29۔ 1 یہ بطور مذاق پوچھتے تھے، کیونکہ اس کا وقوع ان کے نزدیک بعید اور ناممکن تھا۔
وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْوَعْدُ ۔۔ : یعنی جس وقت کے متعلق تم نے ابھی کہا ہے کہ ” ہم سب کو ہمارا رب جمع کرے گا، پھر ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا “ وہ وقت آخر کب آئے گا ؟ ان کے پوچھنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس وقت کا علم ہونے پر وہ اس کے لیے تیاری کرنا چاہتے تھے، بلکہ یہ کہہ کر وہ قیامت کو جھٹلا رہے تھے اور اس کا مذاق اڑا رہے تھے، کیونکہ آخرت پر ایمان رکھنے والے اس کے جلدی لانے کا مطالبہ نہیں کیا کرتے، بلکہ اس سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ دیکھیے سورة شوریٰ (١٨) ۔
خلاصہ تفسیر - اور یہ لوگ (قیامت کے متعلق مضامین (آیت) یجمع بیننا ربنا ثم یفتح الخ سن کر) کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب (واقع) ہوگا اگر تم (یعنی نبی اور آپ کے متبعین) سچے ہو (تو بتلاؤ) آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے واسطے ایک خاص دن کا وعدہ (مقرر) ہے اس سے نہ ایک ساعت پیچھے ہٹ سکتے ہو اور نہ آگے بڑھ سکتے ہو (یعنی ہم وقت نہ بتائیں گے جو تم پوچھ رہے ہو مگر آئے گی ضرور جس کا اس پوچھنے سے انکار کرنا تمہارا مقصود ہے) اور یہ کفار (دنیا میں تو خوب خوب باتیں بناتے ہیں اور) کہتے ہیں کہ ہم ہرگز نہ اس قرآن پر ایمان لائیں گے اور نہ اس سے پہلی کتابوں پر اور (قیامت میں یہ ساری لمبی چوڑی باتیں ختم ہوجائیں گی، چنانچہ) اگر آپ (ان کی) اس وقت کی حالت دیکھیں (تو ایک ہولناک منظر نظر آئے) جبکہ یہ ظالم اپنے رب کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے ایک دوسرے پر بات ڈالتا ہوگا (جیسا کوئی کام بگڑ جانے کے وقت عادت ہوتی ہے، چنانچہ) ادنیٰ درجہ کے لوگ (یعنی متبعین) بڑے لوگوں سے (یعنی اپنے مقتداؤں سے) کہیں گے کہ (ہم تو تمہارے سبب برباد ہوئے) اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایمان لے آئے ہوتے (اس پر) یہ بڑے لوگ ان ادنیٰ درجہ کے لوگوں سے کہیں گے کہ کیا ہم نے تم کو ہدایت (پر عمل کرنے) سے (زبردستی) روکا تھا بعد اس کے کہ وہ (ہدایت) تم کو پہنچ چکی تھی، نہیں بلکہ تم ہی قصور وار ہو (کہ حق کے ظاہر ہونے کے بعد بھی اس کو قبول نہ کیا، اب ہمارے سر دھرتے ہو) اور (اس کے جواب میں) یہ کم درجہ کے لوگ ان بڑے لوگوں سے کہیں گے کہ (ہم یہ نہیں کہتے کہ تم نے زبردستی کی تھی) نہیں، بلکہ تمہاری رات دن کی تدبیروں نے روکا تھا جب تم ہم سے فرمائش کرتے رہتے تھے کہ ہم اللہ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے لئے شریک قرار دیں (تدبیروں سے مراد ترغیب و ترہیب ہے، یعنی رات دن کی ان تعلیمات اور ان تدبیرات کا اثر ہوگیا، اور تباہ و برباد ہوئے۔ بس ہم کو تم ہی نے خراب کیا) اور (اس گفتگو میں تو ہر شخص دوسرے پر الزام دے گا، مگر دل میں اپنا اپنا قصور بھی سمجھیں گے۔ مضلین سمجھیں گے کہ واقعی ہم نے ایسا کیا تو تھا اور ضالین سمجھیں گے کہ گو انہوں نے ہم کو غلط راستہ بتلایا تھا، لیکن آخر ہم بھی تو اپنا نفع نقصان سمجھ سکتے تھے، ضرور ہمارا بھی بلکہ زیادہ ہمارا ہی قصور ہے لیکن) وہ لوگ (اپنی اس) پشیمانی کو (ایک دوسرے سے) مخفی رکھیں گے جبکہ (اپنے اپنے عمل پر) عذاب (ہوتا ہوا) دیکھیں گے (تا کہ نقصان مایہ کے ساتھ شماتت ہمسایہ نہ ہو، لیکن آخر میں شدت عذاب سے وہ تحمل جاتا رہے گا) اور (ان سب کو مشترک یہ عذاب دیا جائے گا کہ) ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈالیں گے (اور ہاتھ پاؤں میں زنجیر پھر مشکیں کسا ہوا جہنم میں جھونک دیا جائے گا) جیسا کرتے تھے ویسا ہی تو بھرا۔
وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٢٩- متی - مَتَى: سؤال عن الوقت . قال تعالی: مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس 48] ، - ( م ت ی ) متی - ۔ یہ اسم استفہام ہے اور کسی کام کا وقت دریافت کرنے کے لئے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس 48] یہ وعدہ کب ( پورا ہوگا )- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
اور یہ کفا رم کہ یوں کہتے ہیں کہ وہ وعدہ جس کا آپ ہم سے وعدہ کرتے ہیں کب واقع ہوگا اگر آپ اپنے اس وعدے میں سچے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے۔
آیت ٢٩ وَیَـقُوْلُوْنَ مَتٰی ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ” اور وہ پوچھتے ہیں کہ کب پورا ہوگا یہ وعدہ ‘ اگر تم لوگ سچے ہو “- مشرکین کے اس سوال میں عذاب یا قیامت دونوں کی طرف اشارہ موجود ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں جو عذاب کی دھمکیاں دیتے ہیں یا قیامت برپا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ذرا یہ بھی تو بتائیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ وعدے کب پورے ہوں گے ؟
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :48 یعنی جس وقت کے متعلق ابھی تم نے کہا ہے کہ ہمارا رب ہم کو جمع کرے گا اور ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا ، وہ وقت آخر کب آئے گا ؟ ایک مدت سے ہمارا مقدمہ چل رہا ہے ۔ ہم تمہیں بار بار جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا تمہاری مخالفت کیے جا رہے ہیں ۔ اب اس کا فیصلہ کیوں نہیں کر ڈالا جاتا ؟