Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٠] اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ عقل و فلم ہم سب کو یکساں دیا گیا ہے۔ تم اگر ایک مسلمہ کلیہ سے غلط نتیجہ اخذ کرکے اس پر اپنی زندگی کی راہ استوار کرتے ہو تو اس کے جواب دہ ہم تو نہیں ہوسکتے اور اگر بالفرض ہم غلط نتیجہ نکال کر اس پر عمل پیرا ہوگئے ہیں تو ہمارے متعلق تم سے سوال نہیں ہوگا۔ ہر ایک اپنے اپنے اعمال کا خود جواب دہ اور ذمہ دار ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّا تُسْـَٔــلُوْنَ عَمَّآ اَجْرَمْنَا ۔۔ : یہ بھی بحث و مناظرہ میں حکمت و شائستگی برتنے کی تعلیم ہے، یعنی باوجود یہ کہ مسلمان حق پر ہیں اور ان کے اعمال نیک ہیں، مگر انھیں چاہیے کہ مخاطب کو یوں کہہ کر غور و فکر کی دعوت دیں کہ اپنے صغیرہ گناہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لیے جرم کا لفظ استعمال کریں اور ان کے کفرو شرک اور کبیرہ گناہوں کے لیے لفظ ” عمل “ استعمال کریں کہ تم سے اس کے بارے میں سوال نہیں ہوگا جو ہم نے جرم کیے اور ہم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا جو عمل تم کر رہے ہو۔ اپنے لیے ماضی کا لفظ ” اَجْرَمْنَا “ استعمال کرنے کا حکم دیا اور ان کے لیے مضارع کا لفظ ” تَعْمَلُوْنَ “ استعمال کرنے کا حکم دیا، یعنی فرض کرو ہم مجرم ہیں تو اس کا خمیازہ ہم بھگتیں گے، تم سے اس کی باز پرس نہیں ہوگی اور تمہارا کوئی عمل گرفت کے قابل ہوا تو اس کی بازپرس تم سے ہوگی، ہم سے نہیں۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کو اپنا فائدہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ کہیں ہم غلط راستے پر تو نہیں جا رہے۔ ابن کثیر (رض) نے فرمایا، اس کا مطلب ان سے براءت کا اظہار ہے، یعنی نہ تم ہمارے ہو نہ ہم تمھارے، بلکہ ہم تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف، اس کی توحید اور اس اکیلے کی عبادت کی طرف دعوت دیتے ہیں، اگر تم قبول کرلو تو تم ہمارے اور ہم تمہارے ہوگئے اور اگر نہ مانو تو ہم تم سے بری ہیں اور تم ہم سے بری ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّيْ عَمَلِيْ وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۚ اَنْتُمْ بَرِيْۗـــــُٔوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ ) [ یونس : ٤١ ] ” اور اگر وہ تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لیے تمہارا عمل، تم اس سے بری ہو جو میں کرتا ہوں اور میں اس سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو۔ “ اور فرمایا : (قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ ) [ الکافرون : ١ تا ٦ ] ” کہہ دے اے کافرو میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور نہ میں اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم نے کی۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّا تُسْـَٔــلُوْنَ عَمَّآ اَجْرَمْنَا وَلَا نُسْـَٔــلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝ ٢٥- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور آپ ان سے فرما دیجیے کہ تم سے ہمارے جرائم کے بارے میں پوچھ گچھ نہ ہوگی اور ہم سے تمہارے جرائم کے بارے میں باز پرس نہیں ہوگی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ قُلْ لَّا تُسْئَلُوْنَ عَمَّآ اَجْرَمْنَا ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ تم سے نہیں پوچھا جائے گا ہمارے جرائم کے بارے میں “- تم سمجھتے ہو کہ ہم نے نیا دین گھڑ لیا ہے ‘ ہم نے تمہارے معبودوں کو جھٹلایا ہے اور ہم نے تمہارے خاندانوں میں پھوٹ ڈال دی ہے اور یوں ہم بہت سنگین جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے تم لوگ خاطر جمع رکھو ‘ ہمارے ان جرائم کے بارے میں تم سے پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ اپنے ان ” جرائم “ کا حساب ہم خود ہی دیں گے۔ یہاں پر مخالف فریق کو گمراہ کہنے کے بجائے دونوں میں سے کسی ایک فریق کی گمراہی کی بات کر کے اور ان کے الزام کے مطابق جرائم کو خود اپنی طرف منسوب کر کے ” حکمت ِتبلیغ “ کا بہت اہم سبق سمجھایا گیا ہے۔- وَلَا نُسْئَلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ” اور نہ ہی ہم سے پوچھا جائے گا تمہارے اعمال کے بارے میں۔ “- تبلیغ کا حکیمانہ اسلوب ملاحظہ ہو ‘ جہاں اپنے لیے لفظ ” جرم “ استعمال ہوا ہے ‘ وہاں مخالف کے لیے صرف ” عمل “ کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ کسی کی مخالفانہ عصبیت کو انگیخت کا بہانہ نہ ملے اور کسی کے اندر اگر کچھ سوچنے اور غور کرنے کی آمادگی پائی جاتی ہو تو اس کا دروازہ بند نہ ہونے پائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :44 اوپر کی بات سامعین کو پہلے ہی سوچنے پر مجبور کر چکی تھی ۔ اس پر مزید ایک فقرہ یہ فرما دیا گیا تاکہ وہ اور زیادہ تفکر سے کام لیں ۔ اس سے ان کو یہ احساس دلایا گیا کہ ہدایت اور گمراہی کے اس معاملے کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنا ہم میں سے ہر ایک کے اپنے مفاد کا تقاضا ہے ۔ فرض کرو کہ ہم گمراہ ہیں تو اپنی اس گمراہی کا خمیازہ ہم ہی بھگتیں گے ، تم پر اس کی کوئی پکڑ نہ ہو گی ۔ اس لیے یہ ہمارے اپنے مفاد کا تقاضا ہے کہ کوئی عقیدہ اختیار کرنے سے پہلے خوب سوچ لیں کہ کہیں ہم غلط راہ پر تو نہیں جا رہے ہیں ۔ اسی طرح تم کو بھی ہماری کسی غرض کے لیے نہیں بلکہ خود اپنی ہی خیر خواہی کی خاطر ایک عقیدے پر جمنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ کہیں تم کسی باطل نظریے پر تو اپنی زندگی کی ساری پونجی نہیں لگا رہے ہو ۔ اس معاملے میں اگر تم نے ٹھوکر کھائی تو تمہارا اپنا ہی نقصان ہو گا ، ہمارا کچھ نہ بگڑے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani