Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یعنی ہم مجرم تو تب ہوتے جب ہم اپنی مرضی سے پیغمبروں کی تکذیب کرتے، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ تم دن رات ہمیں گمراہ کرنے پر اور اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کا شریک ٹھہرانے پر آمادہ کرتے رہے جس سے بالآخر ہم تمہارے پیچھے لگ کر ایمان سے محروم رہے۔ 33۔ 2 یعنی ایک دوسرے پر الزام تراشی تو کریں گے لیکن دل میں دونوں ہی فریق اپنے اپنے کفر پر شرمندہ ہوں گے لیکن شماتت اعدا کی وجہ سے ظاہر کرنے سے گریز کریں گے۔ 33۔ 3 یعنی ایسی زنجریں جو ان کے ہاتھوں کو ان کی گردنوں کے ساتھ باندھیں گے۔ 33۔ 4 یعنی دونوں کو ان کے عملوں کی سزا ملے گی، لیڈروں کو ان کے مطابق اور ان کے پیچھے چلنے والوں کو ان کے مطابق جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ( لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ ) 7 ۔ الاعراف :38) یعنی ہر ایک کو دگنا عذاب ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٥٠] اب عوام اپنے لیڈروں اور پیشواؤں سے یوں مخاطب ہوں گے کہ تمہارے دن رات کے پروپیگنڈے سے ہی ہم متاثر ہوجاتے تھے تم ہمیں پھانسنے کے لئے ہر روز کوئی نئے سے نیا جال لاتے رہے۔ تم لوگ نام تو اسلام کا لیتے رہے مگر حقیقتاً تم اپنی ہی حکومت اور اپنی ہی چودھراہٹ چاہتے تھے۔ تمہارے جھوٹے پروپیگنڈہ نے ہماری مت مار دی تھی۔ اور ہم تمہیں مخلص سمجھ کر تمہارا ساتھ دیتے رہے۔ لہذا ہماری گمراہی کا باعث تم ہی لوگ ہو۔ - [ ٥١] ان دونوں فریقوں کے مکالمہ سے ہر فری کو معلوم ہوجائے گا کہ دونوں فریق قصور وار ہیں۔ اور یہ مکالمہ محض بحث برائے بحث ہی ہے۔ لہذا ہم ان دونوں کو ایک جیسی سزا دیں گے ان کے گلوں میں طوق اور پاؤں میں زنجیریں ڈال کر انھیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۔۔ : ” أَيْ بَلْ صَدَّنَا عَنِ الْھُدٰی مَکْرُکُمْ فِي اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ “ یعنی کمزور لوگ ان بڑوں سے کہیں گے کہ صرف یہی نہیں کہ ہم مجرم تھے اور تمہارا ہمیں ہدایت سے روکنے میں کوئی دخل نہ تھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمہاری دن رات کی تدبیروں اور سازشوں نے ہمیں راہ راست سے روکے رکھا۔ جب تم ہمیں اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کے ساتھ شریک بنانے کا حکم دیا کرتے تھے۔- وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ : یعنی دونوں فریق ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں گے، مگر دونوں ہی اپنے اپنے کفر پر نادم ہوں گے، لیکن اپنی پشیمانی اور ندامت کو چھپانے کی کوشش کریں گے۔ - وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِيْٓ اَعْنَاقِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : آپس کی بحث سے دونوں فریقوں کو معلوم ہوجائے گا کہ دونوں ہی مجرم ہیں اور ان کی یہ بحث لاحاصل ہے۔ لہٰذا ہم دونوں کو ایک جیسی سزا دیں گے، ان کے گلوں میں طوق اور پاؤں میں لوہے کی زنجیریں ڈال کر انھیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔- هَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : یعنی یہ عذاب ان کے اپنے اعمال ہی کی جزا ہوگی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَــنَآ اَنْ نَّكْفُرَ بِاللہِ وَنَجْعَلَ لَہٗٓ اَنْدَادًا۝ ٠ ۭ وَاَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ۝ ٠ ۭ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِيْٓ اَعْنَاقِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝ ٠ ۭ ہَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ٣٣- اسْتَضْعَفْ- واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ- [ النساء 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33]- استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے - الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- ندد - نَدِيدُ الشیءِ : مُشارِكه في جَوْهَره، وذلک ضربٌ من المماثلة، فإنّ المِثْل يقال في أيِّ مشارکةٍ کانتْ ، فكلّ نِدٍّ مثلٌ ، ولیس کلّ مثلٍ نِدّاً ، ويقال : نِدُّهُ ونَدِيدُهُ ونَدِيدَتُهُ ، قال تعالی:- فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة 22] ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة 165] ، وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت 9] وقرئ : (يوم التَّنَادِّ ) [ غافر 32] «2» أي : يَنِدُّ بعضُهم من بعض . نحو : يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس 34] .- ( ن د د )- ندید الشئی ۔ وہ جو کسی چیز کی ذات یا جوہر میں اس کا شریک ہو اور یہ ممانعت کی ایک قسم ہے کیونکہ مثل کا لفظ ہر قسم کی مشارکت پر بولا جاتا ہے ۔ اس بنا پر ہرند کو مثل کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر مثل ند نہیں ہوتا ۔ اور ند ، ندید ندید ۃ تینوں ہم معنی ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔- فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة 22] پس کسی کو خدا کا ہمسر نہ بناؤ ۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة 165] اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریک خدا بناتے ہیں ۔ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت 9] اور بتوں کو اس کا مد مقابل بناتے ہو ۔ اور ایک قرات میں یوم التناد تشدید دال کے ساتھ ہے اور یہ نذ یند سے مشتق ہے جس کے معنی دور بھاگنے کے ہیں اور قیامت کے روز بھی چونکہ لوگ اپنے قرابتدروں سے دور بھاگیں گے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس 34] میں مذکور ہے اس لئے روز قیامت کو یو م التناد بتشدید الدال کہا گیا ہے ۔- سرر (كتم)- والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] - ( س ر ر ) الاسرار - السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ - ندم - النَّدْمُ والنَّدَامَةُ : التَّحَسُّر من تغيُّر رأي في أمر فَائِتٍ. قال تعالی: فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ- [ المائدة 31] وقال : عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون 40] وأصله من مُنَادَمَةِ الحزن له . والنَّدِيمُ والنَّدْمَانُ والْمُنَادِمُ يَتَقَارَبُ. قال بعضهم : المُنْدَامَةُ والمُدَاوَمَةُ يتقاربان . وقال بعضهم : الشَّرِيبَانِ سُمِّيَا نَدِيمَيْنِ لما يتعقّبُ أحوالَهما من النَّدَامَةِ علی فعليهما .- ( ن د م ) الندم واندامۃ کے معنی فوت شدہ امر پر حسرت کھانیکے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ [ المائدة 31] پھر وہ پشیمان ہوا ۔ عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون 40] تھوڑے ہی عرصے میں پشیمان ہو کر رہ جائنیگے ۔ اس کے اصل معنی حزن کا ندیم جا نیکے ہیں اور ندیم ندمان اور منادم تینوں قریب المعنی ہیں بعض نے کہا ہے کہ مند نۃ اور مداومۃ دونوں قریب المعنی میں ۔ اور بقول بعض اہم پیالہ ( شراب نوش ) کو ندیمان اسلئے کہا جاتا ہے ۔ کہ انجام کا ر وہ اپنے فعل پر پشیمان ہوتے ہیں ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - غل - الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له :- الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] - ( غ ل ل ) الغلل - کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔- عنق - العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ- ( ع ن ق ) العنق - ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اس پر یہ ادنی درجہ کے لوگ ان سرداروں سے کہیں گے کہ بلکہ تمہاری رات دن کی تدبیروں نے روکا تھا جب کہ تم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے شریک ٹھہرائیں لیکن وہ سردار ان ادنی درجہ کے لوگوں سے اپنی شرمندگی چھپائیں گے یا یہ کہ ان دونوں کی شرمندگی خودبخود ظاہر ہوجائے گی جب یہ عذاب دیکھیں گے۔- اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈالیں گے اور جیسی یہ کفریہ باتیں اور کام کرتے تھے قیامت کے دن اسی کی تو سزا بھگتیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا بَلْ مَکْرُ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ ” اس پر کہیں گے وہ جو کمزور تھے ان سے جو بڑے بنے ہوئے تھے بلکہ یہ (تمہاری) رات دن کی سازشیں تھیں “- اِذْ تَاْمُرُوْنَنَآ اَنْ نَّکْفُرَ بِاللّٰہِ وَنَجْعَلَ لَہٗٓ اَنْدَادًا ” جب تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اللہ کا کفر کریں اور اس کے لیے مد ِمقابل ٹھہرائیں۔ “- وَاَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ ” اور وہ چھپائیں گے ندامت کو جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے۔ “- وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِیْٓ اَعْنَاقِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ” اور ہم نے طوق ڈال دیے ہیں ان کافروں کی گردنوں میں۔ ‘ ‘- ہَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ” ان کو بدلہ نہیں ملے گا مگر اسی کا جو عمل وہ کرتے تھے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :53 دوسرے الفاظ میں ان عوام کا جواب یہ ہو گا کہ تم اس ذمہ داری میں ہم کو برابر کا شریک کہاں ٹھہرائے دے رہے ہو ۔ کچھ یہ بھی یاد ہے کہ تم نے اپنی چال بازیوں ، فریب کاریوں اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے کیا طلسم باندھ رکھا تھا ، اور رات دن خلق خدا کو پھانسنے کے لیے کیسے کیسے جتن تم کیا کرتے تھے ۔ معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ تم نے ہمارے سامنے دنیا پیش کی اور ہم اس پر ریجھ گئے ۔ امر واقعہ یہ بھی تو ہے کہ تم شب و روز کی مکاریوں سے ہم کو بے وقوف بناتے تھے اور تم میں سے ہر شکاری روز ایک نیا جال بن کر طرح طرح کی تدبیروں سے اللہ کے بندوں کو اس میں پھانستا تھا ۔ قرآن مجید میں پیشواؤں اور پیروں کے اس جھگڑے کا ذکر مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے آیا ہے ۔ تفصیل کے لیے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: اعراف ، آیات 38 ۔ 39 ۔ ابراہیم ، 21 ۔ القصص ، 63 ۔ الاحزاب ، 66 ۔ 68 ۔ المومن ، 47 ۔ 48 ۔ حٰم السجدہ ، 29 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

17: یعنی ظاہر میں تو ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے، لیکن دل میں سمجھتے ہوں گے کہ در اصل جرم میں ہم سب شریک ہیں، اس لیے دل ہی دل میں پچھتا رہے ہوں گے۔