کافروں کی سرکشی ۔ کافروں کی سرکشی اور باطل کی ضد کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ قرآن کی حقانیت کی ہزارہا دلیلیں بھی دیکھ لیں لیکن نہیں مانیں گے ۔ بلکہ اس سے اگلی کتاب پر بھی ایمان نہیں لائیں گے ۔ انہیں اپنے اس قول کا مزہ اس وقت آئے گا جب اللہ کے سامنے جہنم کے کنارے کھڑے چھوٹے بڑوں کو ، بڑے چھوٹوں کو الزام دیں گے ۔ ہر ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرائے گا ۔ تابعدار اپنے سرداروں سے کہیں گے کہ تم ہمیں نہ روکتے تو ہم ضرور ایمان لائے ہوئے ہوتے ، ان کے بزرگ انہیں جواب دیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں روکا تھا ؟ ہم نے ایک بات کہی تم جانتے تھے کہ یہ سب بےدلیل ہے دوسری جانب سے دلیلیوں کی برستی ہوئی بارش تمہاری آنکھوں کے سامنے تھی پھر تم نے اس کی پیروی چھوڑ کر ہماری کیوں مان لی؟ یہ تو تمہاری اپنی بےعقلی تھی ، تم خود شہوت پرست تھے ، تمہارے اپنے دل اللہ کی باتوں سے بھاگتے تھے ، رسولوں کی تابعداری خود تمہاری طبیعتوں پر شاق گذرتی تھی ۔ سارا قصور تمہارا اپنا ہی ہے ہمیں کیا الزام دے رہے ہو؟ اپنے بزرگوں کی مان لینے والے یہ بےدلیل انہیں پھر جواب دیں گے کہ تمہاری دن رات کی دھوکے بازیاں ، جعل سازیاں ، فریب کاریاں ہمیں اطمینان دلاتیں کہ ہمارے افعال اور عقائد ٹھیک ہیں ، ہم سے بار بار شرک و کفر کے نہ چھوڑنے ، پرانے دین کے نہ بدلنے ، باپ دادوں کی روش پر قائم رہنے کو کہنا ، ہماری کمر تھپکنا ۔ ہماے ایمان سے رک جانے کا یہی سبب ہوا ۔ تم ہی آ آ کر ہمیں عقلی ڈھکو سلے سنا کر اسلام سے روگرداں کرتے تھے ۔ دونوں الزام بھی دیں گے ۔ برات بھی کریں گے ۔ لیکن دل میں اپنے کئے پر پچھتا رہے ہوں گے ۔ ان سب کے ہاتھوں کو گردن سے ملا کر طوق و زنجیر سے جکڑ دیا جائے گا ۔ اب ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ ملے گا ۔ گمراہ کرنے والوں کو بھی اور گمراہ ہونے والوں کو بھی ۔ ہر ایک کو پورا پورا عذاب ہو گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جہنمی جب ہنکا کر جہنم کے پاس پہنچائے جائیں گے تو جہنم کے ایک شعلے کی لپیٹ سے سارے جسم کا گوشت جھلس کر پیروں پر آ پڑے گا ۔ ( ابن ابی حاتم ) حسن بن یحییٰ خشنی فرماتے ہیں کہ جہنم کے ہر قید خانے ، ہر غار ، ہر زنجیر ، ہر قید پر جہنمی کا نام لکھا ہوا ہے جب حضرت سلیمان دارانی کے سامنے یہ بیان ہوا تو آپ بہت روئے اور فرمانے لگے ہائے ہائے پھر کیا حال ہو گا اس کا جس پر یہ سب عذاب جمع ہو جائیں ۔ پیروں میں بیڑیاں ہوں ، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہوں ، گردن میں طوق ہوں پھر جہنم کے غار میں دھکیل دیا جائے ۔ اللہ تو بچانا پروردگار تو ہمیں سلامت رکھنا ۔ اللھم سلم اللھم سلم
31۔ 1 جیسے تورات، زبور اور انجیل وغیرہ۔ 31۔ 2 یعنی دنیا میں یہ کفر و شرک ایک دوسرے کے ساتھی اور اس ناطے سے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے تھے، لیکن آخرت میں یہ ایک دوسرے کے دشمن اور ایک دوسرے کو مورد الزام بنائیں گے۔ 31۔ 3 یعنی دنیا میں یہ لوگ، جو سوچے سمجھے بغیر، روش عام پر چلنے والے ہوتے ہیں اپنے ان لیڈروں سے کہیں گے جن کے وہ دنیا میں پیروکار بنے رہے تھے۔ 31۔ 4 یعنی تم ہی نے ہمیں پیغمبروں کے پیچھے چلنے سے روکا تھا، اگر تم اس طرح نہ کرتے تو ہم یقینا ایمان والے ہوتے۔
