وحدہ لاشریک بیان ہو رہا ہے کہ اللہ اکیلا ہے ، واحد ہے ، احد ہے ، فرد ہے ، صمد ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بےنظیر ، لاشریک اور بےمثیل ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، ساتھی نہیں ، مشیر نہیں ، وزیر نہیں ، مددگار و پیشی بان نہیں ۔ پھر ضد کرنے والا اور خلاف کہنے والا کہاں؟ جن جن کو پکارا کرتے و پکار کر دیکھ لو معلوم ہو جائے گا کہ ایک ذرے کے بھی مختار نہیں ۔ محض بےبس اور بالکل محتاج و عاجز ہیں ، نہ زمینیوں میں ان کی کچھ چلے نہ آسمانوں میں جیسے اور آیت میں ہے کہ وہ ایک کھجور کے چھلکے کے سی مالک نہیں اور یہی نہیں کہ انہیں خود اختیاری حکومت نہ ہو نہ سہی شرکت کے طور پر ہی ہو نہیں شرکت کے طور پر بھی نہیں ۔ نہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے کسی کام میں مدد لیتا ہے ۔ بلکہ یہ سب کے سب فقیر محتاج ہیں اس کے در کے غلام اور اس کے بندے ہیں ، اس کی عظمت و کبریائی عزت و بڑائی ایسی ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے کسی کی جرات نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش بغیر اس کی رضامندی کے بغیر کر سکے اور آیت میں ہے ( وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِيْ شَفَاعَتُهُمْ شَـيْــــًٔا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ يَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَرْضٰى 26 ) 53- النجم:26 ) ، یعنی آسمانوں کے کل فرشتے بھی اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لئے لب ہلا نہیں سکتے مگر جس کے لئے اللہ اپنی رضامندی سے اجازت دے دے ۔ ایک اور جگہ فرمان ہے ( وَلَا يَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ 28 ) 21- الأنبياء:28 ) ، وہ لوگ صرف ان کی شفاعت کر سکتے ہیں جن کے لئے اللہ کی رضامندی ہو وہ تو خود ہی اس کے خوف سے تھرا رہے ہیں ۔ تمام اولاد آدم کے سردار سب سے بڑے شفیع اور سفارشی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب قیامت کے دن مقام محمود میں شفاعت کے لئے تشریف لے آئیں گے کہ اللہ تعالیٰ آئے اور مخلوق کے فیصلے کرے اس وقت کی نسبت آپ فرماتے ہیں میں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا اللہ جانتا ہے کہ کب تک سجدے میں پڑا رہو گا اس سجدے میں اس قدر اپنے رب کی تعریفیں بیان کروں گا کہ اس وقت تو وہ الفاظ بھی مجھے معلوم نہیں ۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھایئے آپ بات کیجئے آپ کی بات سنی جائے گی آپ مانگئے آپ کو دیا جائے گا ۔ آپ شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی ۔ رب کی عظمت کا ایک اور مقام بیان ہو رہا ہے کہ جب وہ اپنی وحی میں کلام کرتا ہے اور آسمانوں کے مقرب فرشتے اسے سنتے ہیں تو ہیبت سے کانپ اٹھتے ہیں اور غشی والے کی طرح ہو جاتے ہیں جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ ہٹ جاتی ہے ۔ فزع کی دوسری قرأت فرغ بھی آئی ہے مطلب دونوں کا ایک ہے ۔ تو اب آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں کہ اس وقت رب کا کیا حکم نازل ہوا ؟ پس اہل عرش اپنے پاس والوں کو وہ اپنے پاس والوں کو یونہی درجہ بدرجہ حکم پہنچا دیتے ہیں بلا کم و کاست ٹھیک ٹھیک اسی طرح پہنچا دیتے ہیں ۔ ایک مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب سکرات کا وقت آتا ہے ۔ اس وقت مشرک یہ کہتے ہیں اور اسی طرح قیامت کے دن بھی جب اپنی غفلت سے چونکیں گے اور ہوش و حواس قائم ہو جائیں گے اس وقت یہ کہیں گے کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ جواب ملے گا کہ حق فرمایا ، حق فرمایا اور جس چیز سے دنیا میں بےفکر تھے آج اس کے سامنے پیش کر دی جائے گی ۔ تو دلوں سے گھبراہٹ دور کئے جانے کے یہ معنی ہوئے کہ جب آنکھوں پر سے پردہ اٹھا دیا جائے گا اس وقت سب شک و تکذیب الگ ہو جائیں گے ۔ شیطانی وساوس دور ہو جائیں گے اس وقت رب کے وعدوں کی حقانیت تسلیم کریں گے اور اس کی بلندی اور بڑائی کے قائل ہوں گے ۔ پس نہ تو موت کے وقت کا اقرار نفع دے نہ قیامت کے میدان کا اقرار فائدہ پہنچائے ۔ لیکن امام ابن جریر کے نزدیک پہلی تفسیر ہی راحج ہے یعنی مراد اس سے فرشتے ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے اور اس کی تائید احادیث و آثار سے بھی ہوتی ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا فیصلہ آسمان میں کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں اور رب کا کلام ایسا واقع ہوتا ہے جیسے اس زنجیر کی آواز جو پتھر پر بجائی جاتی ہو جب ہیبت کم ہو جاتی ہے ۔ تو پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے اس وقت کیا فرمایا ؟ جواب ملتا ہے کہ جو فرمایا حق ہے اور وہ اعلی و کبیر ہے ۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جو جنات فرشتوں کی باتیں سننے کی غرض سے گئے ہوئے ہیں اور جو تہ بہ تہ ایک دوسروں کے اوپر ہیں وہ کوئی کلمہ سن لیتے ہیں اوپر والا نیچے والے کو وہ اپنے سے نیچے والے کو سنا دیتا ہے اور وہ کاہنوں کے کانوں تک پہنچا دیتے ہیں ۔ ان کے پیچھے فوراً ان کے جلانے کو آگ کا شعلہ لپکتا ہے لیکن کبھی کبھی تو وہ اس کے آنے سے پہلے ہی ایک دوسرے کو پہنچا دتا ہے اور کبھی پہنچانے سے پہلے ہی جلا دیا جاتا ہے ۔ کاہن اس ایک کلمے کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پھیلاتا ہے ۔ وہ ایک بات سچی نکلتی ہے لوگ اس کے مرید بن جاتے ہیں کہ دیکھو یہ بات اس کے کہنے کے مطابق ہی ہوئی مسند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور زبردستی روشنی ہو گئی ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ جاہلیت میں تمہارا خیال ان ستاروں کے ٹوٹنے کی نسبت کیا تھا ؟ انہوں نے کہا ہم اس موقعہ پر سمجھتے تھے کہ یا تو کوئی بہت بڑا آدمی پیدا ہوا یا مرا ۔ زہری سے سوال ہوا کہ کیا جاہلیت کے زمانے میں بھی ستارے جھڑتے تھے؟ کہا ہاں لیکن کم ۔ آپ کی بعثت کے زمانے سے ان میں بہت زیادتی ہو گئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو انہیں کسی کی موت و حیات سے کوئی واسطہ نہیں ۔ بات یہ ہے کہ جب ہمارا رب تبارک و تعالیٰ کسی امر کا آسمانوں میں فیصلہ کرتا ہے تو حاملان عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں پھر ساتویں آسمان والے پھر چھٹے آسمان والے یہاں تک کہ یہ تسبیح آسمان دنیا تک پہنچتی ہے ۔ پھر عرش کے آس پاس کے فرشتے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ؟ وہ انہیں بتاتے ہیں پھر ہر نیچے والا اوپر والے سے دریافت کرتا ہے اور وہ اسے بتاتا ہے یہاں تک کہ آسمان اول والوں کو خبر پہنچتی ہے ۔ کبھی اچک لے جانے والے جنات اسے سن لیتے ہیں تو ان پر یہ ستارے جھڑتے ہیں تاہم جو بات اللہ کو پہنچانی منظور ہوتی ہے اسے وہ لے اڑتے ہیں اور اس کے ساتھ بہت کچھ باطل اور جھوٹ ملا کر لوگوں میں شہرت دیتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی امر کی وحی کرتا ہے تو آسمان مارے خوف کے کپکپا اٹھتے ہیں اور فرشتے ہیبت زدہ ہو کر سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔ سب سے پہلے حضرت جبرائیل علیہ السلام سر اٹھاتے ہیں اور اللہ کافرمان سنتے ہیں پھر ان کی زبانی اور فرشتے سنتے ہیں اور وہ کہتے جاتے ہیں کہ اللہ نے حق فرمایا وہ بلندی اور بڑائی والا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کا امین فرشتہ جس کی طرف ہو اسے پہنچا دیتا ہے ۔ حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ اس وحی کا ذکر ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نبیوں کے نہ ہونے کے زمانے میں بندہ رہ کر پھر ابتداء ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ابتدائی وحی کے بھی اس آیت کے تحت میں داخل ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن آیت اس کو اور سب کو شامل ہے ۔
22۔ 1 یعنی معبود ہونے کا۔ یہاں زعمتم کے دو مفعول محذوف ہیں زعمتموہم الھۃ یعنی جن جن کو تم معبود گمان کرتے ہو۔ 22۔ 2 یعنی انھیں نہ خیر پر کوئی اختیار ہے نہ شرپر، کسی کو فائدہ پہنچانے کی قدرت ہے، نہ نقصان سے بچانے کی، آسمان و زمین کا ذکر نہ عموم کے لئے ہے، کیونکہ تمام خارجی موجودات کے لئے یہی ظرف ہیں۔ 22۔ 3 نہ پیدائش میں نہ ملکیت میں اور نہ تصرف میں۔ 22۔ 4 جو کسی معاملے میں بھی اللہ کی مدد کرتا ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی بلا شرکت غیرے تمام اختیارات کا مالک ہے اور کسی کے تعاون کے بغیر ہی سارے کام کرتا ہے۔
[ ٣٦] یعنی ان کفار مکہ سے کہئے کہ میرا پروردگار وہ ہے جو کائنات کی ہر چیز کا خالق ہے جو اس کا شکر ادا کرتا ہے اسے وہ نعمتوں سے نوازتا ہے۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان اللہ کے شاکر بندے تھے تو اللہ نے انھیں بیشمار نعمتوں سے نوازا تھا۔ اور قوم سبا نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ اب تم بتلاؤ کہ جن معبودوں کو تم پکارتے ہو ان میں سے کوئی ایسا کام کرسکتا ہے ؟ اگر تمہیں کچھ شک ہے تو انھیں پکار کے دیکھ لو کہ کیا وہ آڑے وقت کسی کے کام آسکتے ہیں ؟ اس بات کو اس پہلو سے بھی سمجھو کہ کائنات میں کسی بھی چیز پر ان کا کچھ اختیار ہے ؟ نہ انہوں نے کسی چیز کو بنایا ہے، نہ ہی کسی چیز کی تخلیق میں ان کی شرکت ہے۔ نہ ہی ان کا ظاہری اور باطنی اسباب پر کچھ کنٹرول ہے پھر وہ تمہاری بگڑی کو سنوار کیسے سکتے ہیں اور فائدہ کیا پہنچا سکتے ہیں ؟ فائدہ یا نقصان تو وہی ہستی پہنچا سکتی ہے جس کے پاس کچھ ایسے اختیارات بھی ہوں۔ اور جو چیز خود بےاختیار اور مجبور محض ہے اس سے نفع یا نقصان کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے ؟
قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ ۔۔ : سورت کی ابتدا اس بات سے ہوئی کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اس کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور دنیا اور آخرت میں حمد کا سزا وار بھی وہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ذکر فرمایا کہ کفار آخرت کا انکار کرتے ہیں، جب کہ وہ ضرور آئے گی۔ اس کے بعد آخرت پر ایمان رکھنے والوں اور اس کے منکروں کی اور ان کے اچھے اور برے انجام کی مثال کے طور پر داؤد و سلیمان (علیہ السلام) کا اور قوم سبا کا ذکر فرمایا۔ آخرت کے بیان کے بعد یہاں سے پھر اسی توحید کا بیان شروع ہوتا ہے جس سے سورت کا آغاز ہوا تھا۔- لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ تو جسے چاہتا ہے داؤد و سلیمان (علیہ السلام) کی طرح نواز دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قوم سبا کی طرح برباد کردیتا ہے، کیونکہ وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک ہے، اب تم اپنے بناوٹی معبودوں کو پکارو، بھلا وہ تمہاری کوئی مدد کرسکتے ہیں ؟ نہیں، ہرگز نہیں، کیونکہ مدد وہ تب کریں جب ان کے پاس کوئی چیز ہو، وہ تو آسمان و زمین میں موجود ایک ذرے کے مالک بھی نہیں۔ دیکھیے سورة فاطر (١٣) ، مومنون (٨٨، ٨٩) ، نحل (٧٣) ، یونس (١٠٦) اور سورة جنّ (٢١، ٢٢) ۔- وَمَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ : یہ اس بات کا رد ہے کہ چلیے پورے مالک نہ سہی، ملکیت و اختیار میں ان کا کچھ حصہ ضرور ہے۔ دیکھیے سورة فاطر (٤٠) اور سورة احقاف (٤) ۔- وَّمَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ : نہ ہی ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کا مددگار ہے جس سے کبھی اللہ تعالیٰ نے مدد لی ہو، یا اب مدد لیتا ہو۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١١١) اور سورة کہف (٥١) ۔
خلاصہ تفسیر - آپ (ان لوگوں سے) فرمائیے کہ جن (معبودوں) کو تم خدا کے سوا (دخیل خدائی) سمجھ رہے ہو، ان کو (اپنی حاجتوں کے لئے) پکارو (تو سہی معلوم ہوجائے گا کہ کتنی قدرت اور اختیار رکھتے ہیں ان کی حالت واقعیہ تو یہ ہے کہ) وہ ذرہ برابر (کسی چیز کا) اختیار نہیں رکھتے نہ آسمانوں کی (کائنات) میں اور نہ زمین (کی کائنات) میں اور نہ ان کی ان دونوں (کے پیدا کرنے) میں کوئی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا (کسی کام میں) مددگار ہے، اور خدا کے سامنے (کسی کی) سفارش کسی کے لئے کام نہیں آتی (بلکہ سفارش ہی نہیں ہو سکتی) مگر اس کے لئے جس کی نسبت وہ (کسی سفارش کرنے والے کو) اجازت دے دے، (کفار و مشرکین میں کچھ جاہل تھے تو ایسے تھے جو پتھر کے خود تراشیدہ بتوں ہی کو حاجت روا اور کار فرما اور خدائی کا شریک سمجھتے تھے، ان کے رد کے لئے تو آیت کے پہلے جملے آئے، (آیت) (لا یملکون مثقال ذرة ومالہم فیہما من شرک) اور بعض لوگ اتنا قادر تو نہیں کہتے تھے مگر یہ عقیدہ رکھتے کہ یہ بت اللہ تعالیٰ کے کاموں میں اس کے مددگار ہیں، ان کے رد کے لئے یہ فرمایا (آیت) (مالہ منہم من ظہیر) اور کچھ ایسے سمجھدار تھے کہ ان بےجان بتوں کو کسی چیز کا خالق یا خالق کا مددگار تو نہیں مانتے تھے، مگر یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ اللہ کے نزدیک مقبول ہیں کہ جس کی سفارش کردیں اس کا کام بن جاتا ہے، جیسا کہ وہ کہا کرتے تھے (ھولاء شفعاؤنا عنداللہ) ان کے رد کے لئے فرمایا (ولا تنفع الشفاعة عندہ) جس کا حاصل یہ ہے کہ ان بتوں میں کسی قابلیت کے تو تم بھی قائل نہیں مگر تم اس دھوکہ میں ہو کہ ان کو اللہ کے نزدیک مقبولیت حاصل ہے۔ یہ محض تمہارا خیال بےبنیاد ہے، نہ ان میں کوئی قابلیت اور نہ اللہ کے نزدیک مقبولیت۔ آگے یہ ارشاد فرمایا کہ ان میں تو نہ کوئی قابلیت ہے نہ مقبولیت، جن میں قابلیت بھی موجود ہو اور مقبولیت بھی جیسے اللہ کے فرشتے وہ بھی کسی کی سفارش کرنے میں خود مختار نہیں، بلکہ ان کے لئے شفاعت کا قانون یہ ہے کہ جس شخص کے لئے سفارش کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جائے صرف اس کی سفارش کرسکتے ہیں اور وہ بھی بڑی مشکل سے۔ کیونکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کی ہیبت و جلال سے مغلوب ہیں، جب ان کو کوئی عام حکم دیا جاتا ہے یا کسی کے لئے سفارش ہی کا حکم ملتا ہے تو وہ حکم سننے کے وقت ہیبت سے مدہوش ہوجاتے ہیں۔ جب یہ ہیبت کی کیفیت رفع ہوجاتی ہے اس وقت حکم پر غور کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ کر تحقیق کرلیتے ہیں کہ ہم نے جو حکم سنا ہے وہ کیا ہے، اس تحقیق کے بعد وہ حکم کی تعمیل کرتے ہیں جس میں کسی کی سفارش کا حکم بھی داخل ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ کے فرشتے جو قابلیت بھی رکھتے ہیں، مقبولیت عند اللہ بھی، وہ بھی کسی کی سفارش از خود بلا اجازت نہیں کرسکتے، اور جب کسی کے لئے اجازت ملتی بھی ہے تو خود ہیبت سے مدہوش جیسے ہوجاتے ہیں، اس کے بعد جب ہوش درست ہوتا ہے تو سفارش کرتے ہیں، تو یہ پتھروں کے خود تراشیدہ بت جن میں نہ کسی طرح کی قابلیت ہے نہ مقبولیت، وہ کیسے کسی کی سفارش کرسکتے ہیں ؟ فرشتوں کے مدہوش ہوجانے وغیرہ کا ذکر آگے آیت میں اس طرح آیا ہے کہ) یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ (جو حکم سننے کے وقت طاری ہوئی تھی) دور ہوجاتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا حکم فرمایا وہ کہتے ہیں کہ (فلاں) حق بات کا حکم فرمایا (جیسے طالب علم سبق پڑھنے کے بعد استاد کی تقریر کو صحیح کرنے اور یاد کرنے کے لئے باہم اس کا اعادہ کیا کرتے ہیں، یہ فرشتے بھی اپنے سنے ہوئے حکم کی باہم ایک دوسرے سے تحقیق و تصدیق کرتے ہیں۔ اس کے بعد حکم کی تعمیل کرتے ہیں) اور (اس کے روبرو فرشتوں کا ایسا حال ہوجانا کیا بعید ہے) وہ عالی شان سب سے بڑا ہے۔- اور آپ (ان سے تحقیق توحید کے لئے یہ بھی) پوچھئے کہ تم کو آسمان و زمین سے (پانی برسا کر اور نباتات نکال کر) کون روزی دیتا ہے (چونکہ اس کا جواب ان کے نزدیک ہی متعین ہے، اس لئے) آپ (ہی) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (روزی دیتا ہے) اور (یہ بھی کہئے کہ اس مسئلہ توحید میں) بیشک ہم یا تم ضرور راہ راست پر ہیں یا صریح گمراہی میں (یعنی یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دو متضاد چیزیں توحید اور شرک دونوں صحیح اور حق ہوں، اور دونوں طرح کے عقیدے رکھنے والے اہل حق ہوں بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں عقیدوں میں سے ایک صحیح دوسرا غلط ہو۔ صحیح عقیدے کے رکھنے والے ہدایت پر اور غلط کا عقیدہ رکھنے والے گمراہی پر ہوں گے۔ اب تم غور کرلو کہ ان میں کون سا عقیدہ صحیح ہے اور کون حق و ہدایت پر ہے کون گمراہی پر) آپ (ان سے اس بحث و مناظرہ میں یہ بھی) فرما دیجئے (کہ ہم نے کھول کر حق و باطل کو واضح طور پر بیان کردیا ہے، اب تم اور ہم ہر ایک اپنے عمل کا ذمہ دار ہے) تم سے ہمارے جرائم کی باز پرس نہ ہوگی اور ہم سے تمہارے اعمال کی باز پرس نہ ہوگی اور (آپ ان سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (ایک وقت ضرور آنے والا ہے جس میں) ہمارا رب سب کو (ایک جگہ) جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ (عملی) کر دے گا اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا اور (سب کا حال) جاننے والا ہے، آپ (یہ بھی) کہئے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی شان عالی اور قدرت کاملہ کے دلائل سن لئے اور اپنے بتوں کی بےبسی بھی دیکھ لی) مجھ کو ذرا وہ تو دکھلاؤ جن کو تم نے شریک بنا کر (استحقاق عبادت میں) خدا کے ساتھ ملا رکھا ہے، ہرگز (اس کا کوئی شریک) نہیں بلکہ (واقع میں) وہی ہے اللہ (یعنی معبود برحق) زبردست حکمت والا۔- معارف ومسائل - آیات مذکورہ میں حکم ربانی کے نزول کے وقت جو فرشتوں کا مدہوش ہوجانا پھر آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ پاچھ کرنے کا ذکر ہے، اس کا بیان صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اس طرح آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی حکم نافذ فرماتے ہیں تو سب فرشتے خشوع و خضوع سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں (اور مدہوش جیسے ہوجاتے ہیں) جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ اور ہیبت و جلال کا وہ اثر دور ہوجاتا ہے تو کہتے ہیں تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ دوسرے کہتے ہیں کہ فلاں حکم حق ارشاد فرمایا ہے۔ الحدیث۔- اور صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابن عباس کسی صحابی سے یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک اسمہ جب کوئی حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسیح کرنے لگتے ہیں، ان کی تسبیح کو سن کر ان کے قریب والے آسمان کے فرشتے تسبیح پڑھنے لگتے ہیں، پھر ان کی تسبیح کو سن کر اس سے نیچے والے آسمان کے فرشتے تسبیح پڑھنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ یہ نوبت سماء دنیا (نیچے کے آسمان) تک پہنچ جاتی ہے (اور سب آسمانوں کے فرشتے تسبیح میں مشغول ہوجاتے ہیں) پھر وہ فرشتے جو حملہ عرش کے قریب ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے رب نے کیا فرمایا وہ بتلا دیتے ہیں، پھر اسی طرح ان سے نیچے کے آسمان والے اوپر والوں سے یہی سوال کرتے ہیں، یہاں تک کہ سوال و جواب کا یہ سلسلہ سماء دنیا تک پہنچ جاتا ہے۔ الحدیث (مظہری)
قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ ٠ ۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِيْہِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَہٗ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِيْرٍ ٢٢- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - زعم - الزَّعْمُ : حكاية قول يكون مظنّة للکذب، ولهذا جاء في القرآن في كلّ موضع ذمّ القائلون به، نحو : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن 7] ، لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف 48] ، كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام 22] ، زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء 56] ، وقیل للضّمان بالقول والرّئاسة : زَعَامَةٌ ، فقیل للمتکفّل والرّئيس : زَعِيمٌ ، للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول .- ( ز ع م ) الزعمہ - اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفظ ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے چناچہ فرمایا : ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن 7] کفار یہ زعم کو کہتے ہیں ۔ لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف 48] مگر تم یہ خیال کرتے ہو ۔ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام 22] جن کو شریک خدائی سمجھتے تھے ۔ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء 56] جنہیں تم نے ) اللہ کے سوا ( معبود ) خیال کیا ۔ اور زعامۃ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ( ضامن اور رئیں کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ یہاں زعیم یا تو زعامہ بمعنی کفالۃ سے ہے اور یا زعم بلقول سے ہے ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ملك - المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، - ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ - مِثْقَال - : ما يوزن به، وهو من الثّقل، وذلک اسم لکل سنج قال تعالی: وَإِنْ كانَ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنا بِها وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] ، وقال تعالی: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 6- 7] ، فإشارة إلى كثرة الخیرات، وقوله تعالی: وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة 8] ، فإشارة إلى قلّة الخیرات .- والثقیل والخفیف يستعمل علی وجهين :- أحدهما علی سبیل المضایفة، وهو أن لا يقال لشیء ثقیل أو خفیف إلا باعتباره بغیره، ولهذا يصحّ للشیء الواحد أن يقال خفیف إذا اعتبرته بما هو أثقل منه، و ثقیل إذا اعتبرته بما هو أخفّ منه، وعلی هذه الآية المتقدمة آنفا .- والثاني أن يستعمل الثقیل في الأجسام المرجّحة إلى أسفل، کالحجر والمدر، والخفیف يقال في الأجسام المائلة إلى الصعود کالنار والدخان، ومن هذا الثقل قوله تعالی: اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] .- المثقال ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے چناچہ ہر باٹ کو مثقال کہہ سکتے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 6- 7] تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لیگا تو جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور آیت کریمہ :۔ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة 8] اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے ۔ میں وزن کے ہلکا نکلنے سے اعمال حسنہ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ ثقیل اور خفیف کے الفاظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں ایک بطور مقابلہ کے یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے اعتبار سے ثقیل یا خفیف کہہ دیا جاتا ہے چناچہ مذکورہ بالاآیت میں نہی معنی مراد ہیں اور دوسرے یہ کہ جو چیزیں ( طبعا) نیچے کی طرف مائل ہوتی ہیں انہیں ثقیل کہا جاتا ہے جیسے حجر مدر وغیرہ اور جو چیزیں ( طبعا) اوپر کو چڑھتی ہیں جیسے آگ اور دہواں انہیں حفیف کہا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] تو تم زمین پر گر سے جاتے ہو ۔ میں زمین پر گرنا دوسرے معنی کے اعتبار سے ہے ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- ظھیر - ، وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ 22] ، أي : معین «3» . فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ- [ القصص 86] ، وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم 4] ، وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً- [ الفرقان ] ، أي : معینا للشّيطان علی الرّحمن . وقال أبو عبیدة «1» : الظَّهِيرُ هو المَظْهُورُ به . أي : هيّنا علی ربّه کا لشّيء الذي خلّفته، من قولک :- ظَهَرْتُ بکذا، أي : خلفته ولم ألتفت إليه .- ظھیر - الظھیر۔ مدد گار ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ 22] اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے ۔ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص 86] تو تم ہر گز کافروں کے مددگار نہ ہونا ۔ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم 4] اور ان کے علاوہ اور فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زورمارتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کافر خدائے رحمٰن کی مخالفت میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں ظھیر کے معنی ہیں پس پشت ڈالا ہوا اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر کی مثال اس چیز کی سی ہے جسے بےوقعت سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ ظھر ت بکذا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور درخواعتناء نہ سمجھا ۔
آپ کفار مکہ بنی ملیح والوں سے فرما دیجیے جن جھوٹے معبودوں کی تم اللہ کے علاوہ پوجا کر رہے ہو ان کو بلاؤ۔ یہ لوگ جنوں کی پوجا کیا کرتے تھے اور ان کو فرشتے سمجھتے تھے۔- وہ تمہیں ذرا برابر بھی نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتے نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ان فرشتوں کو آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شرکت ہے اور نہ ان فرشتوں میں سے آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی مددگار ہے۔
آیت ٢٢ قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مشرکین سے) کہیے کہ تم بلائو ان کو جنہیں تم نے (معبود) گمان کیا ہے اللہ کے سوا۔ “- جن دیویوں اور دیوتائوں کو تم اپنے اولیاء اور مدد گار سمجھتے ہو انہیں پکار کر دیکھ لو کہ تمہیں کیا جواب دیتے ہیں - لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ ” وہ ذرّہ برابر بھی اختیار نہیں رکھتے ‘ نہ آسمانوں میں اور نہ ہی زمین میں “- وَمَا لَہُمْ فِیْہِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَا لَہٗ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِیْرٍ ” اور نہ ان دونوں (زمین اور آسمان) میں ان کا کوئی حصہ ہے ‘ اور نہ ہی ان میں سے کوئی اس کا مدد گار ہے۔ “- مشرکین ِعرب کے ہاں دو طرح کے مشرکانہ اعتقادات پائے جاتے تھے۔ ان کا ایک عقیدہ تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کچھ محبوب ہستیاں ایسی ہیں جن کی بات کو وہ ٹال نہیں سکتا ‘ چاہے وہ اس کی بیٹیاں (وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے) ہوں یا انسانوں میں سے اس کی محبوب شخصیات۔ چناچہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کی ان محبوب ہستیوں کی سفارش سے آخرت میں وہ بچ جائیں گے۔- ان کا دوسرا مشرکانہ عقیدہ یہ تھا کہ اگرچہ اللہ اس کائنات کا خالق اور مالک ہے لیکن اس نے اس کائنات کا نظام چلانے کے لیے اپنے کچھ نائبین مقرر کر کے ان میں کچھ اختیارات تقسیم کر رکھے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ جس طرح دنیا کی سلطنتوں اور حکومتوں کا نظام چلانے کے لیے تمام بادشاہ اور حکمران اپنے نائبین مقرر کر کے انہیں کچھ اختیارات تفویض کردیتے ہیں اسی طرح اللہ کے مقرر کردہ نائبین اس کائنات کا نظام چلاتے ہیں ‘ اور وہ نہ صرف اللہ کے مدد گار ہیں بلکہ اس کے اختیارات میں بھی شریک ہیں۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اس دوسری قسم کے مشرکانہ عقیدے کی نفی کی گئی ہے۔- اس حوالے سے یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ ہندوستانی دیو مالا ( ) میں دیویوں اور دیوتائوں کا جو تصور پایا جاتا ہے اس میں اور ہمارے ایمان بالملائکہ میں بظاہر بہت باریک اور نازک سا فرق ہے۔ ہم بھی مانتے ہیں کہ کائنات کے اندر فرشتے اللہ کی طرف سے تفویض شدہ مختلف فرائض ادا کر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے فرشتے گویا اللہ کی کائناتی حکومت کی ” سول سروس “ ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہمارا یہ عقیدہ بھی ہے کہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے ‘ وہ وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم ملتا ہے۔ لہٰذا ان میں سے کسی کو مدد کے لیے پکارنا ‘ کسی سے کسی قسم کی کوئی دعا کرنا یا استغاثہ کرنا جائز نہیں۔ کسی کے نفع یا نقصان کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے ‘ اس لیے دعا کے لیے پکارنا بھی اسی کو ہے۔ استمداد بھی اسی سے ہے اور استغاثہ بھی اسی سے۔ وہ قادرمطلق ہے ‘ وہ چاہے تو کسی کی براہ راست مدد کر دے یا کسی کی تکلیف رفع کرنے کے لیے کسی فرشتے کو بھیج دے۔ اس کے برعکس دیو مالائی تصور یہ ہے کہ جو ہستیاں اللہ کے نائبین کے طور پر کائنات کے اندر مختلف فرائض سنبھالے ہوئے ہیں وہ اللہ کے اختیارات میں بھی حصہ دار ہیں۔ چناچہ ان کے حضور اپنی حاجات بھی پیش کی جاسکتی ہیں ‘ ان سے دعا بھی کی جاسکتی ہے اور ان سے استغاثہ بھی کیا جاسکتا ہے ‘ جس کے جواب میں وہ اپنے پکارنے والوں کی حاجت روائی بھی کرتے ہیں اور مشکل کشائی بھی۔ چناچہ نظریاتی طور پر دیکھا جائے تو یہ باریک سا فرق دراصل زمین و آسمان کا فرق ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دیومالائی مشرکانہ تصورات دراصل ” ایمان بالملائکہ “ ہی کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :38 پچھلے دو رکوعوں میں آخرت کے متعلق مشرکین کے غلط تصورات پر کلام فرمایا گیا تھا ۔ اب تقریر کا رخ تردید شرک کے مضمون کی طرف پھر رہا ہے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :39 یعنی اللہ تو یوں اشخاص اور اقوام اور سلطنتوں کی قسمتیں بناتا اور بگاڑتا ہے ، جیسا کہ ابھی تم داؤد و سلیمان علیہما السلام اور قوم سبا کے ذکر میں سن چکے ہو ۔ اب ذرا اپنے ان بناوٹی معبودوں کو پکار کر دیکھ لو ، کیا ان میں بھی یہ طاقت ہے کہ کسی کے اقبال کو ادبار سے ، یا اِدبار کو اقال سے بدل سکیں؟