41۔ 1 یعنی فرشتے بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کر کے اظہار صفائی کریں گے اور کہیں گے کہ ہم تو تیرے بندے ہیں اور تو ہمارا ولی ہے۔ ہمارا ان سے کیا تعلق ؟
[ ٦٣] یہاں جن سے مراد شیاطین ہیں اور قرآن میں یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے سوال کے جواب میں کہیں گے ہمیں ان بدبخت مشرکوں سے کیا سروکار جنہوں نے تجھے چھوڑ کر ہمیں اپنا سرپرست سمجھ رکھا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا بھی سرپرست تو ہی ہے اور ان کا بھی تو ہی ہے اور تھا۔ مگر انہوں نے جو ہمیں اپنا سرپرست سمجھ رکھا تھا۔ تو ہم نے انہیں ایسی بات قطعاً نہیں کہی تھی۔ یہ پٹی ان کو شیطان نے پڑھائی تھی۔ اسی کی ترغیب پر یہ ہماری پوجا کرتے رہے تو دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ ان شیطانوں کی پوجا کر رہے تھے جن کے یہ فرمانبردار بن کر ان کے کہنے پر لگ گئے تھے۔- [ ٦٤] یعنی کبھی کبھار ایسا بھی ہوجاتا کہ جس غرض کے لئے انہوں نے کسی بت کے آگے نذریں نیازیں چڑھائیں تو ان کی غرض پوری ہوگئی یا بت کے اندر سے شیطان بول پڑا تو ایسی اتفاقی باتوں سے ان کا اعتقاد اور بھی پختہ ہوجاتا تھا۔ حالانکہ ان کی غرض بھی صرف وہی پوری ہوتی تھی جن کا پورا ہونا اللہ کی طرف سے پہلے ہی مقدر ہوچکا ہوتا تھا۔
قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ : یعنی فرشتے بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کر کے اپنی صفائی پیش کریں گے اور کہیں گے، تو اس سے پاک ہے کہ تیرا کوئی شریک ہو، ہم تو تیرے بندے ہیں اور تو ہی ہمارا ولی ہے، تجھ ہی سے ہماری دوستی ہے، ان سے ہماری کوئی دوستی ہے نہ کوئی تعلق۔- بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ ۔۔ : یعنی گو یہ بظاہر ہمارے بت بنا کر ہماری عبادت کرتے تھے، لیکن حقیقت میں یہ شیاطین کی بندگی کرتے تھے، کیونکہ انھوں نے ہی ان کو یہ راستہ دکھایا تھا کہ تجھے چھوڑ کر دوسروں کو اپنا معبود سمجھیں، ان کے آگے نذر و نیاز پیش کریں اور اپنی حاجت روائی کے لیے انھیں پکاریں۔ ” الْجِنَّ “ سے مراد شیاطین ہیں، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اِنَاثًا ۚ وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا) [ النساء : ١١٧ ] ” وہ اس کے سوا نہیں پکارتے مگر مؤنثوں کو اور نہیں پکارتے مگر سرکش شیطان کو۔ “
قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُوْنِہِمْ ٠ ۚ بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ ٠ ۚ اَكْثَرُہُمْ بِہِمْ مُّؤْمِنُوْنَ ٤١- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] - ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - جِنَّة :- جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- ۔ الجنتہ - جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔
تو فرشتے عرض کریں گے کہ آپ شرک سے پاک ہیں آپ ہمارے پروردگار ہیں ہم نے ان کو اپنی پرستش کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا بلکہ یہ شیاطین کو پوجتے تھے اور انہی کے معتقد تھے ان کو اپنے خیال میں فرشتے سمجھ رہے تھے۔
آیت ٤١ قَالُوْا سُبْحٰنَکَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِہِمْ ” وہ کہیں گے : ُ تو پاک ہے ‘ تو ہمارا ولی ہے ان کے سوا۔ “- یعنی ہمارا آقا اور مالک تو تو ُ ہی ہے ‘ ان سے ہمارا کوئی سروکار نہیں۔- بَلْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّج اَکْثَرُہُمْ بِہِمْ مُّؤْمِنُوْنَ ” بلکہ یہ لوگ ِجنات ّکی عبادت کیا کرتے تھے ‘ ان کی اکثریت ان ہی پر ایمان رکھتی تھی۔ “
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :62 یعنی وہ جواب دیں گے کہ حضور کی ذات اس سے منزہ اور بالا تر ہے کہ کوئی دوسرا خدائی و معبودیت میں آپ کا شریک ہو ۔ ہمارا ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں ۔ ہم ان سے اور ان کے افعال سے بری الذمہ ہیں ۔ ہم تو حضور کے بندے ہیں ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :63 اس فقرے میں جن سے مراد شیاطین جن ہیں ۔ فرشتوں کے اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو یہ ہمارے نام لے کر ، اور اپنے تخیلات کے مطابق ہماری صورتیں بنا کر گویا ہماری عبادت کرتے تھے ، لیکن دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ شیا طین کی بندگی کر رہے تھے ، کیونکہ شیاطین ہی نے ان کو یہ راستہ دکھایا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا حاجت روا سمجھو اور ان کے آگے نذر و نیاز پیش کیا کرو ۔ یہ آیت صریح طور پر ان لوگوں کے خیال کی غلطی واضح کر دیتی ہے جو جن کو پہاڑی علاقے کے باشندوں یا دہقانوں اور صحرائیوں کے معنی میں لیتے ہیں ۔ کیا کوئی صاحب عقل آدمی اس آیت کو پڑھ کر یہ تصور کر سکتا ہے کہ لوگ کوہستانی اور صحرائی اور دیہاتی آدمیوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور انہی پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ اس آیت سے عبادت کے بھی ایک دوسرے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت صرف پرستش اور پوجا پاٹ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ کسی کے حکم پر چلنا اور اس کی بے چون و چرا اطاعت کرنا بھی عبادت ہی ہے ۔ حتٰی کہ اگر آدمی کسی پر لعنت بھیجتا ہو ( جیسا کہ شیطان پر بھیجتا ہے ) اور پھر بھی پیروی اسی کے طریقے کی کیے جا رہا ہو تب بھی وہ اس کی عبادت کا مرتکب ہے ۔ اس کی دوسری مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، ص 398 ۔ 484 ۔ جلد دوم ، ص 189 ۔ 190 ۔ جلد سوم ، ص 69 ۔ 656 ۔
19: یہاں جنّات سے مراد شیاطین ہیں، اور مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ شیاطین سے بہت سے کام نکالا کرتے تھے، اور اُن کے کہنے پر عمل کرتے تھے، انہوں نے ہی ان کو شرک کا عقیدہ سمجھایا تھا، اِس لئے حقیقت میں یہ شیاطین کی عبادت کرتے تھے۔