52۔ 1 تَنَاوُش، ُ کے معنی تناول یعنی پکڑنے کے ہیں یعنی اب آخرت میں انہیں ایمان کس طرح حاصل ہوسکتا ہے جب کہ دنیا میں اس سے گریز کرتے رہے گویا آخرت میں انہیں ایمان کے لئے، دنیا کے مقابلے میں دور کی جگہ ہے، جس طرح دور سے کسی چیز کو پکڑنا ممکن نہیں، آخرت میں ایمان لانے کی گنجائش نہیں۔
[ ٧٧] یعنی ایمان لانے کا مقام تو دنیا ہے اور اس وقت وہ عالم آخرت میں پنچ چکے۔ اور ان دونوں کے درمیان طویل فاصلہ ہے اور طویل مدت ہے۔ پھر وہ ایمان کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ایمان تو ایمان بالغیب کا نام ہے۔ اور اس کا مقام دنیا ہے جہاں کئی غیب کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اور آخرت میں غیب کا کوئی پردہ باقی نہ رہے گا۔ ہر شخص حقیقت حال کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لے گا۔ وہاں ایمان لانے یا ایسی بات کہنے کا کچھ مطلب ہی نہ ہوگا۔
وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖ : یعنی جب آخرت کے عذاب کو دیکھیں گے تو کہیں گے، ہم اللہ پر ایمان لے آئے جو اکیلا ہے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا باللّٰهِ وَحْدَهٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ ) [ المؤمن : ٨٤ ] ” پھر جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو انھوں نے کہا ہم اس اکیلے اللہ پر ایمان لائے اور ہم نے ان کا انکار کیا جنھیں ہم اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے تھے۔ “ اور فرمایا : (وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ ) [ السجدۃ : ١٢ ] ” اور کاش تو دیکھے جب مجرم لوگ اپنے رب کے پاس اپنے سر جھکائے ہوں گے اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور ہم نے سن لیا، پس ہمیں واپس بھیج کہ ہم نیک عمل کریں، بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں۔ “- وَاَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ : ” التَّنَاوُشُ “ آسانی سے کسی چیز کو حاصل کرلینا، لے لینا۔ یعنی ایمان لانے کی جگہ دنیا تھی جو بہت دور رہ گئی، اب اتنی دور جگہ سے ایمان کو حاصل کرنا کیسے ممکن ہے ؟ عذاب دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے سے تو کچھ حاصل نہیں، اس کا وقت تو سکرات موت سے پہلے تھا۔ ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) [ ترمذي، الدعوات، باب إن اللّٰہ یقبل توبۃ العبد۔۔ : ٣٥٣٧، قال الألباني حسن ] ” اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے جب تک موت کے وقت اس کا گلا نہ بولنے لگے۔ “
(آیت) وقالوا امنابہ وانی لہم التناوش من مکان بعید، تناوش کے معنی ہاتھ بڑھا کر کسی چیز کو اٹھا لینے کے ہیں، اور یہ ظاہر ہے کہ ہاتھ بڑھا کر وہی چیز اٹھائی جاسکتی ہے جو بہت دور نہ ہو ہاتھ وہاں تک پہنچ سکے۔ مضمون آیت کا یہ ہے کہ کفار و منکرین قیامت کے روز حقیقت سامنے آجانے کے بعد کہیں گے ہم قرآن پر یا رسول اللہ پر ایمان لے آئے، مگر ان کو معلوم نہیں کہ ایمان کا مقام ان سے بہت دور ہوچکا ہے کیونکہ ایمان صرف دنیا کی زندگی کا مقبول ہے، آخرت دارالعمل نہیں وہاں کا کوئی عمل حساب میں نہیں آسکتا۔ اس لئے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ دولت ایمان کو ہاتھ بڑھا کر اٹھا لیں۔
وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖ ٠ ۚ وَاَنّٰى لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍؚبَعِيْدٍ ٥٢ۚۖ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين «4» ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- نوش - النَّوْش : التّناول . قال الشاعر : تَنُوش البریر حيث طاب اهتصارها - البریر : ثمر الطّلح، والاهتصار : الإمالة، يقال : هصرت الغصن : إذا أملته، وتناوش القوم کذا : تناولوه . قال تعالی: وَأَنَّى لَهُمُ التَّناوُشُ [ سبأ 52] أي : كيف يتناولون الإيمان من مکان بعید، ولم يکونوا يتناولونه عن قریب في حين الاختیار والانتفاع بالإيمان .- إشارة إلى قوله : يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ لا يَنْفَعُ نَفْساً إِيمانُها الآية [ الأنعام 158] . ومن همز فإما أنه أبدل من الواو همزة . نحو :- أقّتت في وقّتت، وأدؤر في أدور، وإمّا أن يكون من النّأش، وهو الطّلب .- ( ن و ش ) النوش ۔ کے معنی کسی چیز پکڑتا کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 439 ) تنوش البر یر حیث طاب طاب اھتصارھا ۔ وہ وہاں سے پیلو کھاتی ہے جہاں سے خوب جھکی ہوئی ہوں ۔ بریر کے معنی پیلو کے ہیں اور اھتصار کے معنی مائل کرنے اور جھکانے کے چناچہ محاورہ ہے : ۔ ھصرت الغصن ۔ میں نے ٹہنی کو جھکا یا ۔ تناوش القوم کسی چیز کو پکڑنا ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ وَأَنَّى لَهُمُ التَّناوُشُ [ سبأ 52] تو اب ۔۔۔۔۔ ان کا ہاتھ ایمان کے لینے کو کیونکہ پہنچ سکتا ہے ؟ یعنی وہ دور جگہ سے ایمان کو کیسے حاصل کرسکتے ہیں جب کہ انہوں نے قریب جگہ سے اسی حاصل نہیں کیا جس وقت کہ ایمان لانا اور اس سے اتفاع حاصل کر نا ان کے اختیار میں تھا تو یہ آیت کر یمہ : ۔ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ لا يَنْفَعُ نَفْساً إِيمانُها الآية [ الأنعام 158] مگر جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیان آجائیں گی تو ۔ اس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہ دیگا ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے پھر ایک قراءت میں التناوش ہمزہ کے ساتھ ہے تو اس صورت میں یا تو یہ ناش سے مشتق ہوگا جس کے معنی طلب کے ہیں اور یا اس کا ہمزہ واؤ سے مبدل ہوگا جیسے اقتت واؤ ر میں ہے جو کہ اصل میں وقتت وادور ہے - بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔
پھر یہ زمین میں دھنسنے کے وقت کہیں گے کہ ہم رسول اکرم اور قرآن حکیم پر ایمان لے آئے تب اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا اب مرنے کے بعد توبہ اور کفر سے رجوع کہاں وقت رہا حالانکہ یہ لوگ دھنسنے سے پہلے تو رسول اکرم اور قرآن کریم کے منکر تھے۔
آیت ٥٢ وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖ وَاَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ ” اور (اُس وقت) وہ کہیں گے کہ اب ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ اور (اُس وقت) کہاں ہوگی ان کی رسائی (ایمان تک) اتنی دور کی جگہ سے “- ” تناوش “ اور ” تناول “ ہم معنی الفاظ ہیں۔ یعنی پالینا ‘ کسی چیز کا پہنچ میں ہونا اور اس تک رسائی ہونا۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ایمان لانے کا فائدہ تو دنیا کی زندگی میں ہے جو انسانوں کے لیے امتحانی عرصہ ہے۔ جب امتحان کی مہلت ختم ہوجائے گی تو ایمان لانے کا موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ چناچہ اس روز کسی کا ایمان لانا اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :73 مراد یہ ہے کہ اس تعلیم پر ایمان لے آئے جو رسول نے دنیا میں پیش کی تھے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :74 یعنی ایمان لانے کی جگہ تو دنیا تھی اور وہاں سے اب یہ بہت دور نکل آئے ہیں ۔ عالم آخرت میں پہنچ جانے کے بعد اب توبہ و ایمان کا موقع کہاں مل سکتا ہے ۔
23: یعنی ایمان لانے کی اصل جگہ دنیا تھی جو اب دور جا چکی، اب یہاں اتنی دور پہنچنے کے بعد وہ ایمان تمہارے ہاتھ نہیں آسکتا جو دنیا ہی میں مطلوب تھا، کیونکہ دیکھنا تو یہی تھا کہ دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو کر تم اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہو، یا بول جاتے ہو؟ اب جبکہ آخرت کا سارا منظر آنکھوں کے سامنے آگیا تو اب ایمان لانا کون سے کمال کی بات ہے جس کی بنا پر تمہیں معاف کیا جائے۔