Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ عزوجل کی صفات ۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ صرف وہی خالق و رازق ہے اور صرف وہی الوہیت والا ہے ۔ جیسے ان لوگوں کو اس کا اقرار ہے کہ آسمان سے بارشیں برسانے والا اور زمینوں سے اناج اگانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ایسے ہی انہیں یہ بھی مان لینا چاہئے کہ عبادت کے لائق بھی فقط وہی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جب ہم تم میں اتنا بڑا اختلاف ہے تو لامحالہ ایک ہدایت پر اور دوسرا ضلالت پر ہے نہیں ہو سکتا کہ دونوں فریق ہدایت پر ہوں یا دونوں ضلالت پر ہوں ۔ ہم موحد ہیں اور توحید کے دلائل کھلم کھلا ہیں اور واضح ہم بیان کر چکے ہیں اور تم شرک پر ہو جس کی کوئی دلیل تمہارے پاس نہیں ۔ پس یقینا ہم ہدایت پر اور یقینا تم ضلالت پر ہو ۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں سے ہی کہا تھا کہ ہم فریقین میں سے ایک ضرور سچا ہے ۔ کیونکہ اس قدر تضاد و تباین کے بعد دونوں کا سچا ہونا تو عقلاً محال ہے ۔ اس آیت کے ایک معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ ہم ہی ہدات پر اور تم ضلالت پر ہو ، ہمارا تمہارا بالکل کوئی تعلق نہیں ۔ ہم تم سے اور تمہارے اعمال سے بری الذمہ ہیں ۔ ہاں جس راہ ہم چل رہے ہیں اسی راہ پر تم بھی آ جاؤ تو بیشک تم ہمارے ہو اور ہم تمہارے ہیں ورنہ ہم تم میں کوئی تعلق نہیں اور ایک آیت میں بھی ہے کہ اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے ساتھ ہے اور تمہارا عمل تمہارے ساتھ ہے ، تم میرے اعمال سے چڑتے ہو اور میں تمہارے کرتوت سے بیزار ہوں ۔ سورہ ( قل یاایھا الکفرون ) الخ ، میں بھی اسی بےتعلقی اور برات کا ذکر ہے ، رب العالمین تمام عالم کو میدان قیامت میں اکٹھا کر کے سچے فیصلے کر دے گا ۔ نیکوں کو ان کی جزا اور بدوں کو ان کی سزا دے گا ۔ اس دن تمہیں ہماری حقانیت و صداقت معلوم ہو جائے گی ۔ جیسے ارشاد ہے ( وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَفَرَّقُوْنَ 14؀ ) 30- الروم:14 ) قیامت کے دن سب جدا جدا ہو جائیں گے ۔ ایماندار جنت کے پاک باغوں میں خوش وقت و فرحان ہوں گے اور ہماری آیتوں اور آخرت کے دن کو جھٹلانے والے ، کفر کرنے والے ، دوزخ کے گڑھوں میں حیران و پریشان ہوں گے ۔ وہ حاکم و عادل ہے ، حقیقت حال کا پورا عالم ہے ، تم اپنے ان معبودوں کو ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ ۔ لیکن کہاں سے ثبوت دے سکو گے ۔ جبکہ میرا رب لانظیر ، بےشریک اور عدیم المثیل ہے ، وہ اکیلا ہے ، وہ ذی عزت ہے جس نے سب کو اپنے قبضے میں کر رکھا ہے اور ہر ایک پر غالب آ گیا ہے ۔ حکیم ہے اپنے اقوال و افعال میں ۔ اس طرح شریعت اور تقدیر میں بھی برکتوں والا بلندیوں والا پاک منزہ اور مشرکوں کی تمام تہمتوں سے الگ ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 ظاہر بات ہے گمراہی پر وہی ہوگا جو ایسی چیزوں کو معبود سمجھتا ہے جن کا آسمان و زمین سے روزی پہنچانے میں کوئی حصہ نہیں ہے، نہ وہ بارش برسا سکتے ہیں، نہ کچھ اگاہ سکتے ہیں۔ اس لئے حق پر یقین اہل توحید ہی ہیں، نہ کہ دونوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٣٩] یعنی یہ بات تو فریقین (یعنی رسول اللہ اور قریش مکہ) میں مسلم تھی کہ رزق دینے والا اللّٰہ ہی ہے اب انسانوں کے لئے لازم تو یہی ہے کہ عبادت اسی کی جانی چاہئے جو کھانے کو دیتا ہے اور دیتا رہتا ہے۔ پھر آخر دوسرے معبودوں کو جن کا رزق کی پیدا یا تقسیم میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ کسی خوش میں پوجا جائے، بنیاد تو دونوں کی ایک ہے کہ رازق اللہ ہے اور آگے اس کی دو راہیں بن گئیں۔ ایک ہم ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ گن اسی کا گانا چاہئے جو کھانے کو دیتا ہے اور ایک تم ہو کہ رزق دینے والے کو چھوڑ کر دوسروں کے گن گا رہے ہو۔ یا اللہ کی عبادت میں بلا وجہ شرک کر رہے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ہم دونوں فریقوں میں سے ایک ہی حق پر ہوسکتا ہے اور تم خود ہی سوچ لو کہ حق پر کون ہوسکتا ہے اور گمراہی پر کون ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : پچھلی آیت میں بیان کرنے کے بعد کہ مشرکین کے بنائے ہوئے شرکاء کائنات میں ایک ذرے کے مالک نہیں، بلکہ سب کا مالک ایک اللہ تعالیٰ ہے، اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان سے اس بات کا اقرار کروائیں کہ کائنات میں ہر ایک کو رزق بھی وہ اکیلا ہی دے رہا ہے۔ چناچہ فرمایا، ان سے کہو آسمان سے بارش برسا کر، سورج، چاند اور ستاروں سے گرمی، توانائی اور روشنی بہم پہنچا کر اور تمہارے فائدے کے لیے ہر چیز مسخر کر کے زمین سے تمہارے لیے اور تمہارے چوپاؤں کے لیے خوراک اور زندگی کی ہر ضرورت کون مہیا کرتا ہے ؟ یہ سب دل سے مانتے ہیں کہ وہ اللہ ہی ہے، اس لیے اس کا انکار نہیں کرسکتے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے، مگر ان کے لیے اقرار بھی مشکل ہے، کیونکہ اس سے ان کے شرک کی عمارت ڈھے جاتی ہے، کیونکہ وہ اس کا جواز پیش نہیں کرسکتے کہ رزق تو اللہ دے اور عبادت کسی اور کی ہو، اس لیے لامحالہ وہ خاموشی اختیار کریں گے۔ تو اس موقع پر آپ خود اعلان کریں کہ وہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔- وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى ۔۔ : یعنی ہم دو فریق بن چکے ہیں، ایک وہ جو آسمان و زمین میں ایک اللہ ہی کو رزاق مانتے ہیں اور اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو اس کے ساتھ ایسی ہستیوں کو شریک بناتے ہیں جو نہ کائنات کے ایک ذرے کے مالک ہیں، نہ کسی کا نفع و نقصان یا رزق ان کے اختیار میں ہے، اور ہم دونوں میں سے ایک گروہ یا ہدایت پر ہے یا واضح گمراہی میں مبتلا ہے، تم خود فیصلہ کرلو کہ ہدایت پر کون ہے اور گمراہ کون ؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بات میں کوئی شک ہے کہ ایک رب کو رزاق مان کر اسی کی عبادت کرنے والے حق پر ہیں اور ان کے مخالف باطل پر، بلکہ نہایت حکیمانہ طریقے سے دونوں چیزیں مخاطب کے سامنے رکھ کر خود اس سے انصاف طلب کیا گیا ہے، کیونکہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ کہے دونوں گمراہ ہیں، نہ یہ کہ دونوں حق پر ہیں۔ لا محالہ اسے ماننا پڑے گا کہ ہدایت پر وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو زمین و آسمان کا خالق و رازق ماننے کے بعد عبادت بھی اسی کی کرتا ہے اور وہ شخص یقیناً کھلی گمراہی میں ہوگا جو اللہ تعالیٰ کو خالق و رازق تو مانتا ہے، مگر عبادت دوسروں کی کرتا ہے، لہٰذا آپ اپنے منہ سے کہنے کے بجائے کہ مشرک باطل پر ہے، اسے فیصلے کا موقع دے کر اس مقام پر لے آئیں کہ وہ خود کہے کہ ایک اللہ کی عبادت کرنے والا حق پر ہے اور اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والا باطل پر ہے۔- 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ جو جہاں لگا ہوا ہے ٹھیک ہے، یا اپنی جگہ سب لوگ ہی درست ہیں، بلکہ حق ایک ہے اور جو حق پر نہیں وہ باطل پر ہے۔ باہم متضاد باتیں دونوں حق نہیں ہوسکتیں، مثلاً یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ بھی حق ہو کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور یہ بھی حق ہو کہ ہر نشہ آور چیز حرام نہیں۔ نہ ایک مسئلے میں چار متضاد مذہب حق ہوسکتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