[ ٤٦] یعنی مشرکین مکہ صرف قرآن کے ہی منکر نہ تھے۔ بلکہ پہلی آسمانی کتابوں مثلاً تورات، انجیل وغیرہ کے بھی منکر تھے اور ان کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ ان سب کتابوں کے مرکزی اور بنیادی مضامین ملتے جلتے تھے۔ سب کتابوں میں توحید کا دعوت دی گئی تھی اور مشرک کو ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح عقیدہ آخرت کے بارے میں بھی سب الہامی کتابیں ایک دوسری کی تائید و توثیق کرتی تھیں۔ اور یہی دو باتیں تھیں جن پر محاذ آرائی شروع ہوچکی تھی۔ اور مشرکین مکہ انھیں کسی قیمت پر بھی ماننے کو تیار نہ تھے۔ لہذاسب الہامی کتابوں کا انکار کردیتے تھے۔- [ ٤٧] قرآن کریم میں ان دو فریقوں کا مکامہ بہت سے مقامات پر مذکور ہے۔ ایک فریق مطبع ہے یعنی کمزور قسم کے لوگ جو اپنے بڑوں کی اطاعت کرتے رہے۔ اور دوسرا فریق مطاع ہے یعنی بڑے لوگ جن کی اطاعت کی جاتی رہی۔ پھر ان بڑے لوگوں میں حکمران بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ سیاسی لیڈر، چودھری بھی، مولوی بھی، پروفیسر بھی یعنی ہر وہ شخص جو دینی یا دنیوی لحاظ سے عام لوگوں پر فوقیت رکھتا ہو۔ اور اس کی بات تسلیم کی جاتی رہی ہو اور یہ مکالمہ جہنم میں داخلہ سے پیشتر ہوگا۔ تاہم اس وقت تک سب لوگوں کو اپنا انجام معلوم ہوچکا ہوگا۔- [ ٤٨] کمزور لوگ یا اطاعت کرنے والے اپنے بڑے بزرگوں سے کہیں گے کہ ہماری گمراہی کا باعث تو تم ہی لوگ تھے۔ اگر تم لوگ ہمیں انبیاء کے خلاف استعمال نہ کرتے تو ہم یقیناً ان پر ایمان لے آتے اور اس برے انجام سے ہمیں دو چار نہ ہونا پڑتا۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ ۔۔ : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار مکہ سے توحید، رسالت اور آخرت پر بات کرتے ہوئے کبھی اپنی وحی کی تائید کے طور پر تورات و انجیل کا ذکر فرماتے کہ قرآن کی طرح ان میں بھی توحید اور آخرت کا ذکر ہے، تو کفار مکہ کبر و عناد میں آکر کہتے کہ نہ ہم اس قرآن کو مانیں گے، نہ اس سے پہلی کسی کتاب کو۔ قرآن مجید نے ان کی اس بات کے جواب یا اس کی تردید کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی، کیونکہ انھوں نے بات ہی ایسی کی جس کا نتیجہ پہلے تمام پیغمبروں کا انکار تھا، جو واضح طور پر غلط تھا اور انھوں نے یہ بات محض ضد میں آکر کہی تھی، ورنہ وہ پہلے پیغمبروں اور ان کی کتابوں کو جانتے تھے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ انھوں نے کبھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے موسیٰ (علیہ السلام) جیسے معجزے لانے کا مطالبہ کیا، جیسا کہ سورة قصص میں ہے : ( لَوْلَآ اُوْتِيَ مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي ) [ القصص : ٤٨ ]” اسے اس جیسی چیزیں کیوں نہ دی گئیں جو موسیٰ کو دی گئیں ؟ “ کبھی تورات کی طرح لکھی ہوئی کتاب لانے کا مطالبہ کیا، جیسا کہ سورة بنی اسرائیل میں ہے : (وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ ) [ بني إسرائیل : ٩٣ ] ” اور ہم تیرے چڑھنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے، یہاں تک کہ تو ہم پر کوئی کتاب اتار لائے جسے ہم پڑھیں۔ “ اگر پہلے کسی نبی یا اس کی شریعت یا کتاب کو مانتے ہی نہ تھے تو ان مطالبوں کا کیا مطلب ؟ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کی تردید کے بجائے قیامت کے دن ان کے ہونے والے برے حال کا ذکر فرمایا، جس قیامت کا وہ شدت سے انکار کرتے اور مذاق اڑاتے تھے۔ - وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۔۔ : ” رَجَعَ یَرْجِعُ “ (ض) لازم بھی آتا ہے اور متعدی بھی، لوٹنا اور لوٹانا۔ یہاں لوٹانا مراد ہے۔ ” الظّٰلِمُوْنَ “ ظالم سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے، الف لام کی وجہ سے ” یہ ظالم “ ترجمہ کیا گیا ہے۔ یعنی ان میں سے ہر ایک اپنی گمراہی کا الزام دوسروں پر دھر رہا ہوگا، جیسا کہ عموماً ناکامی کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ مکالمہ جہنم میں داخلے سے پہلے ہوگا، تاہم جہنم میں داخلے کے بعد بھی ان کا یہ جھگڑا جاری رہے گا۔ دیکھیے سورة اعراف (٣٨، ٣٩) ، ابراہیم (٢١) ، قصص (٦٣) ، احزاب (٦٦ تا ٦٨) ، مومن (٤٧، ٤٨) ، ص (٥٥ تا ٦١) بقرہ (١٦٥ تا ١٦٧) اور حمٰ السجدہ (٢٩) ۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بِالَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ ٠ ۭ وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ٠ ۚۖ يَرْجِــعُ بَعْضُہُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ ٠ ۚ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ ٣١- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - وقف - يقال : وَقَفْتُ القومَ أَقِفُهُمْ وَقْفاً ، ووَاقَفُوهُمْ وُقُوفاً. قال تعالی: وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ- [ الصافات 24] ومنه استعیر : وَقَفْتُ الدّارَ : إذا سبّلتها، والوَقْفُ : سوارٌ من عاج، وحمارٌ مُوَقَّفٌ بأرساغه مثلُ الوَقْفِ من البیاض، کقولهم : فرس مُحجَّل : إذا کان به مثلُ الحَجَل، ومَوْقِفُ الإنسانِ حيث يَقِفُ ، والمُوَاقَفَةُ : أن يَقِفَ كلُّ واحد أمره علی ما يَقِفُهُ عليه صاحبه، والوَقِيفَةُ : الوحشيّة التي يلجئها الصائد إلى أن تَقِفَ حتی تصاد .- ( و ق ف )- وقعت القوم ( ض) وقفا ر ( متعدی ) لوگوں کو ٹھہر انا اور دقفو ا وقو قا لازم ٹھہر نا ۔- قرآن میں ہے : ۔ وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ [ الصافات 24] اور ان کو ٹھہرائے رکھو کہ ان سے کچھ پوچھنا ہے اور سی سے بطور استعارہ وقفت الدار آتا ہے جس کے معنی مکان کو وقف کردینے ہیں ۔ نیز الوقف کے معنی ہاتھی دانت کا کنگن بھی آتے ہیں اور حمار موقف اس گدھے کو کہتے ہیں جس کی کلائوں پر کنگن جیسے سفید نشان ہوں جیسا کہ فرس محجل اس گھوڑے کا کہا جاتا ہے جس کے پاؤں میں حجل کی طرح سفیدی ہو ۔ مرقف الانسان انسان کے ٹھہرنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور الموافقتہ کا مفہوم یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے معاملہ کو اسی چیز پر روک دے جس پر کہ دوسرے نے روکا ہے ۔ ( ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑا ہونا ) الوقیفتہ بھگا یا ہوا شکار جو شکاری کے تعاقب سے عاجز ہوکر ٹھہر جائے ۔ یہاں تک کہ وہ اسے شکار کرلے ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - اسْتَضْعَفْ- واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ- [ النساء 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33]- استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے - الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔
اور کفار مکہ یعنی ابو جہل وغیرہ کہتے ہیں کہ ہم ہرگز اس قرآن حکیم پر ایمان نہیں لائیں گے اور نہ ان سے پہلی کتابوں یعنی توریت، انیل، زبور تمام آسمانی کتب پر ایمان لائیں گے اور اگر محمد آپ اس وقت کی حالت دیکھیں جبکہ قیامت کے دن یہ مشرکین اپنے پروردگار کے سامنے حاضر کیے جائیں گے کہ ایک دوسرے پر الزام لگائے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر لعن و طعن کرتے ہوں گے۔ چناچہ ادنی درجہ کے لوگ سرداروں سے جنہوں نے ایمان لانے سے تکبر کیا تھا کہتے ہوں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لے آتے۔
آیت ٣١ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بِالَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ ” اور کہا ان کافروں نے کہ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اس قرآن پر اور نہ ہی اس (قرآن) پر جو اس سے پہلے تھا۔ “- یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں لفظ قرآن کا اطلاق تورات پر بھی ہوا ہے۔ اس نکتہ کو سمجھنے کے لیے سورة القصص کی آیت ٤٨ کی تشریح بھی مدنظر رہنی چاہیے ‘ جس میں کفار کا وہ قول نقل ہوا ہے جس میں انہوں نے قرآن اور تورات کو سِحْرٰنِ تَظَاہَرَا قرار دیا تھا۔ ان کے اس الزام کا مطلب یہ تھا کہ تورات اور قرآن دراصل دو جادو ہیں جنہوں نے باہم گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔ تورات میں قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں پیشین گوئیاں ہیں جبکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرآن تورات کی تصدیق کررہا ہے۔ اس طرح ان دونوں نے ایکا کرکے ہمارے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا ہے۔ گویا انہوں نے اپنے اس بیان کے ذریعے قرآن اور تورات کے ایک ہونے کی تصدیق کی تھی۔ آیت زیر مطالعہ میں یہی بات ایک دوسرے انداز میں بیان کی گئی ہے۔- قرآن حکیم کے اس مطالعے کے دوران یہ اصول کئی بار دہرا یا جا چکا ہے کہ قرآن نے تورات کے جن احکام کی نفی نہیں کی وہ احکام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی شریعت میں قائم رکھے ہیں۔ مثلاً قتل ِمرتد ُ اور رجم تورات کے احکام تھے جن کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے برقرار رکھا۔ اور اسی اصول کے تحت قرآن میں کوئی صریح حکم نہ ہونے کے باوجود بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا ہے اور خلفائے راشدین (رض) سے بھی رجم کرنا ثابت ہے۔ چناچہ سوائے خوارج کے اہل ِسنت اور اہل تشیع ّکے تمام مکاتب فکر اس پر متفق ہیں کہ شادی شدہ زانی کی سزا رجم یعنی سنگسار کرنا ہے۔ البتہ قرآن پہلی الہامی کتابوں پر مُھَیْمِنْ (نگران) ہے ‘ یعنی اس کی حیثیت کسوٹی کی ہے۔ پہلی کتابوں کے اندر جو تحریفات ہوگئی تھیں ان کی تصحیح اس قرآن کے ذریعے ہوئی ہے۔ - یہاں پر میں ایک حدیث کا حوالہ دیناچاہتا ہوں۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک کتاب (تورات کا نسخہ) لے کر آئے جو انہیں اہل کتاب میں سے کسی نے دی تھی اور اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پڑھ کر سنانا شروع کردیا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناراض ہوئے اور فرمایا :- (أَمُتَھَوِّکُونَ فِیْھَا یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ جِئْتُکُمْ بِہٖ بَیْضَائَ نَقِیَّۃً لَا تَسْأَلُـوْھُمْ عَنْ شَیْئٍ فَیُخْبِرُوْکُمْ بِحَقٍّ فَتُکَذِّبُوْا بِہٖ اَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوْا بِہٖ ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَـوْ اَنَّ کَانَ مُوْسٰی حَیًّا مَا وَسِعَہُ اِلاَّ اَنْ یَّـتَّبِعَنِی) (١)- ” اے خطاب کے بیٹے کیا تم لوگ اس (تورات) کے بارے میں متحیر ہو ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے پاس یہ (قرآن) روشن اور پاکیزہ اور ہر آمیزش سے پاک لے کر آیا ہوں۔ ان (اہل کتاب) سے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھو ‘ مبادا وہ تمہیں حق بتائیں اور تم اس کو جھٹلا دو ‘ یا باطل خبر دیں اور تم اس کی تصدیق کر دو ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ ( ) زندہ ہوتے تو ان کے پاس بھی میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔ “- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کا مدعا بہت واضح ہے کہ قرآن کے احکام آخری اور حتمی ہیں ‘ تورات کے کسی حکم سے قرآن کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا قرآن کے کسی حکم کے سامنے تورات کے کسی حکم کا حوالہ دینے کا کوئی جواز نہیں۔- وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ” اور کاش آپ دیکھیں جب یہ ظالم کھڑے کیے جائیں گے اپنے رب کے سامنے۔ “- یَرْجِعُ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضِ نِ الْقَوْلَ ” وہ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹائیں گے۔ “- یعنی آپس میں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔- یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِیْنَ ” جو لوگ کمزور تھے وہ ان سے کہیں گے جو بڑے بنے ہوئے تھے کہ اگر تم لوگ نہ ہوتے تو ہم ضرور مومن ہوتے۔ “- تاویل ِخاص کے لحاظ سے یہاں قریش کے بڑے بڑے سرداروں کی طرف اشارہ ہے جو اپنے عوام کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے برگشتہ کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے آزماتے تھے۔ چناچہ قیامت کے دن ان کے عوام انہیں کوس رہے ہوں گے کہ اگر تم لوگ ہماری راہ میں حائل نہ ہوتے تو ہم ایمان لا چکے ہوتے اور آج ہمیں یہ روز بد نہ دیکھنا پڑتا۔
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :50 مراد ہیں کفار عرب جو کسی آسمانی کتاب کو نہیں مانتے تھے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :51 یعنی عوام الناس ، جو آج دنیا میں اپنے لیڈروں ، سرداروں ، پیروں اور حاکموں کے پیچھے آنکھیں بند کیے چلے جا رہے ہیں ، اور ان کے خلاف کسی ناصح کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، یہی عوام جب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ حقیقت کیا تھی اور ان کے یہ پیشوا انہیں کیا باور کرا رہے تھے ، اور جب انہیں یہ پتہ چل جائے گا کہ ان رہنماؤں کی پیروی انہیں کس انجام سے دوچار کرنے والی ہے ، تو یہ اپنے ان بزرگوں پر پلٹ پڑیں گے اور چیخ چیخ کر کہیں گے کہ کم بختو ، تم نے ہمیں گمراہ کیا ، تم ہماری ساری مصیبتوں کے ذمہ دار ہو ، تم ہمیں نہ بہکاتے تو ہم خدا کے رسولوں کی بات مان لیتے ۔