبشی اثر میں لانے کے لیے 570 یا 571 میں ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے چند روز قبل ) مکہ معظمہ پر حملہ کیا اور اس کی پوری فوج پر وہ تباہی آئی جسے قرآن مجید میں اصحاب الفیل کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے ۔ آخر کار 575 میں یمن پر ایرانیوں کا قبضہ ہوا ، اور اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب 628 میں ایرانی گورنر باذان نے اسلام قبول کر لیا ۔ قوم سبا کا عروج دراصل دو بنیادوں پر قائم تھا ۔ ایک زراعت ۔ دوسرے تجارت ۔ زراعت کو انہوں نے آب پاشی کے ایک بہترین نظام کے ذریعہ سے ترقی دی تھی جس کے مثل کوئی دوسرا نظام آب پاشی بابل کے سوا قدیم زمانے میں کہیں نہ پایا جاتا تھا ۔ ان کی سر زمین میں قدرتی دریا نہ تھے ۔ بارش کے زمانے میں پہاڑوں سے برساتی نالے بہ نکلتے تھے ۔ انہی نالوں پر سارے ملک میں جگہ جگہ بند باندھ کر انہوں نے تالاب بنا لیے تھے اور ان سے نہریں نکال نکال کر پورے ملک کو اس طرح سیراب کر دیا تھا کہ قرآن مجید کی تعبیر کے مطابق ہر طرف ایک باغ ہی باغ نظر آتا تھا ۔ اس نظام آب پاشی کا سب سے بڑا مخزن آب وہ تالاب تھا جو شہر مارب کے قریب کوہ بلق کی درمیانی وادی پر بند باندھ کر تیار کیا گیا تھا مگر جب اللہ کی نظر عنایت ان سے پھر گئی تو پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں یہ عظیم الشان بند ٹوٹ گیا اور اس سے نکلنے والا سیلاب راستے میں بند توڑتا چلا گیا یہاں تک کہ ملک کا پورا نظام آب پاشی تباہ ہو کر رہ گیا ۔ پھر کوئی اسے بحال نہ کر سکا ۔ تجارت کے لیے اس قوم کو خدا نے بہترین جغرافی مقام عطا کیا تھا جس سے اس نے خوب فائدہ اٹھایا ۔ ایک ہزار برس سے زیادہ مدت تک یہی قوم مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت کا واسطہ بنی رہی ۔ ایک طرف ان کے بندرگاہوں میں چین کا ریشم ، انڈونیشیا اور مالا بار کے گرم مسالے ، ہندوستان کے کپڑے اور تلواریں ، مشرقی افریقہ کے زنگی غلام ، بندر شتر مرغ کے پر اور ہاتھی دانت پہنچتے تھے اور دوسری طرف یہ ان چیزوں کو مصر اور شام کی منڈیوں میں پہنچاتے تھے جہاں سے روم و یونان تک یہ مال روانہ کیا جاتا تھا ۔ اس کے علاوہ خود ان کے علاقے میں لوبان ، عود ، عنبر ، مشک ، مُرّ ، قرفہ ، قصب الذَّرِیرہ ، سلیخہ اور دوسری ان خوشبو دار چیزوں کی بڑی پیداوار تھی جنہیں مصر و شام اور روم و یونان کے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے ۔ اس عظیم الشان تجارت کے دو بڑے راستے تھے ۔ ایک بحری ۔ دوسری بری ۔ بحری تجارت کا اجارہ ہزار سال تک انہی سبائیوں کے ہاتھ میں تھا ، کیونکہ بحر احمر کی موسمی ہواؤں ، زیر آپ چٹانوں ، اور لنگر اندازی کے مقامات کا راز یہی لوگ جانتے تھے اور دوسری کوئی قوم اس خطرناک سمندر میں جہاز چلانے کی ہمت نہ رکھتی تھی ۔ اس بحری راستے سے یہ لوگ اردن اور مصر کی بندرگاہوں تک اپنا مال پہنچایا کرتے تھے ۔ بری راستے عدن اور حضرموت سے مارب پر جا کر ملتے تھے اور پھر وہاں سے ایک شاہراہ مکہ ، جدہ ، یثرب ، العُلاء ، تبوک اور ایلہ سے گزرتے ہوئی پَٹرا تک پہنچتی تھی ۔ اس کے بعد ایک راستہ مصر کی طرف اور دوسرا راستہ شام کی طرف جاتا تھا ۔ اس بری راستے پر ، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے ، یمن سے حدود شام تک سبائیوں کی نو آبادیاں مسلسل قائم تھیں اور شب و روز ان کے تجارتی قافلے یہاں سے گزرتے رہتے تھے ۔ آج تک ان میں سے بہت سی نو آبادیوں کے آثار اس علاقے میں موجود ہیں اور وہاں سبائی و حمیری زبان کے کتبات مل رہے ہیں ۔ پہلی صدی عیسوی کے لگ بھگ زمانے میں اس تجارت پر زوال آنا شروع ہو گیا ۔ مشرق اوسط میں جب یونانیوں اور پھر رومیوں کی طاقتور سلطنتیں قائم ہوئیں تو شور مچنا شروع ہوا کہ عرب تاجر اپنی اجارہ داری کے باعث مشرق کے اموال تجارت کی من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں اور ضرورت ہے کہ ہم خود اس میدان میں آگے بڑھ کر اس تجارت پر قبضہ کریں ۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے مصر کے یونانی الاصل فرمانروا بطلیموس ثانی ( 285 ۔ 246 قبل مسیح ) نے اس قدیم نہر کو پھر سے کھولا جو 17 سو برس پہلے فرعون سِسوسترِیس نے دریائے نیل کو بحر احمر سے ملانے کے لیے کھدوائی تھی ۔ اس نہر کے ذریعہ سے مصر کا بحری بیڑا پہلی مرتبہ بحر احمر میں داخل ہوا ۔ لیکن سبائیوں کے مقابلے میں یہ کوشش زیادہ کارگر نہ ہو سکی ۔ پھر جب مصر پر روم کا قبضہ ہوا تو رومی زیادہ طاقتور تجارتی بیڑا بحر احمر میں لے آئے اور اس کی پشت پر انہوں نے ایک جنگی بیڑا بھی لا کر ڈال دیا ۔ اس طاقت کا مقابلہ سبائیوں کے بس میں نہ تھا ۔ رومیوں نے جگہ جگہ بندرگاہوں پر اپنی تجارتی نو آبادیاں قائم کیں ، ان میں جہازوں کی ضروریات فراہم کرنے کا انتظام کیا ، اور جہاں ممکن ہو وہاں اپنے فوجی دستے بھی رکھ دیئے ۔ حتیٰ کہ ایک وقت وہ آ گیا کہ عدن پر رومیوں کا فوجی تسلط قائم ہو گیا ۔ اسی سلسلے میں رومی اور حبشی سلطنتوں نے سبائیوں کے مقابلے میں باہم ساز باز بھی کر لیا جس کی بدولت بالآخر اس قوم کی آزادی تک ختم ہو گئی ۔ بحری تجارت ہاتھ سے نکل جانے کے بعد صرف بری تجارت سبائیوں کے پاس رہ گئی تھی ۔ مگر بہت سے اسباب نے رفتہ رفتہ اس کی کمر بھی توڑ دی ۔ پہلے نَبطیوں نے پیڑا سے الُعلا تک بالائی حجاز اور اردن کی تمام نو آبادیوں سے سبائیوں کو نکال باہر کیا ۔ پھر 106 میں رومیوں نے نبطی سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور حجاز کی سرحد تک شام و اردن کے تمام علاقے ان کے مضبوط ہاتھوں میں چلے گئے ۔ اس کے بعد حبش اور روم کی متحدہ کوشش یہ رہی کہ سبائیوں کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھا کر ان کی تجارت کو بالکل تباہ کر دیا جائے ۔ اسی بنا پر حبشی بار بار یمن میں مداخلت کرتے رہے یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے پورے ملک پر قبضہ کر لیا ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے غضب نے اس قوم کو انتہائی عروج سے گرا کر اس گڑھے میں پھینک دیا جہان سے پھر کوئی مغضوب قوم کبھی سر نہیں نکال سکی ہے ۔ ایک وقت تھا کہ اس کی دولت کے افسانے سن سن کر یونان و روم والوں کے منہ میں پانی بھر آتا تھا ۔ اسٹرابو لکھتا ہے کہ یہ لوگ سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرتے ہیں ، اور ان کے مکانوں کی چھتوں ، دیواروں اور دروازوں تک میں ہاتھی دانت ، سونے ، چاندی اور جواہر کا کام بنا ہوا ہوتا ہے ۔ پلینی کہتا ہے کہ روم اور فارس کی دولت ان کی طرف بہی چلی جا رہی ہے ، یہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم ہیں ، اور ان کا سر سبز و شاداب ملک باغات ، کھیتوں اور مواشی سے بھرا ہوا ہے ۔ آرٹی میڈورس کہتا ہے کہ یہ لوگ عیش میں مست ہو رہے ہیں اور جلانے کی لکڑی کے بجائے دار چینی ، صندل اور دوسری خوشبو دار لکڑیاں جلاتے ہیں ۔ اسی طرح دوسرے یونانی مورخین روایت کرتے ہیں کہ ان کے قریب سواحل سے گزرتے ہوئے تجارتی جہازوں تک خوشبو کی لپیٹیں پہنچتی ہیں ۔ انہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ صنعا کے بلند پہاڑی مقام پر وہ فلک شگاف عمارت ( ) تعمیر کی جو قصر غُمدان کے نام سے صدیوں تک رہا جب تک اللہ کا فضل ان کے شامل حال رہا ۔ آخر کار جب انہوں نے کفران نعمت کی حد کر دی تو رب قدیر کی نظر عنایت ہمیشہ کے لیے ان سے پھر گئی اور ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔
15: یعنی شیطان کو ہم نے کوئی ایسی طاقت نہیں دی تھی کہ وہ انسانوں پر زبردستی مسلط ہو کر ان کو نافرمانی پر مجبور کردے، البتہ اسے صرف بہکانے کی صلاحیت دی تھی، جس سے دل میں گناہ کی خواہش ضرور پیدا ہوجاتی ہے، مگر کوئی شخص گناہ اور نافرمانی پر مجبور نہیں ہوتا، اور اگر کوئی شخص عقل اور شریعت کے مطالبے پر ڈٹ جائے تو شیطان کچھ بھی نہیں کرسکتا اور یہ صلاحیت بھی اس کو اس لئے دی گئی ہے کہ اس کے ذریعے انسانوں کی آزمائش بھی مقصود تھی کہ کون ہے جو آخرت کی زندگی کو پیش نظر رکھ کر شیطان کی بات رد کردیتا ہے اور کون اسے مان لیتا ہے۔