30۔ 1 یعنی اللہ نے قیامت کا دن مقرر کر رکھا ہے جس کا علم صرف اسی کو ہے، تاہم جب وہ وقت مقرر آجائے گا تو ایک ساعت بھی آگے، پیچھے نہیں ہوگا (اِ نَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِ ذَا جَآءَ لَا یُئَوخَّرُ ) 71 ۔ نوح :4)
[ ٤٥] یعنی یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ ابھی اس نے کتنے انسان اور پیدا کرنے ہیں۔ جن کا اسی دنیا اور اس نظام کائنات کے تحت امتحان لیا جانے والا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس کے پہلے سے طے شدہ سکیم کے مطابق ہو رہا ہے۔ وہ ہو کے رہے گا۔ تمہاری طلب کرنے یا جلدی مچانے سے یا پوچھتے رہنے سے وہ وقت سے پہلے نہیں آسکتا ہاں جب اس کا وقت آگیا تو پھر اس میں تاخیر ناممکن ہے۔ لہذا کرنے کا کام یہ ہے کہ اس دن کے آنے سے پہلے پہلے جو بہتر سے بہتر کام تم اپنے لئے کرسکتے ہو کرلو۔
قُلْ لَّكُمْ مِّيْعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْهُ سَاعَةً ۔۔ : یعنی تمہارے لیے اس کا ایک وقت مقرر کیا گیا ہے جس سے تم نہ ایک گھڑی پیچھے رہو گے کہ تمہیں توبہ اور رجوع کی مہلت ملے، نہ ایک گھڑی آگے ہو گے کہ مقرر وقت سے پہلے عذاب آجائے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جتنی مہلت طے کر رکھی ہے وہ پوری ہونے کے بعد ہی عذاب آئے گا، خواہ تم کتنی ہی جلدی مچاتے رہو۔ خلاصہ یہ کہ یہ مت پوچھو کہ وہ وقت کب آئے گا، بلکہ اس کے لیے تیاری کرو۔ مزید دیکھیے سورة یونس (٤٩) ۔
قُلْ لَّكُمْ مِّيْعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَۃً وَّلَا تَسْتَــقْدِمُوْنَ ٣٠ۧ- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - أخر ( تاخیر)- والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم 44] - ( اخ ر ) اخر - التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر - ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔
آپ ان سے فرما دیجیے کہ قیام قیامت کے لیے ایک خاص دن کا وقت مقرر ہے کہ اس وقت سے نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہو اور نہ آگے بڑھ سکتے ہو۔
آیت ٣٠ قُلْ لَّکُمْ مِّیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَۃً وَّلَا تَسْتَقْدِمُوْنَ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ تمہارے لیے ایک خاص دن کی میعاد مقرر ہے ‘ جس سے تم نہ تو ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکو گے اور نہ آگے بڑھ سکو گے۔ “
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :49 دوسرے الفاظ میں اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے تمہاری خواہشات کے تابع نہیں ہیں کہ کسی کام کے لیے جو وقت تم مقرر کرو اسی وقت پر وہ اس کام کو کرنے کا پابند ہو ۔ اپنے معاملات کو وہ اپنی ہی صوابدید کے مطابق انجام دیتا ہے ۔ تم اسے کیا سمجھ سکتے ہو کہ اللہ کی اسکیم میں نوع انسانی کو کب تک اس دنیا کے اندر کام کرنے کا موقع ملنا ہے ، کتنے اشخاص اور کتنی قوموں کی کس کس طرح آزمائش ہونی ہے ، اور کونسا وقت اللہ ہی کی اسکیم میں مقرر ہے اسی وقت پر یہ کام ہو گا ۔ نہ تمہارے تقاضوں سے وہ وقت ایک سکنڈ پہلے آئے گا اور نہ تمہاری التجاؤں سے وہ ایک سکنڈ کے لیے ٹل سکے گا ۔