Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تمام اقوام کے لئے نبوت ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ ہم نے تجھے تمام کائنات کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا ١٥٨؁ ) 7- الاعراف:158 ) یعنی اعلان کر دو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور آیت میں ہے ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا Ǻ۝ۙ ) 25- الفرقان:1 ) بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان کو ہوشیار کر دے ۔ یہ بھی فرمایا کہ اطاعت گذاروں کو بشارت جنت کی دے اور نافرمانوں کو خبر جہنم کی ۔ لیکن اکثر لوگ اپنی جہالت سے نبی کی نبوت کو نہیں مانتے جیسے فرمایا ( وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ١٠٣؁ ) 12- یوسف:103 ) گو تو ہر چند چاہے تاہم اکثر لوگ بے ایمان رہیں گے ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا اگر بڑی جماعت کی بات مانے گا تو وہ خود تجھے راہ راست سے ہٹا دیں گے ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام لوگوں کی طرف تھی ۔ عرب عجم سب کی طرف سے اللہ کو زیادہ پیارا وہ ہے جو سب سے زیادہ اس کا تابع فرمان ہو ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان والوں اور نبیوں پر غرض سب پر فضیلت دی ہے ۔ لوگوں نے اس کی دلیل دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو قرآن فرماتا ہے کہ ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا ۔ تاکہ وہ اس میں کھلم کھلا تبلیغ کر دے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے عام لوگوں کی طرف اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا ۔ بخاری مسلم میں فرمان رسالت مآب ہے کہ مجھے پانچ صفتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دی گیں ۔ مہینہ بھر کی راہ تک میری مدد صرف رعب سے کی گئی ہے ۔ میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاک بنائی گئی ہے ۔ میری امت میں سے جس کسی کو جس جگہ نماز کا وقت آ جائے وہ اسی جگہ نماز پڑھ لے ۔ مجھ سے پہلے کسی نبی کے لئے غنیمت کا مال حلال نہیں کیا گیا تھا ۔ میرے لئے غنیمت حلال کر دی گئی ۔ مجھے شفاعت دی گئی ۔ ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا اور حدیث میں ہے سیاہ و سرخ سب کی طرف میں نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ یعنی جن وانس عرب و عجم کی طرف ، پھر کافروں کا قیامت کو محال ماننا بیان ہو رہا ہے کہ پوچھتے ہیں قیامت کب آئے گی؟ جیسے اور جگہ ہے بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور با ایمان اس سے کپکپا رہے ہیں اور اسے حق جانتے ہیں ۔ جواب دیتا ہے کہ تمہارے لئے وعدے کا دن مقرر ہو چکا ہے جس میں تقدیر و تاخیر ، کمی و زیادتی ناممکن ہے ۔ جیسے فرمایا ( اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاۗءَ لَا يُؤَخَّرُ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ Ć۝ ) 71-نوح:4 ) اور فرمایا ( وَمَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ ١٠٤؀ۭ ) 11-ھود:104 ) یعنی وہ مقررہ وقت پیچھے ہٹنے کا نہیں ۔ تمہیں اس وقت مقررہ وقت تک ڈھیل ہے جب وہ دن آ گیا پھر تو کوئی لب بھی نہ ہلا سکے گا اس دن بعض نیک بخت ہوں گے اور بعض بدبخت ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت عامہ کا بیان فرمایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری نسل انسانیت کا ہادی اور رہنما بنا کر بھیجا گیا ہے۔ دوسرا، یہ بیان فرمایا کہ اکثر لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش اور کوشش کے باوجود ایمان سے محروم رہیں گے۔ ان دونوں باتوں کی و ضاحت اور بھی دوسرے مقامات پر فرمائی ہے۔ مثلا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے ضمن میں فرمایا، ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ ) 7 ۔ الاعراف :158) (تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا) 25 ۔ الفرقان :1) ایک حدیث میں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں 1۔ مہینے کی مسافت پر دشمن کے دل میں میری دھاک بٹھانے میں میری مدد فرمائی گئی ہے۔ 2۔ تمام روئے زمین میرے لئے مسجد اور پاک ہے، جہاں بھی نماز کا وقت آجائے، میری امت وہاں نماز ادا کر دے۔ 3۔ مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا، جو مجھ سے قبل کسی کے لئے حلال نہیں تھا۔ 4۔ مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔ 5۔ پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، مجھے کائنات کے تمام انسانوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا ہے (صحیح بخاری صحیح مسلم، کتاب المساجد) احمر اسود سے مراد بعض نے جن وانس اور بعض نے عرب وعجم لیے ہیں امام ابن کثیر فرماتے ہیں دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ اسی طرح اکثر کی بےعلمی اور گمراہی کی وضاحت فرمائی (وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ) 12 ۔ یوسف :103) آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے (وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ) 6 ۔ الانعام :116) اگر آپ اہل زمین کی اکثریت کے پیچھے چلیں گے تو وہ آپ کو گمراہ کردیں گے جس کا مطلب یہی ہوا کہ اکثریت گمراہوں کی ہے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٣] یعنی آپ صرف عرب کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے اور صرف اپنے دور کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے اللہ کے رسول، ایمانداروں کو جنت کو بشارت دینے والے اور منکرین حق کو اخروی انجام بد سے ڈرانے والے ہیں۔ جبکہ آپ سے پہلے کے سب انبیاء کسی خاص قوم کے لئے، کسی خاص علاقہ کے لئے اور کس خاص دور کے لئے مبعوث کئے جاتے رہے ہیں۔ یہ مضمون قرآن کریم میں بھی متعدد مقامات پر وارد ہوا ہے اور احادیث صحیحہ میں بھی کثرت سے وارد ہے اس مضمون سے دو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ سب انبیاء سے افضل و اشرف ہیں۔ اور دوسری یہ کہ آپ کے بعد تاقیامت کوئی رسول یا نبی آنے والا نہیں۔ لہذا صرف اہل عرب کو نہیں بلکہ بیرون عرب تبلیغ کی بھی ذمہ داری آپ پر عائد تھی۔- صلح حدیبیہ تک تبلیغ اسلام کا جتنا کام ہوا تھا وہ سب اندرون عرب ہی ہوا تھا۔ صلح حدیبیہ کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ آپ ابھی تک بیرون عرب تبلیغ پر توجہ ہی نہ دے سکے تھے اور چاہتے تھے کہ چاروں طرف سے بیرونی خطرات سے کچھ سکون ملے تو ادھر توجہ کی جائے۔ صلح حدیبیہ کے بعد فوراً یہود خیبر کی سرکوبی کی گئی۔ پھر آپ نے ہمسایہ ممالک کے سربراہوں کو تبلیغ خطوط لکھنے کے بارے میں صحابہ کرام (رض) سے مشورہ کیا تو صحابہ کرام (رض) نے یہ عرض کیا کہ ملوک عجم صرف اس خط کو پڑھتے ہیں جس پر مہر لگی ہو چناچہ آپ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی جس پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ کندہ تھے۔ انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں گویا اب بھی اس مہر کی چمک اور نقوش دیکھ رہا ہوں (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب الشھادۃ علی الخط المختوم۔۔ ) اور ایک روایت میں ہے کہ ان الفاظ کی ترتیب یہ تھی کہ سب سے اوپر اللہ کا لفظ تھا اس کے نیچے رسول کا اور اس کے نیچے محمد کا۔- اس زمانہ میں دو بڑی سلطنتیں تھیں ایک روم کی، دوسرے ایران کی۔ اس لئے پہلے ہم انہی کا ذکر کرتے ہیں۔- روم کا شہنشاہ ہرقل خود تورات اور انجیل کا عالم تھا۔ اسے خوب معلوم تھا کہ نبی آخر الزمان کے ظور کا وقت آچکا ہے۔ اور نبی آخر الزماں کی خبریں اسے پہنچ بھی چکی تھیں اور وہ دل سے جان چکا تھا کہ نبی آخر الزمان آچکا ہے جس کی بشارات تورات اور انجیل میں موجود ہیں۔ پھر اس موقع کے چودہ سال پیشتر جب شہنشاہ روم کو ایران کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی تو قرآن نے سورة روم کے دوبارہ فتح پانے کی خوشخبری دی تھی۔ جبکہ ایسی معجزانہ فتح کے دور دور تک کہیں آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ اور یہ پیشین گوئی فتح بدر کے دن پوری ہوچکی تھی۔ اس سے بھی نبی آخرت الزمان کی صداقت کا یقین ہوچکا تھا۔ اور اس فتح سے وہ اتنا خوش ہوا تھا کہ پیدل بیت المقدس پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا شکرانہ ادا کیا تھا۔ اس کی طرف آپ نے دحیہ کلبی کو خط دے کر بھیجادحیہ کلبی ایک خوش شکل صحابی تھے، جن کی شکل رسول اللہ سے ملتی جلتی تھی اور جبرئیل جب بھی انسانی شکل میں آپ کے پاس آتے تو رحیہ کلبی ہی کی شکل میں آتے تھے۔ آپ نے ہرقل کی طرف جو خط لکھا اس کا مضمون یہ تھا :- بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے ہرقل رئیس روم کے نام، اما بعد میں تمہیں اسلام کے کلمہ کی طرف بلاتا ہوں اگر مسلمان ہوجاؤ تو سلامتی سے رہو گے اور اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا اور اگر اعراض کیا تو رعایا کا بار گناہ بھی تجھ پر ہوگا (پھر آپ نے سورة آل عمران کی یہ آیت لکھوائی۔ اے اہل کتاب اس بات کی طرف آؤ جو تم میں کلیساں ہے۔ کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہی ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اعراض کریں تو اے پیغمبر تم ان سے کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں۔ (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی)- دحیہ کلبی یہ خط لے کر حارث غسانی حاکم بصریٰ کے پاس پہنچے تاکہ وہ باضابطہ طور پر اسے شہنشاہ روم تک پہنچا دے۔ اس نے دحیہ کلبی کو شہنشاہ روم کے ہاں جانے کی اجازت دے دی وہاں جاکر حضرت دحیہ کلبی کو معلوم ہوا کہ ہرقل بیت المقدس آیا ہوا ہے۔ چناچہ انہوں نے بیت المقدس پہنچ کر یہ گرامی نامہ بادشاہ کے حوالہ کردیا۔ وہ خود تو دل سے ایمان لا چکا تھا اور چاہتا یہ تھا کہ اس کی رعایا بھی اس کے ساتھ مسلمان ہوجائے تاکہ اس کی سلطنت اسی کے پاس بحال رہ جائے۔ اس کے لئے وہ تدبیریں سوچنے لگا۔ آخر ایک تدبیر اس کے ذہن میں آوی۔ اس نے لوگوں سے پوچھا کیا ان دنوں قریش کا تجارتی قافلہ یہاں آیا ہوا ہے ؟ لوگوں نے بتلایا کہ ہاں ابو سفیان کا قافلہ آیا ہوا ہے۔ اور غزہ میں مقیم ہے۔ بادشاہ نے ابو سفیان کو اپنے ہاں بلوایا۔ اور دریں اثنا اس نے گیارہ سوالات پر مشتمل ایک ایسا سوالنامہ تیار کیا جس سے حقیقت کھل کر سامنے آجائے۔ یہ سوال بالکل ایسا ہی تھا جیسے کوئی وکیل اپنے موقف کی وضاحت کے لئے جرح کے دوران کیا کرتا ہے۔ اور اس سے اپنا مقصد یہ تھا کہ اس کے امیر و وزیر، فوجی افسر اور رعایا اسلام کی طرف مائل ہوجائیں اور اسلام لانا اس کے لئے سہل ہوجائے اب وہ سوالنامہ ابو سفیان کے جواب اور بعد میں اس پر اس کا اپنا تبصرہ صحیح بخاری سے درج کرتے ہیں۔ ابو سفیان کے ساتھ دو اور ساتھی بادشاہ کے سامنے پیش کئے گئے۔ بادشاہ نے اپنے سامنے ابو سفیان کو کھڑا کیا اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے اور ساتھیوں سے یہ کہہ دیا کہ اگر ابو سفیان کسی سوال کے جواب میں جھوٹ بولے تو فوراً اس ٹوک دینا۔ ایک ترجمان درمیان میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ ابو سفیان خود اپنے اسلام لانے کے بعد کہتے ہیں کہ اس دن ان سوالات نے میرا گھیرا اس قدر تنگ کردیا تھا کہ میں جھوٹ بولنا چاہتا تھا لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ بادشاہ نے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کو دربار میں حاضر ہونے پر پوچھا تم میں سے کون اس پیغمبر کا نزدیکی رشتہ دار ہے ؟ ابو سفیان نے کہا کہ میں ہوں۔ چناچہ سوال و جواب شروع ہوگئے۔ جس کے راوی بھی ابو سفیان ہی ہیں :- قیصر نے پوچھا : تم میں اس پیغمبر کا خاندان کیسا ہے ؟۔ میں نے کہا : اس کا نسب اچھا ہے۔- قیصر : تم میں سے پہلے بھی کسی نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا ؟ میں نے کہا : نہیں۔- قیصر : اس پیروی امیر لوگ کر رہے ہیں یا غریب ؟ میں نے کہا : غریب لوگ۔- قیصر : اس کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں ؟ میں نے کہا : بڑھتے جاتے ہیں۔- قیصر : کوئی شخص اس پر ایمان لاکر پھر اسے برا سمجھ کر پھر بھی جاتا ہے ؟ میں نے کہا۔ نہیں - قیصر : نبوت کے دعویٰ سے پہلے تم نے اسے کبھی جھوٹ سے متمم کیا ہے ؟ میں نے کہا، نہیں - قیصر : اس نے کبھی عہد شکنی کی ہے ؟ میں نے کہا نہیں، اب ہم نے صلح کا معاہدہ کیا ہے۔ دیکھیں اب وہ کیا کرتا ہے ؟ ابو سفیان کہتے ہیں مجھے اس بات کے علاوہ کوئی اور بات شامل کرنے کی گنجائش نہ مل سکی۔- قیصر : کیا تم نے اس سے کبھی جنگ کی ؟ میں نے کہا ہاں - قیصر : پھر اس لڑائی کا نتیجہ کیا رہا ؟ میں نے کہا : لڑائی تو ڈول کی طرح ہے۔ کبھی ہمارا نقصان کبھی اس کا۔- قیصر : اچھا تجھے وہ کیا حکم دیتا ہے ؟ میں نے کہا : وہ کہتا ہے بس ایک اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ اپنے باپ دادا کی باتیں چھوڑ دو ۔ وہ نماز پڑھنے، سچ بولنے، حرام کاری سے بچنے اور ناتا جوڑنے کا حکم دیتا ہے۔- یہ گیارہ سوال کرنے کے بعد ہرقل نے ابو سفیان کے جوابات پر جو اپنی طرف سے تبصرہ کیا وہ درج ذیل ہے :- میں نے تم سے اس کا خاندان پوچھا تو تم نے کہا وہ صاحب نسب ہے اور پیغمبر اپنی قوم میں صاحب نسب عالیٰ خاندان ہی بھیجے جاتے ہیں۔- میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کسی نے اس کے خاندان سے پیغمبری کا دعویٰ کیا تو نے کہا نہیں۔ اگر کسی نے دعویٰ کیا ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ شخص اس کی پیروی میں دعویٰ نبوت کر رہا ہے۔- میں نے پوچھا کہ اس کے بزرگوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے تو تم نے کہا نہیں۔ اگر کوئی بادشاہ ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ اپنے باپ کی بادشاہت حاصل کرنا چاہتا ہے۔- میں نے تم سے پوچھا، اس نے کبھی جھوٹ بولا ؟ تو تم نے کہا نہیں۔ اور ایسا کبھی نہیں ہوسکا کہ جو شخص لوگوں پر جھوٹ باندھنے سے پرہیز کرے وہ اللہ پر جھوٹ باندھے۔- میں نے تم سے پوچھا، کہ اس کی اطاعت امیروں نے کی ہے یا غریبوں نے تو تم نے کہا غریبوں نے۔ اور پیغمبروں کے تابعدار غریب ہی ہوتے ہیں۔- میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں تو تم نے کہا بڑھ رہے ہیں۔ اور ایمان کا یہی حال ہوتا ہے تاآنکہ وہ پورا ہوجائے۔- میں نے تم سے پوچھا کہ کوئی شخص اسلام لانے کے بعد اسے بیزار ہو کر نکلا بھی ہے ؟ تو تم نے کہا نہیں۔ اور ایمان کا یہی حال ہے جب اس کی بشاشت دل میں سما جاتی ہے۔- میں نے پوچھا، وہ عہد شکنی کرتا ہے تو تم نے کہا نہیں۔ اور پیغمبر کبھی اپنا عہد نہیں توڑا کرتے۔- میں نے پوچھا : وہ تمہیں کیا حکم دیتا ہے تو تم نے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو۔ کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ وہ تمہیں بت پرستی سے منع کرتا ہے۔ نماز اور سچائی کا اور حرام کاری سے بچ رہنے کا حکم دیتا ہے اگر تمہاری یہ سب باتیں سچ ہیں تو وہ عنقریب اس جگہ کا مالک ہوجائے گا جہاں میرے یہ پاؤں ہیں۔ اور میں یہ جانتا تھا کہ یہ پیغمبر آنے والا ہے لیکن یہ نہیں سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا اور اگر میں جانوں کہ میں اس تک پہنچ جاؤنگا تو اسے ضرور ملنے کی کوشش کروں گا اور اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا - یہ کہہ کر بادشاہ نے اپ کا نامہ مبارک سب کے سامنے پڑھ کر سنایا۔ جب درباریوں اور امیروں، وزیروں نے بادشاہ کو اس حد تک اسلام کی طرف مائل دیکھا تو غصہ سے ان کے نتھنے پھولنے اور آنکھیں سرخ ہونے لگیں۔ شور مچا اور آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابو کشبہ کے بیٹے (یہ آپ کے رضاعی باپ کی کنیت تھی اور ابو سفیان نے ازراہ حقارت یہ نام لیا تھا) کا تو بڑا درجہ ہوگیا۔ اس سے تو رومیوں کا بادشاہ ڈرتا ہے۔ اس دن سے مجھے یقین ہوگیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غالب ہوں گے۔ تاآنکہ اللہ نے مجھے مسلمان کردیا۔ (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی)- رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے ہرقل نے دوسرا کام یہ کیا کہ آپ کا نامہ مبارک ایک ممتاز عالم دین اور اپنے دوست ضغاطر کے پاس بھیج دیا۔ بعد میں خود بھی اس کے پاس پہنچ گیا۔ نبی آخرالزمان کے ظہور کے متعلق ضغاطر کی رائے بھی ہرقل کے موافق ثابت ہوئی۔ جسے ہرقل نے اپنی بھرپور تائید سمجھ کر رومی سرداروں کو اپنے حمص والے محل میں بلایا۔ اس کے دروازے بند کروادیئے اور خود بالاخانے سے برآمد ہوا اور کہنے لگا۔ رومی سردارو کیا تم اپنی کامیابی، بھلائی اور اپنے اپنے مناصب پر بحال رہنا چاہتے ہو ؟ اگر چاہتے ہو تو اس نبی کی بیعت کرلو یہ سنتے ہی وہ لوگ مشتعل ہو کر جنگلی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف لپے۔ دیکھا تو وہ بند ہیں۔ جب ہرقل کو معلوم ہوا کہ انھیں ایمان لانے سے اس قدر نفرت ہے اور ان کے ایمان لانے سے ناامید ہوگیا تو کہنے لگا، ان سرداروں کو میرے پاس لاؤ۔ جب وہ آئے تو انھیں کہنے لگا کہ میں نے یہ بات صرف تمہیں آزمانے کو کہی تھی کہ تم اپنے دین میں کتنے مضبوط ہو اور وہ مجھے معلوم ہوگیا اس پر سرداروں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہوگئے یہ تھی ہرقل کی آخری صورت حال (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی)- اس طویل حدیث سے، جسے امام مسلم نے پورے کا پورا درج کیا ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہرقل کو پورا یقین ہوچکا تھا کہ محمد اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور وہ دل سے ایمان لا بھی چکا تھا مگر اعیان سلطنت کے ڈر سے اپنے اس ایمان کا برملا اظہار نہ کرسکا۔ وہ نہ تو اپنی رعایا کی رائے عامہ کو اپنے حق میں سازگار کرنے میں کامیاب ہوسکا اور نہ ہی ایسی جرات کا مظاہرہ کرسکا کہ ایمان کی خاطر خود سلطنت سے دستبردار ہوجائے وہ اپنے اعیان سلطنت سمیت ایمان لانا چاہتا تھا تاکہ اسلام لانے کے بعد سلطنت بھی اسی کے پاس رہ۔ لیکن اس کے متعصب اعیان سلطنت نے اس کی یہ آرزو پوری نہ ہونے دی۔- ٢۔ دوسری بڑی سلطنت شہنشاہ ایران یا کسریٰ فارس کی تھی۔ اس کا نام پرویز تھا۔ نوشیروان عادل کا پوتا اور ہرمز کا بیٹا تھا۔ انتہائی متکبر انسان اور کبر و نخوت کا پتلا تھا۔ زرتشتی مذہب کا قائل تھا، نہ آخرت کا قائل تھا نہ انبیاء کا۔ مشرک اور آتش پرست تھا۔ مسلمانوں کے مقابلہ میں قریش مکہ کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں اور اسے ہی بدر کے دن قیصر روم کے ہاتھوں شکست بھی ہوئی تھی۔ اس کی طرف رسول اللہ نے عبداللہ بن حذافہ کو اپنا نامہ مبارک دے کر بھیجا اور فرمایا کہ یہ خط بحرین کے حاکم منذر بن ساری کو پہنچائے وہ اسے شاہ ایران تک پہنچا دے گا۔ خط کا مضمون یہ تھا :- بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد رسول اللہ کی طرف سے عظیم فارس کے نام۔ سلامتی اس شخص کے لئے جو ہدایت کی اتباع کرے۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور یہ کہ میں اللہ نے مجھے تمام دنیا کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ وہ ہر زندہ شخص کو اللہ کا خوف دلائے۔ اسلام قبول کرلو تو سلامت رہو گے اور اگر تم نے یہ بات تسلیم نہ کی تو تمام مجوس کا بار گناہ بھی تم پر ہوگا - عجم کا طریقہ یہ تھا کہ جو خط سلاطین کو لکھے جاتے ان میں بادشاہ کا نام سب سے پہلے ہوتا تھا اور مکتوب نگار کا بعد میں مگر یہاں ترتیب بالکل برعکس تھی سب سے پہلے اللہ کا نام تھا پھر رسول اللہ کا اور پھر کسریٰ کا۔ اسی بات پر ہی وہ سیخ پا ہوگیا۔ حضرت عبداللہ سے کہا : اگر تم قاصد نہ ہوتے تو میں تمہیں قتل کرا دیتا۔ پھر کہنے لگا کہ میں ایسے گستاخ شخص کے لئے ابھی گرفتاری کا فرمان جاری کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ کا نامہ مبارک پھاڑ ڈالا۔ اور کچھ عرصہ بعد جب حضرت عبداللہ نے واپس آکر رسول اللہ کو اس کے خط پھاڑنے کا قصہ سنایا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ ایسے ہی اس کی سلطنت کو پھاڑ ڈالے گا۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب ماذکر فی المناء۔۔ ) چناچہ آپ کی یہ پیشین گوئی خلفائے راشدین کے دور میں حرف بہ حرف پوری ہوگئی۔- چناچہ پرویز کجکلاہ ایران نے یمن کے حاکم باذان کو، جو شاہ ایران کا باجگذار تھا، خط لکھا کہ عرب میں جس شخص نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو ۔ ان دنوں عرب قبائل کی بالکل وہی نوعیت تھی جیسے پاکستان اور آزاد قبائل کی ہے۔ آزاد قبائل کئی باتوں میں آزاد ہیں اور بعض امور میں پاکستان سے ملحق ہیں۔ ایسے ہی کسریٰ عرب قبائل کو اپنی ہی سلطنت کا حصہ تصور کرتا تھا۔ جس کی بنا پر اس نے حاکم یمن کو ایسا خط بھیجا تھا۔ چناچہ باذان نے دو آدمی مدینہ بھیجے۔ انہوں نے آپ کے ہاں پہنچ کر عرض کی شہنشاہ عالم کسریٰ نے آپ کو بلایا ہے اگر اس کے حکم کی تعمیل نہ کرو گے تو وہ تمہیں اور تمہارے ملک کو تباہ و برباد کردے گا۔ آپ نے ان قاصدوں سے کہا کہ اب رات ہوگئی ہے۔ تم اب کل آنا۔ دوسرے دن جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے فرمایا : کہ تمہارے شہنشاہ عالم کو تو آج رات اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کر ڈالا ہے۔ تم واپس چلے جاؤ اور اسے کہہ دینا کہ اسلام کی حکومت ایران کے پایہ تخت تک پہنچے گی۔- جب یہ قاصد واپس یمن پہنچے تو اس وقت تک یمن میں پرویز شاہ ایران کے قتل ہونے کی خبر پہنچ چکی تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر باذان خود بھی مسلمان ہوگیا۔ یہ قاصد بھی اور رعایا کے اور بھی بھی بہت سے لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔- ٣۔ آپ نے تیسرا خط بصریٰ کو لکھا جس کا نام شرجیل بن عمرو غسانی تھا۔ اس کا علاقہ مدینہ کے شمال یمن شام کی سرحد پر واقع تھا۔ غسانی اگرچہ عرب تھے لیکن ایک مدت سے عیسائی ہوچکے تھے۔ ان کا دارالحکومت بصریٰ تھا اور شرجیل قیصر روم کے ماتحت اور اس کا باجگذار تھا۔ اس کے پاس آپ کے قاصد حارث بن عمیر خط لے گئے تو اس بدبخت نے آپ کے قاصد کو شہید کردیا۔ یہ چونکہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور اعلان جنگ کے مترادف تھا۔ لہذا آپ نے اس کے خلاف لشکر کشی کی تیاری شروع کردی اور جمادی الاول ٨ ھ میں تین ہزار کا لشکر روانہ فرمایا اور اس کا سپہ سالار زید بن حارثہ کو مقرر فرمایا۔ جو آپ کے آزاد کردہ غلام تھے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اگر زید شہید ہوجائیں تو پھر جعفر بن طیار جھنڈا سنبھا لیں اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ سپہ سالار ہوں گے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ موتہ عن ارض الشام) اس لشکر کو رخصت کرنے کے لئے آپ بنفس نفیس مدینہ سے باہر کچھ دور تک تشریف لے گئے۔- شرجیل کو بھی اسلامی لشکر کشی کی خبر ہوچکی تھی۔ اس نے اس مقابلہ کے ایک لاکھ فوج تیار کی جب مسلمانوں کو اس صورت حال کا علم ہوا وہ تردد میں پڑگئے کہ تین ہزار ایک لاکھ کی کیا نسبت ہے ؟ چناچہ حضرت زید کی رائے یہ تھی کہ ابھی توقف کیا جائے اور رسول اللہ کو مطلع کرکے مدینہ سے مزید کمک منگوائی جائے۔ لیکن عبداللہ بن رواحہ کہنے لگے کہ ہم تو شہادت کی متمنی ہیں۔ فتح و شکست اللہ کے ہاتھ میں ہے پھر ہم تاخیر کیوں کریں۔ چناچہ فوری طور پر مقابلہ کرنے پر سب کا اتفاق ہوگیا۔- موتہ کے مقام پر دونوں فوجوں کا آمناسامنا ہوا۔ اگرچہ مسلمان شوق شہادت میں انتہائی بےجگری سے لڑے مگر ایک اور تنتیس کا مقابلہ ہوگئے۔ زید بن حارثہ شہید ہوگئے تو جھنڈا جعفر طیار نے جو حضرت علی (رض) کے حقیقی بھائی تھے۔ سنبھالا آپ کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو جھنڈا بائیں ہاتھ میں سنبھالے رکھا۔ وہ بھی کٹ گیا تو ٹانگوں سے دبائے اور اٹھائے رکھا۔ آپ جس بےجگری اور بہادری سے لڑے۔ اس کے متعلق عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جب جعفر شہید ہوگئے تو میں ان کی لاش پر کھڑا ہوا۔ میں نے ان کے جسم پر تیروں اور تلواروں کے پچاس زخم دیکھے اور ان میں سے کوئی زخم بھی ان کی پشت پر نہیں تھا۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً ) لیکن لڑائی کے بعد جب سب لوگوں نے یہ نشان شمار کئے تو یہ نوے نشان تھے۔ (حوالہ ایضاً ) ان کے دونوں بازو کٹ گئے تھے ان کے متعلق رسول اللہ نے بتلایا کہ انھیں جنت میں دو پر عطا کئے گئے اسی نسبت سے ان کا لقب طیار بھی مشہور ہوگیا تھا اور ذوالجناحین بھی۔ چناچہ عبداللہ بن عمر (رض) عبداللہ بن جعفر (رض) سے سلام کرتے تو کہتے : دو پروں والے کے بیٹے تم پر سلام۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً )- حضرت جعفر کے بعد عبداللہ بن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا اور بالآخر وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب حضرت خالد بن ولید نے جھنڈا سنبھالا۔ خالد بن ولید آزمودہ کار جرنیل تھے۔ جنگ احد میں انہوں نے درہ خالی دیکھ کر حملہ کرکے مسلمانوں کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔ آپ نے باقی فوج کو اس انداز سے از سر نو ترتیب دیا کہ وہ اپنی اصل تعداد میں بہت زیادہ معلوم ہوتی تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر دشمن نے جو ان سے بیسیوں گناہ زیادہ تھے اسلامی لشکر کو ہر طرف سے گھیرے میں لے لیا۔ حضرت خالد نے پورے جوش سے حملہ کرکے ایک مقام سے اس گھیرے کو توڑ دیا اور اسلامی فوج کو دشمن کے محاصرہ سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ ـادھر یہ کارروائی ہو رہی تھی ادھر مدینہ میں رسول اللہ کو لوگوں نے ان الفاظ میں اطلاع دے دی۔ پہلے زید نے جھنڈا سنبھالا وہ شہید ہوئے، پھر جعفر نے جھنڈا سنبھالا وہ شہید ہوئے، پھر عبداللہ بن رواحہ نے سنبھالا وہ شہید ہوئے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ پھر فرمایا اس کے بعد اللہ کی تلواروں میں ایک تلوار نے جھنڈا سنبھالا یہاں تک کہ اللہ نے اس کے ہاتھ پر فتح دی (بخاری۔ حوالہ ایضاً )- چناچہ اسی دن سے حضرت خالد بن ولید کا لقب سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار مشہور ہوگیا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ غزوہ موتہ کے دن میرے ہاتھ پر نو تلواریں ٹوٹیں صرف ایک یمنی تیغہ میرے ہاتھ میں رہ گیا تھا۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً ) آپ کا نمایاں کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اسلامی لشکر کو دشمن کے نرغہ سے نکال لیا۔ اور خیر و عافیت سے بچا لائے اور اسی بات کو رسول اللہ نے فتح قرار دیا تھا۔- جب یہ لشکر واپس مدینہ آیا تو بعض صحابہ کو یہ شبہ ہوا کہ یہ لوگ جنگ سے بھاگ آئے ہیں اور انھیں ایسا طعنہ بھی دیا لیکن رسول اللہ نے اس کی پرزور تردید فرمائی اور فرمایا یہ جنگ بھگوڑے نہیں بلکہ پینترا بدل کر لڑنے والوں کے ضمن میں آتے ہیں۔ جس میں ایک بات کی طرف اشارہ تھا کہ ابھی ہمارا کام باقی ہے۔ اور وہ باقی کام غزوہ تبوک تھا۔ جس کا ذکر سورة توبہ میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔- ٤۔ چوتھا خط آپ نے نجاشی شاہ حبشہ کے نام لکھا۔ حبشہ میں مسلمان مہاجرین مقیم تھے اور نجاشی نے ان سے نہایت اچھا سلوک کیا یہ خود عیسائی تھا اور قیصر روم کا باجگذار تھا۔ مگر اسلام کی دعوت کو دل سے تسلیم کرچکا تھا۔ اور بعض روایات کے مطابق اس نے حضرت جعفر طیار کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس کی طرف آپ نے عمرو بن امیہ ضمری کو نامہ مبارک دے کر بھیجا جس کا مضمون یہ تھا :- بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد رسول اللہ کی طرف سے نجاشی اصمحہ شاہ حبش کے نام۔ تجھ پر سلام ہو میں اللہ کی حمد و ستائش کرتا ہوں جو پاک ہے۔ اور ایمان اور سلامتی دینے والا ہے اور میں شہادت دیتا ہوں کہ عیسیٰ بن مریم اللہ کی مخلوق اور اس کا کلمہ ہیں۔ جسے اللہ نے پاکباز مریم کی طرف القاء کیا اور وہ عیسیٰ سے حاملہ ہوئیں تو اللہ نے انھیں پیدا فرمایا۔ اپنے نفخہ اور اپنے روح سے۔ میں تمہیں اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں۔ ایمان لے آؤ تو سلامتی سے رہو گے اور میری پیروی کرو کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ میں نے اس سے پہلے اپنے چچیرے بھائی جعفر کو مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تمہارے پاس بھیجا ہوا ہے۔ انھیں آرام سے رکھنا۔ نجاشی تکبر چھوڑو۔ میں تمہیں اور تمہارے درباریوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں دیکھو میں نے تمہیں اللہ کا حکم پہنچا دیا اور خوب سمجھا دیا۔ اب مناسب ہے کہ میری نصیحت قبول کرو اور سلامتی اس شخص کے لئے ہے جو ہدایت قبول کرے۔- جب یہ خط نجاشی کو ملا تو اس نے جعفر کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا اور جواباً رسول اللہ کو تحریر کیا :- بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد رسول اللہ کی خدمت میں نجاشی اصحم بن ابجر کی طرف سے۔ اے اللہ کے نبی آپ پر اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکتیں ہوں اس اللہ کی جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور جس نے ہمیں اسلام کی طرف ہدایت فرمائی۔ امابعد۔ آپ کا فرمان میرے پاس پہنچا حضرت عیسیٰ کے متعلق آپ نے تحریر فرمایا ہے، اللہ کی قسم وہ اس سے ذرہ بھر بھی بڑھ کر نہیں ہم نے آپ کی تعلیم سیکھ لی ہے اور آپ کا چچا زادہ بھائی اور مسلمان میرے پاس آرام سے ہیں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ میں نے آپ کے چچیرے بھائی کے ہاتھ پر بیعت اور اللہ کی فرمانبرداری کا اقرار کرلیا ہے اور آپ کی خدمت میں اپنے بیٹے ارہا کو روانہ کرتا ہوں۔ اگر آپ کا یہ منشا ہو کہ میں خود آپ کے پاس حاضر ہوں تو میں ضرور حاضر ہوجاؤں گا۔ کیونکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ جو فرماتے ہیں، وہی حق ہے۔ والسلام علیک یارسول اللہ۔- ابن اسحاق کا بیان ہے کہ نجاشی نے اپنے بیٹے ارہا کو ساٹھ آدمیوں کے ہمراہ روانہ کیا مگر راستہ میں یہ جہاز مسافروں سمیت غرق ہوگیا۔- ٥۔ ان دنوں مصر کے حکمران مقوقس کہلاتے تھے۔ مصر کا مقوقس عیسائی اور اہل علم آدمی تھا اور قیصر روم کے زیر اثر تھا۔ اس کا دارالحکومت موجودہ اسکندریہ تھا۔ اس کے ہاں آپ نے حاطب بن ابی بلتعہ کو درج ذیل خط دے کر روانہ فرمایا :- بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد رسول اللہ کی طرف سے مقوقس مصر قبط کے نام۔ اس پر سلامتی ہے جس نے ہدایت کا اتباع کیا۔ بعد ازاں میں تمہیں اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ مسلمان ہوجاؤ، سلامتی پاؤ گے اور اللہ تمہی دگنا اجر عطا فرمائے گا۔ اور اگر تم نے نہ مانا تو تمام قبطیوں کا بار گناہ تم پر ہوگا۔ اے اہل کتاب اس کلمہ کی طرف آؤ۔ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ پھر اگر وہ اعراض کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ گواہ رہو کہ ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں۔- مقوقس بھی حقیقت سمجھ چکا تھا مگر اسے بھی قیصر روم کی طرح اسلام لانے کی جرات نہ ہوئی تاہم اس نے قاصد کو جواب میں ایک خط اور کچھ تحائف دے کر عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔ خط کا مضمون یہ تھا :- محمد بن عبداللہ کی طرف مقوقس رئیس قبط کی طرف سے سلام علیک کے بعد۔ مجھے معلوم تھا کہ ایک پیغمبر آنے والا ہے لیکن میں سمجھتا تھا کہ وہ شام میں ظہور کرے گا۔ میں نے آپ کے قاصد کی عزت کی۔ دو لڑکیاں بھیج رہا ہوں جن کی قبطیوں میں بہت عزت کی جاتی ہے۔ اور میں آپ کے لئے کپڑا اور آپ کی سواری لئے ایک خچر بطور ہدیہ بھیجتا ہوں۔ والسلام - یہ دو لڑکیاں جن کا نام ماریہ اور سیرین تھا۔ راہ میں ہی حاطب بن ابی بلتعہ کی تبلیغ سے مسلمان ہوگئی تھیں یہ شاہی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان میں سے ماریہ سے تو آپ نے خود نکاح کرکے حرم میں شامل کرلیا اور اسی کے بطن سے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے اور سیرین حضرت حسان بن ثابت کے حبالہ عقد میں آئیں۔ اور یہ دونوں حقیقی بہنیں تھیں۔ اور خچر سفید رنگ کی قدآور اور خوبصورت تھی اس کا نام دلدل تھا۔ جنگ حنین میں آپ اسی خچر پر سوار تھے۔- ٦۔ چھٹا خط آپ نے منذر بن ساویٰ والی بحرین کے نام حضرت علاء بن حضرمی کے ہاتھ روانہ فرمایا۔ یہ حکمران ساسانی یا ایرانی بادشاہوں کے زیراثر اور باجگذار تھے اور رعایا میں سے کچھ لوگ یہودی تھے اور کچھ مجوسی۔ جب اس کے پاس آپ کا گرامی نامہ پہنچا تو اس نے اسلام قبول کرلیا لیکن اس کی رعایا میں کچھ لوگ تو مسلمان ہوگئے اور کچھ اپنے سابقہ مذہب پر قائم رہے۔ ان کے متعلق منذر سے بارگاہ رسالت سے حکم دریافت فرمایا۔ آپ نے منذر کی سعادت اور صلاحیت کو بنظر عزت دیکھا اور یہود اور مجوس سے جزیہ وصول کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ یہ جزیہ تو مدینہ کے بیت المال میں جاتا تھا اور بحرین کی حکومت ان ہی کے پاس رہی۔- ٧۔ عمان بن جیفر بن جلندی اور عبداللہ بن جلندی دو بھائیوں کی حکومت تھی۔ آپ نے ان کے پاس حضرت عمرو بن عاص (رض) کو اپنا خط دے کر بھیجا۔ ان دونوں بھائیوں نے حضرت عمرو بن عاص (رض) کے ساتھ طویل مکالمہ اور گہرے غوروخوض کے بعد اسلام قبول کرلیا اور ان کے اثر سے رعایا کا اکثر حصہ بھی اسلام لے آیا۔- ٨۔ آٹھواں خط آپ نے ہوذہ بن علی والی یمامہ کے نام لکھا جو قبیلہ بنو حنیفہ کا رئیس تھا۔ حضرت سلیط بن عمر بن عبدشمس اس کے ہاں آپ کا نامہ مبارک لے کر گئے۔ ہوذہ نے قاصد رسول کی خوب عزت و تکریم کی اور تحائف بھی دیئے اور جواب میں آپ کو لکھا کہ جن باتوں کی طرف آپ بلاتے ہیں ان کے مستحسن ہونے میں کوئی شک نہیں۔ مگر آپ کو معلوم ہے کہ اہل عرب مجھے عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے دلوں میں میری ہیبت بیٹھی ہوئی ہے۔ اس لئے اگر حکومت کا نصب حصہ اور مخصوص اختیارات مجھے دیئے جائیں تو اسلام لانے کے لئے تیار ہوں۔ آپ نے یہ خط دیکھ کر فرمایا کہ ایک بالشت بھر زمین بھی مانگے تو نہیں مل سکتی۔ وہ خود اس کا مال و متاع عنقریب فنا ہونے والا ہے۔ پھر جب آپ فتح مکہ کے بعد عازم مدینہ ہوئے تو بذریعہ وحی آپ کو خبر مل گئی کہ ہوذہ حاکم یمامہ اس دنیا کو چھوڑ گیا ہے نیز آپ نے صحابہ کو یہ اطلاع بھی دی کہ یمامہ میں ایک جھوٹا مدعی نبوت پیدا ہوگا جو میرے بعد قتل کیا جائے۔ چناچہ مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس کا قصہ سورة مائدہ کے حاشیہ نمبر ٩٤ اور سورة احزاب کے حاشیہ نمبر ٦٦ میں مذکور ہے۔ یہ جھوٹا نبی آپ کی پیشین گوئی کے مطابق خلافت صدیقی میں حضرت حبشی کے ہاتھوں مارا گیا۔- ٩۔ آپ نے نواں خط حارث غسانی حاکم حدود شام کی طرف حضرت شجاع بن وہب کے دے کر بھیجا۔ یہ دمشق اور آس پاس کے علاقوں کا حاکم اور قیصر روم کا باجگذار تھا۔ جب اسے نامہ مبارک ملا تو پہلے تو بہت بگڑا اور مدینہ پر حملہ کی دھمکی بھی دی مگر بعد میں آپ کے قاصد کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔ لیکن اسلام قبول نہیں کیا۔- ہمسایہ ممالک میں آپ کے خطوط بھیجنے اور اس کے ردعمل سے اسلام اور مسلمانوں کو چند در چند فوائد حاصل ہوگئے۔ مثلاً ۔- (١) اس ذریعہ سے آپ نے تبلیغ رسالت کا فریضہ انجام دیا جو اللہ کی طرف سے آپ پر گرانبار ذمہ داری تھی اور پہلے اس کا موقعہ نہیں مل رہا تھا۔- (٢) ان تبلیغی خطوط سے بعض حکمران اور ان کی رعایا اسلام لے آئے جیسے حبشہ، یمن، عمان اور بحرین کے حکمرانوں نے اسلام قبول کرلیا۔ رعایا میں سے بھی بہت سے مسلمان ہوگئے۔ اور کچھ حکمران اسلام کے قریب ہوگئے۔ تاہم اسلام کی آواز عرب سے باہر دور دور تک پہنچ گئی۔- (٣) غزوہ موتہ اور اس کے نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ اب اسلامی حکومت میں کسی بڑی سے بڑی سلطنت سے ٹکر لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ قیصر روم کے داعیان سلطنت جو دعوت اسلام پر نتھنے پھلانے لگے تھے ان کے دماغ میں فرعونیت کا بت ٹوٹ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ غزوہ تبوک میں آپ وہاں بیس دن مقیم رہے لیکن غسانیوں اور رومیوں کو مقابلے پر آنے کی جرات نہ ہوئی۔- (٤) اندرون عرب بھی مشرک قبائل اور بالخصوص قریش مکہ پر مسلمانوں کا ایسا رعب طاری ہوا کہ فتح مکہ کے موقع پر کسی بھی قریش اتحاد کو مقابلے پر آنے کی سکت نہ رہی۔ پھر یہ سب کچھ ان تبلیغی خطوط اور ان کے رد عمل کا نتیجہ تھا۔- [ ٤٤] وہ یہ نہیں جانتے کہ پیغمبری کیا چیز ہے ؟ اور کس قدر ارفع و اعلیٰ مقام ہے۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ اللہ نے آپ کو کس قدر بلند مقام پر فائز کیا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ آپ کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ کی کس عظیم نعمت کا انکار کر رہے ہیں اور وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ آپ کا انکار کرکے انھیں کس قدر برے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّةً لِّلنَّاسِ : ” كَاۗفَّةً “ بمعنی ” عَامَّۃً “ ہے، یہ ” اَلنَّاسُ “ سے حال ہے، یعنی ہم نے تجھے نہیں بھیجا، مگر تمام لوگوں کی طرف۔ آخرت اور توحید کے بیان کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا بیان فرمایا۔ داؤد و سلیمان (علیہ السلام) کو نبوت کے ساتھ ایسی بادشاہت عطا ہوئی جو ان کا خاصہ تھی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی رسالت عطا ہوئی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی نبی کو عطا نہیں ہوئی۔ وہ یہ کہ پہلے تمام انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے اور ان کی دعوت محدود وقت تک کے لوگوں کے لیے ہوتی تھی، جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روئے زمین کی تمام اقوام اور سب لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہے۔ مزید دیکھیے سورة اعراف (١٥٨) ، انبیاء (١٠٧) اور سورة فرقان (١) کی تفسیر۔- ” كَاۗفَّةً “ کا ایک اور معنی بھی کیا گیا ہے کہ ” کَفَّ یَکُفُّ کَفًّا “ (ن) کا معنی روکنا ہے اور ” كَاۗفَّةً “ میں تاء تانیث کی نہیں، بلکہ مبالغہ کی ہے، جیسا کہ ” عَلَّامَۃٌ“ اور ” رَاوِیَۃٌ“ میں ہے، بہت روکنے والا، یعنی ہم نے تجھے لوگوں کو (ضلالت سے) بہت روکنے والا ہی بنا کر بھیجا ہے۔ یہ معنی بھی درست ہے۔- بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا : یعنی آپ کی دعوت میں بشارت و نذارت دونوں جمع ہیں، اطاعت کرنے والوں کے لیے خوش خبری دینا اور نہ ماننے والوں کو عذاب الٰہی سے ڈرانا۔- وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ : یعنی اکثر لوگ آپ کی قدرو منزلت نہیں جانتے، انھیں احساس نہیں کہ کیسی عظیم الشّان ہستی کی بعثت سے انھیں نوازا گیا ہے، اس لیے جہل کی وجہ سے وہ آپ کی مخالفت اور عدوات پر کمر بستہ ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے تو آپ کو تمام لوگوں کے واسطے (خواہ جن ہوں یا انسان، عرب ہوں یا عجم موجود ہوں یا آئندہ ہونے والے ہوں سب کے لئے) پیغمبر بنا کر بھیجا ہے (ایمان لانے پر ان کو ہماری رضا وثواب کی) خوش خبری سنانے والا اور (ایمان نہ لانے پر ان کو ہمارے غضب و عذاب سے) ڈرانے والا، لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے (جہالت یا عناد کی وجہ سے انکار و تکذیب میں لگ جاتے ہیں) ۔- معارف ومسائل - سابقہ آیات میں توحید اور حق تعالیٰ کے قادر مطلق ہونے کا بیان تھا، اس آیت میں رسالت کا اور بالخصوص ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا تمام اقوام عالم موجودہ و آئندہ کے لئے عام ہونا بیان کیا گیا ہے۔- کافة للناس لفظ کا فہ، عربی محاورہ میں کسی چیز کے سب کو عام و شامل ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس میں کوئی مستثنیٰ نہ ہو۔ اصل عبارت ترکیبی کا تقاضا یہ تھا کہ للناس کافة کہا جاتا، کیونکہ لفظ کافہ حال ہے، ناس کا، مگر عموم بعثت بیان کرنے کا اہتمام واضح کرنے کے لئے لفظ کافہ کو مقدم کردیا گیا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، ان کی رسالت و نبوت کسی خاص قوم اور خاص خطہ زمین کے لئے تھی۔ یہ حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصی فضیلت ہے کہ آپ کی نبوت ساری دنیا کے لئے عام ہے۔ اور صرف انسان ہی نہیں جنات کے لئے بھی ہے اور صرف ان لوگوں کے لئے نہیں جو آپ کے زمانہ میں موجود تھے بلکہ قیامت تک آنے والی انسانی نسلوں کے لئے عام ہے۔ اور آپ کی نبوت و رسالت کا تا قیامت باقی اور مسلسل رہنا ہی اس کا مقتضی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہوں آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہ ہو، کیونکہ دوسرا نبی اس وقت مبعوث ہوتا ہے جب پہلے کی شریعت اور تعلیمات مسخ و محرف ہوجائیں، تو دوسرا نبی اصلاح خلق کے مقصد کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ حق تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت اور اپنی کتاب قرآن کی حفاظت کا تا قیامت خود ذمہ لے لیا ہے، اس لئے وہ قیامت تک اپنی اصلی حالت میں قائم رہے گی اور کسی اور نبی کے مبعوث ہونے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔- صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں ملیں۔ ایک یہ کہ میری مدد اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا رعب دے کر فرمائی کہ ایک مہینہ کی مسافت تک لوگوں پر میرا رعب چھا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ میرے لئے پوری زمین کو مسجد اور طہور قرار دے دیا گیا ہے۔ (پچھلے انبیاء کی شریعتوں میں ان کی عبادت خالص عبادت گاہوں ہی میں ہوتی تھی، ان کی مساجد سے باہر میدان یا گھر میں عبادت نہ ہوتی تھی، اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے لئے پوری زمین کو اس معنی میں مسجد بنادیا کہ ہر جگہ نماز ادا ہو سکتی ہے۔ اور زمین کی مٹی کو پانی نہ ملنے یا پانی کا استعمال مضر ہونے کی صورت میں طہور یعنی پاک کرنے والا بنادیا کہ اس سے تیمم کرلیا جائے تو وضو کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ تیسرے یہ کہ میرے لئے مال غنیمت حلال کردیا گیا، مجھ سے پہلے کسی امت کے لئے یہ مال حلال نہیں تھا (بلکہ یہ حکم تھا کہ جنگ میں جو مال کفار کا ہاتھ آتا اس کو جمع کر کے ایک جگہ رکھ دیں، وہاں ایک آسمانی آگ بجلی وغیرہ آ کر اس کو جلا دے گی، اور یہ جلا دینا ہی اس جہاد کی مقبولیت کی علامت ہوگی۔ امت محمدیہ کے لئے مال غنیمت کو قرآن کے بتلائے ہوئے اصول کے مطابق تقسیم کرلینا اور اپنی ضروریات میں صرف کرنا جائز کردیا گیا) چوتھے یہ کہ مجھے شفاعت کبریٰ کا مقام دیا گیا (یعنی حشر کے میدان میں جس وقت کوئی پیغمبر شفاعت کی ہمت نہ کرے گا، مجھے اس وقت شفاعت کا موقع دیا جائے گا) پانچویں یہ کہ مجھ سے پہلے ہر نبی اپنی مخصوص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، مجھے تمام اقوام عالم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٢٨- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - كف - الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وكَفَفْتُهُ : أصبت كَفَّهُ ، وكَفَفْتُهُ : أصبته بالکفّ ودفعته بها . وتعورف الکفّ بالدّفع علی أيّ وجه کان، بالکفّ کان أو غيرها حتی قيل : رجل مَكْفُوفٌ لمن قبض بصره، وقوله تعالی: وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] أي : كافّا لهم عن المعاصي، والهاء فيه للمبالغة کقولهم : راوية، وعلّامة، ونسّابة، وقوله :- وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] قيل : معناه : كَافِّينَ لهم كما يقاتلونکم کافّين «2» ، وقیل : معناه جماعة كما يقاتلونکم جماعة، وذلک أن الجماعة يقال لهم الکافّة، كما يقال لهم الوازعة لقوّتهم باجتماعهم، وعلی هذا قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] ، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] فإشارة إلى حال النادم وما يتعاطاه في حال ندمه . وتَكَفَّفَ الرّجل : إذا مدّ يده سائلا، واسْتَكَفَّ : إذا مدّ كفّه سائلا أو دافعا، واسْتَكَفَّ الشمس : دفعها بكفّه، وهو أن يضع کفّه علی حاجبه مستظلّا من الشمس ليرى ما يطلبه، وكِفَّةُ المیزان تشبيه بالکفّ في كفّها ما يوزن بها، وکذا كِفَّةُ الحبالة، وكَفَّفْتُ الثوب : إذا خطت نواحيه بعد الخیاطة الأولی.- ( ک ف ف ) الکف - کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ کففتہ کے اصل معنی کسی کی ہتھیلیپر مارنے یا کسی کو ہتھلی کے ساتھ مار کر دو ر ہٹا نے اور روکنے کے ہیں پھر عرف میں دور ہٹانے اور روکنے کے معنی میں استعمال ہونے لگانے خواہ ہتھلی سے ہو یا کسی اور چیز سے رجل مکفو ف البصر جس کی مینائی جاتی رہی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو گناہوں سے روکنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ میں کافۃ کے معنی لوگوں کو گناہوں سے روکنے والا کے ہیں ۔ اس میں ہا مبالغہ کے لئے ہے ۔ جیسا کہ روایۃ وعلامۃ اور نشابۃ میں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] اور تم سب کے سب مشرکون سے لڑو جیسے وہسب کے سب تم سے لڑتے ہیں میں بعض نے دونوں جگہوں میں کا فۃ کے معنیکا فین یعنی روکنے والے کیے ہیں ۔ اور بعض نے یہ معنی کیا ہے ۔ کہ جماعۃ یعنی اجتماعی قوت کی وجہ سے اسے کافۃ بھی کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] مومنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ میں بھی کافۃ بمعنی جماعت ہی ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ پشمان ہونے والے کی حالت کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ انسان پشمانی کی حالت میں ہاتھ ملتا ہے ۔ تکفف الرجل سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا استکف سوال یا مدافعت کیلئے ہاتھ پھیلانا استکف الشمس ہتھلی کے ذریعہ دھوپ کو دفع کرتا اور وہ اس طرح کہ دھوپ کی شعا عوں کو روکنے کے لئے ابرؤں پر بطور سایہ ہاتھ رکھ لے تاکہ جس چیز کو دیکھنا مطلوب ہو آسانی سے دیکھی جا سکے ۔ کفۃ المیزان ترازو کا پلڑا ۔ کیونکہ وہ بھی موزوں چیز کو روک لینے میں ہتھیلی کے مشابہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی کفۃ الحبالۃ ہے جس کے معنی شکاری کے پھندا کے ہیں ۔ کففت التوب ۔ کچی سلائی کے بعد کپڑے کے اطراف کو سینا ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے اے نبی کریم آپ کو تمام جن و انس کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے کہ آپ اہل ایمان کو جنت کی خوشخبری سنانے والے اور کفار کو دوزخ سے ڈرانے والے ہیں لیکن مکہ والے اس چیز کو نہیں سمجھتے اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام بنی نوع انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر “- تمام انبیاء و رسل (علیہ السلام) میں یہ اعزاز صرف محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصے میں آیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام بنی نوع انسانی کی طرف رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنا کر بھیجا گیا۔ اس سلسلے میں یہ اہم نکتہ بھی نوٹ کیجئے کہ یہ فیصلہ تاریخ انسانی کے اس مرحلے پر کیا گیا جب انسانی تمدن اور ذرائع رسل و رسائل کی ترقی کے باعث آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو دنیا کے کونے کونے میں ایک ایک شخص تک پہنچانا عملی طور پر ممکن ہونے کے قریب تھا۔ ورنہ اس سے پہلے عملی طور پر کسی نبی یا رسول کی دعوت کو پوری نوع انسانی تک پہنچانا ممکن ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی پیغمبر آئے وہ مخصوص علاقوں میں ایک ایک قوم کی طرف مبعوث ہو کر آئے۔ اسی لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کے پیغمبروں کی بعثت کا تعارف قرآن حکیم میں اس طرح کرایا گیا ہے : وَاِلٰی عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًاط (ھود : ٥٠) وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا ٧ ( ھود : ٦١) ‘ وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاہُمْ شُعَیْبًا (ھود : ٨٤) ۔ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بارے میں یہاں یوں فرمایا گیا : وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ۔- وَّلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ” لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :47 یعنی تم صرف اسی شہر ، یا اسی ملک ، یا اسی زمانے کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کے لیے اور ہمیشہ کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہو ۔ مگر یہ تمہارے ہم عصر اہل وطن تمہاری قدر و منزلت کو نہیں سمجھتے اور ان کو احساس نہیں ہے کہ کیسی عظیم ہستی کی بعثت سے ان کو نوازا گیا ہے ۔ یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنے ملک یا اپنے زمانے کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک پوری نوع بشری کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیں ، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے ۔ مثلاً: وَاُحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا القرآنُ لِاُنْذِرَکُم بِہ وَمَنْ بَلَغَ ( لانعام 197 ) اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو متنبہ کروں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے ۔ قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً ( الاعراف ۔ 158 ) اے نبی کہہ دو کہ اے انسانو ، میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃ لِّلعٰلَمِیْنَ ( الانبیاء ۔ 107 ) اور اے نبی ، ہم نے نہیں بھیجا تم کو مگر تمام ایمان والوں کے لیے رحمت کے طور پر ۔ تَبٰرَ کَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً ۔ ( الفرقان ۔ 1 ) بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہان والوں کے لیے متنبہ کرنے والا ہو ۔ یہی مضمون نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی بہت سی احادیث میں مختلف طریقوں سے بیان فرمایا ہے ۔ مثلاً: بُعِثْتُ اِلَی الْاَحْمَرِ وَالْاَسْوَدِ ( مسند احمد ، مرویات ابو موسیٰ اشعری ) میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ امّا انا فارسلتُ الی الناس کلھم عامۃ وکان من قبلی انما یُرْسَلُ الیٰ قومہ ( مسند احمد ، مرویات عبداللہ بن عمرو بن عاص ) میں عمومیت کے ساتھ تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ حالانکہ مجھ سے پہلے جو نبی بھی گزرا ہے وہ اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا ۔ وکان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ ( بخاری و مسلم ، من حدیث جابر بن عبداللہ ) پہلے ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام انسانوں کے لیے مبعوث ہوا ہوں ۔ بعثت انا والساعۃ کھاتین یعنی اصبعین ۔ ( بخاری و مسلم ) میری بعثت اور قیامت اس طرح ہیں ، یہ فرماتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیاں اٹھائیں ۔ مطلب یہ تھا کہ جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی تیسری انگلی حائل نہیں ہے اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان بھی کوئی نبوت نہیں ہے ۔ میرے بعد بس قیامت ہی ہے اور قیامت تک میں ہی نبی رہنے والا ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani