Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مشرکین سے سوال ۔ مشرکین کو شرمندہ لاجواب اور بےعذر کرنے کیلئے ان کے سامنے فرشتوں سے سوال ہو گا ۔ جن کی مصنوعی شکلیں بنا کر یہ مشرک دنیا میں پوجتے رہے کہ وہ انہیں اللہ سے ملا دیں ۔ سوال ہو گا کہ کیا تم نے انہیں اپنی عبادت کرنے کو کہا تھا ؟ جیسے سورہ فرقان میں ہے ( ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِيْ هٰٓؤُلَاۗءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيْلَ 17؀ۭ ) 25- الفرقان:17 ) یعنی کیا تم نے انہیں گمراہ کیا تھا ؟ یہ خود ہی بہکے ہوئے تھے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہی سوال ہو گا کہ کیا تم لوگوں سے کہہ آئے تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر میری اور میری ماں کی عبادت کرنا ؟ آپ جواب دیں گے کہ اللہ تیری ذات پاک ہے جو کہنا مجھے سزا وار نہ تھا ، اسے میں کیسے کہدیتا ؟ اسی طرح فرشتے بھی اپنی برات ظاہر کریں گے اور کہیں گے تو اس سے بہت بلند اور پاک ہے تیرا کوئی شریک ہو ۔ ہم تو خود تیرے بندے تھے ہم ان سے بیزار رہے اور اب بھی ان سے الگ ہیں ۔ یہ شیاطین کی پرستش کرتے تھے ۔ شیطانوں نے ہی ان کے لئے بتوں کی پوجا کو مزین کر رکھا تھا اور انہیں گمراہ کر دیا تھا ان میں سے اکثر کا شیطان پر ہی اعتقاد تھا ۔ جیسے فرمان باری ہے ( اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اِنَاثًا ۚ وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا ١١٧؁ۙ ) 4- النسآء:117 ) یعنی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عورتوں کی پرستش کرتے ہیں اور سرکش شیطان کی عبادت کرتے ہیں ۔ جس پر اللہ کی پھٹکار ہے ، پس جن جن سے تم مشرکو لو ( امید ) لگائے ہوئے تھے ، ان میں سے ایک بھی آج تمہیں کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا ۔ اس شدت و کرب کے وقت یہ سارے جھوٹے معبود تم سے یک سو ہو جائیں گے کیونکہ انہیں کسی کے کسی طرح کے نفع و ضرر کا اختیار تھا ہی نہیں ۔ آج ہم خود مشرکوں سے فرما دیں گے کہ لو جس عذاب جہنم کو جھٹلا رہے تھے آج اس کا مزہ چکھو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 یہ مشرکوں کو ذلیل و خوار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے گا، جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے بھی پوچھے گا کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں (مریم) کو، اللہ کے سوا، معبود بنا لینا ؟ (وَاِذْ قَال اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ للنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ ۤ بِحَقٍّ ڲ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ ۭ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ) 5 ۔ المائدہ :116) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے یا اللہ تو پاک ہے، جس کا مجھے حق نہیں تھا، وہ بات میں کیوں کر کہہ سکتا تھا ؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرشتوں سے بھی پوچھے گا جیساہ سورة الفرقان (وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَقُوْلُ ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِيْ هٰٓؤُلَاۗءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيْلَ ) 25 ۔ الفرقان :17) میں بھی گزرا۔ کہ کیا یہ تمہارے کہنے پر تمہاری عبادت کرتے تھے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٦٢] مشرکین خواہ دور نبوی کے ہوں یا اس سے پہلے ادوار کے یا مابعد کے دور کے، وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم ان بتوں کو پوجتے ہیں یا ان قبروں کو پوجتے ہیں۔ بلکہ ان کے اعتقاد کے پیچھے ان کا ایک پورا گھڑا ہوا فلسفہ ہوتا ہے۔ مثلاً سورج کی پوجا کرنے والا پہلے سرج کی روح کا ایک خیالی نقشہ یا تصویر قائم کرتے ہیں پھر اس خیالی تصویر کے مطابق اس کا مجسمہ بناتے ہیں۔ پھر یہ سمجھتے ہیں کہ اس مجسمہ کے ساتھ سورج کی روح کا بروقت تعلق قائم رہتا ہے اور ہم جو سورج کے مجسمہ کو پوجتے ہیں تو یہ دراصل اس بت کی نہیں بلکہ ہم سورج دیوتا کی عبادت کرتے ہیں۔ مشرکین کے اس طرح کی کئی دیویاں اور دیوتا بنا رکھے تھے۔ پھر یہ مجسمے مظاہر قدرت کے ہی نہیں بلکہ بعض صفات کے بھی ہوتے تھے۔ اور ان صفات کو بھی سیاروں سے منسوب کردیا جاتا تھا۔ مثلاً فلاں علم کی دیوی، فلاں دولت کی دیوی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر کچھ مشرک فرشتوں کے خیالی مجسمے بنا کر ان کی پوجا کرتے تھے۔ مشرکین عرب کی ایک کثیر تعداد ایسی ہی تھی جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اور لات و منات اور عزیٰ کے مجسمے بنا کر ان کی عبادت کرتے تو سمجھتے یہی تھے کہ ہم ان بتوں کی نہیں بلکہ ان فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں جن کی ارواح ان مجسموں یا بتوں سے وابستہ رہتی ہیں۔ اسی طرح قبر پرست بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہم اس قبر کے پرستار نہیں بلکہ ہماری سب نیاز مندیاں اور نذریں نیازیں تو صاحب قبر کے لئے ہیں۔ جس کی روح اس کی قبر کے ساتھ وابستہ رہتی ہے۔ ان تمام معبودوں سے چونکہ فرشتے ہی برتر مخلوق ہیں۔ لہذا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو شرمندہ کرنے اور انہیں حسرت دلانے کے لئے انہی سے سوال کرے گا کہ یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے ؟ کیا تم نے انہیں ایسا کہا تھا کہ تمہاری عبادت کیا کریں ؟ یا کچھ اس قسم کی آرزو تم نے کی تھی ؟- واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرشتوں کے علاوہ دوسرے معبودوں سے بھی ایسا سوال کرے گا اور حضرت عیسیٰ سے متعلق ایسا سوال تو بالتفصیل اور بالصراحت قرآن میں مذکور ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ يَقُوْلُ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ ۔۔ : اس کا عطف ” وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ “ پر ہے۔ پہلے مستکبرین کے مستضعفین سے بری ہونے کا ذکر فرما کر اس دن ان کی بری حالت کا نقشہ کھینچا ہے، اب فرشتوں کے ان سے بری ہونے کا ذکر فرما کر اس دن ان کے ذلیل و خوار اور بےیارو مددگار ہونے کا ذکر فرمایا۔- 3 مفسر عبدالرحمان کیلانی (رض) لکھتے ہیں : ” مشرکین خواہ دور نبوی کے ہوں یا اس سے پہلے دور کے یا مابعد کے دور کے، وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم ان بتوں کو پوجتے ہیں، یا ان قبروں کو پوجتے ہیں، بلکہ ان کے اعتقاد کے پیچھے ان کا ایک پورا گھڑا ہوا فلسفہ ہوتا ہے۔ مثلاً سورج کی پوجا کرنے والے پہلے سورج کی روح کا ایک خیالی نقشہ یا تصویر قائم کرتے ہیں، پھر اس خیالی تصویر کے مطابق اس کا مجسّمہ بناتے ہیں، پھر یہ سمجھتے ہیں کہ اس مجسّمے کے ساتھ سورج کی روح کا ہر وقت تعلق قائم رہتا ہے اور ہم جو سورج کے مجسّمے کو پوجتے ہیں تو دراصل یہ اس بت کی نہیں بلکہ ہم سورج دیوتا کی عبادت کرتے ہیں۔ مشرکین نے اس طرح کی کئی دیویاں اور دیوتا بنا رکھے تھے، پھر یہ مجسّمے مظاہر قدرت ہی کے نہیں بلکہ بعض صفات کے بھی ہوتے تھے اور ان صفات کو بھی سیاروں سے منسوب کردیا جاتا تھا۔ مثلاً فلاں علم کی دیوی، فلاں دولت کی دیوی ہے وغیرہ وغیرہ، پھر کچھ مشرک فرشتوں کے خیالی مجسّمے بنا کر ان کی پوجا کرتے تھے۔ مشرکین عرب کی ایک کثیر تعداد ایسی ہی تھی جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور لات، منات اور عزیٰ کے مجسّمے بنا کر ان کی عبادت کرتے، تو سمجھتے یہی تھے کہ ہم ان بتوں کی نہیں بلکہ ان فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں جن کی ارواح ان مجسّموں یا بتوں سے وابستہ رہتی ہیں۔ اسی طرح قبر پرست بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہم اس قبر کے پرستار نہیں، بلکہ ہماری سب نیاز مندیاں اور نذریں نیازیں تو صاحب قبر کے لیے ہیں، جس کی روح اس کی قبر کے ساتھ وابستہ رہتی ہے۔ ان تمام معبودوں سے چونکہ فرشتے ہی برتر مخلوق ہیں، لہٰذا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو شرمندہ کرنے اور انھیں حسرت دلانے کے لیے انھی سے سوال کرے گا کہ یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے ؟ کیا تم نے انھیں ایسا کہا تھا کہ تمہاری عبادت کیا کریں، یا کچھ اس قسم کی آرزو تم نے کی تھی ؟ اور یہ سوال اگرچہ فرشتوں سے ہوگا مگر مقصد ان کی پوجا کرنے والوں کو رسوا اور لاجواب کرنا ہوگا۔ “- 3 قیامت کے روز یہ سوال فرشتوں ہی سے نہیں ہوگا بلکہ ان تمام ہستیوں سے کیا جائے گا جن کی دنیا میں عبادت ہوتی تھی۔ سورة فرقان میں ہے : (وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَقُوْلُ ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِيْ هٰٓؤُلَاۗءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيْلَ ) [ الفرقان : ١٧ ] ” اور جس دن وہ انھیں اور جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے، اکٹھا کرے گا، پھر کہے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا، یا وہ خود راستے سے بھٹک گئے تھے ؟ “ اور سورة مائدہ میں ہے : (وَاِذْ قَال اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ للنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ ) [ المائدۃ : ١١٦ ] ” اور جب اللہ فرمائے گا، اے عیسیٰ ابن مریم کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو ؟ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (وہ دن قابل ذکر ہے) جس روز اللہ تعالیٰ ان سب کو (میدان قیامت میں) جمع فرمائے گا، پھر فرشتوں سے ارشاد فرمائے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے (ملائکہ سے یہ سوال مشرکین کو لاجواب کرنے کے لئے ہوگا، جو ملائکہ اور غیر الملائکہ کو اس خیال سے پوجتے تھے کہ یہ راضی ہو کر ہماری شفاعت کریں گے، جیسے ایک آیت میں اس طرح کا سوال حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کیا گیا ہے، (آیت) أانت قلت للناس۔ مطلب سوال کا یہ ہے کہ کیا تمہاری رضا سے تمہاری عبادت کیا کرتے تھے، ونیز جواب میں بھی اسی قید کا قرینہ ہے جیسا ترجمہ جواب سے معلوم ہوگا) وہ (اول حق تعالیٰ کا شریک سے بالاتر اور پاک ہونا ظاہر کرنے کے لئے) عرض کریں گے کہ آپ (شریک سے) پاک ہیں (یہ جواب سے پہلے اس لئے کہا گیا کہ ان کی طرف جو نسبت الیٰ الشریک کی حکایت کی گئی ہے اس سے گھبرا کر پہلے یہ جملے عرض کئے پھر آگے اس سوال کا جواب یہ دیں گے کہ) ہمارا تو (محض) آپ سے تعلق ہے نہ کہ ان سے (اس سے رضا اور امر دونوں کی نفی ہوگئی۔ یعنی نہ ہم نے ان سے کہا نہ ہم ان کے فعل سے راضی ہم تو آپ کے مطیع ہیں جو چیز آپ کو ناپسند ہے مثل شرک وغیرہ اس سے ہم بھی ناخوش ہیں، جب اس شرک میں نہ ہمارا امر ہے نہ رضا تو فی الواقع یہ ہماری عبادت نہ کرتے تھے) بلکہ یہ لوگ شیاطین کو پوجا کرتے تھے (کیونکہ شیاطین ہی اس کی ترغیب بھی دیتے تھے اور اس سے راضی بھی تھے اس لئے وہی ان کے معبود ہوئے۔ کیونکہ عبادت مستلزم ہے اطاعت مطلقہ کو کہ اس کے سامنے اور کسی کی اطاعت نہ کرے، اسی طرح ایسی اطاعت مطلقہ مستلزم ہے عبادت کو پس جب ہماری طرف سے امر و رضا متحقق نہیں تو ہماری اطاعت نہ ہوئی، اور جب شیاطین کی اطاعت مطلقہ کی تو عبادت بھی درحقیقت انہی کی ہوئی، گو یہ لوگ اس کا نام کچھ ہی رکھیں، عبادت ملائکہ کہیں یا بتوں کی عبادت مگر واقع میں وہ عبادت شیاطین ہی کی ہے اور جیسا تقریر مذکور سے ان لوگوں کا عابد شیاطین ہونا لازم آیا اسی طرح ان میں اکثر لوگ (التزاماً بھی) انہی (شیاطین) کے معتقد تھے (یعنی قصداً بھی بہت سے ان کو پوجتے تھے، جیسے سورة جن کی آیت میں ہے (آیت) وانہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن وغیر ذلک من الآیات) سو (کافروں سے کہا جائے گا کہ جن سے تم امیدیں رکھتے تھے) آج (خود ان کی اس برات سے بھی اور ان کے عجز وبے بسی سے بھی تمہارے گمان کے خلاف یہ حالت ظاہر ہوئی کہ) تم (مجموع عابدین و معبودین) میں سے نہ کوئی کسی کو نفع پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے اور نہ نقصان پہنچانے کا (مطلب تو یہ ہے کہ یہ معبودین تم کو نفع نہیں پہنچا سکتے، مگر مبالغہ کے لئے بعضکم لبعض سے تعبیر فرمایا تاکہ اس ابہام سے دونوں کی برابری اس امر میں ثابت ہوجائے کہ جیسے تم عاجز ہو وہ بھی عاجز ہیں اور ضرر کا ذکر تعمیم عجز کے لئے ہے اس سے کلام اور بھی موکد ہوگیا) اور (اس وقت) ہم ظالموں (یعنی کافروں) سے کہیں گے کہ جس دوزخ کے عذاب کو تم جھٹلایا کرتے تھے (اب) اس کا مزہ چکھو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ يَحْشُرُہُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ يَقُوْلُ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اَہٰٓؤُلَاۗءِ اِيَّاكُمْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ۝ ٤٠- حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جس روز اللہ تعالیٰ بنو ملیح اور فرشتوں کو جمع فرمائے گ پھر فرشتوں سے ارشاد ہوگا کیا یہ لوگ تمہارے حکم سے تمہاری عبادت کیا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اَہٰٓؤُلَآئِ اِیَّاکُمْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ ” اور جس دن وہ جمع کرے گا ان سب کو ‘ پھر فرشتوں سے فرمائے گا : کیا یہ لوگ تمہیں پوجا کرتے تھے ؟ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :61 قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور کے مشرکین فرشتوں کو دیوی اور دیوتا قرار دے کر ان کے بت بناتے اور ان کی پرستش کرتے رہے ہیں ۔ کوئی بارش کا دیوتا ہے تو کوئی بجلی کا اور کوئی ہوا کا ۔ کوئی دولت کی دیوی ہے تو کوئی علم کی اور کوئی موت و ہلاکت کی ۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ قیامت کے روز ان فرشتوں سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم ہی ان لوگوں کے معبود بنے ہوئے تھے؟ اس سوال کا مطلب محض دریافت حال نہیں ہے بلکہ اس میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ کیا تم ان کی اس عبادت سے راضی تھے؟ کیا تم نے یہ کہا تھا کہ لوگو ہم تمہارے معبود ہیں ، تم ہماری پوجا کیا کرو؟ یا تم نے یہ چاہا کہ یہ لوگ تمہاری پوجا کریں؟ قیامت میں یہ سوال صرف فرشتوں ہی سے نہیں بلکہ تمام ان ہستیوں سے کیا جائے گا جن کی دنیا میں عبادت کی گئی ہے ۔ چنانچہ سورہ فرقان میں ارشاد ہوا ہے : وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ وَمَا یَعبُدُوْن مِنْ دُوْنِ اللہِ فَیَقُوْلُءَاَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ھٰٓؤُلَآءِ اَمْ ھُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ ۔ ( آیت 17 ) جس روز اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اور ان ہستیوں کو جن کی یہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں جمع کریگا ، پھر پوچھے گا کہ تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود راہ راست سے بھٹک گئے تھے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani