Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 یعنی ہمارے پاس کون سی طاقت تھی کہ ہم تمہیں ہدایت کے راستے سے روکتے، تم نے خود ہی اس پر غور نہیں کیا اور اپنی خواہشات کی وجہ سے ہی اسے قبول کرنے سے گریزاں رہے، اور آج مجرم ہمیں بنا رہے ہو ؟ حالانکہ سب کچھ تم نے خود ہی اپنی مرضی سے کیا، اس لئے مجرم بھی تم خود ہی ہو نہ کہ ہم۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٩] یعنی انبیاء نے جیسی دعوت ہمیں دی تھی ویسی ہی تہیں بھی دی تھی۔ ہم نے زبردستی کسی کو بھی ان کی دعوت قبول کرنے سے نہیں روکا تھا۔ اگر تم ایمان لانا چاہتے تو ہم تمہیں کیسے روک سکتے تھے۔ اس کے بجائے حقیقت یہ ہے کہ تم خود بھی انبیاء کی پیش کردہ دعوت اور اس کی پابندیوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے نہ ہی تم ان سختیوں کو برداشت کرنے پر آمادہ تھے جو انبیاء کو ماننے والوں کو پیش آتی تھیں۔ اس لحاظ سے ہم اور تم دونوں ایک جیسے مجرم ہیں۔ اگر کچھ فرق ہے تو یہ صرف یہ کہ ہم نے تمہیں اپنی طرف بلایا۔ اور ہمارا یہ بلانا چونکہ تمہارے اپنے ہی ضمیر کی آواز اور اپنی ہی خواہش نفس کی تکمیل تھی۔ لہذاتم نے فوراً ہماری دعوت کو قبول کرلیا۔ اس وقت حقیقت میں تم ہماری پیروی نہیں بلکہ اپنے نفس اور اپنے مفادات کی پیروی کر رہے تھے۔ ورنہ تم لوگ ہم سے تعداد میں بہت زیادہ تھے۔ اگر تم ایمان لانا چاہتے اور اس کام میں مخلص ہوتے تو تم ہمارا بھی ناطقہ بند کرسکتے تھے کیونکہ اکثریت میں تم تھے ہم نہیں تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِيْنَ : بلکہ تم خود مجرم تھے جو عقل اور سمجھ رکھنے کے باوجود محض دنیا کے لالچ میں ہمارے پیچھے چلتے رہے اور ہدایت قبول کرنے سے انکار کرتے رہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ الَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْٓا اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْہُدٰى بَعْدَ اِذْ جَاۗءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِيْنَ۝ ٣٢- صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً- ، [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اس پر یہ بڑے لوگ ان ادنی درجہ کے لوگوں سے کہیں گے کیا ہم نے تمہیں ایمان لانے سے روکا تھا حالانکہ رسول اکرم تمہارے پاس آچکے تھے بلکہ تم تو آپ کی بعثت سے پہلے ہی مشرک تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْٓا اَنَحْنُ صَدَدْنٰکُمْ عَنِ الْہُدٰی بَعْدَ اِذْ جَآئَ کُمْ بَلْ کُنْتُمْ مُّجْرِمِیْنَ ” (جواباً ) وہ کہیں گے جو بڑے بنے ہوئے تھے ان سے جو کمزور تھے : کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا ‘ اس کے بعد کہ وہ تمہارے پاس آگئی تھی ؟ بلکہ تم خود ہی مجرم تھے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :52 یعنی وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس ایسی کوئی طاقت نہ تھی جس سے ہم چند انسان تم کروڑوں انسانوں کو زبردستی اپنی پیروی پر مجبور کر دیتے ۔ اگر تم ایمان لانا چاہتے تو ہماری سرداریوں اور پیشوائیوں اور حکومتوں کا تختہ الٹ سکتے تھے ۔ ہماری فوج تو تم ہی تھے ۔ ہماری دولت اور طاقت کا سر چشمہ تو تمہارے ہی ہاتھ میں تھا ۔ تم نذرانے اور ٹیکس نہ دیتے تو ہم مفلس تھے ۔ تم ہمارے ہاتھ پر بیعت نہ کرتے تو ہماری پیری ایک دن نہ چلتی ۔ تم زندہ باد کے نعرے نہ مارتے تو کوئی ہمارا پوچھنے والا نہ ہوتا ۔ تم ہماری فوج بن کر دنیا بھر سے ہمارے لیے لڑنے پر تیار نہ ہوتے تو ایک انسان پر بھی ہمارا بس نہ چل سکتا تھا ۔ اب کیوں نہیں مانتے کہ دراصل تم خود اس راستے پر نہ چلنا چاہتے تھے جو رسولوں نے تمہارے سامنے پیش کیا تھا ۔ تم اپنی اغراض اور خواہشات کے بندے تھے اور تمہارے نفس کی یہ مانگ رسولوں کی بتائی ہوئی راہ تقویٰ کے بجائے ہمارے ہاں پوری ہوتی تھی ۔ تم حرام و حلال سے بے نیاز ہو کر عیش دنیا کے طالب تھے اور وہ ہمارے پاس ہی تمہیں نظر آتا تھا ۔ تم ایسے پیروں کی تلاش میں تھے جو تمہیں ہر طرح کے گناہوں کی کھلی چھوٹ دیں اور کچھ نذرانہ لے کر خدا کے ہاں تمہیں بخشوا دینے کی خود ذمہ داری لے لیں ۔ تم ایسے پنڈتوں اور مولویوں کے طلب گار تھے جو ہر شرک اور ہر بدعت اور تمہارے نفس کی ہر دل پسند چیز کو عین حق ثابت کر کے تمہارا دل خوش کریں اور اپنا کام بنائیں ۔ تم کو ایسے جعل سازوں کی ضرورت تھی جو خدا کے دین کو بدل کر تمہاری خواہشات کے مطابق ایک نیا دین گھڑیں ۔ تم کو ایسے لیڈر درکار تھے جو کسی نہ کسی طرح تمہاری دنیا بنا دیں خواہ عاقبت بگڑے یا درست ہو ۔ تم کو ایسے حاکم مطلوب تھے جو خود بد کردار اور بد دیانت ہوں اور ان کی سرپرستی میں تمہیں ہر قسم کے گناہوں اور بد کرداریوں کی چھوٹ ملی رہے ۔ اس طرح ہمارے اور تمہارے درمیان برابر کا لین دین کا سودا ہوا تھا ۔ اب تم کہاں یہ ڈھونگ رچانے چلے ہو کہ گویا تم بڑے معصوم لوگ تھے اور ہم نے زبردستی تمہیں بگاڑ دیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani