23۔ 1 جن کے لئے اجازت ہوجائے کا مطلب ہے انبیاء اور ملائکہ وغیرہ یعنی یہی سفارش کرسکیں گے، کوئی اور نہیں۔ اس لئے کہ کسی اور کی سفارش فائدے مند ہوگی، نہ انھیں اجازت ہی ہوگی۔ دوسرا مطلب ہے۔ مستحقین شفاعت۔ یعنی انبیاء (علیہم السلام) و ملائکہ اور صالحین صرف انھیں کے حق میں سفارش کرسکیں گے جو مستحقین شفاعت ہوں گے کیونکہ اللہ کی طرف سے انھیں کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ہوگی، کسی اور کے لئے نہیں (فتح القدیر) مطلب یہ ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) ملائکہ اور صالحین کے علاوہ وہاں کوئی سفارش نہیں کرسکے گا اور یہ حضرات بھی سفارش اہل ایمان گناہ گاروں کے لیے ہی کرسکیں گے کافر و مشرک اور اللہ کے باغیوں کے لیے نہیں قرآن کریم نے دوسرے مقام پر ان دونوں نکتوں کی وضاحت فرمادی ہے۔ (مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ) 2 ۔ البقرۃ :255) ( وَلَا يَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى) 21 ۔ الانبیاء :28)
[ ٣٧] اکثر مشرکوں کا اپنے معبودوں کے متلعق یہ عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ بڑے خدا یعنی اللہ کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں اگرچہ کام بنانے والا اللہ ہی ہوتا ہے۔ ہمارے یہ معبود یا بزرگ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کرکے ہمارے کام اللہ سے کروانے کا سبب ہوتے ہیں لہذا اللہ تعالیٰ نے سفارش کے متعلق بھی اپنا ضابطہ بیان فرما دیا۔ اور یہ ضابطہ پہلے قرآن میں متعدد بار گزر چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ (١) اللہ کے ہاں سفارش وہی شخص کرسکے گا، جس کو اللہ کی طرف سے اجازت ملے گی۔ یہ کیا معلوم کہ جسے تم نے سفارشی سمجھ رکھا ہے۔ اسے اجازت بھی ملتی ہے یا نہیں، (٢) اس شخص کے حق میں سفارش کی جاسکے گی، جس کے متعلق اللہ چاہے اور تمہیں یہ کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ تمہارے حق میں اللہ کی طرف سے سفارش کی اجازت کسی کو ملتی ہے یا نہیں ؟ (٣) اور صرف اس گناہ کی مغفرت کی سفارش کی جاسکتی ہے جس کے متعلق اللہ چاہے۔ یہ قید سفارش کے تصور کو اور بھی محدود بنا دیتی ہے۔ پھر تم کس خیال میں ان معبودوں یا بزرگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔ بروقت اپنی فکر خود کرلو اور کسی کی سفارش پر تکیہ مت رکھو۔ - [ ٣٨] تم اللہ کے ہاں سفارش کی بات کرتے ہو جس کی جلالت اور عظمت شان کا یہ حال ہے کہ جب اس کی طرف سے کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو اس کے پاس رہنے والے مقرب فرشتے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں اور گبھرا جاتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے لئے از راہ عاجزی اپنے پر مارتے ہیں اور ایسی آواز آتی ہے جیسے کسی زنجیر کو صاف پتھر پر کھینچنے سے آتی ہے۔ پھر جب انھیں ہوش آتا ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتا ہے تمہارے پروردگار نے کیا کہا۔ دوسرا کہتا ہے کہ جو کہا درست کہا اور وہ بزرگ و برتر ہے آپ نے فرمایا : اور شیطان زمین اور آسمان کے درمیان ایک دوسرے کے اوپر جمع ہوجاتے ہیں (تاکہ آسمانی خبریں چرا سکیں) (ترمذی۔ کتاب التفسیر)- ایسی جاہ و جلال والے اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کو یہ جرات ہوسکتی ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے۔ اور تم لوگ کس قسم کی خوش فہمیوں میں مبتلا ہو - محدثین اس حدیث کو اس آیت کی تفسیر میں اس لئے لائے ہیں کہ اہل عرب میں سے ایک گروہ فرشتوں کو کارگاہ عالم میں متصرف سمجھ کر ان کی پوجا کرتا تھا اور جو لوگ ان میں سے آخرت کے کسی حد تک قائل تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر قیامت کو باز پرس ہوئی بھی تو یہ فرشتے اللہ کے ہاں ہماری سفارش کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ اور بعض مفسرین نے اس آیت کو ان مشائخ اور پیروں سے متعلق کیا ہے جو اپنے مریدوں کو شفاعت کرکے چھڑا لینے کے وعدے کرتے اور کسی نہ کسی پیر کے دامن سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ یعنی کیا شافع اور کیا مشفوع دونوں قیامت کے دن کی گھبراہٹ سے سخت گھبرائے ہوئے ہوں گے اور دونوں اس انتظار میں ہوں گے کہ شفاعت کرنے کی اجازت ملتی بھی ہے یا نہیں۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے شافع کو شفاعت کی اجازت مل جائے تو اس کی گھبراہٹ کسی حد تک دور ہوجاتی ہے جس کو مشفوع بھانپ کر اس سے پوچھتا ہے کہ کیا جواب ملا تو شافع کہتا ہے کہ معاملہ ٹھیک ہے اجازت مل گئی ہے تو اس وقت مشفوع کی جان میں جان آتی ہے۔ اس میں شافع اور مشفوع دونوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تم نے شفاعت سے متعلق جس قسم کا تصور باندھ رکھا ہے وہ قطعاً غلط ہے۔ اللہ کی بارگاہ اتنی عالی مرتبہ اور بڑی ہے کہ وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر نہ مقرب فرشتوں کو دم مارنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ کسی اور بڑی شخصیت کو۔ کسی کو یوں کہنے کی ہمت نہ ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یوں کہہ سکے کہ یہ تو میرے دامن کے وابستہ ہے۔ لہذا اسے بخشنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ شافع کو تو اپنی بھی خبر نہیں کہ اس کا کیا حال ہوگا وہ بھلا دوسروں کی ذمہ داری کیسے لے سکتا ہے۔
وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ : مشرکین کہتے تھے کہ ہم اپنے معبودوں کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کروا دیتے ہیں۔ (دیکھیے یونس : ١٨۔ زمر : ٣) یہ اس کا رد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کی سفارش کام نہیں آتی، ہاں، جسے وہ خود اجازت دے اور جس کے حق میں اجازت دے۔” لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ “ (جس کے لیے وہ اجازت دے) میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں۔ ظاہر ہے مشرک کو تو شفاعت کرنے کی جرأت ہی نہ ہوگی، اجازت تو دور کی بات ہے اور نہ ہی کسی کو مشرک کے حق میں سفارش کی اجازت ہوگی، کیونکہ اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے۔ (دیکھیے مائدہ : ٧٣) صرف ایمان والوں کے حق میں سفارش ہوگی، مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد، حتیٰ کہ فرشتے اور رسول بھی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکیں گے۔ (دیکھیے نجم : ٢٦) سفارش تو دور کی بات ہے، وہاں اجازت کے بغیر کوئی بول بھی نہیں سکے گا۔ (دیکھیے طٰہٰ : ١٠٩) حتیٰ کہ سید الانبیاء والرسل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی سفارش کے لیے جائیں گے تو سجدے میں گرجائیں گے، لمبی مدت تک تسبیح و تحمید کے بعد سر اٹھانے اور سفارش کرنے کی اجازت ملے گی تو سفارش کریں گے، جیسا کہ حدیث شفاعت میں معروف ہے۔- حَتّىٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ ۔۔ : ” فَزِعَ یَفْزَعُ “ (س) گھبرا جانا۔ ” فَزَّعَ یُفَزِّعُ “ (تفعیل) گھبراہٹ دور کرنا، خصوصاً جب اس کے ساتھ حرف ” عَنْ “ ہو۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس سے پہلے جملے ” وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ “ کے ساتھ اس جملے کا کیا تعلق ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ تم جن ہستیوں کو اپنا سفارشی سمجھتے ہو اور کہتے ہو کہ وہ اپنے زور یا دبدبے یا اللہ کا محبوب ہونے کی وجہ سے اپنی بات منوا لیتے ہیں، ان کی کیا بساط ہے کہ اجازت کے بغیر سفارش کی جرأت کرسکیں۔ وہاں تو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے سامنے عرش معلی کے فرشتے اور ان کے نیچے آسمان دنیا تک کے فرشتے، جو برابر احکام الٰہی سنتے ہیں، ان کا یہ حال ہے کہ جب رب العزت کوئی وحی فرماتا ہے تو وہ سب اس کی ہیبت سے تھر تھرا اٹھتے ہیں، پھر جب اللہ تعالیٰ اس ہیبت کو ان کے دلوں سے ہٹا لیتا ہے تو ہر گروہ اپنے سے اوپر والے سے پوچھتا ہے کہ رب تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ؟ ”ۭ قَالُوا الْحَقَّ “ وہ کہتے ہیں، اس نے حق فرمایا ہے۔ ” وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ “ اور وہی سب سے بلند اور بہت بڑا ہے۔ چناچہ وہ فرشتے اپنے نیچے والے فرشتوں کو حق تعالیٰ کی وحی کسی کمی بیشی کے بغیر پہنچاتے ہیں۔ پھر جب مقربین ملائکہ کی یہ حالت ہے، جو وحی کے عادی بنا دیے گئے ہیں، تو مشرکین کسی اور سے کیا توقع رکھتے ہیں ؟ بخاری نے اس آیت کی تفسیر میں ابوہریرہ (رض) سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا قَضَی اللّٰہُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلٰی صَفْوَانٍ ، قَالَ عَلِيٌّ وَ قَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذٰلِکَ ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ قَالُوْا مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ قَالُوْا لِلَّذِیْ قَالَ الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِيُّ الْکَبِیْرُ ، فَیَسْمَعُہَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ ، وَ مُسْتَرِقُو السَّمْعِ ہٰکَذَا، وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ وَ وَصَفَ سُفْیَانُ بِیَدِہِ ، وَ فَرَّجَ بَیْنَ أَصَابِعِ یَدِہِ الْیُمْنٰی، نَصَبَہَا بَعْضَہَا فَوْقَ بَعْضٍ فَرُبَّمَا أَدْرَکَ الشِّہَابُ الْمُسْتَمِعَ ، قَبْلَ أَنْ یَرْمِيَ بِہَا إِلٰی صَاحِبِہِ ، فَیُحْرِقُہُ وَ رُبَّمَا لَمْ یُدْرِکْہُ حَتّٰی یَرْمِيَ بِہَا إِلَی الَّذِيْ یَلِیْہِ إِلَی الَّذِيْ ہُوَ أَسْفَلُ مِنْہُ حَتّٰی یُلْقُوْہَا إِلَی الْأَرْضِ ، وَ رُبَّمَا قَالَ سُفْیَانُ حَتّٰی تَنْتَہِيَ إِلَی الْأَرْضِ فَتُلْقٰی عَلٰی فَمِ السَّاحِرِ ، فَیَکْذِبُ مَعَہَا ماءَۃَ کَذْبَۃٍ فَیُصَدَّقُ ، فَیَقُوْلُوْنَ أَلَمْ یُخْبِرْنَا یَوْمَ کَذَا وَکَذَا یَکُوْنُ کَذَا وَکَذَا ؟ فَوَجَدْنَاہُ حَقًّا، لِلْکَلِمَۃِ الَّتِيْ سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( إلا من استرق السمع۔۔ ) : ٤٧٠١ ] ” جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کے سامنے عاجزی اختیار کرتے ہوئے اپنے پر پھڑ پھڑاتے ہیں۔ (انھیں اللہ کا فرمان اس طرح سنائی دیتا ہے) جیسے وہ صاف چکنے پتھر پر زنجیر کی آواز ہو، تو جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کی جاتی ہے تو وہ (آپس میں) پوچھتے ہیں : ” تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ “ وہ کہتے ہیں : ” اس نے حق فرمایا اور وہی سب سے بلند، بہت بڑا ہے۔ “ اس گفتگو کو چوری سننے والے شیاطین بھی سن لیتے ہیں، جو اس طرح ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں۔ “ حدیث کے راوی سفیان نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے اپنے ہاتھ کو کنارے کے رخ کیا اور انگلیوں کو کھول دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو وہ شیطان وہ بات سن لیتا ہے اور اپنے سے نیچے والے شیطان کو بتادیتا ہے (یہ سلسلہ نیچے تک چلتا ہے) ، یہاں تک کہ سب سے نیچے والا وہ بات کسی جادوگر یا کاہن کو پہنچا دیتا ہے، پھر کبھی اس سے پہلے کہ وہ نیچے والے کو بات پہنچائے اسے آگ کا انگارا آ دبوچتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے اور کبھی اس کے لگنے سے پہلے وہ اس بات کو آگے پہنچا دیتا ہے، تو وہ (جادوگر یا کاہن) اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیتا ہے، تو (جب آسمان سے سنی ہوئی بات صحیح ہوجاتی ہے تو اس کے ماننے والوں کی طرف سے) کہا جاتا ہے کہ کیا فلاں فلاں دن اس (جادو گر یا کاہن) نے ہمیں اس طرح نہیں کہا تھا ؟ تو اس ایک بات کی وجہ سے جو شیطان نے آسمان سے سنی تھی کاہن یا ساحر کی بات کو سچا سمجھ لیا جاتا ہے۔ “
وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ ٠ ۭ حَتّٰٓي اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ قَالُوْا مَاذَا ٠ ۙ قَالَ رَبُّكُمْ ٠ ۭ قَالُوا الْحَقَّ ٠ ۚ وَہُوَالْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ ٢٣- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- شَّفَاعَةُ- : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً- [ مریم 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً- [ النساء 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه .- وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس 3] ، أي :- يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ»- الشفاعۃ - کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- أَذِنَ :- والإِذنُ في الشیء : إعلام بإجازته والرخصة فيه، نحو، وَما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ [ النساء 64] أي : بإرادته وأمره، - ( اذ ن) الاذن - الاذن فی الشئی کے معنی ہیں یہ بتا دینا کہ کسی چیز میں اجازت اور رخصت ہے ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ ( سورة النساء 64) اور ہم نے پیغمبر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے ۔ میں اذن بمعنی ارادہ اور حکم ہے - فزع - الفَزَعُ : انقباض ونفار يعتري الإنسان من الشیء المخیف، وهو من جنس الجزع، ولا يقال : فَزِعْتُ من الله، كما يقال : خفت منه .- وقوله تعالی: لا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ [ الأنبیاء 103] ، فهو الفزع من دخول النار .- فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ النمل 87] ، وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ [ النمل 89] ، وقوله تعالی: حَتَّى إِذا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ [ سبأ 23] ، أي : أزيل عنها الفزع، ويقال : فَزِعَ إليه : إذا استغاث به عند الفزع، وفَزِعَ له : أغاثه . وقول الشاعر : كنّا إذا ما أتانا صارخ فَزِعٌ أي : صارخ أصابه فزع، ومن فسّره بأنّ معناه المستغیث، فإنّ ذلک تفسیر للمقصود من الکلام لا للفظ الفزع .- ( ف ز ع ) الفزع انقباض اور وحشت کی اس حالت کو کہتے ہیں جو کسی خوفناک امر کی وجہ سے انسان پر طاری ہوجاتی ہے یہ جزع کی ایک قسم ہے اور خفت من اللہ کا محاورہ تو استعمال ہوتا ہے لیکن فزعت منہ کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت کریمہ : ۔ لا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ [ الأنبیاء 103] ان کو ( اس دن کا ) بڑا بھاری غم غمگین نہیں کرے گا ۔ میں فزع اکبر سے دوزخ میں داخل ہونیکا خوف مراد ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ النمل 87] تو جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں سبب گھبرا اٹھیں گے ۔ وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ [ النمل 89] اور ایسے لوگ ( اس روز ) گھبراہٹ سے بےخوف ہوں گے ۔ حَتَّى إِذا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ [ سبأ 23] یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا ۔ یعنی ان کے دلوں سے گبراہٹ دوری کردی جائے گی فزع الیہ کے معنی گھبراہٹ کے وقت کسی سے فریاد کرنے اور مدد مانگنے کے ہیں اور فزع لہ کے معنی مدد کرنے کے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 339 ) ولنا اذا مااتانا صارع خ فزع یعنی جب کوئی فریاد چاہنے والا گھبرا کر ہمارے پاس آتا ۔ بعض نے فزع کے معنی مستغیت کئے ہیں تو یہ لفظ فزع کے اصل معنی نہیں ہیں بلکہ معنی مقصود کی تشریح ہے ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - ( ماذا)- يستعمل علی وجهين :- أحدهما .- أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی:- وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب - ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- علي - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] - ( ع ل و ) العلو - العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت - واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔
اور قیامت کے دن فرشتے کسی کی سفارش نہیں کرسکیں گے البتہ جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دے گا۔- اب اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ضعف و کمزوری کو بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم کے پاس وحی بھیجنے کے لیے جبریل امین سے کلام کیا اور فرشتوں نے اس چیز کو سنا تو سب اللہ تعالیٰ کے کلام کی ہیبت و جلال سے بےہوش ہو کر گر گئے اور اسی حالت پر رہے یہاں تک کہ جبریل امین اترے اور ان کے دلوں سے خوف و گھبراہٹ دور ہوا تو اپنا سر اوپر اٹھا کر جبریل امین اور دوسرے فرشتوں سے کہنے لگے کہ تمہارے پروردگار نے کیا حکم دیا تو جبریل امین اور ان کے ساتھ والے فرشتے کہنے لگے کہ قرآن حکیم نازل کیا ہے اور وہ بڑا عالی شان اور سب سے بڑا ہے۔
آیت ٢٣ وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ ” اور نہ نفع دے گی اس کے ہاں کوئی سفارش مگر اسی کے حق میں جس کے لیے اس نے اجازت دی ہو۔ “- حَتّٰٓی اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ ” یہاں تک کہ جب گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے ان کے دلوں سے “- یہ فرشتوں کا حال بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان کو کوئی حکم بھیجتا ہے تو اس کی عظمت اور جلالت کی وجہ سے ان پر دہشت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ پھر جب ان سے اس دہشت کا اثر زائل کردیا جاتا ہے تو :- قَالُوْا مَاذَالا قَالَ رَبُّکُمْ ” وہ پوچھتے ہیں تمہارے ربّ نے کیا فرمایا تھا ؟ “- قَالُوا الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ ” وہ کہتے ہیں کہ (اُس نے جو کچھ فرمایا ہے وہ) حق ہے ‘ اور وہ بہت بلند وبالا ‘ بہت بڑا ہے۔ “
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :40 یعنی کسی کا خود مالک ہونا ، یا ملکیت میں شریک ہونا ، یا مدد گار خدا ہونا تو درکنار ، ساری کائنات میں کوئی ایسی ہستی تک نہیں پائی جاتی جو اللہ تعالیٰ کے حضور کسی کے حق میں بطور خود سفارش کر سکے ۔ تم لوگ اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہو کہ کچھ خدا کے پیارے ایسے ہیں ، یا خدا کی خدائی میں کچھ بندے ایسے زور آور ہیں کہ وہ اَڑ بیٹھیں تو خدا کو ان کی سفارش ماننی ہی پڑے گی ۔ حالانکہ وہاں حال یہ ہے کہ اجازت لیے بغیر کوئی زبان کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ جس کو اجازت ملے گی صرف وہی کچھ عرض کر سکے گا ۔ اور جس کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ملے گی اسی کے حق میں عرض معروض کی جا سکے گی ۔ ( اسلامی عقیدہ شفاعت اور مشرکانہ عقیدہ شفاعت کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، ص 262 ۔ 275 ۔ 356 ۔ 368 ۔ 556 ۔ 562 ۔ جلد سوم ، ص 162 ۔ 155 ۔ 252 ) ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :41 یہاں اس وقت کا نقشہ کھینچا گیا ہے جب قیامت کے روز کوئی سفارش کرنے والا کسی کے حق میں سفارش کی اجازت طلب کرے گا ۔ اس نقشے میں یہ کیفیت ہمارے سامنے آتی ہے کہ طلب اجازت کی درخواست بھیجنے کے بعد شافع اور مشفوع دونوں نہایت بے چینی کے عالم میں ڈرتے اور کانپتے ہوئے جواب کے منتظر کھڑے ہیں ۔ آخر کار جب اوپر سے اجازت آ جاتی ہے اور شافع کے چہرے سے مشفوع بھانپ جاتا ہے کہ معاملہ کچھ اطمینان بخش ہے تو اس کی جان میں جان آتی ہے اور وہ آگے بڑھ کر شافع سے پوچھتا ہے کیا جواب آیا ؟ شافع جواب دیتا ہے کہ ٹھیک ہے ، اجازت مل گئی ہے ۔ اس بیان سے جو بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ نادانو جس بڑے دربار کی شان یہ ہے اس کے متعلق تم کس خیال خام میں پڑے ہوئے ہو کہ وہاں کوئی اپنے زور سے تم کو بخشوا لے گا یا کسی کی یہ مجال ہو گی کہ وہاں مچل کر بیٹھ جائے اور اللہ سے کہے کہ یہ تو میرے متوسّل ہیں ، انہیں تو بخشنا ہی پڑے گا ۔
16: آیت نمبر ۲۲و۲۳ میں مشرکین کے مختلف عقیدوں کی تردید کی گئی ہے۔ ان میں سے بعض مشرکین تو وہ تھے کہ وہ اپنے تراشے ہوئے بتوں ہی کو اپنا خدا مانتے تھے، اور اِنہی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ براہ راست ہماری حاجتیں پوری کرتے ہیں، اُن کی تردید کے لئے تو آیت ۲۲ میں فرمایا گیا ہے کہ :’’وہ آسمانوں اور زمین میں ذرّہ برابر کسی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ اُن کو آسمان وزمین کے معاملات میں (اللہ کے ساتھ) کوئی شرکت حاصل ہے۔‘‘ اور بعض مشرکین کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ بت اﷲ تعالیٰ کے کاموں میں اُس کے مددگار ہیں۔ اُن کی تردید کے لئے اِسی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ : ’’اور نہ اُن میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے‘‘، اور بعض مشرکین اُن کو خدائی میں اﷲ تعالیٰ کا شریک یا مددگار تو نہیں مانتے تھے، لیکن یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے حضور ہماری سفارش کریں گے۔ اُن کی تردید کے لئے آیت ۲۳ میں فرمایا گیا ہے کہ : ’’اور اللہ کے سامنے کوئی سفارش کارآمد نہیں ہے، سوائے اُس شخص کے جس کے لئے خود اس نے (سفارش کی) اجازت دے دی ہو۔‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ تم ان بتوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہو کہ ان کو اﷲ تعالیٰ کے یہاں تقرّب اور مقبولیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے اِن کو سفارش کرنے کی صلاحیت ہے، حالانکہ اِن کو اﷲ تعالیٰ کے یہاں کوئی تقرّب حاصل ہے، او رنہ اِن میں خود سے سفارش کرنے کی صلاحیت ہے، یعنی فرشتے، وہ بھی اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتے۔ پھر آگے یہ فرمایا گیا ہے کہ اِن فرشتوں کا حال تو یہ ہے کہ وہ ہر وقت اﷲ تعالیٰ کے رُعب سے سہمے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب اُنہیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم ملتا ہے، یا سفارش کی اجازت ملتی ہے تو وہ رُعب کے مارے گھبراہٹ میں مدہوش جیسے ہوجاتے ہیں، پھر جب اُن کی گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے کیا فرمایا؟ اس کے بعد اُس پر عمل کرتے ہیں۔ جب اِن مقرّب فرشتوں کا یہ حال ہے تو یہ تراشے ہوئے بت جنہیں کسی قسم کا تقرّب حاصل نہیں وہ کیسے اﷲ تعالیٰ سے کسی کی سفارش کرسکتے ہیں؟