بحث و مناظرہ میں مخاطب کے نفسیات کی رعایت اور اشتعال انگیزی سے پرہیز :- (آیت) وانا او ایاکم لعلی ھدی او فی ضلال مبین، یہ مشرکین و کفار کے ساتھ خطاب ہے۔ دلائل واضحہ سے اللہ تعالیٰ کا خالق ومالک ہونا اور قادر و مطلق ہونا واضح کردیا گیا، بتوں اور غیر اللہ کی بےبسی اور کمزوری کا مشاہدہ کرا دیا گیا، ان سب باتوں کے بعد موقع اس کا تھا کہ مشرکین کو خطاب کر کے کہا جاتا کہ تم جاہل اور گمراہ ہو کہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بتوں اور شیاطین کی پرستش کرتے ہو۔ مگر قرآن حکیم نے اس جگہ جو حکیمانہ عنوان اختیار فرمایا وہ دعوت و تبلیغ اور مخالفین اسلام اور اہل باطل سے بحث و مناظرہ کرنے والوں کے لئے ایک اہم ہدایت نامہ ہے کہ اس آیت میں ان کو کافر گمراہ کہنے کی بجائے عنوان یہ رکھا کہ ان دلائل واضحہ کی روشنی میں یہ تو کوئی سمجھدار آدمی کہہ نہیں سکتا کہ توحید و شرک دونوں باتیں حق ہیں اور اہل توحید اور مشرک دونوں حق پرست ہیں، بلکہ یقینی ہے کہ ان دونوں میں سے ایک حق پر دوسرا گمراہی پر ہے۔ اب تم خود سوچ لو اور فیصلہ کرلو کہ ہم حق پر ہیں یا تم۔ مخاطب کو خود کافر گمراہ کہنے سے اس کو اشتعال ہوتا، اس سے گریز کیا گیا، اور ایسا مشفقانہ عنوان اختیار کیا کہ سنگدل مخالف بھی غور کرنے پر مجبور ہوجائے۔ (از قرطبی وبیان القرآن)- یہ پیغمبرانہ دعوت و موعظمت اور مجادلہ بالتی ھی احسن کا طریقہ جو علماء کو وقت پیش نظر رکھنا چاہئے، اس کے نظر انداز ہونے ہی سے دعوت و تبلیغ اور بحث و مناظرہ بےاثر بلکہ مضر ہو کر رہ جاتا ہے۔ مخالفین ضد پر آجاتے ہیں ان کی گمراہی اور پختہ ہوجاتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ قُلِ اللہُ۝ ٠ ۙ وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى ہُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ ٢٤- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - إِنَّ وأَنَ- إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ- [ التوبة 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات .- وأَنْ علی أربعة أوجه :- الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت .- والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق .- والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص 6] أي : قالوا : امشوا .- وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] .- والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد - ( ان حرف ) ان وان - ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے - یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔- ( ان )- یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ - ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور آپ ان کفار مکہ سے یہ و پوچھیے کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ پانی برسا کر اور نباتات نکال کر کون تمہیں رزق دیتا ہے کہ اللہ ہی تمہیں رزق دیتا ہے ار رزق خداوندی کے بارے میں ہم یا تم ضرور راہ راست یا گمراہی پر ہیں یا یہ مطلب کہ مسلمانوں کی جماعت ہدایت پر ہے یا مکہ والو تم یا یہ کہ ہم تم کھلی گمراہی پر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) پوچھئے کہ کون ہے جو تمہیں رزق بہم پہنچاتا ہے آسمانوں اور زمین سے ؟ “- قُلِ اللّٰہُ وَاِنَّآ اَوْ اِیَّاکُمْ لَعَلٰی ہُدًی اَوْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ اللہ اور یقینا ہم یا تم لوگ یا تو ہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی میں “- یعنی ہمارے اور تمہارے عقائد و نظریات میں بعد المشرقین ہے۔ ان متضاد عقائد میں سے صرف ایک عقیدہ ہی درست ہوسکتا ہے۔ چناچہ منطق اور عقل کا فیصلہ یہی ہے کہ ہم دونوں میں سے ایک گروہ ہدایت پر ہے اور دوسرا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :42 سوال اور جواب کے درمیان ایک لطیف خلا ہے ۔ مخاطب مشرکین تھے جو صرف یہی نہیں کہ اللہ کی ہستی کے منکر نہ تھے بلکہ یہ بھی جانتے تھے کہ رزق کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں ۔ مگر اس کے باوجود وہ دوسروں کو خدائی میں شریک ٹھہراتے تھے ۔ اب جو ان کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ بتاؤ کون تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے ، تو وہ مشکل میں پڑ گئے ۔ اللہ کے سوا کسی کا نام لیتے ہیں تو خود اپنے اور اپنی قوم کے عقیدے کے خلاف بات کہتے ہیں ۔ ہٹ دھرمی کی بنا پر ایسی بات کہہ بھی دیں تو ڈرتے ہیں کہ خود اپنی قوم کے لوگ ہی اس کی تردید کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ اور اگر تسلیم کر لیتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے تو فوراً دوسرا سوال یہ سامنے آ جاتا ہے کہ پھر یہ دوسرے کس مرض کی دوا ہیں جنہیں تم نے خدا بنا رکھا ہے؟ رزق تو دے اللہ ، اور پوجے جائیں یہ ، آخر تمہاری عقل کہاں ماری گئی ہے کہ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ۔ اس دو گونہ مشکل میں پڑ کر وہ دم بخود رہ جاتے ہیں ۔ نہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے ۔ نہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی دوسرا معبود رازق ہے ۔ پوچھنے والا جب دیکھتا ہے کہ یہ لوگ کچھ نہیں بولتے ، تو وہ خود اپنے سوال کا جواب دیتا ہے کہ اللہ ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :43 اس فقرے میں حکمت تبلیغ کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے ۔ اوپر کے سوال و جواب کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ جو اللہ ہی کی بندگی و پرستش کرتا ہے وہ ہدایت پر ہو اور جو اس کے سوا دوسروں کی بندگی بجا لاتا ہے وہ گمراہی میں مبتلا ہو ۔ اس بنا پر بظاہر تو اس کے بعد کہنا یہ چاہیے تھا کہ ہم ہدایت پر ہیں اور تم گمراہ ہو ۔ لیکن اس طرح دو ٹوک بات کہہ دینا حق گوئی کے اعتبار سے خواہ کتنا ہی درست ہوتا حکمت تبلیغ کے لحاظ سے درست نہ ہوتا ۔ کیونکہ جب کسی شخص کو مخاطب کر کے آپ صاف صاف گمراہ کہہ دیں اور خود اپنے برسر ہدایت ہونے کا دعویٰ کریں تو وہ ضد میں مبتلا ہو جائے گا اور سچائی کے لیے اس کے دل کے دروازے بند ہو جائیں گے ۔ اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چونکہ مجرد حق گوئی کے لیے نہیں بھیجے جاتے بلکہ ان کے سپرد یہ کام بھی ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ حکیمانہ طریقے سے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کریں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے نبی ، اس سوال و جواب کے بعد اب تم ان لوگوں سے صاف کہہ دو کہ تم سب گمراہ ہو اور ہدایت پر صرف ہم ہیں ۔ اس کے بجائے تلقین یہ فرمائی گئی کہ انہیں اب یوں سمجھاؤ ۔ ان سے کہو ہمارے اور تمہارے درمیان یہ فرق تو کھل گیا کہ ہم اسی کو معبود مانتے جو رزق دینے والا ہے ، اور تم ان کو معبود بنا رہے ہو جو رزق دینے والے نہیں ہیں ۔ اب یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ہم اور تم دونوں بیک وقت راہ راست پر ہوں ۔ اس صریح فرق کے ساتھ تو ہم میں سے ایک ہی راہ راست پر ہو سکتا ہے ، اور دوسرا لامحالہ گمراہ ٹھہرتا ہے ۔ اس کے بعد یہ سوچنا تمہارا اپنا کام ہے کہ دلیل کے برسر ہدایت ہونے کا فیصلہ کر رہی ہے اور کون اس کی رو سے گمراہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani