Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 پس وہ کبھی کافر کو بھی خوب مال دیتا ہے، لیکن کس لئے ؟ خلاف معمول کے طور پر، اور کبھی مومن کو تنگ دست رکھتا ہے، کس لئے ؟ اس کے اجر وثواب میں اضافے کے لئے۔ اسلئے مال کی فروانی اس کی رضا کی اور اس کی کمی، اس کی نارضگی کی دلیل نہیں ہے۔ یہ تکرار بطور تاکید کے ہے۔ 39۔ 2 اخلاف کے معنی ہیں، عوض اور بدلہ دینا، یہ بدلہ دنیا میں بھی ممکن ہے اور آخرت میں تو یقینی ہے حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انفق انفق علیک۔ تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ 39۔ 3 کیونکہ ایک بندہ اگر کسی کو دیتا ہے تو اس کا یہ دینا اللہ کی توفیق وتیسر اور اس کی تقدیر سے ہی ہے حقیقت میں دینے والا اس کار ازق نہیں ہے جس طرح بچوں کا باپ بچوں کا یا بادشاہ اپنے لشکر کا کفیل کہلاتا ہے حالانکہ امیر اور مامور بچے اور بڑے سب کا رازق حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سب کا خالق ہے اس لیے جو شخص اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے کسی کو کچھ دیتا ہے تو وہ ایسے مال میں تصرف کرتا ہے جو اللہ ہی نے اسے دیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٥٩] یعنی رزق کی فراخی نہ اللہ کی رضا کی معیار ہے نہ انسان کی اپنی فلاح کا۔ بلکہ رزق کا تعلق صرف مشیت الٰہی سے ہے۔ جس میں اس کی اپنی کئی حکمتیں مضمر ہیں۔ بسا اوقات وہ ظالموں کو زیادہ رزق دے کر انہیں عذاب شدید کا مستحق بنا دیتا ہے۔ اور بعض دفعہ اپنے فرمانبرداروں کو فقر و فاقہ میں مبتلا کرکے ان کے درجات کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ دولت بذات خود ایک ڈھلتی چھاؤں ہے۔ ایک ہی آدمی کے پاس کبھی زیادہ آجاتی ہے پھر اسی سے چھن بھی جاتی ہے۔ پھر جب مال و دولت میں ہی استقرارو استقلال نہیں تو پھر اسے خیر و شر کا معیار کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ ؟- [ ٦٠] اس جملہ میں صدقہ و خیرات کرنے والے لوگوں کے لئے ایک عظیم خوشخبری ہے اور ایک ایسی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ جو بارہا لوگوں کے تجربہ میں آچکی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اور اللہ کی رضا کے لئے خلوص نیت کے ساتھ انسان جو کچھ بھی خرچ کرتا ہے۔ اللہ اس کی جگہ اس خرچ کئے ہوئے مال جتنا یا اس سے زیادہ دے دیتا ہے وہ کس ذریعہ سے دیتا ہے اس کی کوئی مادی توجیہہ پیش کی جاسکتی۔ تاہم ہمارا تجربہ اور ہمارا وجدان دونوں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور درج ذیل احادیث بھی اسی مضمون کی تائید و توثیق کرتی ہیں :- ١۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اے آدم کے بیٹے تو (دوسروں پر) خرچ کر۔ میں تجھ پر خرچ کروں گا (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب الصدقۃ فیھا۔۔ )- ٢۔ حضرت اسماء بن ابی بکر ایک دفعہ آپ کے پاس آئیں تو آپ نے اسے ہدایت فرمائی کہ روپیہ پیسہ ہتھیلی میں بند کرکے مت رکھو ورنہ اللہ بھی تمہارا رزق بند کرکے رکھے گا۔ بلکہ جہاں تک ہوسکے خیرات کرتی رہو۔ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب الصدقہ فیما استطاع)- ٣۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : بندوں پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن صبح دو فرشتے نازل نہ ہوں۔ ان میں ایک یوں دعا کرتا ہے یا اللہ خرچ کرنے والے کو اس کا بدل دے اور دوسرا یوں دعا کرتا ہے یا اللہ بخیل کا مال تباہ کردے (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب قولہ فاما من اعطی ٰ واتقی۔۔ )- ٤۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ اس کا رزق کشادہ اور اس کی عمر دراز ہو وہ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب من بحب السبط فی الرزق)- [ ٦١] اللہ تعالیٰ کی کئی صفات ایسی ہیں جن انسانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً حقیقی رازق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ مگر ہر انسان اپنے بال بچوں کو رزق مہیا کرتا ہے۔ مالک اپنے ملازموں کو رزق عطا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب ایسی صورت ہو تو اللہ کے لئے کوئی مزید امتیازی صفت بھی استعمال ہوگی۔ گویا اگر انسان کسی کا رزاق ہوسکتا ہے تو اللہ خیر الرازقین ہے یعنی سب کو رزق دینے والا بھی ہے اور بہتر رزق دینے والا بھی ہے۔ اسی طرح اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے تو انسان بھی تخلیق و ایجاد کرتا ہے۔ اس نسبت سے انسان کو موجد اور خالق تو کہہ سکتے ہیں مگر احسن الخالقین اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَيَقْدِرُ لَهٗ : یہ الفاظ دوبارہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ دونوں جگہ مقصد مختلف ہے۔ پہلی آیت میں کفار کی بات کا رد مقصود ہے اور یہاں اہل ایمان کو خرچ کرنے کی ترغیب مقصود ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ” يَقْدِرُ “ کے ساتھ ” لَهٗ “ کا اضافہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور اسی کا رزق جب چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص اگر یہ سمجھ کر بخل کرے اور اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرے کہ خرچ کرنے سے میرا رزق تنگ ہوجائے گا تو یہ اس کی بھول ہے، رزق کی تنگی یا فراخی کا تعلق اس کے بخل یا سخاوت سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت سے ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلال (رض) سے فرمایا : ( أَنْفِقْ بلاَلُ وَلاَ تَخْشَ مِنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْلَالًا ) [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٦؍١٦٠، ح : ٢٦٦١۔ مسند البزار : ٤؍٢٠٤، ح : ١٣٦٦ ] ” بلال خرچ کر اور عرش والے کی طرف سے فقیری سے مت ڈر۔ “- ” يَقْدِرُ لَهٗ “ (اس کے لیے تنگ کردیتا ہے) میں ” عَلَیْہِ “ کے بجائے ” لَہ “ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کا رزق تنگ بھی اس کے فائدے ہی کے لیے کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ پر قناعت کرنا اور اس پر راضی ہوجانا بہت بڑی سعادت ہے اور اس میں حساب بھی کم ہے۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَ رُزِقَ کَفَافًا وَ قَنَّعَہُ اللّٰہُ بِمَا آتَاہُ ) [ مسلم، الزکاۃ، باب في الکفاف والقناعۃ : ١٠٥٤ ] ” یقیناً وہ شخص کامیاب ہوگیا جو اسلام لایا اور اسے گزارے کے مطابق رزق دیا گیا اور اللہ نے اسے جو کچھ دیا اس پر قانع کردیا۔ “- وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ : یعنی اللہ کی راہ میں اس کے حکم کے مطابق زیادہ سے زیادہ یا کم سے کم جو چیز بھی خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دنیا میں اور عطا فرمائے گا اور آخرت کے اجر کا تو کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا مِنْ یَوْمٍ یُصْبِحُ الْعِبَادُ فِیْہِ إِلَّا مَلَکَانِ یَنْزِلَانِ فَیَقُوْلُ أَحَدُہُمَا اللّٰہُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَ یَقُوْلُ الْآخَرُ اللّٰہُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا ) [ بخاري، الزکاۃ، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : ( فأما من أعطی ۔۔ ) : ١٤٤٢ ] ” جس دن بھی بندے صبح کرتے ہیں، اس میں دو فرشتے اترتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے، اے اللہ خرچ کرنے والے کو اس کی جگہ اور دے اور دوسرا کہتا ہے، اے اللہ روک کر رکھنے والے کے مال کو تباہ کر۔ “ ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ( یَا ابْنَ آدَمَ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْکَ ، وَ قَالَ یَمِیْنُ اللّٰہِ مَلْأَی سَحَّاءُ لَا یَغِیْضُہَا شَيْءٌ، اللَّیْلَ وَ النَّہَارَ ) [ مسلم، الزکاۃ، باب الحث علی النفقۃ۔۔ : ٩٩٣۔ بخاري : ٤٦٨٤ ] ” اے آدم کے بیٹے تو خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ “ اور فرمایا : ” اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، بہت برسنے والا ہے، دن رات خرچ کرنے سے اس میں کوئی چیز کمی نہیں لاتی۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَّالٍ وَ مَا زَاد اللّٰہُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب استحباب العفو والتواضع : ٢٥٨٨ ] ” کوئی صدقہ مال میں کمی نہیں لاتا اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ہی میں اضافہ فرماتا ہے اور اللہ کے لیے کوئی نیچا نہیں ہوتا، مگر اللہ تعالیٰ اسے اونچا کردیتا ہے۔ “- وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ : اس لیے کہ دوسرے تمام دینے والے اسی کے دیے میں سے دیتے ہیں، وہ اکیلا ہے جو ہر چیز اپنے پاس سے دیتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - آپ (مومنین سے) یہ فرما دیجئے کہ میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے فراخ روزی دیتا ہے اور جس کو چاہے تنگی دیتا ہے اور (خرچ میں امساک اور بخل سے رزق بڑھ نہیں سکتا، اور شریعت کے مطابق خرچ کرنے سے گھٹ نہیں سکتا، اس لئے تم مال سے دل نہ لگاؤ بلکہ جہاں جہاں اللہ کے حقوق اور اپنے عیال کے حقوق اور فقراء و مساکین وغیرہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے بےدھڑک خرچ کرتے رہو، کہ اس سے رزق مقسوم ومقدر میں تو کسی کمی کا ضرر نہ ہوگا اور آخرت میں اس سے نفع حاصل ہوگا، کیونکہ) جو چیز تم (حکم خداوندی کے مواقع میں) خرچ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کا (آخرت میں تو ضرور اور اکثر دنیا میں بھی) بدلہ دے گا اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔- معارف ومسائل - یہ آیت تقریباً انہی الفاظ کے ساتھ اوپر گزری ہے (قل ان ربی یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر) یہاں بظاہر یہی مضمون مکرر آیا ہے مگر ایک فرق کے ساتھ کہ اس جگہ من یشاء کے بعد من عبادہ اور یقدر کے بعد لہ کا اضافہ ہے۔ من عبادہ کے لفظ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ حکم اپنے مخصوص بندوں یعنی مومنین کے لئے ارشاد ہوا ہے، اور مقصود اس سے یہ ہے کہ ایمان والے مال کی محبت میں ایسے نہ لگیں کہ اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے حقوق و مواقع میں خرچ کرنے سے دل تنگ ہونے لگیں، اور اس سے پہلی جو آیت اسی مضمون کی آئی ہے اس کا خطاب کفار و مشرکین کو تھا جو دنیا کے مال واولاد پر فخر کرتے اور ان کو اپنی آخرت کی فلاح کی دلیل بناتے تھے۔ اس طرح مخاطب اور مقصود کلام کے اعتبار سے تکرار نہ رہا، خلاصہ تفسیر میں جو شروع آیت کی تفسیر میں مومنین کا لفظ بڑھایا ہے یہ اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے۔- اور بعض حضرات نے ان دونوں آیتوں میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ پہلی آیت میں تو مختلف انسانوں میں تقسیم رزق کا ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور مصالح عالم کے پیش نظر کسی کو مال زیادہ کسی کو کم دیتے ہیں، اور اس آیت میں ایک ہی شخص کے مختلف احوال کا ذکر ہے کہ ایک شخص کو کبھی مال کی فراخی اور وسعت عطا ہوتی ہے، کبھی اس کو تنگی اور تنگ دستی بھی پیش آتی ہے۔ لفظ لہ، جو آیت میں یقدر کے بعد آیا ہے اس میں اس طرح اشارہ نکلتا ہے اس تقریر کے مطابق بھی تکرار نہ رہا بلکہ پہلی آیت مختلف افراد کے متعلق اور یہ آیت ایک ہی فرد کے مختلف احوال کے متعلق ہوگئی۔- وماانفقتم من شئی فہو یخلفہ۔ اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اپنے خزانہ غیب سے تمہیں اس کا بدل دے دیتے ہیں، کبھی دنیا میں اور کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں۔ کائنات عالم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے انسان اور جانور اس کو بےدھڑک خرچ کرتے رہتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جاتا ہے اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہوجاتا ہے، انسان غذا کھا کر بظاہر ختم کرلیتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کردیتے ہیں، بدل کی نقل و حرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہوجاتے ہیں ان کی جگہ دوسرے اجزاء بدل ما یتحلل بن جاتے ہیں۔ غرض انسان دنیا میں جو چیز خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں، کبھی کسی کو سزا دینے کے لئے یا کسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہوجانا اس ضابطہ آلہیہ کے منافی نہیں۔- صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر روز جب لوگ صبح میں داخل ہوتے ہیں، دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں اور یہ دعا کرتے ہیں اللہم اعط منفقا خلفا واعط ممسکاً تلفا، ” یعنی یا اللہ خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا فرما اور بخل کرنے والے کا مال ضائع کر دے “ اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ارشاد فرمایا ہے کہ آپ لوگوں پر خرچ کریں میں آپ پر خرچ کروں گا۔- جو خرچ شریعت کے مطابق نہ ہو اس کے بدل کا وعدہ نہیں :- حضرت جابر (رض) کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نیک کام صدقہ ہے، اور کوئی آدمی جو اپنے نفس یا اپنے عیال پر خرچ کرتا ہے وہ بھی صدقہ کے حکم میں ہے موجب ثواب ہے، اور جو شخص کچھ خرچ کر کے اپنی آبرو بچائے وہ بھی صدقہ ہے اور جو شخص اللہ کے حکم کے مطابق کچھ خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ اس کا بدل اس کو دے گا، مگر وہ خرچ جو (فضول زائد از ضرورت) تعمیر میں یا کسی گناہ کے کام میں کیا ہو اس کے بدل کا وعدہ نہیں۔- حضرت جابر کے شاگرد ابن المنکدر نے یہ حدیث سن کر ان سے پوچھا کہ آبرو بچانے کے لئے خرچ کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ جس شخص کے متعلق یہ خیال ہو کہ نہیں دیں گے تو عیب جوئی کرے گا، برا کہتا پھرے گا یا بدگوئی کرے گا اس کو اپنی آبرو بچانے کے لئے دینا مراد ہے۔ (رواہ الدار قطنی، قرطبی)- جس چیز کا خرچ گھٹ جاتا ہے اس کی پیداوار بھی گھٹ جاتی ہے :- اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اشیائے صرف انسان اور حیوانات کے لئے پیدا فرمائی ہیں، جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں ان کا بدل منجانب اللہ پیدا ہوتا رہتا ہے، جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پیداوار بھی بڑھا دیتے ہیں۔ جانوروں میں بکرے اور گائے کا سب سے زیادہ خرچ ہے کہ ان کو ذبح کر کے گوشت کھایا جاتا ہے، اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے، وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں اللہ تعالیٰ اتنی ہی زیادہ اس کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں جس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے، کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں، حالانکہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہئے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے تک پیدا کرتے ہیں، گائے بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے دیتی ہے، گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی رہتی ہے، کتے، بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا، مگر پھر یہ مشاہدہ ناقابل انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعداد بہ نسبت کتے بلی کے زیادہ ہے۔ جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے اس وقت سے وہاں گائے کی پیداوار اسی نسبت سے گھٹ گئی ہے، ورنہ ہر بستی اور ہر گھر گایوں سے بھرا ہوا ہوتا جو ذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔- عرب نے جب سے سواری اور باربرادری میں اونٹوں سے کام لینا کم کردیا وہاں اونٹوں کی پیداوار بھی گھٹ گئی، اس سے اس ملحدانہ شب کا ازالہ ہوگیا جو احکام قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کا اندیشہ پیش کر کے کیا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَيَقْدِرُ لَہٗ۝ ٠ ۭ وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَہُوَيُخْلِفُہٗ۝ ٠ ۚ وَہُوَخَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ۝ ٣٩- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- بسط - بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] ، - ( ب س ط )- بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- قدر ( تنگي)- وقَدَرْتُ عليه الشیء : ضيّقته، كأنما جعلته بقدر بخلاف ما وصف بغیر حساب . قال تعالی:- وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق 7] ، أي : ضيّق عليه، وقال : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ- [ الروم 37] ، وقال : فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء 87] ، أي : لن نضيّق عليه، وقرئ : ( لن نُقَدِّرَ عليه) «3» ، ومن هذا المعنی اشتقّ الْأَقْدَرُ ، أي : القصیرُ العنق . وفرس أَقْدَرُ : يضع حافر رجله موضع حافر يده، وقوله : وَما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام 91] ، أي : ما عرفوا کنهه تنبيها أنه كيف يمكنهم أن يدرکوا کنهه، وهذا وصفه - اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں - نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- یخلفہ۔ مضارع واحد مذکر غائب اخلاف ( افعال) مصدر۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب وہ اس کو بدل دے گا۔ وہ اس کا معاوضہ دے گا۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

آپ ان سے فرما دیجیے کہ میرا رب جسے چاہے آزمائش کے طور پر کھلا رزق دیتا ہے اور جس کو چاہے تنگی سے دیتا ہے۔- اور جو چیز تم اللہ تعالیٰ کے رستہ میں صرف کرو گے تو وہ ضرور اس کا بھی دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کے ذریعے سے بدلہ دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہیے کہ یقینا میرا ربّ کشادہ کرتا ہے رزق جس کے لیے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اور (جسے چاہتا ہے ) اس کے لیے تنگ کردیتا ہے۔ “- وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ ” اور جو کچھ بھی تم لوگ خرچ کرتے ہو تو وہ اسے لوٹا دیتا ہے۔ “- یعنی اللہ کی رضا کے لیے جو مال خرچ کیا جاتا ہے ایک تو اس کا اجر آخرت میں ملے گا جو دس گنا سے سات سو گنا تک ہوگا ‘ بلکہ قرآن میں اس سے بھی زیادہ کی بشارت ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس کا بدل عطا فرماتا ہے۔ چناچہ اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہوئے انسان کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے اور دل میں یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں اس کا نقد معاوضہ بھی عطا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے لیے رزق کے نئے نئے مواقع پیدا فرماتا ہے اور ان کے وسائل میں خصوصی برکتیں نازل فرماتا ہے۔ - وَہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ” اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :59 اس مضمون کو بتکرار بیان کرنے سے مقصود اس بات پر زور دینا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتی ہے جبکہ اس کی رضا سے ۔ مشیت الہٰی کے تحت اچھے اور برے ہر طرح کے انسانوں کو رزق مل رہا ہے ۔ خدا کا اقرار کرنے والے بھی رزق پا رہے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی ۔ نہ رزق کی فراوانی اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی خدا کا پسندیدہ بندہ ہے ، اور نہ اس کی تنگی اس امر کی علامت ہے کہ آدمی اس کا مغضوب ہے ۔ مشیت کے تحت ایک ظالم اور بے ایمان آدمی پھلتا پھولتا ہے ، حالانکہ ظلم اور بے ایمانی خدا کو پسند نہیں ہے ۔ اور اس کے برعکس مشیت ہی کے تحت ایک سچا اور ایمان دار آدمی نقصان اٹھاتا اور تکلیفیں سہتا ہے ، حالانکہ یہ صفات خدا کو پسند ہیں ۔ لہٰذا وہ شخص گمراہ ہے جو مادی فوائد و منافع کو خیر و شر کا پیمانہ قرار دیتا ہے ۔ اصل چیز خدا کی رضا ہے اور وہ ان اخلاقی اوصاف سے حاصل ہوتی ہے جو خدا کو محبوب ہیں ۔ ان اوصاف کے ساتھ اگر کسی کو دنیا کی نعمتیں حاصل ہوں تو یہ بلاشبہ خدا کا فضل ہے جس پر شکر ادا کرنا چاہیے ۔ لیکن اگر ایک شخص اخلاقی اوصاف کے لحاظ سے خدا کا باغی و نافرمان بندہ ہو اور اس کے ساتھ دنیا کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سخت باز پرس اور بدترین عذاب کے لیے تیار ہو رہا ہے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :60 رازق ، صانع ، موجِد ، مُعطی اور ایسی ہی دوسری بہت سی صفات ایسی ہیں جو اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں مگر مجازاً بندوں کی طرف بھی منسوب ہو جاتی ہیں ۔ مثلاً ہم ایک شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے فلاں شخص کے روزگار کا بندوبست کر دیا ، یا اس نے یہ عطیہ دیا ، یا اس نے فلاں چیز بنائی یا ایجاد کی ۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خیر الرازقین کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ یعنی جن جن کے متعلق تم گمان رکھتے ہو کہ وہ روزی دینے والے ہیں ان سب سے بہتر روزی دینے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani